Sublimegate Urdu Font Stories
پنڈت اور جنات - پارٹ 3
وہ رات بھر کروٹیں بدلتا رہا، اس کے ذہن میں پرکاش کے جملے گونج رہے تھے وہ اس چیز کے بارے میں سوچتا رہاجس کے حصول کی خاطر کالی چرن کی شیطانی قوتیںاس کے گرد جال بن رہی تھیں ۔اس کے ذہن میں مختلف سوالات گڈمڈ ہورہے تھے ۔۔۔ایسی کون سی ماورائی قوت ہے جسے کالی چرن اورجوگی مدھولال جیسے جادوگر بھی حاصل نہ کرسکے۔اور وہ قوت اگر اس پر مہربان ہے تو وہ کھل کر سامنے کیوں نہیں آتی ؟ کیا وہ کوئی دیوتا ہے ؟ ۔۔۔ لیکن ۔۔اگر وہ دیوتا ہے تو وہ دیوتا اس سے کیا چاہتا ہے؟لیکن وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا اور سوگیادوسرے دن سورج ڈھلنے میں ابھی کجھ وقت باقی تھا مہاویر نے اپنا کجھ ضروری سامان اٹھایا اور جوگی مدھولال کی بتائی ہوئی جگہ پر جانے کے لئے کمرے سے باہر نکلا4 اقساط
"جارہے ہو؟ " مدھولال نے پوچھا"جی گرو مہراج" مہاویر نے جواب دیا"زندگی کے یہ راستے بہت کٹھن ہوتے ہیں بالک، کیا تم اپنیزندگی کو ایک بہتر شکل دینے کے لیے ان کٹھن راستوں سےگزر سکو گے؟" مدھولال نے کہا"میں کوشش کروں گا" مہاویر نے جواب دیا"اور اس وقت جب تم اس کام کو سرانجام دے لوگے تو تمہیں بہت سی ایسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گاجن سے شائد تم اکتا جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔""میں کوشش کروں گا کہ نہ اکتاوں ۔۔۔۔۔""بس تو پھر ٹھیک ہے دیوتا تمہاری رکشا کریں گے اور مجھےوشواس ہے تم ہر آزمائش میں پورے اترو گے"
یہ جگہ ابادی سے دور اور بے رونق علاقہ تھا جیسے آسمانی نحوستوں نے یہاں بسیرا کر رکھا ہوقریب ایک چھوٹا سا تالاب تھا جس کے کنارے لمبی لمبیگھاس اگی ہوئی تھی کئی درخت تالاب کے آس پاس موجود تھے عام حالات میں یہ ایک خوشنما علاقہ ہونا چاہیے تھالیکن نہ جانے کیوں اس پر نحوست نازل تھیاور دور دور تک کوئی انسان نظر نہیں آتا تھا ایک عجیب ویران سا میدان بھیلا ہوا تھا اور اس میدانمیں یہ تالاب بھی مصنوعی سا محسوس ہو رہا تھایہ وہ جگہ تھی جہاں اسے بیٹھ کر مدھولال کا بتایا ہواجاپ مکمل کرنا تھا۔
وہ قریب ہی ایک درخت کے نیچے منڈل کھینچ کر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔ اسے مدھولال نے بتایا تھا کہجاپ کے دوران مختلف بلائیں اسے ڈرانے کی کوشش کریںگی تم بس منڈل سے باہر نکلنے کی کوشش مت کرناوہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گیوہ آنکھیں بند کر کے جاپ شروع کرنے لگا۔ کجھ دیر بعد اچانک اسے قریب ہی تالاب کے پاس کسی آدمی کے رونے کی آوازیں انے لگیںاس کے دل میں تجسس بیدار ہو گیا۔ ۔۔ لیکن پھر اسےمدھولال کے الفاظ یاد ائے۔ کہ جاپ کے دوران کسی بھی آوازوں پر دھیان نہیں دینا ہے۔ایک بار پھر دل نے اندر سے بغاوت کی کہ"کم از کم دیکھو تو سہی کہ کون مصیبت میں ہے"اب دو ہی باتیں تھی یا تو مدھولال کی بات مان لیتایا پھر اپنے معصوم دل کی بات مان لیتاوہ کسی کو تکلیف میں بھی تو نہیں دیکھ سکتا تھااس لئے اس سے رہا نہ گیا اور اپنے دل کی بات مان لیاور اس نے آنکھیں کھول دیں9 اقساط
وہ اٹھ کھڑا ہوا اور اس آواز کی سمت چل پڑا دیکھا تو تالاب کے کنارے گیروی رنگ کے لباس میں کوئی سر جھکائے بیٹھا ہوا ہےمہاویر کے قدموں کی آواز سن کر اس نے پلٹ کر مہاویر کیطرف دیکھا وہ اس کا ہم عمر نوجوان تھا اور رونے کی وجہ سے اس کی آنکھیں سرخ تھیں"کیا بات ہے میتر (دوست)؟ مہاویر نے نرمی سے پوچھا"کیا سمسیا ہے تمہارے ساتھ؟""جاؤ اپنا کام کرو" لڑکے نے لاپرواہی سے جواب دیا اور اپنا مونہہ دوسری طرف کر کے ہتھلی سے آنسو پونچنے لگامہاویر مسکرا کر اس کے قریب ہی بیٹھ گیا "ایک منش ہی ایک منش کے کام آتا ہے اور تم تو دکھنےمیں کوئی میری طرح کے یوگی معلوم ہوتے ہوکیا پتا میں تمہاری سمسیا دور کر سکوں""اچھا ۔۔۔۔" اس لڑکے نے درشت لہجے میں کہا"کیا تم میرے خاطر مندر کے پروہت گردھر سے لڑ سکتے ہو؟"مہاویر حیرت سے اسے دیکھنے لگا"نہیں نا؟ لڑکے نے طنزیہ مسکراہٹ سے کہا"اس لئے تو کہہ رہا ہوں جاؤ اپنا کام کرو اور ھمیں ہماری قسمت پر رونے دو"مہاویر چند لمحے خاموشی سے اسے دیکھنے لگا پھر بولا"جو کجھ میری بس میں ہوگا میں ضرور کروں گاتم کھل کر کجھ بتاؤ تو سہی اور یہ گردھر کون ہے؟""گردھر ہنومان کے مندر کا پروہت اور جوگی مدھولال کادوست ہے، اور گردھر کی نیت میں پجارن کلپنا کے لئے کھوٹ ہے" اس نے دبی زبان میں کہا"کیا مطلب؟" مہاویر نے سوالیہ نظروں سے پوچھاپجارن کلپنا سے تمہارا کیا سمبندھ ہے؟""میں اس سے پیار کرتا ہوں" اس نے معصومیت سے اقرار کیااور اپنا نام چندر بتایا اور پھر تفصیل بتاتے ہوئے بولا "کلپنا نے مجھے بتایا کہ گردھر ہر ھفتے ایک نئی پجارن کے ساتھ رات بیتاتا ہےجو اس کا کہا مان لیتی ہے وہ سکھی رہتی ہےجو انکار کرتی ہےگردھر اس پر کلنک کا ٹیکہ تھوپ کر یا تو سر گنجا کرا کر مندر سے باہر نکال دیتا ہےیا کالی کے چرنوں میں اسے بھینٹ چڑھا دیتا ہےکسی مردار گدھ کی طرح خطرناک ہے ایسی خطرناک چالیں چلتا ہے کہ بڑا پجاری بھی اس کے دھوکے میں آجاتا ہے""کیا گردھر نے کلپنا کے ساتھ بھی کوئی غلط بات کی ہے"'ہاں, کلپنا بتا رہی تھی کہ اس نے آج رات اسے اپنے ساتھبھوجن کرنے کی دعوت دی ہے" پھر اس نے اپنا ہونٹ کاٹتےہوہے کہا " آج رات وہ اس معصوم کی مجبوریوں اور اس کی عزت سے کھیلے گا، اور میں اس کے لئے کجھ نہیں کرسکوں گا" وہ دوبارا رونے لگامہاویر کا خون گھول اٹھا "اٹھو اور چلو میرے ساتھ""کہاں؟ چندر اسے حیرت سے دیکھنے لگا"اس راکھشس کو سبق سکھانے" مہاویر نے غصیلے لہجے میں کہا اور پھر وہ دونوں مندر کی طرف چل پڑے
گردھر نے پجارنوں کے ساتھ رنگ رلیاں منانے اور پاپ کا ناٹک رچانے کی خاطر مندر کے مشرقی گوشے میں ایک الگ تھلگ کمرا منتخب کر رکھا تھامہاویر اور چندر دروازے کے قریب پہنچ گئےاندر سے کلپنا کی سہمی سہمی آوازیں سنائی دے رہی تھی"مجھ پر دیا (رحم) کرو مہراج ! تم دھرم کا نام لیوا ہومیرے جیون میں پاپ کا زہر مت گھولو ورنہ میں کجھ کھا کر جان دے دوں گی""ہا ہا ہا ، گردھر نے قہقہہ لگایا " تجھ سے پہلے دوسری پجارنیں بھی مجھے مرنے کی دھمکیاں دے چکی ہیںلیکن میں نے آج تک کسی کی ارتھی (میت) اٹھتے نہیں دیکھی " گردھر کی نشے میں ڈوبی آواز ابھریسوم رس پینے اور جیون کا اصلی سواد (مزا) چکھنے کےبعد سب شانت ہوجاتی ہیں۔ یہ من کی بھڑکتی اگنی ہےجو منش کو چیخنے چلانے پر مجبور کرتی ہےتو بھی شانت ہوجائے گی میری سندر ہرنی""بھگوان کے لیے مجھے برباد مت کرو" کلپنا نے رحم کی بھیک مانگی " تم میرے پتا سمان ہو ہو تمہیں لاج نہیں آتی""اب ہم کیا کریں؟ چندر نے غمزدہ ہوکر مہاویر سے کہامہاویر نے ایک نظر چندر کی طرف دیکھا اور پھر اسے پرکاش کی بات یاد آئی " کوئی قوت تمہاری رکشا کر رہی ہے اور اس نے تمہاری گرد حفاظتی حصار قائم کر رکھا ہے"پرکاش کی بات کو آزمانے کا شاید یہی وقت ہےاور پھر اس نے ایک بھرپور لات دروازے کو دے ماری، اور وہ خود حیران رہ گیا کہ دروازے کے دونوں پٹ ٹوٹ کرکئی حصوں میں منقسم ہوگئے۔گردھر پھٹی پھٹی آنکھوں سے مہاویر کی طرف دیکھنے لگاشاید وہ اسے پہچاننے کی کوشش کر رہا تھاکلپنا تیزی سے اپنی اوڑھنی سنبھالتی ہوئی ایک کونے میںجا کر کھڑی ہوگئی ۔ چندر کی نگاہیں شعلے اگل رہی تھیلیکن وہ خاموشی ہی رہا شاید اسے گردھر کے مرتبے کا خیالتھا اس لئے اس نے خود کو قابو میں رکھا یا پھر شایداسے گردھر کی قوت کا اندازہ تھا جو خون کے گھونٹ پینےپر اکتفا کر رہا تھا۔"تو وہی ہے نہ جو کل مدھولال کے ساتھ مندر آیا تھا؟تو کل کا چھوکرا ۔۔۔۔۔۔۔اور تمہاری اتنی جرات" گردھر نے غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئے کہا اور اس کا سارا نشہ کافور ہوگیا"ہاں میں تو وہی ہوں " مہاویر نے کہا"لیکن آج تیری یہ دھرم سیوا اور کرتوت دیکھ لئے""تو کون ہوتا ہے مجھے دھرم سکھانے والا اور دھرم کے معاملے میں ٹانگ پھنسانے والا" وہ گرج کر بولا"سیدھی طرح نظریں جھکا کر مجھ سے شما کی بھکشا مانگ لے ورنہ میں تجھے ایسا سراپ دوں گا کہ تیری آتما کو بھی کبھی چین نہیں ملے گا"مہاویر کو ہنسی آگئی اور اس نے کہا "کیا تم ابھی کلپنا کوگیتا کا کوئی پاٹھ (سبق) یاد کرا رہے تھے جو دھرم کےمعاملے میں تمہارا پارہ چڑھ رہا ہے"5 اقساط
"وہ ہمارے مندر کی داسی ہے " گردھر تلملا کر بولا"اور میں یہاں کا پروہت ہوں ۔۔۔۔۔ پر تو کون ہے ہمارے معاملات میں ٹانگ اڑانے والا"ھم بھی تو کالی کے سیوک ہیں مہاراج" مہاویر نے اس کامضحکہ اڑاتے ہوئے کہا " ساری پجارنیں تم ہڑپ کر جاؤگےتو ہم چھوئے یوگیوں کے لئے کیا بچے گا، کیوں چندر"مہاویر نے چندر کی طرف دیکھ کر مسکرایا جو مہاویرکی طرف دیکھ کر دہشت سے تھوک نگل رہا تھا"تو شاید سیدھی طرح نہیں مانے گا" گردھر نے پینترا بدلاپھر کوئی منتر پڑھ کر پھونکا تو مہاویر خود کو سنبھال نہسکا لڑکھڑا کر گرتے گرتے بچاگردھر مسکرایا اور کہا "تمہیں شاید میری طاقت کا اندازہنہیں ہے لیکن پھر بھی میں تمیں مدھولال کی وجہ سےموقع دے رہا ہوں اور چلے جاؤ یہاں سے"مہاویر نے خود کو سنبھالنے میں دیر نہیں کی وہ اسے کوئیمناسب جواب دینا چاہتا تھا کہ دروازے پر مدھولالنمودار ہوا اور حیرت سے انہیں دیکھنے لگا"مدھولال ! ۔۔۔" گردھر مدھولال کو دیکھتے چلایا"اپنے چھوکرے کو باندھ کر رکھو اور اسے سمجھاؤ کہاس مندر کے پروہت کی شکتی کیا ہوتی ہے""بات کیا ہے؟" مدھولال نے حالات کو سنبھالنے کی خاطر بات بنانے کی کوشش کی شاید اسے بھی مندر کے تقدس کاخیال آگیا تھا"بات کجھ بھی ہو، تم اپنے بچھڑے کے گلے میں پٹہ ڈال کرپالو ورنہ کسی دن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔""نہیں گردھر مہراج یہ بات ٹھیک نہیں" مہاویر نے مدھولالکو درمیان میں آنے سے روکنے کی خاطر گردھر کو مخاطبکیا "بات ہمارے اور تمہارے بیچ ہے، گرو کو درمیان میں مت لاو۔ آپس میں کجھ لے دے کے فیصلہ کرلو، اسی میں تمہاری مکتی ہے""تو ۔۔۔۔۔۔ آخر چاہتا کیا ہے ؟" گردھر آپے سے باہر ہونے لگاجبکہ چندر بھی حیرت سے کبھی مہاویر کی طرف دیکھتاتو کبھی گردھر کی طرف دیکھ رہا تھا۔"ایک چھوٹی سی بنتی ہے پروہت مہراج " مہاویر زہر خند لہجے سے بولا " تم بجارن کلپنا کے چرن چھوکر دو شبدوں میں معافی مانگ لو میں بھی تمہیں شما کردونگا"مہاویر۔۔۔ تم باہر جا .... میں گردھر سے بات کرتا ہوں"مدھولال نے کسی مصلحت کے پیش نظر اسے ہٹانا چاہا"گرو جی آپ اس معاملے سے دور ہی رہیں تو آپ کی کرپاہوگی اگر یہ یہاں کا پروہت ہے تو میں بھی بالمپور کے مندر کا نگران اور پروہت ہوں میں اسے سکھاؤں گا کہ ایک پروہت کی کیا زمیداریاں ہوتی ہیں"چندر اور کلپنا حیرت سے مہاویر کی طرف دیکھنے لگے"رام رام ۔۔۔۔۔۔ رام رام " گردھر نے برا سا مونہ بنایامیں پروہت ہوکر ایک پجارن کے چرنوں کو ہاتھ لگاؤںمدھولال اپنے سیوک کو سمجھانے کی کوشش کرو ورنہبات بگڑ بھی سکتی ہے""گرو اب درمیان میں نہیں بولے گا" مہاویر نے گردھر سے کہا "میں تمہیں دو منٹ کی مہلت دے رہا ہوںمیری آگیا کا پالن کرلو تو تمہارے دھرم کا بھرم بچ جانے گاورنہ ۔۔۔۔۔ ۔"گردھر بھڑک اٹھا اس نے تیزی سے مہاویر پر دوسرا وار کیاآگ کے شعلے بھڑکتے ہوئے مہاویر کی جانب لپکے ۔۔ لیکنوہ مہاویر کے جسم سے ٹکرا کر ٹھنڈے پڑگئےاسے خود تعجب ہوا کہ آگ کے شعلے بے اثر کیسے ہوئےاس کا حوصلا بڑھا اور اس نے گرج کر کہا"اپنے دو منتروں کا انجام تونے دیکھ لیا اب اگر تم نے تیسراوار کیا تو وہ پلٹ کر تمہیں جلا کر بھسم کردے گا"مدھولال اور گردھر کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیکلپنا کی ہمت بڑھی اور وہ دوڑ کر چندر سے لپٹ گئیاور مہاویر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا"مہاراج مجھے کوئی اچھا نہیں ہے کہ یہ پاپی میرے چرنوں کو چھوئے میں اسے شما کرتی ہوں اور بس یہاں سےجانا چاہتی ہوں"9 اقساط
"چندر ۔۔۔۔ " مہاویر نے چندر کی طرف دیکھا"تم کلپنا کو لے کر مندر سے نکل جاؤ تمہیں کوئی نہیں روکے گا"چندر نے آگے بڑھ کر مہاویر کے قدم چھوئے اور ہاتھ باندھکر کہا "مجھے شما کردینا مہراج ۔۔ میں آپ کو نہ پہچان سکا تھا" اور پھر وہ تیزی سے کمرے سے نکل گیاگردھر اپنے منتروں کی ناکامی اور شکار ہاتھ سے نکلنے پرپیچ و تاب کھا رہا تھا مدھولال بھی گہری سوچ میں غرق تھا اس کی نظریںمہاویر کے وجود پر مچل رہی تھی وہ مہاویر کی قوت کاتماشا دیکھ کر ششدر رہ گیا تھا
سامنے ایک قدرے بلند چبوترے پر کالی دیوی کا بھیانک بتتھا جس کی خوفناک آنکھوں سے شعلے لپکتے محسوس ہو رہے پتھر کا یہ بت صدیوں سے ابلیس کو خوش کرنے کے لئے حیوانی اور انسانی جانوں کا بلیدان لیتا آرہا ہےمندر میں اگنی (آگ) منڈپ پر بیٹھے ہوئے کالی چرن نے منگلا سے کہا "بلیدان دینے کے لئے فوراً ایک کمسن لڑکے کا بندوست کرو کیونکہ کالی کو خوش کئے بغیر ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے "کالی چرن کا حکم سنتے ہی منگلا فورا غالب ہوگئیچند لمحوں کے بعد جب وہ دوبارا نمودار ہوئی تو اس نے ایک کمسن لڑکے کو اٹھا رکھا تھا۔ لڑکے کی عمر تقریباً پانچ برس کے قریب تھی اور وہ بے ہوش تھا۔منگلا نے لڑکے کو بت کے قدموں میں ڈالا اور پھر اپنے لباس سے ایک تیز خنجر نکال کالی چرن کے حوالے کیا۔کالی چرن خنجر لے کر اگے بڑھا اور بے ہوش پڑے لڑکے کےقریب پہنچ کر ایک لمحے کے لئے ساکت کھڑا ہوگیامنگلا بڑے غور سے اس کی حرکات و سکنات دیکھ رہی تھیکالی چرن نے خنجر کو فضا میں بلند کیا اور پھر "جے کالی"کا منحوس نعرا بلند کر کے بےہوش پڑے ہوئے لڑکے کی گردنپر خنجر پھیر دیا۔معصوم لڑکے کا جسم تڑپنے لگا اور اس کی گردن سے ابلنے والا خون بت کے چرنوں میں بہنے لگااس لمحے آسمان میں بجلی کڑکی اور مندر سانپوں کی پھنکار سے گونج اٹھا کالی چرن تیزی سے دوبارا اگنی منڈپ کے سامنے بیٹھ گیااور کوئی منتر پڑھنے لگا"کیا چاہتا ہے ۔۔۔۔۔ اے خاکی انسان ۔۔۔" ایک گرجدار اواز کمرے میں گونجی ایک لمحے کے لئے وہ دونوں یہ آواز سن کر شدت خوف سےلرز اٹھے مگر پھر کالی چرن ہمت کرکے بولا"مہاراج میں ایک عجیب سمسیا میں پھنس گیا ہووہ کل کا چھوکرا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "
"ہم سب جانتے ہیں۔۔۔ مورکھ " وہ آواز دوبارا گونجی"ایک بھیرون اس کی مدد ۔۔۔ " کالی چرن نے کجھ کہنا چاہا"وہ کوئی بھیروں نہیں ہے " آواز کجھ اور تیز ہوگئی"وہ جن زاد ہے اور ہمارے ہی بارہ قبیلوں میں سے ایک ہے لیکن اس قبیلے نے ھم فرزندان ابلیسی سے بغاوت کی اور ایک نیا دھرم اختیار کیا جیسے مسلمان کہتے ہیںان کا ماننا ہے کہ خدا نے اپنی کتاب میں جن و انس دونوں کو مخاطب کر کے ھدایت دی ہےاور وہ اس ہدایت پر عمل کریں گےیہ قبیلہ ہم سے الگ ہوکر پوتر (پاک) جگہوںاور نیک انسانوں کے ساتھ رہتا ہے یہ انسانوں کے معاملات میں دخل نہیں دیتےلیکن کبھی کبھی نیک لوگوں کی چپکے سےمدد کر دیتے ہیںلیکن کبھی خود کو ظاہر نہیں کرتے"کالی چرن اور منگلا حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور پھر کالی چرن بولا"لیکن مہاراج ۔۔۔۔ مسلمان تو ہم ہندوؤں کو کافر اور پلیدکہتے ہیں پھر وہ مسلمان جن زاد ایک ہندو کی مدد کیوںکر رہا ہے؟""یہ بات تو وہ جن زاد ہی بتا سکتا ہے ۔ لیکن ہمیں لگتا ہے کہیں نہ کہیں کوئی گوٹالا موجود ہےپر اب تمہیں چنتا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہےیہ معاملہ ہم خود دیکھ رہے ہیں کیونکہ اس کہانی کااصل کردار وہ بالک نہیں ۔۔ بلکہ وہ جن زاد ہےجو ہمارے ساتھ کوئی چال چل رہا ہےاور اقا ابلیس کے بھگتوں کی مٹی پلید کرنے پر تلا ہو ہے"مہاویر کا حوصلا بڑھ گیااس کا بھروسہ اور اعتماد اور بڑھ گیا کہ اس کے سر پر کوئی ہے جو اسی کی طرح سوچتا ہے اور دکھی انسانیتکے لئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتا ہےوہ اس کی رکشا کرتا ہے اور اس بات کی اسے بہت خوشی تھی اور وہ اور زیادہ مضبوطی سے آگے قدم بڑھائے لگا۔انسان میں اعتماد کی دولت ہو تو وہ بڑے بڑے کام آسانیسے کرلیتا ہے اور وہ اعتماد میں نے مہاویر کو دے دیا تھاوہ کسی بیمار پر ہاتھ رکھتا تو اسے شفا ملتیوہ لوگوں کے لیے امید اور مسیحا بن نے لگا تھاجوگی مدھولال اور پروہت گردھر بے چین تھے کیونکہجہاں ان کے علم کی انتہا ہوتی تھی اب وہاں مہاویر کا علمشروع ہونے لگا تھا ان کے سیوک اور بھگت اب مہاویر کےاردگرد منڈلانے لگے تھے اور وہ دونوں زہر کے گھونٹ پینے پر اکتفا کر رہے تھےجوگی مدھولال بظاہر تو خاموش تھا لیکن اس کے ذہن میںمختلف خطرناک جال اور شکنجے تشکیل پارہے تھےوہ یقیناً غور کر رہا تھا کہ کس وقت کون سا جال مہاویرکے لئے زیادہ موثر ثابت ہوسکتا ہےوہ پرانا پاپی اور تجربے کار کھلاڑی تھا ہواؤں کا رخ پہچانتاتھا۔ مہاویر تو اس کے سامنے ایک بچا تھااور وہ اتنی آسانی سے ہار ماننے والوں میں سے نہ تھاوہ بار بار مہاویر کے من میں چھانکنے کی کوشش کرتااور ہر بار اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑتایہی مایوسی اس کے عزم کو اندر ہی اندر اور پختہ کر رہی تھی وہ تنگ آکر یقیناً کوئی ایسا مضبوط جال پھینکنےکی کوشش کرے گا جس کی رسیاں مہاویر نہ چھڑاسکےیہ شیطانی دنیا بھی بڑی پراسرار ہوتی ہے3 اقساط
کیا معلوم کسی وقت بھی کیا ہوسکتا تھااس لئے میں مہاویر کی طرف سے کجھ فکر مند بھی تھاکیونکہ میں اسے شیطانی قوتوں اور ان کے حملوں سےتحفظ تو دے سکتا تھا لیکن کسی انسان کے شر اور اس کے حملے سے محفوظنہیں رکھ سکتا تھا اور یہ میرے اختیار میں بھی نہیں تھااور آخرکار وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھاآج مندر میں عام لوگوں کا داخلہ بند کیا گیا تھاکیونکہ ٹھاکر رنجیت سنگھ کا نوجوان بیٹا مہاراجہ پرتاب سنگھ اپنی ماں کے ساتھ مندر میں درشنکرنے آیا تھا مہاراجہ بائیس سال کا ایک خوبصورت نوجوانتھا اس میں مہاراجوں جیسی خوبی نہ تھی اس کے برخلاف وہ پجاریوں سے بڑی عقیدت اور احترامسے گفتگو کر رہا تھا"یہ مندر مہاراجہ پرتاب سنگھ کے دادا نے بنوایا تھا"مدھولال نے مہاویر کے کان میں سرگوشی گی جو ان کےاستقبال کے لئے کھڑے تھے"بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر پنڈت جی"مہاراجہ نے مہاویر سے گرم جوشی کے ساتھ ہاتھ ملاتےہوئے کہا "آپ کے بارے میں بہت کچھ سنا ہے بھگوان آپ کی دعائیں سن لیتے ہیںآپ کی کرپا سے گونگے بولنے لگتے ہیںاور اندھوں کی آنکھوں کا نور لوٹ آتا ہے"ارررے۔۔۔۔۔ نہیں مہاراج " مہاویر بوکھلا گیا کیونکہ کسیمہاراجہ کے ساتھ گفتگو کرنے کا یہ اس کا پہلا تجربہ تھا"سب کجھ بھگوان کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہے شکتی دے میں تو ایک عام منش ہوں"مہاراجہ مسکرایا اور کہا " آپ اگر ہمیں یہاں کا مہاراجہسمجھتے ہی تو ہم آپ کو حکم دیتے ہیں کہ آج کے بعدآپ ہمیں مہاراج نہیں بولیں گے بلکہ اپنا متر سمجھے گےاور ایک متر کی حیثیت سے ہم آپ کو اس دیوالی پراپنے گھر بھوجن کی دعوت دیتے ہیں ۔ ویسے بھی پتا جی کی طبیعت خراب رہتی ہے اور ہوسکتا ہے آپ کی کرپا سے انہیں شکتی ملے"مہاویر حیرت سے مہاراجہ کی طرف دیکھنے لگاپوجا سے فارغ ہوکر مہاراجہ اپنی ماں کے ساتھ ملکرلوگوں میں تحائف تقسیم کرنے لگامہاویر اس کی شخصیت اور اس کی بے تکلف گفتگو سے بہت متاثر ہوا
دیوالی تو آگئی تھی لیکن اس بار ھندو دھرم کے لوگوں کو اپنی چھتوں پر چراغاں کرنا مشکل ہو رہا تھاکیونکہ بہت زور کی بارش شروع ہوگئی تھی اور اسی بارش کی وجہ سے مہاویر نے مہاراجہ کی حویلیجانے کا ارادہ بھی ملتوی کردیا تھااسی لمحے حویلی کی گاڑی مہاویر کو لینے کے لئےمدھولال کے مکان کے سامنے رک گئی مہاویر نے مدھولال کو بھی ساتھ چلنے کے لئے کہالیکن اس نے انکار کردیا کہ راجہ نے اسے دعوت نہیں دیگاڑی مہاویر کو لیئے حویلی کی طرف روانہ ہوئیبارش اب بھی زور شور سے جاری تھیمحل میں پہلی بار پہنچ کر مہاویر اس کی خوبصورت سجاوٹ پر حیران رہ گیا پھر وہ اپنے کپڑوں کی طرف دیکھنے لگا جو بارش اور کیچڑ کی وجہ سے خراب ہوگئے تھے مہاراجہ نے اس کی پریشانی کو بھانپ لیامہاراجہ نے اسے ایک مغربی طرز کے سجے ہوئے کمرے میں بٹھایا اس کے اشارے پر فورا ایک باوردی خانساماں نے مختلف قسم کے مشروب سامنے سجا دیئے ۔ تھوڑی دیر بعد وہ مہاویر کو ساتھ لے کر ایکدوسرے کمرے میں آیا اس میں بچھے ہوئے قیمتی ایرانی قالین اتنے نرم تھے کہ مہاویر کے پیر دھنسے جارہے تھے ۔ کمرے میں بہت ہلکی سی روشنی تھی جو چھت پرٹنگے ہوجھاڑ کی جلتی ہوئی شمعوں سے ہورہی تھیغسل خانہ کیا تھا عیش کدہ تھا۔ مہاویر جب عرق گلابملے ہوئے پانی سے نہا کر اٹھا تو اس کا جسم مہک رہا تھاجیسے ہی وہ باہر آیا تو ایک خوبصورت ملازمہ نےمخمل کی طرح نرم تولیہ اس کے جسم پر ڈال کر رگڑناشروع کردیا مہاویر نے احتجاج بھی کیا لیکن اس نے جیسےسنا ہی نہ ہو پھر اس نے مہاویر کو شاہی روایتی لباس پیش کیا جسے پہن کر وہ آئینے کے سامنے کھڑا ہوا تو حیرت سےمسکرا دیا وہ بلکل شہزادہ لگ رہا تھا۔ملازمہ نے اسے ساتھ آنے کا اشارہ کیالمبی راہداری سے گزر کر وہ جس کشادہ کمرے میں داخلہوا وہ ہر قسم کے فرنیچر سے خالی تھاایک کونے میں دیوار سے ملحق دبیز قالینوں پر گاؤ تکیےسجے ہوئے تھے ملازمہ نے اسے قالین پر بٹھا کر ایک گاؤ تکیہ اس کے پشت سے ٹکا دیا۔سامنے کچھ فاصلے پر دودھ کی طرح سفید چاندنی بچھیہوئی تھی تھی ملازمہ اسے بٹھا کر چلی گئیخالی کمرے میں مہاویر کو کچھ خوف سا محسوس ہورہاتھا اور وہ حیران تھا کہ اسے کیا ہوگیا ہے"کیسا لگا میرا محل؟" مہاراجہ نے کمرے میں داخل ہوتےہوئے کہا اور اس کے قریب ہی قالین پر بیٹھ گیا"بہت ہی شاندار" مہاویر نے مسکرا کر کہامہاراجہ نے قہقہہ لگایا " میرے خیال سے اب کھانا کھالیا جائےمہاراجہ کے اشارے پر ملازموں کی ایک قطار کھانوں کےخوان لئے ہوئے اندر داخل ہوئی۔ سامنے رکھی ہوئی لکڑی کےنیچے میز پر کھانے سجادئیے گئے کھانے اتنے انواع و اقسامکے تھے کہ مہاویر حیرت اور سوالیہ نگاہوں سے راجہ کیطرف دیکھنے لگا"گھبراؤ نہیں " مہاراجہ نے اس کی پریشانی بھانپ لی"ہم جانتے ہیں کہ آپ پنڈت لوگ ماس مچھی نہیں کھاتےاس لئے یہ خاص طور پر آپ کے لئے راجستھانی بھاجیاںبنائی گئی ہیں جن میں گوشت کا ذائقہ محسوس ہوتا ہے"کھانوں کا مزا مہاویر کے لیے نیا تھا اور کھانے کے بعد پھلوںکے جوس اور مشروب جسے پینے کے بعد مہاویر پر جیسےغنودگی طاری ہونے لگیاور پھر ریشمی پردوں کے پیچھے پوشیدہ کمرے سے طبلے سارنگی کی موسیقی فضا میں ابھری"رقص تو آپ نے اپنے مندروں میں بھی دیکھا ہوگا"مہاراجہ نے معنی خیز مسکراہٹ سے کہا"اور یقیناً یہاں پر اس رقص کا لطف دوبالا ہو جائے گا"کمرے کے پیچھے سے نمودار ہونے والی دو رقاصائیں بڑی کم عمر تھیں ان کی عمر کوئی سولا یا سترہ برس کی تھی لیکن ان دونوں کے جسم بے حد لچکدار اور سڈول تھے5 اقساط
اور چہرا مخصوص میک اپ کے باوجود دلکش تھامہاویر کے لیے ان کا رقص بلکل نیا تھا رقاصاؤں کے ہاتھوں کے اشارے ان کی ہلتی ہوئی گردنان کا تھرکتا ہوا جسم سب کچھ اس کی سمجھ سے باہرتھا ان کی ہر جنبش میں ایک اشارہ اور پیغام تھامہاراجہ مہاویر کو محفوظ ہوتے ہوئے دیکھ کر مسکرایا"آپ کو ان دونوں میں سے کون سی پسند ہے؟""دونوں ہی خوبصورت ہیں" مہاویر مسکرا کر جواب دیا"آپ کے لئے حاضر کردیں جائیں گی" مہاراجہ نے کہااور اگر آپ چاہیں تو آپ کے لئے محل میں انتظام کردیا جائے گا""ارے نہیں ۔۔۔۔۔" مہاویر کا چہرا شرم سے سرخ ہوگیامیرا یہ مقصد نہیں تھا""ارے گھبراؤ نہیں پنڈت جی, یہ ہماری ریاست ہےاور ہم اپنی ریاست میں اپنے دوستوں کا پورا خیال رکھتے ہیں' پھر اس نے مشروب کا گلاس مہاویر کی طرف بڑھایامہاویر کو اپنا سر چکراتا ہوا محسوس ہورہا تھاکیونکہ کے وہ زیادہ پی گیا تھا اور ان مشروبات میں نشہ تھا لیکن اس کی نگاہیں ایک رقاصہ پر مرکوز تھیں جس کا خوبصورت جسم آب بجلی کی طرح تھرک رہا تھااور وہ چھومتی ہوئی بار بار مہاویر سے آنکھیں ملا رہی تھی جیسے مہاویر کو کوئی پیغام دے رہی ہومہاویر نے چونک کر مہاراجہ کی طرف دیکھا جومعنی خیز انداز میں مسکرایا اور ایک رقاصہ کو اپنے ساتھ لیکر کمرے سے نکل گیا ۔۔ کیونکہوہ ان دونوں کو تنہائی کا موقع دینا چاہتا تھامہاویر نے بے خودی کے عالم میں رقاصہ کی طرف دیکھااس کے جسم میں جسے کسی نے آگ لگادی تھیشراب کے نشے میں وہ بھول گیا کہ وہ کون ہےاس کی زندگی کے کیا اصول ہیںاب اسے صرف یہ یاد تھا کہ یہ نوکیز کلی مہاراجہ کیطرف سے میرے لئے لئے حسین تحفہ ہےجو مجھے سویکار کرنا ہےیہ مہاراجہ بھی کسی دیوتا سے کم نہیں ہےجس نے میرے من کی بات جان لیاور میرے برسوں کی پیاس بجھانے کا بندوست کردیااور پھر دیوار پر دو جسموں کے سائے بنتے اور بگڑتے رہےدوسری طرف ابلیس کے چیلوں میں جشن کا سماں تھاکیونکہ وہ مہاویر کو سوئر کے گوشت، شراب اور زناجیسے گناہوں سے پلید کرکے اسے میرے حسار سےنکالنے میں کامیاب ہوچکے تھے۔اور میں ، جو مہاویر کو یہاں سے نکالنے اور اسے اس کااصل مقام دلانے کا سپنا دیکھا تھا وہ ٹوٹ چکا تھااب اس کے اور میرے راستے اب جدا کردیے گئے تھےمہاویر کی حالت پر مجھے رحم بھی آرہا تھا تواس پر غصہ بھی آرہا تھا۔
وہ رات بھر کروٹیں بدلتا رہا، اس کے ذہن میں پرکاش کے جملے گونج رہے تھے وہ اس چیز کے بارے میں سوچتا رہا
جس کے حصول کی خاطر کالی چرن کی شیطانی قوتیں
اس کے گرد جال بن رہی تھیں ۔
اس کے ذہن میں مختلف سوالات گڈمڈ ہورہے تھے ۔۔۔
ایسی کون سی ماورائی قوت ہے جسے کالی چرن اور
جوگی مدھولال جیسے جادوگر بھی حاصل نہ کرسکے۔
اور وہ قوت اگر اس پر مہربان ہے تو وہ کھل کر سامنے کیوں نہیں آتی ؟ کیا وہ کوئی دیوتا ہے ؟ ۔۔۔ لیکن ۔۔
اگر وہ دیوتا ہے تو وہ دیوتا اس سے کیا چاہتا ہے؟
لیکن وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا اور سوگیا
دوسرے دن سورج ڈھلنے میں ابھی کجھ وقت باقی تھا مہاویر نے اپنا کجھ ضروری سامان اٹھایا اور جوگی مدھولال کی بتائی ہوئی جگہ پر جانے کے لئے کمرے سے باہر نکلا
4 اقساط |
"جارہے ہو؟ " مدھولال نے پوچھا
"جی گرو مہراج" مہاویر نے جواب دیا
"زندگی کے یہ راستے بہت کٹھن ہوتے ہیں بالک، کیا تم اپنی
زندگی کو ایک بہتر شکل دینے کے لیے ان کٹھن راستوں سے
گزر سکو گے؟" مدھولال نے کہا
"میں کوشش کروں گا" مہاویر نے جواب دیا
"اور اس وقت جب تم اس کام کو سرانجام دے لوگے تو تمہیں بہت سی ایسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا
جن سے شائد تم اکتا جاؤ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"میں کوشش کروں گا کہ نہ اکتاوں ۔۔۔۔۔"
"بس تو پھر ٹھیک ہے دیوتا تمہاری رکشا کریں گے اور مجھے
وشواس ہے تم ہر آزمائش میں پورے اترو گے"
یہ جگہ ابادی سے دور اور بے رونق علاقہ تھا
جیسے آسمانی نحوستوں نے یہاں بسیرا کر رکھا ہو
قریب ایک چھوٹا سا تالاب تھا جس کے کنارے لمبی لمبی
گھاس اگی ہوئی تھی کئی درخت تالاب کے آس پاس موجود تھے عام حالات میں یہ ایک خوشنما علاقہ ہونا چاہیے تھا
لیکن نہ جانے کیوں اس پر نحوست نازل تھی
اور دور دور تک کوئی انسان نظر نہیں آتا تھا
ایک عجیب ویران سا میدان بھیلا ہوا تھا اور اس میدان
میں یہ تالاب بھی مصنوعی سا محسوس ہو رہا تھا
یہ وہ جگہ تھی جہاں اسے بیٹھ کر مدھولال کا بتایا ہوا
جاپ مکمل کرنا تھا۔
وہ قریب ہی ایک درخت کے نیچے منڈل کھینچ کر
آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔ اسے مدھولال نے بتایا تھا کہ
جاپ کے دوران مختلف بلائیں اسے ڈرانے کی کوشش کریں
گی تم بس منڈل سے باہر نکلنے کی کوشش مت کرنا
وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گی
وہ آنکھیں بند کر کے جاپ شروع کرنے لگا۔
کجھ دیر بعد اچانک اسے قریب ہی تالاب کے پاس کسی آدمی کے رونے کی آوازیں انے لگیں
اس کے دل میں تجسس بیدار ہو گیا۔ ۔۔ لیکن پھر اسے
مدھولال کے الفاظ یاد ائے۔ کہ جاپ کے دوران کسی بھی
آوازوں پر دھیان نہیں دینا ہے۔
ایک بار پھر دل نے اندر سے بغاوت کی کہ
"کم از کم دیکھو تو سہی کہ کون مصیبت میں ہے"
اب دو ہی باتیں تھی یا تو مدھولال کی بات مان لیتا
یا پھر اپنے معصوم دل کی بات مان لیتا
وہ کسی کو تکلیف میں بھی تو نہیں دیکھ سکتا تھا
اس لئے اس سے رہا نہ گیا اور اپنے دل کی بات مان لی
اور اس نے آنکھیں کھول دیں
9 اقساط |
وہ اٹھ کھڑا ہوا اور اس آواز کی سمت چل پڑا
دیکھا تو تالاب کے کنارے گیروی رنگ کے لباس میں کوئی سر جھکائے بیٹھا ہوا ہے
مہاویر کے قدموں کی آواز سن کر اس نے پلٹ کر مہاویر کی
طرف دیکھا وہ اس کا ہم عمر نوجوان تھا
اور رونے کی وجہ سے اس کی آنکھیں سرخ تھیں
"کیا بات ہے میتر (دوست)؟ مہاویر نے نرمی سے پوچھا
"کیا سمسیا ہے تمہارے ساتھ؟"
"جاؤ اپنا کام کرو" لڑکے نے لاپرواہی سے جواب دیا اور اپنا مونہہ دوسری طرف کر کے ہتھلی سے آنسو پونچنے لگا
مہاویر مسکرا کر اس کے قریب ہی بیٹھ گیا
"ایک منش ہی ایک منش کے کام آتا ہے اور تم تو دکھنے
میں کوئی میری طرح کے یوگی معلوم ہوتے ہو
کیا پتا میں تمہاری سمسیا دور کر سکوں"
"اچھا ۔۔۔۔" اس لڑکے نے درشت لہجے میں کہا
"کیا تم میرے خاطر مندر کے پروہت گردھر سے لڑ سکتے ہو؟"
مہاویر حیرت سے اسے دیکھنے لگا
"نہیں نا؟ لڑکے نے طنزیہ مسکراہٹ سے کہا
"اس لئے تو کہہ رہا ہوں جاؤ اپنا کام کرو اور ھمیں ہماری قسمت پر رونے دو"
مہاویر چند لمحے خاموشی سے اسے دیکھنے لگا پھر بولا
"جو کجھ میری بس میں ہوگا میں ضرور کروں گا
تم کھل کر کجھ بتاؤ تو سہی اور یہ گردھر کون ہے؟"
"گردھر ہنومان کے مندر کا پروہت اور جوگی مدھولال کا
دوست ہے، اور گردھر کی نیت میں پجارن کلپنا کے لئے کھوٹ ہے" اس نے دبی زبان میں کہا
"کیا مطلب؟" مہاویر نے سوالیہ نظروں سے پوچھا
پجارن کلپنا سے تمہارا کیا سمبندھ ہے؟"
"میں اس سے پیار کرتا ہوں" اس نے معصومیت سے اقرار کیا
اور اپنا نام چندر بتایا اور پھر تفصیل بتاتے ہوئے بولا
"کلپنا نے مجھے بتایا کہ گردھر ہر ھفتے ایک نئی پجارن کے ساتھ رات بیتاتا ہے
جو اس کا کہا مان لیتی ہے وہ سکھی رہتی ہے
جو انکار کرتی ہےگردھر اس پر کلنک کا ٹیکہ تھوپ کر
یا تو سر گنجا کرا کر مندر سے باہر نکال دیتا ہے
یا کالی کے چرنوں میں اسے بھینٹ چڑھا دیتا ہے
کسی مردار گدھ کی طرح خطرناک ہے ایسی خطرناک چالیں چلتا ہے کہ بڑا پجاری بھی اس کے دھوکے میں آجاتا ہے"
"کیا گردھر نے کلپنا کے ساتھ بھی کوئی غلط بات کی ہے"
'ہاں, کلپنا بتا رہی تھی کہ اس نے آج رات اسے اپنے ساتھ
بھوجن کرنے کی دعوت دی ہے" پھر اس نے اپنا ہونٹ کاٹتے
ہوہے کہا " آج رات وہ اس معصوم کی مجبوریوں اور اس کی عزت سے کھیلے گا، اور میں اس کے لئے کجھ نہیں کرسکوں گا" وہ دوبارا رونے لگا
مہاویر کا خون گھول اٹھا "اٹھو اور چلو میرے ساتھ"
"کہاں؟ چندر اسے حیرت سے دیکھنے لگا
"اس راکھشس کو سبق سکھانے"
مہاویر نے غصیلے لہجے میں کہا اور پھر وہ دونوں مندر کی طرف چل پڑے
گردھر نے پجارنوں کے ساتھ رنگ رلیاں منانے اور پاپ کا ناٹک رچانے کی خاطر مندر کے مشرقی گوشے میں ایک
الگ تھلگ کمرا منتخب کر رکھا تھا
مہاویر اور چندر دروازے کے قریب پہنچ گئے
اندر سے کلپنا کی سہمی سہمی آوازیں سنائی دے رہی تھی
"مجھ پر دیا (رحم) کرو مہراج ! تم دھرم کا نام لیوا ہو
میرے جیون میں پاپ کا زہر مت گھولو ورنہ میں
کجھ کھا کر جان دے دوں گی"
"ہا ہا ہا ، گردھر نے قہقہہ لگایا " تجھ سے پہلے دوسری پجارنیں بھی مجھے مرنے کی دھمکیاں دے چکی ہیں
لیکن میں نے آج تک کسی کی ارتھی (میت) اٹھتے نہیں دیکھی " گردھر کی نشے میں ڈوبی آواز ابھری
سوم رس پینے اور جیون کا اصلی سواد (مزا) چکھنے کے
بعد سب شانت ہوجاتی ہیں۔ یہ من کی بھڑکتی اگنی ہے
جو منش کو چیخنے چلانے پر مجبور کرتی ہے
تو بھی شانت ہوجائے گی میری سندر ہرنی"
"بھگوان کے لیے مجھے برباد مت کرو" کلپنا نے رحم کی بھیک مانگی " تم میرے پتا سمان ہو ہو تمہیں لاج نہیں آتی"
"اب ہم کیا کریں؟ چندر نے غمزدہ ہوکر مہاویر سے کہا
مہاویر نے ایک نظر چندر کی طرف دیکھا اور پھر اسے پرکاش کی بات یاد آئی " کوئی قوت تمہاری رکشا کر رہی ہے اور اس نے تمہاری گرد حفاظتی حصار قائم کر رکھا ہے"
پرکاش کی بات کو آزمانے کا شاید یہی وقت ہے
اور پھر اس نے ایک بھرپور لات دروازے کو دے ماری،
اور وہ خود حیران رہ گیا کہ دروازے کے دونوں پٹ ٹوٹ کر
کئی حصوں میں منقسم ہوگئے۔
گردھر پھٹی پھٹی آنکھوں سے مہاویر کی طرف دیکھنے لگا
شاید وہ اسے پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا
کلپنا تیزی سے اپنی اوڑھنی سنبھالتی ہوئی ایک کونے میں
جا کر کھڑی ہوگئی ۔ چندر کی نگاہیں شعلے اگل رہی تھی
لیکن وہ خاموشی ہی رہا شاید اسے گردھر کے مرتبے کا خیال
تھا اس لئے اس نے خود کو قابو میں رکھا یا پھر شاید
اسے گردھر کی قوت کا اندازہ تھا جو خون کے گھونٹ پینے
پر اکتفا کر رہا تھا۔
"تو وہی ہے نہ جو کل مدھولال کے ساتھ مندر آیا تھا؟
تو کل کا چھوکرا ۔۔۔۔۔۔۔اور تمہاری اتنی جرات"
گردھر نے غصے سے لال پیلا ہوتے ہوئے کہا اور اس کا سارا نشہ کافور ہوگیا
"ہاں میں تو وہی ہوں " مہاویر نے کہا
"لیکن آج تیری یہ دھرم سیوا اور کرتوت دیکھ لئے"
"تو کون ہوتا ہے مجھے دھرم سکھانے والا اور دھرم کے معاملے میں ٹانگ پھنسانے والا" وہ گرج کر بولا
"سیدھی طرح نظریں جھکا کر مجھ سے شما کی بھکشا مانگ لے ورنہ میں تجھے ایسا سراپ دوں گا کہ تیری آتما کو بھی کبھی چین نہیں ملے گا"
مہاویر کو ہنسی آگئی اور اس نے کہا "کیا تم ابھی کلپنا کو
گیتا کا کوئی پاٹھ (سبق) یاد کرا رہے تھے جو دھرم کے
معاملے میں تمہارا پارہ چڑھ رہا ہے"
5 اقساط |
"وہ ہمارے مندر کی داسی ہے " گردھر تلملا کر بولا
"اور میں یہاں کا پروہت ہوں ۔۔۔۔۔ پر تو کون ہے ہمارے معاملات میں ٹانگ اڑانے والا
"ھم بھی تو کالی کے سیوک ہیں مہاراج" مہاویر نے اس کا
مضحکہ اڑاتے ہوئے کہا " ساری پجارنیں تم ہڑپ کر جاؤگے
تو ہم چھوئے یوگیوں کے لئے کیا بچے گا، کیوں چندر"
مہاویر نے چندر کی طرف دیکھ کر مسکرایا جو مہاویر
کی طرف دیکھ کر دہشت سے تھوک نگل رہا تھا
"تو شاید سیدھی طرح نہیں مانے گا" گردھر نے پینترا بدلا
پھر کوئی منتر پڑھ کر پھونکا تو مہاویر خود کو سنبھال نہ
سکا لڑکھڑا کر گرتے گرتے بچا
گردھر مسکرایا اور کہا "تمہیں شاید میری طاقت کا اندازہ
نہیں ہے لیکن پھر بھی میں تمیں مدھولال کی وجہ سے
موقع دے رہا ہوں اور چلے جاؤ یہاں سے"
مہاویر نے خود کو سنبھالنے میں دیر نہیں کی وہ اسے کوئی
مناسب جواب دینا چاہتا تھا کہ دروازے پر مدھولال
نمودار ہوا اور حیرت سے انہیں دیکھنے لگا
"مدھولال ! ۔۔۔" گردھر مدھولال کو دیکھتے چلایا
"اپنے چھوکرے کو باندھ کر رکھو اور اسے سمجھاؤ کہ
اس مندر کے پروہت کی شکتی کیا ہوتی ہے"
"بات کیا ہے؟" مدھولال نے حالات کو سنبھالنے کی خاطر بات بنانے کی کوشش کی شاید اسے بھی مندر کے تقدس کا
خیال آگیا تھا
"بات کجھ بھی ہو، تم اپنے بچھڑے کے گلے میں پٹہ ڈال کر
پالو ورنہ کسی دن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"نہیں گردھر مہراج یہ بات ٹھیک نہیں" مہاویر نے مدھولال
کو درمیان میں آنے سے روکنے کی خاطر گردھر کو مخاطب
کیا "بات ہمارے اور تمہارے بیچ ہے، گرو کو درمیان میں مت لاو۔ آپس میں کجھ لے دے کے فیصلہ کرلو، اسی میں تمہاری مکتی ہے"
"تو ۔۔۔۔۔۔ آخر چاہتا کیا ہے ؟" گردھر آپے سے باہر ہونے لگا
جبکہ چندر بھی حیرت سے کبھی مہاویر کی طرف دیکھتا
تو کبھی گردھر کی طرف دیکھ رہا تھا۔
"ایک چھوٹی سی بنتی ہے پروہت مہراج "
مہاویر زہر خند لہجے سے بولا " تم بجارن کلپنا کے چرن چھوکر دو شبدوں میں معافی مانگ لو
میں بھی تمہیں شما کردونگا
"مہاویر۔۔۔ تم باہر جا .... میں گردھر سے بات کرتا ہوں"
مدھولال نے کسی مصلحت کے پیش نظر اسے ہٹانا چاہا
"گرو جی آپ اس معاملے سے دور ہی رہیں تو آپ کی کرپا
ہوگی اگر یہ یہاں کا پروہت ہے تو میں بھی بالمپور کے مندر کا نگران اور پروہت ہوں میں اسے سکھاؤں گا کہ ایک پروہت کی کیا زمیداریاں ہوتی ہیں"
چندر اور کلپنا حیرت سے مہاویر کی طرف دیکھنے لگے
"رام رام ۔۔۔۔۔۔ رام رام " گردھر نے برا سا مونہ بنایا
میں پروہت ہوکر ایک پجارن کے چرنوں کو ہاتھ لگاؤں
مدھولال اپنے سیوک کو سمجھانے کی کوشش کرو ورنہ
بات بگڑ بھی سکتی ہے"
"گرو اب درمیان میں نہیں بولے گا" مہاویر نے گردھر سے کہا "میں تمہیں دو منٹ کی مہلت دے رہا ہوں
میری آگیا کا پالن کرلو تو تمہارے دھرم کا بھرم بچ جانے گا
ورنہ ۔۔۔۔۔ ۔"
گردھر بھڑک اٹھا اس نے تیزی سے مہاویر پر دوسرا وار کیا
آگ کے شعلے بھڑکتے ہوئے مہاویر کی جانب لپکے ۔۔ لیکن
وہ مہاویر کے جسم سے ٹکرا کر ٹھنڈے پڑگئے
اسے خود تعجب ہوا کہ آگ کے شعلے بے اثر کیسے ہوئے
اس کا حوصلا بڑھا اور اس نے گرج کر کہا
"اپنے دو منتروں کا انجام تونے دیکھ لیا اب اگر تم نے تیسرا
وار کیا تو وہ پلٹ کر تمہیں جلا کر بھسم کردے گا"
مدھولال اور گردھر کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی
کلپنا کی ہمت بڑھی اور وہ دوڑ کر چندر سے لپٹ گئی
اور مہاویر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
"مہاراج مجھے کوئی اچھا نہیں ہے کہ یہ پاپی میرے چرنوں کو چھوئے میں اسے شما کرتی ہوں اور بس یہاں سے
جانا چاہتی ہوں"
9 اقساط |
"چندر ۔۔۔۔ " مہاویر نے چندر کی طرف دیکھا
"تم کلپنا کو لے کر مندر سے نکل جاؤ تمہیں کوئی نہیں روکے گا"
چندر نے آگے بڑھ کر مہاویر کے قدم چھوئے اور ہاتھ باندھ
کر کہا "مجھے شما کردینا مہراج ۔۔ میں آپ کو نہ پہچان سکا تھا" اور پھر وہ تیزی سے کمرے سے نکل گیا
گردھر اپنے منتروں کی ناکامی اور شکار ہاتھ سے نکلنے پر
پیچ و تاب کھا رہا تھا
مدھولال بھی گہری سوچ میں غرق تھا اس کی نظریں
مہاویر کے وجود پر مچل رہی تھی وہ مہاویر کی قوت کا
تماشا دیکھ کر ششدر رہ گیا تھا
سامنے ایک قدرے بلند چبوترے پر کالی دیوی کا بھیانک بت
تھا جس کی خوفناک آنکھوں سے شعلے لپکتے محسوس
ہو رہے پتھر کا یہ بت صدیوں سے ابلیس کو خوش کرنے کے لئے حیوانی اور انسانی جانوں کا بلیدان لیتا آرہا ہے
مندر میں اگنی (آگ) منڈپ پر بیٹھے ہوئے کالی چرن نے منگلا سے کہا "بلیدان دینے کے لئے فوراً ایک کمسن لڑکے کا بندوست کرو کیونکہ کالی کو خوش کئے بغیر ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتے "
کالی چرن کا حکم سنتے ہی منگلا فورا غالب ہوگئی
چند لمحوں کے بعد جب وہ دوبارا نمودار ہوئی تو اس نے ایک کمسن لڑکے کو اٹھا رکھا تھا۔ لڑکے کی عمر تقریباً
پانچ برس کے قریب تھی اور وہ بے ہوش تھا۔
منگلا نے لڑکے کو بت کے قدموں میں ڈالا اور پھر اپنے لباس سے ایک تیز خنجر نکال کالی چرن کے حوالے کیا۔
کالی چرن خنجر لے کر اگے بڑھا اور بے ہوش پڑے لڑکے کے
قریب پہنچ کر ایک لمحے کے لئے ساکت کھڑا ہوگیا
منگلا بڑے غور سے اس کی حرکات و سکنات دیکھ رہی تھی
کالی چرن نے خنجر کو فضا میں بلند کیا اور پھر "جے کالی"
کا منحوس نعرا بلند کر کے بےہوش پڑے ہوئے لڑکے کی گردن
پر خنجر پھیر دیا۔
معصوم لڑکے کا جسم تڑپنے لگا اور اس کی گردن سے ابلنے والا خون بت کے چرنوں میں بہنے لگا
اس لمحے آسمان میں بجلی کڑکی
اور مندر سانپوں کی پھنکار سے گونج اٹھا
کالی چرن تیزی سے دوبارا اگنی منڈپ کے سامنے بیٹھ گیا
اور کوئی منتر پڑھنے لگا
"کیا چاہتا ہے ۔۔۔۔۔ اے خاکی انسان ۔۔۔"
ایک گرجدار اواز کمرے میں گونجی
ایک لمحے کے لئے وہ دونوں یہ آواز سن کر شدت خوف سے
لرز اٹھے مگر پھر کالی چرن ہمت کرکے بولا
"مہاراج میں ایک عجیب سمسیا میں پھنس گیا ہو
وہ کل کا چھوکرا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "
"ہم سب جانتے ہیں۔۔۔ مورکھ " وہ آواز دوبارا گونجی
"ایک بھیرون اس کی مدد ۔۔۔ " کالی چرن نے کجھ کہنا چاہا
"وہ کوئی بھیروں نہیں ہے " آواز کجھ اور تیز ہوگئی
"وہ جن زاد ہے اور ہمارے ہی بارہ قبیلوں میں سے ایک ہے
لیکن اس قبیلے نے ھم فرزندان ابلیسی سے بغاوت کی
اور ایک نیا دھرم اختیار کیا جیسے مسلمان کہتے ہیں
ان کا ماننا ہے کہ خدا نے اپنی کتاب میں جن و انس
دونوں کو مخاطب کر کے ھدایت دی ہے
اور وہ اس ہدایت پر عمل کریں گے
یہ قبیلہ ہم سے الگ ہوکر پوتر (پاک) جگہوں
اور نیک انسانوں کے ساتھ رہتا ہے
یہ انسانوں کے معاملات میں دخل نہیں دیتے
لیکن کبھی کبھی نیک لوگوں کی چپکے سےمدد کر دیتے ہیں
لیکن کبھی خود کو ظاہر نہیں کرتے"
کالی چرن اور منگلا حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور پھر کالی چرن بولا
"لیکن مہاراج ۔۔۔۔ مسلمان تو ہم ہندوؤں کو کافر اور پلید
کہتے ہیں پھر وہ مسلمان جن زاد ایک ہندو کی مدد کیوں
کر رہا ہے؟"
"یہ بات تو وہ جن زاد ہی بتا سکتا ہے ۔
لیکن ہمیں لگتا ہے کہیں نہ کہیں کوئی گوٹالا موجود ہے
پر اب تمہیں چنتا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے
یہ معاملہ ہم خود دیکھ رہے ہیں کیونکہ اس کہانی کا
اصل کردار وہ بالک نہیں ۔۔ بلکہ وہ جن زاد ہے
جو ہمارے ساتھ کوئی چال چل رہا ہے
اور اقا ابلیس کے بھگتوں کی مٹی پلید کرنے پر تلا ہو ہے"
مہاویر کا حوصلا بڑھ گیا
اس کا بھروسہ اور اعتماد اور بڑھ گیا کہ اس کے سر پر کوئی ہے جو اسی کی طرح سوچتا ہے اور دکھی انسانیت
کے لئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتا ہے
وہ اس کی رکشا کرتا ہے
اور اس بات کی اسے بہت خوشی تھی اور وہ اور زیادہ مضبوطی سے آگے قدم بڑھائے لگا۔
انسان میں اعتماد کی دولت ہو تو وہ بڑے بڑے کام آسانی
سے کرلیتا ہے اور وہ اعتماد میں نے مہاویر کو دے دیا تھا
وہ کسی بیمار پر ہاتھ رکھتا تو اسے شفا ملتی
وہ لوگوں کے لیے امید اور مسیحا بن نے لگا تھا
جوگی مدھولال اور پروہت گردھر بے چین تھے کیونکہ
جہاں ان کے علم کی انتہا ہوتی تھی اب وہاں مہاویر کا علم
شروع ہونے لگا تھا ان کے سیوک اور بھگت اب مہاویر کے
اردگرد منڈلانے لگے تھے
اور وہ دونوں زہر کے گھونٹ پینے پر اکتفا کر رہے تھے
جوگی مدھولال بظاہر تو خاموش تھا لیکن اس کے ذہن میں
مختلف خطرناک جال اور شکنجے تشکیل پارہے تھے
وہ یقیناً غور کر رہا تھا کہ کس وقت کون سا جال مہاویر
کے لئے زیادہ موثر ثابت ہوسکتا ہے
وہ پرانا پاپی اور تجربے کار کھلاڑی تھا ہواؤں کا رخ پہچانتا
تھا۔ مہاویر تو اس کے سامنے ایک بچا تھا
اور وہ اتنی آسانی سے ہار ماننے والوں میں سے نہ تھا
وہ بار بار مہاویر کے من میں چھانکنے کی کوشش کرتا
اور ہر بار اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا
یہی مایوسی اس کے عزم کو اندر ہی اندر اور پختہ کر رہی تھی وہ تنگ آکر یقیناً کوئی ایسا مضبوط جال پھینکنے
کی کوشش کرے گا جس کی رسیاں مہاویر نہ چھڑاسکے
یہ شیطانی دنیا بھی بڑی پراسرار ہوتی ہے
3 اقساط |
کیا معلوم کسی وقت بھی کیا ہوسکتا تھا
اس لئے میں مہاویر کی طرف سے کجھ فکر مند بھی تھا
کیونکہ میں اسے شیطانی قوتوں اور ان کے حملوں سے
تحفظ تو دے سکتا تھا
لیکن کسی انسان کے شر اور اس کے حملے سے محفوظ
نہیں رکھ سکتا تھا اور یہ میرے اختیار میں بھی نہیں تھا
اور آخرکار وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا
آج مندر میں عام لوگوں کا داخلہ بند کیا گیا تھا
کیونکہ ٹھاکر رنجیت سنگھ کا نوجوان بیٹا
مہاراجہ پرتاب سنگھ اپنی ماں کے ساتھ مندر میں درشن
کرنے آیا تھا مہاراجہ بائیس سال کا ایک خوبصورت نوجوان
تھا اس میں مہاراجوں جیسی خوبی نہ تھی
اس کے برخلاف وہ پجاریوں سے بڑی عقیدت اور احترام
سے گفتگو کر رہا تھا
"یہ مندر مہاراجہ پرتاب سنگھ کے دادا نے بنوایا تھا"
مدھولال نے مہاویر کے کان میں سرگوشی گی جو ان کے
استقبال کے لئے کھڑے تھے
"بڑی خوشی ہوئی آپ سے مل کر پنڈت جی"
مہاراجہ نے مہاویر سے گرم جوشی کے ساتھ ہاتھ ملاتے
ہوئے کہا "آپ کے بارے میں بہت کچھ سنا ہے
بھگوان آپ کی دعائیں سن لیتے ہیں
آپ کی کرپا سے گونگے بولنے لگتے ہیں
اور اندھوں کی آنکھوں کا نور لوٹ آتا ہے
"ارررے۔۔۔۔۔ نہیں مہاراج " مہاویر بوکھلا گیا کیونکہ کسی
مہاراجہ کے ساتھ گفتگو کرنے کا یہ اس کا پہلا تجربہ تھا
"سب کجھ بھگوان کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہے شکتی دے میں تو ایک عام منش ہوں"
مہاراجہ مسکرایا اور کہا " آپ اگر ہمیں یہاں کا مہاراجہ
سمجھتے ہی تو ہم آپ کو حکم دیتے ہیں کہ آج کے بعد
آپ ہمیں مہاراج نہیں بولیں گے بلکہ اپنا متر سمجھے گے
اور ایک متر کی حیثیت سے ہم آپ کو اس دیوالی پر
اپنے گھر بھوجن کی دعوت دیتے ہیں ۔ ویسے بھی پتا جی کی طبیعت خراب رہتی ہے اور ہوسکتا ہے
آپ کی کرپا سے انہیں شکتی ملے"
مہاویر حیرت سے مہاراجہ کی طرف دیکھنے لگا
پوجا سے فارغ ہوکر مہاراجہ اپنی ماں کے ساتھ ملکر
لوگوں میں تحائف تقسیم کرنے لگا
مہاویر اس کی شخصیت اور اس کی بے تکلف گفتگو
سے بہت متاثر ہوا
دیوالی تو آگئی تھی لیکن اس بار ھندو دھرم کے لوگوں کو اپنی چھتوں پر چراغاں کرنا مشکل ہو رہا تھا
کیونکہ بہت زور کی بارش شروع ہوگئی تھی
اور اسی بارش کی وجہ سے مہاویر نے مہاراجہ کی حویلی
جانے کا ارادہ بھی ملتوی کردیا تھا
اسی لمحے حویلی کی گاڑی مہاویر کو لینے کے لئے
مدھولال کے مکان کے سامنے رک گئی
مہاویر نے مدھولال کو بھی ساتھ چلنے کے لئے کہا
لیکن اس نے انکار کردیا کہ راجہ نے اسے دعوت نہیں دی
گاڑی مہاویر کو لیئے حویلی کی طرف روانہ ہوئی
بارش اب بھی زور شور سے جاری تھی
محل میں پہلی بار پہنچ کر مہاویر اس کی خوبصورت سجاوٹ پر حیران رہ گیا پھر وہ اپنے کپڑوں کی طرف دیکھنے لگا جو بارش اور کیچڑ کی وجہ سے خراب ہوگئے تھے مہاراجہ نے اس کی پریشانی کو بھانپ لیا
مہاراجہ نے اسے ایک مغربی طرز کے سجے ہوئے کمرے میں بٹھایا اس کے اشارے پر فورا ایک باوردی خانساماں نے مختلف قسم کے مشروب سامنے
سجا دیئے ۔ تھوڑی دیر بعد وہ مہاویر کو ساتھ لے کر ایک
دوسرے کمرے میں آیا اس میں بچھے ہوئے قیمتی
ایرانی قالین اتنے نرم تھے کہ مہاویر کے پیر دھنسے جارہے تھے ۔ کمرے میں بہت ہلکی سی روشنی تھی جو چھت پر
ٹنگے ہوجھاڑ کی جلتی ہوئی شمعوں سے ہورہی تھی
غسل خانہ کیا تھا عیش کدہ تھا۔ مہاویر جب عرق گلاب
ملے ہوئے پانی سے نہا کر اٹھا تو اس کا جسم مہک رہا تھا
جیسے ہی وہ باہر آیا تو ایک خوبصورت ملازمہ نے
مخمل کی طرح نرم تولیہ اس کے جسم پر ڈال کر رگڑنا
شروع کردیا مہاویر نے احتجاج بھی کیا لیکن اس نے جیسے
سنا ہی نہ ہو پھر اس نے مہاویر کو شاہی روایتی لباس پیش کیا جسے پہن کر وہ آئینے کے سامنے کھڑا ہوا تو حیرت سے
مسکرا دیا وہ بلکل شہزادہ لگ رہا تھا۔
ملازمہ نے اسے ساتھ آنے کا اشارہ کیا
لمبی راہداری سے گزر کر وہ جس کشادہ کمرے میں داخل
ہوا وہ ہر قسم کے فرنیچر سے خالی تھا
ایک کونے میں دیوار سے ملحق دبیز قالینوں پر گاؤ تکیے
سجے ہوئے تھے ملازمہ نے اسے قالین پر بٹھا کر ایک
گاؤ تکیہ اس کے پشت سے ٹکا دیا۔
سامنے کچھ فاصلے پر دودھ کی طرح سفید چاندنی بچھی
ہوئی تھی تھی ملازمہ اسے بٹھا کر چلی گئی
خالی کمرے میں مہاویر کو کچھ خوف سا محسوس ہورہا
تھا اور وہ حیران تھا کہ اسے کیا ہوگیا ہے
"کیسا لگا میرا محل؟" مہاراجہ نے کمرے میں داخل ہوتے
ہوئے کہا اور اس کے قریب ہی قالین پر بیٹھ گیا
"بہت ہی شاندار" مہاویر نے مسکرا کر کہا
مہاراجہ نے قہقہہ لگایا " میرے خیال سے اب کھانا کھالیا جائے
مہاراجہ کے اشارے پر ملازموں کی ایک قطار کھانوں کے
خوان لئے ہوئے اندر داخل ہوئی۔ سامنے رکھی ہوئی لکڑی کے
نیچے میز پر کھانے سجادئیے گئے کھانے اتنے انواع و اقسام
کے تھے کہ مہاویر حیرت اور سوالیہ نگاہوں سے راجہ کی
طرف دیکھنے لگا
"گھبراؤ نہیں " مہاراجہ نے اس کی پریشانی بھانپ لی
"ہم جانتے ہیں کہ آپ پنڈت لوگ ماس مچھی نہیں کھاتے
اس لئے یہ خاص طور پر آپ کے لئے راجستھانی بھاجیاں
بنائی گئی ہیں جن میں گوشت کا ذائقہ محسوس ہوتا ہے"
کھانوں کا مزا مہاویر کے لیے نیا تھا اور کھانے کے بعد پھلوں
کے جوس اور مشروب جسے پینے کے بعد مہاویر پر جیسے
غنودگی طاری ہونے لگی
اور پھر ریشمی پردوں کے پیچھے پوشیدہ کمرے سے
طبلے سارنگی کی موسیقی فضا میں ابھری
"رقص تو آپ نے اپنے مندروں میں بھی دیکھا ہوگا"
مہاراجہ نے معنی خیز مسکراہٹ سے کہا
"اور یقیناً یہاں پر اس رقص کا لطف دوبالا ہو جائے گا"
کمرے کے پیچھے سے نمودار ہونے والی دو رقاصائیں
بڑی کم عمر تھیں ان کی عمر کوئی سولا یا سترہ برس کی تھی لیکن ان دونوں کے جسم بے حد لچکدار اور سڈول تھے
5 اقساط |
اور چہرا مخصوص میک اپ کے باوجود دلکش تھا
مہاویر کے لیے ان کا رقص بلکل نیا تھا
رقاصاؤں کے ہاتھوں کے اشارے ان کی ہلتی ہوئی گردن
ان کا تھرکتا ہوا جسم سب کچھ اس کی سمجھ سے باہر
تھا ان کی ہر جنبش میں ایک اشارہ اور پیغام تھا
مہاراجہ مہاویر کو محفوظ ہوتے ہوئے دیکھ کر مسکرایا
"آپ کو ان دونوں میں سے کون سی پسند ہے؟"
"دونوں ہی خوبصورت ہیں" مہاویر مسکرا کر جواب دیا
"آپ کے لئے حاضر کردیں جائیں گی" مہاراجہ نے کہا
اور اگر آپ چاہیں تو آپ کے لئے محل میں
انتظام کردیا جائے گا"
"ارے نہیں ۔۔۔۔۔" مہاویر کا چہرا شرم سے سرخ ہوگیا
میرا یہ مقصد نہیں تھا"
"ارے گھبراؤ نہیں پنڈت جی, یہ ہماری ریاست ہے
اور ہم اپنی ریاست میں اپنے دوستوں کا پورا خیال رکھتے ہیں' پھر اس نے مشروب کا گلاس مہاویر کی طرف بڑھایا
مہاویر کو اپنا سر چکراتا ہوا محسوس ہورہا تھا
کیونکہ کے وہ زیادہ پی گیا تھا اور ان مشروبات میں نشہ تھا لیکن اس کی نگاہیں ایک رقاصہ پر مرکوز تھیں
جس کا خوبصورت جسم آب بجلی کی طرح تھرک رہا تھا
اور وہ چھومتی ہوئی بار بار مہاویر سے آنکھیں ملا رہی تھی جیسے مہاویر کو کوئی پیغام دے رہی ہو
مہاویر نے چونک کر مہاراجہ کی طرف دیکھا جو
معنی خیز انداز میں مسکرایا اور ایک رقاصہ کو اپنے ساتھ لیکر کمرے سے نکل گیا ۔۔ کیونکہ
وہ ان دونوں کو تنہائی کا موقع دینا چاہتا تھا
مہاویر نے بے خودی کے عالم میں رقاصہ کی طرف دیکھا
اس کے جسم میں جسے کسی نے آگ لگادی تھی
شراب کے نشے میں وہ بھول گیا کہ وہ کون ہے
اس کی زندگی کے کیا اصول ہیں
اب اسے صرف یہ یاد تھا کہ یہ نوکیز کلی مہاراجہ کی
طرف سے میرے لئے لئے حسین تحفہ ہے
جو مجھے سویکار کرنا ہے
یہ مہاراجہ بھی کسی دیوتا سے کم نہیں ہے
جس نے میرے من کی بات جان لی
اور میرے برسوں کی پیاس بجھانے کا بندوست کردیا
اور پھر دیوار پر دو جسموں کے سائے بنتے اور بگڑتے رہے
دوسری طرف ابلیس کے چیلوں میں جشن کا سماں تھا
کیونکہ وہ مہاویر کو سوئر کے گوشت، شراب اور زنا
جیسے گناہوں سے پلید کرکے اسے میرے حسار سے
نکالنے میں کامیاب ہوچکے تھے۔
اور میں ، جو مہاویر کو یہاں سے نکالنے اور اسے اس کا
اصل مقام دلانے کا سپنا دیکھا تھا وہ ٹوٹ چکا تھا
اب اس کے اور میرے راستے اب جدا کردیے گئے تھے
مہاویر کی حالت پر مجھے رحم بھی آرہا تھا تو
اس پر غصہ بھی آرہا تھا۔
تمام اردو کہانیاں پڑھنے کے لیے ہیاں کلک کریں
پنڈت اور جنات اردو کہانی - پارٹ 4
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
0 تبصرے