خوفناک آہٹ اردو کہانی - پارٹ 3

 خوفناک آہٹ اردو کہانی - پارٹ 1


Sublimegate Urdu Font Stories

 خوفناک آہٹ اردو کہانی - پارٹ 3


الے الے میرا بیٹا جاگ رہا ہے ۔ صلہ اٹھ کر اللہ رکھا کو گود میں اٹھاتی ہے جو کاٹ میں ہاتھ پاوں مار رہا تھا بھوک تو نہیں لگی آپ کو ۔۔۔۔
قانطہ جادوگرنی اپنی جگہ پر بیٹھتی ہے اپنی چھڑی دو بار زمین پر مارتی ہے وہ کرسی سمیت جنگل میں پیپل کے سامنے ظاہر ہوتی ہے ایک بوویش وانی تو سچ ثابت ہوئی دوسری بھی بہت جلد پوری ہوگی تم بہت جلد آزاد ہو جاو گے ہاہاہاہا بلند قہقہہ فضا میں گونجتا ہے بہت جلد ۔۔
پیپل کے نیچے کھنڈر زلزلے سے ہلتا ہے ۔۔
تیز ہوا چلنے لگتی ہے قانطہ کے کپڑے اور بال ہوا میں۔پھڑپھڑانے لگتے ہیں ہوا کے بگولے سوکھے پتوں سمیت ہوا میں بلند ہوتے ہیں
تمہارا یہ خواب کھبی پورا نہیں ہوگا بدزات چڑیل ملنگ وہاں آتا ہے اور کڑک دار آواز میں اس سے مخاطب ہوتا ہے ۔۔
ہوگا زرور ہوگا بڈھے اپنے اردگرد دیکھو تمہیں کچھ سمجھ نہیں آتا ہواوں کا۔رخ۔بدل۔رہا ہے آب ہوا ملنگ کی سمت بہنا شروع ہوگئی تھی اور تم اس دفعہ کچھ نہیں کر پاو گے بس تھوڑا انتظار کرو ہمارا مقصد ضرور پورا ہوگا قانطہ جوش میں آکر کہتی ہے ۔۔
اگر یہ آزاد ہو بھی جاتا ہے اس کا آزاد ہونا کیسی کام نہیں۔آئے گا جب تک جن زاد انسان کے بطن سے پیدا نہیں ہوگا اور یہ ہونا ناممکن ہے کوئی جن زاد انسان کے کوکھ سے جنم نہیں لے سکتا ملنگ نے بے فکری۔سے کہا۔۔۔
یہ ممکن ہوچکا بے خبر بڈھے اور مکرو ہنسی کے ساتھ اپنی چھڑی زمین پر دو بارمارتی ہے اور وہاں سے غائیب ہوجاتی ہے
یہ کیا کہہ کے گئی ہے کیا ممکن ہوچکا کہیں جن زاد بچہ پیدا نہیں نہیں۔یہ کیسے ہوسکتا ہے اپنی سوچوں کو نفی کرتا ہے پیپل ہوا سے زور زور سے ہلنے لگتا تھا جس سے پتوں کا شور پیدا ہوتا ہے ملنگ مڑ کر پیپل کو دیکھتا ہے۔۔ تم سب فکر نہیں کرو میں بھی پریشان ہوں یہ ناسمجھ انسان باز نہیں آئیں گے آج تو تم نے کام۔میں رکاوٹ پیدا کردی پر تم بے گناہ انسانوں کا خون۔نہیں بہاسکتے وہ نہیں جانتے وہ کیا کررہے ہیں ہمیں اللہ۔پر بھروسہ رکھنا چاہیے اسکے کام وہی جانتا ہے ۔۔
. . . . . . . . . . .***********
احمر صبح سائٹ پر پہنچتا ہے تو اسے پتہ لگتا ہے کہ ٹھیکدار کو فالج کا آٹیک ہوا ہے اور وہ ہاسپٹل میں ہیں احمر یہ سن کر پریشان ہوجاتا ہے کہ ہر روز ایک نئی مصیبت نازل ہوجاتی ہے وہ مزدوروں کو کام جاری رکھنے کا کہتا ہے وہ پیڑ کاٹنے لگتے ہیں اور آخر کار وہ ٹاٹم بھی آتا ہے جب پیپل کے پاس پہنچتے ہیں مزدور اتنا بڑا پیپل دیکھ کر خیران ہوجاتے ہیں
ملنگ اچانک کہیں سے آجاتا ہے اور پیپل کاٹنے نہیں دیتا ایک مزدور احمر اور آصف کو آکر بتاتے ہیں وہ اس جگہ پہنچتے ہیں
کیا بات ہے بابا جی آپ پھر آگئے ہمیں پہلے ہی بہت دن ہوگئے ہیں جنگل کی کٹائی کرتے ہوے جایے یہاں سے انکواپنا کام۔کرنے دیں آصف نے غصے سے کہا ۔۔۔
رکو آصف ایسے بات نہیں کرتے میں سمجھاتا ہوں بابا جی کو آپ میرے ساتھ آیے بابا جی جو بھی بات ہے آپ مجھے بتایے آپ پیٹر کیوں نہیں کاٹنے دیتےاحمر نے ملنگ سے پوچھا ۔۔
تم نہیں جانتے اس پیڑ کی اہمیت کو یہ کوئی معمولی پیڑ نہیں ہے یہ تالا ہے نیکی اور بدی کے بیچ خائل دروازے کا اگر یہ تالا ٹوٹ گیا تو بدی پھر سے غالب آئے گی نیکی پر ملنگ نے پراسرار طریقے سے احمر کو بتایا ۔۔۔
تالا دروازہ نیکی بدی آپ کیا کہہ رہے ہیں۔مجھے سمجھ نہیں۔آرہی کھل۔کہ۔بتائیں آپ کیا کہنا چاہتے ہیں احمر نے ناسمجھی سے سر کھجایا۔۔۔۔
لگتا ہے تمہیں۔بتانا پڑے گا تو پھر سنو ملنگ کھوے کھوے انداز میں گویا ہوا
اُن۔دونوں۔میں زندگی کی کوئی دسویں یا بارہویں بہار دیکھ رہا تھا ہمارا چھوٹا سا گاوں تھا گاوں کیا تھا گنتی کے چند گھر تھے وہ بھی دور دور ہم لوگ مویشی پالتے اور کھتی باڑی کرکے گزارا کرتے تھے ہمارے گنتی کے چند گھر مسلمان تھے باقی عیسائی مزہب سے تعلق رکھتے تھے ہمارے گھر سے کوئی دوتین میل دور ایک کلیسا تھا ہر۔طرف امن۔ایمان تھا جب تک وہاں ایک بوڑھا پادری نہیں آیا تھا ۔ وہ کالے علم کاماہر پادری کے روپ میں شیطان کا۔پیروکار تھا جو نوجوانوں کو ورغلاتا اور شیطان کی پرستش کرنے کو کہتا کئی نوجوان اس کے بتاے راستے پر چلنے لگے اور شیطان کی پرستش کرنے لگے وہ عسائیت کی آڑھ میں لوگوں کو شیطان کی۔بیت کرانے لگا جوق در جوق لوگ کلیسے میں شیطان کی پرستش کرنے لگے کئی بوڑھے اور پڑھے لکھےعیسائیوں نے آواز آٹھائی یہ ہمارا مزہب نہیں ہے یہ کچھ۔اور ہی ہے۔ بوڑھے پادری کو کلیسے سے نکالنے کے لیے کہتے پھر اچانک ان لوگوں کی پراسرار طریقے سے موت ہوگئی کیسی نے ان کے سر کاٹ کر انکے جسم گاوں کے باہر درخت پر لٹکا دیے سب کو پتہ ٹھا یہ کس کا کام ہے پر اس کی دہشت اتنی بڑھ گئی کہ کیسی کی بھی ہمت نہ ہوئی اس کا نام لینے کی
کلیسے سے صلیب اتار لی گئی اسکی جگہ شیطان کی مورتی رکھی گئی اس مورتی کا جسم۔انسانی اور سر کیسی گائے سے مشابہت رکھتا تھا جس کے دو بڑے سینگ ماتھے سے آگے کو نکلے ہوے تھے پھر اس نے کھلم کھلا لوگوں کو شیطان کی پرستش کرنے کا علان کرنے لگا جو اس کی بات نہ مانتا اس کی سر کٹی لاش کیسی درخت پر۔جھولتی نظر آتی بھینسوں کا۔دودھ خشک۔ہوگیا فصلیں تباہ ہوگئیں لوگوں کے پاس جو اناج جمع تھا اس کو کیڑا لگ گیا بھوک سے لوگ مرنے لگے جو شیطان کی پرستش کرتا اناج اسکے گھر خود۔بخود پہنچ جاتا یہ دیکھ کہ لوگ شیطان کو سجدہ۔کرنے لگے آہستہ آہستہ پورا گاوں شیطان کا پیروکار بن گیا لوگ عیش وعشرت کی زندگی بسر کرنے لگ گئے دولت کی ریل پیل ہوگئی لوگ خدا کو بھول گئے دن رات شیطان کو سجدے کرتے ایک دن۔پادری نے کہا شیطان تمہارے بچوں کا خون مانگتا ہے اسے خوش کرنے کے لیے تمہیں۔اپنے بچے شیطان کو بھینت چڑھانے ہونگے نہیں۔تو وہ تم۔سے ساری عیاشیاں چھین لے گا تم پہلے کی طرح ہوجاو گے بلکے اس سے بھی بتر لوگوں نے اس ڈر سے اپنے معصوم بچے شیطان کی بھینت چڑھانے شروع کر دیے لیکین بدی جتنی مرضی۔بڑھ جائے ایک۔دن اسکو ختم۔ہونا ہوتا ہے معصوم۔بچوں کے گلے شیطان کے قدموں میں کاٹے گئے شاید آب ان۔کے گناہوں کا گڑھا بھر گیا تھا ایک دن گاوں کی مسجد میں دو سفید پوش درویش آئے اور انہوں نے وہاں آکر آزان دی جیسے سن کر وہ پادری غصے سے پاگل ہوگیا اور انہیں مارنے کے لیے لوگوں کو کہا لوگ مسجد کے سامنے اکٹھا ہونا شروع ہوگئے اور ان سفید پوش درویشوں کو مسجد کے باہر آنے کا کہا
درویش مسجد سے باہر آئے انہوں نے لوگوں۔راہ حق اور خداِ یکتہ پر ایمان لانے کو کہا اور جس راہ پر تم چل پڑے ہو یہ تمہیں۔سیدھا جہنم لے جائے گا جو تم۔سودا کر بیٹھے ہو اس میں نرا گھاٹا ہے اس لیے کلمہ پڑھ لو رب معافی مانگنے والے کو۔پسند کرتا ہے اور وہ بڑا معاف کرنے والا ہے
پر لوگوں نے انکی ایک نہ سنی اور انہیں مارنے کے لیے بڑھے پر اصل۔میں وہ درویش اللہ کے پاک بندے تھے انہوں نے اللہ۔کی۔بارگاہ میں دعاکی کہ ہم نے تیرا پیغام ان تک پہنچا دیاہے پر یہ نافرمان لوگ تیری طرف رجوع نہیں کرنا چاہتے تم ان سے بہتر معاملہ فرما اور اللہ کے حکم سے گاوں کے سب لوگ ہلاک ہوگئے وہ درویش کلیسے کی طرف بڑھے اور پادری کو شیطان کی مورتی توڑ کر راہ راست پر آنے کا کہا پر پادری شیطان پرستی میں اندھا ہوچکا تھا وہ بات ماننے سے انکاری ہوگیا اسے کلیسے سمیت زندہ غرق کر دیا گیا پادری کالے علم کاماہر تھا اس لیے اسکی جان اتنی آسانی سے نکلنے والی نہیں تھی اس کلیسے کے ملبے کے اوپر ایک تناور پیپل۔کا درخت اُگ آیا بری طاقتوں نے اسے آزاد کرانے کی بڑی کوشش کی لیکین۔وہ پیپل۔کو ٹس سے مس نہ کرسکے پھر ابلیس نے درویشوں سے رابطہ کیا اور کہہ مجھے اورمیرے پیروکارو کو قیامت
تک چھوٹ ہے آپ لوگوں نے اسے زندہ دروگر کیوں کر دیا اسے آزاد کرانے کا کوئی طریقہ ہے درویشوں نے پیشنگوئی کی کہ جب تک اس پیپل کو کوئی انسان نہیں کاٹے گا تب تک یہ اس کے اندر قید رہے گا اور اسکی مدد ایک جن زاد بچہ کرے گا جوکیسی انسان کے بطن سے پیدا ہوگا اس کے بنا یہ کچھ نہیں۔کر پائے گا اتنی کڑی شرط سے ابلیس کھولتا ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک جن زاد انسان کے جسم۔سے جنے ۔۔۔
ٹھیک ہے بہت جلد یہ دونوں باتیں پوری ہونگی ابلیس غصے میں جلتا انکے پاس چلا جاتا ہے اس پیپل کی نگرانی کے لیے ایک درویش کو معمور کیا جاتا ہے اور پیپل کے گرد گھنہ جنگل اگا دیا جاتا ہے نسان کی دسترس سے دور اس پیپل پر خداِ یکتہ پر ایمان لائےجنات بسیرا کرتے ہیں پھر ہزاروں سالوں بعد انسانی آبادی بڑھنے لگی اور جنگلات کاٹ کر شہر آباد ہونے لگے

اور وہ پیپل تمہارے سامنے ہے اور تم۔اسے کاٹنا چاہتے ہو ۔۔۔۔
ملنگ کی باتیں سن کر۔سب ایک دوسرے کو۔دیکھتے ہیں اور پھر سب ہی قہقہے لگانے لگتے ہیں احمر کی بھی ہنسی۔چھوٹ جاتی ہے وہ اور آصف ہاتھ پہ ہاتھ مار کہ ہنستے ہیں بابا جی یہ دیو ملائی کہانیاں ہم۔بچپن میں۔سنتے تھے تب اچھی لگتی تھیں۔اور ہم۔ان پہ من وعن یقین بھی کرتے تھے اور ایک بات ہزاروں سالوں سے آپ ہمیں یہ بتانے کے لیے زندہ ہیں پھر آپ نے کہا کہ پورا گاوں ہلاک ہوگیا پھر آپ کیسے بچ گئےکچھ عقل کو ہاتھ ماریں ایسا کچھ نہیں ہوتا آپ جایے ہمارا ٹائم ویسٹ نہ کریں چلو تم لوگ پیڑ کو کاٹو مزدور ہنستے ہوے پیڑ پر چین سہ۔چلاتے ہیں چین سہ کے چلتے ہی نہ سنائی دینے والی چیخوں سے پورا جنگل گونج اٹھتا ہے چرند ہر طرف بھاگنے لگتے ہیں پرند شور کرتے ہوے آسمان کی طرف اڑنے لگتے ہیں پورے جنگل میں ان کی بولنے اورچلانے کی آوازیں آنے لگیں۔۔۔ آندھی طوفان بڑے بڑے مٹی کے بگولے ہوا میں بلند ہونے لگے زمیں۔زلزلے سے کانپنے لگی
یہ کیا ہو رہا ہے احمر پریشان ہوجاتا ہے وہ سب واپس بھاگتے ہیں طوفان اتنا شدید ہوتا ہے کہ سب کچھ اُڑا لے جاتا ہے پیڑ جڑوں سے اکھڑجاتے ہیں احمر آصف اور باقی مزدور ہوا میں چیختے۔چلاتے سوکھے پتوں کی مانند اُڑتے ہوے دور جاگرتے ہیں ہوا کے بگولے گاڑیاں مشنری اُڑا لے جاتے ہیں ملنگ اپنی جگہ کھڑا رہتا ہے
آب تباہی ان کا مقدر ہے یہ سچ ہے کہ انسان اپنی مصیبتیں خود بلاتا ہے وہ۔طوفان اصل۔میں جنات ہوتے ہیں۔ جن کا مسکن تباہ کر۔دیا گیا تھا وہ۔غصے سے پاگل۔ہوگئے تھے ہزاروں۔سالوں سے ادھر راہ رہے تھے ان کے پورے پورے خاندان ادھر آباد تھے لیکین ایک جھٹکے میں سب کچھ تباہ کر دیا گیا تھا ایک میل تک پھیلا پیپل زمیں۔بوس ہوا پڑا تھا ۔۔
ادھر کانطہ کو جنات کا طوفان دیکھ کر علم۔ہوجاتا ہے کہ پادری آزاد ہوگیا ہے ۔۔
اللہ رکھا سہم جاتا ہے اسے الہام۔ہو جاتا کچھ بہت بیانک ہونے والا ہے وہ۔بے چین ہوکر رونے لگتا ہے۔۔۔ صلہ اس کے پہلی بار رونے سے بہت خوش ہوتی ہے وہ سمجھتی ہےشاید طوفان کی وجہ سے ڈر گیا ہے وہ اسے کندھے سے لگاتی ہے اللہ رکھاپیچھے کھڑی کانطہ کو دیکھتا ہے جو مکرو مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکھ رہی ہوتی ہے یہ۔مجھے دے دو قانطہ سرد لہجے میں کہتی ہے صلہ اس کے سرد رویے سے ڈر جاتی ہے اور مڑ کر قانطہ کو دیکھتی ہے اس کی نظروں سے اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ جاتی ہے نہیں۔رہنے دو میں سنبھال لوں گی اسے وہ اللہ رکھا کو زور سے بھنچتی ہے ۔۔۔
میں نے کہا نا مجھے دے دو یہ بچہ قانطہ غضبناک ہوکر کہتی ہے ۔۔۔
نہیں میں اپنا بچہ نہیں۔دوں گی چلی جاو یہاں سے صلہ اسکی نطروں اور لہجے سے حائف ہو کر کہتی ہے ۔۔
چلی جاوں گی تم یہ بچہ مجھے دے دو یہ تمہارا بچہ نہیں ہے یہ جن زاد ہے جو تیری کوکھ سے جنہ ہے بس اسےمجھے دے دو میں تمہیں نظر بھی نہیں آوں گی وہ پیار سے پچکارتی آگے بڑھتی ہے ۔۔
رک جاو وہاں نزدیک مت آنا یہ کیا بکواس کر رہی ہو یہ میرا بچہ ہے کیسی۔جن ون کا نہیں میں کہتی ہوں دفعہ ہوجاو یہاں سے نہیں تو میں پولیس کو بلا لوں گی صلہ نے ساری ہمت جمع کرکے کہا ۔۔۔
شوق سے بلاو کہہ تو میں بلا۔دوں وہ اپنی چھڑی دو بار زمیں پر مارتی ہے ایک پولیس والا اپنی کرسی سمیت وہاں ظاہر ہوتا ہے وہ۔پریشانی سے دونوں کو دیکھتا ہے کون ہو تم۔دونوں۔اور میں یہاں۔کیسے میں تو تھانے میں تھا صلہ۔کا اس سے برا حال تھا کاٹو تو خون نہیں ۔۔
اور کوئی خواہش ہو تو وہ بھی بتادو قانطہ نے قہقہہ لگایا ۔۔۔
کو۔۔۔۔کو۔۔کون۔ہو تم کیا چاہتی ہو ہ ہ ہ ہم۔سے اور میرے بچے کے پیچھے کیوں۔پڑی ہو صلہ۔نے ہکلاتے ہوے پوچھا ۔۔۔
پولیس والا پریشانی سےکبھی قانطہ کو دیکھتا کبھی صلہ۔کو آو بی بی مجھے بھی کوئی بتائے گا میں یہاں کیسے پہنچا ۔۔۔
قانطہ نے غصے سے ہاتھ کا وار کیا اور اسکا سر اُڑا دیا وہ زبح ہوئی مر غی کی طرح تڑپنے لگا صلہ کے گلے سے زوردار چیخ برآمد ہوئی اسکی ٹانگیں کانپنے لگیں اس نے خوف سے آنکھیں بند کر لیں خون کا ایک فوارہ اسکی گردن سےپھوٹ پڑا جس کے چھینٹے صلہ۔کے کپڑوں اور منہ پر۔بھی پڑے صلہ سے کھڑے رہنا محال ہو رہا تھا وہ پھر بھی کھڑی رہی اسکی ممتا اسے کھڑا رہنے پر مجبور کر رہی تھی ۔۔
مجھے شور کرنے والے قطعی پسند نہیں قانطہ نے تنفر سے تڑپتے ہوے پولیس والے کو دیکھا جو آہستہ آہستہ ٹھنڈا ہورہا تھا اور دوبارہ صلہ سے مخاطب ہوئی یہ بچہ مجھے دے دے نہیں تو تیرا بھی یہی انجام ہوگا جو اس وردی والے کا ہوا ہے اور آگے بڑھی صلہ کا کانپ کانپ کے برا حال تھا
نہیں دوں گی اس نے بچے کواور مظبوطی سے بانہوں میں بینچ لیا ۔۔ ماما مجھے درد ہورہا ہے صلہ کے کانوں سے ایک بریک سی آواز ٹکرائی اس نے لرزتے ہاتھوں اور کانپتی ٹانگوں کہ ساتھ اللہ رکھا کو سامنے کیا صلہ کا رنگ فق ہوگیا تھا ۔۔
ماما آپ ڈرو نہیں اللہ۔رکھا نے گول گول آنکھیں جھپک کر کہا کچھ دن کے بچے کو بولتا دیکھ صلہ ہوش سے بیگانہ ہوکر گیر جاتی ہے ۔
. . ********
جنات کا غصہ کم ہوتا ہے
طوفان تھمتا ہے ۔۔
جنات زمیں پر اترنے لگتے ہیں سفید دھویں کی مانند ۔۔
وہ۔ملنگ کے گرد اکھٹا ہوتے ہیں ۔۔
اے اللہ۔کے نیک بندے ادم کی اولاد نے ہمیں۔پسپاکیا ہمارا مسکن اجاڑ دیا تو ہماری رہنمائی کر بے شک وہ زمیں پر۔فساد پھیلانے والا ہےایک بوڑھا جن ملنگ سے مخاطب ہوتا ہے ۔۔
یہ سب اللہ کے کام۔ہیں صبر رکھو اللہ صبر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے آج ایک شیطان صفت اس کا پیروکار آزاد ہوگیا ہے بری طاقتیں پھر سے زمیں پر اکٹھی ہورہی ہیں لیکین وہ کچھ نہیں کر پائیں گی جب تک جن زاد بچہ انسان کے گھر پیدا نہ ہو اور وہ کبھی پید نہیں ہوگا تم جانتے ہو انسان اور جنات کا ملاپ کبھی نہیں ہوسکتا اور ملاپ کے بغیر بچہ پیدا ہونا ناممکن ہے اس لیے یہ شرط رکھی گئی اس حوالے سے میں بے فکر ہوں ملنگ کی باتیں سن کر ایک جن زادی مضطرب ہوجاتی ہے وہ اپنی ماں کو سب بتاتی ہے ایک بوڑھی جن زادی بوڑھے جن کے پاس آتی ہے اور اسے بتاتی ہے کہ ہماری بیٹی جو بچہ جننے والی تھی وہ اس کی کوکھ میں نہیں ہے
کہاں ہو تم۔سامنے آو بوڑھا جن دھاڑتا ہے
جن زادی آگے آتی ہے اور زانوں کے بل بیٹھ جاتی ہے مجھے معاف کر دیں ابا حضور مجھ سے غلطی ہوگئی ۔۔
کہاں ہے بچہ تمہارا کہاں چھوڑ آئی ہو اسے بوڑھا جن آگ بگولہ ہوجاتا ہے ۔۔
ہمارے پیڑ کے پاس ایک آدم زاد آیا تھا میں اسے دیکھ رہی تھی یہ پہلی بار تھا جب کوئی آدم زاد ہمارے پیڑ کے پاس آیا تھا وہ پیڑ کو دور سے ہی دیکھتا تو صحیح تھا وہ پیڑ کے بہت نزدیک آگیا تھا جب وہ نزدیک آیا تو میں نے جانا کہ وہ۔دل کا بہت صاف اور نیک ہے میں پیڑ سے نیچے آگئی اور اسے دیکھنے لگی اسے شاید میری آمد کا الہام۔ہورہا تھا وہ بار بار میری طرف دیکھتا پر میں اسے نظر نہیں۔آرہی تھی یہاں تک بھی سب ٹھیک تھا پھر وہ پلٹا اور جھک کر صلیب کو چورا لیا جو میرا تھا جو آپ نے مجھے دیا تھا وہ اس نے اپنی جیب میں رکھ لیا اور یہ اس نے اچھا نہیں کیا میں۔اپنا صلیب واپس لینے کے لیے اس کے پیچھے گئی وہ صلیب اس نے اپنی بیٹی کو دے دیا میں نے غصے میں آکر اسکے سارے کپڑے پھاڑ دیے میں نے سوچا وہ اپنے بچوں کو مارے گا اور میں تماشہ دیکھو گی پر اس نے ایسا نہ کیا وہ اپنے بچوں۔اور بیوی سے بہت پیار کرتا تھا یہ دیکھ کر میرا دل پسج گیا اور مجھے وہ اچھے لگنے لگے ایک دن وہ گھر نہیں تھا میں بچوں کی چیزیں۔چھپا کر انکے ساتھ کھیل رہی تھی اپنی چیز نہ پاکر وہ ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے لگتے اسکی بیوی بچوں کی آواز سن کر اوپر آئی مجھے شرارت سوجھی میں نے اسے ڈرانے کا منصوبہ بنایا جب وہ۔اوپر آرہی تھی میں ظاہر ہوکر بچوں کے کمرے سے نکلی اور دوسرے کمرے کی دیوار میں گھس گئی ڈر کے مارے وہ۔سیڑھیوں سے گیری میں اسکو مارنا نہیں چاہتی تھی جب میں۔اسکے پاس گئی اسکے بچے کی سانسیں۔سنائی نہیں۔دے رہی تھیں وہ ساکت ہوگیا تھا تبھی وہ گھر میں داخل ہوا اور اسے ہاسپٹل لے گیا میں بھی انکے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی ہاسپٹل میں دوسرے آدم زادوں نے یہ کہہ دیا کہ بچہ مر چکا ہے اور اسکی بیوی بھی نہیں بچ سکتی وہ ٹوٹ گیا اور بچوں کی طرح رونے لگا مجھے اس پر ترس آگیا یہ سب میری وجہ سے ہوا تھا مجھے آب کچھ بھی کرکے اس کے بچے اور اسکی بیوی کو بچانا تھا بچہ مر چکا تھا جو میں۔زندہ نہی۔ کرسکتی تھی پھر میں نے اپنی ممتا کا گلا گھونٹا اور اپنا بچہ اسکی کوکھ میں منتقل کر دیا جس کی طاقت سے اسکی بیوی ٹھیک ہوگئی اور میں وہاں سے لوٹ آئی وہ جن زاد بچہ آدم زاد کے بطن سے پیدا ہوگیا ہے مجھے معاف کر دیں میں آدم۔زاد کی محبت میں آندھی ہوگئی تھی قدرت کے کاموں میں دخل اندازی کر بیٹھی ہوں ۔۔۔
یہ تم نے کیا کیا بے عقل تو اس کا مطلب ہے وہ چڑیل صحیح کہہ رہی تھی مجھے ہی خبر نہ ہوئی ملنگ پریشان ہوگیا تھا تو اس کا مطلب پھر سے بدی غالب آئے گی
بے گناہوں کا۔خون۔ایک بار پھر بہایا جائے گا کہاں۔ہے وہ بچہ اسے مارنا بہت ضروری ہے ملنگ طیش میں آکر کہتا ہے ۔۔
. *********
وہاں سے دور احمر زخمی حالت میں پڑا ہے ۔۔
اسکی آنکھ کھلتی ہی درد کی لہر پورے وجود میں دوڑتی ہے سر میں درد کی طراٹیں اُٹھنے لگتی ہیں اسے سب کچھ یاد آنے لگتا ہے وی اٹھنے کی کوشش کرتا ہے پر اوٹھ نہیں پاتا اسکی ٹانگ ٹوٹ چکی تھی اس نے دیکھا کہ زمین میں کھلبلی ہونا شروع ہوگئی ہے یکایک وہاں سے ایک ہڈیوں کا انسانی ڈھانچہ نکلتا ہے جس کی آنکھوں کے علاوہ ماس کا ایک ٹکرا بھی نہیں ہوتا وہ ڈھانچہ اس کی طرف بڑھتا ہے

تمام اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے ہیاں کلک کریں 

خوفناک آہٹ اردو کہانی - پارٹ 4

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں