آزاد خیال لڑکی کا بھیانک انجام - پارٹ 4

 Urdu Story


Sublimegate Urdu Font Stories

 آزاد خیال لڑکی کا بھیانک انجام اردو کہانی - پارٹ 4

جاگیر دار کے بیٹے نے مجھے مشورہ دیا کہ کسی سکول کی نوکری ڈھونڈ لو وہاں آپ کو عزت کی نوکری کے ساتھ رہائش بھی مل سکتی ہے۔ گورنمنٹ سکول میں تو میں نوکری کر نہیں سکتی تھی کیونکہ میرے پاس سند نہیں تھی۔ بارہویں تک کی سند تھی جو گھر میں رہ گئی تھی۔ اسے لانے کا خیال ہی نہیں آیا تھا۔ پرائیویٹ سکول میں ہی ممکن تھا۔ جاگیر دار کے بیٹے نے مجھے ایک سو روپے دے دئیے اور کہا کہ کل نوکری کی تلاش میں چلی جائے۔ اگلے دن میں صبح کا ناشتہ کر کے اور نہا دھو کر خوب اچھی طرح تیار ہو کر سکول کی نوکری ڈھونڈنے چلی گئی۔ مجھے محلوں میں بہت سے سکول نظر آئے۔ بعض پرائمری سکول تھے اور بعض مڈل سکول تھے۔ بہت ہی کم ہائی اسکول بھی تھے۔ لوگوں نے گھروں میں ہی سکول بنا رکھے تھے۔ ایسا بھی دیکھا کہ خاوند مینیجر یا کلرک ہوتا اور بیوی ہیڈ مسٹریس بن گئی تھی۔ ایک وہ سکول تھا جہاں میں پڑھی تھی۔ اس سکول کی خوبصورتی بے مثال تھی۔ وہاں امیروں اور وزیروں کے بچے پڑھتے تھے۔ وہاں بڑے ہی خوبصورت فرنیچر اور فرش پر بڑا ہی خوبصورت پتھر لگا ہوا تھا۔ مگر یہ سکول ایسے تھے کہ بچوں کو زمین پر ٹاٹ بچھا کر بٹھایا گیا تھا۔ ایک کمرے میں سو سو بچے بیٹھے ہوئے تھے۔ کمرے تنگ و تاریک اور گندے تھے۔ غریب والدین اپنے بچوں کو ان سکولوں میں داخل کروانے پر مجبور تھے۔ یہاں ہر کسی کو داخلہ مل جاتا تھا۔

میں ان میں سے ایک سکول میں داخل ہو گئی اور وہاں کی ہیڈ مسٹریس سے ملی اور بتایا کہ نوکری لینے آئی ہوں۔ میں یہ بھی بتایا کہ میں نے تھرڈ ائیر تک پڑھا ہوا ہے۔ مگر اس میڈم نے مجھے صاف انکار کر دیا کہ ہمیں ضرورت نہیں ہے۔ اسی طرح چار سکولوں میں گئی مگر سب نے صاف انکار کر دیا۔ سارا دن اسی طرح ضائع ہو گیا اور شام ہو گئی۔ میں گلی کوچوں سے ہوتی ہوئی سڑک پر آ گئی۔ بس سٹاپ پر ٹیکس یا رکشہ کا انتظار کرنے لگی۔ ایک موٹر سائیکل میرے بالکل قریب آ کر آہستہ ہو گئی۔ اس پر دو لڑکے سوار تھے۔ میں نے غور سے دیکھا تو آگے میرا چھوٹا بھائی تھا اور پیچھے اس کا دوست بیٹھا ہوا تھا۔ دونوں نے مجھے دیکھا اور آگے چلے گئے۔ میرا نقاب نیچے تھا اس لئے مجھے پہچان نہیں سکے۔ تھوڑا آگے جا کر موٹر سائیکل رک گئی۔ پیچھے بیٹھا ہوا لڑکا اتر گیا اور میرا بھائی موٹر سائیکل لے کر واپس آ گیا۔ مجھے شک ہوا کہ میرے بھائی نے مجھے پہچان لیا ہے اس لئے واپس آ گیا ہے۔ میں چل پڑی۔ میرا بھائی موٹر میرے قریب لا کر آہستہ سے بولا۔ "آؤ چھوڑ آتا ہوں۔" میں سمجھ گئی کہ اس نے مجھے پہچانا نہیں ہے۔

 اور یہ بھی سمجھ گئی کہ وہ شکار ڈھونڈ رہا ہے۔ میں چپ رہی اور کوئی جواب نہیں دیا اور ایسا تاثر دیا کہ میں شریف لڑکی ہوں۔ جیسی لڑکی آپ سمجھ رہے ہو ویسی نہیں ہوں۔ مگر وہ برابر پیچھے آتا رہا اور کچھ نہ کچھ کہتا رہا۔ پہلے جی میں آیا کہ اسے گالیاں نکال کر بھگا دوں مگر میری پوزیشن کمزور تھی۔ میں رک گئی۔ وہ میرے قریب آ گیا تو دھیمی سی آواز میں کہا۔ "تم ابھی بچے ہو۔ اتنی سی عمر میں کس چکر میں پڑ گئے ہو؟"

"میں بچہ ہوں؟" اس نے بڑے تکبر سے کہا۔ "تمہیں مطمئن کر دوں گا۔ آپ کی سوچ سے زیادہ جوان ہو گیا ہوں۔" یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی قمیض اوپر اٹھا دی اور اس کی شرمگاہ شلوار کے اندر سے صاف نظر آرہی تھی۔ اس نے پھر کہا۔ " آؤ ہوٹل میں چلتے ہیں۔ کمرہ مل جائے گا۔ تمہارے ہاتھ کتنے خوبصورت ہیں۔ تم میری ہی عمر کی لگتی ہو۔"

مجھے ہچکی سی آ گئی جسے میں نے ہونٹوں سے جکڑ لیا۔ کیوں کہ یہ میرا بھائی تھا۔ اتنا پیارا بھائی تھا۔ میں اسے گلے لگانے کے لئے بے قابو ہوئی جا رہی تھی۔ ایک سیکنڈ کے لئے میرا دماغ اگست 1947ء میں چلا گیا جب میرا یہ بھائی بارہ سال کی عمر کا تھا اور پیدل چل کر پاکستان آیا تھا۔ اسی عمر میں بھوک اور پیاس برداشت کی تھی۔ یہ بھائی رویا نہیں تھا۔ میں روتی تھی تو مجھے بہلاتا تھا اور کہتا تھا کہ ہم پاکستان پہنچ کر بہت سکون میں ہوں گے۔ پاکستان جنت جیسی زمین ہو گی۔ ہمیں پاکستان میں بہت خوبصورت گھر ملے گا۔ ایسی خوبصورت باتوں سے مجھے بہلاتا تھا مگر پاکستان ہم دونوں بہن بھائی کتنے غلیظ ہو گئے تھے۔ بہن بھی آوارہ اور بھائی بھی آوارہ۔ بھائی اپنی ہی بہن کو ہوٹل کے کمرے میں اپنی جنسی ہوس پوری کرنے کے لئے لے جانا چاہتا ہے۔ اسے تو پاکستان کا محافظ اور وارث بننا تھا مگر وہ کیا بن گیا تھا۔ میرے آنسو نکل آئے۔ وہ پھر بولا۔ "سوچتی کیا ہو؟ آؤ چلیں۔ منہ مانگے پیسے دوں گا۔ ہم دو لڑکے ہیں۔ شراب بھی پلاؤں گا اور کھانا بھی کھائیں گے۔ بہت مزہ آئے گا۔"

میرا دل حلق کو آ گیا تھا۔ میں کچھ بھی نہ بول سکی۔ میں خاموشی سے آگے چل پڑی۔ وہ مجھے بلاتا رہا۔ ایک رکشہ آیا اور میں نے اسے اشارہ کیا۔ رکشہ رک گیا۔ میں رکشہ میں سوار ہو گئی۔ کوٹھی میں جا کر اپنے کمرے میں چلی گئی اور بہت دیر تک روتی رہی۔ میرا بھائی میری آنکھوں سے جا ہی نہیں رہا تھا۔ مجھے اپنے گھر کی یاد تڑپانے لگی۔ مجھے اپنا باپ اور ماں بھی بہت یاد آئی۔ میرے دل میں خیال آیا کہ گھر واپس چلی جاؤں اور اپنے والد کے پاؤں پکڑ کر معافی مانگ لوں۔ اسے کہوں مجھے بخش دے۔ مجھے سینے سے لگا لو۔ مجھے اسی طرح کندھوں پر اٹھا لو جس طرح ہندوستان سے پاکستان آتے ہوئے اٹھایا تھا۔ مگر میں نے اپنے ارادے کو کچل دیا۔ مجھے اپنے باپ کی وہ گالیاں یاد آ گئی جو انہوں نے مجھے طلاق کے وقت دی تھیں۔ مجھے اپنے والد کی وہ نظریں بھی یاد آ گئیں جو نفرت اور حقارت سے بھری ہوئی تھیں۔ ایک سال کی غیر حاضری کے بعد وہ مجھے گھر میں رکھنا پسند نہیں کریں گے۔ میرا دماغ اتنا خراب ہوا کہ میں نے زور زور سے کہنا شروع کر دیا۔ "میں کسی کی بیٹی نہیں۔۔۔۔ میں کسی کی بیٹی نہیں۔۔۔۔ میں کسی کی بیٹی نہیں۔۔۔" ایک بار پھر زور زور سے رونے لگی۔

اگلے دن میں دوبارا نوکری کی تلاش میں شہر کی طرف نکل گئی۔ پہلے ایک سکول گئی تو وہاں بھی ان کو ضرورت نہیں تھی۔ پھر دوسرے سکول گئی اس میں ایک ادھیڑ عمر ہیڈ مسٹریس نے مجھے بٹھا لیا۔ منجھی ہوئی عورت معلوم ہوتی تھی۔ یہ سکول آٹھویں جماعت تک تھا۔ یہ صرف لڑکیوں کا سکول تھا۔ ایک پرانی حویلی تھی۔ جسکی لکی دو منزلیں تھیں۔ نیچے سکول تھا۔ بالائی منزل میں ہیڈ مسٹریس رہتی تھی۔ وہ بیوہ تھی۔ اس سکول کا مالک بھی اسی عمر کا آدمی تھا۔ وہ ایک یونین کونسل کا چیرمین بھی تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ایوب خان پاکستان کا صدر تھا۔ اس دور میں چیرمین بھی اپنے علاقے کا بادشاہ ہوا کرتا تھا۔ وہ قانون کو اپنی مرضی سے چلاتا تھا۔ کوئی بھی اس کے خلاف نہیں بول سکتا تھا۔

جب میں کلاس میں گئی تو حویلی کے ایک بوسیدہ اور بدبودار کمرے میں بچیاں اس طرح ایک دوسرے کے ساتھ جُڑ کر بیٹھی ہوئی تھیں جیسے کسی بکس میں سامان ٹھونسا ہوا ہوتا ہے۔ شوروغل ناقابل برداشت تھا۔ یہ ان سکولوں میں سے ایک تھا جن سے مجھے نفرت ہوا کرتی تھی۔ ادھیڑ عمر ہیڈ مسٹریس نے مجھے بٹھا لیا اور مجھ سے ذاتی سوال پوچھنا شروع کر دئیے جس کے میں نے جھوٹے جواب دئیے۔ اس کی باتوں اور انداز سے پتہ چل رہا تھا کہ اس نے مجھے نوکری کے لئے صرف منتخب ہی نہیں کیا بلکہ پسند کر لیا ہے۔ اسے اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ میں کون ہوں، کہاں رہتی ہوں وغیرہ۔ اس نے کہا۔ "چوہدری صاحب آنے والے ہیں۔ تمہاری تنخواہ وہی مقرر کریں گے۔" پھر اس نے چوہدری کی تعریفیں شروع کر دیں جیسے وہ فرشتہ ہوں۔

تھوڑی دیر بعد چوہدری صاحب بھی آ گئے۔ ہیڈ مسٹریس نے میرا تعارف کرایا۔ چوہدری صاحب نے مجھے سر سے پاؤں تک دیکھا اور حاکمانہ لہجے میں کہا۔ "میں بچوں کی تعلیم و تربیت کے معاملے میں بہت سخت ہوں۔ والدین اپنی بچیوں کو اس امید پر ہمارے پاس بھیجتے ہیں کہ ہم ان کے روشن مستقبل کی بنیاد رکھیں گے۔ ان کے کردار کا ڈھانچہ صاف ستھرا اور مضبوط بنائیں گے۔ تمہیں یہ زمہ داری دیانتداری سے نبھانی ہو گی۔ میں تمہیں دو سو روپے ماہوار دوں گا۔ پانچویں جماعت کی انگریزی اور ریاضی لے لو۔ تین مہینے تمہارا کام دیکھوں گا۔ اگر میڈم تمہارے کام سے مطمئن ہوئی تو تمہیں مستقل کر دوں گا۔ ہو سکتا ہے تمہاری تنخواہ بھی بڑھا دوں۔"

مجھے اس کی یہ سب باتیں بہت اچھی لگی۔ میں خود بھی بچیوں کی تربیت کا ڈھانچہ صاف ستھرا اور مضبوط بنانا چاہتی تھی۔ میں نے سوچا کہ یہ ہی میری منزل ہے۔ میں نے دو سو روپے تنخواہ قبول کر لی۔ مجھے میری کلاس دکھا دی گئی۔ مجھے کلاس میں جا کر پتہ چلا کہ پہلی استانی نوکری چھوڑ کر چلی گئی ہے۔ میں نے اس روز ہیڈ مسٹریس سے ضروری ہدایات لیں۔ پانچویں جماعت کی انگریزی اور ریاضی کی کتابیں دیکھیں۔ تمام استانیوں سے ملاقات کی۔ میں غور کیا کہ تمام استانیاں جوان اور خوبصورت ہیں۔ کیونکہ اس قسم کے دوسرے سکولوں میں ایسی استانیاں نہیں دیکھی تھیں۔ باقی سکولوں میں تو ایسی استانیاں تھیں جو شکل سے کسی چپڑاسی کی بیویاں ہوں۔ دوسری خوبی یہ تھی کہ سب شگفتہ مزاج تھیں۔ پہلی ملاقات میں ہی ہنسی مذاق شروع کر دیا۔ ایک نے کہا۔ "چوہدری صاحب بڑے اچھے آدمی ہیں۔ جلدی تمہاری تنخواہ بڑھا دیں گے۔" پھر ایک اور استانی بولی۔ "اتنے اچھے تمہارے بال ہیں اور اتنی مستانی آنکھیں ہیں تو کیوں نہ چوہدری تمہاری تنخواہ بڑھائیں گے بھلا۔" سب نے زور سے قہقہہ لگایا۔ میں بھی ہنس پڑی۔ میں ایک لمبی مدت کے بعد صحیح طرح ہنسی تھی۔ میرے تنے ہوئے اعصاب کو کچھ سکون ملا۔ ایسے سکون کے لئے میں ترس گئی تھی۔ میری زندہ دلی بیدار ہو گئی۔ کافی دیر تک ہم میں ہنسی مذاق ہوتا رہا۔ میں اس وجہ سے بھی خوش تھی کہ مجھے ملازمت مل گئی تھی۔ صرف رہائش کا مسئلہ رہ گیا تھا مگر وہ بھی مجھے حل ہوتا نظر آ رہا تھا۔ ہیڈ مسٹریس بالائی منزل پر اکیلی رہتی تھی۔ میں نے سوچ لیا کہ ہیڈ مسٹریس سے کہوں گی مجھے بھی ساتھ رکھ لے۔

جب چھٹی ہو گئی اور ساری استانیاں بھی روانہ ہو گئی مگر ایک استانی رک گئی جس نے میرے بالوں اور آنکھوں کی تعریف کی تھی۔ اس نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔ "مجھے اپنے گھر لے چلو یا خود میرے گھر آ جاؤ۔ کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں۔" میں اس کی سنجیدگی سے ٹھٹھکی اور اس کے گھر چلے گئے۔ وہ شادی شدہ تھی مگر اپنے گھر جانے کی بجائے اپنے ماں باپ کے گھر چلی گئی اور مجھے بھی ساتھ لے گئی۔ کھانا کھلایا اور مجھ سے پوچھا کہ میں شادی شدہ ہوں یا نہیں؟ کیا مجبور ہو کر نوکری کر رہی ہو؟ میں نے اسے بتایا کہ میں شادی شدہ نہیں ہوں اور مجبور ہو کر نوکری کر رہی ہوں۔

"اگر مجبور ہو کر نوکری کر رہی ہو تو کرتی رہو۔" اس نے کہا۔ "اگر اپنے ماں باپ کی شرافت اور اپنی عزت عزیز ہے تو یہاں نوکری نہیں کر سکو گی. چند دنوں بعد تمہیں سکول سے مایوس ہو کر جانا پڑے گا۔ اس سے بہتر ہے کل ہی سکول نہ جاؤ۔"
میں اس کی بات سے ہی مایوسی ہو گئی تھی۔ وہ میری عمر کی ہی لڑکی تھی۔ اس نے کہا۔ "اگر میری باتیں تمہیں بُری لگی ہیں یا میری باتوں سے کوئی شک ہے تو چند دن نوکری کر کے دیکھ لو۔ پھر تمہیں میری باتوں کی سچائی کا علم ہو جائے گا۔"
"تم بات کرو" میں نے کہا۔

"چوہدری نے تمہاری کوئی بھی سند دیکھ کر تمہیں نوکری نہیں دی۔" اس نے کہا۔ "تمہاری تعلیم دیکھ کر تمہیں پانچویں کلاس نہیں دی بلکہ تمہارے پاس جو سرٹیفکیٹ ہے وہ صرف حسن اور جوانی ہے۔ چوہدری جس بھی استانی کو رکھتا ہے صرف یہ ہی وصف دیکھ کر رکھتا ہے۔ تم سے پہلے جو استانی نکالی تھی اس کا صرف یہ ہی قصور تھا کہ وہ چوہدری کی تفریح کا ذریعہ نہیں بنی۔ کوئی بھی استانی چوہدری کی ہوس کاری سے محفوظ نہیں۔"

"اور تم؟" میں نے بلا جھجک پوچھا۔ "کیا تم بھی محفوظ نہیں؟"
"نہیں" اس نے کہا۔ "لیکن اس میں چوہدری کا کمال نہیں کہ اس نے مجھے رام کر لیا ہو بلکہ میں خود ہی ایسی ہوں۔ آپ مجھے آوارہ کہہ سکتی ہو۔ عیاش کہہ لو۔ میں سب کچھ ہوں۔ میں کوئی شریف لڑکی نہیں ہوں۔ تم شاید حیران ہو رہی ہو گی کہ میں نے پہلی ملاقات میں ہی ایسی باتیں بتانا شروع کر دیں۔ تمہیں کنواری سمجھ کر میں نے اپنا فرض سمجھا کہ تمہیں اس خطرے سے آگاہ کر دوں۔ تم اتنی بھولی بھالی اور معصوم لڑکی ہو کہ میرا دل نہیں کرتا تمہیں ایک عیاش چوہدری ناپاک کر دے۔"
اس نے جب مجھے معصوم اور بھولی بھالی لڑکی کہا تو میرے دل سے ہوک اٹھی۔ دل درد سے تڑپ اٹھا مگر چپ رہی۔ میں چپ چاپ اس کی باتیں سنتی رہی۔ وہ کہہ رہی تھی۔ "میری آب بیتی سنو گی تو جان جاؤ گی کہ میں اپنی کرتوت سے پردے کیوں اٹھا رہی ہوں۔ سکول کی باتیں بعد میں سناؤں گی پہلے میری سن لو۔ میرے ماں باپ نے میری شادی ایک ایسے نوجوان سے کروا دی جو ذہنی لحاظ سے معذور تھا۔ تم اسے پاگل کہہ سکتی ہو۔ میرا باپ کاروباری آدمی ہے۔ میرا جہیز اور زیورات چالیس ہزار مالیت کے ہیں۔
 لیکن اس حقیقت کو بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ چالیس ہزار روپے میرے ماں باپ کو میرے سسرال والوں نے دئیے ہیں۔ وہ دولت مند لوگ تھے۔ ان کا بیٹا پیدائشی طور پر پگلا تھا مگر ظاہری طور پر پاگل نہیں لگتا تھا۔ ہنستا رہتا تھا اور بچوں کی طرح حرکتیں کرتا رہتا تھا۔ مجھے بالکل علم نہیں تھا کہ وہ ایسا ہے۔ یہ بعد میں پتہ چلا کہ اس کے گھر والوں نے کئی گھروں سے رشتہ مانگا تھا ہر گھر سے انکار ہوا۔ ایک گھر سے تو طعنے بھی سننے کو ملے۔ اس پاگل لڑکے کے باپ نے انا کا مسئلہ بنا لیا اور کہا کہ ایک ماہ کے اندر اندر اپنے بیٹے کی شادی کر کے دکھائے گا۔
میں کوئی ایسی سیدھی سادی اور گھٹن کی ماری لڑکی نہیں تھی جیسی گھروں کی قید لڑکیاں ہوتی ہیں۔ میں ہنسوڑ اور کھلنڈری تھی۔ لا پرواہ اور شرارتی بھی تھی مگر کسی غیر مرد یا بدمعاش کا کبھی خیال بھی ذہن میں نہیں آیا تھا۔ البتہ والدین کی مالی حالت دیکھ کر مجھے بہت افسوس ہوتا تھا۔ انہیں میری جوانی کھائے جا رہی تھی۔ میری چلبلی عادتیں دیکھ کر مجھے جلدی بیاہ دینا چاہتے تھے مگر ان کے پاس جہیز کا سامان دینے کے پیسے نہیں تھے۔ ایک دن اچانک مجھے بتایا گیا کہ پندرہ دن بعد میری شادی ہے۔ میری ماں نے میرے ہونے والے دلہے کے متعلق مجھے ایسی باتیں بتائیں کہ میں اپنی قسمت پر ناز کرنے لگی۔

 میری ماں نے مجھے بتایا کہ تمہارا دولہا بھی تمہاری طرح ہنسنے کھیلنے والا ہے تو مجھے بہت خوشی ہوئی۔ میرے پوچھنے پر بھی میرے والدین نے مجھے نہیں بتایا کہ اتنی زیادہ دولت کہاں سے آئی ہے۔ اتنا زیور، قیمتی کپڑے اور جہیز کا سامان کہاں سے آ رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ میرے ماں باپ نے قرض لیا ہو گا۔ بارات والے دن پتہ چلا کہ پانچ سو لوگوں کی بارات آ رہی ہے تو میں بہت حیران ہوئی۔ بڑی شان و شوکت سے میری شادی ہوئی اور ڈولی میں بٹھا کر مجھے لے جایا گیا۔ میں دلہنوں کی طرح گھونگھٹ میں چھپی بیٹھی تھی کہ مجھے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ یہ ایک انسان نہیں بلکہ دو تین آدمیوں کے قدموں کی آوازیں تھیں۔ مجھے سرگوشیاں بھی سنائی دیں۔ پھر تیز تیز قدموں کی آواز سنائی دی۔ اس کے بعد مجھے دروازہ بند ہونے کی آواز سنائی دی۔ پھر زور کا قہقہہ سنائی دیا۔ پھر بڑی زور کی آواز سنائی دی۔ "بےبے اے کی اے۔۔۔۔۔۔" یہ میرے دولہا کی آواز تھی جو اپنی ماں کو بلا رہا تھا۔ اس نے جا کر اپنی ماں کو پکارا۔ پھر تھپڑ بھی مارے۔ بےبے۔ ۔۔ بےبے۔۔۔۔ پکارا۔

 پھر وہ میرے قریب آیا اور مجھے زور سے دھکا دیا۔ میں پلنگ پر لڑھک گئی۔ وہ ہنسا۔ میں نے گھونگھٹ اٹھا لیا۔ وہ اچھا خاصا خوبرو نوجوان تھا۔ پھر میں کیا بتاؤں کہ اس نے کیسی کیسی حرکتیں کیں۔ کبھی ہنسنے لگ جاتا۔ کبھی میرے سینڈل اٹھا کر اوپر پھینکتا اور پکڑتا۔ مجھے یاد آیا کہ ہمارے گھر میں اور محلے میں ایک پاگل لڑکے کا ذکر ہوتا تھا۔ میں نے یہ بھی سنا تھا کہ اس کے والدین اسکی شادی کرنا چاہتے ہیں مگر کوئی رشتہ نہیں دیتا۔ میں سمجھ گئی کہ یہ وہی پاگل ہے۔ پھر میں نے اپنے اوپر جبر کیا اور سوچا کہ اسے سدھارنے کی کوشش کروں گا۔ ہو سکتا ہے میری قسمت سنور جائے اور یہ شادی راس آ جائے۔ میں نے اسے پاس بٹھایا اور پیار سے سمجھانا شروع کیا۔ مگر وہ قہقہہ لگاتے ہوئے ہاتھ اوپر بڑھاتا اور کوئی چیز پکڑنے کی کوشش کرتا۔ میں اسے بار بار شادی کی طرف لاتی اور اسے ابھارنے کی کوشش کرتی مگر اس کی کوئی بھی حس بیدار نہیں تھی۔ میری باقی رات روتے گزر گئی۔ میرا شوہر دوسری طرف پلنگ پر سویا رہا۔۔۔۔

 صبح ہوئی اور میری ساس اور نندیں میرے کمرے میں آ گئیں۔ مجھ سے پوچھنے لگیں کہ رات کیسی گزری۔ میں رو پڑی۔ میں نے انہیں بتایا کہ تم لوگوں نے میرے ساتھ کتنا بڑا دھوکا دیا ہے۔ پھر میں نے اس کی ذہنی کیفیت درست کرنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہی۔ اسے تو اتنا بھی احساس نہیں تھا کہ وہ مرد ہے اور میں عورت ہوں۔ میری ساس میرے آگے ہاتھ جوڑ کر منتیں کرنے لگی کہ وہ ٹھیک ہو جائے گا۔ اسے ٹھہراؤ مت۔ میں نے اپنے گھر آ کر بھی اپنے ماں باپ کو ٹھیک ٹھاک باتیں سنائی۔ صرف گالیاں نہیں دیں باقی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ میری ماں نے مجھے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ ہم آپ کو جہیز کا سامان نہیں دے سکتے تھے۔ آپ کے سسرال والوں نے جہیز اور روٹی کا خرچہ اٹھا لیا تو ہم نے ان کا پاگل بیٹا بھی قبول کر لیا۔ میرے ماں باپ تو فرض سے فارغ ہو گئے مگر میری زندگی جہنم بن گئی۔ میں نے اپنے خاوند کو ٹھیک کرنے کے لئے بہت جتن کئے مگر یہ اس کا کوئی پیدائشی نقص تھا جو ٹھیک نہیں ہو سکا۔ 

اس کے جسم کا اس کے سوا کوئی فائدہ نہیں تھا کہ وہ کھاتا پیتا اور سوتا تھا یا بچوں کی طرح کھیلنے لگ جاتا تھا۔ وہ چارپائی پر بیٹھا ہوا پکڑنے کی کوشش کرتا رہتا تھا۔ میرے والدین بھی مجرم تھے اور میرے سسرال والے بھی مجرم تھے اس لئے کوئی بھی میرے آگے نہیں بولتا تھا۔ میں نے سسرال والوں کو یہ بھی دھمکی دی کہ میں عدالت چلی جاؤں گی اور مقدمہ دائر کر دوں گی کہ مجھ سے دھوکا سے نکاح کروایا گیا ہے۔ میں نے میٹرک کی ہوئی تھی۔ میرا گھر دل نہیں لگتا تھا۔ میں باہر کی کوئی مصروفیت چاہتی تھی۔ اس لئے سکول کی نوکری شروع کر دی۔ یہاں مجھے چوہدری مل گیا۔ یہ زندہ دل آدمی تھا اور عیاش بھی۔ اس نے میرے ساتھ بے تکلفی پیدا کی تو میں بھی فری ہو گئی۔ مجھے ایک مرد کی کمی محسوس ہو رہی تھی۔ جو پوری ہوتی نظر آنے لگی۔"

وہ بولتی جا رہی تھی۔ اگر میں کوئی بات پوچھ لیتی تو وہ اس کی وضاحت کر دیتی۔ میں اس کے جذبات کو بڑی اچھی طرح سمجھ رہی تھی بلکہ محسوس کر رہی تھی۔ وہ جوان لڑکی تھی اور خوبصورت بھی تھی۔ اس کے اندر جو آگ لگی ہوئی تھی وہ ایک عورت کے سوا کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ اس نے اتنے بڑے حادثے کو جس نے اس کی زندگی کو تباہ کر دیا تھا، ہنسی مذاق شوخیوں اور عیاشی کے بل بوتے پر برداشت کر لیا تھا۔ آپ کی نگاہ میں مجرم یہ ہی لڑکی ہو گی یا سکول کا وہ چوہدری ہو گا لیکن ایسی لڑکیوں کو اور ایسے چوہدری کو جنم کون دیتا ہے اس سوال کا جواب مجھے نہ دیں بلکہ خود کو دیں۔ اگر میں علم نفسیات کی ڈاکٹر ہوتی تو اس سوال کا تجزیہ پیش کرتی۔
اس لڑکی نے بتایا۔ "میں نے سکول کی ملازمت صرف وقت گزارنے کے لئے کی تھی لیکن مجھے وہ مسرت بھی مل گئی جس سے میں محروم ہو گئی تھی۔ چوہدری نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تو میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ میں اس کی توقع کے خلاف اس کے ساتھ فوراً بے تکلف ہو گئی۔ ایک دن وہ مجھے کلاس سے بلا کر بالائی منزل پر لے گیا۔ اس نے مجھے چھیڑنا شروع کر دیا۔ میں نے کوئی مزاحمت نہ کی۔ میں تو اس چھیڑ خانی کو ترسی ہوئی تھی۔ چوہدری نے مجھے اپنے ساتھ لگا کر میرا ماتھا چوما اور پھر آہستہ آہستہ میرے ہونٹوں پر آ گیا۔ میرے ہونٹوں کو چوسنے کے دوران اس نے میری قمیض اتار دی پھر میری ۔۔۔۔۔۔۔۔ کو چوسنے لگا۔ اس طرح کرتے ہوئے اس نے میرے ساتھ مکمل۔۔۔۔۔۔۔ کر لیا۔ میں نے زندگی میں پہلی بار ۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا تھا۔ مجھے پہلی بار محسوس ہوا کہ مرد کے لمس میں کیسا سرور ہوتا ہے۔ اس نے مجھے وہ سرود دیا جو مجھ سے چھین لیا گیا تھا۔ میرے ماں باپ نے مجھے صرف چالیس پچاس ہزار کے عوض ایک پاگل لڑکے کو بیچ دیا تھا۔ میری اور چوہدری کی دوستی اب پکی ہو گئی تھی۔ اب ہم ہر دوسرے یا تیسرے دن ۔۔۔۔۔۔۔ کرنے کے لئے بالائی منزل پر چلے جاتے تھے۔ ایک بار میں چوہدری کے ساتھ مری چلی گئی۔ گھر والوں کو بتایا کہ سکول کی ساری استانیاں جا رہی ہیں۔ میں اور چوہدری آٹھ دن تک مری میں رہے۔ مجھے چوہدری کے ساتھ مری جانے سے بھی کسی نے نہیں روکا تھا۔ مجھے کوئی روک بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ وہ سب میرے ماتحت ہو چکے تھے۔ اگر وہ مجھے روکتے تو میں ان کے خلاف عدالت چلی جاتی اور طلاق لے لیتی کیوں کہ انہوں نے میرے ساتھ دھوکا کیا تھا اور ایک پاگل لڑکے سے میری شادی کر دی تھی۔"

مجھے اب اس لڑکی کے متعلق معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہو گی اور کیسی زندگی گزار رہی ہو گی۔ اس لڑکی نے مزید یہ بھی بتایا۔ "سکول کی ساری استانیاں چوہدری کے ساتھ۔۔۔۔۔۔ کرتی ہیں۔ ان استانیوں کو تنخواہ کے علاوہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ کرنے کا معاوضہ الگ ملتا ہے۔ اگر کوئی استانی ۔۔۔۔۔۔۔ سے انکار کر دے تو چوہدری اسے سکول سے نکال دیتا ہے۔ ہیڈ مسٹریس کو بھی اس نے اسی کام کے لئے رکھا ہوا ہے کہ وہ خوبصورت لڑکیاں ڈھونڈ کر چوہدری کو دیتی ہے۔ ہیڈ مسٹریس چونکہ بیوہ تھی اور اس کا اپنا کوئی گھر نہیں تھا۔ چوہدری نے اسے اس شرط پر ہیڈ مسٹریس رکھا اور گھر دیا کہ وہ چوہدری کو جوان اور خوبصورت لڑکیاں ڈھونڈ کر دے گی۔ ہر استانی اوپر سے خوش ہے مگر اندر سے پھٹی ہوئی ہے۔ ان سب لڑکیوں کی کوئی نہ کوئی مجبوری ہے۔ کسی کا خاوند اسے پیسے نہیں دیتا۔ کسی کا باپ بوڑھا ہے۔ کسی کو طلاق ہوئی ہے۔"

میں نے پوچھا کہ چوہدری اتنے پیسے کہاں سے لیتا ہے؟ اس نے بتایا کہ چوہدری چیرمین ہے۔ گورنمنٹ کی طرف سے جو بھی فنڈ ملتا ہے وہ سارا اپنی عیاشی پر خرچ کرتا ہے۔ عوام پر کچھ خرچ نہیں کرتا۔
اس لڑکی کی ساری داستان سننے کے باوجود بھی میں نے اس سکول میں نوکری کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ میں نے سوچا کہ ساری استانیوں کو متحد کر کے چوہدری کے خلاف کروں گی مگر یہ میرا صرف وہم تھا۔ میں نے اس سکول میں تقریباً ایک ماہ نوکری کی۔ پڑھانے میں تو مجھے بہت سکون ملتا تھا مگر اس نوکری نے میرا عزم تباہ کر دیا تھا۔ میں تمام استانیوں کو چوہدری کے خلاف کرنے کی کوشش کرتی رہی مگر وہ الٹا میرے ہی خلاف ہو گئیں۔ انہوں نے مجھ پر یہ الزام لگا دیا کہ میں چوہدری کی اکیلی مالک بننا چاہتی ہوں۔

اس دوران چوہدری باقاعدگی سے سکول آتا رہتا اور مجھے ہیڈ مسٹریس کے دفتر میں بلا لیتا تھا۔ ہیڈ مسٹریس خود ہی باہر نکل جاتی تھی۔ وہ بچوں کی پڑھائی سے بات شروع کرتا اور ذاتی باتوں تک آ جاتا۔ میں اس کے اشاروں کو سمجھ جاتی تھی۔ ایک دن چوہدری نے کہا۔ "آؤ اوپر چلیں۔" میں نے کہا۔ "جو کہنا ہے یہیں کہیں۔ میں اوپر نہیں جا سکتی۔" چوہدری نے مجھے پھانسنے کی بہت کوشش کی۔ کبھی تنخواہ بڑھانے کا لالچ دیتا کبھی مری کی سیر کی دعوت دیتا۔ ایک دن میں اس پر برس پڑی اور جو منہ میں آیا کہہ ڈالا۔ مگر وہ بھی ڈیٹھ تھا پہلے ہنستا رہا پھر مجھے اغواء کرنے کی دھمکی دی۔ میرا مہینہ پورا ہو چکا تھا۔ میں نے مہینے کی تنخواہ لی اور سکول چھوڑ دیا۔

میں نے اس روز بہت سوچا، مکمل سنجیدگی سے سوچا کہ میرا مستقبل کیا ہوگا؟ پہلے میں شکست کے بعد تنہائی میں رویا کرتی تھی مگر آج میں روئی نہیں تھی۔ میں اپنے مستقبل کے متعلق فیصلہ کرنا چاہتی تھی کہ میں کون سا راستہ اختیار کروں؟ گھر واپس جانے کا ارادہ دل سے نکال دیا تھا۔ وہاں میرے لئے صرف دھتکار، اذیت ناک قید اور نفرت کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ شریفانہ راستہ اختیار کیا تو راستے میں چٹانیں آ گئیں۔ پہلے میرے ذہن میں خیال آیا کہ اس ڈائریکٹر کے پاس چلی جاؤں جس نے مجھے سرکاری افسر کو رشوت کے طور پر بھیجنا تھا۔ جب بھی وہ مجھے کسی کے پاس رشوت کے طور پر جانے کا کہے تو انکار نہ کروں۔ لوگوں کی تفریح کا ذریعہ بنی رہوں اور پیسہ کماؤں۔ شرط یہ پیش کروں کہ میری رہائش کا تسلی بخش انتظام کر دے۔ مجھے نظر آنے لگا تھا کہ اب میں شریف بن کر نہیں رہ سکتی۔ میں پہلے بھی کونسا شریف تھی۔ یہ گناہ کوئی چھوٹا تھا کہ ایک حرام کا بچہ پیدا کیا اوپر سے اسے عیسائیوں کے حوالے کر آئی تھی جو اسے پتہ نہیں کیسی تربیت دے رہے ہوں گے۔ وہ میرا بیٹا پتہ نہیں اسلام کو کتنا نقصان پہنچائے گا۔ لیکن اب میرا ضمیر جاگ اٹھا تھا۔ یہ میری ایسی مجبوری بن گئی تھی کہ میں بھٹک نہیں سکتی تھی۔ اگر میرے اندر سے روشنی نہ پھوٹتی تو میرے لئے مسئلہ ہی نہیں تھا۔

میں نے اپنے محسن جاگیر دار کے بیٹے کے سامنے یہ سارا مسئلہ رکھا اور کہا کہ ہر ایک مرد ہوس کار ہے تو میرا کیا بنے گا؟ کیا مجھے اپنے ماں باپ کے پاس واپس چلی جانا چاہیے یا ایک مہذب طوائف بن جانا چاہیے؟ میں نے اسے اپنے بھائی کی کرتوت بھی سنائی۔

"اس میں مردوں کا کوئی قصور نہیں۔" اس نے کہا۔ "تم میں کشش ہی ایسی ہے کہ تم جس بھی مرد کے سامنے جاتی ہو وہ بے قابو ہو جاتا ہے۔ اور مجبور اور بے سہارا لڑکی اگر بد صورت بھی ہو تو اس مرد کو خوبصورت ہی دکھائی دیتی ہے جس کے سامنے وہ مدد کے لئے ہاتھ پھیلاتی ہے۔ اس قباحت کا ہمارے ملک میں کوئی علاج نہیں ہے۔"

اس نے مجھے مشورہ دیا کہ اب آپ گھر واپس نہ جاؤ کیونکہ اب گھر اور محلے والوں کی نظر میں آپ کے لئے ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ معاشرے میں اچھے لوگ بھی موجود ہیں آپ مزید قسمت آزمائی کرو شاید کوئی اچھی نوکری مل جائے۔ اس نے میری حوصلہ افزائی کی تو میں مزید قسمت آزمائی کے لئے تیار ہو گئی۔ میں نے اسے کہا میری اپنے کسی دوست کے ساتھ شادی کرا دے تو اس نے واضح اور صاف الفاظ میں کہا۔ "میں اپنے کسی دوست کو دھوکا نہیں دے سکتا۔ آپ کے ماضی کی ساری باتیں بتانی پڑیں گی۔ یہ سن کر کوئی بھی تم سے شادی نہیں کرے گا۔ اس کے علاوہ میں اپنے کسی دوست کی ضمانت بھی نہیں دے سکتا کہ وہ تمہیں دھوکا نہیں دے گا۔ شادی کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ کسی جگہ نوکری کرو۔ ساتھ ساتھ کوئی لڑکا ڈھونڈتی رہو۔ اگر کوئی لڑکا پسند آ جائے تو اس سے دوستی کر لو۔ کچھ دن اس کے ساتھ گھومو پھرو۔ جب اس کی ذہنیت کا صحیح پتہ چل جائے تو اس کے ساتھ شادی کر لو۔"

چند دنوں بعد جاگیر دار کے بیٹے نے ایک پاکستانی پرائیویٹ کمپنی کا پتہ دیا۔ میں وہاں چلی گئی۔ کمپنی کے مالک سے ملی۔ اس نے کہا۔ "میرے پاس چار لڑکیاں ہیں۔ پانچویں کی جگہ نہیں۔" میں نے یہ جھوٹ بول کر اس کی منت کی کہ میرا باپ مر گیا ہے۔ بہن بھائی سب چھوٹے ہیں۔ کوئی بڑا بھائی نہیں ہے۔ ان کو فاقوں سے بچانے کی نازک ذمہ داری میری ہے۔ میرے آنسو بھی نکل آئے۔ اس نے کچھ سوچ کر بتانے کا کہا۔ اس نے کہا۔ "دیکھو میں یہاں مصروف ہوں۔ رات کو گھر آجانا وہاں تفصیل سے بات ہو گی۔" اس نے اپنی کوٹھی کا پتہ دے دیا۔

میں رات کو اس کی کوٹھی میں چلی گئی۔ وہاں جا کر پتہ چلا کہ وہ کوٹھی میں اکیلا ہی رہتا ہے۔ اس کے بیوی بچے سوات گئے ہوئے ہیں۔ اس کی عمر کوئی پینتیس سال تک ہو گی۔ اس کی باتوں میں ہمدردی اور شگفتگی تھی۔ اس نے مجھے شاہانہ کھانا کھلایا اور اس دوران وہ مجھ سے ذاتی باتیں پوچھتا رہا۔ والد صاحب کی وفات اور چھوٹے بہن بھائیوں کے متعلق بھی پوچھا مگر گھر کا پتہ پوچھا تو میں نے بتانے سے صاف انکار کر دیا۔ وہ ہنس پڑا اور کہا۔ "اگر آپ بُرا نہ منائیں تو ایک بات کہوں؟ مجھے امید ہے آپ گبھرا جاؤ گی۔" میں چپ رہی۔ اس وقت ہم کھانا کھا چکے تھے اور ایک ہی صوفے پر بیٹھے ہوئے تھے۔ میں مردوں کی ذہنیت سے واقف تھی مگر اس کی باتوں میں خلوص کی جھلک دیکھ کر میری کمزوریاں اور بے بسی جاگ اٹھی اور میں اس کے پاس جا بیٹھی۔
اس نے مسکرا کر ایسا سوال پوچھا کہ میرے سامنے کمرہ گھوم گیا۔ اس نے پوچھا۔ "بچہ ضائع کروا دیا تھا یا شادی کر لی تھی؟" میرے چہرے کا رنگ بدل گیا تھا جسے دیکھ کر اس نے میری تھوڑی پکڑ کر کہا۔ "میں نے تمہیں طعنہ نہیں دیا۔ پریشان نہ ہوں میں تمہیں جانتا ہوں۔ میں بھی اس ہوٹل میں کبھی کبھی جایا کرتا تھا۔ صرف دل بہلانے کے لئے۔ تمہارے متعلق ایک دوست نے بتایا تھا کہ تم بہت مہنگی لڑکی ہو۔ لیکن اب تمہارا پاؤں بھاری ہو گیا ہے۔ اس کے بعد تمہیں بہت ڈھونڈا مگر تم نہیں ملی۔ آج تم اچانک میرے سامنے آ گئی تو ٹال مٹول کر کے تمہیں گھر بلانا مناسب سمجھا۔"
گھر بلانا کیوں مناسب سمجھا؟" میں نے پوچھا۔
"تم گبھراؤ نہیں۔" اس نے کہا۔ "تمہیں اپنے دفتر میں بڑی اچھی جگہ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہاں صرف گپ شپ لگانے کے لئے بلایا ہے۔" اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر پوچھا۔ "یہ جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت تھی کہ باپ مر گیا ہے۔ بہن بھائی چھوٹے ہیں۔"

وہ چونکہ میرے ماضی کے متعلق جانتا تھا اس لئے اس سے کچھ بھی چھپانا مناسب نہ سمجھا۔ اسے بتا دیا کہ بچہ ضائع کروا دیا تھا اور اب باعزت زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔ اسے یہ نہیں بتایا کہ کہاں رہتی ہوں۔ میں نے اسے بتایا کہ ابھی شادی نہیں کی تو اس نے مسکرا کر کہا۔ "ابھی شادی کر کے کیا کرو گی۔ کچھ عرصہ اور سیر سپاٹا کر لو۔" اس نے بظاہر تسلیم کر لیا کہ میں گناہوں کی دنیا سے نکل چکی ہوں مگر مجھے گناہ کی طرف مائل کرنے لگا۔ اس نے جو مکالمے بولے اس سے صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ میرے لئے تڑپتا رہا ہے اور میری تلاش میں مارا مارا پھرتا رہا ہے۔ وہ جس پیار سے مجھے گناہ پر اکسا رہا تھا میں اسی پیار سے اسے ٹال رہی تھی اور اس کی منت سماجت کر رہی تھی کہ مجھے قسم توڑنے پر مجبور نہ کرے۔ مگر وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ میں شریف لڑکی نہیں ہوں۔ اس نے پانچ سو روپے ماہوار ملازمت کی پیشکش کی۔ اس نے زبردستی نہیں کی۔ دست درازی نہیں کی۔ اس نے جیب سے سو سو کے دس نوٹ گن کر نکالے اور میرے ہاتھ پر رکھ دئیے۔ اس نے مجھے اپنے بازوؤں میں جکڑ لیا اور اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دئیے۔ میں نے مزاحمت نہ کی۔ اس نے ٹائٹ پینٹ شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ میں نے اسے کہا یہ کپڑے تو تبدیل کر لیں۔ اور بیڈ روم میں چلتے ہیں۔ مرد پر جب جنسی بھوت سوار ہو تو عورت کی حیثیت صرف ایک کھلونے جیسی رہ جاتی ہے۔ وہ جلدی سے اٹھا اور کہا۔ "دو منٹ میں کپڑے بدل کر آتا ہوں۔"

جیسے ہی وہ گیا میں فوراً اٹھی اور کوٹھی کے بڑے گیٹ سے باہر نکل گئی۔ میں ابھی زیادہ دور نہیں گئی تھی کہ وہ بھی کار لے کر میرے تعاقب میں نکل آیا۔ میں ایک طرف ہو کر کوٹھی کے پیچھے چلی گئی۔ اس کی کار سیدھی آگے نکل گئی۔ جب وہ دور چلا گیا تو میں ایک رکشہ پر بیٹھی اور واپس کوٹھی میں آ گئی۔
یہ میری ایک اور شکست تھی۔ میرا ماضی میرے راستے میں حائل ہو گیا تھا۔ میرے دل میں یہ وہم گھر کرنے لگا کہ میرے گناہ آسیب کی طرح میرے مستقبل پر سوار ہوں گے اور میری قسمت میں گناہ آلودہ زندگی لکھ دی گئی ہے۔ میں نے اس رات آئینے میں اپنا چہرہ دیکھا تو مجھے اپنے چہرے سے ہی نفرت ہو گئی۔ مجھے خود پر بہت غصہ آیا۔ میرا دل کیا کہ اپنا چہرہ اپنے ہی ناخنوں سے نوچ ڈالوں۔ کبھی خیال آتا کہ اپنے چہرے پر تیزاب پھینک لوں یا آگ سے تھوڑا سا چہرہ جلا کر بھدا کر لوں۔ مگر سوچا کہ بدصورت چہرے کو نوکری بھی نہیں ملے گی اور خاوند بھی نہیں ملے گا۔ مجھے غصہ آتا تھا اور میں اپنا ہی خون پی لیا کرتی تھی۔

میں کئی بار اس سکول اور کالج کے سامنے سے گزری تھی جہاں میں تعلیم حاصل کرنے گئی تھی مگر گناہوں کی گھٹری ضمیر پر لاد کر گھر سے بے گھر ہو گئی۔ میں نے اس سکول اور کالج کاروں اور موٹر سائیکلوں کا ہجوم دیکھا۔ ان میں وہی شکاری تھے جن کا میں بھی شکار ہوئی تھی۔ یہ رونق پہلے سے زیادہ ہو گئی تھی۔ پاکستان مکمل طور پر آزاد ہو گیا تھا۔ ایک بار میرے دل میں خیال آیا کہ اس سکول کے سامنے رک جاؤں اور لڑکیوں کو چیخ چیخ کر کہوں کہ ان کاروں سے دور رہو۔ ان شہزادوں کی مسکراہٹوں سے دور رہو۔ اس تہذیب کی چمک سے دور رہو۔ مجھے دیکھو اور میرا عبرتناک انجام دیکھو۔ میری بے چین نگاہیں اور خاموش چیخیں کسی لڑکی کو نہیں روک سکتی تھی۔ میں ان لڑکیوں کو کاروں میں لفٹ لیتے دیکھتی رہی۔ میں نے شام کے وقت اپنے قریب سے گزرتی کاروں میں لڑکیوں کے قہقہے بھی سنے۔

جب کوٹھی سے فرار ہوئی تو پانچ چھے دن تک سوچتی رہی کہ میں کیا کروں؟ میرے ذہن میں صرف ایک ہی سوچ آتی تھی کہ خود کو بیچ دوں۔ میری حیثیت طوفان میں تنکے کی سی ہو گئی تھی۔ میں جاگیر دار کے بیٹے کے پاس کوٹھی میں بھی زیادہ عرصہ تک نہیں رہ سکتی تھی۔ آخر حد ہوتی ہے۔ مجھے ایک سال اور آٹھ مہینے ہو چکے تھے۔ مجھے محسوس ہوا کہ وہ مجھ سے اکتا نے لگے ہیں۔ اب تو مجھے جلدی ٹھکانہ ڈھونڈنا تھا۔ میں نے سوچا کہ کسی لڑکے کو پھانس کر شادی کر لیتی ہوں۔ اگر ایسا نہ کر سکی تو خود کشی کر لوں گی اور اس جہنم سے آزادی حاصل کر لوں گی۔

میں نوکری ڈھونڈتے ڈھونڈتے دوائیاں بنانے والی ایک غیر ملکی فیکٹری میں چلی گئی۔ اس کا مینیجر پاکستانی تھا۔ وہاں مجھے نوکری تو مل گئی مگر وہاں سے بھی درج نکلنا پڑا۔ میں نے وہاں سولہ دن نوکری کی۔ وہاں دو جوان لڑکیاں اور ایک ادھیڑ عمر عورت ملازم تھیں۔ تینوں واجبی سی شکل وصورت کی تھیں۔ مینیجر مجھ پر زیادہ ہی مہربان ہو گیا تھا۔ میرا کام کچھ اور تھا مگر وہ بار بار مجھے اپنے دفتر میں بلا لیتا تھا۔ بٹھا لیتا اور ہمدردی کا اظہار کرتا رہتا۔ میں نے بے تکلفی سے بہت گریز کیا۔ وہ بھی آخر انہی باتوں پر آ گیا جو میرے لئے نئی نہیں تھیں۔ اس نے میری خوبصورتی کی تعریف کی تو میں نے کہا۔ "کوئی نئی بات سنائیں یہ تو پرانی خبر ہے۔" اس نے کچھ زیادہ بے تکلف ہونا چاہا تو میں نے کہا۔ "ہاں میں جانتی ہوں کہ میں بہت حسین ہوں مگر آپ بھی کبھی آئینے میں اپنی بدصورت شکل کو دیکھیں۔ جتنے آپ باہر سے کالے ہیں اتنے ہی اندر سے بھی کالے ہیں۔"

میں بھری ہوئی بیٹھی تھی جو منہ میں آیا کہہ دیا۔ اور اتنی اونچی آواز میں کہنا شروع کر دیا کہ اس نے ہاتھ جوڑ دئیے اور کہا۔ "خدا کے لئے مجھے معاف کر دیجیے باہر سارا دفتر سن رہا ہے۔" میں نے بڑی مشکل سے اس کی جان بخشی کی اور اس سے سولہ دنوں کی تنخواہ مانگی۔ اس نے بہت منتیں کیں کہ نوکری نہ چھوڑو مگر میں نے تنخواہ لی اور نوکری چھوڑ دی۔ اتنے تجربات کے بعد مجھے نوکری کا خیال چھوڑ دینا چاہیے تھا مگر ابھی میری قسمت میں مزید ذلت اور رسوائی لکھی تھی۔ میں ایک اور فیکٹری میں چلی گئی۔ یہ بھی ایک غیر ملکی فیکٹری تھی۔ اخبار میں اشتہار آیا تھا کہ وہاں دو تین لڑکیوں کی ضرورت ہے۔ میں وہاں چلی گئی۔ وہاں سولہ لڑکیاں انٹرویو کے لئے آئی تھیں۔ صرف میں برقع میں تھی باقی سب جدید فیشن کی نمونہ تھیں۔ غیر ملکی فیکٹری میں ملازمت کے لئے غیر ملکی روپ دھار کر آئی تھیں۔ انٹرویو شروع ہوا۔ میں اندر گئی۔ انٹرویو لینے والے نے کہا۔ "آپ کو برقع اتارنا پڑے گا۔"

"اتار دوں گی۔" میں نے کہا۔
اس نے چند ایک اِدھر اُدھر کے سوال کئے۔ پھر انگریزی میں باتیں شروع ہو گئیں۔ انگریزی پر مجھے پوری مہارت تھی۔ وہ میری گفتگو سے بہت متاثر ہوا۔ وہ کمپنی کے مینیجر کا سیکرٹری تھا۔ جوان آدمی تھا۔ عمر تیس سال لگتی تھی۔ مینیجر اٹلی کا باشندہ تھا اور سیکرٹری پاکستانی تھا۔ میرا کام ایسا تھا کہ مجھے زیادہ تر وقت اسی کے ساتھ گزارنا تھا۔ یہ آدمی بات چیت کے سلیقے اور شائستگی کی وجہ سے مجھے اچھا لگا۔ میں نے اس کے ساتھ کوئی غیر ضروری بات نہ کی۔ وہ مینیجر کے دفتر گیا اور کچھ دیر بعد واپس آیا تو مجھے لے کر مینیجر کے دفتر میں لے گیا۔ مینیجر نے میرے ساتھ چند ایک باتیں کیں اور مجھے نوکری پر رکھنے کی منظوری دے دی۔ میری تنخواہ سوا پانچ سو مقرر ہوئی۔

میری حالت ایک شکستہ کشتی جیسی تھی یا اس ڈوبتے ہوئے انسان جیسے جو تنکوں کا سہارا ڈھونڈ رہا ہو۔ اس پاکستانی سیکرٹری کی باتوں میں انس بھی تھا اور درد بھی۔ میں نے اس کے اندر بد نیتی کی ہلکی سی بھی جھلک نہیں دیکھی تھی۔ ایسے لگتا تھا جیسے اس کے سینے میں کوئی درد ہو جسے وہ چھپانے کی کوشش کر رہا ہو۔ یہی میری کمزوری تھی۔ اس نے مجھے کام سکھانا شروع کر دیا اور پورے خلوص سے میری راہنمائی کی۔ اس کا خلوص اور اپنائیت دیکھ کر میرا دل چاہتا تھا کہ اس کی دل کی باتیں سنوں اور اسے اپنے دل کی باتیں سناؤں۔ دفتر میں میرا پندرہواں دن تھا۔ میں نے اسے پوچھ لیا کہ تمہارے دل میں کیا ہے؟ جو مجھے تمہارے چہرے پر تو نظر آتا ہے مگر تم اسے چھپانے کی کوشش کر رہے ہو۔
"میں یقیناً چھپا رہا ہوں۔" اس نے غمگین لہجے میں کہا۔ "مرد کو زیب نہیں دیتا کہ وہ عورت کے سامنے اپنا رونا رونے بیٹھ جائے۔ میری آپ کیا مدد کر سکتی ہیں؟ کچھ بھی نہیں۔ مجھے شاید خود کشی کر لینی چاہیے۔"

میں نے اصرار کیا کہ مجھے اپنے دل کا روگ ضرور بتائیے۔ اس نے کہا۔ "آپ ہی کی عمر کی ایک لڑکی نے ڈس لیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مجھے آپ کی عمر کی اور آپ جیسی خوبصورتی والی لڑکیوں سے نفرت ہے۔"
میری اس آدمی سے دلچسپی بڑھ گئی۔ وہ ان تمام آدمیوں سے مختلف تھا جو ابھی تک مجھے ملے تھے۔ مرد تو کسی بھی لڑکی کو دیکھ کر کارٹونوں جیسی حرکتیں شروع کر دیتے ہیں مگر یہ آدمی خوبصورت لڑکیوں سے نفرت کرتا تھا۔ اس نے کہا کہ دفتر میں ایسی باتیں نہیں ہو سکتی اس لئے اگر کسی پارک یا ہوٹل میں چلو تو تفصیل سے بتا دوں گا۔ میں نے اس کی یہ دعوت قبول کر لی۔ ہم نے دفتر سے چھٹی کے بعد ایک یورپی قسم کے ہوٹل میں چائے پی اور ٹہلتے ٹہلتے باغ میں چلے گئے۔ میں تو آزاد تھی۔ اگر ساری رات بھی باہر رہتی تو کوئی نہ پوچھتا۔ ہم ایک جگہ بیٹھ گئے۔ اس نے اپنا جو حادثہ سنایا وہ مختصراً یوں تھا۔ چار سال پہلے ایک بہت زیادہ خوبصورت لڑکی اس کے پاس ملازمت لینے آئی تھی۔ وہ لڑکی اتنی غریب تھی کہ ملازمت پر مجبور ہو گئی۔ اس آدمی نے اس کی مینیجر سے سفارش کر کے اسے نوکری دلوا دی۔ وہ لڑکی ملازمت کے قابل تو نہیں تھی۔ کیونکہ اس نے دسویں بھی پاس نہیں کی تھی۔ یہ آدمی اس لڑکی میں دلچسپی لینے لگا اور اسے کام کی ٹریننگ دینے لگا۔ لڑکی جوان تھی۔ سیکرٹری بھی جوان تھا۔ دونوں میں محبت ہو گئی۔ شادی کے وعدے بھی کئے گئے۔ اس آدمی کے والدین اس رشتے سے خوش نہیں تھے۔ پھر بھی دونوں نے شادی کر لی۔

12 اقساط
 والدین نے جائیداد سے محروم کر دیا۔ سیکرٹری نے کرائے پر کوٹھی لے لی اور دونوں میاں بیوی اس میں رہنے لگے۔ اس سیکرٹری نے اس لڑکی کے بہت سے ناز نخرے دیکھے اور اسے اونچی حیثیت کے ہوٹلوں میں گھمایا۔ لڑکی ضرورت سے زیادہ آزاد ہو گیا اور دوستیاں بڑھانے لگی۔ اس میں خاوند کا بھی قصور تھا کہ اس نے بیوی کو ایسے معاشرے سے روشناس کرایا جہاں پردہ عیب سمجھا جاتا تھا۔ لڑکی اتنی زیادہ آزاد ہو گئی کہ شوہر کو بتائے بغیر گھر سے چلی جاتی اور دوستوں کے ساتھ کاروں میں گھومتی پھرتی رہتی تھی۔ خاوند نے اسے روکا تو اس نے ٹکا سا جواب دیا کہ وہ گھر کی قیدی بن کر نہیں رہ سکتی۔ سیکرٹری کو اس وقت احساس ہوا کہ جس کی محبت میں اس نے والدین کو ناراض کیا اور جائیداد چھوڑی وہ خود کو آزاد سمجھتی ہے اور خاوند کو کم تر سمجھتی ہے۔ خاوند نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تو اس نے صاف کہہ دیا کہ مجھے طلاق چاہیے۔ میں آپ کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔ ایک بہت ہی امیر آدمی نے اس لڑکی سے شادی کا وعدہ کیا تو اس نے مجھ سے طلاق لے لی۔ اس دن کے بعد یہ سیکرٹری مردہ ہو گیا تھا اور غمگین رہتا تھا۔ یہ تھی اس کی مختصر سی داستان غم جو اس نے مجھے سنائی۔ اس نے یہ کہانی بہت لمبی سنائی تھی۔ کم وبیش دو گھنٹے سے زیادہ وقت لگ گیا تھا مگر میں نے اختصار کے ساتھ سنائی ہے۔ میں نے سوچا کہ خود کو اس کے آگے پیش کروں اور اسے کہوں کہ میرے ساتھ شادی کر لو مگر فوراً ایسا کہنا مناسب نہ سمجھا۔ ویسے تو وہ مجھے پہلے ہی دن اچھا لگا تھا مگر اس کی کہانی سن کر میرے پیار میں اضافہ ہو گیا تھا۔

 میں دراصل اسے یہ بتانا چاہتی تھی کہ ہر لڑکی بے وفا نہیں ہوتی۔
اس کے بعد میں نے اسے اپنے قریب کرنا شروع کر دیا اور ہر دوسرے یا تیسرے دن ہم ہوٹل میں چلے جاتے اور چائے پیتے تھے۔ پھر باغ میں جا کر بیٹھ جاتے تھے۔ باتیں کرتے رہتے۔ ایک دن اس نے بے ساختہ کہا۔ "تم نے میرے دل کا غبار ہلکا کر دیا ہے۔ تمہارے سوا میں نے یہ روگ کبھی کسی کو نہیں سنایا۔" اتنی بے تکلفی کے باوجود بھی اس نے میرے جسم کو چھوا تک نہیں اور نہ ہی ایسی کوئی بات کی جس سے ظاہر ہوتا کہ وہ مجھے بُری نظر سے دیکھتا ہے۔ ہم اکثر شام کے بعد اندھیرے میں باغ میں اکیلے بیٹھے رہتے تھے مگر کبھی اس نے ایسا محسوس نہیں کیا تھا کہ اس کے ساتھ ایک خوبصورت اور جوان لڑکی بیٹھی ہے جو اسے چاہتی بھی ہے۔
میرا رویہ دیکھ کر اس نے میرے ذاتی مسائل میں دلچسپی لینا شروع کر دی اور پوچھا۔ "تم میں یہ تضاد کیوں ہے؟ برقع کے بغیر تم باہر نہیں نکلتی مگر تمہاری انگریزی بتاتی ہے کہ تم لمبا عرصہ انگلینڈ میں رہی ہو۔ تمہیں شام کے بعد گھر جانے کی بھی جلدی ہوتی ہے مگر تمہاری چال ڈھال اور انداز سے پتہ چلتا ہے کہ تم آزاد لڑکی ہو۔ تم نوکری کسی مجبوری کے تحت کر رہی ہو یا شوقیہ؟"

"مجبوری کے تحت۔" میں نے کہا۔ "برقع بھی مجبوری کے تحت پہنتی ہوں۔ میں اپنی ساری کہانی بتانے ہی لگی تھی کہ خیال آیا میں نے جس کو بھی اپنی بے بسی کی کہانی سنائی ہے اسی نے مجھے ہوس کا نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ میں اسے کچھ دن اور دیکھنا چاہتی تھی۔ مجھے یقین تو ہو گیا تھا کہ وہ مخلص انسان ہے مگر پھر بھی دودھ کی جلی چھاچھ کو پھونکیں مار رہی تھی۔ میں نے صرف اتنا کہا کہ پھر کبھی سناؤں گی۔

اس نے بہت اصرار کیا مگر میں نے اسے ٹال دیا۔ اس روز کے بعد میں یہ سوچنے لگی کہ اسے کس طرح کہوں مجھے اپنے پاس رکھ لو اور مجھ سے شادی کر لو۔ ایک موقع اس نے خود ہی پیدا کر دیا۔ گرمیوں کے دن تھے۔ گرمیوں کے دن تھے۔ اس وقت تک ہم ایک دوسرے کے غمخوار بن چکے تھے۔ اس نے ابھی تک کوئی ایسا اشارہ نہیں دیا تھا جس سے پتہ چلتا کہ اس کی نیت خراب ہے۔ میرے دل میں اس کا پیار اور احترام گہرائی تک اتر چکا تھا۔ اس نے کہا۔ "یہاں دل اُچاٹ سا ہوتا جا رہا ہے۔ دل کرتا ہے کچھ دن مری گزار آؤں۔" زرا توقف سے بولا۔ "تم تو ساتھ نہیں جا سکتی۔ سوچتا ہوں تمہارے بغیر مری جا کر بھی کیا فرق پڑے گا۔ تنہائی اور گھٹن مجھے مار ڈالے گی۔۔۔۔۔ چل سکو گی؟"
"چلی جاؤں گی۔" میں نے کہا۔

"گھر والوں کو کیا جواب دو گی؟" اس نے پوچھا۔
"کوئی الٹا سیدھا جواب دے دوں گی۔" میں نے کہا اور اس سے پوچھا۔ "مجھے چھٹی دلا سکتے ہو؟"
"یہ تو کوئی مسئلہ نہیں۔" اس نے کہا۔ "دس دن کی چھٹی لے دیتا ہوں۔ بس یہ خیال کرنا کہ دفتر میں کسی کو پتہ نہ چلے تم میرے ساتھ جا رہی ہو۔"
اگلے ہی دن اس نے دفتر سے دس دن کی چھٹی لے لی اور مجھے اس بہانے سے چھٹی لے دی کہ میری والدہ سخت بیمار ہے۔ اگلی شام ہم مری پہنچ گئے۔ مری میں ہم نے ایک اعلیٰ ہوٹل میں قیام کیا۔ ہوٹل کا مینیجر اس کا دوست معلوم ہوتا تھا کیونکہ اس نے بڑا پر تپاک استقبال کیا تھا اور ہمیں الگ تھلگ کمرہ دیا تھا۔ میں نے کمرے کی کھڑکی جھولی تو یوں محسوس ہوا جیسے میں جنت میں آ گئی ہوں۔ میں نے مری کی صرف باتیں سنی تھیں مگر کبھی مری گئی نہیں تھی۔ ہوٹل بلندی پر تھا۔ ہمارا کمرہ دوسری منزل پر تھا۔ کھڑکی سے مجھے قدرت کا حسن دکھائی دیا۔ دور کشمیر کے برف پوش پہاڑ تھے۔ ہر طرف ہریالی تھی۔ دور نیچے سے دور اوپر تک لمبے لمبے پیڑوں نے زمین کے اس خطے کو خوابوں کی زمین بنا رکھا تھا۔ بادلوں کے بڑے بڑے اور سفید گالے وادیوں میں آڑے آ رہے تھے۔ جب کبھی بادل زیادہ ہو جاتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے میں زمین پر نہیں بلکہ فضا میں ہوں۔ جب ایک بادل کا ٹکڑا میری کھڑکی کے قریب سے گزرا تو اس میں کوئی شک نہ رہا کہ میں فضا میں ہوں اور کوئی غیبی ہاتھ بڑے پیار سے میری روح کو سہلا رہا ہے۔ مجھ پر خود فراموشی سی طاری ہو گئی۔

میں نے اس سیکرٹری کے ہاتھ کا لمس اپنے دائیں کندھے اور گردن پر محسوس کیا۔ وہ مجھے سہلا رہا تھا۔ اس کا دایاں ہاتھ میرے دائیں کندھے پر اور میرا بایاں کندھا اس کے سینے پر لگا ہوا تھا۔ اس کا منہ میرے منہ کے ساتھ لگا ہوا تھا۔ جذباتی طور پر تو میں اس کے قریب ہو گئی تھی مگر جسمانی طور پر وہ پہلی بار میرے اتنا قریب آیا تھا۔ میں نے اس کے اور زیادہ قریب ہو کر اسے دیکھا۔ اس کے چہرے پر لطیف سی مسکراہٹ تھی۔ اس کا جو ہاتھ میرے کندھے پر ہاتھ اب سرک کر میری تھوڑی پر آ گیا تھا۔ اس نے میرا منہ اوپر اٹھایا اور پھر میں نے اس کا منہ نہایت آہستہ سے آگے بڑھتا ہوا دیکھا۔ کھڑکی کے پردے گر پڑے اور وہ پردہ اٹھا جس سے میں ناآشنا نہیں تھی۔ مگر فرق تھا۔ بہت بڑا فرق تھا۔ اس سے پہلے میں نے کسی مرد کے ہونٹوں میں اس قسم کا کیف نہیں دیکھا تھا۔ اس مرد کے ہونٹوں میں کیف کا ایک پیغام تھا۔ میری نجات کا سندلیہ تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے میرے ہونٹوں نے نہیں بلکہ میری شکست خوردہ روح نے اس کے ہونٹوں کی آغوش میں پناہ لی ہو۔ یہ مرد بدکار اور بد طینت نہیں تھا۔ اس نے کہا تھا کہ وہ خوبصورت اور جوان لڑکی کا ڈسا ہوا ہے۔ میں اسے بتانا چاہتی تھی کہ وفا کیا ہوتی ہے۔ میں نے اسے کہا۔ "تمہیں تو ایک لڑکی نے ڈنگ مارا ہے مگر میں بہت سے لڑکوں کی ڈسی ہوئی ہوں اور پناہ ڈھونڈتی پھر رہی ہوں۔"
میں اس کے بازوؤں کے گھیرے میں اور اسکے گالوں سے اپنے رخسار لگائے مدہوش کھڑی تھی۔ اس نے مجھے یہ کہہ کر چونکا دیا۔ "میں شاید پھر وہی غلطی کر رہا ہوں جس نے مجھے ایک بار خود کشی تک پہنچا دیا تھا۔"
میں نے اسے یقین دلانے کی ذرہ بھر بھی کوشش نہیں کی کہ میں بے وفائی نہیں کروں گی۔ جذبات نے مجھے بادلوں کے ان ٹکروں تک پہنچا دیا تھا جو میں نے مری کی وادیوں میں تیرتے دیکھے تھے۔ میں اس طلسم سے نکلنا نہیں چاہتی تھی۔ یہ میری پہلی محبت تھی۔ اس سے پہلے تو میں آوارگی اور مغربی تعیش کی عادی تھی۔ میں شاید کچھ کہنے لگی تھی کہ بیرا چائے لے کر آ گیا اور طلسم ٹوٹ گیا۔ چائے کے دوران میں نے اسے کہا کہ وہ اس لڑکی کو بھول جائے۔ ہر لڑکی آوارہ اور بے وفا نہیں ہوتی۔ کم از کم میں ایسی نہیں ہوں۔ وہ خاموشی سے سنتا رہا۔۔۔۔۔ ہم چائے پینے کے بعد باہر نکل گئے۔ میں نے برقعہ پہن لیا تاکہ کوئی پہچان نہ لے۔ تھوڑی اور ناک کو چھپا لیا مگر آنکھیں اور پیشانی ننگی رکھی۔

مری کی مال روڈ نے مجھے حیرت زدہ کر دیا۔ رات کا اندھیرا گہرا ہو چکا تھا۔ روشنیوں سے مال روڈ پر دن کا گمان ہوتا تھا۔ انگریزی تعلیم، مغربی تہذیب اور یورپی ہوٹلوں نے مجھے مغربی طرز کی لڑکی بنا دیا تھا مگر مال روڈ پر اپنے ہی ملک کے لڑکوں اور لڑکیوں کو دیکھا تو یقین نہیں آتا تھا کہ وہ اسی ملک کے رہنے والے ہیں جسے اسلامی مملکت کہتے ہیں۔ ایسی عریانی اور ایسی نمائش؟ مجھ جیسی بے حجاب لڑکی بھی حیران ہو گئی۔ مرد تماشائی تھے اور لڑکیاں اتنی بے حیائی سے تماشا بنی ہوئی تھیں کہ یورپ بھی دیکھ کر شرما جائے۔ بعض نوجوان لڑکے اور لڑکیوں نے ایک دوسرے کی کمر میں بازو ڈالے ہوئے تھے۔ یہ بے حیائی صرف جوان لڑکیوں میں ہی نہیں بلکہ ساٹھ سال کی بوڑھی عورتوں نے بھی گہرا میک اپ کیا ہوا تھا۔ ان دنوں تنگ پائنچوں کا رواج تھا۔ ان بوڑھی عورتوں کی شلوار کے پائنچے جوان لڑکیوں سے بھی زیادہ تنگ تھے۔ بعض بوڑھی عورتوں نے بغیر آستین کے قمیض پہنے ہوئے تھے۔ میں نے جب بوڑھے دادے اور دادیوں کو بھی اس حال میں دیکھا تو اپنے دوست سیکرٹری سے کہا۔ "اب ان لڑکے اور لڑکیوں کو دوبارا واپس پردے میں لانا مشکل ہے۔" میرے دوست نے بتایا کہ یہ جو بوڑھی عورتوں کے ساتھ جوان لڑکیاں ہیں یہ ان کی بیٹیاں ہیں جنہیں یہ نمائش کے لئے ساتھ لاتی ہیں اور ان کے لئے دولہے پھانسنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ مری کی مال منڈی ہے۔ یہاں ایک رات کے لئے بھی دولہن مل جاتی ہے۔

میں مکمل طور پر بے حیا ہو گئی تھی جسے آپ ایڈوانس اور ماڈرن کہتے ہیں مگر مری کی لڑکیوں کو دیکھ کر میں خود کو پسماندہ سمجھنے لگی۔
میں مری کے مال روڈ پر دو جانے پہچانے چہرے دیکھے۔ یہ میرے یا یوں کہہ لیں کہ میرے ناپاک جسم کے دوست رہ چکے تھے۔ میری جگہ اب ایک اور لڑکی ان کے ساتھ تھی۔ اچانک میرے اندر ایک اُبال سا اٹھا۔ طبیعت بے چین ہو گئی۔ میں اس لڑکی کو روک نہیں سکتی تھی۔ وہ جن شہزادوں کے ساتھ مری آئی تھی ان کا منہ نوچ نہیں سکتی تھی۔ میں نے اپنے ساتھی سے کہا۔ "اس ہجوم سے نکلو۔ کسی ایسی جگہ چلو جہاں ہمارے سوا کوئی نہ ہو۔"

ہم واپس ہوٹل آ گئے۔ اس رات ہم نے بہت سی باتیں کیں۔ ایک دوسرے کے قریب بیٹھے سینے کے غبار ہلکے کرتے رہے۔ میں نے اسے اپنے ماضی کے متعلق کچھ نہ بتایا مگر شادی کے لئے راضی کر لیا۔ وہ پوری طرح راضی نہیں ہوا تھا۔ تاہم میں نے محسوس کیا کہ اس نے مجھے قبول کر لیا ہے۔ ہم الگ الگ بیڈ پر سوئے۔ وہ جلدی سو گیا۔ مجھے نیند نہیں آ رہی تھی۔ اس سوچ نے مجھے بے حال کر دیا تھا کہ اسے اپنا ماضی سناؤں یا چھپائے رکھوں۔ مجھے ڈر تھا کہ اگر بتا دیا تو وہ مجھے چلی ہوئی لڑکی سمجھ کر ٹھکرا دے گا۔ مگر یہ بھی ڈر لگ رہا تھا کہ شادی کے بعد اگر اسے پتہ چل گیا یا میرے جاننے والے کسی نے اسے بتا دیا تو میں کیا کروں گی؟ دونوں خوف بے معنی نہیں تھے۔ میرے لئے فیصلہ کرنا ناممکن ہو گیا۔

دوسرے دن وہ مجھے باہر لے گیا اور میرے لئے ایک انگوٹھی خریدی اور مجھے اس طرف نیچے لے گیا جہاں پکنک سپاٹس ہیں۔ ہم دور نیچے اتر گئے۔ ایک تنہا اور ڈھکے ہوئے گوشے میں لے جا کر اس نے مجھے اپنا فیصلہ سنا دیا کہ وہ مجھ سے شادی کر لے گا اور وہ انگھوٹھی میری انگلی میں ڈال دی۔ یہ ہماری منگنی تھی۔ مجھے ہچکی سی آئی اور میں بے قابو ہو کر رونے لگی۔ مجھے خیال آیا کہ اگر میری شرافت برقرار رہتی تو آج میری سہیلیاں مجھے دولہن بناتیں اور رات مجھے نرغے میں لے کر ڈھولک بجاتیں۔ میں لجاتی شرماتی ہوئی ڈولی میں بیٹھتی میرے والدین خوش ہوتے کہ وہ ایک مقدس فرض سے فارغ ہوئے ہیں مگر میری قسمت میں مجرمانہ شادی لکھی تھی۔ پہلی شادی کی تو بھی مجرم تھی۔ اب دوسری شادی کر رہی تھی تو بھی مجرم تھی۔ میرے ساتھی نے مجھے بہلا تو لیا تھا مگر رونے کی وجہ نہیں پوچھی تھی۔ مگر یہ پوچھا۔ "ہم نے منگنی تو کر لی ہے مگر اگر تمہارے گھر والے نہ مانے تو کیا کرو گی؟"

"نہیں مانتے تو نہ مانیں۔" میں نے کہا۔ "میں آپ کے پاس آجاؤں گی اور ہم شادی کر لیں گے۔ یہ کوئی ایسا ٹیڑھا مسئلہ نہیں ہے کہ اس پر بات کی جائے۔"
"آج رات ہم منگنی کی تقریب منائیں گے۔" اس نے بڑی شوخی سے کہا۔ "اور یہ میں بتاؤں گا کہ ہم نے منگنی کی تقریب کیسے منانی ہے۔ تمہیں اعتراض کا حق نہیں دوں گا۔"

اس کی زندہ دلی کو دیکھ کر میرا دل بھی خوش ہو گیا۔ ہم وہیں گھاس پر لیٹ گئے اور سو گئے۔ بڑی تیز بارش نے ہمیں جگا دیا۔ میں اتنی خوش تھی کہ بارش سے بچنے کے لئے کوئی جگہ نہ دیکھی۔ درختوں سے باہر چلی گئی۔ بارش بڑی ہی تیز تھی۔ میں نے منہ اوپر کر لیا۔ مجھے ایسا سکون محسوس ہونے لگا جیسے اس بارش نے میرے ضمیر کے گناہوں کو دھو ڈالا اور میرے دل سے غموں کی دھند کو دھو ڈالا۔ میں نے بڑے عرصے بعد زور زور سے قہقہے لگائے اور ہلکی پھلکی ہو گئی۔ وہ درخت کے ساتھ کھڑا تھا اور بھیگ رہا تھا۔ میں نے اسے بازوؤں سے پکڑا اور گھسیٹ کر اسے پرے لے گئی۔ اسے اپنے بازوؤں میں لے لیا اور بچوں کی طرح بارش میں ناچنے لگے اور کھیلنے لگے۔ جب تک بارش ہوتی رہی ہم یوں ہی کھیلتے رہے۔

مجھے وہ دن یاد آ رہے تھے جب میں نے مغربی تہذیب کی بے حیائی میں، اعلیٰ ہوٹلوں کے قبہ خانوں میں، چرس، میری جوانا اور شراب میں، باغوں کے اندھیرے گوشوں میں، تاریک راتوں میں، کار کی پچھلی سیٹ پر اور مغربی موسیقی کے ہنگامے میں، دھما چوکڑی میں اور جنسی آزادی میں مسرت تلاش کی تھی اور میں سمجھتی تھی کہ میں نے مسرت پا لی ہے مگر میں نے جو حاصل کیا تھا وہ آپ کو بتا چکی ہوں۔ مجھے روحانی مسرت ملی تو مری کی اس موسلادھار بارش میں ملی جہاں میری انگلی میں منگنی کی انگوٹھی تھی اور یہ انگوٹھی مجھے اس آدمی نے پہنائی تھی جسے میں دل کی گہرائیوں سے چاہتی تھی۔ مجھ پر اس وقت یہ انکشاف ہوا کہ روحانی مسرت دل کی پاکیزگی اور خدا کی بارش جیسی نعمتوں میں ہے۔ میں نے اس بارش میں خدا کو بہت قریب سے دیکھا اور دل میں عزم کر لیا کہ خدا کو کبھی ناراض نہیں کروں گی۔
مگر خدا مجھ ناراض تھا۔

رات کے نو بج رہے تھے۔ ہم ہوٹل کے کمرے میں تھے۔ نہا کر کپڑے تبدیل کر چکے تھے۔ میرے منگیتر نے کہا تھا کہ ہم منگنی کی تقریب منائیں گے۔ میں نے سوچا تھا کہ تقریب یہ ہی ہو گی کہ ہم کوئی خاص کھانا کھائیں گے۔ اس کے سوا ہم کر بھی کیا سکتے تھے۔ اتنے میں بیرا کمرے میں داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں ٹرے تھی۔ ٹرے میں وہسکی کی بوتل، دو بوتلیں سوڈے کی، دو گلاس اور روسٹ کی ہوئی سالم مرغی تھی۔ بیرا ٹیبل پر یہ چیزیں سجا کر چلا گیا تو میں نے منگیتر سے پوچھا۔ "کیا آپ شراب پیتے ہیں؟"
"نہیں تو۔۔۔" اس نے عجیب سے لہجے میں کہا۔ "میں عادی تو نہیں ہوں مگر تھوڑی تھوڑی ہم دونوں پیئیں گے۔"
میرے لئے شراب کوئی نئی چیز تو نہیں تھی۔ میں نے تو سے بھی زیادہ ذلیل نشے کئے تھے لیکن اپنے منگیتر کے تصور کے ساتھ شراب کو وابستہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔ میں تو اسے پاکیزہ آدمی کا کردار سمجھتی تھی۔ میں نے طے کر لیا تھا کہ شادی کروں گی اور مشرقی عورت بن کر رہوں گی۔ میں نے اسے کہا۔ "ایک شریف لڑکی کو شراب پیش کرنا اچھی عادت نہیں۔ آپ نے یہ کیسے سوچ لیا کہ میں شراب پی لوں گی۔"

وہ مسکرا دیا۔ (اس کی مسکراہٹ مجھے آج بھی یاد ہے۔) اس کی مسکراہٹ میں بے ساختگی اور قدرتی پن نہیں تھا۔ میں اس کی مسکراہٹوں کو اچھی طرح پہچانتی تھی۔ وہ بڑے پیارے طریقے سے مسکراتا تھا مگر شراب پیش کرتے وقت جب وہ مسکرایا تھا تو اس کی مسکراہٹ میں ایسا تاثر تھا جیسے وہ مجھے آوارہ سمجھتا ہے۔ طنز کا تاثر بھی تھا۔ اس نے شراب کی بوتل کھولی اور تھوڑی تھوڑی شراب دونوں گلاسوں میں ڈالی اور پھر تھوڑا سوڈا بھی ڈالا۔

"میں نہیں پیوں گی۔" میں نے سنجیدگی سے کہا۔ "آپ پی لو۔"
"نہ پیؤ۔" اس نے روٹھ کر کہا۔ "میں بھی اکیلا نہیں پیؤ گا۔ میں کوئی عادی شرابی تو نہیں ہوں۔ میں نے سوچا تھا کہ ہم دونوں اکیلے ہیں تھوڑی خوشی منا لیں۔"
میں اسے ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی۔ میں نے یہ کہہ کر گلاس اٹھا لیا کہ شادی کے بعد نہیں پیؤ گی اور نہ پینے دوں گی۔ اس نے گلاس میرے گلاس کے ساتھ ٹکرایا اور ہونٹوں سے لگا لیا۔ میں نے بھی رسمی طور پر گلاس منہ کے ساتھ لگایا اور دو تین قطرے منہ میں ٹپکا لئے۔ وہ ہنسی مذاق کے موڈ میں آ گیا۔ اس نے دو تین گھونٹوں میں گلاس خالی کر دیا اور دو پیگ اور ڈال لئے۔ جتنی دیر میں میں نے آدھا گلاس شراب پی، اس نے ایک تہائی بوتل خالی کر دی۔ اس نے میرے گلاس میں بھی شراب ڈالی اور سوڈا ڈالا اور کہا کہ ایک ہی گھونٹ میں پی جاؤ۔
میں نے اسے کہا اب بوتل ایک طرف رکھ دو بہت پی لی ہے۔ میں اس کے پینے کے انداز سے جان گئی تھی کہ وہ عادی شرابی ہے۔ اس نے زور سے قہقہہ لگایا اور کہا۔ "ابھی کہاں پی ہے۔" اس کی زبان لڑکھڑانے لگی۔ وہ پئے جا رہا تھا۔ ایک بار اس نے کہا۔ "میں اپنی پہلی بیوی کی محبت اور اس کی بے وفائی کا غم شراب میں ڈبو دوں گا۔ تم بھی پیؤ۔ اور پیؤ۔ کل سے ہم دونوں زاہد اور پارسا ہوں گے۔ ہیر اور رانجھا ہوں گے۔ لیلیٰ اور مجنوں ہوں گے۔

وہ بہک گیا تھا۔ میں اٹھی اور بوتل اٹھا کر پرے رکھ دی۔ اس وقت تک دو گھنٹے گزر چکے تھے۔ وہ اٹھ کر بوتل کی طرف گیا تو اس کے قدم ڈگمگانے لگے۔ میں نے اسے روک لیا۔ اس نے گلاس رکھ کر مجھے بازوؤں میں لے لیا اور اس قدر زور سے بھینچا کہ میری چیخ نکل گئی۔ اس نے میرے ہونٹ اپنے منہ میں لے لئے اور زور زور سے چوسنے لگا۔ میں نے مزاحمت نہ کی۔ پھر اس نے مجھے اٹھا کر پلنگ پر ڈال دیا اور میری شلوار کا ناڑا پکڑ کر کھینچا۔ تب میں نے دیکھا کہ یہ وہ آدمی نہیں رہا جسے میں غمزدہ اور مخلص سمجھتی تھی۔ میں نے اس کے ہاتھ سے اپنا ناڑا چھڑا کر اٹھ بیٹھی اور اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لے کر اس کے ہونٹ چومے اور اس سے التجا کی کہ چند دنوں بعد ہماری شادی ہو جائے گی تب ہم سب کچھ کر لیں گے۔ اسی جگہ اسی کمرے میں آ کر ہنی مون منا لیں گے۔ گناہ نہ کرو۔
"ہماری شادی ہو چکی ہے۔" اس نے مجھے ایک بار پھر دبوچ کر کہا۔ "آؤ ہنی مون منائیں۔"

میں اٹھ کھڑی ہوئی۔ مجھے غصہ آ گیا۔ میں نے کہا۔ "میں تمہیں شریف آدمی سمجھتی تھی مگر تم شرابی اور بدکار نکلے۔ ایک شریف لڑکی کو شراب پلاتے ہوئے شرم نہیں آتی؟"
"بیٹھ جاؤ۔" اس نے تحمل سے کہا۔ "نہ تم شریف لڑکی ہو اور نہ میں شریف آدمی۔ اگر تم شریف ہوتی تو اتنی دلیری سے میرے ساتھ مری میں نہ آتی۔ اتنی آسانی سے شراب کا گلاس نہ پکڑ لیتی۔۔۔۔۔ سنو سویٹ میں تمہارے متعلق سب کچھ جانتا ہوں۔ تمہارا برقع تمہارے ماضی کو نہیں چھپا سکتا۔ دفتر میں بہت سے لوگ آتے ہیں۔ ان میں سے دو نے مجھے تمہارے متعلق سب بتا دیا تھا کہ تم کون ہو اور کیا ہو۔ میری نظر میں تم صرف احسان فراموش اور خود غرض ہو۔ میں نے تمہیں نوکری دلوائی اور اتنی زیادہ تنخواہ لگوائی۔ تمہیں اپنے ساتھ رکھ کر تمہاری پوزیشن بہتر بنائی لیکن تم زرا سی دیر کے لئے اپنا جسم مجھے دینے سے انکار کر رہی ہو جو بہت سے لڑکوں کو دے چکی ہو۔"
"میں نے یہ جسم تمہیں ساری عمر کے لئے دے دیا ہے۔" میں نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔ یہ صدمہ میری روح کو بھی کچل گیا کہ وہ میرے ماضی سے واقف تھا۔
"تم نے مجھے دھوکے میں رکھا۔" اس نے کہا۔ "تم مجھ سے شادی کرنا چاہتی تھی مگر مجھے یہ نہیں بتایا کہ تم بہت سے لڑکوں کی چچوڑی ہوئی ہو؟" وہ بہک گیا تھا۔ نشے میں اور غشی میں انسان دل کے راز اگل دیتا ہے کیونکہ اسے خود پر قابو نہیں رہتا۔ یہ ہی حالت اس کی بھی ہو گئی تھی۔ اس نے مزید کہا۔ "میری قربانی دیکھو کہ تمہاری خاطر اپنی اچھی بھلی نیک بیوی کو طلاق دینے کا فیصلہ کر چکا تھا۔"
"کہاں ہے تمہاری بیوی؟" میں نے پوچھا۔
"میرے گھر میں ہے۔" اس نے کہا۔ "میرے بچے کو دودھ پلا رہی ہو گی۔" اس نے گلاس میں پڑی ہوئی باقی کی شراب بھی پی کر اٹھا اور ڈگمگاتا ہوا میری طرف آیا اور کہا۔ "تم اتنی پتھر اور پاکباز نہ بنو۔"

آپ شاید اندازہ نہ کر سکیں کہ مجھے کتنا صدمہ ہوا ہو گا۔ میرے سامنے زمین و آسمان گھوم گئے۔ میں تو خوش تھی کہ منزل پا لی ہے مگر منزل بھٹکی ہوئی تھی۔ میرے اندر نفرت، احتجاج، انتقام اور گلوں شکوؤں کا طوفان اٹھا مگر میں نے سینے میں ہی روک لیا۔ کچھ بھی کہنا بے کار تھا۔ اسے سچی محبت کا واسطہ دینا بے کار تھا کیونکہ اس نے میرے ساتھ ناٹک کھیلا تھا۔ وہ میرے دل اور اعصاب پر پوری طرح سوار ہو کر مجھے مری لے جانا چاہتا تھا۔ وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو گیا تھا۔ مجھے اس کی بیوی پر ترس آ رہا تھا۔ اس کے کہنے کے مطابق اس کی بیوی نیک اور شریف تھی۔ وہ گھر میں اس کا بیٹا پال رہی تھی اور یہ مری میں عیش کر رہا تھا۔

وہ بار بار مجھے اپنے بازوؤں میں جکڑ لیتا۔ اس سے پیچھا چھڑوانا مشکل ہو گیا تھا۔ میں ایسے مردوں کا علاج جانتی تھی۔ میں نے فوراً اپنا رویہ بدلا اور اس کے ساتھ بیڈ پر بیٹھ گئی۔ میں نے اس کے گلاس میں شراب ڈالی اور سوڈے کے بغیر گلاس اس کے منہ کو لگا دیا۔ خوبصورت اور جوان لڑکیاں جو میری طرح ایکٹنگ بھی جانتی ہوں بڑے بڑے مردوں کو انگلیوں پر نچا سکتی ہیں۔ میں نے گلاس اس کے منہ سے لگایا اور دوسرا بازو اس کی کمر کے گرد لپیٹ کر اپنے قریب کر لیا اور کہا۔ "تم تو پاپی ہو۔"

"ہم پاپی ہیں۔" اس نے نعرہ لگانے کے انداز میں کہا۔ "سارا پاکستان پاپی ہے۔ اور پلاؤ مجھے اور پلاؤ۔ گھر میں بیوی حرام زادی مجھے سگریٹ بھی نہیں پینے دیتی۔ وہ شراب ختم کر کے میرے ہونٹ چوسنے لگا اور ایک ہاتھ میری چھاتیوں پر پھیرنے لگا۔ میں نے اسے ہٹانے کے لئے ایک اور گلاس بھر دیا اور وہ بھی بغیر سوڈے کے۔ پھر بڑے پیار سے اسے پلانے لگی۔ وہ ختم ہو چکا تھا۔ جب شراب ختم ہو گئی تو میں اٹھی، اس نے میرا بازو پکڑ لیا۔ میں نے جھٹکا دیا تو پیٹھ کے بل بیڈ پر گر گیا۔ بڑی مشکل سے اٹھا اور بازو پھیلا کر میری طرف آیا مگر دو قدم بھی نہیں چل سکا اور گر گیا۔ میں نے جو اسے بغیر سوڈے کے شراب پلائی تھی اس نے اس کا دم خم توڑ دیا تھا۔ میں نے پوری طاقت سے اس کے منہ پر تھپڑ مارا۔ اس تھپڑ میں اتنی طاقت نہیں تھی جتنی نفرت اور انتقام کی آگ تھی۔ وہ اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ میں نے ایک اور زور دار تھپڑ مار دیا۔ جس کے بعد وہ اس طرح گرا کہ منہ بیڈ پر اور ٹانگیں زمین پر تھیں۔ اس کے بعد وہ اٹھ نہ سکا۔

میں نے لائٹ آف کر دی اور کھڑکی کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی۔ وہ مری کے ساون کی سرد رات تھی۔ مری کی روشنیاں میرے سامنے پھیلی ہوئی تھیں۔ میں منزل پر آ گئی تھی مگر یہ منزل نہیں سراب تھا۔ میں بے تحاشا روئی کہ میری ہچکی بندھ گئی۔ مجھے ماضی کا ایک ایک لمحہ اور ایک ایک انسان یاد آنے لگا۔ ہر لمحہ اور ہر انسان گناہ میں ڈوبا ہوا نظر آیا۔ مجھے اپنا بچہ بھی یاد آیا۔ میں پہلی بار اپنے بچے کو یاد کر کے روئی اور ایسا روئی جیسے کسی بچے کا کھلونا ٹوٹ گیا ہو۔ ذہن میں خیال آیا کہ میرا بچہ دنیا کا واحد فرد ہے جس کے ہاتھوں مجھے پیار مل سکتا ہے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ عیسائیوں کے پاس جا کر ان سے اپنا بچہ چھین لوں اور اسے سینے سے لگا کر کہوں۔ "آ جا میرے جگر کے ٹکڑے ہم دونوں ہی سراپا گناہ ہیں۔ آ مسجدوں اور گرجوں کی دنیا سے دور چلے جائیں جہاں ہمیں خدا مل جائے۔"
میں جذبات میں بہہ نکلی اور روتی رہی۔ میرے سامنے ماضی کے تمام واقعات فلم کی طرح چل رہے تھے۔ اچانک مری کی ساری روشنیاں ایک چکر میں گھوم گئیں۔ میری سوچوں کا دھارا پیچھے کو مُڑ گیا۔ میں نے لائٹ جلائی اور شراب کی بوتل منہ کو لگا لی۔ ٹرے میں سالم روسٹ کی ہوئی مرغی رکھی ہوئی تھی۔ آدھی مرغی اور سلاد کھا لی۔ میری کچھ اداسیاں ڈوب گئیں۔ وہ بدبخت آدھا بیڈ پر اور آدھا زمین پر مدہوش پڑا تھا جو صبح تک اٹھ نہیں سکتا تھا۔

 مجھے اپنا جسم نجس اور ناپاک محسوس ہونے لگا۔ میرے جن بالوں، آنکھوں اور گوری رنگت پر مرد پاگل ہو جاتے تھے وہ بکاؤ چیزیں معلوم ہونے لگی۔ اتنی کوششوں اور اتنے تجربوں کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی کہ میں دھتکاری ہوئی ہوں۔ راندہ درگاہ ہوں۔ جاگیر دار کا بیٹا مجھے کب تک اپنے پاس چھپائے رکھتا۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ اب ان کے پاس نہیں جاؤں گی۔
کچھ تو میں جوان ہی بے حیا ماحول ہوئی تھی۔ زیادہ تر شراب کا اثر تھا کہ میں نے فیصلہ کر لیا کہ اگر مردوں کے جال میں ہی بار بار پھنسنا ہے اور دھوکے پر دھوکا کھانا ہے تو کیوں نہ میں خود ہی دھوکا بن جاؤں۔ میں کہاں کی شریف زادی ہوں۔ مجھے سکون سا محسوس ہونے لگا۔ میں نشے میں تھی اس لئے عقل ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ میں نے یہ نہ سوچا کہ نئی زندگی کا آغاز کس طرح کروں؟ مجھے ایک آدمی اور ایک ٹھکانے کی ضرورت تھی۔ میں ابھی نشے اور جذبات میں تھی۔ میں کمرے سے نکل گئی اور نیچے اتر گئی۔ آگے ہوٹل کا لان تھا۔ لان میں ایک یورپین جوڑا بیٹھا ہوا تھا۔ میں لان میں ٹہلنے لگی۔
"کرسی لا دوں؟" کسی نے مجھ سے پوچھا۔

میں نے گھوم کر پیچھے دیکھا تو ہوٹل کا مینیجر کھڑا تھا۔ میں نے شکریہ ادا کر کے کہا کہ زرا ٹہلنے نکلی تھی۔ وہ شاید جان گیا تھا کہ میں نے شراب پی ہوئی ہے۔ اس نے بیرے کو آواز دے کر دو کرسیاں منگوا لیں اور ہم دونوں بیٹھ گئے۔
"آپ کے صاحب تو بے ہوش پڑے ہیں۔" اس نے کہا۔ "لگتا ہے بہت زیادہ پی لی ہے۔ کیا وہ آپ کے خاوند ہیں؟"
"دوست ہے۔" میں نے کہا۔ وہ بڑی دلچسپی سے میری باتیں سننے لگا اور بڑی مہارت سے میری دل کی باتیں اگلوانے لگا۔ مجھ سے کوئی ایسی بات نکل گئی تھی جس سے وہ جان گیا کہ میں بیہوش پڑے ہوئے سیکرٹری سے نفرت کرتی ہوں۔ اس نے پوچھا کہ تم اسے کیسے جانتی ہو؟ میں نے بتایا کہ اس کی کمپنی میں نوکری کرتی ہوں۔
"تنخواہ کتنی ہے؟" اس نے پوچھا۔
"پانچ سو روپے" میں نے جواب دیا۔
"ایک بات کہوں؟ آپ بُرا تو نہیں مانیں گی؟" اس نے کہا۔
"جی کہیئے۔" میں نے جواب دیا۔
"اگر اسی طرح کے بدکار آدمی کے ساتھ رہنا ہے، اس کے ساتھ سیر سپاٹا کرنا ہے اور اسے ملازمت کی وجہ سے خوش رکھنا ہے تو یہ بہت مہنگا سودا ہے۔ آپ کو یہ ہی ڈر ہے نا کہ وہ آپ کو نوکری سے نکال دے گا تو ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ میرے ہوٹل میں غیر ملکی آتے ہیں۔ انہیں خوش رکھنے کے لئے مجھے آپ جیسی خوبصورت لڑکیوں کی ضرورت ہے۔ آپ روز جا پانچ سو کما سکتی ہو۔ آپ کو اسی ہوٹل میں اچھی رہائش دے دوں گا۔" میں نے انکار نہ کیا۔ میرے چہرے کے تاثرات کو سمجھنے کے بعد اس نے مزید کہا۔ "آپ کا دوست ہمارا پکا گاہک ہے۔ یہ ہر سال گرمیوں میں یہاں آتا ہے اور ہر دفعہ ایک نئی لڑکی ساتھ لے کر آتا ہے۔ چند دن ہمارے ہوٹل میں قیام کرتا ہے۔

"مجھے الگ کمرہ دے دیں۔" میں نے کہا۔ "مجھے صبح تک سوچنے دیں۔ صبح میرا ساتھی اٹھے تو اسے کہہ دینا لڑکی چلی گئی ہے۔ "
مینیجر نے مجھے نہایت ہی خوبصورت کمرہ دے دیا۔ سجا سجایا اور وسیع کمرہ تھا مگر مجھے پھانسی کی کوٹھری کی طرح ہولناک لگا۔ میں ڈرتے ڈرتے اس بدکار کے کمرے میں گئی کیونکہ میرے کپڑے اور باقی چیزیں ابھی اسی کمرے میں پڑی تھیں۔ وہ ابھی بھی بیہوش پڑا تھا اور بیڈ سے گر پڑا تھا۔ میں نے اپنا اٹیچی کیس اٹھایا اور اپنے کمرے میں آ گئی۔ میں ساری رات سوچتی رہی اور اسی نتیجے پر پہنچی کہ اب مجھ سے کون شادی کرے گا بھلا؟ لہذا میرے لئے صرف یہ ہی ایک راستہ بچا ہے۔

تمام اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے ہیاں کلک کریں 

آزاد خیال لڑکی کا بھیانک انجام  اردو کہانی - پارٹ 5

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں