جن زاده از قلم : ایم آے راحت قسط 1

جن زاده
از قلم : ایم آے راحت
قسط 1
نوچندی جمعرات تھی۔ طاہرہ بیگم معمول کے مطابق شاہ غازی کے مزار پر چادری چڑھانے آئی تھیں۔ سبھی ساتھ تھے۔ بس معظم علی موجود نہیں تھے۔ ویسے بھی وہ کبھی کبھار ہی آجایا کرتے تھے۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ انہیں شاہ غازی سے عقیدت نہیں تھی۔ بس وہ کاروباری آدمی تھے اور اپنی مصروفیتوں میں گم رہتے تھے۔ باقی نظم، نثر، کچھ ملازم
، عشیرہ سبھی ہوا کرتے تھے۔ شاہ غازی کے مزار سے کچھ فاصلے پر زبردست خیمے لگائے جاتے تھے۔ ایک خیمے میں ساتھ آئے ہوئے ملازم ہوتے تھے اور دوسرے میں طاہرہ بیگم دونوں بیٹیوں اور مشیرہ کے ساتھ۔ شکر ہے کہ مشیرہ کو ملازموں کے ساتھ نہیں رکھا جاتا تھا۔ کم از کم اتنا خیال ضرور کر لیا جاتا تھا۔ آج بھی بارہ سوا بارہ بجے تک طاہرہ بیگم مزار اقدس پر فاتح خوانی کرتی رہی تھیں، چادریں چڑھائی گئی تھیں، پھول چڑھائے گئے تھے، خیراتیں بانٹی گئی تھیں لنگر تقسیم کیا گیا تھا۔ سوا بارہ بجے وہ واپس آئی تھیں۔ سب تھک گئے تھے لیکن عشیرہ کو نیند نہیں آئی تھی۔ ویسے بھی گرمیوں کا موسم تھا۔ فضا میں حبس کی کیفیت تھی اور موسم بہت ہی خراب ہورہا تھا۔
عشیرہ خیمے میں اپنی جگہ لیٹی ہوئی سوچوں میں گم تھی۔ ماضی کی یادیں زندگی کا سرمایہ ہوتی ہیں اور صیح معنوں میں یہ یادیں انسان کو زندہ رکھتی ہیں۔ چاہے وہ تلخ ہوں یا خوشی سے بھر پور ۔ انسانی ذہن کی میراث ہوتی ہیں۔ ابو اور امی زندہ تھے تو اس کا شمار بھی انسانوں میں ہوتا تھا۔ ہر طرح کی خوشیاں اس کے لئے تھیں ۔ لیکن تقدیر نے اس سے اس کے ماں باپ چھین لئے ۔ دونوں کار کے حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ عشیره تاسمجھ نہیں تھی لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں اسے کافی دن تک یہ احساس رہا تھا کہ امی ابو اس طرح نہیں جائیں گے۔ کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔ وہ واپس آجائیں گے۔ مگر یہ ایک معصوم سوچ تھی۔ جانے والے بھلا کہاں واپس آتے ہیں؟ اسے بڑی تنہائی کا احساس ہوا لیکن اس کا کوئی حل اس کے پاس نہیں تھا اعظم علی بھائی پر جان نثار کرتے تھے معظم علی بھی برے انسان نہیں تھے۔ لیکن ان کی بیگم ذرا مختلف مزاج کی حامل تھیں۔ طاہرہ بیگم کی کبھی عشیرہ کی والدہ عمیرہ سے نہیں بنی۔ لیکن عمیرہ بیگم اچھے مزاج کی حامل تھیں۔ انہوں نے کبھی اپنے گھر کو تماشہ نہ بننے دیا اور اچھے لوگ جلد ہی دنیا سے واپس چلے جاتے ہیں ۔ البتہ وہ عشیرہ کو بے یار و مددگار چھوڑ گئے تھے۔ لے دے کر دادی اماں تھیں جنہوں نے عشیرہ کا بہت خیال رکھا تھا اور ان کی زندگی تک طاہرہ بیگم عشیرہ کے ساتھ کوئی بدسلوکی نہیں کر سکی تھیں۔جیسے ہی دادی امان کا انتقال ہوا، طاہرہ بیگم نے اپنے پر پر زے نکال لئے ۔ شوہر ان کے قبضے میں تھے۔ معظم علی کی یہ مجال نہیں تھی کہ بیگم کے احکامات کی خلاف ورزی کر سکیں ۔ گھر میں نوکر چاکر تھے لیکن طاہرہ بیگم کے دل کی گھٹن ایسے سکون نہیں پا سکتی تھی۔چنانچہ انہوں نے عشیرہ کو گھر کی ملازماؤں سے بدتر بنا دیا اور وہ سلوک کیا اس کے ساتھ کہ دیکھنے والے بھی پناہ مانگیں۔ پتہ نہیں ان کے دل میں ایسی کیا نفرت بیٹھی ہوئی تھی ۔ غالباؑ یہ بھی تھا کہ عمیرہ بیگم نہایت خوب صورت تھیں اور ان کے مقابلے میں طاہرہ بیگم کچھ بھی نہیں تھیں ۔ ایسی ہی ان کی دونوں بیٹیاں نظم اور نثر بھی تھیں۔
بے شک جوانی میں تو سبھی خوب صورت ہو جاتے ہیں لیکن عشیرہ کو اللہ تعالی نے وہ حسن دیا تھا کہ دیکھنے والے عش عش کر یں۔ خوب صورت ماں کی خوب صورت بیٹی تھی اور سچی بات یہ ہے کہ اپنے آپ سے مکمل طور سے ہے نیاز ، سادہ سے مزاج کی حامل۔ اور اس کی یہ سادگی ہی اسے لے ڈوبی۔ اسی کی طرح نظم اور نثر بھی جوان ہوئی تھیں۔ یہ طاہرہ بیگم کی بیٹیاں تھیں اور طاہرہ بیگم ان دونوں کے لئے اچھے رشتوں کی تلاش میں تھیں ۔ معظم علی نے بھی طاہرہ بیگم کے کہنے پر اپنے کچھ دوستوں سے اس بارے میں بات کی تھی۔چنانچہ مالی طور پر انہیں کے ہم پلہ ہاشم خان صاحب اپنےبیٹے کا رشتہ لے کر آگئے ۔ بیگم ہاشم اور بیٹا ظفر خان بھی آیا تھا۔ نظم اور نثر دونوں کو بنا سنوار کر سامنے لایا گیا تو باشم خان نے مسکرا کر کہا آپ نے بیٹیوں کے نام خوب رکھے ہیں ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کی نظم زیادہ خوب صورت ہے یا نثر“
دونوں آپ کی بچیاں ہیں ۔ معظم علی نیازمندی سے بولے۔اتنی دیر میں عشیرہ کولڈ ڈرنک لے کر آگئی اور ہاشم خان اور خاندان اسے دیکھتا رہ گیا۔ معمولی قیمت کے کپڑے کا سادہ لباس پہنے ہوئے ، الجھے ہوئے بال سلگتا چہره، اس قدر دلکش، اس قدر پرکشش کہ انسانی آنکھ جھپکنا بھول جائے پرکشش جسامت، کولڈ ڈرنک سب کو پیش کی پر ایک باربھی نگاہیں اٹھا کر کسی کو نہ دیکھا۔ اسی طرح گردن جھکانے چلی گئی اور سب دیکھتے رہ گئے۔ خود ہاشم خان نے پوچھا۔
یہ کون تھی ............؟
طاہرہ بیگم چونک پڑیں۔ انہیں ایک دم سے احساس ہوا کہ ہاشم خان کے لہجے میں ایک عجیب سی کیفیت ہے ۔ جلدی سے بولیں ۔
”وہ عزیز ہے ہماری ۔ بس ساتھ ہی رہتی ہے۔
شادی شدہ ہے۔؟
نہیں بس کام دھندا کرتی ہے۔
ملازمہ تو نہیں ہے نا............؟
بس ! ملازمہ ہی سمجھ لیجیئے باشم خان کو ایک دم احساس ہوگیا کہ ان کا تجسس طاہرہ بیگم کو پسند نہیں آرہا ہے ۔ چنانچہ وہ خاموش ہو گئے۔ لیکن واپسی پر عشیرہ ہی گفتگو کا موضوع تھی۔کوئی چکر معلوم ہوتا ہے۔ خاندان ہی کی بچی لگتی ہے مگر کس قدر حسین ہے۔
بیٹے نے شرماتے شرماتے ماں باپ سے کہا۔
ای ...... اس کے لئے بات چلائیں...........
میں تو خود دنگ رہ گیا ہوں ۔ فوراؑ معلومات تو کریں بیگم ! کون ہے؟ ویسے طاہرہ بیگم کا لہجہ بتاتا تھا کہ ہمارا تجسس انہیں پسند نہیں آیا۔ پاپا! نہ نظم نظم ہے، نہ نثر نثر ۔۔آپ اگر میرے لئے اس گھر
میں بات کریں گے تو صرف اس لڑکی کے لئے ۔میں معلوم کر لوں گی ۔ صغیر کی ماں اسی گھر تو لازم ہے ۔ صغیرہ سے کہوں گی کہ اپنی ماں کو بلا کر لائے ۔
بیگم ہاشم خان نے کہا صغیرہ نامی لڑکی انہی کے گھر کام کرتی تھی۔ چنانچہ وہ اپنی ماں کو بلا لائی تو صغیرہ کی ماں نے پوچھ گچھ کے دوران کہا۔
بی بی .... خون سفید ہونے میں دیر کتنی لگتی ہے؟ وہ ان کے گھر کی بچی ہی ہے۔ میں تو بہت دن سے وہاں ملازم ہوں بھی... اس کے ماں باپ کار کی ٹکر سے مر گئے تھے۔ ہمارے بڑے صاحب کے چھوٹے بھائی تھے۔ یہ ایک ہی بیٹی تھی ۔ مشیرہ ہے اس کا نام ۔ کم بختوں نے نوکر بنا کر رکھا ہواہے۔ بہت ہی صابر شاکر چکی ہے۔اللہ اس کی مشکل حل کرے۔ طاہرہ بیگم نے تو اس سے بیر باندھ رکھاہے۔ حالانکہ ہم لوگ بھی ہیں، گھر میں سارے کام کرنے کے لئے ۔ پرطاہرہ طاہرہ بیگم اس سے ایسے کام لیتی ہیں کہ کانوں کو ہاتھ لگانے کو جی چاہتا ہے۔
ظفر خان نے بھرے ہوئے لہجے میں کہا۔
"آپ جو کچھ بھی کریں ۔ میں اس سے شادی کرنا چاہتاہوں ۔ اسے اپنے گھر لے آئیں ۔گڑبڑ تو بہت کریں گے وہ لوگ ۔ جیسا کہ صغیرہ کی ماں نے بتایا کہ طاہرہ بیگم نے اسے نوکر بنا کر رکھا ہوا ہے۔ کوئی وجہ ہی ہوگی ۔ دولت جائیداد کا چکر انسان کو پتہ نہیں کہاں سے کہاں لے جاتا ہے؟ اگر دونوں بھائی تھے تو یقیناؑ دونوں کی دولت بھی برابر ہوگی۔ بیچاری بچی کو اس لئے طاہرہ بیگم نے نوکر بنا رکھا ہوا ہے کہ کبھی وہ سر نہ اٹھانے پائے۔
بیگم ہا شم خان نے جب طاہرہ بیگم پر اپنا خیال ظاہر کیا تو وہ چراغ پا ہو گئیںں ہم فرشتے نہیں ہیں۔ پہلے اپنی بچیوں کا رشتہ کریں گے۔
اس کے بعد اس کے بارے میں سوچیں گے۔ اگر آپ کے دل میں ایسا کوئی خیال ہے تو نکال دیں ۔ ہمیں اس کی شادی ابھی نہیں کرنی
بیگم باشم خان نے بہت سر مارا۔ ظفر خان نے بھی اپنے طور پر کوشش کی مگر بات نہیں بن سکی۔ دادی اماں اگر زندہ ہوتیں تو شاید کچھ ہو جاتا لیکن بیگم باشم خان کو اس طرح بے عزت کر کے گھر سے نکالا گیا کہ پھر بھلا وہ کیا ادھر کا
رخ کرتیں ............؟.
ظفر خان کا بھی کوئی سلسلہ تو تھا نہیں۔ چنانچہ بات ختم ہوئی۔ البته اب نظم اور نثر بھی اس سے برگشتہ ہوگئی تھیں اور ڈھنگ سے بات نہیں کرتی تھیں۔ ادھر طاہرہ بیگم نے اس سے سختیاں شروع کر دی تھیں ۔ لیکن صغیرہ کی ماں نے اس کے بارے میں جو کچھ کہا تھا وہ بالکل سہی تھا۔ وہ صابر و شاکر تھی اور اس نے اپنی تقدیر سے سمجھوتہ کر لیا تھا۔ نوکروں کی طرح ہی اسے ساتھ رکھا جاتا تھا اور اس نے کبھی اس بات کی شکایت نہیں کی تھی۔ رہی سہی کسر مشیرہ بیگم نے پوری کر دی۔
مشیرہ بیگم طاہرہ بیگم کی بہن تھیں۔ بیوہ ہوگئی تھیں۔ اولاد بھی نہیں تھی لیکن اللہ تعالی نے یہ دونوں مرتبے ان کی فطرت کو سامنے رکھتے ہوئے ہی دیئے تھے۔ بلا کی جلاد اور کینہ پرور خاتون تھیں۔ بات بات میں ناک بھوں چڑھانا ان کی عادت تھی۔ دوسرے شہر میں رہتی تھیں۔ وہاں سے دل اکتایا تو بہن کے پاس آ گئیں۔
بس بے مثال شخصیت کی مالک تھیں ۔ کسی نہ کسی عذاب کے طور پر نازل ربنا ان کی فطرت میں شامل تھا اور یہاں آ کر انہیں علم ہوگیا کہ ایک ایسی شخصیت موجود ہے جسے زیرعتاب لایا جا سکتا ہے۔
طاہرہ بیگم تو خیر جو کچھ بھی تھیں، لیکن ان سے کہیں زیادہ ظلم وستم مشيره بیگم نے عشیرہ پر توڑ رکھے تھے اور وہ طاہرہ سے زیادہ خالہ مشیرہ سے خوفزدہ رہتی تھی
ماضی کی وہ یادیں جو اس کی زندگی کا سرمایہ تھیں۔ ماں باپ کے ساتھ جو وقت گزرا تھا، اسے یاد کر کے دل کو ایک خوش گوار کیفیت میں مبتلا کر لیتی تھی۔ ورنہ بعد میں پھر وہی۔اس وقت بھی سب گہری نیند سو گئے تھے۔ لیکن وہ جاگ رہی تھی۔ فضا میں حبس کی کیفیت بھی تھی اور خیمے کے اندر نہ جانے کیوں عجیب سی گھٹن محسوس ہورہی تھی۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا اور خیمے سے باہر نکل آئی۔ قرب و جوار میں روشنیاں بجھ چکی تھیں۔ مزار شریف کی روشنیاں بھی بجھا دی گئی تھیں۔ بس بلندی پر ایک پیلے رنگ کا بلب روشن تھا جو تھوڑے سے حصے کو مدہم سی روشنی دے رہا تھا۔ یا پھر کہیں کہیں زائرین کے ڈیرے جن میں سے چند نے پیٹرو میکس جلا رکھے تھے اور شاید عبادت کر رہے تھے۔ وہ تھوڑی سی آگے بڑھی اور یوں ہی چند قدم پیدل چل پڑی۔ ہر طرف قبریں ہی قبریں تھیں۔دن کی روشنی میں نظم اور نثر خیمے سے نکلی تھیں تو وہ بھی ان کے پیچھے چل پڑی تھی۔ پھر دونوں ایک جگہ کھڑی ہوگئی تھیں اور کسی سوراخ میں جھانک رہی تھیں۔ وہ بھی قریب پہنچیی تو اس نے بھی وہ روح فرسا منظر دیکھا۔ کوئی قبرتھی جو کھلی ہوئی تھی اور اس میں سے مردے کا کفن جھانک رہا تھا۔وہ جلدی سے پیچھے ہٹ گئی اور اس کے دل پر ایک عجیب سا خوف طاری ہوگیا۔ وہ کچھ اور پیچھے آگئی تھی ۔ نظم اور نثر وہاں سے آگے بڑھ گئی تھیں۔لیکن وہ منظر اس کے ذہن پرنقش رہا تھا۔وہ قبر زیادہ دور نہیں تھی جس میں اس نے مردے کو دیکھا تھا۔ دور سے ہی وہ کھڑے ہو کر اس قبر کی طرف اور پھر آس پاس کی قبروں پر نگاہیں دوڑانے لگی۔ اس وقت پیچھے سے دوڑتے ہوئے قدموں کی آواز سنائی دی۔کوئی بے اختیار بھاگا چلا آ رہا تھا اور اس کے منہ سے آوازیں نکل رہی تھیں۔
چھوڑ دے ولی.....! بچالے ولی...........! چھوڑ دے ولی...! بچالے
ولی....! اب نہیں کروں گا... چلا جاؤں گا ولی....؟
یہ ایک نیم زمانہ اور نیم مردانہ آواز تھی۔ دوڑتے ہوئے قدم اس کے قریب آئے اور وہ چونکہ راستے میں آگئی تھی، اس لئے ایک انتہائی زوردار دو ہتھڑ اس کی پشت پر پڑا اور وہ بری طرح لڑ کھڑا کر گرنے لگی۔
دوڑنے والا اپنی دھن میں آگے نکل گیا تھا۔ پتہ نہیں وہ عورت تھی یا مرد.... لیکن وہ آوازیں اس کے منہ سے برابر نکل رہی تھیں۔
ادھر عشیره گرنے لگی تو اچانک کسی نے اسے بازوؤں سے تھام لیا اور پھر ایک مدہم سی سرگوشی سنائی دی۔
بسم الله...........؟
پھر وہی سرگوشی ابھری۔
اس طرح باہر نہ نکلا کریں... یہ گزرگاہ ہے اور یہاں سے گزرنے والے گزرتے رہتے ہیں۔ جائیے....! براہ کرم اندر جائیے....!‘‘
اس نے چونک کر آنکھیں پھاڑ دیں۔ اسے سنبھالنے والے کا لمس ضرور محسوس ہوا تھا لیکن نہ شکل، نہ جسم کا ہیولہ... ایسی کوئی چیز نظر نہ آئی۔جب اس کا توازن قائم ہوگیا تو وہ سخت دہشت زدہ ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگی۔یہ کون تھا جس نے اسے نہایت نرم لہجے میں اندر جانے کی تلقین کی تھی
”وہ کہاں گیا.............؟
آس پاس تو کچھ بھی نہیں تھا۔اچانک ہی اس کو یوں لگا جیسے اس پر برف کا برادہ پھینک دیا گیا ہو۔پورے بدن میں شدید سردی کی لہریں دوڑنے لگی اور وہ لڑکھڑاتے قدموں سے خیمے کی طرف واپس چل پڑی۔
بمشكل تمام گرتی پڑتی خیمے تک پہنچی اور غڑاپ سے اندر داخل ہوگئی۔اس کا سینہ دھونکنی بنا ہوا تھا۔ حالانکہ نہ دوڑتی ہوئی آئی تھی نہ بہت دور سے آتی تھی

جن زادہ ۔ مکمل اردو ناول
قسط نمبر 2 پڑھنے کے لیے کلک کریں

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے