پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 21

 

Sublimegate Urdu Font Stories

 پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 21


سفید سانپ مجھے لے کر اوپر کی طرف رینگتا ہی چلا گیا۔ کافی وقت گزر گیا آخر مجھے اوپر روشنی کا گول نقطہ سا نظر آنے و لگا۔ جیسے جیسے ہم اوپر کی طرف رینگ رہے تھے نقطہ بڑا ہوتا جارہا تھا۔ میں سمجھ گئی کہ یہ اس کنوئیں کا دہانہ ہے۔ جب سفید سانپ دہانے کے قریب آیا تو میں نے دیکھا کہ ایک طرف دیوار پر بجھے ہوئے ٹھنڈے لاوے نے اوپر جانے کا ایک قدرتی سا راستہ بنا دیا تھا۔ سفید سانپ اس راستے پر رینگنے لگا۔ آخر ہم کنوئیں کے دہانے سے باہر نکل آۓ۔

میں نے پوچھا۔’’کیا وہ کوئی آ سیبی کنواں تھا؟‘‘ روہنی نے کہا۔ "نہیں۔ وہ ایک آتش فشاں پہاڑ تھا جو ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔ آتش فشاں پہاڑ کے دہانے سے باہر آکر سفید سانپ نے مجھے نیچے اتار دیا۔ مجھ میں اب حرکت کرنے کی طاقت آچکی تھی۔ میں نے دیکھا کہ ہمارے ارد گرد فاصلے فاصلے پر کتنے ہی آتش فشاں پہاڑ تھے جن میں دھماکے ہو رہے تھے اور ان کے دہانوں سے گرم کھولتا ہوا سرخ رنگ کا لاوا ابل ابل کر باہر بہہ رہا تھا۔

سستا گھر اور شیطانی طاقت

اگرچہ یہ آتش فشاں ہم سے کافی فاصلے پر تھے لیکن ان کی تپش وہاں تک ہمیں محسوس ہو رہی تھی۔ سفید سانپ نے کہا یہ وہ جگہ ہے جہاں بدروحوں کے آسیب رہتے ہیں۔ میں نے کہا کیا میں کچھ بول سکتی ہوں۔ سانپ نے کہا اب ہم پاتال سے باہر آگئے ہیں تم بات کر سکتی ہو ۔

میں نے سفید سانپ سے پوچھا کہ کیا یہ بدروحوں کے آسیب ہمیں کچھ نہیں کہیں گے ۔ سفید سانپ نے کہا آسیب بڑے خطرناک اور ظالم ہوتے۔ ہیں وہ انسانوں اور حشرات الارض سب کے دشمن ہوتے ہیں ۔ وہ ہمیں اس لئے کچھ نہیں کہیں گے کہ میرے منہ میں شیش ناگن کا دیا ہوا مہرہ موجود ہے۔ جس کے پاس یہ مہرہ ہو بدروح آسیب اس سے ڈرتے ہیں اور اس کے قریب بھی نہیں پھٹکتے۔ اس لئے میں نے تمہیں اپنی پیٹھ سے چمٹا لیا تھا۔ اب تم ایسا کرو کہ اس سے پہلے کہ کوئی آسیب تم پر حملہ کر دے فورا میری پیٹھ کے ساتھ چمٹ جاؤ۔

میں نے ایسا ہی کیا اور سفید سانپ کی پیٹھ پر چڑھ کر اس سے چمٹ گئی۔ سانپ وہاں سے چل پڑا۔ خدا جانے وہ کس طرح دھماکوں کی دراؤنی آوازیں پیدا کرتے کھولتا ہوا لاوا اگلتے ، چھوٹے بڑے آتش فشاں پہاڑوں کے درمیان سے بچ بچ کر رینگتا ، اس علاقے سے آگے نکل گیا۔ اب ہم ایک ایسی جگہ سے گزر رہے تھے جہاں ہمارے ارد گرد نو کیلے ستونوں کی شکل میں سیاہ چٹانیں کھڑی تھیں۔ یہاں ڈراؤنی، پراسرار آوازیں اور کبھی ان آوازوں کی سرگوشیاں سنائی دے رہی تھیں۔ سفید سانپ نے کہا ڈرنا مت یہ بدروحوں کے آسیب کی آوازیں ہیں مگر وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں ۔
ہم ان سیاہ فام خوفناک چٹانوں میں سے بھی گزر گئے۔ پھر ہم ایک ایسے میدان میں آگئے جہاں پہلی بار مجھے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے محسوس ہوۓ۔ میں نے اوپر دیکھا تو آسمان پر بادل چھاۓ ہوۓ تھے۔ دور درختوں کے جھنڈ نظر آرہے تھے۔ میں نے سفید سانپ سے پوچھا یہ کون سی جگہ ہے ؟ اس نے کہا ہم بدروحوں اور آسیبوں کی دنیا سے نکل کر انسانوں کی دنیا میں آگئے ہیں۔ آگے ایک چھوٹا سا جنگل ہے۔ جنگل کے آگے ایک شہر ہے۔ جنگل کے کنارے میں تم سے جدا ہو جاؤں گا۔ چنانچہ جنگل کے کنارے پر آکر سفید سانپ نے مجھے زمین پر اتار دیا اور کہنے لگا میں جانتا ہوں تم ایک اچھی روح ہو ، مگر اپنے ایک گناہ کی سزا بگت رہی ہو۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تمہیں تمہارے دشمن پجاری رگھو نے پاتال میں پھینک دیا تھا۔
مگر اب تم آزاد ہو ۔ 

دیوانی لڑکی کی شادی

میں نے سفید سانپ سے کہا پجاری رگھو تو پھر مجھے پکڑ کر پاتال میں پھینک دے گا۔ سفید سانپ نے کہا اب وہ ایسا نہیں کر سکے گا۔ میں جانتا ہوں اس نے تمہیں شیش ناگن کے منتری کے بتاۓ ہوۓ ایک منتر سے شکست دی تھی اور تمہیں اپنے قبضے میں کر لیا تھا مگر اب وہ ایسا نہیں کر سکے گا میں تمہیں شیش ناگن کا مہرہ دیتا ہوں اس مہرے کو سنبھال کر اپنے پاس رکھنا اس کو اپنے پاس رکھ کر جب تم اپنے دشمن اور قاتل پجاری رگھو پر حملہ کرو گی تو تم اس پر فتح پالو گی اور اسے بڑی آسانی سے ہلاک کر کے اپنے قتل کر بدلہ لے لو گی۔

میں بڑی خوش ہوئی چنانچہ سفید سانپ نے اپنے منہ کی تھیلی میں سے انار کے دانے کے برابر ایک کالے رنگ کا مہرہ نکال کر مجھے دیا اور بولا۔’’ یہ شیش ناگن کا مہرہ ہے ۔ یہ تمہارے پاس ہوگا تو رگھو تو کیا کسی خطرناک سے خطرناک بدروح کا آسیب بھی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا اور تمہارے قریب بھی نہیں آۓ گا۔ میں نے سفید سانپ سے کہا مگر اس کے بغیر آسیب تم پر حملہ کر دے گے تم کیا کرو گے ؟ اس نے کہا میری فکر نہ کرو۔ میرے پاس شیش ناگن کا آتش ناک منتر بھی ہے اس کو پڑھ کر پھونکوں گا تو آسیب اور بدروحیں بھاگ جائیں گے اور پھر میں شیش ناگن سے دوسرا مہرہ بھی لے لوں گا۔

تم اسے اپنے پاس رکھو اور پجاری رگھو کو بھسم کر کے خلق خدا کو اس کے عذاب سے نجات دلاؤ۔ تمہیں اس کی بہت ضرورت ہے۔ میں نے سفید سانپ کا شکریہ ادا کیا اور آخر میں کہا کہ میں ابھی تک چھپکلی کے روپ میں ہوں میں ایسے انسانوں کی دنیا میں نہیں جاتا چاہتی اور میرے پاس میری طاقت بھی نہیں ہے۔ سفید سانپ نے کہا میرے سامنے آ جاؤ۔ میں زمین پر رینگ کر سفید سانپ کے سامنے آگئی۔ سانپ نے مجھ پر ایک گرم پیشکار کھینکی اور اس کے ساتھ ہی میں اپنے اصلی عورت کے روپ میں واپس آگئی۔ مجھے محسوس ہوا کہ میری ساری طاقت بھی واپس آگئی ہے۔
سفید سانپ نے کہا انسانوں کی دنیا میں جاؤ اور اپنی طاقت سے دکھی انسانوں کی مدد کرو۔ کبھی کسی انسان کو تنگ نہ کرنا۔ کوئی مصیبت زدہ ہو تو اس کی مدد کرنا، اس سے تمہارے گناہ کی بخشش ہو جاۓ گی۔

 یہ کہہ کر سفید سانپ غائب ہو گیا۔ میں رات کے سناٹے میں جنگل کے کنارے اپنے عورت کے روپ میں ساڑھی میں ملبوس کھڑی تھی اور سفید سانپ کا دیا ہوا شیش ناگ کاسیاہ مہرہ میری مٹھی میں تھا۔‘‘

روہنی چپ ہو گئی۔ میں اس کی عجیب و غریب حیرت انگیز داستان میں کھو گیا تھا۔
میں نے پوچھا۔ ” پھر کیا ہوا؟“ روہنی نے کہا۔ پھر میں نے ایسا کیا کہ اپنی طاقت کو استعمال کر کے منتر پڑھ کر ”غائب ہو گئی کیونکہ آگے کوئی شہر تھا اور رات کے وقت خوبصورت لباس پہن کر اکیلی عورت شہر کی سڑک پر پھرتی عجیب لگتی ہے اور ویسے بھی میں اس شہر کے بارے میں معلوم کرنا چاہتی تھی کہ یہ کون سا شہر ہے اور میں کس ملک میں ہوں چنانچہ میں جنگل میں داخل ہو گئی . . . . .

اک جن زادے کی خوفناک کہانی

روہنی کی طلسمی داستان میں بڑی توجہ اور گہری دلچسپی سے سن رہا تھا کیونکہ اب یہی عورت مجھے اس مصیبت سے نکال سکتی تھی جس مصیبت میں ، میں اور زیادہ پھنس چکا تھا میں نے اس سے کہا۔ " جنگل کے آگے کون سا شہر تھا ؟" روہنی نے کہا۔ ’’وہی میں تمہیں بتانے والی ہوں ۔ میں جنگل میں سے گزر گئی۔ اب میرے سامنے ایک شہر کی روشنیاں تھیں۔ میں ایک سڑک پر چلنے لگی۔ سڑک خالی پڑی تھی۔ مجھے وہ سڑک کچھ جانی پہچانی لگ رہی تھی۔

میرا اندازہ غلط نہیں تھا تم یہ سن کر حیران ہو گے کہ وہ شہر بھارت کا قدیم مندروں کا شہر متھرا تھا۔ یہی وہ شہر تھا جس کے ویران شمشان گھاٹ میں ہمارے دشمن پہاری رگھو نے اپنے ایک خاص خفیہ منتر کو پڑھ کر مجھے اپنے قبضے میں کر لیا تھا اور پاتال میں پھینک دیا تھا۔ مگر اب مجھے اس کے خفیہ منتر کی پرواہ نہیں تھی اس لئے کہ میرے پاس شیش ناگن کا مہرہ تھا جس کے طلسم کا مقابلہ پجاری رگھو کا کوئی منتر نہیں کر سکتا تھا۔ چنانچہ میں نے اسی وقت فیصلہ کر لیا کہ سب سے پہلے اس بدکردار پجاری رگھو کا کام تمام کر کے اس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھٹکارا حاصل کرنا چاہئے۔

مجھے معلوم تھا کہ پجاری رگھو کی بدروح اماوس کی رات کو شہر سے باہر والے شمشان گھاٹ کی یاترا کرنے آتی ہے ۔ ابھی اماوس کی رات میں ایک ہفتہ باقی تھا۔ میں نے شہر کے ایک پرانے قلعے کے کھنڈر میں بسیرا کر لیا اور رات وہیں گزاری۔ دوسرے دن میں عام عورتوں کے حلیے میں متھرا شہر کے صرافہ بازار میں گئی اور وہاں ایک سنار کو شیش ناگن کا مہرہ دے کر کہا کہ اسے چاندی کی انگوٹھی میں جڑ دے۔

میں نے اپنے سامنے شیش ناگن کا مہرہ چاندی کی انگوٹھی میں جڑوا کر اپنی انگلی میں پہن لیا۔ یہ دیکھو . . .
روہنی نے ہاتھ آگے کر کے مجھے اپنی انگلی دکھائی۔ اس کے انگلی میں چاندی کی انگوٹھی تھی جس میں انار کے دانے کے برابر سیاہ مہرہ جڑا ہوا تھا۔ کہنے لگی۔’’اس کی طاقت سے تم واقف نہیں ہو ۔ اس کی طاقت کا توڑ تو کوئی بڑے سے بڑا آسیب بھی نہیں کر سکتا۔“ ۔

میں نے پوچھا۔ ” پھر کیا ہوا؟ کیا تمہارا اور رگھو کی بدروح کا مقابلہ ہوا؟“ ” تم سنو تو سہی۔‘‘ روہنی بولی۔”میں نے ایک ہفتہ متھرا شہر کے پرانے کھنڈر میں گزار دینے کا فیصلہ کر لیا کیونکہ پجاری رگھو کی بدروح کو ایک ہفتہ بعد اماوس کی رات کو اس کھنڈر کے قریب شمشان گھاٹ کی یاترا کو آنا تھا۔ اماوس کی رات آنے میں دو ہی دن باقی تھے کہ مجھے یکایک تمہارا خیال آگیا اور پھر جب میں نے تمہارے حالات معلوم کئے تو مجھے پتہ چلا کہ اس وقت تمہیں میری اشد ضرورت ہے۔ تب میں یہاں تمہارے پاس حوالات میں پہنچ گئی۔

اک لڑکی کا خوفناک سفر 

میں نے کہا۔ ”روہنی! تم نے اچھا کیا کہ چلی آئیں ورنہ یہ پولیس والے نہ جانے میرا کیا حشر کرتے۔اب آگے کا کیا پروگرام ہے ؟“ روہنی نے میرا ہاتھ تھام لیا اور بولی۔ "ا بھی پجاری رگھو کی بدروح سے نجات حاصل کرنے کا مرحلہ باقی ہے اور اب یہ بدروح میرا مقابلہ نہیں کر سکتی کیونکہ میرے پاس شیش ناگن کا مہرہ موجود ہے۔ پجاری رگھو کو جہنم واصل کرنے کے بعد ہم دونوں بے فکر اور آزاد ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں گے ۔“

میں روہنی کے اس خیال سے متفق نہیں تھا کیونکہ بہرحال روہنی بھی ایک قسم کی بدروح ہی تھی اور وہ انسان نہیں تھی اور میں ایک بٹھکی روح کے ساتھ زندگی بسر نہیں کر سکتا تھا۔ مگر ابھی مجھے روہنی کی ضرورت تھی کیونکہ ایک اور آسیب نتالیا کی صورت میں میرے پیچھے لگا ہوا تھا۔ مجھے اس سے بھی نجات حاصل کرنی تھی جبکہ خود روہنی کا کہنا تھا کہ آسیب جو ہوتا ہے ، وہ بدروح سے زیادہ طاقتور اور زیادہ خطرناک ہوتا ہے ۔ اگرچہ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ شیش ناگن کا مہرہ اس کے پاس ہے اور جس کے پاس یہ مہرہ ہو کوئی خطرناک اور طاقتور سے طاقتور آسیب بھی اس کے قریب نہیں پھٹکتا۔

لیکن یہ مہرہ روہنی کی انگوٹھی میں جڑا ہوا تھا اور انگوٹھی روہنی کی انگلی میں تھی۔ اگر میں یہ انگوٹھی کسی طریقے سے اس سے لے بھی لیتا تو نتالیا کے آسیب کا خطرہ میرے سر پر ہر وقت تلوار کی طرح لٹکار ہتا۔ اگر کسی وقت انگوٹھی پہنی مجھے یاد نہیں رہتی تو نتالیا کا آسیب وہ انگوٹھی غائب کر کے مجھے دوبارہ اپنے قبضے میں کر سکتا تھا۔
یہ اندیشہ مجھے اس لئے تھا کہ میر ادل کہتا تھا کہ نتالیا اسی لڑکی کا آسیب ہے جس کو روہنی نے شمشان گھاٹ کی کوٹھڑی کے مٹکے سے آزاد کیا تھا اور جس نے مجھے پسند کر لیا ہوا تھا۔ اس کی تصدیق صرف روہنی ہی کر سکتی تھی چنانچہ میں نے روہنی سے کہا۔ ” میں بھی رگھو کی بدروح کی موت سے بڑا خوش ہوں گا۔ روہنی ! پھر ہم ہنسی خوشی ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزار سکیں گے لیکن ابھی ہمارا ایک اور دشمن بھی باقی ہے مجھے اس کا فکر لگا ہوا ہے ۔“
روہنی نے حیران ہو کر پوچھا۔ ” وہ کون سا دشمن ہے ؟“ میں نے کہا۔ " شمشان گھاٹ کی آسیبی لڑکی ۔ اس لڑکی کا آسیب جس کو تم نے غلطی سے مٹکے کا ڈھکن سرکا کر آزاد کر دیا تھا اور جو مجھ کو پسند کرنے لگی ہے ۔ وہ یہ سب برداشت نہیں کرے گی کہ میں کسی دوسری عورت کے ساتھ زندگی بسر کروں اور روہنی ! مجھے یقین ہے کہ جو عورت مجھے مردہ اور نیم مردہ لوگوں کی دنیا سے نکال کر بھارت کے شمالی پہاڑی علاقے کی ویران خانقاہ والے قلعے میں لے گئی تھی اور پھر اس نے وہاں مجھ سے شادی رچائی تھی وہ وہی شمشان گھاٹ والی آسیبی لڑکی ہی ہے ...
تمہیں میرے ان حالات کا علم نہیں ہے۔ اب میں تمہیں اپنی داستان سناتا ہوں کہ تم سے جدا ہونے کے بعد مجھ پر کیا گزری ....." پھر میں نے روہنی کو اس غیبی لڑکی کا سارا قصہ سنا دیا جس نے مجھے مردہ اور نیم مردہ دنیا سے نکالا تھا اور پھر مجھ سے زبردستی شادی کر لی تھی اور جس کا نام نتالیا تھا اور جس سے بھاگ کر میں پولیس کی قید میں آ گیا تھا۔ روہنی خاموشی سے میری داستان سنتی رہی۔ جب میں نے اپنی بات ختم کی تو اس نے کہا۔ " تمہارا اندازہ بالکل صحیح ہے شیروان ! وہ لڑکی شمشان گھاٹ کی آسیبی لڑکی ہی ہے اور وہ تمہیں نتالیا کے انسانی روپ میں ملی اور اس نے تم سے بیاہ رچا لیا کیونکہ وہ تمہیں پسند کرتی تھی۔“
میں نے کہا۔’’اگر یہ سچ ہے تو میں پہلے سے زیادہ مشکل میں پھنس گیا ہوں کیونکہ بقول تمہارے آسیب جو ہوتا ہے وہ بدروح سے زیادہ طاقتور اور خطرناک ہوتا ہے۔ یہ آسیبی لڑکی تو مجھے کبھی نہیں چھوڑے گی اور مجھے بڑی آسانی سے تلاش کر کے اپنے قبضے میں کر لے گی۔“
روہنی بھی کچھ فکر مند ہو گئی تھی۔ کہنے لگی۔ اس کا فوری طور پر ایک ہی علاج شاید ہے۔“
”وہ کیا؟“ میں نے پوچھا۔ روہنی نے کہا۔ وہ یہ کہ شیش ناگن کے مہرے والی انگوٹھی تم اپنی انگلی میں پہن لو۔ پھر وہ آسیبی لڑکی نتالیا تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی۔“
میں نے کہا۔ ”لیکن اس طرح تم خطرے میں ہوگی ۔ رگھو پجاری کی بدروح اور آسیبی لڑکی تمہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے اور تم شیش ناگن کی انگوٹھی کے بغیر ان کا مقابلہ نہیں کر سکو گی۔“
روہنی نے کہا۔ میں ان سے کسی نہ کسی طرح اپنا بچاؤ کرلوں گی میں ایک روح ہی تو ہوں، میں غائب ہو سکتی ہوں، کوئی نہ کوئی منتر پھونک کر آسیبی لڑکی کو تھوڑی دیر کے لئے اپنے سے دور رکھ سکتی ہوں۔ لیکن تم انسان ہو ۔ تمہارے پاس کوئی طلسمی طاقت نہیں ہے وہ بڑی آسانی سے تمہیں اپنے قابو میں کر سکتی ہے اور اگر اس کے اندر اس خیال سے حسد کی آگ بھڑک اٹھی کہ تم اس کے خاوند ہوتے ہوئے کسی دوسری عورت سے پیار کرتے ہو یا کوئی دوسری عورت تم سے پیار کرتی ہے تو ہو سکتا ہے تمہیں ہلاک کر کے تمہاری روح کو اپنے قبضے میں کرنے کی کوشش کرے اور یہ بڑی خطرناک اور عذاب دینے والی صورت ہوگی۔“
میں ڈر گیا۔ میں نے کہا۔’’اور یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ کسی وجہ سے انگوٹھی مجھ سے الگ ہو جائے یا اسے پہننا بھول جاؤں یا وہ گم ہو جاۓ یا آسیبی لڑکی نتالیا ہی کسی ذریعے سے میری انگوٹھی اپنے قبضے میں کر لے ، تو میں تو مارا جاؤں گا۔‘‘ روہنی گہری سوچ میں تھی ۔ لگتا تھا کہ اسے حالات کی نزاکت اور سنگینی کا احساس ہو گیا ہے۔ کہنے لگی۔ ’’اس کا ایک ہی علاج ہے کہ کسی طرح اس آسیبی لڑکی کو بھی ہمیشہ کے لئے جلا کر بھسم کر دیا جائے۔“
کیا ایسا ممکن ہے؟‘‘ میں نے پر امید لہجے میں پوچھا۔ روہنی نے کہا۔ ایسا ممکن ہو سکتا ہے لیکن کیسے ہو سکتا ہے ؟ یہ ابھی مجھے معلوم نہیں ہے۔ اس کے لئے مجھے جے پور کے ویران محل والی اپنی سہیلی درگا کی بدروح سے مشورہ کرنا پڑے گا۔ اس کا کوئی حل وہی بتا سکتی ہے۔“ میں نے روہنی سے کہا۔ ” مجھے تو خطرہ ہے کہ آسیبی لڑکی نتالیا اس وقت بھی یہاں نہ آجاۓ۔“ روہنی نے اپنی انگلی سے شیش ناگن کی انگوٹھی اتار کر اسی وقت میری انگلی میں ڈال دی اور کہا۔ ”
تمہارا اندیشہ غلط نہیں۔ نتالیا بڑی طاقتور اور خطرناک آسیبی لڑکی ہے۔ ایسی آسیبی لڑکی اگر کسی سے نفرت کرے تو اسے فورآ ہلاک کر ڈالتی ہے اور اگر کسی سے محبت کرے اور وہ آدمی کسی دوسری عورت سے پیار کرنے لگے تو وہ اس آدمی کو بھی زندہ نہیں چھوڑتی ۔اس لئے کہتے ہیں کہ ان جن بھوتوں ، بدروحوں اور آسیبوں کی دوستی اور دشمنی دونوں چیزیں خطرناک ہوتی ہیں۔ انسان کو ان دونوں سے بچنا چاہئے۔
اور اللہ کے دکھاۓ ہوۓ راستے پر چل کر سادہ اور قناعت کی زندگی بسر کرنی چاہئے۔ میں نے کہا۔ ”لیکن میں تو اپنی حماقت سے تمہیں مرتبان سے آزاد کر کے اس مصیبت میں پھنس چکا ہوں۔ اب تمہیں ہی کسی طرح مجھے اس مصیبت سے نجات دلانی ہوگی۔“
روہنی نے میرا ہاتھ تھام کر مجھے تسلی دی اور پیار بھرے لہجے میں کہا۔
”شیروان ! تم میری زندگی ہو ۔ میری محبت ہو ۔ تمہاری خاطر میں بڑے سے بڑا خطرہ مول لے سکتی ہوں۔ آگ کے شعلوں میں کود سکتی ہوں اس کی تم فکر نہ کرو۔ کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکل آۓ گا۔ابھی شیش ناگن کے مہرے والی انگوٹھی تمہارے پاس ہے اور آسیبی لڑکی نتالیا تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔“
میں نے کہا۔ ”روہنی ! تم ایک بدروح یا بھٹکی ہوئی روح ہو ۔ کیا تم پتا نہیں لگا سکتی کہ آسیبی لڑکی نتالیا اس وقت کہاں ہے اور میرے فرار ہو جانے کے بعد وہ مجھے پکڑنے کے لئے کیا کچھ کر رہی ہے ؟“ روہنی کہنے گئی۔ میں تمہیں پہلے بھی بتا چکی ہوں کہ ایک بدروح ہوتی ہے ، ” ایک آسیب ہوتا ہے۔ یوں سمجھ لو کہ آسیب بدرحوں کی بدروح ہوتی ہے اور بدروح سے ایک ہزار گنا زیادہ طاقتور اور خطرناک ہوتی ہے ۔
اس کی دنیا بدروحوں کی دنیا سے بالکل الگ تھلگ زمین کے نیچے پاتال کی گہرائیوں میں ہوتی ہے۔ آسیب مسلمان نہیں ہوتے۔ یہ کافر ہوتے ہیں۔ ہندو دھرم کے شاستروں میں لکھا ہے کہ یہ ان ہندوؤں کی روحیں ہوتی ہے جو بے گناہ، غریب اور بے سہارا بچوں کو پکڑ کر دیوتاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے انہیں مورتیوں کے آگے قتل کر کے ان کے خون سے مورتیوں کو اشنان کراتے ہیں۔ یہ ایک ایسے عذاب کی آگ میں جل رہے ہوتے ہیں کہ جس کے نظر نہ آنے والے شعلے انہیں ہر وقت جلاتے رہتے ہیں اور اس کا انتقام وہ انسانوں سے لیتے ہیں۔ لیکن یاد رکھو مسلمانوں کے سینے میں ایمان کی شمع روشن ہوتی ہے۔ مسلمان کیسا بھی ہو وہ ایک خدا اور خدا کی آخری کتاب قرآن پاک اور خدا کے نبی آخر الزمان کا ماننے والا ہوتا ہے ۔
چنانچہ بدروحیں اور آسیب کبھی کسی مسلمان کو نہیں چمٹتے۔ لیکن اگر کسی وجہ سے کسی مسلمان کا ایمان کمزور ہو گیا ہو اور شرک میں پڑ گیا ہو اور جادو ٹونہ کرنے لگا ہو تو یہ بدروحیں اور آسیب بڑی آسانی سے اس پر اپنا سایہ ڈال دیتے ہیں اور پھر اس سے اپنی مرضی کے کام کرواتے ہیں۔“ میں نے کہا۔ ”لیکن میں نے کبھی جادو ٹونہ نہیں کیا تھا پھر یہ آسیب میرے پیچھے کیوں پڑ گیا ہے ؟
روہنی کہنے لگی۔ ’’اس آسیبی لڑکی کے آسیب نے تم پر اپنا سایہ نہیں ڈالا وہ تمہیں کوئی نقصان بھی نہیں پہنچا سکا اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ تم مسلمان ہو ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آسیبی لڑکی تمہیں پسند کرنے لگی ہے بس تم سے یہ غلطی ہو گئی کہ تم نے قلعہ روہت گڑھ کے محل میں رات کو میرے قتل ہونے کا منظر دیکھا اور پھر یہ بھی دیکھا کہ میرے قاتل رگھو نے میری روح کو مرتبان میں بند کر دیا ہے تو تم نے ہمارے معاملات میں دخل اندازی کر کے میری روح کو مرتبان کھول کر آزاد کر دیا۔
تمہاری ساری مصیبت اسی وجہ سے شروع ہوئی ہے ۔ عقل مندی کا تقاضا یہ تھا کہ جو کچھ تم نے دیکھا تھا اسے دیکھ کر خاموشی کے ساتھ قلعے سے نکل جاتے مگر تم نے مہم جو اور ایڈونچرس بننے کی کوشش کی اور وہ کام کر بیٹھے جو کسی زندہ انسان کو نہیں کرنا چاہئے تھا۔ بہر حال تمہیں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں ایک نہ ایک دن تمہیں تم سے محبت کر نے والی لڑکی نتالیا کے آسیب سے بھی چھٹکارا دلادوں گی۔ بس اس کے لئے مجھے جے پور کے ویران محل میں جا کر درگا کی بدروح سے مشورہ کرنا ہوگا ۔۔۔۔
کرنا ہوگا کیونکہ وہی مجھے کوئی راستہ دکھا سکتی ہے ۔“
میں نے کہا۔” تو پھر ہمیں اسی وقت جے پور روانہ ہو جانا چاہئے۔“ ” میں بھی یہی سوچ رہی ہوں۔‘‘ روہنی نے کہا۔ ” کیونکہ ہمیں دیر نہیں کرنی چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ مجھے آسیبی لڑکی نتالیا کا کچھ پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہے اور تمہیں دوبارہ اپنے قبضے میں کرنے کے لئے کیا کچھ نہیں کر رہی۔اس سے پہلے کہ وہ ہمارے خلاف کوئی کارروائی کرے ہمیں اس کا توڑ سوچ لینا چاہئے۔
مقبرہ جہانگیر کے چبوترہ پر بیٹھے باتیں کرتے ہمیں کافی رات گزر گئی تھی۔ آسمان پر صبح کی سفیدی نمودار ہونے لگی تھی۔ روہنی نے کہا۔ ”اپنا ہاتھ مجھے دو۔ ہم اس وقت جے پور جائیں گے اور درگا کی بدروح سے ملاقات کریں گے۔ ہیں جے پور جانے کے لئے نہ تو ویزا پاسپورٹ کی ضرورت تھی نہ کسی ہوائی جہاز یا ٹرین کی ضرورت تھی۔ عجیب مسافر تھے ، عجیب سفر تھا۔ روہنی غائب ہو گئی۔ اس نے میرا ہاتھ تھاما تو میں بھی غائب ہوگیا۔ ہم مقبرہ جہانگیر سے فضا میں بلند ہوۓ اور ہم نے لاہور ریلوے سٹیشن کی طرف رخ کر لیا۔ ہم اس وقت زمین سے دو ڑھائی سو فٹ کی بلندی پر اڑ رہے تھے۔ ہماری رفتار بھی اتنی زیادہ نہیں تھی۔ میں نے روہنی سے پوچھا۔ ”ہم زیادہ تیز کیوں نہیں اڑ رہے ؟“
روہنی کہنے لگی۔" جے پور میں ہمیں درگا سے رات کو ہی ملنا ہے۔ اتنی جلدی وہاں پہنچ کر کیا کریں گے ؟ صبح ہو رہی ہے راستے میں شہروں کی سیر ہی کرتے جائیں گے۔“
اس کا مطلب تھا کہ ہم شہروں کے اوپر سے گزرتے ہوۓ ان کا نظارہ کرتے جائیں گے ۔ مجھے بھی کوئی جلدی نہیں تھی۔ لاہور سٹیشن کے اوپر سے گزرنے کے بعد ہم امر تسر جانے والی ریلوے لائن کے اوپر آگئے ۔ ہماری اڑنے کی رفتار اتنی بھی کم نہیں تھی۔ کوئی پندرہ میں منٹ کے بعد ہم امر تسر کے اوپر سے گزر رہے تھے۔۔
پھر امرتسر بھی پیچھے رہ گیا۔ اسی طرح ہم جالندھر اور لدھیانہ اور انبالہ شہروں کے اوپر سے بھی گزر گئے۔ آگے میر گڑھ کا شہر تھا وہ بھی آیا اور ہمارے نیچے سے نکل گیا۔
اب دہلی کا انتظار تھا۔
دہلی اس زمانے میں ابھی اتنا نہیں پھیلا تھا۔ ہم دہلی سے بھی گزر گئے ۔ دہلی سے متھرا کوئی زیادہ فاصلے پر نہیں ہے۔ متھرا سے ہم نے راجستھان کی طرف رخ کر لیا اور جے پور پہنچ گئے۔ اس وقت تک ابھی دن کا پہلا پہر ہی تھا۔ ہم دو تین گھنٹوں میں بہت ہلکی رفتار کے ساتھ اڑتے ہوۓ جے پور پہنچ گئے تھے۔ جے پور کے ایک الگ تھلگ علاقے میں جھیل کے پاس ایک باغ میں ہم اترے اور زمین پر اترنے کے بعد اپنی اپنی انسانی شکلوں میں واپس آگئے تھے ۔ غیبی حالت سے انسانی صورت میں واپس آنے کے بعد مجھے بھوک سی محسوس ہونے گئی۔
میں نے روہنی سے کہا۔ میں کہیں ناشتہ کرنا چاہتا ہوں۔“ وہ مسکرائی۔ کہنے لگی۔ ”ہمیں کم از کم اس مصیبت سے تو چھٹکارا مل گیا ہے۔ نہ بھوک لگتی ہے نہ پیاس لگتی ہے ۔ چلو کسی جگہ بیٹھ کر ناشتہ کرتے ہیں۔“ ”تم بھی ناشتہ کرو گی؟“ میں نے پوچھا۔ مجھے معلوم تھا کہ روہنی کو ضرورت تو نہیں ہے لیکن وہ جب اور جس وقت چاہے کھا پی سکتی ہے۔ کہنے لگی۔ ” تمہارا سا تھ دینے کے لئے ناشتہ کروں گی۔“
ہم جے پور کے ایک ہوٹل میں آکر بیٹھ گئے۔ ناشتہ منگوا کر کھانے پینے میں مصروف ہو گئے ۔ روہنی نے کہا۔ " میں نے تمہیں ایک انگوٹھی دی تھی۔ مجھے اچانک اس کا خیال آ گیا ہے وہ تم نے کہاں رکھی ہے ؟‘‘
میں نے اسے کہا۔ ”جس وقت نتالیا مجھے بدروحوں کی دنیا سے ہوا میں اڑا کر ویران خانقاہ میں لائی تھی تو اسی وقت اس نے میری انگوٹھی میرے ہاتھ سے اتار کر اپنے قبضے میں کر لی تھی۔ کیونکہ اس نے میرا انگوٹھی والا ہاتھ ہی پکڑ رکھا تھا۔
روہنی نے کہا۔ ’’اب یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ نتالیا ہی شمشان گھاٹ والی آسیبی لڑکی ہے ۔ اگرچہ میری انگوٹھی اس کی طاقت کا توڑ نہیں تھی اور وہ تمہیں اس کے آسیبی جادو سے نہیں بچا سکتی تھی پھر بھی وہ چونکہ تم کو پسند کرتی تھی اور تم سے محبت کرنے لگی تھی اس لئے تمہارے پاس میری کوئی نشانی نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔“ میں نے روہنی سے پوچھا۔ ”روہنی ! اگر فرض کیا تمہاری شیش ناگن کی انگوٹھی کا مہرہ بھی مجھے آسیبی لڑکی نتالیا سے نہ بچا سکا اور اس نے مجھے ہمیشہ کے لئے اپنے قبضے میں کر لیا تو میرا کیا حشر ہوگا؟
کیا میں بھی اس کے ساتھ ایک بدروح بن جاؤں گا ؟“ روہنی کہنے لگی۔’’اول تو ایسی بات نہیں ہوگی اور اگر بدقسمتی سے ایسا ہوگیا اور شیش ناگن کا مہرہ بھی تمہیں نہ بچا سکا تو پھر جہاں تک میں سمجھتی ہوں نتالیا تمہیں اپنے ساتھ اس جگہ لے جاۓ گی جہاں کی وہ رہنے والی ہے ۔‘‘ ” وہ کہاں کی رہنے والی ہے ؟“ میں نے پوچھا۔ روہنی نے کہا۔ ”تم کو یہ بات میں نے ابھی تک نہیں بتائی کہ نتالیا ہندوستان کی رہنے والی نہیں ہے۔ وہ شمالی افریقہ کے ملک ایتھوپیا کی رہنے والی ہے ۔ میں نے کہا۔ ’’مگر اس کی شکل و صورت حبشی عورتوں والی نہیں ہے اور اس کا رنگ بھی گورا ہے ۔“
روہنی کہنے لگی۔ اصل میں نتالیا کی ماں انگریز تھی جس نے ایتھوپیا کے ایک انیگرو سے شادی کر لی تھی۔ نتالیا انگریز ماں پر گئی تھی۔“
"پھر یہ آسیبی عورت کیسے بن گئی؟“ میرے اس سوال پر روہنی نے کہا۔ ”یہ میں تمہیں نہیں بتا سکتی۔ نتالیا کے ماں باپ جب وہ دس پندرہ سال کی تھی تو مر گئے تھے اور نتالیا کو اس کے باپ کے قبیلے والے اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ یہ آدم خور وحشی لوگوں کا قبیلہ تھا۔ نتالیا ان کے درمیان بڑی ہوئی اور ان کے ساتھ وہ بھی آدم خور بن گئی۔
پھر اس سے ایک ایسا گناہ سرزد ہو گیا کہ جس کی سزا وہ آسیب بن کر بھگت رہی ہے۔ اس سے زیادہ میں نہ تمہیں بتا سکتی ہوں اور نہ تم سمجھ ہی سکو گے۔“
یہ سن کر کہ نتالیا آدم خور قبیلے کی لڑکی تھی میرے جسم میں خون کی لہر دوڑ گئی۔ اس کا مطلب تھا کہ نتالیا آدم خور تھی اور وہ کسی وقت مجھے بھی ہڑپ کر سکتی تھی۔ میں اس سے اور زیادہ ڈرنے لگا۔ میں نے روہنی سے کہا۔ ”لیکن وہ تو میرے ساتھ بڑی محبت کا سلوک کرتی رہی ہے۔“
روہنی ہنسنے لگی۔ ”تم اپنی فکر نہ کرو۔ وہ تم سے محبت کرتی ہے۔ اس لئے تمہیں کچھ نہیں کہے گی لیکن اس کے باوجود وہ ایک نارمل عورت نہیں ہے وہ ایک آسیبی لڑکی ہے اور آدم خور رہ چکی ہے وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتی ہے ۔“ ” پھر تو مجھے ہر حالت میں اس سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔ میں نے خوف زدہ لہجے میں کہا۔ روہنی نے میرے ہاتھ پر اپنے ہاتھ کی ہلکی سی تھپکی دیتے ہوئے کہا۔ ” میں تمہیں اس کے پاس نہیں رہنے دوں گی۔ میں اسے ختم کر کے ہی چھوڑوں گی۔
آخر تم بھی تو میرے محبوب شہزادے شیروان کی تصویر ہو اور میں تو تمہیں اپنا محبوب شہزادہ شیروان ہی سمجھتی ہوں۔ تمہارے لئے تو میں اپنی جان بھی قربان کر سکتی ہوں۔
میں نے ہنس کر کہا۔ " تم تو پہلے سے ہی مری ہوئی ہو تم اپنی جان کہاں سے قربان کرو گی؟"
روہنی نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔ ”میں نے تمہیں پہلے بھی کہا تھا کہ ہم بھٹکتی روحوں اور بدروحوں کی بھی موت ہوتی ہے ۔ ہمیں بھی موت آ جاتی ہے مگر یہ بڑی گہری راز کی باتیں ہیں تم انہیں نہیں سمجھ سکو گے۔“
ناشتہ ختم ہوا تو ویٹر بل لے آیا۔ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں تھا نتالیا نے مجھے جو دو ہزار روپے دیئے تھے وہ تلاشی کے بعد پولیس نے اپنے قبضے میں کر لئے تھے مگر روہنی کے ہوتے ہوۓ مجھے پیسوں کی کوئی پریشانی نہیں ہو سکتی تھی۔ روہنی نے اسی طرح اپنے پرس میں ہاتھ ڈالا اور سو روپے کا انڈین کرنسی کا بالکل نیا نوٹ نکال کر ویٹر کو دے دیا۔ میں نے روہنی سے کہا۔ یہ بالکل نیا نوٹ تھا۔ کیا یہ انڈین ٹکسال سے آیا تھا؟“ روہنی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ” مجھے نہیں معلوم یہ کہاں سے آتا ہے۔
بس مجھے ضرورت ہوتی ہے تو پیسے اپنے آپ آ جاتے ہیں۔ چلو شہر کی سیر کرتے ہیں۔“ ہوٹل سے نکل کر ہم شہر کی سیر کرنے لگے۔ ہمیں دیکھ کر اور خاص طور پر روہنی کو دیکھ کر کسی کو یقین نہیں آ سکتا تھا کہ یہ عورت ایک بھٹکی ہوئی روح ہے اور جب چاہے غائب ہو سکتی ہے ، جب چاہے ہوا میں اڑ سکتی ہے ۔
دو پہر تک ہم شہر کی سیر کرتے رہے۔ پھر دو پہر کا کھانا بھی اس ہوٹل میں بیٹھ کر کھایا۔اس کے بعد جے پور کے ایک تاریخی باغ میں آکر بیٹھ گئے۔ ابھی آدھی رات ہونے میں بہت وقت تھا۔ اس وقت اچانک مجھے اپنے بچپن کے دوست بمبئی والے جمشید کا خیال آ گیا۔ اس سے ملے ایک عرصہ ہو گیا تھا۔ میں نے روہنی سے کہا۔ روہنی ! میرا اپنے ایک دوست سے ملنے کو بہت جی چاہ رہا ہے۔ ابھی ہمارے پاس وقت بھی بہت ہے کیوں نہ میں اس سے مل لوں۔‘‘
اس نے پوچھا۔ ” کیا تم اسے ضرور ملنا چاہتے ہو ؟“ میں نے کہا۔ ”وہ میرا ایک ہی دوست ہے اور میں ایک عرصے سے اسے نہیں ملا مگر وہ یہاں سے بڑی دور بمبئی میں رہتا ہے ۔“ روہنی نے کہا۔ ’’ فاصلہ میرے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اگر تمہاری یہی خواہش ہے تو چلو اس سے جا کر مل لیتے ہیں۔“ یہ کہہ کر روہنی دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہو گئی۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑا تو میں بھی غائب ہو گیا۔اس کے بعد ہم ہوا میں پرواز کر رہے تھے۔ میں نے محسوس کیا کہ ہماری رفتار کسی جیٹ ہوائی جہاز سے بھی دوگنی تھی۔ ہم بڑی اونچائی پر اڑ رہے تھے اور نیچے مجھے دھند کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں پرواز کرتے ہوۓ آدھ گھنٹہ ہی گزرا ہوگا کہ روہنی نے کہا۔ ”بمبئی آ رہا ہے۔“
اس کے ساتھ ہی ہم بلندی سے نیچے اترنے لگے۔ کچھ ہی دیر کے بعد مجھے نیچے بمبئی کی نواحی آبادیاں نظر آنے لگیں۔ روہنی نے پوچھا۔ ” تمہارا دوست بمبئی میں کہاں رہتا ہے ؟“
میں نے اسے جگہ بتائی تو وہ بولی۔ میں سمجھ گئی۔ میں بمبئی شہر کے تمام علاقوں سے واقف ہوں۔“
اور وہ مجھے بمبئی کے اس علاقے کے لوکل سٹیشن کے باہر لے آئی جہاں جمشید کا آٹو سٹور اور گیراج تھا۔ ہم ایک الگ سی جگہ دیکھ کر درختوں کے نیچے اتر آۓ۔ زمین پر اترنے کے فورا بعد ہم اپنی انسانی شکلوں میں واپس آگئے ۔ روہنی کہنے لگی۔”تم اپنے دوست سے کیا کہو گے کہ میں کون ہوں ؟“ میں نے کہا۔ ” تم ہی بتا دو کہ میں اسے کیا کہوں ؟" روہنی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ " تم کہہ دینا کہ میں تمہاری بیوی ہوں ۔ کیا تم یہ کہنا پسند نہیں کرو گے ؟“
میں نے کہا۔ ”کیوں نہیں پسند کروں گا۔ میں اسے یہی بتاؤں گا کہ تم میری بیوی ہو اور تمہارا نام سلطانہ ہے۔“
’’اس میں کوئی جھوٹ تھوڑی ہے ۔‘‘روہنی نے مسکراتے ہوۓ کہا اور ہم نے بمبئی کے لوکل سٹیشن سے ٹیکسی لی اور جمشید کے گیراج پر آگئے۔
میں نے دیکھا کہ جمشید اس وقت ایک کرسی پر بیٹھا اپنے ایک مستری کو کچھ ہدایات دے رہا تھا۔ اس نے ٹیکسی میں سے مجھے اترتے دیکھا تو فورا اٹھا اور آتے ہی گلے لگا لیا۔ فیروز ! تم اچانک کیسے آگئے میرے دوست ! کوئی چٹھی وغیرہ بھی نہیں لکھی۔“
میں نے روہنی کا اس سے تعارف کراتے ہوۓ کہا۔’’اس سے ملو۔ یہ سلطانہ ہے میری بیوی۔ بس اچانک ہی پروگرام بن گیا اور ہم ویزا لگوا کر پاکستان سے تمہارنے پاس آگئے۔ “
جمشید نے روہنی کو سلام کیا اور کہا۔ ”بھابھی! آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی ہے۔ اچھا ہوا میرے دوست کا بھی گھر آباد ہو گیا۔ وہ ہمیں اوپر لے گیا اور ہماری بڑی خاطر مدارت کی ۔ کہنے لگا۔ کتنے دنوں کا ویزا لے کر آۓ ہو ؟“ میں نے کہا۔ ” دس پندرہ دن تو شہر میں رہینگے ۔“ حالانکہ ہم وہاں چار پانچ گھنٹوں سے زیادہ نہیں ٹھہر سکتے تھے کیونکہ ہمیں واپس جے پور جا کر آدھی رات کو پرانے محل میں درگا کی بدروح سے بھی ملاقات کرنی تھی۔ میں نے ویسے ہی کہہ دیا تھا کیونکہ اگر میں اسے کہتا کہ بس دو چار گھنٹوں کے لئے آۓ ہیں تو اس کی مجھے بڑی لمبی چوڑی وضاحت کرنی پڑتی ۔
ہمارا کیا تھا ہم دو چار گھنٹوں کے بعد وہاں سے غائب ہو سکتے تھے۔ شام ہو گئی۔ کوئی آٹھ بجے ہم نے کھانا کھایا اور اس کے بعد جمشید کے گیراج کے باہر کرسیوں پر بیٹھ کر بازار کی رونق سے لطف اندوز ہونے لگے۔ جمشید نے وہیں ہمارے لئے چاۓ منگوالی۔ میں اور روہنی چاۓ پیتے ہوۓ باتیں کرنے لگے۔
روہنی کہنے گئی۔ تمہارا یہ دوست بڑا اچھا آدمی ہے ۔ یہ تمہارا صحیح معنوں میں دوست ہے۔“
میں نے کہا۔ ہم بچپن میں ایک ساتھ کھیلے ہیں۔“ اسی طرح ہم بیٹھے باتیں کر رہے تھے اور بازار کی رونق بھی دیکھ رہے تھے۔اتنے میں فٹ پاتھ پر سے ایک سادھو گزرا۔ وہ چلتے چلتے اچانک رک گیا اور رک کر ہم دونوں کو گھور کر دیکھنے لگا۔ میں نے دیکھا کہ سادھو کو دیکھتے ہی روہنی کچھ گھبرا سی گئی۔ جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور بولی۔” چلو شیروان ! اوپر چلتے ہیں۔“ اور وہ میرے آگے آگے سٹرھیاں چڑھ کر جمشید کے فلیٹ کے ڈرائنگ روم میں آکر بیٹھ گئی۔ میں نے کہا۔’’خیریت تو ہے روہنی۔
اس نے کہا۔”جلدی سے اپنا ہاتھ مجھے دو۔ ہم ابھی جے پور جار ہے ہیں۔“ میں کچھ سمجھ نہ سکا۔ میں نے اپنا ہاتھ روہنی کو پکڑا دیا۔ میرا ہاتھ پکڑتے ہی ہم دونوں غائب ہو گئے اور کمرے کی کھلی کھڑکی سے نکل کر ہوا میں پرواز کرنے گئے ۔ روہنی دیکھتے ہی دیکھنے کافی بلندی پر چلی گئی اور اس نے اتنی تیزی سے اڑنا شروع کر دیا کہ شاید تین چار سیکنڈ میں ہم بمبئی کو کافی پیچھے چھوڑ کر تاریک جنگلوں کے اوپر سے گزر رہے تھے ۔ میں سمجھ گیا تھا کہ روہنی سادھو کو دیکھ کر میرے دوست کے مکان سے ایک دم نکل آئی ہے۔ مگر میں نے ابھی تک اس سے بالکل نہیں پوچھا تھا کہ وہ سادھو کو دیکھ کر گھبرا کیوں گئی تھی اور اس نے ایک دم بمبئی سے نکل جانے کا پروگرام کیوں بنالیا تھا۔
ہم جے پور پہنچ گئے ۔ ہم بڑی جلدی آگئے تھے ابھی آدھی رات نہیں ہوئی تھی۔ روہنی جے پور کے پرانے محل کی ایک بارہ دری میں اتری ۔ ہم وہیں بیٹھ گئے۔ اب ہم غائب نہیں تھے بلکہ انسانی روپ میں بیٹھے تھے۔ مجھ سے نہ رہا گیا۔ میں نے روہنی سے پوچھا۔ ”روہنی ! تم اتنی جلدی وہاں سے کیوں چل پڑی تھیں ؟ کیا کوئی خاص بات ہوئی تھی ؟“ روہنی مجھ سے سادھو والی بات چھپانا چاہتی تھی۔ کہنے لگی۔ ”کوئی خاص بات نہیں ہوئی تھی۔ بس میرا جی چاہا کہ اب ہمیں وہاں سے نکل جانا چاہئے ۔ ہم بدروحوں کو بہت سی باتوں کا پہلے سے خطرہ محسوس ہو جاتا ہے اس لئے جب میرے دل میں وہاں سے نکل پڑنے کا خیال آیا تو میں تمہیں لے کر چل پڑی۔“
میں نے اس سے یہ پوچھنا مناسب نہ سمجھا کہ وہ سادھو کو دیکھ کر گھبرا کیوں گئی تھی۔ ہم آدھی رات تک قدیم محل کی بارہ دری میں بیٹھے باتیں کرتے رہے۔ جب روہنی کو محسوس ہوا کہ آدھی رات ہو گئی ہے تو وہ مجھے لے کر نیچے ویران محل کے اس تہہ خانے میں آ گئی جہاں آدھی رات کے بعد درگا کی بدروح نمودار ہوتی تھی۔ اس وقت میں اور روہنی دونوں عام انسانی شکل و صورت میں تھے۔روہنی نے مجھے پیچھے ایک ستون کے پاس بٹھا دیا اور کہنے لگی۔’’خواہ کچھ ہو جاۓ تم اس جگہ سے مت اٹھنا، جہاں اس نے کہا تھا میں وہاں بیٹھ گیا۔ تہہ خانے میں اندھیرا تھا۔ میں جب غائب ہوتا تھا تو اندھیرے میں بھی دیکھ لیتا تھا لیکن انسانی شکل میں ظاہر ہوتے ہی میرے اندر سے یہ صلاحیت ختم ہو جاتی تھی اور میں عام انسانوں کی طرح اندھیرے میں نہیں دیکھ سکتا تھا۔
لیکن میں اندھیروں میں اتنا دیکھ رہا تھا کہ اب انسانی شکل میں بھی میری آنکھیں اب ویران قلعوں اور تہہ خانوں کے اندھیروں کی عادی ہو گئی تھیں اور ان اندھیروں میں بھی مجھے کچھ نہ کچھ نظر آ جاتا تھا۔
روہنی اس جگہ ایک ستون کے پاس کھڑی ہو گئی تھی جہاں درگا کی بدروح نمودار ہوتی تھی۔ جب ٹھیک آدھی رات گزر گئی تو اسی طرح اندھیرے کونوں میں سے رونے کی درد ناک آوازیں آنا شروع ہو گئیں ۔ پھر یہ آوازیں گم ہو گئیں اور ایک روشنی سی ہو کر بجھ گئی۔ پھر میں اس دیوار کو تک رہا تھا جس کے اندھیرے میں سے درگا کی بد روح نمودار ہوا کرتی تھی۔اتنے میں درگا کی بدروح آگئی۔ اس نے اپنی سہیلی روہنی کو دیکھ لیا تھا۔ اس نے اپنی آسیبی آواز میں پوچھا۔ روہنی! کہو۔ کیسے آنا ہوا؟ تمہیں دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی ہے کہ تم اپنے دشمن رگھو کی قید سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی ہو ۔ “
روہنی نے کہا۔ ’’درگا! مجھے اس بات کا تم سے کوئی گلہ نہیں ہے کہ تم میری مدد نہیں کر سکی تھیں۔‘‘
درگا بدروح نے کہا۔’’ تمہارا پتی دیو شیروان میرے پاس آیا تھا مگر میں نے اسے صاف بتا دیا تھا کہ میں مجبور ہوں۔
روہنی ! تم کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ پجاری کے پاس شیش ناگنی کے مہا منتری کا خفیہ منتر ہے جس کی طاقت کا میں مقابلہ نہیں کر سکتی۔“
روہنی بولی۔’’درگا! تم میری پیاری سہیلی ہو۔ مجھے تم سے گلہ پیدا ہو ہی نہیں سکتا لیکن اب میں اپنے دشمن رگھو کا صرف مقابلہ ہی نہیں کر سکتی بلکہ اس کا کام تمام بھی کر سکتی ہوں۔“
درگا بدروح نے حیران ہو کر پوچھا۔ ”یہ تم کیسے کہہ سکتی ہو ؟“ روہنی نے کہا۔’’اگر ہمارے دشمن رگھو کے پاس شیش ناگن کے مہا منتری کا خفیہ منتر ہے تو میرے پاس شیش ناگن کا مہرہ ہے جس کی طاقت کا پجاری رگھو کے پاس کوئی توڑ نہیں ہے۔“ ۔ درگا کی بدروح نے تعجب سے پوچھا۔ ” کیا تم سچ کہہ رہی ہو روہنی ؟ کیا واقعی
تمہارے پاس شیش ناگن کا مہرہ ہے ؟“
روہنی نے کہا۔ میں تمہیں دکھا سکتی ہوں۔“ روہنی نے میری طرف منہ کر کے کہا۔ ”شیروان ! مہرے والی انگوٹھی مجھے دے جاؤں ۔۔۔
میں نے انگلی میں سے انگوٹھی اتاری اور اسے روہنی کو دے دیا اور نظریں جھکاۓ جھکاۓ واپس اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گیا۔ روہنی نے آگے بڑھ کر درگا کی بدروح کو انگوٹھی دکھائی۔ درگا کی بدروح انگوٹھی کو تلقکی باندھے دیکھ رہی تھی۔ پھر اس نے کہا۔ "روہنی ! تم بڑی خوش قسمت ہو کہ تمہیں شیش ناگن کا نایاب مہرہ مل گیا ہے مگر یہ تمہیں کہاں سے ملا ؟“ روہنی کہنے لگی۔’’ بس میرے خدا نے میری مدد کی اور مجھے یہ مہرہ مل گیا۔‘‘
درگا بدروح نے انگوٹھی روہنی کو واپس دیتے ہوۓ کہا۔ ’’مگر تم نے یہ مہرہ شیروان کو کیوں دے رکھا ہے ۔ وہ ایک عام کمزور انسان ہے اس سے یہ مہرہ کوئی بھی چھین کر لے جاسکتا ہے ۔“ روہنی نے کہا۔ ”شیروان کو اس کی ضرورت ہے۔
اسے کیوں ضرورت ہے ؟
یہی بتانے کے لئے میں اسے اپنے ساتھ تمہارے محل میں لے آئی ہوں۔“ درگا کی بدروح خاموش تھی۔ وہ روہنی کو تک رہی تھی۔ اس نے پوچھا۔”کیا یہ انسان پھر کسی مشکل میں پھنس گیا؟“ روہنی کہنے لگی۔ ’’درگا ! تم اچھی طرح جانتی ہو کہ آج سے تین سو سال پہلے میری شادی صوبے دار شہزادہ شیروان سے ہو گئی تھی اور میں نے شادی کے بعد اسلام قبول کر لیا تھا۔
درگا کی بدروح نے کہا۔ ”لیکن یہ تمہارے پتی دیو شیروان کا دوسرا جنم نہیں ہے
روہنی نے کہا۔ میں جانتی ہوں کہ مسلمانوں کا کوئی دوسرا جنم نہیں ہوتا اور یہ میرے خاوند کا دوسرا جنم نہیں ہے صرف اس کی شکل و صورت میرے مرحوم خاوند سے بے حد ملتی جلتی ہے۔ اس کی شکل میں مجھے میرا خاوند مرنے کے بعد دوبارہ مل گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ میں اسے کھونا اور اپنے سے جدا نہیں کرنا چاہتی۔ لیکن یہ ایک اور مشکل میں پھنس گیا ہے جس کے بارے میں ، میں تجھ سے مشورہ کرنے آئی ہوں۔“
”وہ کیا مشکل ہے ؟‘‘ درگا کی بدروح نے پوچھا۔
روہنی نے آسیبی لڑکی کی ساری داستان بیان کر دی کہ کس طرح متھرا کے ویران شمشان گھاٹ کی کوٹھڑی میں اس کی غلطی سے ایک لڑکی کا آسیب آزاد ہو گیا ۔۔۔
درگا کی بدروح خاموشی سے یہ طلسمی داستان سنتی رہی ۔ جب روہنی ساری بات بیان کر چکی تو اس نے روہنی سے پوچھا۔ ”اب تم کیا چاہتی ہو ؟“ روہنی نے کہا۔ ” وہ آسیبی لڑکی نتالیا کے روپ میں شیروان کا پیچھا کر رہی ہے اور تم اچھی طرح جانتی ہو کہ آسیب بڑی زبردست طاقت رکھتا ہے۔ آسیب کسی عورت کا ہو یا مرد کا اس کی طاقت کا مقابلہ کوئی جن بھوت یا بدروح نہیں کر سکتی۔“
درگا نے کہا۔ "اگر تمہارے پاس شیش ناگن کا مہرہ ہے جس کے پاس یہ مہرہ ہوتا ہے کوئی جن ، بھوت ، چڑیل، بدروح یا آسیب اس کے قریب بھی نہیں بھٹک سکتا۔ تم نے یہ مہرہ انگوٹھی میں ڈال کر اسے دے بھی دیا ہے پھر تمہیں شیروان کی کیوں فکر ہے ؟“
روہنی کہنے لگی۔ ’’مگر شیر وان کوئی بدروح نہیں ہے۔ وہ ایک عام انسان ہے ۔
ایک کمزور انسان۔ آسیبی لڑکی نتالیا اس کے پیچھے لگ چکی ہے اور اسے دوبارہ اپنے قبضے میں کرنے کے لئے اس کا پیچھا کر رہی ہو گی۔ وہ شیروان کے قریب تو نہیں آ سکے گی اور اسے اغوا کر کے بھی نہیں لے جا سکے گی کیونکہ شیروان کے پاس شیش ناگن کا مہرہ ہوگا لیکن کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ شیروان سے خود انگوٹھی کہیں گر سکتی ہے ۔ آسیبی لڑکی نتالیا عیاری سے کام لے کر اس کی انگوٹھی حاصل کر سکتی ہے اور پھر میں ہر وقت شیروان کے پاس رہ کر مہرے کی حفاظت نہیں کر سکتی۔
میں شیروان کو لے کر تمہارے پاس اس لئے آئی ہوں کہ مجھے کوئی ایسی ترکیب ، کوئی ایسا منتر بتاؤ جس کی مدد سے میں شیروان کو ہمیشہ ہمیشہ کے واسطے نتالیا کے آسیب سے محفوظ کر لوں۔“ درگا کی بدروح نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا۔ ”روہنی ! میری کتنی طاقت ہے تم اچھی طرح سے جانتی ہو ۔ آسیبی لڑکی نتالیا کی طاقت کا میں بھی مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ٹھیک ہے کہ تم نے شیروان کو شیش ناگن کے مہرے والی انگوٹھی پہنا دی ہے لیکن شیروان کمزور انسان ہے اس کی ذرا سی غفلت سے اگر کسی وقت انگوٹھی اس سے الگ ہو گئی تو آسیبی لڑکی شیروان کو جھپٹا مار کر چیل کی طرح دبوچ کر لے جائے گی اور تم کچھ نہ کر سکو گی ۔“
روہنی نے کہا۔ ’’یہی سوچ کر میں پریشان ہوں۔ میں آج بمبئی شہر میں تھی۔ شیروان بھی میرے ساتھ تھا۔ وہاں میں نے ایک سادھو کو دیکھا جو مجھے اور شیروان کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ سادھو ایک بدروح تھی جسے آسیبی لڑکی نے شیروان کی انگوٹھی اڑا کر لے جانے کے لئے بھیجا تھا۔ میں اسے بمبئی سے فوراً یہاں لے آئی ہوں۔ آسیبی لڑکی نتالیا نے شیروان کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے اپنے منصوبے پر عمل شروع کر دیا ہے ۔ اگر کسی وقت میں شیروان سے الگ ہو گئی اور وہ اکیلا رہ گیا تو آسیبی لڑکی کسی بدروح کو بھیج کر یا خود کسی انسان یا عورت کے روپ میں آکر شیروان کو ورغلا کر اس سے شیش ناگن کے مہرے والی انگوٹھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے ۔
اگر ایسا ہو گیا تو میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنے شیروان سے جدا ہو جاؤں گی اور شیروان کی زندگی کی حفاظت اور اسے اس مصیبت سے نکالنے کا جو فرض مجھ پر لاگو ہو چکا ہے میں وہ کبھی ادا نہ کر سکوں گی۔“
درگا بدروح نے کہا۔ ”تم نے صحیح اندازہ لگایا ہے۔ وہ سادھو آسیبی لڑکی کی بھیجی ہوئی بدروح ہی تھی۔ بدروحیں آسیب کی غلام ہوتی ہیں اور ان کے حکم پر عمل کرنا اپنا فرض سمجھتی ہیں۔

”پھر میں کیا کروں؟ مجھے کوئی راستہ دکھاؤ۔‘‘ روہنی نے انتہائی مایوسی کے لہجے میں کہا۔ درگا کی بدروح خاموش ہو گئی۔ میں یہ سارا بھوت پریت کا ناٹک دیکھ رہا تھا اور ان کی ساری باتیں سن رہا تھا اور دل میں دعا مانگ رہا تھا کہ یا اللہ پاک مجھے تو ہی اس مصیبت سے نکال سکتا ہے۔ کوئی ایسا سبب پیدا کر دو کہ اس عذاب سے میری جان چھوٹے اور میں دوبارہ انسانوں کی دنیا میں رہ کر نارمل انسان کی طرح زندگی بسر کر سکوں ۔
درگا کی بدروح کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولی۔ ”روہنی ! تو میری بچپن کی سہیلی ہے۔ میں تجھے پریشان نہیں دیکھ سکتی مگر میں بھی مجبور ہوں۔ صرف ایک صورت ہو سکتی ہے ۔ “

وہ کیا ہے ؟ “روہنی نے بے تابی سے پوچھا۔ درگا کی بدروح نے کہا۔” جیسا کہ تم بھی جان گئی ہو گی اس آسیبی لڑکی کا تعلق افریقہ کے ایک آدم خور قبیلے سے تھا۔ جب یہ زندہ تھی تو اپنے آدم خور قبیلے کے ساتھ افریقہ کے ایک جزیرے کے جنگل میں رہتی تھی۔ یہ لوگ بھولے بھٹکے مسافروں کو پکڑ کر لے آتے تھے اور انہیں پہلے تو خوب کھلاتے پلاتے تھے۔ جب وہ بڑے صحت مند ہو جاتے تھے تو ان کو باندھ کر گردن کاٹ کر پہلے ان کا سارا خون پی جاتے تھے پھر ان کے جسموں کے ٹکڑے کر کے انہیں آگ میں بھون کر کھا جاتے تھے۔ پھر ایسا ہوا کہ ڈر کے مارے اس جزیرے میں مسافروں نے آنا جانا چھوڑ دیا۔

پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 22

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں