آزاد خیال لڑکی کا بھیانک انجام - پارٹ 6

 Urdu Story


Sublimegate Urdu Font Stories

 آزاد خیال لڑکی کا بھیانک انجام اردو کہانی - پارٹ 6


وہ چونک پڑا اور بولا۔ "وہاں تک جانا کوئی آسان تو نہیں ہے۔ میں تو ویسے ہی کہہ رہا ہوں۔" مجھے سمجھ آ گئی تھی کہ وہ کچھ چھپا رہا ہے۔ وہ کشمیر جنگ پر جا رہا تھا۔ یہ راز دو مہینے بعد کھلا کہ وہ ان پہاڑیوں کو اتنے غور سے کیوں دیکھ رہا تھا۔ وہ وہیں لڑتے ہوئے شہید ہو گیا تھا۔ اب میں وہاں چلی جاتی ہوں اور ان پہاڑیوں کو دیکھتی ہوں مگر مجھے کوئی نہیں پوچھتا کہ کیوں دیکھ رہی ہو؟

اس رات وہ میرے پاس رہا۔ ہم ساری رات ہنستے کھیلتے رہے۔ پھر سو گئے۔ سورج نکلنے سے بہت پہلے جاگ اٹھا اور مجھے بھی جگایا۔ جلدی جلدی ناشتہ کیا اور کوئی بات نہ کی۔ جب وہ جانے لگا تو مجھے اپنے بازوؤں میں لے کر سینے لگا لیا۔ اگر میرے بس میں ہوتا تو اسے کبھی نہ جانے دیتی۔ اس کے آنسو بہہ رہے تھے۔ پھر اس کے بازوؤں کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی مگر میرے بازوؤں کی گرفت مضبوط ہو گئی۔ اس نے بڑی مشکل سے خود کو میرے بازوؤں سے چھڑایا اور دوڑ کر کمرے سے نکل گیا۔ میں کھڑکی میں جا کر کھڑی ہو گئی۔ وہ مجھے اترتا ہوا نظر آیا۔ وہ دور نیچے چیل کے پیڑوں میں رکا اور پیچھے دیکھا۔ میں نے ہاتھ ہلایا تو اس نے بھی ہاتھ ہلایا۔ پھر وہ میرے آنسوؤں کے دھندلکے میں روپوش ہو گیا۔ میں نے جلدی سے آنسو پونچھے اور دیکھا مگر اب لمبے لمبے پیڑ تھے، وہ نہیں تھا۔

اب میں روز اس کے واپس آنے کی دعائیں کرنے لگی۔ میرے لئے ایک ایک منٹ گزارنا مشکل ہو گیا۔ میں روز باہر نکل جاتی اور اسے ڈھونڈتی رہتی۔ کبھی اکیلی بیٹھی کمرے میں رونے لگ جاتی تھی۔ میرے اوپر قیامت سی گزر رہی تھی۔ بیس روز ہو گئے تھے اس کا چہرہ نہیں دیکھا تھا۔ میرا یہ حال تھا کہ سارا دن اس کی یاد میں روتے گزر جاتی تھی۔ کبھی سارا سارا دن کچھ کھائے پیئے بغیر گزار دیتی تھی۔ مجھے ہوٹل کا مینیجر بہت تسلی دیتا تھا مگر میرا دل مطمئن نہیں ہوتا تھا۔ آخر ایک روز مجھے فوجی قدموں کی آواز سنائی دی جو میرے کمرے کی طرف آ رہی تھی۔ میرے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ میں دوڑ کر دروازے پر گئی مگر دروازے کے پاس جا کر رک گئی۔ دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا۔ گھٹے ہوئے جسم کا ایک میجر وردی میں کھڑا تھا۔ اس نے سرگوشی کی۔"زیبی۔۔۔؟"
"جی میں زیبی ہوں۔۔" میں نے کہا۔ "آپ۔۔۔۔۔۔؟"

وہ کمرے میں داخل ہو گیا اور آہستہ آہستہ بیڈ کے قریب آ گیا اور بولا۔ "تشریف رکھیں۔۔۔۔" وہ خود نہیں بیٹھا۔ اس کے چہرے پر اداسی نہیں تھی۔ اس کے چہرے پر وہی سنجیدگی اور رونق تھی جو فوجیوں کے چہرے پر ہوا کرتی ہے۔ اس کی آنکھیں خشک تھیں۔ وہ کچھ بولنے لگا مگر چپ ہو گیا۔ اس کے ہونٹ کانپنے لگے۔ مجھے کچھ شک سا ہوا۔ میرا صبر کا دامن چھوٹ گیا۔ میں نے جلدی سے اس کا بازو پکڑا اور جھنجھوڑ کر پوچھا۔ بتاؤ کیا خبر لائے ہو۔۔ میجر نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔ "آپ کا منگیتر کیپٹن شہید ہو گیا ہے۔ اس نے کہا تھا زیبی سے کہنا روئے مت۔ میں نے ان بچوں کا بدلہ لے لیا ہے جنہیں سکھوں نے 1947ء میں ہجرت کے دوران شہید کیا تھا۔"

"نہیں روؤں گی۔" میں نے سر جھٹک کر کہا۔ "نہیں روؤں گی۔" اور میری چیخیں نکل گئیں۔ میجر مجھے چپ کرانے کی کوشش کرتا رہا مگر معلوم نہیں کب تک پاگلوں کی طرح روتی رہی۔ اور کب تک ہچکیاں لیتی رہی۔
"لاش کہاں ہے؟" میں نے سنبھل جانے کے بعد پوچھا۔
"شہیدوں کی لاشیں نہیں ملا کرتی۔" اس نے میری طرف گھوم کر باوقار طریقے سے کہا۔ "کیپٹن دس جوانوں کی پارٹی لے کر مقبوضہ کشمیر میں گیا تھا۔ نو شہید ہو گئے ہیں اور صرف ایک زندہ واپس آیا ہے۔ مگر اس نے اپنا مشن کامیابی سے پورا کر دیا ہے۔ "

"کیا آپ مجھے اس جوان سے ملوا سکتے ہیں جو واپس آیا ہے؟" میں نے پوچھا۔
"نہیں، فوجی ڈسپلن کے خلاف ہے۔" اس نے کہا۔
پھر میجر نے اپنی پتلون کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک کاغذ کا ٹکڑا نکال کر میرے ہاتھ پر رکھ دیا اور کہا۔ "یہ کیپٹن نے آخری پیغام اپنے ہاتھ سے لکھ کر بھیجا ہے۔ یہ خط کیپٹن نے مقبوضہ کشمیر میں جا کر اور حملے سے ایک گھنٹہ پہلے لکھا تھا اور ہدایت کی تھی کہ اگر میں شہید ہو جاؤں تو یہ خط نکال کر میجر تک پہنچا دینا۔ مگر بعد میں کیپٹن کو یقین ہو گیا کہ موت قریب آ گئی ہے تو اس نے خط نکال کر پچھلے جوان کو دے دیا۔ کیپٹن آگے بڑھتا گیا اور ہندوؤں کی لاشیں گراتا ہوا اپنے ٹارگٹ تک پہنچ گیا۔ جس جوان کو خط پکڑایا تھا اس کی گردن میں گولی لگی تو اس نے یہ خط ایک اور جوان کو دے کر کہا اسے میجر تک پہنچا دینا۔ اللّٰہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وہ جوان بھی بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہو گیا۔ یہ خط اس کی جیب سے میں نے نکالا تھا۔ یہ میجر فوراً باہر نکل گیا۔ اس کے بعد مجھے نظر نہیں آیا کبھی۔
کچھ ماہ بعد پھر میں نے دیکھا ایک لڑکی پاگل ہو کر مری کے پہاڑوں میں گھومتی رہتی ہے

بس ایک نام ہے اسکے لبوں پر کہ وہ آئے گا مجھسے وعدہ کیا تھا کیپٹن نے
وہ وعدہ خلافی نہیں کر سکتا
ہر کسی نے میرا بھروسہ توڑا ہے کیپٹن ایسا نہیں کر سکتا
ہر کسی نے مجھے سے سب کچھ چھین لیا
بس ایک امید ہے وہ آئے گا ضرور
یہ دیکھو کیپٹن میں نے آپکے لیے اپنے ہاتھ پہلے سے پہلے کر لیے ہیں
وہ اپنا خون بہا کر اپنے ہاتھو پر مہندی لگاتی تھی
ایک دن وہ بھی کھو گئی ان سفید رنگ کی پہاڑیوں میں
میں ان تمام بہن بیٹیوں کو ایک پیغام دینا چاہتا ہوں کہ جو بہتر کی تلاش میں رہتی ہیں
وہ یہ پڑھ لیں شاید کسی درندہ صفت انسان کے ہاتھو سے بچ جائے
اللّٰہ پاک سب بہن بیٹیوں کا نصیب اچھا کرے Ameen
ختم شد

تمام اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے ہیاں کلک کریں 

کالی بکری کا راز - پارٹ 1

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں