سیاہ رات ایک سچی کہانی - پانچواں حصہ

 

سیاہ رات ایک سچی کہانی - پانچواں حصہ

الارم کی آواز سے روحان اور عنائزہ دونوں کی آنکھیں کھلیں،،،
روحان کو اپنا سینہ بھاری محسوس ہوا تو اس کی نظر عنائزہ پر پڑی،،،
عنائزہ نے ایک ہاتھ سے آنکھیں مسلتے ہوئے اپنا چہرہ اوپر اٹھایا،،،
اس کا ہاتھ روحان کے دل کے مقام پر تھا، اس کے دھک دھک کرتے دل کو وہ محسوس کر سکتی،،،

روحان لمبے لمبے سانس لیتا اس کی طرف دیکھ رہا تھا اس کی آنکھوں میں ڈر تو رہا تھا مگر اس بار وہ عنائزہ کے وجود سے دور نہیں بھاگا تھا،،،
عنائزہ اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگی،،،
روحان کے بکھرے بال اس کے ماتھے اور کن پٹیوں پر آرہے تھے، خوف سے سبز خوبصورت آنکھیں مزید بڑی لگ رہی تھیں، سرخ نرم لب اور بے داغ شفاف چہرہ،،،
عنائزہ بے خودی میں اس پر جھکی، اس کے ہونٹ ابھی روحان کے ہونٹوں کو چھوئے ہی تھے کہ روحان نے اسے کندھے سے پکڑ کر پیچھے کیا اور تیزی سے اٹھ کر واش روم میں گھس گیا،،،
عنائزہ کو اس کی یہ حرکت بہت بری لگی وہ اپنے غصے کو کنٹرول کرنے لگی،،،


دوپہر کے وقت عنائزہ لاؤنج میں صوفے پر بیٹھی ٹی وی کے چینل چینج کر رہی تھی جب عقیلہ آئی،،،
بیگم صاحبہ آج شام کھانے میں کیا بناؤں،،،
عنائزہ نے اس کی طرف دیکھا اور کسی سوچ میں گم ہو گئی،،،
کیا سوچ رہی ہیں بیگم صاحبہ،،،
ہاں۔۔ کچھ نہیں بس ایسے ہی،،،
تو پھر کیا بناؤں،،، اس نے سوال دوہرایا
جو مرضی بنا لو،،، عنائزہ بے زاری سے بولی
جی اچھا،،، عقیلہ جانے کے لیے مڑی
سنو،،،

جی بیگم صاحبہ،،،
تم خود اور اپنے شوہر کے لیے بنا لینا میں اور روحان آج باہر ڈنر کریں گے،،،
بیگم صاحبہ،،، عقیلہ پریشان ہوئی
ہاں اب جاؤ،،، عنائزہ نے پھر سے ٹی وی کا رخ کیا
عقیلہ پریشان سی وہاں سے چل دی،،،


روحان،،،
روحان بیڈ پر بیٹھا میگزین پڑھ رہا تھا جب عنائزہ کمرے میں داخل ہوئی،،،
روحان نے ترچھی نظروں سے اس کی طرف دیکھا،،،
وہ میں کہہ رہی تھی کہ جب سے ہماری شادی ہوئی ہے ہم ایک بار بھی باہر گھومنے نہیں گئے نہ ہی کہیں ڈنر کیا ہے،،، اس نے اداس سا منہ بنایا
روحان نے اس کی بات سن کر مگزین پر چہرہ جھکا لیا،،،
آج ہم کہیں ڈنر کرنے چلیں پلیز،،، عنائزہ اس کے قریب آئی
روحان پیچھے کو کھسک کر بیٹھا اور پھر سے میگزین میں سر جھکا لیا،،،
عنائزہ کو غصہ آیا اس نے روحان کے ہاتھ سے میگزین کھینچ کر دور کونے میں پھینک دی،،،
روحان اس کے اچانک عمل پر ڈر کر تھوڑا اور پیچھے کھسکا،،،
کیوں ڈتے ہو ہاں،،، وہ اس پر جھک کر بولی
روحان آنکھیں کھولے اسے دیکھتا رہا،،،
کچھ دیر اسے یوں ہی دیکھتے رہنے کے بعد عنائزہ عنائزہ پیچھے ہٹی،،،
قصور تمہارا نہیں قصور میرا ہی ہے جو تم سے کوئی امید لگا لی میں نے،،، وہ کہتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی
اس کے جانے کے بعد روحان کی آنکھوں سے آنسو پھسلنے لگے اگر اسے یہ بیماری تھی تو اس میں اس کا کیا قصور تھا،،،


شام کے سات بج رہے تھے عنائزہ کا موڈ پوری طرح خراب ہو چکا تھا وہ اپنے کمرے سے ڈائری اٹھا لائی اور گیسٹ روم میں آکر صوفے پر بیٹھ گئی،،،
ماضی
وہ شخص بے حس و حرکت اپنی جگہ پر جم کر کھڑا تھا ان سب کو ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ سانس تک نہ لے رہا ہو،،،
چ۔۔چچی جان اس شخص سے مجھے بہت ڈ۔۔ڈر لگتا ہے اسے م۔۔میں نے پہلے بھی دیکھا ہے،،، مریم رونے لگی تھی
دردانہ بیگم خود خوفزدہ ہو رہیں تھیں انہوں نے ورد پڑھنا شروع کر دیا،،،
ارسم تم جلدی گاڑی میں آکر بیٹھو،،، ارسم کھڑا اس شخص کو دیکھ رہا تھا تو دردانہ بیگم بولیں
اچانک ایک زور دار آواز سے شیشہ ٹوٹا اور گاڑی کے اندر اسکی کرچیاں بکھر گئیں،،،

مریم کی چینخیں فضا میں بلند ہونے لگیں،،،
ارسم کی نظریں گاڑی کے پار کھڑے شخص کی طرف اٹھیں وہ حیرت زدہ اسے دیکھتا ہی رہ گیا،،،
شیشہ توڑنے والا شخص ہاتھ میں کلہاڑی لیے کھڑا تھا اس کا حلیہ بلکل ویسا ہی تھا جیسا پیڑ کے پاس کھڑے شخص کا تھا، بلیک پینٹ کوٹ سر پر بلیک ہڈی لیے اس کے صرف ہونٹ ہی دکھائی دے رہے تھے،،،
ارسم،،، ارسم،،،
مریم اور دردانہ بیگم بے ساختہ چینخ رہی تھیں،،،
ارسم نے پیڑ کے پاس کھڑے شخص کو دیکھا وہ ابھی تک اپنی جگہ پر جما ہوا تھا،،،
ارسم اس کی طرف دیکھ ہی رہا تھا جب اس کے سر میں کسی نے پوری قوت سے کوئی چیز ماری،،،
آہ،،، ارسم کی چینخ سناٹے میں گونج اٹھی، مریم نے تیزی سے اس کی طرف دیکھا،،،

ارسم،،، وہ چلائی تھی
ارسم لہو لہان سر کے ساتھ زمین پر گرا اس نے اپنے سر کی طرف کھڑے ہاتھ میں کلہاڑی لیے شخص کو دیکھا تو وہ بھی بلکل ویسے ہی دکھتا تھا جیسے باقی دونوں شخص،،،
پیڑ کے پاس کھڑا شخص اپنے قدم اٹھاتا ہوا گاڑی کے طرف بڑھنے لگا
ارسم،،، مریم چینختی ہوئی گاڑی سے باہر نکلی اس کے پیچھے دردانہ بیگم بھی روتی چلاتی ہوئیں باہر نکل کر ارسم کی طرف بھاگیں،،،
ارسم۔۔۔ روتی ہوئی مریم نے ابھی اسے چھوا بھی نہ تھا جب اس شخص نے مریم کو بازو سے پکڑ کے اپنی طرف کھینچا،،،
چھوڑو مجھے،،، مریم چلانے لگی

دردانہ بیگم مریم کو اس شخص کی گرفت میں دیکھ کر اس کی طرف لپکنے لگیں جب گاڑی کے پاس کھڑے شخص نے ان کا سر پکڑ کر گاڑی میں دے مارا،،،
مریم،،، ایک آواز کے ساتھ دردانہ بیگم زمین بوس ہو گئیں،،،
مریم نے ان کی آواز پر پیچھے مڑ کر دیکھا تو دردانہ بیگم بے ہوش پڑی تھیں،،،
چچی جان،،، مریم نے روتے ہوئے ان کی طرف ہاتھ بڑھا کر اونچی آواز میں کہا مگر اس شخص کو مریم پر ذرا برابر رحم نہ آیا وہ بے دردی سے اسے کھینچ رہا تھا،،،

ارسم۔۔۔ چچی جان،،، مریم پیچھے رخ کیے ابھی بھی انہیں دیکھ رہی تھی
ارسم کے سر سے نکلتا خون سڑک بھیگونے لگا وہ ساکت نظروں سے مریم کی طرف دیکھ رہا تھا اس میں حرکت کرنے کی زرا برابر ہمت نہ تھی، درد کو برداشت نہ کرتے ہوئے اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں اور ہوش کی دنیا سے غافل ہو گیا،،،
چھوڑو مجھے کون ہو تم،،، وہ اجڑی ہوئی دلہن کے روپ میں مسلسل چلا رہی تھی مگر اس شخص نے تو جیسے کان ہی بند کر لیے تھے،،،
میں کہتی ہوں چھوڑو مجھے ظالم انسان،،، وہ پھر سے چلائی
وہ شخص ایک پل کے لیے رکا تو مریم کے پاؤں بھی تھم گئے،،،
اس نے اپنا رخ مریم کی طرف کیا خوف سے مریم کا جسم کانپ رہا تھا،،،
وہ مریم کے بلکل قریب آکر کھڑا ہوا،،،
م۔۔مجھے جانے دو پلیز،،، وہ گڑگڑانے لگی
اس شخص نے اچانک مریم کو اپنی بانہوں میں بھرا اور پھر سے اپنے راستے کا رخ کیا،،،

مریم مسلسل رو رہی تھی آج ہی اس کی شادی ہوئی تھی اس کی شادی کی رات اتنی بھیانک ہو گی اس نے سوچا نہ تھا،،،
ارسم۔۔۔ اس نے روتے ہوئے ارسم کا نام لیا
شششششش،،، اس شخص نے رک کر سرگوشی کی جیسے اسے مریم کے منہ سے یہ نام بھایا نہ ہو،،،
خوف سے مریم کی آواز بند ہوئی چاندنی رات میں مریم کو اس کے صرف ہونٹ ہی دکھائی دے رہے تھے باقی چہرہ ہڈی سے ڈھانپا ہوا تھا،،،
مریم کے خاموش ہونے پر اس شخص کے ہونٹ مسکرائے،،،
مریم کو اسے دیکھ کر وحشت ہونے لگی،،،
مریم کی نظر اچانک پیچھے کی جانب اٹھی تو وہ دونوں شخص جو اسی شخص کی مانند دکھتے تھے ہاتھوں میں کلہاڑیاں لیے پیچھے پیچھے چل رہے تھے،،،
مریم کو اپنا سانس بند ہوتا ہوا محسوس ہونے لگا آخر کون تھے یہ لوگ اور اس سے کیا چاہتے تھے،،،

ان کے ہاتھ میں کلہاڑیاں دیکھے مریم کے ذہن میں ارسم کا لہو لہان وجود گردش کرنے لگا،،،
اس کی سسکیاں پھر سے جاری ہوئیں مگر وہ شخص نہایت آرام سے اپنی منزل کی طرف بڑھ رہا تھا،،،
دوسری سڑک پر آکر پچھلے شخص نے سڑک پر کھڑی گاڑی جیپ کا دروازہ کھولا اور وہ شخص جس نے مریم کو اٹھایا ہوا تھا نرمی سے مریم کو گاڑی میں بیٹھا کر خود اس کے پاس بیٹھا،،،
م۔۔مجھے جانے دو،،، مریم گڑگڑائی اس کا کاجل بکھر کر آنسوؤں کے ساتھ اس کے رخساروں پر پھیل چکا تھا،،،
اس شخص نے مریم کی طرف دیکھا اور اس کے ہونٹوں پہ سجی سرخ لپ سٹک کو بے دردی سے مسل کر بکھیر دیا،،،
مریم اس خوف کو برداشت نہ کر سکی اور اس شخص کے بازوؤں میں جھول گئی،،،


مریم کو جب ہوش آیا وہ زمین پر لیٹی ہوئی تھی، اس نے اپنے ایک ہاتھ سے اپنے چکراتے سر کو پکڑا دوسرے ہاتھ کے سہارے سے اٹھ کر بیٹھی،،،
خود کو سمبھالتے ہوئے اس نے کمرے میں نظر دوڑائی، وہ ایک بڑے سے کمرے میں موجود تھی،،،
اس نے آس پاس دیواروں پر دیکھا تو اس کے خوف میں اضافہ ہوا،،،
دیوار پر سیاہ رنگ سے کی گئی پینٹنگ انہی شخص میں سے ایک شخص کی تھی جو مریم کو یہاں لے کر آئے تھے، ایک جیسی مشابہت رکھنے کی وجہ سے وہ پہچان نہ پائی کہ یہ کونسا والا شخص ہے،،،
باقی دو دیوایں سیاہ رنگ سے بھری ہوئی تھیں،،، مریم لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے اٹھی اس کی ہلکی ہلکی سسکیاں کمرے میں گونج رہی تھیں،،،
وہ چلتے ہوئے اس بڑے سے کمرے کے درمیان میں آکر کھڑی ہوئی، اسے یوں احساس ہوا جیسے اس کے پیچھے کوئی کھڑا ہو،،،
اس نے خوف سے اپنے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس کے پاؤں تلے سے زمین نکلی،،،
وہی سیاہ لباس والا شخص مریم کی طرف رخ کیے ساکت کھڑا تھا،،،
مریم کے منہ سے بے ساختہ چینخ نکلی،،،
شششش۔۔۔ اس شخص نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے سرگوشی کی،،،
مریم کا وجود لرزنے لگا اس نے اپنے منہ پر سختی سے ہاتھ رکھ لیا،،،
وہ شخص چہرے پر ہڈی لیے کھڑا تھا آنکھیں ڈھکی ہونے کے باوجود وہ مریم کو جیسے دیکھ رہا تھا اس کی حرکات کو نوٹ کر رہا تھا،،،
مریم کو لگا جیسے وہ انسان نہیں کوئی جن یا کوئی سایہ ہو،،،
ک۔۔کون،،،

وہ خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتی بمشکل بول پائی،،،
ٹک۔۔
ٹک۔۔
ٹک۔۔
وہ ایک ایک قدم اٹھاتا ہوا اس کے قریب آرہا تھا اس کے قدموں کی آواز اس بند کمرے میں گونج رہی تھی،،،
مریم ایک ایک قدم پیچھے کی طرف اٹھانے لگی خوف سے اسکی سبز آنکھوں میں لالگی آ چکی تھی،،،
مریم دیوار کے ساتھ لگی اس نے بے ساختہ اپنے پیچھے دیوار کی طرف دیکھا اور جب سامنے دیکھا تو وہ شخص بلکل اس کے قریب کھڑا تھا اتنا کہ اس کی گرم سانسیں مریم اپنے چہرے پر محسوس کر رہی تھی،،،
میرّی "Merry"
اس کی سرگوشی پر مریم نے اپنی آنکھیں سختی سے بھینچ لیں،،،


کمرے کا دروازہ کھلنے پر عنائزہ نے تیزی سے ڈائری کو اپنے پیچھے چھپایا،،،
کمرے میں روحان داخل ہوا تھا عنائزہ منہ کھولے حیرت سے اسے دیکھنے لگی آج وہ پہلی بار خود اس کے پاس آیا تھا،،،
وحان سبز آنکھیں جھکائے دروازے کے پاس کھڑا ہو گیا اس کا رخ عنائزہ کی طرف تھا،،،
کیسے آنا ہوا،،، وہ بے رخی سے بولی
ر۔۔ریسٹورنٹ چلیں،،، وہ نظریں جھکائے بمشکل بولا تھا اپنے دھڑکتے دل کو وہ کیسے قابو کر رہا تھا یہ صرف وہی جانتا تھا
عنائزہ کو لگا وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہے،،،
کیا واقع ہی تم سچ کہہ رہے ہو،،، وہ خوشی سے صوفے سے اٹھ گئی
روحان نے سہمی ہوئی نظریں اٹھا کر عنائزہ کی چمکتی آنکھوں کو دیکھا اسے وہ آنکھیں بہت دلکش لگ رہی تھیں،،،
بتاؤ نا کیا تم سچ کہہ رہے ہو،،، وہ چکمتی آنکھوں سے اسے دیکھتی ہوئی اس کے قریب آئی
روحان کا دل پہلے سے بھی تیز دھڑکنے لگا مگر اپنے ڈر پر قابو پاتے ہوئے وہ اس بار پیچھے نہیں ہٹا تھا اور وہیں کھڑا رہا،،،
ہاں،،، اس نے عنائزہ کی طرف دیکھے بغیر کہا
تھینک یو سو مچ میں آج بہت خوش ہوں،،، عنائزہ نے ہنستے ہوئے روحان کے گال کھینچے اور گیسٹ روم سے باہر نکل گئی،،،
روحان منہ بسورتے ہوئے جاتی ہوئی عنائزہ کو دیکھنے لگا،،،
ہوں میں کوئی بچہ تھوڑی ہوں،،، اس نے ناراضگی سے چہرہ ایک طرف جھٹکا


عنائزہ سرخ رنگ کی پاؤں تک آتی لانگ فراک پہنے کمرے سے باہر نکلی، اس نے سیاہ چادر اپنے کندھوں کے گرد لپیٹی ہوئی تھی،،،
روحان لاؤنج میں بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا جب اس کی نظر سیڑھیاں اترتی عنائزہ پر پڑی،،،
وہ پہلی بار عنائزہ کو پلکیں جھپکے بغیر دیکھ رہا تھا آج وہ اسے معمول سے زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی،،،
عنائزہ اس کے پاس آکر کھڑی ہوئی اس نے نوٹ کر لیا تھا کہ روحان اسے کس طرح دیکھ رہا ہے،،،
چلیں، اس نے روحان کے قریب آکر کہا
ہمم،، روحان اتنا ہی بول پایا اور باہر کی جانب چلنے لگا،،،
عقیلہ کچن سے باہر نکل رہی تھی جب اس کی نظر روحان اور اس کے ساتھ سجی سنوری عنائزہ پر پڑی،،،
عقیلہ حیرت سے روحان کو آرام سے اس کے ساتھ جاتا ہوا دیکھ کر حیران ہوئی،،،
اس کے چہرے پر حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات تھے اس نے دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا اور روحان کی حفاظت کی دعا کرنے لگی،،،
کچھ دنوں سے سنو فالنگ بھی بند تھی مگر رات کے وقت ہلکی ہلکی شروع ہو جاتی،،،

اس وقت رات کے نو بج رہے تھے جس وجہ سے سنو فالنگ ابھی شروع ہی ہوئی تھی،،،
روحان اور عنائزہ گاڑی کے پاس آکر کھڑے ہوئے،،،
عنائزہ ڈرائیونگ سیٹ کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھنے لگی جب اس نے پریشان چہرے کے ساتھ کھڑے روحان کو دیکھا،،،
کیا ہوا بیٹھ کیوں نہیں رہے،،،
وہ مجھے ڈرائیونگ نہیں آتی،،، روحان یہ کہہ کر مزید پریشان ہونے لگا
کیا،،، عنائزہ کا حیرت سے منہ کھولا
روحان نے شرمندگی سے چہرہ جھکا لیا،،،
اچھا تم ادھر آکر بیٹھو،،، وہ کہتی ہوئی خود ڈرائیونگ سیٹ کی طرف بڑھ گئی
روحان خاموشی سے چلتے ہوئے سیٹ پر آکر بیٹھا،،،
عنائزہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی اور گاڑی گیٹ سے باہر نکالی،،،
مجھے تو یہاں کے ریسٹورنٹس کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تم بتاو کہاں جانا ہے،،، عنائزہ نے گاڑی میں ڈیرہ جمائی ہوئی خاموشی کو توڑا
میں کبھی باہر نہیں گیا،،، روحان نے کہہ کر کھڑکی سے باہر دیکھا
عنائزہ کے لیے یہ دوسرا جھٹکا تھا، وہ آنکھیں کھولے اسے دیکھنے لگی مگر روحان نے اس کی طرف رخ نہ کیا،،،

چلیں پھر مارکیٹ چلتے ہیں ریسٹورنٹ کا بھی پتہ چل ہی جائے گا،،،
چونکہ روحان کا گھر شہر سے کچھ فاصلے پر تھا جہاں آس پاس جنگل تھا اور دور دور تک کوئی گھر نہ تھا،،،
دردانہ بیگم نے یہ گھر صرف روحان کے لیے خریدا تھا تا کہ یہاں سے لوگوں کا گزر نہ ہو اور اس سے روحان پر سکون رہے گا،،،
گاڑی جیسے ہی آبادی میں داخل ہوئی روحان کی طبیعت بگڑنی شروع ہو گئی مگر وہ یہ بات عنائزہ کو شو نہیں کرنا چاہتا تھا،،،
عنائزہ نے ایک ریسٹورنٹ کے آگے گاڑی روکی،،،
چلیں، وہ روحان کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولی
روحان نے مثبت میں سر ہلایا اور وہ دونوں گاڑی سے باہر نکلے،،،
ریسٹورنٹ میں داخل ہوتے ہی روحان کو لگا جیسے سبھی لوگ اس کی طرف دیکھ رہے ہوں، وہ مزید گھبرانے لگا،،،
اوہ میں اپنا موبائل گاڑی میں بھول آئی ہوں تم رکو میں ابھی لے کر آئی،،،
عنائزہ باہر کے گیٹ کی طرف بڑھ گئی جب تین لڑکے ریسٹورنٹ سے باہر نکلتے ہوئے روحان کے پاس آکر رکے،،،

Look at him what a handsome boy he is.
ایک لڑکے نے روحان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ،،،
He is really so handsome that my intension is getting worse. (واقعی یہ تو اتنا خوبصورت ہے کہ میری نیت خراب ہو رہی ہے)
دوسرے لڑکے نے کہا تو تینوں نے قہقہ لگایا،،،
روحان کا جسم کانپنے لگا وہ یہاں سے بھاگ جانا چاہتا تھا اس نے ایک نظر باہر کے دروازے کی طرف دیکھا کہ کب عنائزہ آئے گی،،،
Why are you so scared we won't eat you tasty boy,
ایک لڑکا روحان کے قریب آکر بولا،،،
come with us and you will forget to be afraid.
اس نے روحان کے کان میں کہا،،،
روحان باہر کی طرف بھاگا اور وہ لڑکے بھی اس کے پیچھے بھاگ پڑے،،،
روحان بھاگتا ہوا گاڑی کے پاس آرہا تھا جب وہ عنائزہ سے ٹکرا گیا،،،
روحان کا پورا جسم کانپ رہا تھا عنائزہ کو اس کی حالت دیکھ کر جھٹکا لگا،،،
روحان کیا ہوا،،،

و۔۔وہ،، روحان نے ان لڑکوں کی طرف اشارہ کیا جو بھاگتے ہوئے روحان اور عنائزہ کے قریب آکر کھڑے ہو گئے تھے،،،
Who are you guys?
عنائزہ نے انہیں گھورتے ہوئے پوچھا
Hey give this boy to us.
ان میں سے ایک نے کہا،
Why do you look like his father?
عنائزہ نے غصے سے کہا،
Listen to us quickly, otherwise the outcome will not be good.
اس لڑکے نے جیکٹ کے اندر سے گن نکالی،
عنائزہ نے روحان کا کپکپاتا ہوا ہاتھ مظبوتی سے تھاما، روحان نے سہمی ہوئی نظروں سے عنائزہ کی طرف دیکھا اور اس کے ہاتھ میں اپنے ہاتھ کی گرفت سخت کی،،،
Now give this boy to us.
اس لڑکے نے اپنی بات دوہرائی،
روحان بھاگو،،،

عنائزہ اس کا ہاتھ پکڑے ریسٹورنٹ کی طرف بھاگنے لگی تو روحان بھی اس کے ساتھ بھاگنے لگا،،،
Security security help us,,
وہ اونچی آواز میں چلا رہی تھی،،،
عنائزہ کے اچانک عمل پر ان لڑکوں کو سمجھ نہ آیا کہ یہ کیا ہو گیا اور وہ کھڑے ان دونوں کو بھاگتے ہوئے دیکھتے رہے،،،
ریسٹورنٹ کے باہر موجود سیکیورٹی فوراً ان کی طرف بڑھی،،،
سیکیورٹی کو دیکھ کر وہ لڑکے بھاگے اور منٹوں میں ہی ہوا ہو گئے ،،،
روحان لمبے لمبے سانس لینے لگا اس کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں اگلے ہی پل وہ زمین پر گر گیا،،،
روحان،،،
عنائزہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس کا چہرہ تھپتھپانے لگی،،،
روحان آنکھیں بند نہیں کرنا پلیز ہ۔۔ہم ابھی گھر چلتے ہیں ہاں سب ٹھیک ہو جائے گا،،، اس کو شدید پچھتاوا ہو رہا تھا روحان کو باہر لا کر
اس نے سیکیورٹی گارڈ کی مدد سے روحان کو گاڑی میں لیٹایا اور گاڑی سٹارٹ کی،،،

فل سپیڈ سے ڈرائیو کرتے ہوئے پندرہ منٹ بعد گاڑی گھر کے سامنے رکی،،،
شفیق نے گیٹ کھولا،،،
جلدی ادھر آؤ روحان کو اٹھا کے کمرے تک چھوڑو،،، عنائزہ گاڑی سے باہر نکل کر بولی
کیا ہوا روحان بابا کو،،، شفیق بھاگتا ہوا گاڑی کے پاس آیا
سوال جواب نہیں کرو روحان کو کمرے تک پہنچاؤ،،،
شفیق نے روحان کو اٹھایا اور گھر کے اندر داخل ہوا،،،
عنائزہ گاڑی پارک کر کے تیز قدموں سے گھر کے اندرونی حصے میں داخل ہوئی،،،
وہ کمرے میں پہنچی تو شفیق کے ساتھ عقیلہ بھی کمرے میں موجود تھی،،،
بیگم صاحبہ میں نے آپ کو روکا بھی تھا مگر آپ نہیں رکیں اب نتیجہ دیکھ لیا نا کیا حالت ہو گئی ہے روحان بابا کی،،، عقیلہ کی آنکھیں بھر آئیں
عنائزہ کو اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہو رہا تھا وہ اپنی ذات کے لیے روحان کی ذات کو تکلیف پہنچا چکی تھی،،،
عنائزہ روحان کی طرف بیڈ پر آکر بیٹھی اور دراز کھول کر فوبیا کی ٹیبلیٹس نکالنے لگی،،،

روحان کا جسم ابھی تک کانپ رہا تھا اتنی ٹھنڈ کے باوجود اس کی کن پٹیاں پسینے سے بھیگ چکی تھیں،،،
عنائزہ نے اسے ٹیبلیٹس کھلائیں،،،
عقیلہ اور شفیق کمرے سے باہر نکل گئے،،،
عنائزہ بیڈ کے دوسری سائیڈ پر آکر لیٹی اس کا رخ روحان کی طرف تھا،،،
ٹیبلیٹس کے زیرِ اثر روحان پر سکون طاری ہونے لگا،،،
آئم سوری روحان،،،
آئندہ کبھی کسی بات کے لیے تنگ نہیں کروں گی،،، عنائزہ نے دکھی لہجے سے کہا
روحان نے اس کی بات کا جواب نہ دیا اور خاموشی سے لیٹا رہا،،،
عنائزہ روحان کی طرف کمر کر کے لیٹی آنسوؤں کی لڑیاں اس کی آنکھوں سے بہنے لگیں،،،
کیا رشتہ تھا یہ جس میں نہ محبت تھی نہ کوئی خوشی،،،
کیسے گزار پائے گی وہ اپنی تمام عمر اس برائے نام رشتے کے ساتھ،،،
یہ سوچ آتے ہی وہ اپنی سسکیوں کو دبانے کی پوری کوشش کر رہی تھی لیکن پھر بھی روحان کو معلوم ہو گیا کہ وہ رو رہی ہے،،،
دل کی تکلیف کو برداشت نہ کرتے ہوئے روحان کے آنسو بھی گال بھیگونے لگے،،،
کیا تھا وہ،،،

کیا مقصد تھا اس کا اس دنیا میں،،،
نہ وہ عنائزہ سے محبت کر سکتا تھا،،،
نہ وہ اس کی خواہشوں کو پورا کر سکتا تھا،،،
شاید وہ کبھی ایک اچھا شوہر ثابت نہ ہو پائے گا،،،
یہ سب سوچ سوچ کر روحان کے تکلیف زدہ دل میں مزید ٹیسیں اٹھنے لگیں،،،


رات لیٹ تک جاگنے کے سبب وہ دونوں صبح دیر سے اٹھے تھے،،،
ان دونوں کی آنکھوں کا حال رات کی حالت بیان کر رہا تھا مگر دونوں نے ہی ایک بار بھی ایک دوسرے سے نظریں نہ ملائی تھیں،،،
دوپہر کا وقت تھا عنائزہ بار بار اپنے پاپا کو کال ملا رہی تھی مگر آگے سے کوئی جواب موصول نہیں ہو رہا تھا،،،
وہ پریشان ہونے لگی آخر اپنی مرضی کی جگہ بیاہنے کے بعد بھی اب کیا وجہ تھی جو اس کے پاپا نے اس سے ایک بار بھی رابطہ نہ کیا،،،
عنائزہ کو اچانک ڈائری کا یاد آیا،،،
اوہ وہ تو میں کل رات گیسٹ روم میں ہی بھول آئی تھی،،، خود کلامی کرتے ہوئے وہ جلدی سے اٹھی اور گیسٹ روم میں پہنچی
ڈائری ابھی بھی صوفے پر ہی پڑی تھی عنائزہ نے شکر ادا کیا کہ ڈائری عقیلہ یا شفیق کے ہاتھ نہیں لگی،،،
اس نے بیٹھ کر ڈائری کھولی وہ اسی صفحے پر بند تھی،،،
ماضی

ک۔۔ کیوں لائے ہو تم مجھے یہاں ک۔۔کون ہو تم،،،
مریم سسکتی ہوئی آواز میں اس سے سوال کر رہی تھی،،،
اس شخص نے ایک ہاتھ بڑھا کر اپنے چہرے سے ہڈی کو ہٹایا،،،
اسے دیکھ کر مریم کے پاؤں تلے سے زمین نکلی،،،
راحیل،،، وہ آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی
راحیل نہیں ڈیوِل "Devil"
اس نے مریم کی آنکھوں میں آنکھیں گاڑھتے ہوئے کہا
ک۔۔کیا مطلب ہے
اور ت۔۔تم مجھے اتنے دنوں سے خوفزدہ کر رہے تھے، مجھے اغواہ کیا، ارسم کو مارا،،،،
یہ۔۔یہ تم تھے،،، وہ سسکنے لگی
شششش،،، ڈیوِل نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھی
مریم سہم گئی،،،

آج کے بعد میں تمہارے منہ سے ارسم کا نام نہ سنوں،،، اس نے سرگوشی کی
مریم کو کہیں سے بھی وہ راحیل نہیں لگ رہا تھا، کہاں وہ راحیل جو ہر وقت ہنستا مسکراتا تھا سب سے مزاح کرتا تھا اور کہاں یہ راحیل جو اس کوفناک ہلیے میں اس کے سامنے موجود کوئی دوسری خوفناک مخلوق ہی لگ رہا تھا،،،
کیوں کیا تم نے یہ سب،،، مریم نے اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں دیکھا
تمہیں پانے کے لیے،،، اس نے مریم کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے خود کے قریب کیا
ک۔۔کیا،،، مریم کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا، وہ اپنا آپ ڈیوِل سے چھڑانے لگی
راحیل ت۔۔تم ہوش میں تو ہو،، اور چھوڑو مجھے،،، وہ سخت مزاحمت کرنے لگی
کہا نا راحیل نہیں ہوں میں،،، وہ چہرے پر ناگواری لاتے ہوئے مریم کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا

مریم کو اس سے پھر سے خوف آنے لگا،،،
ڈیوِل نام ہے میرا ڈیوِل،،، اس نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا
مریم سہمی ہوئی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی،،،
کیا نام ہے میرا بولو،،، اس نے اپنی گردن ایک طرف موڑتے ہوئے آہستہ سے کہا
مریم کو اس وقت وہ کوئی جن زادہ ہی محسوس ہو رہا تھا
مریم خاموش رہی،،،
بولو،،، ڈیوِل نے اس کی کمر میں گرفت کو سخت کیا
ڈ۔۔ڈیوِل،،، مریم سے اس کی قربت برداشت نہیں ہو رہی تھی
ڈیول نے اپنا چہرہ مریم کےمزید قریب کیا مریم نے خوف سے آنکھیں بند کر لیں،،،
اس نے مریم کے کان کے ساتھ اپنے ہونٹ لگائے،،،
اور تم میرّی۔۔ صرف ڈیوِل کی میرّی،،، یہ کہہ کر اس نے مریم کے کان کی لو کو اپنے دانتوں سے دبایا،،،
مریم کے منہ سے سسکی نکلی تو ڈیوِل کے ہونٹوں پر پرکشش مسکراہٹ رونما ہوئی،،،

اس کی عادت ڈال لو کیوں کہ بہت جلد تم میری دسترس میں ہو گی میری بیوی بن کر،،،
اس نے مریم کو اپنی گرفت سے آزاد کیا اور دروازہ کھولے باہر نکل گیا،،،
مریم ابھی بھی سکتے کی حالت میں وہیں کھڑی تھی، وہ تو ارسم کے نکاح میں تھی پھر کیا مطلب تھا اس کا کہیں وہ ارسم کی جان۔۔۔ نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا،،،
وہ سسکتے ہوئے زمین پر بیٹھ گئی،،،

سیاہ رات ایک سچی کہانی (قسط نمبر 6)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں