درویش کامل - قسط 1

 


درویش کامل - قسط 1

علم ظاہر سے علم باطن کا سفر طے کروالے ایک مردباکمال کی آپ بیتی ۔

ار بار ردّ کئے جانے پر محمد رمضان بہت زیادہ مغموم و ملول تھا اوراب یہ سوچنے پر مجبور اور حق بجانب تھا کہ صرف اسے ہی ردّ کیوں کیا جا رہا ہے؟
اللہ کے ولی کے دل میں اس کے لئے ترحم پیدا کیوں نہیں ہو رہا۔
ایک وہ اللہ والے ہیں جو لوگوں کو دعوت عام دیتے ہیں کہ آؤ بیعت ہو جاؤ ہماری مگر یہ ہستی بے نیازی سے کیوں کام لیتی ہے۔کیا انہیں مریدوں سے بیعت لینے کاشوق نہیں،رغبت نہیں یا اسے ضروری نہیں سمجھتے۔یا پھر یہ کہ کیا وہ بہت زیادہ گناہ گارو سیاہ کار ہے کہ پیر صاحب اسے بیعت نہیں کررہے۔
اس میں کون سی حکمت ہے؟
برسوں گزر چکے ہیں پیر صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتے ہوئے، میلوں کی مسافت، اپنوں کی شدید مخالفت، دھوپ بارش، کوئی بھی رشتہ اس کے قدموں کو پیر صاحب کے آستانے پر جانے سے نہیں روک پایا تھا مگرجس مقصدکی خاطر وہ درِولی پر دستک دے رہا تھا،وہ اسکی صداپر کھل ہی نہیں رہا تھا۔وہ کاسۂ سلوک تھامے کہاں کہاں نہیں گیا تھااور ہر کوئی اسے قبول کرنے کے لئے بے تاب بھی تھا لیکن ان حریص و بے شرع بے فیض پیروں کے پاس حقیقت میں دنیا داری کے سوا کچھ نہیں تھا۔۔۔ لیکن اگر کچھ محسوس ہوا،دل کے اندر ٹھنڈک اور نگاہ میں فیض کا خمار پیدا ہواتھا تو اس بے نیاز درویش کے آستانے پر ۔۔۔لیکن مقدرنے اسکے ساتھ عجیب کھیل کھیلا تھا۔وہ پیر صاحب سے بیعت کا تقاضا کرتامگروہ ہمیشہ اس کا دل توڑ دیتے اور فرماتے ’’جاؤ کسی بڑے پیر کی بیعت کرو میرے پاس اپنا وقت برباد کیوں کرنے آتے ہو۔‘‘اس نے بھی تہیہ کر لیا تھا کہ اگر پیر صاحب چھ سات سال کی مسلسل نیاز مندی اور خدمتگاری کے باوجود اسے قبول نہیں کر رہے تو وہ آج خود کشی کر لے گا۔ اور یہ اسکا حتمی فیصلہ تھا۔
پیرصاحب کا معمول تھا۔ اس ماہ رمضان میں بھی وہ پہلے روزے سے اعتکاف پر بیٹھ گئے تھے۔ مسجد میں ہی ان کا خیمہ نصب تھا۔ وہ اپنے خادم کے علاوہ کسی سے بات چیت نہیں کرتے تھے۔ صرف نماز کے اوقات میں باہر نکلتے اور پھر باجماعت نماز ادا کر کے خیمہ میں جا کر محوعبادت ہو جاتے۔
نماز عشاء کے بعد تراویح میں اسے عجیب لطف و سرشاری نصیب ہوئی اور وہ تراویح کے بعد ایک ستون کے ساتھ ٹیک لگا کر سسکیاں بھرنے لگا۔’’اے اللہ تو ہی میرا مقصود ہے۔ تجھے پانے کیلئے ،ترے قرب کی لذت عجب چیزہے مگر تو نے خود مجھے اس سے آشنا کیا ہے تو اب آشنائی سے میراتعلق مضبوط فرمادے ۔میں تزکیہ و تصفیہ کرنا چاہتا ہوں۔
اے غفور و رحیم مالک آج بھی اگر تیرے اس درویش ولی نے بیعت نہ کیا اور میرا تزکیہ تصفیہ کرنے کیلئے تربیت کا وعدہ نہ کیا تو میں مرجاؤں گا، خود کشی کرلوں گا۔‘‘
اسے یوں روتا اور سسکتا ہوا دیکھا تو پیر صاحب کے خادم محمد عثمان (آج کے جید عالم دین مولانا مفتی محمد عثمان رحیم یار خان والے) اسکے پاس آ گئے اور کہا۔’’ کیا بات ہے، روتے کیوں ہو۔‘‘
مولانا محمد عثمان کو یہ علم تھا کہ یہ نوجوان سیفی نہیں ہے لہذا یہ کیفیت میں مبتلا ہوئے بغیر رو رہا ہے اور اس کے رونے کا سبب کوئی اور بات ہو سکتی ہے۔
محمد رمضان نے اپنا مسئلہ اور جذبات گوش گزار کئے تو مولانا محمد عثمان نے اسکا ہاتھ پکڑا اور پیر صاحب کے خیمے میں لے گیا ۔پیر صاحب نے تابدار نگاہوں سے اسے دیکھا’’تم پھر آگئے ہو۔‘‘
’’جی حضور۔‘‘ اس نے عاجزی سے سر جھکایا
مولانا محمد عثمان نے اسکی وکالت کی۔’’ حضور بڑا مخلص نوجوان ہے۔ برسوں سے تمنائے بیعت لیکر آ رہا ہے۔ آج اس کا دل ٹوٹ چکا ہے اور کہتا ہے اگر آج بھی پیر صاحب نے بیعت نہ کیا تو خود کشی کر لے گا۔‘‘
’’لاحول ولاقوۃ‘‘ پیر صاحب نے گرجدار انداز میں کہااور پھر بولے۔‘‘ برخوردار۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ میں نے بیعت کرنا بند کر دی ہے۔ پچھلے پانچ سال سے بیعت نہیں کررہا۔ ہاں مگر تم کسی بڑے پیر کے پاس چلے جاؤ اور ان کے پاس بیعت ہو جاؤ۔‘‘
اتنا سننا تھا کہ محمد رمضان کی چیخیں نکل گئیں۔ وہ تڑپ اٹھا اور گریہ زاری کرنے لگا۔
’’ حضور یہ بہت مخلص ہے۔ آپ مہربانی فرمائیں۔ یہ اللہ کی رضا کا طالب ہے اور آپ خود فرماتے ہیں اللہ کی رضا حاصل کرنے کی تمنا کرنے والوں کو مایوس نہیں کرنا چاہئے۔‘‘
مولانا محمد عثمان نے عجز کے ساتھ پیر صاحب سے اس کی سفارش کی اور پھر اسکی طرف دیکھ کر بولے’’ آ جا رمضان ۔۔۔ مہینہ بھی رمضان المبارک کا ہے، رمضان میں رمضان کی مراد پوری کرنا میرے لئے بھی سعادت ہو گی۔‘‘ پیر صاحب نے اسے بیعت کیا تو اس کی آنکھیں ایک بار پھر برس پڑیں۔ ’’ اب کیوں روتے ہو یار‘‘ پیر صاحب نے نرمی ومحبت سے دریافت کیا۔
’’شُکرانے کے آنسو ہیں حضور‘‘ محمد رمضان کے لبوں پر مسکان اُبھری۔
’’تو نر ہے نر۔۔۔ میرے مرشد حضرت اخندزادہ صاحب فرماتے ہیںیک مرید نر مرید‘‘ پیر صاحب نے کہا۔’’ میں مریدوں کی فوج بھرتی نہیں کرتا۔ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔ میرے مرشد فرماتے ہیں مرید بنانے کیلئے پیچھے نہ بھاگا کرو۔ ان سے امیدیں نہ رکھو۔ سچے اور کھرے سالک کو ایک روز اس کا مرشد مل ہی جاتا ہے۔‘‘
محمد رمضان کے گھرانے کا ہر فرد پیروں کو مانتاتھا لیکن وہ اس عقیدے کو باطل سمجھتا تھا۔اسکے باوجود جب محمد رمضان پر یہ عقدہ آشکار ہوا کہ ظاہری تعلیم کے علاوہ باطنی تعلیم بھی اپنا وجود رکھتی ہے ،اس کی مدد سے طالبان معرفت کے کٹھن راستے آسان ہو جاتے ہیں تو وہ حضرت اخندزادہ مبارک صاحب ؒ کے معتمد اور منظور نظر خلیفہ حضرت پیر مفتی ڈاکٹر محمد عابد حسین سیفی سے ملا اور شیخ کامل کی پہلی نگاہ نے ہی اسکے باطنی نظام پر کاری ضرب لگائی اور اسے یہ یقین کرنے میں چنداں دشواری نہ رہی کہ باطنی نظام ایک حقیقت ہے۔
1976ء میں تلونڈی ضلع قصور کے ایک راجپوت گھرانے میں جنم لینے والے محمد رمضان کے ساتھ عجیب اتفاق یہ ہوا تھا کہ اس کے و الد اور اہل خانہ سنی العقیدہ تھے لیکن ایک دوسرے مسلک کے استاد کی تربیت نے اسے پیروں کے خلاف کر دیا تھا۔ وہ باطنی نظام یا اسکی تربیت کو قطعی اہمیت نہ دیتا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ محمد رمضان نے سب سے پہلے اپنے خاندان کے ساتھ ٹکر لگائی اور ان کے عقائد کو باطلانہ قرار دینا شروع کر دیا۔ قدرت نے محمد رمضان کو فن خطابت سے نوازا تھا لہذا اپنے زور خطابت اور دلائل کے ذریعے وہ مخالفین کو زچ کرتا رہا۔اس نے فن خطابت کے جوہر دکھا کر اپنے ضلع میں گولڈمیڈل بھی جیت رکھا تھا ۔ لیکن دوسری جانب تقدیر نے اسے دوراہے پر لا کھڑا کردیا تھا۔
انہی دنوں جب وہ سنی عقائد کے خلاف تقریریں کر رہا تھا اسے خواب آنے لگے۔ اس دور میں لاہور میں ڈائیو بس جیسی جدید بسیں نہیں چلا کرتی تھیں۔ محمد رمضان اکثر خواب میں ڈائیو بسوں اور جہازوں میں سفر کرتاتھا۔ محمد رمضان نے اپنے خواب کے بارے میں چچا صوفی نذیر سے رجوع کیا تو انہوں نے کہا۔’’ اصل بات یہ ہے کہ تم بہت ترقی کرو گے اور تمہارے خواب کی جزئیات بتاتی ہے کہ تم بہت آگے جاؤ گے لیکن تم گمراہ ہو رہے ہو۔ تمہاری تقریریں سن کر سنی برگشتہ و نالاں ہو رہے ہیں اور تم ان کو بہکانے کا موجب بن رہے ہو۔ میں تمہیں مشورہ دوں گا کہ تم کسی مرشد کامل کے پاس جاؤ اور اس سے معرفت کی حقیقت دریافت کرو۔ کسی اناڑی کے پاس نہ جانا‘‘۔
پھر وہ خواب میں دیکھنے لگا کہ لوگوں کو نماز پڑھاتا ہے ،اس نے چچا سے کہا’’ میں تو کلین شیو ہوں اور خود کو امامت کراتے ہوئے دیکھتا ہوں‘‘
چچا نے سمجھایا’’تمہارے خوابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ تم دین کاکام کروگے لہذا اگر تم اس راہ پر آجاؤ تو اس میں تمہاری بھلائی ہوگی‘‘چچاکی باتوں نے محمد رمضان کو سوچنے پر مجبور کر دیا اور پھر پانچ سال تک وہ مختلف آستانوں پر پیروں کو آزماتا رہا۔
ظہر کی نماز کا وقت تھا۔ وہ جامعہ میں پہنچا تو پیر صاحب کے معتمد خاص حضرت جی نے بتایا کہ اس وقت پیر صاحب کسی سے نہیں ملتے۔
۔۔۔۔۔۔ حضرت پیرمحمد رمضان رضوی سیفی کی داستان طریقت سنتے ہوئے میں انکے جوش و جذبہ اور اخلاص کو جانچ رہا تھا۔انکی آنکھیں اپنے ماضی کی یادوں کے چراغ روشن کرکے اشکبار ہورہی تھیں۔وہ کہہ رہے تھے’’ اس روز میں ڈگمگا جاتااور واپس چلا جاتاتو شاید آج میرے نصیب میں اس نعمت سے محرومی ہی لکھی ہوتی۔مجھے فیض باطن نصیب نہ ہوتا۔میں نے واپس جانے کی بجائے پیر صاحب کی اقتداء میں نماز ظہر ادا کی ۔ یہ نماز کیا تھی لطافت اور انہماک سے بھرپور تھی۔ نماز کے بعد پیر صاحب نے مجھ نووارد کو دیکھا تو اشارے سے پاس بلایا اور سامنے بٹھا کر توجہ فرمائی۔ اس وقت میرے دل میں آیا کہ آج میں نے جو نماز ادا کی ہے اس کا ذائقہ کیوں بدل گیا ہے۔ اس میں اتنا سکون کیوں ملا ہے۔ میرے دل نے گواہی دی کہ مجھے کسی بڑے پیر سے بیعت ہونا چاہیے۔ میں نے دل میں یہ خواہش چھپا کر پیر صاحب سے گزارش کی۔’’ حضور میں آپ کے دست مبارک پر بیعت کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
پیر صاحب نے اُجلی چمکتی نگاہوں سے میری طرف دیکھا اور ہلکا سا مسکرائے۔ ’’ جاؤ کسی بڑے پیر سے بیعت کرو۔‘‘ پیر صاحب کی بات سن کر مجھ پر کیفیت سی طاری ہو گئی۔
عرض کیا ’’ حضور میں تو آپ کا خادم اور مرید بننا چاہتا ہوں۔‘‘
’’لیکن ابھی نہیں۔ تم جاؤ اور کسی بڑے پیر کو تلاش کرو۔‘‘ یہ کہہ کر پیر صاحب نے مجھے واپس بھیج دیا۔ اس دوران میں نے پیر صاحب سے رابطہ رکھنے کی کوشش کی لیکن پیر صاحب نے مجھے بیعت نہیں کیا۔ تقریباً تین سال بعد 2001ء میں شب برات کے موقع پر میں نے دستار لی اور لاہور آ گیا۔ مجھے یقین تھا کہ اس رات پیر صاحب سے بیعت کی درخواست کروں گا تو وہ قبول کر لیں گے۔ میں جب جامعہ جیلانیہ پہنچا تو معلوم ہوا پیر صاحب خطاب کیلئے فقیر آباد شریف گئے ہوئے ہیں۔ میں انجان تھا تاہم میں فقیر آباد شریف پہنچ گیا۔مگر اس وقت تک خاصی دیر ہو چکی تھی۔ پنڈال خالی ہو رہا تھا۔ وہاں ایک پٹھان سالک سے ملاقات ہوئی تو میں نے پیر صاحب کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ تو تقریر کے بعد واپس جا چکے ہیں۔ میں بہت پریشان ہو ا تو اسکے دریافت کرنے پر اپنے معاملات سے آگاہ کیا۔ وہ مجھے حضرت مولانا حمید جان صاحب کے پاس لے گیا۔ مولانا صاحب نے مجھ پر بہت شفقت فرمائی اور میں نے جب عرض حال بیان کیا تو آپ دھیرے سے مسکرا دیئے اور مجھے توجہ فرمانے لگے۔ میں اس وقت تک نہ مولانا صاحب کے مقام ولایت سے آگاہ تھا نہ مجھے فقیر آباد شریف کی فضیلت معلوم تھی۔ میرے دل میں تو صرف پیر صاحب بسے ہوئے تھے۔ اس وقت آدھی رات ہو چکی تھی۔ نہ میں جامعہ جا سکتا تھا نہ ادھر ٹھہر سکتا تھا۔ لہٰذا میں تلونڈی واپس چلا گیا۔ واپس جانے کے بعد میری طبیعت میں بے قراری بڑھتی چلی گئی۔ میں پہروں اس بات پر غور بھی کرتا اور نماز کے بعد دعا بھی کرتا کہ اے قادر مطلق میں تری رضا، ترے قرب کا طلب گار ہوں اور معرفت کے ذریعہ سے جس قرب کی فضیلت و لطافت و لذت کا بزرگان سے سنتا آیا ہوں اسے حقیقت میں پانے کے لیے تیرے ایک ولی کے پاس جاتا ہوں لیکن وہ مجھے بار بار ردّ کر رہے ہیں۔ میرے اللہ میری نیت میں کھوٹ نہیں ہے پھر مجھے قبول کیوں نہیں کیا جا رہا۔۔۔؟
پانچ سال کی تک مسلسل رابطہ رکھنے کے بعد میں نے2007ء میں فیصلہ کرلیا تھا اگر اس رمضان شریف میں بھی پیر صاحب نے مجھے بیعت نہ کیاتو پھر میں خودکشی کر لوں گا۔ مایوسی، نا امیدی گناہ ہوتی ہے ،یہ موت حرام موت کہلاتی ہے لیکن میں جس کرب سے گزر رہا تھا اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جو اس آزمائش سے دوچار ہوتا ہے۔ اللہ نے مجھ پر احسان فرمایا اور بالآخر پیر صاحب نے مجھے بیعت فرما لیا۔۔۔وہ رات اور آج کا دن۔۔۔برسوں گزر گئے ہیں۔ پیر صاحب کی دعا نے ذرّے کو تابناکی عطا کی اورکہاں سے کہاں تک پہنچا دیا ۔ مرشد حضرت پیر محمدعابد حسین سیفی کے حکم پر میں نے تلونڈی سے لاہور ہجرت کی۔ آپ کے زیر سایہ تربیت حاصل کرکے میں نے تلونڈی میں اشاعت حق کا سلسلہ شروع کیا اور بہت کم عرصہ میں ایک بڑا حلقہ قائم کر لیا تھا۔ لیکن پیر صاحب نے جب یہ فرمایا ’’رمضان لاہور کو تمہاری ضرورت ہے۔۔۔‘‘ تومیں نے کچھ نہیں دیکھا اور سرکار کے حکم پر لاہور میں آکر مدرسہ قائم کر لیا۔ یہ کرایہ کی عمارت میں تھا۔ یہ میرے دادا پیر حضرت اخندزادہ مبارک صاحب کی خدمت کا صلہ ہے کہ آج ہم متلاشیان علم وحکمت کے لئے جامعہ جیلانیہ رضویہ حسنین آباد میں عمارت تعمیر کرچکے ہیں جہاں تین سو کے قریب بچے اور بچیاں دینی و باطنی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔حال ہی میں بچیوں کے لئے الگ جامعہ تعمیر کررہے ہیں جو پہلی عمارت کے قریب ہی ہے۔
طریقت میں اپنے شیخ کی خدمت کا درجہ بہت افضل ہے۔ اس کے بغیر باطن نہیں کُھلتا نہ فیض میں لذت و روانی ہوتی ہے۔بے ادب بے کیف رہتا ہے۔خادم خدمت بجا لا کر مخدوم بن جاتااور درغفوروغنی کا مقبول بندہ بن جاتا ہے۔ حضرت معین الدین چشتیؒ کے حوالہ سے معروف واقعہ ہے کہ ایک بار آپؒ نے فرمایا کہ ایک بزرگ سو سال تک اللہ تبارک تعالٰی کی عبادت کرتے رہے، دن کو روزہ رکھتے، رات کو قیام فرماتے اور ہر آنے جانے والے کو عبادت الہٰی عزوّجل کی تلقین کرتے۔ ان کے وصال کے بعد لوگوں نے خواب میں ان کو جنت میں دیکھا تو احوال پوچھا۔ وہ بزرگ بولے۔
’’میری رات دن کی عبادت جنت میں داخلے کا سبب نہیں بنی۔ بلکہ اللہ عزوّجل نے مجھے اپنے مرشد کی خدمت کی بدولت بخش دیا ہے‘‘
یہ واقعہ بیان کر کے حضرت خواجہ اجمیریؒ رونے لگ پڑے اور فرمانے لگے۔
’’قیامت کے دن اولیاء صدیقین اور مشائخ کو قبروں سے اٹھایا جائے گا تو ان کے کاندھوں پر چادریں ہوں گی۔ ہر چادر کے ساتھ ہزاروں ریشے لٹک رہے ہوں گے۔ ان بزرگوں کے مرید اور عقیدت مندان، ریشوں کو پکڑ کر لٹک جائیں گے اور ان بزرگوں کے ساتھ پل صراط عبور کر کے بہشت میں داخل ہو جائیں گے‘‘
سیفیت میں باطنی معراج کیلئے مریدین اپنے شیخ کی خدمت کو اپنے لئے سعادت و نعمت اور تبرک سمجھتے ہیں ۔ ان میں ایسے بھی صدیق و حاتم اور متوکل ہوتے ہیں جوشیخ کی خدمت میں تن من دھن قربان کر دیتے ہیں، ہاتھ میں ایک آنہ بھی نہ ہونے پر غم نہیں کرتے اور بوقت خدمت شیخ اپنے توکل کی دولت سے مالا مال ہو جاتے ہیں۔ پیر محمد رمضان سیفی پر یہ وقت آیا تو ایمانی و باطنی استقلال نے انہیں شیخ کی خدمت کے نتیجہ میں ظاہری و با طنی فیوض سے مالا مال کر کے ان کی خالی جھولی کو بھر دیا۔ یہ کرامت ہے حضرت اخندزادہ مبارک صاحبؒ کی۔۔۔ آپؒ آخری ایّام میں شیخ زید ہسپتال لاہورمیں زیر علاج تھے۔ مریدین و سالکین کی آمدورفت اور قیام کا سلسلہ جاری تھا اور ہسپتال کے اردگرد پھیلے پارک اور فٹ پاتھ بھی 24 روز تک بھرے رہے۔ صبح و شام ہر پہر حضرت اخندزادہ مبارک صاحبؒ کے پروانے ان کی دعائے صحت کیلئے قرآن خوانی کرتے، شب بیداری میں نوافل ادا کرتے۔ لاہور نے اس سے قبل نہ کوئی ایسا محترم مریض دیکھا تھا نہ ایسے دیوانے تیماردار جو پیکر خلوص بنے ہوئے تھے۔ (جاری ہے)

تمام اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں 

درویش کامل اردو کہانی قسط نمبر 2

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,


hindi moral stories in urdu,سبق آموز کہانیاں,ج, jin-ki-dushmni,good moral stories in urdu,Moral Stories,Urdu Stories,urdu kahani,اردو کہانی,قسط وار کہانیاں,

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں