پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 24

 

Sublimegate Urdu Font Stories

 پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 24


روہنی کی آواز آئی۔ میری بات غور سے سنو شیروان! کنوئیں کی منڈیر کے قریب دیوار کے پاس مٹی کا ایک مٹکا پڑا ہے۔ اس کے اندر ایک کھوپڑی ہے اس کھوپڑی کو مٹکے سے باہر نکالو اور اس پر پانچ بار اللہ کا پاک نام پڑھ کر پھونک لو۔ پھر سب ٹھیک ہو جاۓ گا۔“

میں نے ایسا ہی کیا۔ کنوئیں کی منڈیرے کے پیچھے دیوار کی طرف گیا۔ وہاں ایک مٹکا پڑا تھا۔ مٹکے کے ساتھ مکڑیوں کے جالے چمٹے ہوئے تھے۔ میں نے جالوں کو ہٹانے کے بعد مٹکے کے ڈھکن کو اٹھا کر اندر ہاتھ ڈال کر ایک کھوپڑی باہر نکال لیا۔ یہ ایک انسانی کھوپڑی تھی۔ میں نے پانچ بار اللہ کا پاک نام دل میں پڑھ کر کھوپڑی پر پھونک ماری۔ کھوپڑی کے اوپر چھت پر سے آتی ہوئی روشنی کی ایک چمکدار کرن پڑی اور کھوپڑی اچھل کر کنوئیں میں گر پڑی۔ میں دوڑ کر کنوئیں کی منڈھیر پر آگیا۔

میں نے دیکھا کہ کنوئیں میں روشنی ہی روشنی ہو گئی ہے اور اس روشنی میں روہنی اپنے آپ اوپر کو آرہی تھی ۔ روہنی کے دونوں ہاتھ سینے پر بندھے ہوۓ تھے اور اس کا سر جھکا ہوا تھا۔ وہ کنوئیں میں سے نکل کر باہر آ گئی۔ کنوئیں کی روشنی غائب ہو گئی۔ روہنی نے اس طرف دیکھا جہاں میں کھڑا تھا۔ اس نے مجھے غیبی حالت میں بھی دیکھ لیا تھا۔ اس نے اپنا بازو پھیلا کر میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور بڑی رقت بھری آواز میں بولی ۔

”شیروان ! اللہ نے مجھ گناہ گار کا گناہ معاف کر دیا ہے۔ میں اس کی رحمت کے سائے میں ہوں۔ میں نے اپنی زندگی میں جو گناہ کیا تھا اب اللہ پاک کی رحمت سے میری روح اس سے پاک ہو گئی ہے۔ میں اب بدروح نہیں ہوں بلکہ ایک پاک روح ہوں ۔“

اک جن زادے کی خوفناک کہانی

میں نے کہا۔ ”روہنی ! تم خوش قسمت ہو کہ تمہاری بخشش ہو گئی ہے ۔“ روہنی کہنے لگی۔ ’’اب میرے دل میں سوائے اللہ کے اور کسی کا خوف نہیں ہے۔ چلو یہاں سے نکل چلتے ہیں۔“

میں نے کہا۔ ” مجھے ڈر ہے نتالیا کا آسیب تمہیں دیکھ نہ لے۔ اس لئے تم بھی غائب ہو جاؤ۔“ روہنی بولی۔’’اب وہ مجھے میری جسمانی صورت میں بھی نہیں دیکھ سکے گی۔ میرے ساتھ آؤ۔“

میں نے اصرار کرتے ہوۓ کہا۔ ”روہنی مجھے خطرہ محسوس ہو رہا ہے ۔ اگر تم غائب ہو سکتی ہو تو کم از کم اس جہنمی دنیا سے نکلنے کے لئے ضرور غائب ہو جاؤ۔“ روہنی نے کہا۔”اگر تمہاری یہی خواہش ہے تو میں غائب ہو جاتی ہوں۔“ اور دوسرے ہی لمحے روہنی بھی غائب ہو گئی۔ اب ہم دونوں غائب تھے لیکن ہم دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ روہنی نے کہا۔ ”میں تمہارے اندر ایمان کی وہ طاقت دیکھ رہی ہوں جس کی مجھے ساری زندگی حسرت رہی کہ کاش میرے ایمان کو بھی ایسی طاقت نصیب ہو جاتی۔“

خونی شیطان ۔ ایک آدم خود درندہ 

میں نے کہا۔ یہ سب اللہ کا کرم ہے روہنی۔“ روہنی نے فورا میری بات کاٹ کر کہا۔ ”شیروان! آئندہ سے مجھے روہنی کے نام سے نہ بلانا۔ اب مجھے ہمیشہ میرا مسلمان نام سلطانہ کہہ کر بلانا۔“ میں نے کہا۔ ” میں آج سے روہنی کے نام کو بھی بھول جاتا ہوں۔اب تم سلطانہ ہو اور میں شیروان ہوں تمہارے مرحوم شہزادے کا ہم شکل۔ ہاں۔ روہنی نے کہا۔ ”میرا سینہ روشن ہو گیا ہے۔ مجھ پر یہ راز بھی کھل گیا ہے کہ کسی مسلمان مومن کا مرنے کے بعد کوئی دوسرا جنم نہیں ہوتا بلکہ روح کو اس کے اعمال کے مطابق درجہ عطا ہوتا ہے۔ تم میرے شہزادے کا دوسرا جنم نہیں ہو۔۔۔
بلکہ محض اتفاق سے تمہاری شکل میرے مرحوم شہزادے سے ملتی ہے۔“ میں نے روہنی سے کہا۔ ( آپ کو میں اپنی داستان بیان کر رہا ہوں اس لئے آپ کے آگے میں سلطانہ کا نام روہنی ہی لوں گا تاکہ آپ فورا سمجھ جائیں کہ میں اس عورت کی بات کر رہا ہوں جس کی روح یا بدروح کو میں نے روہت گڑھ والے قلع کے مرتبان سے آزاد کر دیا تھا ۔ میں نے روہنی سے کہا۔” سلطانہ ! اب تم پاک روح بن چکی ہو ۔ تم اپنے مرحوم خاوند سے اس قدر پیار کرتی ہو پھر تم اپنے خاوند کی روح سے جا کر کیوں نہیں مل جاتیں؟‘‘

روہنی نے ٹھنڈ اسانس بھر کر کہا۔ ”میرا خاوند ایک نیک انسان تھا۔ وہ مسلمان پیدا ہوا تھا اور پیدا ہونے کے فور ا بعد اس کے کان میں اذان دی گئی تھی۔ اس کی روح جنت کے جس مقام ، جس درجے میں ہے وہاں تک ابھی میری رسائی نہیں ہے۔ جب میری روح کا رہا سہا میں بھی اتر جاۓ گا تو میں اس روز اپنے خاوند کی روح سے جا کر مل جاؤں گی۔“
ہم باتیں کرتے غار کی کھڑکی میں سے نکل کر غار کے اندر سے گزر رہے تھے اور غار کے دہانے کے پاس پہنچ گئے ۔ ہم غار سے سلامتی کے ساتھ نکل آۓ۔ آگے وہی دلدل والا چھوٹا سا میدان تھا۔۔

غار کے اندر سے نکلنے کے بعد میں نے روہنی سے کہا۔ ” میں کھڑکی میں داخل ہونے کے بعد غائب ہو گیا تھا لیکن کھڑکی میں سے نکلنے کے بعد میں اپنی ظاہری شکل میں واپس نہیں آیا۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟“ روہنی کہنے گئی ۔" یہ میں بھی نہیں جانتی۔ ہو سکتا ہے تم کسی بھی وقت اپنی انسانی صورت میں واپس آ جاؤ۔“
غار میں سے نکلنے کے بعد روہنی نے میرا ہاتھ تھام کر مجھے اپنے ساتھ ہی زمین کی سطح پر سے دس پندرہ فٹ اوپر اٹھا لیا تھا۔ دلدل کے اوپر سے گزرنے کے بعد آگے وہی پہاڑ تھا جس میں سے طوفانی دریا نکل کر ایک طرف کو مڑ گیا تھا۔ روہنی کہنے لگی ۔ ’’ہم غار میں سے نہیں نکلیں گے بلکہ پہاڑ کے اوپر سے نکل جائیں گے ۔“ اس سے بہتر بات اور کیا ہو سکتی تھی کہ میں غار کے اندر کے تاریک ماحول سے بچ گیا تھا۔ ہم پہاڑ کے اوپر آگئے۔ پہاڑ ہمارے نیچے کافی نیچے رہ گیا تھا۔ اس کے بعد سیاہ ڈراؤنی چٹانوں کا سلسلہ تھا جس کی تنگ و تاریک راہ داریوں میں سے طوفانی دریا قیامت کا ڈراؤنا شور مچاتا بہہ رہا تھا۔
میں نے روہنی سے کہا۔’’سلطانہ ! میں نے زندگی میں اتنا خوفناک دریا نہیں دیکھا۔ اگر میرے خدا کی مدد میرے ساتھ نہ ہوتی تو میں اس کے قریب سے کبھی نہیں گزر سکتا تھا۔“
روہنی کہنے لگی۔ ”شیروان! حقیقت میں یہ دریا اور یہ عذاب دینے والے دلدلی میدان اور اژدھا کیا ہیں اس کا تمہیں علم نہیں ہے۔ ایسے کئی راز ہیں جن کا علم انسان کو اس کی موت کے بعد ہوتا ہے۔ یہ راز بھی ان میں سے ایک ہے ۔ لیکن یاد رکھو ۔ یہ راز بھی نیک روحوں پر کھلتا ہے۔ میری ایسی گناہ گار روحیں تو اپنے برے اعمال کے عذاب میں پھنس جاتی ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے میرے گناہ بخش
دیے۔“
میں نے کہا۔ ”تم تو مجھے یہ راز بتا سکتی ہو کیونکہ تم ایک اچھی روح ہو۔“ ۔ روہنی کہنے لگی ۔ "ہمیں بعض باتیں بتانے کی اجازت نہیں ہوتی اور ہم احکام خداوندی کی حکم عدولی کا تصور بھی نہیں کر سکتیں۔“
میں بشری کمزوری کے باعث اصرار کرنے لگا کہ روہنی مجھے یہ راز اور بعض دوسرے راز جو اسے اچھی روح بن جانے کے بعد معلوم ہو چکے تھے بتا دے۔ روہنی یعنی سلطانہ فضا میں سیاہ چٹانوں کے اوپر اڑتے اڑتے ایک دم رک گئی اور میری طرف دیکھ کر بولی۔”فیروز!اگر پھر کبھی تم نے مجھے یہ راز بتانے کے لئے کہا تو میں تمہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر چلی جاؤں گی۔“
روہنی نے پہلی بار مجھے میرے اصلی نام سے پکارا تھا۔ یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ اب اس کو دل سے یقین ہو گیا تھا کہ میں اس کے مرحوم خاوند شہزادہ شیروان کا دوسرا جنم نہیں تھا۔
روہنی کہنے لگی۔’’وعدہ کرو کہ پھر مجھ سے کبھی ایسا سوال نہیں کرو گے۔“ اس کے لہجے میں ایک یقین اور ایک عزم تھا۔ میں نے فورا کہا۔’’میں وعدہ کرتا ہوں سلطانہ ! کہ اس قسم کے سوال تم سے پھر کبھی نہیں پوچھوں گا۔“
روہنی نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور بولی۔”فیروز! مجھے ابھی تمہارے ساتھ رہنا ہے ۔ ابھی تمہیں میری ضرورت ہے اور مجھ پر تمہاری طرف سے ایک قرض ہے جو مجھے اتارنا ہے اور وہ قرض یہ ہے کہ تمہیں پجاری رگھو کی گرفت اور اس کی مصیبت سے ہمیشہ کے لئے نجات دلانی ہے تاکہ اس کے بعد تم ان بدروحوں کی نحوس دنیا سے آزاد ہو کر ہنسی خوشی نیک زندگی بسر کر سکو اور پھر ابھی نتالیا کا آسیب بھی تمہارا پیچھا کر رہا ہے تمہیں اس سے بھی رہائی دلانی ہے ۔ “
میں نے کہا۔’’وہ تمہارے بھی تو پیچھے لگا ہوا ہے۔ روہنی کہنے لگی۔ ’’اب یہ دونوں بدروحیں اور آسیب مل کر بھی مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ خدا کے حضور میرے گناہوں کی بخشش کے بعد میری روح ان کے نفع یا نقصان سے بہت بلند ہو گئی ہے۔ اب میں جو کچھ بھی کروں گی تمہیں ان دروحوں اور آسیب سے نجات دلانے کے لئے کروں گی۔ میرے پاس اب نہ کوئی علم ہے نہ جادو ہے اور نہ کوئی طلسمی منتر ہے ۔ خداوند کریم کی خوشنودی اور اس پر دل سے بھروسہ رکھنا ہی میرا سب سے بڑا طلسم اور میری سب سے بڑا طاقت ہے ۔“
روہنی بالکل بدل گئی تھی۔ اس میں ایک حیرت انگیز روحانی تبدیلی آچکی تھی۔ اس کو دیکھ کر اور اس کی باتیں سن سن کر خود میرے اندر روحانیت اور نیکی کے جذبات اور خیالات پیدا ہونا شروع ہو گئے تھے اور یہ میرے لئے بھی ایک نیک فال تھی۔
ہم پرواز کرتے ہوۓ سیاہ چٹانوں کے سلسلے کو پیچھے چھوڑ آۓ تھے اور اب بے برگ و بار یعنی سوکھے ہوۓ ٹیڑھے میٹرھے درختوں کے جنگل کے اوپر سے گزر رہے تھے ۔ جب ہم اس جنگل کے اوپر سے بھی گزر گئے اور بنگلور کے گرد و نواح کا نیم پہاڑی علاقہ شروع ہو گیا تو میں نے روہنی سے پوچھا۔ ” سلطانہ ! تمہارا ارادہ اب کہاں جانے کا ہے؟ کیا تم درگا کی بدروح کے پاس جار ہی ہو ؟ "
سلطانہ کے پاکیزہ اور پر سکون چہرے پر ایک ناخوشگوار تاثر ابھر آیا۔ اس نے کہا۔ شیروان! میرا ان بدروحوں سے اب کوئی واسطہ نہیں رہا۔ ان کا میری دنیا سے اور میرا ان کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔“ میں نے کہا۔ کیا یہ بدروح درگا بھی اگر چاہے تو تم سے نہیں مل سکتی ؟“ روہنی نے کہا۔ جہاں اچھی روح ہوگی وہاں بری اور بدروح کا کبھی گزر نہیں ہوگا۔ وہ اس طرف آنے کے خیال ہی سے ڈر جاۓ گی۔
یوں اچھی اور بری روح کی دنیا الگ الگ ہو جاتی ہے ۔ نیکی نیکی اور برائی برائی ہی ہوتی ہے ۔ “ میں نے کہا۔ ’’اس کا تو مطلب یہ ہوا کہ اب نتالیا کا آسیب تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔۔
’’ہاں۔‘‘ روہنی نے کہا۔’’اب وہ کبھی مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا بلکہ نتالیا کا آسیب بھی میرے قریب بھی نہیں پھٹک سکے گا۔ جس طرح کہ جب تک تمہاری انگلی میں شیش ناگن کے مہرے والی انگوٹھی ہے نتالیا کا آسیب تیرے قریب نہیں آسکتا ۔۔
میں نے پوچھا۔ پھر ہم کہاں جارہے ہیں ؟ " روہنی نے کہا۔ ” میں سب سے پہلے تمہیں کسی محفوظ جگہ پر پہنچانا چاہتی ہوں تا کہ جب تک میں تمہارے پیچھے لگی ہوئی رگھو اور آسیب کی بلاؤں کو ہمیشہ کے لئے ختم نہیں کر لیتی تم پوری حفاظت کے ماحول میں رہو۔“ ” تمہارے خیال میں ایسی کون سی جگہ ہو سکتی ہے ؟ میں نے پوچھا۔ روہنی نے مجھ سے پوچھ لیا۔ ’’ تم بتاؤ۔ تمہارے خیال میں ایسی کون سی جگہ ہو سکتی ہے جہاں تم ان بلاؤں کے حملوں سے محفوظ رہ سکتے ہو۔
رگھو اور نتالیا کی بدروحیں اور آسیب تمہیں اس وقت تک نقصان نہیں پہنچا سکتیں جب تک کہ تمہارے بازو کے ساتھ اللہ کے نام کا تعویذ بندھا ہوا ہے اور تمہاری انگلی میں شیش ناگن کی مالا ہے لیکن یہ بلائیں کسی روپ میں ، کوئی بھیس بدل کر تمہارے پاس آ کر تمہیں ورغلا کر یہ دونوں چیزیں تم سے حاصل کر کے تمہیں ہلاک کر سکتی ہیں اس لئے ان دونوں کا خاتمہ ضروری ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ نتالیا کے آسیب کو میری روحانی طاقت کا پتہ چل گیا ہوگا اور اس نے اپنی دفن شدہ کھوپڑی کو افریقہ کے جنگل سے نکال کر زمین کی پاتال کے اندر کسی جگہ چھپا دیا ہوگا اس طرح میرے لئے اس کا خاتمہ کرنا قدرے مشکل ہو جاۓ گا۔
لیکن تمہیں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ نیکی کی طاقت بہت بڑی طاقت ہوتی ہے ۔ بدی کے طلسم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ میں کسی نہ کسی طرح نتالیا کے آسیب کو جہنم میں پہنچا کر ہی رہوں گی۔" ’’اور رگھو کا کیا ہوگا؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ” وہ تو میری جان کا دشمن ہے ۔ نتالیا تو پھر بھی میری جان کی دشمن نہیں ہے بلکہ صرف مجھے اپنے ساتھ رکھنا چاہتی ہے ۔ روہنی نے کہا۔ ” یاد رکھو کسی بدروح یا آسیب کا کسی زندہ انسان کو اپنے ساتھ رکھ لینا اس کی موت ہی ہوتی ہے۔ رگھو کی تم فکر نہ کرو۔ اسے تو میں اس کی تمام بدروحوں سمیت اس کے انجام تک پہنچا دوں گی۔“
ہم پرواز کرتے ہوۓ بنگلور شہر کو بھی پیچھے چھوڑ چکے تھے۔ روہنی نے مجھ سے پوچھا۔ ” تم کہاں جانا پسند کرو گے ؟“ مجھے اپنے بچپن کے دوست جمشید کا ہی خیال آگیا۔ میں نے کہا۔ ’’اگر
میں بمبئی میں اپنے دوست جمشید کے پاس چلا جاؤں تو کیا خیال ہے۔ اس کے ساتھ میرا دل بھی لگا رہے گا۔‘‘
روہنی نے کہا۔ ” تمہارے دوست کی جگہ نتالیا کے آسیب نے دیکھ لی ہے۔ تمہیں یاد ہے کہ جب ہم وہاں تھے اور تمہارے دوست کے گیراج کے باہر بیٹھے ہوئے تھے تو ایک سادھو وہاں سے گزرا تھا اور اس نے رک کر میری طرف گھور کر دیکھا تھا۔“
میں نے کہا۔’’ہاں مجھے یاد ہے ۔‘‘
روہنی بولی۔” جیسا کہ میں نے تمہارے سامنے درگا کو بھی بتایا تھا وہ سادھو نہیں بلکہ نتالیا کے آسیب کی بھیجی ہوئی بدروح تھی ۔ وہ ہم دونوں کی تلاش میں وہاں آئی تھی۔ اب تم وہاں گئے تو نتالیا کے آسیب کو فورا پتہ چل جاۓ گا اور ممکن ہے وہ کسی دوسرے بھیسں میں کسی بدروح کو تمہاری انگوٹھی چرانے کے لئے بیجھے کیونکہ ایک بار تمہارے ہاتھ کی شیش ناگن والی انگوٹھی نتالیا کے قبضے میں آگئی تو پھر تم ساری زندگی کے لئے نتالیا کے آسیب کے قیدی بن جاؤ گے اور پھر شاید میں بھی تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکوں گی۔“
میں نے کہا۔ ”لیکن سلطانہ ! میرا جمشید کے سوا دنیا میں اور کوئی یار دوست بھی تو نہیں ہے ۔ کوئی رشتے دار بھی نہیں ہے اور پھر کسی اجنبی اور اکیلی جگہ پر رہا تو نتالیا کا آسیب آسانی سے مجھے اپنا شکار بنا سکے گا۔ اپنے دوست جمشید کے پاس رہوں گا تو نتالیا کی بھیجی ہوئی بدروح کو مجھے ورغلانے کا اتنی آسانی سے موقع نہیں مل سکے گا۔ “ ”
یہ تو تم ٹھیک کہہ رہے ہو ۔‘‘روہنی نے کہا۔ ” تو پھر مجھے جمشید کے پاس بمبئی لے چلو۔‘‘میں نے فیصلہ کرتے ہوۓ کہا۔ لیکن وہاں تمہیں ہر وقت چوکس ہو کر رہنا ہوگا۔‘‘روہنی نے مجھے ہدایت کی ۔ ’
’اس کی تم فکر نہ کرو۔“ میں نے کہا۔” مجھے نتالیا کے آسیب اور ان بد روحوں کا کافی تجربہ ہو چکا ہے۔
میں ان کی بو دور ہی سے پالیتا ہوں۔“ " تو پھر چلو۔ بمبئی کی طرف چلتے ہیں ۔ روہنی نے مسکرا کر کہا اور میرا ہاتھ تھام کر اپنا رخ مشرق کی طرف کر لیا۔ بمبئی وہاں سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔ جس وقت روہنی نے اپنا رخ مشرق کی طرف کیا تو اس نے مجھے کہا۔ اس وقت ہم بھوپال کے اوپر سے گزر رہے ہیں۔
اور بھوپال کے بعد بڑا شہر ہم جس فضائی راستے سے جار ہے تھے ہوشنگ آباد اور پھر کھنڈوا تھا۔ اس کے بعد ناسک کا شہر آ جاتا تھا جو بمبئی سے ریل کا ڈیڑھ دو گھنٹے کا سفر تھا۔ چنانچہ ہم بڑی جلدی بمبئی کی نواحی آبادیوں کے اوپر پہنچ گئے ۔ اب تو بمبئی کا شہر بہت پھیل گیا ہے اور بھارت کی حکومت نے اس کا نام بھی بمبئی سے ممبئی رکھ دیا ہے۔ اصل میں یہ شہر ہندوؤں کی ایک دیوی ممبا دیوی کے نام پر آباد ہوا تھا۔ اس زمانے میں بھی اس کا نام ممبئی ہی تھا۔ بعد میں جب انگریزوں کی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے اس شہر کا نام ب ممبئ رکھ دیا تھا۔
جس وقت ہم بھی شہر کے اوپر آۓ اس وقت شام کا وقت تھا اور شہر کی روشنیاں جگہ جگہ جگمگار ہی تھیں۔ مجھے تو کوئی اندازہ نہیں تھا که جمشید کا علاقہ کس طرف ہے مگر روہنی کو سب معلوم تھا۔ اس نے شہر کی روشنیوں کے اوپر ایک چکر لگایا اور پھر مجھے ساتھ لے کر ایک ریلوے سٹیشن کے باہر سڑک کے فٹ پاتھ پر اتر آئی۔ کہنے لگی۔ " یہ وہی لوکل سٹیشن ہے جس کے قریب تمہارے دوست کا فلیٹ اور گیراج ہے ۔“
میں نے بھی سٹیشن کو پہچان لیا تھا۔ میں نے روہنی سے کہا۔ ’’سلطانہ! میں تو غائب ہوں۔اپنے دوست جمشید سے کیسے ملوں گا۔ اس سے پہلے تو میں کبھی اسے اس حالت میں نہیں ملا اور اسے میرے بارے میں اس قسم کی باتوں کا علم بھی نہیں۔۔
ہم ایک جگہ فٹ پاتھ پر رک گئے تھے ۔ روہنی کہنے لگی۔ اس بارے میں، میں کیا کہہ سکتی ہوں کیونکہ میں نے تمہیں غائب نہیں کیا۔ تم خود بخود غائب ہوۓ ہو ۔ ہوسکتا ہے تم اپنے آپ ظاہر ہو جاؤ۔“ اس کا مطلب ہے مجھے کسی جگہ ظاہر ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا۔“ روہنی نے کہا۔ ” آگے چلتے ہیں شاید اس دوران تم اپنی اصلی شکل میں واپس آجاؤ۔“
ہم فٹ پاتھ پر چل نہیں رہے تھے بلکہ زمین سے ایک فٹ بلند ہو کر فضا میں تیر رہے تھے۔ ہماری رفتار اتنی ہی تھی جیسے ہم چل رہے ہوں۔ ہم تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ میرے جسم کو ایک ہلکا سا دھچکا لگا اور میں اپنی انسانی شکل میں واپس آگیا۔ روہنی نے میری طرف مسکرا کر دیکھا اور بولی۔”خدا کا شکر ہے کہ تم عین وقت پر اپنی اصلی حالت میں واپس آگئے ۔
میرے دوست جمشید کا آٹو سٹور اور گیراج اب ہمارے سامنے تھا۔ جمشید مجھے باہر نظر نہ آیا۔ روہنی نے کہا۔ ’’اپنے دوست کو نہ بتانا کہ میں بھی تمہارے ساتھ ہوں۔“
میں نے کہا۔ ” تم جیسے کہتی ہو میں ویسے ہی کروں گا۔‘‘ جمشید اس وقت اپنے فلیٹ میں تھا۔ میرا سن کر فورا نیچے آگیا۔ بڑی گرمجوشی سے مجھے گلے لگا لیا اور حیران ہو کر کہنے لگا۔ ”فیروز ! تم اچانک کس طرف سے نکل آتے ہو اور پھر اچانک کہاں غائب ہو جاتے ہو ؟“
میں نے کہا۔ ” جمشید چاہے کچھ ہو مگر میں تمہیں ملنے کے لئے آ تو جاتا ہوں۔ تم مجھ سے یہ نہ پوچھو کہ میں کہاں سے آتا ہوں اور کہاں غائب ہو جاتا ہوں۔ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ جب وقت آۓ گا تو سب سے پہلے میں تمہیں بتاؤں گا کہ میں اچانک کہاں سے آ جاتا تھا اور پھر اچانک کہاں غائب ہو جاتا تھا۔ “
جمشید ہنس کر کہنے لگا ۔ ” ٹھیک ہے بھائی! میں تم سے کبھی نہیں پوچھوں گا۔ لیکن وعدہ کرو کہ تم اس طرح کبھی کبھی مجھ سے ملنے کے لئے آتے رہو گے۔“ ہم گیراج کے باہر کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ میں نے کہا۔ " فکر نہ کرو۔ میں اس دفعہ کافی دن تمہارے پاس رہوں گا۔“ ” خدا کرے کہ ایسا ہی ہو ۔ “ جمشید نے ہنس کر کہا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ روہنی غیبی حالت میں ہمارے درمیان موجود تھی مگر جمشید اسے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ آخر جمشید سے نہ رہا گیا۔ کہنے لگا۔ " پچھلی بار تم آئے تھے تو تمہاری بیوی بھی تمہارے ساتھ تھی۔ اس دفعہ تم بھابھی کو اپنے ساتھ کیوں نہیں لاۓ؟“
میں نے روہنی کی طرف دیکھ کر کہا۔ ”وہ میرے ساتھ ہی ہے ۔‘‘ جمشید نے حیران سا ہو کر کہا۔ ” کیا مطلب ہے تمہارا؟‘‘ میں نے کہا۔’’میرا مطلب ہے کہ سلطانہ کا خیال میرے ساتھ ہے ۔ اس طرح وہ میرے ساتھ ہی ہے۔“ -
جمشید ہنسنے لگا۔ ’’یار ! تم نے اچانک کیسے شادی کر لی ؟ کچھ بھابھی کے بارے میں بتاؤ کیا وہ تمہاری کوئی رشتے دار خاتون تھی یا تم نے کسی دوسری برادری میں شادی کی۔۔
میں نے کہا۔ " یہ میں تمہیں بعد میں کسی وقت بتاؤں گا۔“
”اچھا یہ بتاؤ کہ تمہیں کتنے دن کا ویزا ملا ہے ؟‘‘ جمشید نے پوچھا۔ میں نے اس کے ہاتھ پر ہلکی سی تھپکی دیتے ہوئے کہا۔ " خاطر جمع رکھو۔ اس بار میں تین ماہ کا ویزا لگوا کر آیا ہوں ۔“
” تمہار اسامان کہاں ہے ؟‘‘اس نے پوچھا۔
میں نے کہا۔ ” میں اپنے ساتھ کوئی سامان نہیں لایا۔ بس تین کپڑوں میں آیا ہوں۔
اس دوران میں نے نوٹ کیا کہ روہنی میرے سامنے والی کرسی پر غیبی حالت میں بیٹھی سڑک پر سے گزرنے والوں کا بڑے غور سے جائزہ لے رہی تھی۔ شاید اسے ڈر تھا کہ نتالیا کے آسیب نے میری سراغ رسانی کے لئے کسی بدروح کو انسانی بھیسں میں نہ بھیجا ہو۔ میں نے اور جمشید نے رات کا کھانا اکٹھے کھایا۔ اس کے بعد ہم باتیں کرنے لگے۔ روہنی غیبی حالت میں کمرے میں موجود تھی۔ وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد کھڑکی کے پاس جا کر باہر بازار میں جھانک کر دیکھ لیتی تھی کہ رگھو پجاری یا نتالیا کے آسیب کا بھیجا ہوا آدمی تو کسی بھیس میں باہر موجود نہیں ہے ۔ جب رات زیادہ ہو گئی تو میں دوسرے کمرے میں سونے کے واسطے آ گیا۔
روہنی میرے ساتھ ہی آ گئی۔ کہنے لگی۔’’میں برابر باہر نگاہ رکھے ہوے تھی۔ ابھی تک تو حالات ٹھیک جار ہے ہیں۔ ہمارے دشمنوں میں سے نہ تو کوئی خود ہماری تلاش میں یہاں آیا ہے اور نہ انہوں نے اپنی کسی بدروح کو بھیجا ہے۔ میں نے کہا۔ میر اخیال ہے کہ انہیں ہمارے فرار کا بھی علم نہیں ہوا۔“ روہنی میرے پلنگ کے سامنے کرسی پر بیٹھ گئی۔ کہنے لگی۔ اپنے دشمن سے کبھی غافل نہ ہونا اور یہ آسیب اور بدروحوں کو سب پتہ لگ جاتا ہے ۔ نتالیا کو میرے فرار کا اس وقت علم ہو گیا ہوگا لیکن گناہ دھل جانے کے بعد میری روح میں نیکی کی طاقت آگئی ہے۔ آسیب اور بدروحیں نیک پاک روحوں کے قریب نہیں آتیں۔ وہ ہماری خوشبو دور ہی سے محسوس کر لیتی ہیں اور بھاگ جاتی ہیں۔“
میں نے روہنی سے کہا۔ ’’سلطانہ ! یہ بات میں تمہیں بتانا بھول گیا تھا۔ جب سے تمہاری روح کے گناہ ڈھل گئے ہیں اور تم پاکیزہ روح بن گئی ہو مجھے تمہارے جسم سے بڑی روح پرور دهیمی دهیمی خوشبو آتی محسوس ہونے لگی ہے ۔ " روہنی نے کہا۔ ” یہ رحمت خداوندی کی خوشبو کی ایک ہلکی سی جھلک ہے ۔ ابھی میں پاکیزہ اور نیک روحوں کے پہلے درجے میں ہی ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ میں تمہارے
ساتھ زمین پر بھی چل پھر لیتی ہوں کیونکہ ابھی میرے اندر دنیاوی خیالات اور دنیاوی خواہش موجود ہے اور یہ دنیاوی خواہش تمہیں تمہارے دشمنوں سے چھٹکارا دلانے کی خواہش ہے تا کہ تم نے مجھ پر جو احسان کیا ہے وہ اتار دوں ۔
ہم دنیا کے بوجھ ساتھ لے کر روحانی درجے طے نہیں کر سکتیں اور میرا دوسرا بوجھ میرے مرحوم خاوند سے میری محبت ہے۔ یہ بھی ایک دنیاوی جذبہ ہے ۔ نیک روحوں کو بلند درجوں تک پہنچنے کے لئے دنیا کی تمام محبتوں کو اپنے سے الگ کر کے صرف اللہ پاک کی محبت میں سرشار ہونا ہوتا ہے ۔ ابھی میری روح میں یہ کمزوریاں موجود ہیں اس لئے میں روحانی بلندی کی پہلی سیٹرھی پر ہی ہوں ۔ لیکن میں جانتی ہوں کہ میں بہت جلد ان فانی دنیاوی جذبوں سے آزاد ہو کر صرف خدائے واحد کی عبادت گزار اور صرف اسی کی حمد و ثناء کرنے والی روح بن جاؤں گی۔ پھر تم مجھے بھی اس دنیا میں نہیں پاؤ گے۔“
روہنی نے پہلے کبھی میرے ساتھ ایسی روحانی عظمتوں والی گفتگو نہیں کی تھی۔ اس کی باتیں خود میرے اندر ایک روحانی بلندی کا احساس پیدا کر رہی تھیں اور خدا پر میرا ایمان اور پختہ ہو رہا تھا اور میرا دل گواہی دینے لگا تھا کہ ۔’’ سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے۔“ میں نے روہنی سے کہا۔’’سلطانہ !روحانیت کے اس مقام پر پہنچنے کے بعد کیا تم اپنے مشترکہ دشمن رگھو اور نتالیا کے آسیب کو ہلاک کر سکو گی ؟“ روہنی نے اس کے جواب میں کہا۔ ’’ہم منشاۓ خداوندی کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ جس طرح جادو ٹونہ کرنے والے اور بدروحیں قدرت کے قانون میں دخل اندازی کر کے بعض مقاصد اپنی مرضی کے مطابق حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ہم ایسا نہیں کرتیں۔ یہ ہمارے مسلک کے خلاف ہے۔ ہم قانون قدرت کی خلاف ورزی کا تصور بھی نہیں کر سکتیں۔
میں نے کہا۔ ” اس کا مطلب ہے کہ نتالیا کا آسیب تو میری شیش ناگن والی انگوٹھی چرانے کے بعد آسانی سے مجھے اپنے قابو میں کر لے گا اور رگھو جو کہ میری جان کا دشمن ہے جب چاہے گا مجھے موت کی نیند سلا دے گا۔“
روہنی کہنے لگی ۔ یاد رکھو، کوئی زندہ شے ہے موت نہیں مرتی۔انسان کی موت صرف اسی وقت آتی ہے جب اس کو اللہ کے حکم سے آنا ہوتا ہے۔ زندگی اور موت کا اختیار صرف اللہ کی ذات پاک کو ہے ۔ کسی کی مجال نہیں کہ اس میں دخل دے سکے ۔“ ”لیکن روہنی۔‘‘ میں نے کہا۔ ” بعض جادو ٹونوں سے تو انسان اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے ۔ پھر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ "
روہنی نے کہا۔’’جادو ٹونے سے کبھی کبھی اپنا مقصد حاصل کرنے والا آدمی اسے اپنی کامیابی ہی سمجھتا ہے لیکن اسے علم نہیں ہوتا کہ یہ کامیابی اس کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔ ایسا آدمی خدا کے حضور مدد کے لئے جھولی پھیلانے کی بجاۓ جادو ٹونہ کرنے والے سے مدد کی بھیک مانگتا ہے ۔ یہ شرک ہے یعنی وہ تمام جہانوں کے سب سے بڑھ کر پالنے والے اور تمام حاکموں کے سب سے اعلی تر حاکم کے اختیار میں دخل اندازی کر کے شرک کے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے اور یوں اللہ تعالی کی ناراضگی مول لے لیتا ہے اور یاد رکھو وہ آدمی دنیا کا بد قسمت ترین آدمی ہے جس سے اللہ تعالی ناراض ہو جاۓ . . . .
اب میں تمہیں تمہارے سوال کا جواب دیتی ہوں۔ تم نے پوچھا تھا کہ اگر رگھو کی بدروح یا نتالیا کے آسیب نے ہم پر حملہ کر دیا تو کیا میں ان کا مقابلہ نہیں کروں گی ؟ تم نے بڑا صحیح سوال کیا ہے۔ میں مقابلہ اسی طرح کروں گی جس طرح ایک نیک آدمی برائی کا مقابلہ کرتا ہے جس طرح ایک نیک خیالات رکھنے والا آدمی برے خیالات کا مقابلہ کرتا ہے اور اپنے نیک خیالات کی طاقت سے برے خیالات کو شکست دیتا ہے۔ تم یہ کہہ سکتے ہو کہ میں اپنا اور تمہارا دفاع کروں گی۔ میں کسی پر حملہ نہیں کروں گی اور جب کوئی انسان یا نیک روح نیکی کی طاقت کے ساتھ اپنا دفاع کرتی ہے تو بدی خود بخود شکست کھا کر روپوش ہو جاتی ہے ۔“
میں نے کہا۔ ”لیکن سلطانہ! میں تو ایک کمزور انسان ہوں اور میرے ساتھ میرے گناہ بھی جڑے ہوئے ہیں ۔ میں کیا کروں گا؟" روہنی نے جواب دیا۔ ” تم صرف اللہ پاک پر اپنے ایمان کو مضبوط رکھنا۔ سواۓ اللہ کے اور کسی کو مدد کے لئے نہ پکارنا۔ تمہارے سارے کام اپنے آپ ٹھیک ہو جائیں گے اور کوئی شیطانی طاقت تمہارا کچھ نہ بگاڑ سکے گی۔
جیسے جیسے میں روہنی یعنی سلطانہ کی باتیں سن رہا تھا مجھے اپنے اندر ایک حیرت انگیز روحانی طاقت کا احساس ہو رہا تھا۔ روہنی کرسی پر سے اٹھ کر بیڈ روم کی کھڑکی کے پاس گئی۔ باہر جھانک کر دیکھا اور میرے پاس آکر کہنے لگی ۔’’اب تم اطمینان سے سو جاؤ۔ میں فلیٹ کے اوپر اور باہر چل پھر کر تمہاری حفاظت کروں گی۔“ روہنی بیڈ روم کے بند دروازے میں سے نکل گئی۔ اس کے جانے کے بعد میں نے باتھ روم میں جا کر وضو کیا۔ اس کے بعد واپس آکر دو نفل شکرانے کے ادا کئے اور پانچ کلمہ پاک پڑھ کر پلنگ پر لیٹ گیا اور خدا سے اپنے گناہوں کی بخشش کی دعائیں مانگا مانگتا گہری نیند سو گیا۔

پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 25

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں