پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 25

  

Sublimegate Urdu Font Stories

 پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 25


صبح مجھے جمشید نے آکر جگایا۔ کہنے لگا۔’’ کیا بات ہے۔ رات دیر سے سوۓ تھے ؟ اٹھو دن کے دس بج رہے ہیں۔ نیچے آؤ میں نے ابھی تک ناشتہ نہیں کیا۔“ میں جلدی سے اٹھ بیٹھا۔ باتھ روم میں جا کر منہ ہاتھ دھویا اور نیچے ناشتہ کر نے آ گیا۔ میں نے نیچے آکر ادھر ادھر دیکھا۔ مجھے روہنی کہیں نظر نہ آئی۔ میں اور جمشید بازار کی طرف والے چھوٹے سے کمرے میں بیٹھ کر ناشتہ کرنے لگے ۔ جمشید کہنے لگا۔ "فیروز! جب سے تم گئے ہو میں بھی شکار پر نہیں گیا۔ اب تم آگئے ہو تو کیا خیال ہے کسی روز شکار کھیلنے نہ چلیں؟“ ۔

میں نے کہا۔ ” مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ پروگرام بنالو۔ چلے چلیں گے میں نے بھی ایک مدت سے شکار نہیں کھیلا . . . . . " کمرے کی کھڑکی کھلی تھی۔ ناشتہ کرنے کے بعد میں چائے کی پیالی ہاتھ میں لے کر کھڑکی کے پاس کھڑا ہو گیا اور نیچے سڑک پر بمبئی شہر کی ٹریفک کو دیکھنے لگا۔ اصل میں ، میں روہنی کو دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ ابھی تک مجھے کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی۔
جمشید ابھی تک ناشتے کی میز پر ہی بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا۔ اس نے مجھے آواز دے کر کہا۔ ’’فیروز ! یار میرے ساتھ چاۓ کی دوسری پیالی ہی پی لو۔ تم بڑی جلدی ناشتہ کرتے ہو۔“

میں ناشتے کی ٹیبل پر آکر بیٹھ گیا اور اپنے لئے چائے کی دوسری پیالی بنانے لگا۔ بمبئی میں بارشیں بہت ہوتی ہیں اس لئے اس علاقے میں چاۓ بہت پی جاتی ہے۔ آدمی چاۓ نہ پئے تو جسم ٹوٹنے لگتا ہے ۔
میں چائے کی دوسری پیالی کا ایک ایک گھونٹ پی رہا تھا اور کمرے میں ادھر ادھر بھی دیکھ لیتا تھا۔ میں حیران تھا کہ روہنی ابھی تک کیوں نہیں دکھائی دی۔ میرے ادھر ادھر بار بار دیکھنے کو جمشید نے نوٹ کر لیا اور پوچھنے لگا۔ ’’تم ادھر ادھر کیا دیکھ رہے ہو ؟“

میں نے کہا۔ ”کچھ نہیں۔ ویسے ہی دیکھ رہا ہوں۔“ اتنے میں مجھے روہنی دروازے میں سے کمرے میں داخل ہوتی نظر آئی۔ روہنی کے ساتھ باتیں کرتے ہوۓ ایسا ہوتا تھا کہ میں تو اس کی آواز سن لیتا تھا مگر وہاں پر موجود کوئی دوسرا آدمی اس کی آواز نہیں سن سکتا تھا۔ روہنی کو دیکھ کر میرے منہ سے بے اختیار نکلنے ہی لگا کہ تم کہاں تھیں مگر میں جلدی سے سنبھل گیا کہ جمشید نے سن لیا تو وہ حیران ہو کر پوچھے گا کہ تم کس سے مخاطب ہو۔ روہنی سیدھی میرے پاس اکر میرے پاس جو کرسی تھی اس پر بیٹھ گئی۔ کہنے لگی ۔ ”

میں علاقے میں بدروحوں کی سراغ رسانی کرتی ذرا دور نکل گئی تھی۔ تم پریشان تو نہیں ہوئے ؟“ اب میرے منہ سے نکل گیا۔’’ تھوڑا پریشان تو ضرور تھا۔‘‘
میرا جملہ جمشید نے سن لیا۔ وہ میرے سامنے بیٹھا تھا۔ اس نے تو سننا ہی تھا۔
تعجب سے میری طرف دیکھ کر بولا۔”تم کس لئے پریشان تھے فیروز ؟“میں نے جلدی سے سنبھل کر کہا۔ ”وہ میں . . . میرا مطلب ہے کہ میں نے بمبئی میں داخل ہونے کے بعد علاقے کے تھانے میں رپورٹ نہیں کی تھی۔ بس اس لئے پریشان تھا۔“
جمشید کہنے لگا۔ کوئی بات نہیں ۔ تم ابھی میرے ساتھ پولیس سٹیشن چلے چلو ۔ تھانیدار میرا دوست ہے۔ میں خود تمہاری آمد درج کروا دوں گا۔“ میں نے جلدی سے کہا۔ ” نہیں نہیں۔ تمہیں ساتھ جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اکیلا ہی چلا جاؤں گا۔“ یہ میں نے اس لئے کہا تھا کہ میرے پاس نہ تو کوئی پاسپورٹ تھا اور نہ میرا کوئی ویزا لگا ہوا تھا۔ میں کیا لے کر جمشید کے ساتھ تھانے جاؤں گا۔ مگر جمشید میرے پیچھے پڑ گیا۔ وہ بھی سچا تھا۔ کہنے لگا۔’’ تمہارا پولیس سٹیشن رپورٹ کرنا بہت ضروری تھا۔

تم نے پہلے ہی دیر کر دی ہے اکیلے گئے تو تھانیدار قانون کی خلاف ورزی کے جرم میں ممکن ہے تمہیں پاکستانی جاسوس سمجھ کر پکڑ لے اور اس طرح سے مجھ پر بھی کوئی مصیبت نازل ہو سکتی ہے ۔ جلدی سے تیار ہو جاؤ میں خود تمہیں لے کر تھانے جاؤںگا۔

میں خوامخواہ کی مشکل میں پھنس گیا تھا۔ میں نے روہنی کی طرف دیکھا۔ وہ مسکرا رہی تھی۔ کہنے لگی۔’’فکر کیوں کرتے ہو۔ میں تمہیں تمہارا پاسپورٹ بھی لا دوں گی جس پر بمبئی کا ایک مہینے کا ویزا بھی لگا ہوا ہوگا ۔“
جمشید پیالی رکھ کر اٹھتے ہوئے بولا۔ " جلدی سے کپڑے بدل کر نیچے آ جاؤ۔ پولیس سٹیشن نزدیک ہی ہے۔ میں تھانیدار کو فون کر دیتا ہوں کہ ہم آرہے ہیں ۔“ یہ کہہ کر جمشید نیچے چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد میں نے کہا۔ " میں خوامخواہ بول پڑا۔ اب تھانے کا چکر لگانا پڑے گا۔" روہنی نے کہا۔ ”کوئی بات نہیں ۔ میں تمہارے ساتھ ہوں گی۔“

میں نے پوچھا۔ ”میرا پاسپورٹ تم کہاں سے لاؤ گی ؟" اس نے کہا۔ ” وہ سامنے والی الماری کا نچلا دراز کھول کر دیکھو۔ ایک لفافے میں
تمہارا پاسپورٹ موجود ہے۔“ میں اٹھ کر الماری کے پاس گیا۔ اس کے نچلے دراز کو کھولا تو اندر بھورے رنگ کا ایک لفافہ پڑا تھا۔ لفافہ لے کر میں روہنی کے پاس آکر بیٹھ گیا۔ اسے کھول کر دیکھا تو اس میں ایک پاکستانی پاسپورٹ تھا۔ پاسپورٹ پر میری فوٹو بھی لگی ہوئی تھی اور اس کے نیچے میرا پورا نام فیروز دین اور ولدیت بھی لکھی ہوئی تھی۔ میں نے ورق الٹ کر دیکھا۔ ایک ورق پر باقاعدہ بمبئی کا ویزا لگا ہوا تھا اور ساتھ پاکستان میں انڈیا کے ہائی اشٹر کے ویزا آفس کی مہر بھی لگی ہوئی تھی۔

میں نے مسکرا کر روہنی کی طرف دیکھا۔ ’’یہ تم کہاں سے لائی ہو ؟“ روہنی نے کہا۔ ”یہ مت پوچھو کہ میں یہ کہاں سے لائی ہوں اور یہ کہاں سے آیا ہے۔ اتنا میں تمہیں ضرور بتانا چاہوں گی کہ یہ جعلی پاسپورٹ نہیں ہے بالکل اصلی پاکستانی پاسپورٹ ہے اور یہ بھی سن لو کہ جب تمہاری بمبئی میں قیام کی مدت ختم ہو جاۓ گی یا جس دن تمہیں میرے ساتھ یہاں سے واپس جانا ہوگا یہ پاسپورٹ اپنے آپ غائب ہو جاۓ گا۔“ نیچے سے نوکر نے آ کر کہا۔ ”فیروز بابو .... مالک نیچے آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔“
میں نے پاسپورٹ کو لفافے میں ڈالا۔ لفافہ اپنی پتلون کی جیب میں رکھا اور دوسری بش شرٹ پہن کر نیچے آ گیا۔ روہنی بھی میرے ساتھ ہی نیچے آگئی۔ جمشید اپنی پرانی کھٹارا جیپ کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا میرا انتظار کر رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر بولا۔
آ جاؤ یار ۔

میں جیپ میں اس کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا اور جیپ پولیس سٹیشن کی طرف روانہ ہو گئی۔ جیپ کی چھت نہیں تھی۔ میں نے سر اٹھا کر اوپر کو دیکھا مجھے روہنی جیپ کے اوپر ساتھ ساتھ اڑتی دکھائی دی۔ مجھے اطمینان ہو گیا۔ ہم پولیس سٹیشن پہنچ گئے۔ تھانیدار ہندو تھا اور اس کے دفتر کے باہر اے آر کھانڈیکر کی تختی لگی تھی۔ وہ بڑے تپاک سے جمشید کو ملا اور بولا۔ ’’سیٹھ ! آج کیسے آنا ہو گیا۔

بیٹھو جمشید نے کہا۔ کھانڈیکر صاحب! یہ میرا دوست ہے۔ اس کا نام فیروز ہے۔ ۔ پاکستان سے خاص طور پر ویزا لے کر مجھ سے ملنے آیا ہے ۔“ تھانیدار نے کہا۔ ’’بات کیا ہے بولو۔ کیا اس کی جیب کٹ گئی ہے ۔۔

جمشید نے کہا۔ ’’ارے نہیں کھانڈ یکر بابو! آپ کے ہوتے ہوۓ علاقے میں ایسے جرائم بھلا کبھی ہو سکتے ہیں ۔ “ ” پھر کیا بات ہے ؟‘‘ تھانیدار نے پوچھا۔ تب جمشید نے تھانیدار کو بتایا کہ میرے دوست سے ایک غلطی ہو گئی ہے کہ اس نے بمبئی میں آنے کے فورا بعد پولیس سٹیشن رپورٹ نہیں کی تھی۔“ تھانیدار نے اب مجھے گھورتے ہوۓ دیکھا اور پوچھا۔ ”تم بمبئی کس روز انٹر ہوۓ تھے ؟“
میں نے کہا۔ ایک دن پہلے انٹر ہوا تھا سر ! بس رپورٹ کرنا یاد نہیں رہا۔ آئی ایم ویری سوری سر !“

تھانیدار نے کہا۔’’اپنا پاسپورٹ دکھاؤ۔“
میں نے پاسپورٹ دے دیا۔ تھانیدار دیر تک پاسپورٹ کے ورق الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا۔ پھر اس ورق کو بڑے غور سے دکھا جس پر میرا ویزا لگا ہوا تھا اور ساتھ ہی بھارتی ہائی کمشنر کی مہر لگی ہوئی تھی۔
تھانیدار نے پاسپورٹ مجھے واپس دیتے ہوۓ جمشید سے کہا۔’’سیٹھ ! پاسپورٹ تو تمہارے دوست کا ایک دم ٹھیک ہے۔ ویزا بھی ٹھیک لگا ہوا ہے۔ مگر اسے آتے ہی تھانے میں رپورٹ کرنی چاہئے تھی۔ اس نے ایسا نہیں کیا اس لئے مجھے قانونی کارروائی پوری کرنی ہو گی۔“

جمشید نے تشویش کے ساتھ پوچھا۔ ” کس قسم کی کارروائی کھانڈیکر بابو!‘‘ تھانیدار نے ہنس کر کہا۔ ’’ارے سیٹھ ! گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ تمہارے دوست کو صرف اپنا پاکستانی شناختی کارڈ دکھانا ہوگا۔‘‘ پھر تھانیدار نے میری طرف متوجہ ہو کر کہا۔’’ پلیز !اپناشناختی کارڈ دکھاؤ۔“ شناختی کارڈ میرے پاس کہاں سے آتا۔ میں نے کہہ دیا۔ ’’سر ! پاسپورٹ پر میرے شناختی کارڈ کی کاپی لگی ہوئی ہے ۔“
تھانیدار نے ذرا سخت لہجے میں کہا۔ ’’وہ تو میں نے دیکھ لی۔ میں اور یجنل شناختی کارڈ دیکھنا چاہتا ہوں۔“ پاکستان سے جو لوگ ویزالے کر انڈیا جاتے تھے ان کے پاس ان کے شناختی کارڈ کا ہونا ضروری ہوتا تھا۔ میرے منہ سے نکل گیا۔"سر ! شناختی کارڈ تو میرے پاس نہیں ہے۔۔
تھانیدار نے حیران ہو کر کہا۔ ’’ دوسرے ملک سے جو کوئی غیر ملکی انڈیا میں آتا ہے اس کے پاس اس کا شناختی کارڈ ہونا چاہئے۔ یہ قانون ہے۔ تمہارے پاس تمہارا ناختی کارڈ کیوں نہیں ہے ؟‘‘ روہنی میرے قریب ہی تھی۔ اس نے مجھے ڈانٹتے ہوئے کہا۔ " یہ کیا کہہ دیا تم نے؟ تمہارا شناختی کارڈ میرے پاس موجود ہے۔ اپنی پتلون کی پچھلی جیب میں ،میں نے جلدی سے کہا۔ "آئی ایم سوری سر ! میں بھول گیا تھا کہ شناختی کارڈ تو میں اپنے ساتھ لے کر چلا تھا۔

ابھی دکھاتا ہوں سر !“ میں نے پتلون کی دو جیبیں محض دکھانے کے لئے ٹولیں اور پھر پچھلی جیب میں ہاتھ ڈالا تو میری انگلیاں کسی چیز سے ٹکرائیں۔ میں نے اسے باہر نکالا۔ یہ میرا پاکستانی شناختی کارڈ تھا۔ شناختی کارڈ دیکھ کر میرے دوست جمشید نے بھی اطمینان کا سانس لیا ورنہ وہ بھی پریشان ہو گیا تھا۔ میں نے شناختی کارڈ تھانیدار کے حوالے کر دیا۔ اس نے شناختی کارڈ کو بڑے غور سے الٹ پلٹ کر دیکھا اور بولا۔ ” بالکل ٹھیک ہے۔
تھانیدار نے ایک رجسٹر منگوا کر اس پر میرا نام، پتہ ، پاسپورٹ نمبر اور تاریخ درج کی اور بولا۔ ’’آئندہ آپ بھارت آئیں تو اسی روز تھانے میں رپورٹ کرنا نہ بھولیں۔“
جمشید نے کہا۔ ” کھانڈیکر بابو! اب آیا تو میں اسی وقت اسے آپ کے پاس لے نے آؤں گا۔“

روہنی نے مجھ سے کہا۔’’یہ معاملہ بھی طے ہو گیا۔اچھا ہوا۔‘‘ میں نے کہا۔’’ہاں بڑا اچھا ہوا۔‘‘
جمشید نے میری طرف کچھ چونک کر دیکھا اور بولا ۔ ’’ہاں . . . . بڑا اچھا ہو گیا ہے ۔ چلو واپس چلتے ہیں۔ جمشید نے کھانڈیکر تھانیدار کو نمستے کیا اور ہم جیپ میں بیٹھ کر واپس فلیٹ پر آ گئے۔ دوسرے دن شکار کا پروگرام بن گیا۔ روہنی کو میرے شکار کے پروگرام کا علم ہوا تو کہنے لگی۔ میرا دل نہیں مانتا کہ تم شکار پر جاؤ۔" ”کیوں ؟‘‘ میں نے کہا۔’’اس میں کیا برائی ہے؟“ ۔

وہ بولی۔’’ جنگل میں بدروحوں اور آسیب کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ میں نے کہا۔ ” سلطانہ ! اب اگر مجھے یہاں رہنا ہے تو میں بالکل پتھر کا بت بن کر یہاں نہیں رہ سکتا۔ کچھ سیر و تفریح بھی کرنی ہوتی ہے اور پھر ہم دونوں شروع ہی سے شکار کے شوقین رہے ہیں۔‘‘ روہنی نے کہا۔’’اور شاید تم بھولے نہیں کہ اس شکار کے شوق نے تمہیں اس مصیبت میں پھنسا دیا تھا جس میں تم ابھی تک پھنسے ہوئے ہو ۔ نہ تم شکار پر جنگل میں جاتے ، نہ وہاں تمہیں بارش کی طوفانی رات میں پرانے قلعے میں پناہ لینی پڑتی اور نہ تمہارے سامنے وہ قتل کی واردات دہرائی جاتی جس کے بعد تم میری بدروح کو آزاد کر کے آج تک اس کی سزا بھگت رہے ہو ۔‘‘
میں نے ہنس کر کہا۔ سلطانہ ! مقدر میں جو لکھا ہوتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے ۔ اور پھر میں سمجھتا ہوں کہ قدرت نے میرے ہاتھوں یہ کام کروانا تھا کہ میں تمہاری بدروح کو مرتبان سے نکال کر آزاد کر دوں تاکہ تم پچھتاوے اور ملال کے ایک طویل مرحلے سے گزر کر قدرت خداوندی سے معافی حاصل کر سکو ۔“ روہنی خاموش ہو گئی۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے کہا۔’’اور پھر تم بھی تو میرے ساتھ ہوگی۔ تم ایک اچھی روح ہو ۔ تمہیں کئی باتوں کا پہلے سے علم ہو جاتا ہوگا۔ تم مجھے کسی بھی خطرے سے پہلے ہی خبردار کر سکتی ہو ۔ “

روہنی کہنے لگی۔ "یہ تمہیں کس نے کہا کہ روحوں کو پہلے سے کئی باتوں کا علم ہو جاتا ہے ۔ جس طرح بعض آدمیوں کی چھٹی حس بڑی تیز ہوتی ہے اور انہیں کسی آنے والے خطرے کا سگنل موصول ہو جاتا ہے اسی طرح ایک اچھی روح کو بھی کبھی کبھی کسی خطرے کی بات کا احساس ہو جاتا ہے لیکن کسی چیز کا تفصیل سے علم ہو جانا ایسا نہیں ہوتا۔ عالم الغیب صرف اللہ تعالی کی ذات ہی ہے ۔ ہاں وہ اپنی رحمت سے کسی نیک روح کو تھوڑا سا یہ وصف دے دے یہ الگ بات ہے لیکن اس نیک روح پر واجب بلکہ لازم ہو جاتا ہے کہ وہ قدرت کے دیے ہوۓ اس عطئے کو بے جا استعمال نہ کرے۔“

میں نے کہا۔ ’’اس کا مطلب ہے کہ تمہیں خطرے کا احساس تو ہو سکتا ہے نا ؟“ ’’ہاں ۔ تھوڑا تھوڑا۔ پیشگی احساس ہو سکتا ہے ۔‘‘ روہنی نے جواب دیا۔ میں نے کہا۔ ” تو پھر میں شکار پر جانے سے کیوں ڈروں ؟ اگر کہیں کوئی ایسی ویسی بات ہونے والی ہوگی تو تم مجھے خبر کر دینا میں اس وقت شکار سے واپس آ جاؤں گا۔‘‘ روہنی کہنے گئی۔ پھر بھی میرا دل نہیں مانتا کہ تم شکار کھیلنے جنگل میں جاؤ۔“ میں ہنس پڑا۔ ’’سلطانہ ! کبھی کبھی تم بالکل بچوں کی طرح ضد کرنے لگتی ہو ۔“
وہ بولی۔” کیا کروں۔ یہ میری تم سے محبت ہے جس کے ہاتھوں مجبور ہو جاتی ہوں۔ بس اس دنیا کی یہی ایک کمزوری میرے ساتھ رہ گئی ہے۔“ میں نے اور جمشید نے شکار کی تیاریاں شروع کر دیں۔ بندوقیں ، رائفلیں صاف کر کے انہیں آئیل وغیرہ دیا گیا۔ جمشید کے تین ملازم عبدل وغیرہ بھی ہمارے ساتھ شکار پر جارہے تھے۔ وہ ہمیشہ شکار پر ساتھ جاتے تھے۔ عبدل شکار کا گوشت بڑا اچھا پکاتا تھا اور بندوق کا نشانہ بھی بڑا اچھا لگاتا تھا۔
آخر ایک دن ہم دو جیپوں میں شکار کا ساز و سامان رکھ کر شکار پر روانہ ہو گئے۔ جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں ہم بمبئی کے قریبی جنگل میں ہی شکار کھیلنے جایا کرتے تھے۔ یہ جنگل ہمارے دیکھے بھالے تھے۔ بمبئی سے ہم دن کے وقت ناشتہ کر کے نکلے تھے ۔ دوپہر کے وقت ہم بمبئی سے سو ڈیڑھ سو میل کے فاصلے پر واقع ایک بہت بڑے اور گھنے جنگل میں پہنچ گئے ۔ اس جنگل میں ہرن، اور نیل گاۓ کا شکار بہت ملتا تھا۔ کبھی کبھی کوئی شیر چیتا بھی اس جنگل میں آ دکھاتا تھا مگر شیر اور چیتے عام طور پر اس جنگل کے بہت آگے جہاں دریا بہتا تھا وہاں ہی رہتے تھے ۔
ہم نے گھنے جنگل میں ایک جگہ پڑاؤ ڈال دیا۔ عبدل دو تین جنگلی مرغیاں شکار کر کے لے آیا۔ انہیں بھون کر پکایا اور ہم نے انہیں کھا کر کچھ دیر آرام کیا اور شام ہونے سے کچھ دیر پہلے جنگل میں شکار کے لئے نکل پڑے۔ ہرنوں کی ڈاریں عام طور پر شام کے وقت تالابوں پر پانی پینے آتی تھیں مگر اس روز وہاں کوئی ہرن دکھائی نہ رہا۔ میں نے جمشید سے کہا۔’’ آج یہ ہرن کس طرف پانی پینے نکل گئے ہیں ؟“ وہ کہنے لگا۔ میں بھی پہلی بار دیکھ رہا ہوں کہ تالاب پر ایک بھی ہرن نہیں ہے ۔ چلو آ گے چلتے ہیں ۔‘‘
جنگل میں اس جگہ دو تین چھوٹے بڑے تالاب تھے۔ ہم دوسرے تالاب پر گئے۔ وہاں بھی کوئی ہرن یا چیتل نہ ملا۔ اسی طرح تیسرا تالاب بھی خالی پڑا تھا۔ جمشید بولا۔ ” میں اپنی شکاری زندگی میں پہلی بار یہ بات دیکھ رہا ہوں کہ شام کے وقت تالاب پر ایک بھی ہرن نہیں ہے۔
میں نے کہا۔ کہیں ہرن ڈر کر اس جنگل سے فرار تو نہیں ہو گئے ؟“ جمشید نے کہا۔ ” ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ہرن کو صرف شیر کا ہی ڈر ہوتا ہے لیکن شیر سے ڈر کر آج تک کوئی ہرن جنگل چھوڑ کر جاتا نہیں دیکھا، نہ کبھی سنا ہی ہے ۔‘‘ پھر ہرن کہاں چلے گئے ؟ میں نے پوچھا۔
جمشید بولا۔” یہ معمہ میری سمجھ سے باہر ہے۔‘‘ روہنی اس وقت ہمارے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ اسے معلوم تھا کہ اگر وہ مجھ سے کوئی بات کرے گی تو اس کی آواز میرے سوا اور کوئی نہیں سن سکے گا۔ اس نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔ ”شیروان! مجھے اس جنگل میں کسی آسیب کی بو محسوس ہو رہی ہے۔ شاید ہرن اس آسیب کی بو پا کر ہی یہاں سے بھاگ گئے ہیں ۔ “ میں نے کہا۔ ” کیا جانور بھی آ سیب اور بدروحوں سے ڈرتے ہیں ؟“ میرا یہ جملہ جمشید نے سن لیا تھا۔ وہ یہ سمجھا کہ یہ بات میں نے اس سے مخاطب ہو کر کیا ہے۔
کہنے لگا۔ " میرا خیال ہے جانوروں کو کسی بدروح کا سب سے پہلے احساس ہو جاتا ہے ۔ مگر تمہیں بدروحں کا خیال کہاں سے آگیا؟‘‘ مجھے فور اپنی غلطی کا احساس ہو گیا کہ مجھے روہنی کی بات کے جواب خاموش رہنا چاہیے تھا ۔۔۔
میں نے روہنی کی طرف دیکھا۔ وہ مسکرا رہی تھی۔ میں نے جمشید سے کہا۔ "یونہی خیال آ گیا تھا۔ جنگل میں سنا ہے آسیب اور بدروحیں راتوں کو گھومتی پھرتی رہتی ہیں۔“
جمشید بولا۔ ”میں ان باتوں کو نہیں مانتا۔ چلو واپس چلتے ہیں ۔ صبح کے وقت نکلیں گے اس وقت پرندوں کا شکار بھی بہت مل جاۓ گا۔‘‘ ہم اپنے پڑاؤ پر واپس آگئے۔ ہم نے ایک چھوٹا سا خیمہ لگا رکھا تھا۔ خیمے کے آگے ہم نے آگ کا الاؤ روشن کر لیا۔ اس کے دو فائدے تھے ایک فائدہ تو یہ تھا کہ آگ کے دھوئیں سے ہمیں مچھروں سے نجات مل جاتی تھی اور دوسرا فائدہ یہ تھا کہ آگ کی وجہ سے کوئی جنگلی درندہ اس طرف نہیں آتا تھا۔
وہیں ہم نے رات کا کھانا کھایا۔ عبدل نے چاۓ بنا دی۔ ہم چاۓ پینے اور باتیں کرنے لگے ۔ روہنی ہمارے خیمے کے آس پاس پھر رہی تھی جیسے میری دیکھ بھال کر رہی ہو ۔ جب رات کافی گہری ہو گئی تو جمشید بولا۔ "یار! مجھے تو نیند آرہی ہے ۔ میں سونے چلا۔‘‘
وہ خیمے میں سونے چلا گیا۔ عبدل بھی برتن وغیرہ سمیٹ کر ایک درخت کے نیچے جا کر لیٹ گیا۔ ایک نوکر الاؤ کے قریب بندوق لے کر رات کی چوکیداری کرنے کے لئے بیٹھ گیا۔ آدھی رات تک اسے پہرہ دینا تھا اس کے بعد اس کی جگہ دوسرے نوکر کو لے لینی تھی۔
میں خیمے کے باہر لکڑی کے سٹول پر بیٹھا روہنی یعنی سلطانہ کی نیک روح کو دیکھ رہا تھا کہ وہ کس طرح سے چوکس ہو کر میری خبر گیری کر رہی ہے۔ اس نے بھی جب مجھے اکیلا دیکھا تو میرے پاس آگئی۔ میں نے پوچھا۔’’اب بھی تمہیں یہاں کسی بدروح کی بو محسوس ہو رہی ہے؟“ ۔ روہنی نے کہا۔ ” نہیں اب بو محسوس نہیں ہو رہی۔ مگر کوئی بری روح یہاں ضرور آئی تھی ورنہ مجھے اس کی بو کبھی نہ آتی۔‘‘
میں نے کہا۔ " جنگل میں تو ہر قسم کی بری روحیں گھومتی پھرتی رہتی ہیں ۔ ہو سکتا ہے کوئی بری روح آئی ہو اور تمہیں دیکھ کر فرار ہو گئی ہو۔“ وہ بولی۔’’میرا بھی یہی خیال ہے۔ لیکن ہمیں ہوشیار ہوکر رہنا چاہئے۔ اگر یہ بدروح یہاں آگئی تھی تو نتالیا کا آسیب اور رگھو پجاری کی بدروح بھی یہاں آ سکتی ہیں ۔۔۔
مگر میرے پاس تم ہو اور پھر میرے ہاتھ میں شیش ناگن کے مہرے والی انگوٹھی ہے اور میرے بازو پر اللہ کے پاک نام کا تعویذ بندھا ہوا ہے۔ مجھے کس بات کا ڈر ہے۔ ۔۔۔ میری اس بات کے جواب میں روہنی کہنے لگی۔ ڈر تمہیں صرف خدا کا ہونا چاہئے۔ اگر انسان کے دل میں صرف خدا کا ڈر ہو تو پھر وہ دوسرے ہر ڈر خوف سے اپنے آپ نجات پالیتا ہے ۔‘‘
میں نے کہا۔ ” مجھے نیند آ رہی ہے ۔ میں تو خیمے میں سونے جارہا ہوں۔ تم کہاں جاؤ گی سلطانہ ؟‘‘
سلطانہ یعنی روہنی نے کہا۔ میں تمہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جاسکتی۔ تم سو جاؤ میں تمہاری رکھوالی کروں گی۔“
میں خیمے میں جا کر دری پر لیٹ گیا۔ ایک طرف جمشید سویا ہوا تھا اور خراٹے لے رہا تھا۔ میں جنگل میں سارا دن پھر پھر کر تھک گیا تھا۔ لیٹتے ہی گہری نیند میں کھو گیا۔ مجھے کوئی خبر نہیں کہ میں کب تک سوتا رہا۔ پھر اچانک کسی نے مجھے زور سے ہلایا۔ میں ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔ روہنی میرے اوپر جھکی ہوئی کہہ رہی تھی۔ ’’جلدی سے میرے ساتھ باہر چلو۔“ ۔
میں جلدی سے روہنی کے ساتھ خیمے سے باہر آ گیا۔ باہر الاؤ کی آگ مدھم پڑ چکی تھی۔ اس کے پاس جو ملازم پہرہ دینے بیٹھا تھا وہ بھی وہیں لیٹ کر سو چکا تھا۔ روہنی مجھے خیمے سے کچھ دور ایک تالاب کے پاس لے گئی اور کہنے لگی۔ ” یہاں جھاڑیوں کی اوٹ میں بیٹھ جاؤ۔‘‘
میں جھاڑیوں کے پیچھے چپ کر بیٹھ گیا۔ روہنی تیزی سے پرواز کرتی تالاب کی طرف گئی۔ رات کا اندھیرا چاروں طرف پھیلا ہوا تھا۔ جنگل پر سناٹا چھایا ہوا تھا مگر روہنی مجھے دکھائی دے رہی تھی۔ اس نے بڑی تیزی سے تالاب کے اوپر ایک چکر لگایا اور پھر اسی تیزی سے میرے پاس آگئی۔ میں نے آہستہ سے پوچھا۔ "کیا بات ہوئی ہے سلطانہ ؟ ‘‘
سلطانہ نے مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ وہ سر اٹھائے تالاب کی طرف تلقکی باندھے دیکھ رہی تھی۔اتنے میں تالاب کی طرف سے جنگل کے سناٹے میں ایک ایسی آواز آئی جیسے کوئی کسی کا گلا دبا رہا ہو اور اس کے گلے میں سے غرغراہٹ کی آواز میں نکل رہی ہوں ۔ یہ آوازیں بڑی ڈراؤنی تھیں۔ آوازیں دور سے آرہی تھیں ۔ پھر یہ قریب سے سنائی دینے لگیں۔ روہنی ایک دم سے تالاب کی طرف پرواز کر گئی۔ جیسے ہی وہ تالاب کے قریب پہنچی ڈراؤنی آوازیں دور ہوتے ہوتے غائب ہو گئیں۔
میں روہنی کو دیکھ رہا تھا۔ وہ تالاب کے اوپر مسلسل دائرے کی شکل میں چکر لگا رہی تھی۔ ایک دو منٹ تک وہ چکر لگاتی رہی پھر وہ واپس میرے پاس آ گئی اور کہنے لگی۔ میرے ساتھ واپس چلو۔‘‘
ہم خیمے کے باہر الاؤ کے پاس آ کر بیٹھ گئے۔ میں نے کہا۔ کیا یہ نتالیا کا آسیب تھا؟“
روہنی نے کہا۔’’اس کے سواۓ اور کون ہو سکتا ہے ؟ وہ تمہاری تلاش میں آیا تھا مگر مجھے آس پاس دیکھ کر دفع ہو گیا۔ “
میں نے پوچھا۔ ” سلطانہ ! جب میرے بازو پر اللہ کے پاک نام کا تعویذ بندھا ہے اور میرے ہاتھ میں شیش ناگن کے مہرے والی انگوٹھی ہے پھر تم میری اتنی فکر کیوں کرتی ہو ؟ یہ آسیب تو مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔
روہنی نے کہا۔’’شیروان ! تم شیش ناگن کے مہرے والی انگوٹھی پر اتنا بھروسہ نہ کرو۔ یہ مہرہ کسی بھی وقت تمہیں دھوکا دے سکتا ہے۔ اس آسیب اور بدروحوں سے اگر کوئی طاقت تمہیں بچا سکتی ہے تو وہ اللہ کے پاک نام والا تعویذ ہی ہے۔ تم اس پر بھروسہ کر سکتے ہو۔ اس کے باوجود تمہیں غافل نہیں ہونا چاہئے ۔ رگھو اور نتالیا کا آسیب جمشید کے کسی نوکر کے ذہن کو اپنے قبضے میں کر کے اسے حکم دے سکتا ہے کہ وہ تمہارے بازو سے تعویذ اتار کر لے آۓ۔“
مجھے تشویش سی لگ گئی ۔ واقعی اگر ایسا ہوگیا اور سوتے میں کسی نے میرے بازو پر سے تعویذ اتار لیا یا میری انگلی سے انگوٹھی اتار لی تو میں کیا کروں گا۔ روہنی کا تو یہ بدروحیں کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی کیونکہ وہ ان کی منحوس دنیا سے نکل آئی ہے بلکہ بدروحیں تو اس کے قریب بھی نہیں آئیں گی لیکن میں روح نہیں ہوں۔ میں تو ایک عام کمزوریوں والا گناہ گار انسان ہوں مجھے تو یہ بدروحیں ایک سیکنڈ میں اپنے قبضے میں کر لیں گے ۔ لیکن میں نے اللہ کے خیال اور اس پر ایمان کی طاقت سے اپنے دل کو مضبوط کیا اور روہنی سے کہا۔ ’
’سلطانہ ! مجھے اپنے خدا پر بھروسہ ہے۔ میرا اپنے خدا پر ایمان ہے۔ بدی کی شیطانی طاقتیں مجھے کوئی گزند نہیں پہنچا سکتیں۔ اس کے باوجود میں تمہاری ہدایات پر عمل کروں گا اور ہر وقت اپنے دشمنوں سے ہوشیار رہوں گا ۔۔۔
ہم تین دن تک جنگل میں شکار کھیلتے رہے۔ اس دوران روہنی میرے ساتھ رہ کر میری حفاظت کرتی رہی۔ پھر ہم واپس بمبئی آگئے۔ بمبئی آنے کے بعد روہنی نے مجھے کہا۔ ’’شیروان! تمہیں اکیلا چھوڑ کر جانے کو میرا دل تو نہیں چاہتا لیکن میرا جانا بھی بڑا ضروری ہے۔ ہمارے دشمن پجاری رگھو اور نتالیا کا آسیب ہمارے خلاف ضرور کوئی خطرناک منصوبہ بندی کر رہے ہوں گے ۔ ہمیں ان سے بے خبر نہیں رہنا چاہئے۔ میں پتہ لگانا چاہتی ہوں کہ وہ ہمارے خلاف کیا سازشیں کر رہے ہیں اور کیا چال چلنے والے ہیں تاکہ ہم پہلے سے اس کا دفاع سوچ لیں ۔‘‘
”مگر تم کہاں جاؤ گی ؟“ میں نے روہنی سے پوچھا۔
وہ کہنے لگی۔ ’’یہ میں تمہیں نہیں بتا سکتی۔ لیکن اتنا تم یقین رکھو کہ مجھے کچھ نہیں ہوگا اور میں اپنے اور تمہارے دشمنوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کر کے ہی آؤں گی۔‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔ ” کیا میں اس جگہ تمہارا انتظار کروں ؟“
اس نے کہا۔ ’’اس سے محفوظ جگہ میرے خیال میں تمہارے لئے اور کوئی نہیں ہے ۔ تم بالکل فکر نہ کرنا۔ میں درمیان میں آ کر تم سے ملتی رہوں گی اور تمہاری خیریت معلوم کرتی رہوں گی۔ لیکن ایک بات کا خاص خیال رکھنا اور وہ ہے کہ اپنے بازو سے اللہ کے پاک نام والا تعویذ کسی حالت میں بھی اپنے سے الگ نہ کرنا۔“ میں نے کہا۔ میں اسے کبھی اپنے سے جدا نہیں کروں گا۔ تم بے فکر رہو ۔ “ روہنی نے کہا۔ ’’اب میں جا رہی ہوں۔ بہت جلد میں اپنے دشمنوں کے ناپاک
عزائم کا سراغ لگا کر واپس آ جاؤں گی ۔“ اور روہنی یعنی سلطانہ غائب ہو گئی۔
بمبئی میں مجھے اپنے دوست جمشید کے پاس رہتے ہوۓ روہنی کے جانے کے بعد مزید ایک ہفتہ گزر گیا۔ ایک دن جمشید مجھے کہنے لگا۔ ’’فیروز! تمہارے ویزے کی مدت ایک ماہ ہے ۔ اس میں باقی دس گیارہ دن ہی رہ گئے ہیں ۔ بمبئی میں کئی تاریخی مقامات ایسے ہیں جو تم نے ابھی تک نہیں دیکھے ۔ ان میں ایلورا کے قدیم غار بھی ہیں ۔۔
میں نے کہا۔ ’’ہاں یار ! میں نے ان کا نام تو سنا ہوا ہے ۔ ان غاروں میں کیا ہے ؟“
جمشید نے کہا۔ ان غاروں کی تاریخ یہ ہے کہ جب ہندوستان میں مہاتما گوتم بدھ کا بدھ مت بڑی تیزی سے پھیل رہا تھا تو یہاں کے ہندو دھرم کے برہمنوں کو بڑی تشویش ہوئی کہ اگر بدھ مت اسی طرح پھیلتا چلا گیا تو ان کا ہندومت ختم ہو کر رہ جاۓ گا۔ مگر برہمن کچھ نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ہندوستان میں راجہ اشوک کی حکومت تھی جو بدھ مت کا ماننے والا تھا اور جس کی وجہ سے بدھ مت کو بڑا فروغ مل رہا تھا۔
لیکن بادشاہ اور راجا ہمیشہ حکومت نہیں کرتے رہتے۔ ایک نہ ایک دن وہ مر جاتے ہیں ۔ چنانچہ راجہ اشوک بھی انتقال کر گیا۔ اس کے مرنے کے بعد اس کے برہمن سینا پتی نے تخت پر قبضہ کر لیا اور بدھ مت کی جگہ ہندومت کو سرکاری مذہب بنالیا۔ اس کے ساتھ ہی برہمن ازم کو ایک بار پھر عروج حاصل ہونا شروع ہو گیا۔ برہمن نواز ہندو سینا پتی راجہ کے حکم سے ملک میں سے بدھ مت کی تمام نشانیاں مٹا دی گئیں۔ بدھ مت والوں کی تمام خائفایں اور عبادت گاہیں مسمار کر دی گئیں اور بدھ راہوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی۔ کئی راہیوں کو پکڑ کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ سینکڑوں کی تعداد میں بدھ راہب جنہیں بھکشو کہتے ہیں ملک سے فرار ہو گئے اور انہوں نے سری لنکا اور ہند چینی اور تبت میں جا کر پناہ لی۔
کچھ بدھ راہب ایسے تھے کہ جن کے دل میں خیال آیا کہ انہیں ہندوستان سے فرار نہیں ہونا چاہئے۔ اس طرح سے تو ہندوستان میں بدھ مذہب کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہے گا وہ سر عام اپنے مذہب کی اشاعت تو کر نہیں سکتے تھے انہوں نے کیا کیا کہ بمبئی کے قریب سمندر میں پہاڑی غاروں میں جا کر چپ گئے ۔ ان غاروں میں انہوں نے گوتم بدھ کی زندگی کے مختلف واقعات اور اس کے اصولوں کو غار کی دیواروں کے پتھروں پر تراش کر لکھنا شروع کر دیا۔ کہتے ہیں کہ مہاتما گوتم بدھ کے یہ جان نثار بھکشو گیارہ برس تک ان غاروں میں رہے اور اس دوران انہوں نے غاروں کی دیواروں پر مہاتما بدھ کے کئی یادگار بت تراشے اور مہاتما بدھ کی تعلیمات کو غار کی پتھریلی دیواروں پر کندہ کر دیا۔ وقت گزرتا گیا۔
ہندوستان کی سر زمین سے مہاتما گوتم بدھ کا بدھ مت بالکل ختم کر دیا۔ گیا اور ہندومت کا راج ہو گیا۔ برہمنوں نے ایک طرح سے پھر عروج حاصل کر لیا۔ ان کا راجہ کے درباروں میں اس قدر زیادہ عمل دخل تھا کہ راجہ ان کی مرضی پوچھے بغیر کوئی حکم صادر نہیں کر سکتا تھا۔ ان برہمنوں کو پتہ چلا کہ بمبئی کے ایلورا غاروں میں کچھ بدھ راہبوں نے گوتم بدھ کی زندگی کے حالات اور اس کی تعلیمات کندہ کی ہیں تو وہ فور آغاروں میں پہنچ گئے ۔ وہاں انہوں نے بدھ مت کی کئی مورتیاں اور مجھے اور کندہ کی ہوئی تعلیمات توڑ پھوڑ ڈالیں اور ان کی جگہ ہندو دھرم کی دیوی دیوتاؤں کے عریاں مجسمے بنا دیئے ۔
بس یہ ہے ایلورا کے غاروں کی مختصر سی تاریخ .... کیا اب تم ایلورا کے غار دیکھنا پسند نہیں کرو گے ؟
میں نے فورا کہا۔ ”کیوں نہیں۔ میں ابھی تمہارے ساتھ ایلورا کے غاروں میں چلنے کو تیار ہوں۔“
جمشید بولا۔ ”ایسا کرتے ہیں کہ سورج غروب ہونے کے بعد چلیں گے۔ آج مجھے دن میں کاروبار کے سلسلے میں ایک جگہ جانا ہے۔ چنانچہ ہمارا سورج غروب ہونے کے بعد کا ایلورا کے تاریخی غار دیکھنے کا پروگرام بن گیا۔ دو پہر کو جمشید اپنے کاروباری سلسلے میں کسی سے ملنے چلا گیا۔ وہ سورج غروب ہونے سے ایک گھنٹہ پہلے واپس آ گیا۔ کہنے لگا۔ ” بس ہم چاۓ پی کر چل پڑیں گے ۔ ۔
میں نہا دھو کر تیار ہو گیا۔ جمشید بھی منہ ہاتھ دھو کر آ گیا۔ ہم چاۓ منگوا کر پینے لگے۔ میں نے جمشید سے پوچھا۔ ” یہ ایلورا کے غار یہاں سے کتنی دور کس جنگل میں ہیں ۔۔۔
جمشید بولا۔ ” یہ جنگل میں نہیں بلکہ سمندر میں ہیں ۔۔
” کیا مطلب ؟‘‘ میں نے پوچھا۔
جمشید کہنے لگا۔ ’’ جن پہاڑیوں کے اندر یہ غار ہیں وہ پہاڑیاں بمبئی کے ساحل سے کچھ فاصلے پر سمندر میں واقع ہیں ۔ دوسرے ملکوں کے سیاح دور دور سے یہ عجیب و غریب غار دیکھنے آتے ہیں۔‘‘ یہ جان کر مجھے اطمینان ہو گیا کہ ہمیں کسی دور دراز جنگل میں نہیں جانا پڑے گا۔ چاۓ پینے کے بعد جمشید نے عبدل سے کہا۔ ” جیپ باہر نکالو اور ہمیں گیٹ وے آف انڈیا تک چھوڑ آؤ۔“
گیٹ وے آف انڈیا بمبئی کے شمال جنوب میں ساحل سمندر پر ایک بارہ دری ہے جسے انگریزوں نے بنایا تھا۔ چونکہ انگریز ہندوستان میں سمندر کے راستے سے آۓ تھے اس لئے انہوں نے یادگار کے طور پر یہ بار دری تعمیر کرائی تھی۔ یہ انگریزی طرز تعمیر کا نمونہ ہے۔ چاروں طرف اس کے چوکور ستون ہیں۔ عقب میں سٹرھیاں سمندر میں اترتی ہیں جہاں ایک گھاٹ بنا ہوا ہے۔ اس گھاٹ پر سے لوگ کشتیوں اور سیڑھیوں میں بیٹھ کر سمندر کی سیر کو جاتے ہیں۔ ایلورا کے غاروں کو بھی اس جگہ سے سٹمرز چلتے ہیں۔
عبدل ہمیں گیٹ وے آف انڈیا کی بارہ دری ٹائپ کی تاریخی عمارت کے پاس چھوڑ کر واپس چلا گیا۔ ہم نے پیچھے گھاٹ پر آکر ٹکٹ لئے اور ایلورا کے غاروں کی طرف جانے والے سٹیمر میں سوار ہو گئے ۔ سٹیمر میں کچھ غیر ملکی سیاح مرد اور عورتیں بھی بیٹھی تھیں ۔ سٹیمر سمندر میں روانہ ہو گیا۔ ایلورا کے غاروں والی پہاڑیاں ساحل سے زیادہ دور نہیں ہیں ۔ ہم دس پندرہ منٹ میں وہاں پہنچ گئے۔
ایلورا کے کئی تاریخی غار تھے جو پہاڑیوں کے اندر ایک دوسرے سے ملے ہوۓ تھے۔ایک جگہ سے ہم نے ٹکٹ لئے اور پہلے غار میں داخل ہو گئے۔ یہ غار واقعی بڑے پراسرار تھے ۔ ان کی چھتیں بہت اونچی تھیں اور دیواروں کو کھود کر کہیں پتھروں میں مورتیاں تراشی ہوئی تھیں اور کہیں راجہ کو دربار لگاۓ دکھایا گیا تھا۔ اگرچہ برہمنوں نے اپنے دور اقتدار میں بدھ مت کی بے شمار نشانیوں کو مٹا دیا تھا مگر پھر بھی کچھ ان کے ہاتھوں سے بچ گئی تھیں۔ ان میں مہاتما بدھ کی پیدائش سے لے کر ان کے گیان حاصل کرنے تک کے خاص خاص واقعات جو دیواروں پر تراشے گئے تھے ابھی تک صحیح حالت میں موجود تھے۔
کئی جگہوں پر گوتم بدھ کے بڑے بڑے بت بنے ہوۓ تھے۔ پتھر کی وہ سلیں بھی محفوظ تھیں جن پر پالی زبان میں بدھ مت کی خاص خاص تعلیمات کندہ کی ہوئی تھیں لیکن زیادہ مورتیاں ہندومت کی دیو مالا کی دیوی دیوتاؤں کی تھیں ۔ دیواروں پر راجہ کے دربار میں داسیوں کو رقص کرتے ہوۓ بھی دکھایا گیا تھا۔
ہم نے گھوم پھر کر تین چار غار دیکھے پھر زرا سانس لینے کے لئے ایک جگہ بیٹھے گئے ۔اتنے میں ایک گائیڈ عورت جس نے گائیڈ کی وردی پہنی ہوئی تھی ہمارے پاس آئی۔ ہمیں نمستے کیا اور بولی۔ "سر! آپ نے ابھی تک شاید متھراؤلی کا غار نہیں دیکھا۔ سر !اگر آپ نے متھراولی غار کو نہیں دیکھا تو یقین کریں کہ آپ نے کچھ نہیں دیکھا۔ اس غار کو دیکھنے دنیا بھر کے سیاح آتے ہیں اور غار کی تصویر میں اتار کر لے جاتے ہیں۔“
میں تھک گیا تھا۔ ویسے بھی مجھے ان بتوں اور مورتیوں والے غاروں سے کوئی زیاده دلچسپی نہیں تھی۔ جتنا دیکھنا تھا بس دیکھ لیا تھا لیکن جمشید اس قسم کی تفریحات کا بڑا دلدادہ تھا۔ کہنے لگا۔ ”اچھا؟ یہ متھراولی کا غار کہاں پر ہے ؟“ گائیڈ عورت نے کہا۔ ’’سر ! ان ہی پہاڑیوں میں ہے۔ یہاں سے آگے تیسرا غار ہے ۔ میرے ساتھ چلیں۔ میں آپ کو اس غار میں بنی ہوئی تصویروں کی تاریخ بھی بتاتی جاؤں گی۔ میری فیس کی پرواہ نہ کریں۔ میں آپ سے کچھ نہیں لوں گی۔" جمشید بڑا کفایت شعار تھا۔ یہ سن کر کہ وہ مفت میں متھراولی غار کی سیر کرے گا فورا چلنے کو تیار ہو گیا۔ پتہ نہیں کیا بات تھی کہ میرا اس غار کی طرف جانے کو دل نہیں مانتا تھا مگر جمشید مجھے کھینچ کر اپنے ساتھ لے گیا۔
متھراولی کا غار دوسرے غاروں کی نسبت زیادہ کشادہ نہیں تھا بالکل تنگ گلی کی طرح تھا۔ چھت بھی زیادہ اونچی نہیں تھی۔ کہیں کہیں دھیمی روشنی والے بجلی کے بلب جل رہے تھے۔ دیواروں پر ان کی مدھم روشنی میں عجیب و غریب ہندو دیوی دیوتاؤں کی ابھری ہوئی تصویریں بنی ہوئی تھیں۔ غار میں داخل ہوتے ہیں میرے دل پر ایک بوجھ سا پڑ گیا۔ میرا دل فورا وہاں سے واپس چلے جانے کو چاہا مگر جمشید کے شوق کو دیکھ کر میں خاموش رہا۔ جمشید بڑے اشتیاق کے ساتھ دیوار پر کندہ مورتیوں اور تصویروں کو دیکھ رہا تھا۔ گائیڈ عورت ایک ایک مورتی اور تصویر کا تاریخی پس منظر بیان کر رہی تھی ۔
غار کی فضا میں مجھے گھٹن سی محسوس ہو رہی تھی۔ میں بادل نخواسته جمشید کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔
گائیڈ عورت ایک تصویر کے پاس جا کر رک گئی۔ اس تصویر میں ایک ڈانس کرنے والی نر تکی یا داسی ایک سانپ کو اپنے جسم کے ساتھ لپیٹے رقص کے پوز میں دکھائی گئی تھی۔ دونوں جانب عجیب ڈراؤنی شکلوں والے لوگ زمین پر چوکڑیاں مار کر اٹھے ہوئے تھے ۔ گائیڈ عورت نے کہا۔ " یہ "متھراولی نرتکی ہے۔ کہتے ہیں یہ راجہ
کرما جیت کے دربار میں سانپ کا رقص کیا کرتی تھی ۔
جب یہ رقص کرتی تھی تو زمین کے نیچے پاتال سے راکھشش اس کا رقص دیکھنے آ جاتے تھے۔ اس تصویر میں آپ کو دونوں جانب جو ڈراؤنی شکل والے بت نظر آرہے ہیں یہ پاتال کے راکھشش ہیں۔ راجہ کرما جیت ان راکھششوں کی بڑی سیوا کرتا تھا اور اپنا تخت چھوڑ کر چلا جاتا تھا تاکہ پاتال کے راکھشش اکیلے بیٹھ کر متھراولی کا نرت دیکھیں۔ اس تصویر میں وہ سامنے ایک تخت خالی پڑا ہے یہ راجہ کا تخت ہے جو راکھششوں کے آنے کے بعد تخت چھوڑ کر چلا گیا ہے ۔ "
جمشید نے پوچھا۔ " یہ عورت جس کا نام تم نے متھراولی بتایا ہے ، سانپ جسم کے گرد لپیٹ کر کیوں رقص کر رہی ہے ؟ کیا یہ کوئی خاص ڈانس تھا؟ گائیڈ عورت نے کہا۔ ”متھراولی نر تکی کے بارے میں پرانی کتابوں میں لکھا ہے کہ وہ آگ کے دیوتا سے بیاہی ہوئی تھی۔ مگر وہ راکھششوں سے بہت ڈرتی تھی اور ان کو اپنا رقص دکھانے ضرور ان کے پاس یاتال میں جایا کرتی تھی۔ اس کی خبر ناگ دیوتا کو ہو گئی۔ اس نے متھراولی نر تکی کو ڈس کر ہلاک کر دیا اور اس کی لاش پاتال کے ایک گہرے غار میں پھینک دی۔
پاتال کے راکھششوں کو جب پتہ چلا کہ ناگ دیوتا نے حسد میں آکر ان کی پسندید نترتکی متھراولی کو ہلاک کر دیا ہے تو وہ اس غار میں پہنچ گئے جہاں متھراولی کی لاش پڑی تھی۔
ہندو دیو مالا کی کتابوں میں لکھا ہے کہ راکھششوں نے اپنے جادو کے زور سے۔ متھراولی کو پھر سے زندہ کر دیا اور اسے کرماجیت کے دربار میں لے گئے اور راجہ سے کہا کہ یہ متھراولی ہے۔ ہمیں اس کا ترت اچھا لگتا ہے ہم اس کا ترت دیکھنے تمہارے دربار میں آ جایا کریں گے ۔ اس وقت دربار میں ہمارے اور نر تکی متھرا کے سوا اور کوئی نہیں ہونا چاہئے ۔ راجہ نے ہاتھ باندھ کر کہا۔ مہان دیوتاؤ! ایساہی ہوگا۔ پہ میرے لئے بڑے سوبھاگ کی بات ہے کہ آپ میرے دربار میں پڑھاریں گے۔
اس کے بعد متھراؤلی تر نکی صرف اس وقت ڈانس کرتی جب راکھششوں نے آنا ہوتا تھا۔ “
جمشید نے پوچھا۔ ” یہ سانپ جو اس عورت نے اپنے جسم پر لپیٹا ہوا ہے کیا یہ ناگ دیوتا ہے ؟“

عورت نے کہا۔ " نہیں۔ یہ ناگ دیوتا نہیں ہے بلکہ ناگ دیوتا کی طرف سے متھراؤلی کی نگرانی کرنے والا سانپ ہے ۔ ناگ دیوتا پاتال کے راکھششوں کا مقابلہ تو نہیں کر سکتا تھا لیکن وہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ اس کی پتنی متھراولی کو راکھشش اپنے ساتھ پاتال میں لے جائیں۔ چنانچہ اس نے خفیہ طور پر ایک زہریلا سانپ متھراولی کے جسم کے گرد لپیٹ دیا اور متھراولی کو خبردار کر دیا کہ اگر کبھی اس نے کسی راکھشش کے ساتھ پاتال میں جانے کا ارادہ کیا یا کسی راکھشش سے کوئی بات کی تو یہ سانپ اس وقت اسے ڈس لے گا اور یہ سانپ اتنا زہریلا ہے کہ اس کے ڈستے ہی منتھراولی کے جسم کو آگ لگ جائے گی اور وہ جل کر راکھ ہو جائے گی ۔
اس وجہ سے متھراولی مجبور تھی کہ سانپ کو ہر وقت اپنے جسم کے ساتھ لگائے رکھے کیونکہ سانپ نے اسے کہہ دیا تھا کہ میں ہر وقت تمہارے جسم سے لپٹا رہوں گا۔ ایک لمحے کے لئے بھی تم سے الگ نہیں ہوں گا۔ "
میں اس گائیڈ کی خرافات سنتے سنتے تنگ آ گیا تھا۔ میں نے جھنجلا کر کہا۔ ”تم یہ کیا کہانی لے بیٹھی ہو۔ ہمیں ان باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ چلو جمشید واپس چلو۔“

گائیڈ عورت نے میری طرف چونک کر دیکھا اور اس لمحے مجھے ایسی نظروں سے دیکھنے لگی جیسے اس نے پہلی بار مجھے دیکھا ہو اور مجھے اس جگہ دیکھ کر حیران ہو رہی ہو ۔ اس کے چہرے پر مجھے حیرت کے ساتھ ساتھ خوف کا عنصر بھی دکھائی دے رہا تھا۔ پھر اس نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کیا۔ مہاراج! مجھے معاف کر دیں۔ میں نے آپ کو پہنچانا نہیں تھا ۔۔۔

پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 26

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں