آزاد خیال لڑکی کا بھیانک انجام - پارٹ 1

Urdu Story

Sublimegate Urdu Font Stories

 آزاد خیال لڑکی کا بھیانک انجام اردو کہانی - پارٹ 1

میں ایک فریب ہوں جس نے آپ سب کی فریب کاریوں سے جنم لیا ہے
میری عمر تیس سال سے اوپر ہو گئی ہے۔ چہرے پر وہ رونق نہیں رہی جو چند برس پہلے تھی۔ شب بیداریوں اور بدکاریوں نے میرے حسن میں پہلی سی بات نہیں رہنے دی۔ لیکن میرے فریب کے حسن کی کشش میں کوئی کمی نہیں آئی۔ لوگ اب بھی مجھے دیکھ کر ٹھٹھک جاتے ہیں۔ ان کی رفتار سست ہو جاتی ہے آگے جا کر پیچھے مڑ مڑ کر مجھے دیکھتے ہیں۔ عورت جتنی مستور ہوتی ہے اتنی ہی خوبصورت ہوتی ہے۔ وہ لڑکیوں بے وقوف ہیں جو سر سے دوپٹہ اتارتی ہے، بال بکھیرتی ہے، بازو کندھوں تک ننگا کرتی ہے اور سینہ نیم عریاں کر کے سڑکوں پر پھرتی رہتی ہیں۔ ایسی نمائش کشش کھو دیتی ہے۔ کشش راز میں ہوتی ہے۔ عورت بھید بن جائے، پراسرار بن جائے اور سیاہ برقع کا راز بن جائے تو مرد احمق بن جاتے ہیں اور اس راز کو پانے کی منہ مانگی قیمت دیتے ہیں اور صرف ایک جھلک دیکھنے کے لئے سو سو جتن کرتے ہیں۔

اگر آپ کو کسی باغ میں، کسی بس سٹاپ پر، مری کی مال روڈ پر، لاہور، اسلام آباد یا کراچی کے کسی بارونق حصے میں کوئی لڑکی اس طرح کھڑی نظر آئے کہ اس نے ناک اور منہ برقعے کے سیاہ اور باریک کپڑے میں ڈھانپ رکھا ہو اور اس کی صرف گوری گوری پیشانی نظر آئے جس پر بھورے بھورے چند ایک بال بکھرے ہوں۔ اس کی شربتی آنکھیں آپ کو دیکھ کر مسکرا رہی ہوں اور وہ آپ کو آنکھوں سے لطیف سا اشارہ کر دے تو کوشش کریں کہ رکیں نہیں، اسے دیکھیں نہیں، اس کے قریب مت جائیں کیونکہ وہ ایک حسین چڑیل ہو گی جو آپ کو کہیں کا نہیں چھوڑے گی۔ میں وہی چڑیل ہوں۔ میں اپنا سہاگ اجاڑ چکی ہوں۔ اب سہاگ اجاڑتی پھرتی ہوں۔

میں کوٹھے والی طوائف نہیں ہوں۔ میں بازار میں بیٹھنے والی رنڈی بھی نہیں ہوں۔ میں افسانہ نویسوں والی بیسوا بھی نہیں ہوں۔ میں اس عورت کی بد روح ہوں جسے خدا نے بڑے ہی پیارے اور معصوم روپ میں زمین پر اتارا اور جنت اس کے قدموں میں رکھ دی۔ میرے طلبگار مجھے جنت ارضی کی حور سمجھتے ہیں مگر میں سیاہ برقعے میں لپٹا ہوا جہنم ہوں۔ میں مقدس عورت کی بھٹکتی ہوئی روح ہوں۔ میں کون ہوں؟ میرا نام کیا ہے؟ میں کہاں کی رہنے والی ہوں؟ میری یہ کہانی پڑھنے کے بعد ان سوالوں میں سے کسی ایک کا بھی جواب نہیں ملے گا۔ ان سوالوں کا جواب دینا ضروری بھی نہیں سمجھتی۔ آپ پوچھ کر کریں گے بھی تو کیا؟ میں کہیں رہنے والی تھی مگر اب کہیں کی بھی نہیں رہی۔ ایک ماں اور ایک باپ کی بیٹی ہوں اور دو بھائیوں کی بہن ہوں۔ میں کسی کی بیوی بھی تھی۔ خاوند زندہ ہے اور وہ اب بھی خاوند ہے مگر کسی اور کا ہے میرا نہیں۔ میری ہر رات سہاگ رات ہوتی ہے اور ہر صبح اجڑ جاتی ہے۔ اپنی ماں، باپ، خاوند اور بھائیوں کے لئے میں جیتے جی مر چکی ہوں۔ خاوند سے الگ ہوئے بہت عرصہ ہو گیا ہے۔ میں نے اس سے حق مہر اور خرچے کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ طلاق کی ذمّہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے۔ میں کسی شریف آدمی کی بیوی بننے کے قابل نہیں ہوں۔
اور میرا نام کیا ہے؟ میرا نام۔۔۔۔۔۔۔؟ جی ہاں جب میں پیدا ہوئی تھی تو میرے ماں باپ نے میرا ایک نام رکھا تھا۔ میرے محلے والے اور میری برادری والے ایک عرصہ ہو گیا ہے اس نام پر تھوک چکے ہیں۔ میں نے خود بھی اس نام کو یادوں کی تختی سے مٹا دیا ہے۔ اب میرا کوئی نام نہیں ہے۔ میرے چاہنے والوں نے میرے نام اپنی پسند کے رکھے ہوئے ہیں۔ سرگودھا کا ایک بڑا زمیندار ہے جو ہر سال گرمیوں میں مری آتا ہے۔ میرے ہوٹل میں ٹہرتا ہے اور مجھے اپنے ساتھ رکھتا ہے۔ وہ مجھے بلو کہتا ہے۔ اسلام آباد کا ایک ڈپٹی سیکرٹری بھی میرا مستقل گاہک ہے۔ وہ مجھے منھی کہہ کر بلاتا ہے۔ گلبرگ کے کچھ شہزادے آتے ہیں جو مجھے سویٹی کہتے ہیں۔ ایک بار ایک داڑھی والا گاہک بھی آیا تھا جس نے مجھے جان کہا تھا۔ بڑی عمر کے گاہک بھی میرے پاس آتے ہیں جو بڑے عجیب و غریب ناموں سے پکارتے ہیں۔

مجھے نام صرف ایک ہی پسند آیا ہے۔ میں کبھی کبھی اپنے آپ سے باتیں کرتی ہوں تو اسی نام سے خود کو پکارتی ہوں۔ یہ نام زیبی ہے۔ پاک فوج کے ایک کیپٹن نے یہ نام مجھے دیا تھا۔ یہ پہلا اور آخری آدمی ہے جسے میں نے دل کی گہرائیوں سے چاہا ہے۔ وہ میرا گاہک نہیں تھا۔ میرے جال میں پھنس گیا تھا۔ مگر جب میرے قریب آیا تو میں اس کے جال میں پھنس گئی۔ اس نے میرے اندر انقلاب برپا کر دیا۔ معلوم نہیں اسے زیبی نام کیوں پسند تھا۔ وہ مجھے زیبی کے نام سے پکارنے لگا تو مجھے بھی یہ نام اچھا لگنا شروع ہو گیا۔ ہم نے شادی کا فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ اپنا فرض پورا کر کے شادی کرنا چاہتا تھا۔ اگست 1965ء میں مجھے یہ کہہ کر کشمیر چلا گیا تھا کہ واپس آ کر شادی کروں گا مگر واپس نہیں آیا۔ وہ مقبوضہ کشمیر میں شہید ہو گیا تھا۔ اس کی کہانی آگے چل کر سناؤں گی۔ اس کی یاد آتی ہے تو تڑپا جاتی ہے۔ مجھے اس سے زیادہ سخت سزا اور کیا ملے گی کہ میں شہید کی بیوی نہ کہلا سکی۔ اب اپنے وجود کو ایک شہید کے ساتھ وابستہ کرتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے۔

یوں تو ساری زندگی ہی ایک المیہ ہے مگر زندگی کے کچھ لمحے ایسے ہیں جو رنج و الم سے بھر پور ہیں۔ پہلا حادثہ تو بچپن میں پیش آیا تھا۔ سکھوں نے میرا گھر جلا ڈالا تھا اور میرا سکول جلا ڈالا تھا اور ہم پیدل پاکستان تک آئے تھے۔ چار سال پہلے کی بات ہے میرا باپ فوت ہو گیا۔ میرا باپ وقت سے پہلے ہی بوڑھا ہو گیا تھا۔ اسے میرے غم نے جلدی بوڑھا کر دیا تھا۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ بیٹیوں کی باپ کی عزت کچے دھاگے سے لٹک رہی ہوتی ہے۔ جوان بیٹی کسی بھی وقت یہ دھاگہ توڑ سکتی ہے۔ میں نے لڑکپن میں ہی اپنے باپ کی عزت کا وہ دھاگہ توڑ دیا تھا۔ یہ ہی روگ میرے باپ کو جلدی قبر میں لے گیا ہے۔ مجھے صرف یہ غم نہیں کہ میرا باپ فوت ہو گیا بلکہ اصل دکھ یہ ہے کہ میں ان کی موت کے وقت ان کے پاس نہیں تھی۔ ان کی میت نہیں دیکھی۔ اپنی ماں کو روتے نہیں دیکھا۔ کیونکہ مجھے گھر والوں نے دھتکار دیا تھا۔

میں اپنے والد کی میت کے پاس کھڑی ہو کر بین نہیں کر سکی۔ بھائیوں کے گلے لگ کر رو نہیں سکی۔ میں تو اپنے باپ کا چہرہ بھی نہیں دیکھ سکی۔ میں یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ میرے باپ نے مرنے سے پہلے مجھے یاد کیا تھا یا نہیں۔ ہو سکتا ہے میرے باپ نے آخری وقت خدا کا شکر کیا ہو کہ وہ اس دنیا سے جا رہے ہیں۔ میرا ناپاک وجود میرے باپ کے لئے سراپا روگ تھا۔ میرے گناہوں کی ذمّہ داری میرے باپ پر بھی عائد ہوتی ہے مگر میں سارے گناہ اپنے ذمّے لے لیتی ہوں۔

محض اتفاق تھا کہ والد کے انتقال کی خبر مجھے مل گئی۔ میں تو اپنے محلے، گھر اور برادری کے لئے چھلاوا بن گئی تھی۔ میں کبھی کبھی کسی کو دیکھ لیتی تھی۔ مجھے کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ مجھے ایک روز اپنی پرانی سہیلی نظر آ گئی۔ مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں ایک باغ میں شکار کی تلاش میں گھوم پھر رہی تھی۔ مجھے اپنی جان پہچان کے لوگ نظر آتے رہتے تھے مگر مجھے کوئی برقعے میں پہچان نہیں سکتا تھا۔ یہ سہیلی نظر آئی تو مجھے بچپن یاد آ گیا۔ بڑی پیاری سہیلی تھی۔ میں نے اسے روک لیا۔ چہرے سے نقاب نہیں ہٹایا۔ میں نے اسے بلایا تو اس نے مجھے پہچان لیا۔ پہلے تو حیران ہوئی پھر رو پڑی۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ کہاں رہتی ہو؟ شادی کر لی ہے؟ خاوند کیسا ہے؟ گھر کیوں نہیں آتی؟ میں نے سب سوالوں کے غلط اور جھوٹے جواب دئیے۔ اسے یہ تو نہیں بتایا کہ شادی نہیں ہوئی مگر خاوندوں کی کمی نہیں۔ میری سہیلی نے مجھے بتایا کہ میرا باپ فوت ہو گیا ہے۔ وہ میرے محلے میں رہنے والی تھی۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ جنازہ کل دس بجے اٹھے گا۔ میں دوسرے دن دس بجے قبرستان کے راستے میں جا کر کھڑی ہو گئی۔ کوئی ایک گھنٹے بعد جنازہ آیا۔ میں نے اپنے دونوں بھائیوں کو اور محلے کے بہت سے لوگوں کو دیکھا۔ میں نے برقعے کے دونوں نقاب گرائے ہوئے تھے۔ جنازہ دیکھ کر میں تیز تیز قدم اٹھاتی قبرستان کی طرف چل پڑی۔ وہاں جا کر جنازگاہ کے قریب ایک قبر کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی تاکہ کوئی شک نہ کرے۔ جب جنازہ میرے پاس سے گزرا تو بڑی مشکل سے خود کو قابو میں رکھا۔ میں بھاگ کر والد کے پاؤں میں سر رکھ کر معافی مانگنے کو بے تاب ہو گئی تھی۔ باپ بیٹی کو لمبی جدائی کے بعد اس طرح ملنا تھا۔ میں نے ہونٹ دانتوں کے نیچے دبا لئے اور اپنے سینے سے اٹھتی ہوئی چیخوں کو روک لیا۔ میں اس قبر کے سرہانے بیٹھ گئی جس کے پاس کھڑی تھی۔ مجھے ماں یاد آ گئی۔ میری ماں بیوہ ہو گئی تھی۔ میں اجنبی قبر پر ہاتھ رکھ کر اتنا روئی کہ ہچکی بند گئی۔ مجھے گھر سے فرار ہوئے پانچ سال ہو گئے تھے اور پانچ سال بعد اپنے بھائیوں کو دیکھ رہی تھی۔ دیکھا بھی تو اس حال میں کہ دونوں بھائی باپ کا جنازہ اٹھا کر پاس سے گزرے۔
زرا آگے جا کر میرے بھائی نے باپ کو کندھا دیا تو مجھے وہ وقت یاد آ گیا جب میرا باپ مجھے کندھوں پر اٹھائے پاکستان کی سرحد میں داخل ہوئے تھے۔ وہ 17 اگست 1947ء کا پچھلا پہر تھا۔ اس وقت میری عمر ساڑھے چھے سال تھی۔ یہ ہی دو بھائی میرے ساتھ تھے۔ ایک کی عمر بارہ سال اور دوسرے کی عمر سولہ سال تھی۔ ہندوستان کے پانی کا آخری گھونٹ پاکستان کی سرحد سے چار پانچ میل دور ایک گندے جوہڑ سے پیا تھا۔ میں اللّٰہ کے در کی راندی ہوئی بیسوا ہوں۔ آبرو باختہ ہوں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ مجھ جیسی بیسوا کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور کوئی کردار نہیں ہوتا۔ لیکن میں اگست کے مہینے کی عظمت کو نہیں بھول سکتی۔ اگست کے شہیدوں کو نہیں بھول سکتی جو پاکستان کے نام پر شہید ہوئے تھے۔ زندہ جل گئے تھے۔ ہجرت کے راستے میں پیاسے شہید ہو گئے تھے۔ مجھے اگست کے مہینے اتنے یاد آتے ہیں کئی کئی دن تک روتی رہتی ہوں۔

میری محبت بھی اگست کے مہینے میں شہید ہو گئی تھی۔ میں نے اگست 1956ء میں اپنے ہاتھوں اسے کشمیر کی طرف خدا حافظ کیا تھا۔ لوگ اگست کی برسات کو رومان انگیز کہا کرتے ہیں۔ ساون کے مہینے کو لوگوں نے عشق و محبت سے جوڑ رکھا ہے مگر ساون کا مینہ برستا ہے تو مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ آسمان رو رہا ہے۔ میں جب تک اگست 1947ء کی پوری روئیداد نہیں سناؤں گی اپنی کہانی کو نامکمل ہی سمجھوں گی۔ میں نے ہندوستان کے ایک گندے جوہڑ کا ذکر کیا ہے جہاں سے پانی پیا تھا۔ اس جوہڑ سے پندرہ میل دور ایک قصبہ تھا جس کا نام یہاں نہیں بتاؤں گی۔ میں اپنے دو بھائیوں کے ساتھ اس قصبے میں پیدا ہوئی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ میری پیدائش پر میرے والدین نے خوشی نہیں منائی ہو گی۔ ہمارے معاشرے میں بھی لڑکی کی پیدائش پر خوشی نہیں منائی جاتی بلکہ کچھ گھروں میں تو ماتم کی فضاء قائم ہو جاتی ہے۔ والدین کو یہ ہی ڈر ہوتا ہے کہ اگر ان کی بیٹی مجھ جیسی نکل گئی تو منہ دکھانے کے قابل نہیں ہوں گے۔ میرے والدین نے اگر میری پیدائش خوشی نہیں منائی ہو گی تو اچھا ہی کیا ہو گا۔ میں نے بھی اپنے والدین کو بدنامی کے سوا دیا ہی کیا تھا۔

ہمارے قصبے میں ایک چھوٹا سا سکول تھا۔ میں اسے سکول اس لئے کہہ رہی ہوں کہ وہ مسجد نہیں تھی۔ ماحول مسجد والا ہی تھا۔ جوں جوں میری عمر آگے جاتی جا رہی ہے یہ سکول میری یادوں پر غالب آتا جا رہا ہے۔ ذہن میں اس کا تصور دن بدن واضح ہوتا جا رہا ہے۔ بوڑھا سا ایک استاد ہمیں عربی اور اردو کا قاعدہ پڑھایا کرتا تھا اور گنتی یاد کرایا کرتا تھا۔ یہ سکول چوتھی جماعت تک تھا۔ پہلی جماعت میں بچے اور بچیاں اکٹھی ہی پڑھتی تھیں۔ دوسری جماعت سے الگ الگ کر دیا جاتا تھا۔ ہم چٹائیوں پر بیٹھتے تھے۔ یہ ایک پرانا سا مکان تھا۔ قصبے کے مسلمان اسے خود ہی چلا رہے تھے۔ مذہب اور اردو پر زیادہ زور دیا جاتا تھا۔ میں نے پہلی جماعت اسی سکول سے پڑھی اور دوسری جماعت میں ہو گئی تھی۔ دوسری جماعت میں ہم صرف لڑکیاں تھیں۔ ہماری تعداد سولہ تھیں۔ اس وقت لڑکیوں کو پڑھانے کا رواج نہیں تھا۔ میرے ابو کہا کرتے تھے کہ وہ زمانہ گزر گیا ہے جب لڑکیوں کو ان پڑھ رکھ کر بارہ تیرہ سال کی عمر میں پردے میں بٹھا لیاجاتا تھا اور پھر ساری عمر قید میں ہی گزار دیتی تھیں۔

مجھے کچھ علم نہیں تھا کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے۔ چھے سات سال کی عمر کی لڑکیوں کو ملک کی سیاست سے کیا واسطہ؟ مگر جب ملک میں سیاسی انقلاب آیا تو ناجانے مجھ جیسے کتنے ہزار یا کتنے لاکھ بچے کچلے گئے، زندہ جل گئے یا ذبح کر دئیے گئے۔ میں اپنے بچپن کا وہ دن لاکھ کوشش بھی کروں تو نہیں بھلا سکتی جب سکھوں نے ہمارے سکول کو جلا ڈالا تھا۔ اس وقت سکول خالی تھا۔ بچوں کے والدین نے دو دن پہلے ہی بچوں کو سکول جانے سے روک دیا تھا۔ گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہو گئیں تھیں۔ ہمیں مزید چھٹیاں دی گئیں تھیں لیکن یہ نہیں بتایا کہ یہ چھٹیاں کیوں دی گئیں تھیں۔ مجھے یہ بھی یاد کہ ہمارے والدین گھبرائے گھبرائے سے تھے۔ انہوں نے ہمیں گھروں سے دور جانے سے بھی منع کر دیا تھا۔ میرے والد گھر سے ساٹھ میل دور سرکاری ملازمت کرتے تھے۔ وہ بگڑتے ہوئے حالات کی وجہ سے ایک مہینہ چھٹی لے کر گھر آ گیا تھا۔ اپنے ابو کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی تھی۔ میرا ابو مجھ سے بہت پیار کرتا تھا مگر اس بات اس کا رنگ اڑا ہوا تھا اور وہ کھوئے کھوئے تھے۔

ایک دن باہر غل غپاڑہ اور بھاگ دوڑ سنائی دی۔ کسی نے بتایا کہ سکھوں نے ہمارے سکول اور دو مسجدوں کو آگ لگا دی تھی۔ میرا ابو گھر نہیں تھا۔ دونوں بھائی بھی گھر نہیں تھے۔ میری عمر پردہ کرتی تھی مگر وہ بغیر برقعے کے باہر کو دوڑ پڑی۔ اس نے میری پرواہ ہی نہیں کی۔ میں بھی ماں کی گھبراہٹ دیکھ کر اس کے پیچھے دوڑ پڑی۔ گلی عورتوں اور بچوں سے بھری ہوئی تھی۔ ان میں مرد بھی تھے۔ میری امی اس ہجوم میں غائب ہو گئی مگر جلد ہی نظر آ گئی۔ میرے والد امی کو پکڑ کر لا رہا تھا۔ میری امی رو رہی تھی اور میرے بھائیوں کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔ گلی میں جو عورتیں تھیں سب چیخ چلا رہی تھیں اور اپنے بیٹوں اور خاوندوں کو پکار رہی تھیں۔ ابو امی کو لے کر اندر آ گیا اور ابو نے بتایا کہ سکھوں نے ہمارے سکول اور دو مسجدوں کو آگ لگا دی ہے۔ ابو نے یہ بھی بتایا کہ سکھوں نے مسلمانوں سے کہا ہے کہ اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو آج شام تک یہاں سے نکل جاؤ۔ ورنہ سب کو قتل کر دیا جائے گا۔

یہ 15اگست 1947ء کا دن تھا۔ اس روز ہندوستان میں آزادی کا پہلا دن منایا جا رہا تھا۔ ہمارے شہر میں سکھوں نے دو مسجدیں اور ایک سکول جلا کر آزادی کا جشن منایا تھا۔ پاکستان میں آ کر مجھے پتہ چلا تھا کہ 15 اگست کو ہندوستانیوں نے مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیل کر جشن منایا تھا اور یہ خونی کھیل بہت دنوں تک جاری رہا تھا۔ اس روز ہمارے شہر کے سکھوں نے مسلمانوں پر بہت بڑا احسان کیا تھا کہ انہیں زندہ نکل جانے کی مہلت دے دی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے بہت اچھا وقت گزارا ہے اس لئے ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے ہاتھوں مسلمانوں کا خون ہو۔ سکھوں نے سکول اور مسجدوں کو آگ لگا کر مسلمانوں کو وارننگ دی تھی۔ اپنے گھروں سے کون نکلنا چاہتا تھا؟ سورج غروب ہونے تک ناجانے کتنے مسلمان گھروں سے نکل کر پاکستان کی طرف چلے گئے تھے البتہ ہم نہیں نکلے تھے۔

پھر ایک بڑے ہی ڈراؤنے خواب کی طرح مجھے یاد ہے کہ میں گہری نیند سوئی ہوئی تھی۔ ایک زور دار جھٹکے سے میری آنکھ کھل گئی۔ کسی نے مجھے اٹھا رکھا تھا اور دوڑے جا رہا تھا۔ ڈر سے میری چیخ نکل گئی تو مجھے میرے والد کی صاف آواز سنائی دی۔ وہ مجھے اٹھا کر دوڑ رہے تھے۔ یہ سمجھنے کے لئے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے میں پوری طرح بیدار ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔ لیکن بچپن کی نیند میرے ذہن کو بیدار نہیں ہونے دے رہی تھی۔ میری امی اور دونوں بھائی بھی ساتھ تھے۔ بہت زیادہ شور ہو رہا تھا۔ چیخیں بھی تھیں۔ شعلے بھی تھے۔ لوگ بھاگ دوڑ رہے تھے۔ میں کبھی بیدار ہو جاتی اور کبھی گہری نیند سو جاتی۔

جب میں پوری طرح جاگی تو سر پر کوئی چھت نہیں تھی۔ دائیں بائیں کسی مکان کی کوئی دیوار نہیں تھی۔ اوپر آسمان تھا۔ نیچے زمین تھی۔ اردگرد کھیتیاں اور ویرانہ تھا۔ میں نے سخت گبھراہٹ کے عالم میں گرد و پیش کا جائزہ لیا۔ مجھے بڑے بھائی نے اٹھا رکھا تھا۔ والد صاحب، امی اور چھوٹا بھائی ساتھ چلے جا رہے تھے۔ ہمارے آگے بھی کچھ خاندان جا رہے تھے۔ کچھ پیچھے بھی آ رہے تھے۔ دائیں بائیں بھی دور دور لوگ جا رہے تھے۔ میری امی رو رہی تھی۔ میرا چھوٹا بھائی بھی رو رہا تھا۔ بڑے بھائی کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں۔ وہ ہانپ رہا تھا اور تھک گیا تھا۔ میں سب کو دیکھتی تھی مگر ڈر کے مارے کچھ پوچھتی نہیں تھی کیونکہ سب خاموش تھے۔ میں نے ادھر ادھر اور دائیں بائیں دیکھا۔ مجھے اپنا قصبہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ میں نے سب کی خاموشی اور گردو پیش سے خوفزدہ ہو کر رونا شروع کر دیا۔ بڑے بھائی نے کہا۔ "چپ ہو جا۔ ورنہ سکھ آ کر مار جائیں گے۔" میرا خوف اور زیادہ بڑھ گیا۔

سورج نکل آیا۔ بڑے بھائی نے مجھے اتار دیا۔ والد صاحب نے مجھے چلنے کو کہا۔ میرے پاؤں میں جوتی نہیں تھی۔ والد صاحب مجھے ننگے پاؤں اٹھا لائے تھے۔ میں والد صاحب کی انگلی پکڑ کر چلتی رہی یہاں تک کہ پاؤں درد کرنے لگے اور ٹانگیں دکھنے لگیں۔ سب تیز چل رہے تھے۔ میں ان کا ساتھ نہیں دے سکتی تھی۔ میں پیچھے رہ گئی تھی۔ والد صاحب نے مجھے اٹھا کر سر پر بٹھا لیا۔ میں نے ان کے سر کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ سورج سر پر آ گیا اور مجھے جلانے لگا۔ مجھے بھوک اور پیاس تنگ کر رہی تھی۔ میں نے اپنے والد سے کئی بار پانی مانگا مگر والد صاحب کہتے کہ آگے جا کر پیئیں گے۔ دور سے ایک رہٹ نظر آیا۔ اس کے ساتھ ایک کچا مکان تھا۔ والد صاحب نے رخ ادھر کو کر لیا۔ بہت دیر بعد وہاں پہنچے مگر وہاں ایک سیکنڈ کے لئے بھی نہ رکے کیونکہ وہاں پانچ لاشیں پڑی تھیں۔ ایک آدمی، ایک عورت اور تین بچوں کی لاشیں تھیں۔ ان کے کپڑے خون سے لال تھے۔ بچوں میں ایک دودھ پیتا بچہ تھا۔ ایک کی عمر دو تین سال تھی۔ تیسرا میری عمر کا تھا۔ میں چونکہ والد کے کندھوں پر تھی اس لئے مجھے لاشیں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ میرا خاندان پانی پئے بغیر ہی آگے چل پڑا۔ میں پیچھے مڑ کر لاشوں کو دیکھتی رہی۔
دہشت سے میری زبان بند ہو گئی۔ میں یہ پوچھنے سے بھی ڈرتی تھی کہ انہیں کس نے مارا ہے۔ خوف کی وجہ سے میری بھوک اور پیاس بھی ماری گئی تھی۔ میرا پورا جسم کانپ رہا تھا۔ جب باپ تھک گیا اور مجھے نیچے اتارنے لگا تو میں نے چیخیں مارنا شروع کر دیں۔ بیٹی کے لئے باپ رستم زماں ہوتا ہے۔ مجھے امی نے اٹھا لیا۔ رات ہو گئی۔ ہم ایک جگہ رک گئے۔ میں بچی تھی اس لئے سو گئی۔ پھر 17 اگست 1947ء کی صبح طلوع ہوئی۔ رات کو کئی بار ڈر کر جاگی تھی۔

 ہم سب زمین پر سوئے ہوئے تھے۔ مجھے بھوک نے ستایا تو والد نے پیار کیا اور جتنی سمجھ تھی اتنا سمجھایا۔ میرے والد نے مجھے بہت سی باتیں بتائیں تھیں جن میں سے اکثر مجھے بھول گئیں ہیں۔ والد صاحب نے کہا تھا کہ پاکستان ہمارا گھر ہو گا۔ وہاں بہت روٹی ملے گی۔ وہ جنت ہو گا پھر میرا بڑا بھائی بھی میرے پاس بیٹھ گیا اور اس طرح کی باتیں سنانے لگا۔ مجھے یہ بھی بتایا کہ سکھ اور ہندو ہمارے دشمن کیوں ہیں۔

ہم چل پڑے۔ میری حالت یہ تھی کہ میں پتھر ہو گئی تھی۔ مجھے یقین ہو گیا تھا کہ میرے والدین میرے پیٹ میں کچھ نہیں ڈال سکتے۔ میرے ماں باپ خود بھی بھوکے تھے۔ ان کو بچوں کا غم بھی کھا رہا تھا۔ بہت سے لوگ اس سمت جا رہے تھے۔ میرے والد صاحب ہم سے جدا ہو کر دوسرے لوگوں کے پاس گئے اور کافی دیر بعد واپس آئے تو ان کے پاس بھنے ہوئے چنے تھے۔ والد صاحب نے ایک دانہ بھی خود نہیں کھایا۔ سارے بھائیوں کو اور مجھ دے دئیے۔ بھائی نے امی کو دئیے مگر امی نے نہ لئے۔ دریائے ستلج سے تھوڑا پہلے ایک گندا جوہڑ آیا۔ اس سے ہم نے گدلا پانی پیا تو جسم میں جان آ گئی۔ ہم نے ستلج کا پل عبور کیا۔ ان جگہوں کے نام مجھے بہت بعد میں معلوم ہوئے تھے۔ ہم گنڈا سنگھ والا سے پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔
یہ سفر میرے ذہن میں نقش ہو کر رہ گیا ہے۔

 ابھی بھی کبھی کبھی خواب میں بچوں کی لاشیں اور جلتی ہوئی مسجد آتی ہے۔ بڑے ہو کر مجھے ان سارے سوالوں کے جواب مل گئے جو بچپن سے میرے ذہن کو ڈس رہے تھے۔ پاکستان میں ہمیں بہت اچھا گھر مل گیا تھا۔ میرے والد کو سرکاری نوکری مل گئی تھی۔ میرے والد کا محکمہ ایسا تھا کہ باقی سارے محکموں پر رعب رہتا تھا۔ میرا والد صرف اشارہ کرتا تھا اور کام ہو جاتا تھا۔ ہمیں پاکستان میں جو گھر الاٹ ہوا تھا وہ کسی بڑے امیر کبیر ہندو کا تھا۔ بڑا خوبصورت اور کشادہ تھا۔ اتنا خوبصورت گھر دیکھ کر مجھے جو خوشی ہوئی میں بیان نہیں کر سکتی۔ اس میں سارا سامان اور فرنیچر قرینے سے رکھا ہوا تھا جیسے اس میں رہنے والے ابھی یہاں سے نکلے ہیں اور گھر ہمارے لئے سجا گئے ہیں۔ یہ گلبرگ یا ماڈل ٹاؤن کی طرح کی کوٹھی نہیں تھی۔ محلے کا ایک مکان تھا مگر کوئی بھی کوٹھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔ نئی طرز کے صوفے اور پلنگ، ڈائنگ ٹیبل، خوبصورت کرسیاں، چپس کا فرش، ہر کمرے میں چھت کا پنکھا، بیت الخلاء اور غسل خانے اس قدر خوبصورت تھے کہ اس کے استعمال پر شک ہوتا تھا۔ چھت کے ساتھ فوارہ لگا ہوا تھا۔ اس مکان کے آٹھ کمرے تھے۔ پانچ کمرے نیچے تھے اور تین کمرے اوپر۔

اس گھر کو دیکھ کر میں اس گھر کو بھول گئی جو ہم ہندوستان چھوڑ کر آئے تھے۔ ہم لوگ غریب تو نہیں تھے۔ درمیانے درجے سے تعلق رکھتے تھے۔ مکان پرانی طرز کا تھا۔ مگر پاکستان والا گھر دیکھ کر مجھے محسوس ہوا کہ ہم پہلے غریبی والے گھر میں رہتے تھے۔ مجھے سارا پاکستان اس گھر کی طرح خوبصورت دکھائی دے رہا تھا۔ یہ تھا وہ گھر جس نے مجھے بے گھر کیا اور کہیں کا نہ چھوڑا۔ آج اس غریبانہ گھر کو ڈھونڈ رہی ہوں جو ہندوستان میں چھوڑ آئی تھی۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم ہندوستان میں اپنا سامان ، ٹرنک اور چارپائیاں نہیں چھوڑ کر آئے تھے بلکہ اپنی عزت، خاندانی شرافت اور معصومیت وہیں چھوڑ آئے تھے۔ پاکستان کے اس گھر نے ہمارے دماغ خراب کر دئیے اور ہم متوسط طبقے سے ایک دم چھلانگ لگا کر امیر بن گئے۔
جب پاکستان بنا تھا تو مسلمانوں کا بہت کشت و خون ہوا تھا۔ انسانی تاریخ میں شاید اس سے بھی زیادہ قتل و غارت ہوئی ہو گی میں تو نہیں جانتی مگر میرے اندازے کے مطابق ایسی قتل و غارت پہلے کبھی نہیں ہوئی ہو گی جو پاکستان بننے کے وقت مسلمانوں کی ہوئی۔ دودھ پیتے بچوں کو دفن کیا گیا زندوں کو ذبح کر دیا گیا۔ اگر کسی ماں نے بچہ اٹھایا ہوتا تھا اور وہ ایک سال سے کم عمر کا ہوتا تو سکھ اور ہندو اس بچے کو ماں سے چھین کر اوپر پھینکتے تھے پھر بچے کے نیچے تلوار کی نوک کر دیتے تھے اور بچہ تلوار کی نوک کے ساتھ لٹک جاتا تھا۔ جو عورتیں حاملہ ہوتی تھیں ان کے پیٹ میں تلوار مار کر پیٹ چاک کیا جاتا تھا اور بچے کو نکال کر اس معصوم بچے کو بھی ذبح کر دیا جاتا تھا اور زور سے نعرہ لگایا جاتا تھا کہ اب بلاؤ جناح کو جو پاکستان بنانے آیا تھا سالا۔ اگر کوئی جوان لڑکی مل جاتی تھی تو اس کی اجتماعی آبرو ریزی کی جاتی تھی یہاں تک کہ وہ مر جاتی تھی۔ مردوں کے سامنے ان کی بیٹیوں کو ننگا کیا جاتا تھا اور پھر ان کے ساتھ بدکاری کی جاتی تھی۔ جو لڑکیاں زنا کے بعد بھی نہیں مرتی تھیں ان کو بدکاری کے بعد پیشاب والی جگہ پر تلواریں مار مار کر مار دیتے تھے۔ جب لڑکیاں مر جاتی تھیں تو ان کے پستان کاٹ کر کباب بنا کر کھائے جاتے تھے۔ بچوں کو زندہ جلا دیا جاتا تھا۔ جو سکھوں اور ہندوؤں کے ظلم و ستم سے بچ جاتا تھا وہ راستے میں بھوک اور پیاس سے مر جاتا تھا۔ بہت کم لوگ تھے جو ہجرت کا سفر مکمل کر کے پاکستان تک صحیح سلامت پہنچ گئے تھے۔

 ان لوگوں پر خوف اتنا زیادہ تھا کہ آدھے مر چکے تھے۔
ہزاروں لڑکیوں نے اپنی عصمت بچانے کے لئے کنوؤں چھلانگ لگا دی تھی۔ ایک لاکھ سے زیادہ جوان لڑکیاں لاپتہ ہو گئی تھیں۔ ان میں سے بہت سی آج بھی کسی سکھ یا ہندو کے گھر میں ہو گی اور کافر بچوں کو جنم دے رہی ہو گی۔ جن لڑکیوں کا کسی غیر محرم نے بال تک نہیں دیکھا تھا ان کو ننگا کر کے بازار میں جلوس نکالا گیا۔ اتنے زیادہ مکان کبھی کسی ملک میں نہیں جلائے گئے ہوں گے۔ اتنے زیادہ لوگوں نے کبھی بھی ایک ملک سے دوسرے ملک میں ہجرت نہیں کی ہو گی۔ اتنی زیادہ لاشیں کسی ملک میں نہیں لائی گئی ہوں گی جتنی پاکستان میں لائی گئی تھیں۔ کسی قوم نے اپنے جھنڈے کی خاطر اتنی سنسنی خیز قربانی نہیں دی ہو گی جو ہندوستان کے مسلمانوں نے دی۔ مگر ایک اور بھی حادثہ ہوا جسے کم لوگ ہی محسوس کر سکے وہ یہ تھا کہ سرحد پار معمولی مکانوں میں رہنے والے لوگ پاکستان میں محل جیسے گھروں کے مالک بن گئے۔

 بعض محل جیسے مکانوں میں رہنے والے ایک مدت تک ریفیوجی کیمپ میں پڑے رہے تھے پھر جھگیوں، تنگ و تاریک مکانوں یا پھر معمولی سے کوارٹروں یا معمولی سے مکانوں میں آباد ہوئے تھے۔ ان کی بدنصیبی صرف یہ تھی کہ میرے والد کی طرح وہ کسی ایسے محکمے کے ملازم نہیں تھے جو چٹان سے دودھ کی نہریں نکال سکیں۔ وہ چالاکی اور ہاتھ کی صفائی سے بھی نا آشنا تھے۔ وہ صبر کر کے بیٹھے رہے کہ ان کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی اور انہیں ان کا حق مل جائے گا مگر وہ آسمان سے ایسے گرے کہ کھجور میں بھی نہ اٹکے۔ سیدھا زمین پر گرے اور زمین کے کیڑے مکوڑے بن گئے۔

میں اس باپ کی بیٹی تھی جو محکمے کی کدال سے چٹان سے دودھ نکال سکتا تھا۔ ہمیں محل جیسا مکان مل گیا تھا جس میں فرنیچر کے علاوہ ٹرنک بھی تھے۔ گدے اور رضائیوں سے بھری ہوئی بڑی بڑی پیٹیاں بھی تھیں۔ ٹرنکوں میں ریشمی کپڑے اور ساڑھیاں تھیں۔ پھر ہم امیر کیوں نہ کہلواتے۔۔۔۔ اس کے علاوہ خدا نے ہم پر اتنا بڑا کرم کیا کہ میرے باپ کو اتنی بڑی نوکری مل گئی جو ہندوستان میں ہم خواب میں بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ بڑی نوکری تو ملنی ہی تھی۔ سرکاری نوکریوں پر صرف ہندو ہی قابض تھے۔ پاکستان بننے کے بعد وہ سارے ہندو سرحد پار چلے گئے اور ساری آسامیاں خالی پڑی تھیں۔ مسلمانوں میں ابھی پڑھنے کا رجحان نہیں تھا۔ اس لئے جو بھی پڑھا لکھا ہوتا تھا فوری نوکری مل جاتی تھی۔ میرا بڑا بھائی بھی سرکاری افسر بھرتی ہو گیا تھا۔ میرے والد اور میرے بڑے بھائی کا دماغ افسر سے بھی چند درجے اوپر چلا گیا تھا اس بات کا احساس مجھے اس وقت ہوا جب میں امیری اور افسری کے نشے میں اپنی عصمت لٹا چکی تھی۔ میں اس مقام تک پہنچ چکی تھی جہاں سے میرا واپس آنا اور شریف لڑکی کہلانا ممکن نہیں تھا۔

میں نے اپنے والد صاحب میں ایک نمایاں تبدیلی دیکھی۔ وہ سیدھے سادے طریقے سے باتیں کیا کرتے تھے اور سادہ لباس پہنتے تھے۔ مگر جب وہ افسر بھرتی ہوئے تو سادگی ختم ہو گئی۔ وہ پینٹ شرٹ پہننے لگے، ٹائی لگانے لگے۔ باتیں مصنوعی طریقے سے کرنے لگے۔ ہم فرش پر دری بچھا کر کھانا کھایا کرتے تھے لیکن میرے والد نے اس طریقہ کو کم تر سمجھتے ہوئے ممنوع قرار دے دیا اور کہا ڈائنگ ٹیبل پر کھایا کرو۔ نوکر ضروری سمجھا گیا۔ میرے والد نے اپنے دفتر کا ایک چپڑاسی گھر پر رکھ لیا جسے تنخواہ گورنمنٹ دیتی تھی مگر وہ رہتا ہمارے گھر میں تھا اور ہمارے گھر کا نوکر بن گیا تھا۔ میرے والد کی یہ پہلی غیر قانونی حرکت تھی جو کامیاب رہی۔ پھر بہت سی ایسی حرکتوں کے راستےکھل گئے۔ جس نے مجھے تباہی کی منزل تک پہنچا دیا۔

اب تک میں کئی گھرانوں کو اور کئی سہاگنوں کے سہاگ کو تباہ کر چکی ہوں۔ مگر اپنے والد صاحب اور بعد میں اپنے بھائیوں کی کج روی کو اس وقت محسوس کیا جب میں تباہ ہو چکی تھی۔ اس سے پہلے یہ شو بازی، تصنع اور نمود و نمائش مجھے اچھی لگتی تھی۔ پاکستان آتے ہی مجھے لڑکیوں کے ایک پرائمری سکول میں داخل کروا دیا گیا تھا جو میرے ہندوستان والے سکول سے بہت اچھا تھا۔ یہ ایک باقاعدہ سرکاری سکول تھا۔ سکول کے لوازمات موجود تھے۔ اس سکول میں لڑکیاں چٹائیوں پر بیٹھتی تھیں۔ پڑھانے والا کوئی بوڑھا آدمی نہیں بلکہ استانیاں تھیں۔ تعلیم اردو میں تھی۔ دینیات پر زیادہ زور دیا جاتا تھا۔ مگر چھے مہینے بعد ہمارے گھر میں افسری داخل ہو گئی تو مجھے وہ پرائمری سکول کی بچیاں بری لگنے لگی۔ میں ریشمی کپڑے پہن کر سکول جایا کرتی تھی۔ کپڑے ان ساڑھیوں سے بنائے گئے تھے جو اسی مکان میں چھوڑے ہوئے ٹرنکوں سے ملے تھے۔

اس سکول میں ایک خرابی یہ تھی کہ ہندوستان سے آئی ہوئی بچیوں کو پناہ گزیں کہا جاتا تھا۔ پناہ گزینوں کی بچیوں کی فیس معاف کر دی گئی تھی۔ ان میں سے بیشتر بچیاں غریبانہ کپڑے پہن کر آتی تھیں۔ بعض کی قمیضوں کے سائز بڑے ہوتے تھے اور بعض کے چھوٹے۔ یہ کپڑے انہیں خیرات کے طور پر کہیں سے ملے تھے۔ اکثر بچیاں کم خوراک اور تنگدستی کی وجہ سے زرد پیلی ہو گئی تھیں۔ انہوں نے بھی میری طرح قتلِ عام دیکھا تھا اور مکان جلتے دیکھے تھے۔ انہوں نے موت کے سائے میں بھوکے پیاسے پیدل سفر کیا تھا۔ پاکستان میں آ کر بھی ان کے ذہنوں میں دہشت موجود تھی جو ان کی آنکھوں سے صاف نظر آتی تھی۔ اگر کوئی استانی کسی بچی کو ڈانٹتی تو وہ اس طرح سہم کر چیخ اٹھتی جیسے اسے قتل کیا جا رہا ہو۔ آپ کو معلوم ہے کہ بچہ شوخی اور شرارت کی بدولت بچوں میں مشہور ہوتا ہے۔ مگر مہاجر بچیوں کی شوخیاں سرحد کے پار ہی رہ گئیں تھیں۔ ان مری مری بچیوں کو مقامی بچیاں پناہ گزیں کہتی تھیں۔

آہستہ آہستہ پناہ گزیں ایک گالی بن گئی۔ جس کی ابتداء ہماری استانی نے کی تھی۔ ایک روز استانی نے بچی کو چار کا پہاڑا سنانے کو کہا جو وہ اٹک اٹک کر اور گبھرا کر سنانے لگی۔ استانی نے اسے کہا کیا پناہ گزینوں کی طرح منہ بسو کر سنا رہی ہو۔ اچھی طرح سناؤ۔ کلاس میں بچیوں نے بڑی زور سے قہقہہ لگایا اور استانی بھی ہنس پڑی۔ اس کے بعد پناہ گزیں گالی اور طعنہ بن گئی۔ میں بھی پناہ گزیں تھی۔ میں دوسری بچیوں کی طرح پرانے اور پھٹے ہوئے کپڑے پہن کر نہیں جاتی تھی۔ ایک روز استانی نے میرے ریشمی کپڑوں کا بھرم یہ پوچھ کر توڑ ڈالا۔ "یہ کپڑے تمہیں کس نے دئیے ہیں؟"
میں تو چھوٹی سی بچی تھی مگر استانی کا یہ سوال خنجر کی نوک کی طرح میرے دل میں اتر گیا۔ پناہ گزیں ہونے کی وجہ سے مجھ پر بھی دہشت طاری تھی۔ ضرورت یہ تھی کہ مجھ سے پیار کیا جاتا اور ہمیں احساس دلایا جاتا کہ ہم پاکستانی بچیاں ہیں اور ہمیں وہ سب کچھ فراموش کر دینا چاہیے تھا جو ہندوستان میں ہمارے ساتھ ہوا تھا۔ مگر ہمیں احساس دلایا گیا کہ ہم بن بلائے مہمان ہیں۔ خلق کے راندے ہوئے بچے ہیں۔ پاکستان صرف ان کا ہے جو پاکستان میں پیدا ہوئے تھے۔ استانی نے ایک بار پھر اپنا سوال دہرایا تو میری زبان بند ہو گئی۔ ساری کلاس کی لڑکیاں میرے منہ کی طرف دیکھنے لگیں۔ میں تماشا بن گئی۔ استانی نے ڈانٹ کر کہا۔ "بولتی کیوں نہیں؟" میں بولنے کی بجائے رونے لگ گئی۔

دیکھئے صاحب اگر آپ انسان کی نفسیات کو جانتے ہیں تو آپ یہ سمجھنے میں دقت نہیں ہوئی ہو گی کہ میں اور دوسری پناہ گزیں لڑکیوں میں کس طرح کا احساس کمتری پیدا ہو گیا تھا اور ردعمل کے طور پر ان کے اندر کیسے کیسے زلزلے برپا ہوئے ہوں گے۔ میں تعلیم یافتہ عورت ہوں۔ تھرڈ ائیر میں تھی جب گھر سے فرار ہوئی۔ اگر میرا پیشہ عصمت فروشی نہ ہوتا تو میرے بھی بچے ہوتے اور میں ان میں احساس کمتری پیدا نہ ہونے دیتی۔ مگر میں خود تباہ کن احساس کا شکار ہو گئی تھی۔ دوسری بچیوں کے متعلق یہ ہی بتا سکتی ہوں کہ وہ اور زیادہ بجھ گئی ہوں گی۔ میرا ردعمل یہ تھا کہ میں نے دوسری لڑکیوں پر رعب جمانے کا سوچ لیا۔ دوسروں کو یہ دکھانے کے لئے کہ میں پناہ گزیں تو ہوں مگر غریب نہیں ہوں، اور زیادہ مہنگے کپڑے پہننا شروع کر دئیے۔ بچیوں کو بتانا شروع کر دیا کہ میں اتنے بڑے گھر میں رہتی ہوں۔ ہمارے گھر میں صوفے ہیں۔ دروازوں اور کھڑکیوں پر پردے ہیں۔ ہم لوگ میز پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔ میرا ذہن بہتر ہونے کی بجائے غلط سوچوں میں الجھ گیا اور میں شو بازی کرنے لگی۔ ایک دن میں نے اپنے والد سے کہا کہ مجھے سکول میں پناہ گزیں کہتے ہیں۔ یہ بھی بتایا کہ مجھے یہ سکول پسند نہیں ہے۔ اس وقت تک میرے والد کو ترقی مل گئی تھی۔

 والد صاحب نے میری شکایت سنی تو مجھے سکول جانے سے روک دیا۔ دو روز بعد مجھے میرے والد ایک اور سکول میں لے گئے۔ بہت ہی خوبصورت سکول تھا۔ اس سکول کے متعلق تفصیل سے ساری باتیں سنا کر اپنی کہانی سناؤں تو زیادہ بہتر ہو گا۔ ورنہ آپ پر وہ بات واضح نہیں کر سکوں گی جو واضح کرنا چاہتی ہوں۔ مگر کہانی آگے سنانے سے پہلے یہ بتا دینا ضروری سمجھتی ہوں کہ یہ کہانی ذہنی لذت کے لئے نہیں سنا رہی۔ میں دراصل ان والدین کو خبردار کرنا چاہتی ہوں جو میرے والدین کی طرح اپنے بچوں کو مشنری سکول (یہ ایک خاص قسم کے سکول ہوتے تھے جو انگریزوں نے خاص طور پر پاکستان میں بنائے تھے تاکہ مسلمانوں کو عیسائی بنایا جائے۔ اگر عیسائی نہ بن سکیں تو کم از کم اسلام سے بہت دور کر دیا جائے۔ ان سکولوں کا دوسرا بڑا مقصد فحاشی اور عریانی کو پھیلانا تھا، زنا عام کرنا تھا ان اداروں میں پڑھنے والوں کو بڑے عہدوں پر فائز کیا جاتا تھا تاکہ پاکستان سے اسلام صرف نام کی حد تک رہ جائے۔

 انگریز کی یہ کوشش کامیاب ہوئی اور اب تقریباً ہر کالج یونیورسٹی اور سکول میں فحاشی عروج پر ہے۔ لڑکے اور لڑکیاں ایک ہی کلاس روم میں بیٹھتے ہیں۔ بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کا رواج عام ہے۔ اس لئے اب مشنری سکولوں کی ضرورت نہیں رہی اور آہستہ آہستہ مشنری سکول نئی شکل میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ مشنری سکول کی ایک نئی شکل بیکن ہاؤس سکول ہے جہاں آج بھی بچوں سے مذہب چھینا جا رہا ہے۔ ہمارے شہر رائے ونڈ میں بھی ایک مشنری سکول تھا جس کا نام کرسچن انسٹیٹیوٹ رائے ونڈ تھا۔ اس سکول کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو عیسائی بنایا گیا تھا۔ اس سکول کے اردگرد ساری آبادی عیسائی ہو چکی ہے جن کے دادا شاید مسلمان تھے۔) میں داخل کروا کر فخر محسوس کرتے ہیں کہ ان کی بیٹیاں انگریزی پڑھ رہی ہیں۔ اور جوان ہو کر کوٹھیوں اور کاروں والوں کے ساتھ بیاہی جائیں گی۔ میں ایسے والدین کی خوش فہمیاں دور کر دینا چاہتی ہوں۔ یہ بھی بتا دیتی ہوں کہ آپ کو میری کہانی پڑھ کر ذہنی لذت کا بہت سامان ملے گا۔

 اپنے معاشرے کے مردوں کو جتنا میں جانتی ہوں اتنا کوئی نہیں جانتا۔ میرے پاس آ کر مرد صرف جسمانی طور پر ہی ننگے نہیں ہوتے بلکہ اپنے ضمیر بھی ننگے کر کے میرے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ پاکستان کی مردانگی پر جنسی جنون طاری ہو چکا ہے۔ آپ کے رسالوں اور فلموں نے نوجوانوں کے رخ میری طرح موڑ دیا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ مرد میری آب بیتی سے صرف جنسی لذت حاصل کر کے میرے اصل مقصد سے نگاہیں پھیر لیں گے۔ میرا اصل مقصد یہ ہے کہ مرد یہ کہانی پڑھیں تو ایک بار ضرور سوچیں کہ ان کی بہن یا بیٹی اگر کسی ایسے انگریزی میڈیم سکول میں پڑھ رہی ہے تو کہیں وہ بھی میری طرح کسی غلط راستے پر تو نہیں چل پڑی۔
یہ مشنری سکول تھے جو انگریزوں کے دور حکومت میں عیسائیت کے فروغ کے لئے کھولے گئے تھے اور پاکستان کے بننے کے بعد پاکستان کے حصے میں بھی آئے تھے۔ آج بھی پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں ایسے سکول موجود ہیں۔ آپ میں سے شاید کچھ لوگ ان سکولوں سے واقف ہوں گے۔ 

ان سکولوں کے نام کچھ اس طرح کے ہوتے ہیں۔ حبیس میری کانونیٹ، سینٹ کیتھیڈرل، ڈان ماسکو وغیرہ۔ ان سکولوں کے ناموں سے ہی آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک مدت ہوئی یہ سکول عیسائی مشنریوں یعنی مبلغوں نے اچھوتوں، بھنگیوں وغیرہ کے لئے کھولے تھے کیونکہ ان کے لئے ہندؤں اور سکھوں کے سکولوں میں داخلہ ممنوع تھا۔ عیسائی مشنریوں نے اس قسم کے لوگوں کی تعلیم کے لئے یہ سکول کھولے تھے اور ہر سکول کے ساتھ گرجا بھی بنایا تھا۔ یہ سکول بہت صاف ستھرے بنائے گئے تھے۔ انگریزوں نے ان سکولوں میں ایسی پروقار سی کشش پیدا کر دی تھی کہ اچھے گھرانے کے لوگ بھی اپنے بچوں کو ان سکولوں میں داخل کرانے لگے۔
جب پاکستان بنا تو ان سکولوں کی مقبولیت بڑھ گئی۔ ان سکولوں کی مقبولیت کی کچھ وجوہات تھیں۔ ایک وجہ یہ تھی کہ افسروں اور امیر طبقے کے لوگوں نے اپنے آپ کو انگریز کا جانشین سمجھ کر اپنے بچوں کو عام قسم کے سکولوں داخل کرانا اپنی توہین سمجھنا شروع کر دیا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ عام سکولوں کی حالت بہتر ہونے کی بجائے مزید خراب ہو گئی تھی۔ استادوں کا معیار اتنا گر گیا کہ بچوں کو ننگی گالیاں دیتے تھے۔ بعض استاد تو بچوں سے ایک ایک یا دو دو پیسے مانگ لیتے تھے۔ سکولوں کی حالت ایسی تھی کہ اس سے تو کباڑ خانے اور مچھلی مارکیٹ کی حالت بہتر ہوتی تھی۔ پڑھائی کی طرف بھی توجہ نہیں دی۔ پاکستان کو ڈبونے میں استادوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اگر گورنمنٹ سکولوں کے استاد بچوں کو عبادت سمجھ کر پڑھاتے تو انگریزی میڈیم سکول کامیاب ہی نہ ہوتے اور ملک میں انگریزی نظام نہ آتا مگر گورنمنٹ سکولوں میں تعلیم کا معیار گر گیا اور استاد حرام کی کمائی کھانا شروع ہو گئے تو انگریزوں نے اس چیز سے فائدہ اٹھا کر مکمل طور پر انگریزی نظام رائج کر دیا۔ جب عیسائی مبلغوں نے دیکھا کہ پاکستان کے سرکاری سکولوں کی حالت خراب ہے اور امیر لوگ ایسے سکولوں میں بچوں کو داخل کروانا نہیں چاہتے تو انہوں نے مشنری سکولوں کو اور زیادہ پرکشش بنا دیا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ مشنری سکولوں میں داخلہ ملنا ہی مشکل ہو گیا اور لوگ بچہ پیدا ہوتے ہی اپنے بچوں کا نام کسی مشنری سکول میں رجسٹرڈ کروا دیتے تھے پھر بھی داخلہ مشکل ہو جاتا تھا۔ مسلمان بڑے افسر عیسائی پادریوں کے پاس جاتے تھے اور ان کی سفارش طلب کرتے تھے تاکہ ان کے بچوں کو مشنری سکولوں میں داخلہ مل سکے۔ عیسائی پادری ان مسلمان افسروں کی سادگی پر ہنستے تھے کہ کتنی سادہ قوم ہے۔ صرف نام کی مسلمان قوم ہے۔ وہ عیسائی پادری سفارش کر دیتے تھے اور ساتھ ہی اپنا کوئی مطالبہ بھی منوا لیتے تھے۔

 یہ مسلمان افسر اس پہلو کو نظر انداز کر دیتے تھے کہ ان سکولوں میں بچوں کے ذہنوں میں عیسائیت کے جراثیم بھرے جاتے ہیں۔

کبھی کبھی علمائے دین کو خیال آ جاتا اور کانونیٹ جیسے سکولوں کے خلاف اخباروں میں بیان چھپوا دیتے تھے یا جمعہ کے خطبے میں تقریریں کر دیتے تھے۔ چند دن اس طرح کا شور و غوغا ہوتا کہ مشنری سکول بند کئے جائیں، یہ بچوں میں غیر اسلامی رجحانات پیدا کر رہے ہیں۔ اس کے بعد پھر خاموشی ہو جاتی تھی۔ عیسائی سکولوں کی مقبولیت میں اور اپنے سکولوں کی نفرت میں کوئی فرق نہیں آتا تھا۔ بعض لوگ کہتے تھے کہ ان مشنری سکولوں سے جان چھڑانے کا واحد حل یہ ہے کہ اپنے گرد و پیش کے سکولوں کا معیار مشنری سکولوں سے زیادہ اچھا کیا جائے۔ ان کے زور پر گلی گلی نئے سکول تو کھل گئے مگر وہ صرف کاروبار بن گئے۔ فیسوں اور فنڈوں کے نام پر والدین سے بے دریغ پیسے بٹورنے لگ گئے۔
مگر اب عیسائیوں کے سکول بند ہو جائیں اور مسلمانوں کے سکول سدھر جائیں۔ مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ 

میرا کوئی بچہ نہیں ہے جس کی تعلیم کی مجھے فکر ہو گی۔ نہ ہی میرے بطن سے کوئی بچہ پیدا ہو گا۔ مجھے جس تباہی تک پہنچنا تھا پہنچ گئی ہوں۔ میری صرف یہ خواہش ہے کہ پاکستان کا محکمہ تعلیم، اور والدین میرے انجام سے سبق سیکھیں۔ اور صرف میں ہی نہیں میرے جیسی ناجانے کتنی لڑکیاں تباہ ہو چکی ہیں اور ہو رہی ہیں مگر ان کی کہانی سامنے نہیں آتی۔

تمام اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے ہیاں کلک کریں 

آزاد خیال لڑکی کا بھیانک انجام  اردو کہانی - پارٹ 2

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں