سیاہ رات ایک سچی کہانی - چھٹا حصہ

 

سیاہ رات ایک سچی کہانی - چھٹا حصہ

مولا بخش گاڑی لے کر آیا تو اپنے سامنے ارسم اور دردانہ بیگم کو زخمی پایا، وہ بھاگتا ہوا گاڑی سے باہر نکلا،،،
بیگم صاحبہ کیا ہوا آپ کو،،، اس نے دردانہ بیگم کا چہرہ تھتھپایا،،،
چھوٹے صاحب جی،،، وہ بھاگتا ہوا ارسم کے پاس آیا،، اس نے سڑک پر پھیلا ہوا خون دیکھا تو مزید پریشان ہوا،،،
اس نے ارسم اور دردانہ بیگم کو گاڑی میں لیٹایا اور ہوسپٹل کی طرف گاڑی کا رخ کیا،،،


دونوں خاندان ہوسپٹل پہنچ چکے تھے وہ شدید پریشان تھے کہ ایسے کیسے ہو سکتا ہے ان سب کی تو کسی سے دشمنی بھی نہ تھی،،،
صفیہ بیگم تب سے روئے جا رہی تھیں کیوں کہ ان کی بیٹی لا پتہ تھی،،،
چچی جان مت روئیں مریم مل جائے گی،،، راحیل نے صفیہ بیگم کو حوصلہ دینا چاہا
ارے کیسے نہ روؤں ارسم اور دردانہ کی حالت تو دیکھ رہے ہو نا صاف صاف پتہ چل رہا ہے کہ وہ جو کوئی بھی تھا میری مریم کے پیچھے تھا،،،
چچی جان اللہ سب خیر کرے گا،،،

صفیہ بیگم کے ساتھ بیٹھی شہزادی نے رو رو کر اپنی حالت بگاڑ لی تھی،،،
اسے مہندی کی رات والی بات یاد آ رہی تھی جب مریم نے اسے بتایا تھا کہ کوئی ہے جو اسے ڈراتا ہے اسے تنگ کرتا ہے مگر شہزادی نے اس بات کو سنجیدہ نہ لیا اب اسے سخت پچھتاوا ہو رہا تھا کہ یہ بات سب کو بتا دینی چاہیے تھی،،،
ڈاکٹر کمرے سے باہر نکلا،،،
ڈاکٹر صاحب میری بیوی اور بیٹا کیسا ہے،،، کمال صاحب نے پوچھا
مریضہ کو ہوش آچکا ہے ان کے بس سر میں چوٹ لگی ہے اور پریشانی کی کوئی بات نہیں،،،
اور میرا بیٹا،،،

ان کے سر میں کوئی تیز چھری جیسی چیز لگی ہے زخم بہت گہرا ہے خون بھی کافی حد تک بہہ چکا ہے آپ میں سے جس کا خون میچ کر گیا اسے مریض کو خون دینا ہو گا،،،
ڈاکٹر میں دوں گا خون میرا اور ارسم بھائی کا ایک ہی بلڈ گروپ ہے،،، راحیل کھڑا ہو کر بولا
ٹھیک ہے اپ کمرے میں چلیے،،، ڈاکٹر نے کہا
ڈاکٹر صاحب میرا بیٹے کو کب تک ہوش آ جائے گا،،، کمال صاحب کی آنکھیں بھرنے لگیں
بس دعا کیجیے،،، ڈاکٹر کہتا ہوا واپس کمرے میں چلا گیا اور راحیل بھی اس کے پیچھے چل دیا

نہ جانے کس کی نظر لگ گئی ہماری خوشیوں کو اللہ سب خیر کرے گا کمال،،، جمال صاحب نے کمال کو حوصلہ دیا
کمال اور صفیہ بیگم دردانہ بیگم سے ملنے کے لیے کمرے میں آئے،،،
دردانہ کیسی ہو تم،،، کمال صاحب نے ان کے پاس بیٹھ کر پوچھا
مر۔۔۔مریم،،، وہ سرگوشی میں بولیں
کیا ہوا میری بچی کو دردانہ کہاں ہے وہ،،، صفیہ بیگم بولیں
ت۔۔تین آدمی تھے مر۔۔مریم کو لے گئے،،، انہوں نے کہہ کر لمبا سانس لیا
کیا لیکن کہاں،،، صفیہ بیگم کے پاؤں تلے سے زمین نکلی
ن۔۔نہیں معلوم،،،
پیشینٹ سے زیادہ بات مت کریں،،، کمرے میں نرس داخل ہوئی،،،
صفیہ بیگم روتے ہوئے کمرے سے باہر آگئیں اور کمال صاحب ان کے پاس ہی رہے،،،


رات کا ایک بج رہا تھا جب ارسم کو بلڈ دینے کے بعد راحیل کمرے سے باہر نکلا،،،
راحیل چلو ہمیں پولیس میں ریپورٹ درج کروانے جانا ہے،،، جمال صاحب نے کہا،،،
کس چیز کی ریپورٹ چچا جان،،،
مریم کے اغواہ کی،،، یہ کہتے ہوئے جمال صاحب کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے
چچا جان آپ پریشان مت ہوں مریم کو کچھ نہیں کو گا انشاءاللّٰه‎‎ وہ ہمیں صحیح سلامت مل جائے گی،،،
آمین اللہ کرے ایسا ہی ہو،،،

صفیہ شہزادی اٹھو تم دونوں کو گھر چھوڑ دوں پھر مجھے اور راحیل کو پولیس سٹیشن جانا ہے،،،
صفیہ بیگم اور شہزادی اٹھیں اور ان کے ساتھ چل دیں،،،
انہوں نے ان دونوں کو گھر چھوڑا اور پولیس سٹیشن پہنچے،،،
آئیے رانا جمال صاحب آج یہاں کا رخ کیسے کیا،،،
️ چونکہ رانا جمال اور کمال دونوں ہی گاؤں کے سب سے امیر بندے تھے گاؤں کی آدھے سے زیادہ زمین ان دونوں بھائیوں کی تھی اس لیے لوگ ان کے پاس اپنے کام لے کر آتے اور وہ اپنی طاقت کے بلبوتے پر ان کا کام آسانی سے کروا دیتے ان کاموں کو پورا کرنے میں اکثر انہیں انسپیکٹر شرافت خان سے رابطہ کرنا پڑتا تھا،،،
جمال صاحب خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گئے شرافت خان انہیں یوں پریشان دیکھ کر حیران ہوا،،،

رانا صاحب خیر تو ہے آپ کچھ پریشان لگ رہے ہیں،،،اس نے پوچھا
ریپورٹ لکھوانی ہے،،، جمال صاحب بولے
ریپورٹ لیکن کس چیز کی،،، شرافت خان نے پوچھا
میری بیٹی کے اغوا کی ریپورٹ،،، وہ سر جھکائے بولے
کیا،،، مریم بیٹی اغوا ہو گئی لیکن کیسے،،، انسپیکٹر حیران ہوا
جمال صاحب میں تو پوری بات بتانے کی ہمت نہ تھی اس لیے راحیل نے جتنا سنا تھا اتنا انہیں بتا دیا،،،

لیکن جمال صاحب جب سب گاڑیاں ایک ہی راستے سے جا رہی تھیں تو ارسم نے وہ سنسان شارٹ کٹ راستہ کیوں استعمال کیا،،، انسپیکٹر کو اس بات نے حیران کیا
ارسم سے آگے ہماری گاڑی تھی پہلے ہم نے وہ راستہ استعمال کیا شاید ہمیں ہی دیکھ کر ارسم نے بھی ایسے ہی کیا،،، جمال صاحب نے کہا
تو پھر میرا یہی سوال آپ سے ہے رانا صاحب آپ نے وہ راستہ کو چنا جو سنسان ہے اور اکثر وہاں پر وارداتیں بھی ہوتی ہیں یہ سب تو آپ کو بھی معلوم تھا،،،
راحیل میرے ساتھ تھا اس کی طبیعت خراب ہونے لگی تھی اس نے کہا کہ اس راستے سے چلتے ہیں گھر جلدی پہنچ جائیں گے،،،
انسپیکٹر نے راحیل کی طرف دیکھا ،،،

آپ کو اچانک کیا ہوا تھا جو اس راستے سے آنے کا رسک لیا،،،
کھاناکھانے کے بعد میری طبیعت بگڑنے لگی تھی شاید بد ہضمی ہو گئی تھی اسی لیے میں جلد از جلد گھر پہنچنا چاہتا تھا لیکن مجھے کیا معلوم تھا مجھے دیکھ کر ارسم بھائی بھی اسے راستے پر آجائیں گے،،، راحیل نے کہا
ہممم تو اب آپ کی طبیعت کیسی ہے مطلب آپ کو دیکھ کر لگتا تو نہیں کچھ دیر پہلے آپ کی طبیعت خراب دی ماشاءاللّٰه‎ بلکل ٹھیک ٹھاک بیٹھے ہیں،،، انسپیکٹر نے راحیل کا اچھی طرح جائزہ لیتے ہوئے کہا

آپ مجھ پر شک کر رہے ہیں،،،راحیل کو غصہ آنے لگا
دیکھو میاں ہم پولیس والے تو جب تک ملزم مل نہ جائے ہر ایک کو شک کی نطر سے دیکھتے ہیں اگر ایک دو سوال میں نے آپ سے کر لیے تو یہ کوئی بڑی بات نہیں،،،
شرافت خان یہ ہمارے گھر کا بچہ ہے اس کے بچپن سے یہ ہمارے ساتھ ہے آپ اس کی طرف سے بے فکر رہیں اور جتنی جلدی ہو سکے مریم کو ڈھونڈیں،،،
ٹھیک ہے رانا صاحب آپ کہتے ہیں تو میں آپ کی فیملی میں سے کسی سے سوال جواب نہیں کروں گا لیکن آپ نے پنجابی کی وہ مثال تو سنی ہی ہو گی،
"گھر دی کتی چوراں نال ملی"
بس بہت ہو گیا چچا جان میں اب یہاں ایک منٹ نہیں رکنا چاہتا،،، راحیل غصے سے اٹھا

ارے ارے کیا ہو گیا بچے بیٹھو تو صحیح،،، انسپیکٹر نے کہا
انسپیکٹر شرافت میں نے جب آپ سے کہہ دیا کہ راحیل کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں تو آپ اس پر شک کیوں کر رہے ہیں،،، جمال صاحب نے کہا
ٹھیک ہے رانا صاحب جیسے آپ کی مرضی اور میں اپنی طرف سے پوری کوشش کروں گا کہ آپ کی بچی جلد از جلد مل جائے،،،
مہربانی ہو گی آپ کی، چلو راحیل،،، جمال صاحب اٹھے اور وہ دونوں پولیس سٹیشن سے نکل گئے،،،


صبح ہونے والی تھی راحیل اور جمال صاحب پولیس سٹیشن سے واپس ہوسپٹل آگئے تھے،،،
ڈاکٹر نے ارسم کا پھر سے چیک اپ کیا اور کمرے سے باہر نکل کر ان کی طرف بڑھا،،،
ہم نے اپنی پوری کوشش کی لیکن،،،،
لیکن کیا ڈاکٹر صاحب ڈاکٹر ابھی بول ہی رہا تھا جب کمال صاحب بولے،،،
مریض قومہ میں چلا گیا ہے اس کا زندگی کی طرف واپس لوٹنا مشکل ہی لگ رہا ہے،،،،
کیا میرا بیٹا قومہ میں،،، کمال صاحب کرسی پر گرتے گرتے بیٹھے
چچا جان سمبھالیں خود کو،،، راحیل نے انہیں پکڑ کر بیٹھایا
ڈاکٹر کوئی تو طریقہ ہو گا جس سے اسے ہوش آجایے،،، راحیل نے کہا
ایک ہی راستہ ہے اور وہ صرف دعا ہے،،، ڈاکٹر نے جواب دیا
کمال صاحب رونے لگے تھے ان کا جوان بیٹا اس حال میں پہنچ چکا تھا اور وہ بے بس تھے،،،


مریم کل رات سے اسی کمرے میں بیٹھی رو رہی تھی،،،
دروازہ کھلنے کی آواز پر اس نے فوراً سے دروازے کی طرف دیکھا،،،
ایک لڑکا اس کے سامنے آیا اس کا لباس عام آدمیوں کے جیسا تھا،،،
اٹھیں،،، وہ نہایت ادب سے بولا
ن۔۔نہیں،،، وہ خود میں سمٹنے لگی
اگر آپ نہ اٹھیں تو ڈیول مجھے زندہ نہیں چھوڑے گا مجھے اس کا حکم ہے کہ آپ کو کسی اچھے کمرے میں لے جاؤں،،،
ل۔۔لیکن کہاں لے جانا ہے م۔۔مجھے،،، وہ ابھی بھی رو رہی تھی
بس ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک،،، لڑکے نے جواب دیا
مریم ہچکچاتی ہوئی اٹھی اور اس کے پیچھے چلنے لگی وہ ویسے بھی اس کمرے میں خوف زدہ ہو رہی تھی،،،
عجیب خوفناک سی راہ داری سے گزرتے ہوئے وہ دنوں ایک بڑے سے حال میں داخل ہوئے،،،

بہت سے لڑکے شرٹ اتارے جم کرنے میں مصروف تھے،،،
کوئی گنز کو صاف کر رہا تھا کوئی کلہاڑی کو کوتیز کر رہا تھا،،،
ان سب نے ایک نظر بھی مریم کی طرف نہ دیکھا لیکن پھر بھی مریم انہیں دیکھے خوف سے کانپنے لگی،،،
دل ہی دل میں وہ اللہ کو یاد کرتی ہوئی حال سے باہر نکلی،،،
آگے ایک اور راہ داری آئی جس میں کوئی سات آٹھ کمرے تھے،،،
ان کمروں کو کراس کر کے وہ لڑکا مریم کو لیے ایک اور حال میں داخل ہوا جو چھوٹا اور خالی تھا،،،
حال کے سامنے دو کمرے تھے وہ لڑکا ایک کمتے کی طرف ہو لیا ان کمروں کے دروازے کافی بڑے تھے،،،
وہ لڑکا دروزہ کھول رہا تھا جب مریم نے ہمت کرتے ہوئے اس سے بات کرنے کی کوشش کی،،،

بھ۔۔بھائی آپ پلیز م۔۔مجھے یہاں سے جانے دیں آ۔۔آپ مجھے ان سب سے الگ لگے ہیں پ۔۔پلیز مجھے جانے دیں سب میرے لیے پریشان ہوں گے،،، مریم اس کے آگے ہاتھ جوڑ کر گڑگڑائی
لڑکے نے دروازہ کھول کر مریم کی طرف رخ کیا،،،
آپ کو کیسے لگا کہ میں اچھا ہوں،،، اس نے سوال کیا
آپ سے مجھے اتنا ڈ۔۔ڈر نہیں لگ رہا،،،
حال میں لڑکے کا قہقہ گونجا،،، مریم حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگی
وہ میں ہی تھا جو آپ کو اٹھا کر یہاں لایا تھا،،،
اس کی بات سنتے ہی مریم حرت زدہ اسے دیکھتی ہی رہ گئی،،،
یہ ہمیں ڈیوِل کا حکم تھا اور ڈیوِل کی حکم ادولی سمجھو ہماری موت ہے،،،
اندر جائیں،،، اس نے مریم کا راستہ صاف کیا
مریم کا جسم خاف سے کانپنے لگا تھا اور مردہ قدموں سے کمرے کے اندر داخل ہوئی اور لڑکے نے دروازہ باہر سے لاک کیا،،،
یا اللہ یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے،،، وہ زمین پر بیٹھی رونے لگی،،،


مریم زمین پر بیٹھی رو رہی تھی جب اس کو کمرے کے باہر قدموں کی آواز آئی،،،
وہ تیزی سے اٹھی اور آس پاس کوئی چیز دھونڈنے لگی،،،
اس ٹیبل پر پڑا ایک قیمتی گلدان نظر آیا، وہ گلدان اٹھائے دروازے کے پیچھے چھپ گئی،،،
دروازہ کھلا،،،
ٹک،،
ٹک،،
ٹک،،
ڈیوِل کمرے میں داخل ہوا،،،
وہی سیاہ لباس اور سر پر ہڈی لیے وہ پینٹ کہ پاکٹس میں ہاتھ ڈالے کھڑا ہو گیا،،،
میرّی،،،
مائے میرّی،،،
کہاں ہو تم،،،

وہ پرسرار سی آواز نکالے اسے پکار رہا تھا،،،
مریم کے ہاتھ پاؤں کانپنے لگے اس نے ہمت کرتے ہوئے قدم آگے بڑھایا،،،
جیسے ہی اس نے اپنا گلدان والا ہاتھ اونچا کیا ڈیوِل بجلی کی تیزی سے مڑا اور میرّی کا گلدان والا ہاتھ پکڑے اسے دیوار کے ساتھ لگایا،،،،
مریم کا سانس پھولنے لگا اس نے ایک کوشش کی تھی اور وہ بھی ناکام ہو گئی،،،
اوہ مائے میرّی اب تم مجھے مارنے کی کوشش کرو گی،،، وہ اپنی پرکشش آنکھوں سے میرّی کو دیکھتا ہوا بولا
ن۔۔نہیں،،، مریم ڈرنے لگی

اوہ رئیلی تو پھر یہ کیا ہے،،، اس نے گلدان کہ طرف اشارہ کیا
مریم خوفزدہ سبز آنکھوں سے اسے دیکھنے لگی،،،
تمہیں معلوم ہے جب تم یوں ڈرتی ہو تو مجھے بے حد خوبصورت لگتی ہو،،، ڈیوِل نے اپنا چہرہ اس کے قریب کیا
پ۔۔پلیز پیچھے ہٹیں،،، وہ کانپتی ہوئی آواز میں بولی،،،
ڈیوِل نے اس کے ہاتھ سے گلدان پکڑ کر ساتھ ٹیبل پر رکھا اور اس کے نرم ہاتھ کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں پھنسائے دیوار کے ساتھ لگایا،،،
ان دونوں کے درمیان جو ایک قدم کا فاصلہ تھا ڈیوِل نے وہ بھی ختم کر دیا،،،
مریم اپنے چہرے کو مزید پیچھے کرنا چاہتی تھی مگر پیچھے دیوار کے سوا کچھ نہ تھا،،،

اسے ڈیوِل کی انگلیاں اپنے پیٹ پر رینگتی ہوئی محسوس ہوئیں،،،
خوف سے مریم کے منہ سے ہلکی ہلکی آوازیں نکل رہی تھیں جو کہ ڈیوِل کو سننے میں لطف دے رہی تھیں،،،
خدا کا واسطہ ہے پ۔۔پیچھے ہٹیے،،، وہ سسکنے لگی
پہلے میرا نام پکارو،،، وہ پرسرار سا بولا
مریم خاموش رہی،،،
کیا تم چاہتی ہو تمہارے پیٹ پر رینگنے والی میری انگلیاں تمہاری کمر تک پہنچیں،،،
ن۔۔نہیں،،، مریم کی نظروں میں کل رات والا منظر گھومنے لگا
ہممم،، تو کہو
ڈ۔۔۔

اس کے الفاظ ابھی منہ میں ہی تھے جب ڈیوِل نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اس کے نازک ہونٹوں کو اپنی گرفت میں لیا،،،
مریم نے اپنی آنکھوں کو سختی سے بھینچ لیا،،،
ڈیوِل کو اس کے لمس سے جتنا لطف آرہا تھا مریم کی تکلیف میں اتنا ہی اضافہ ہو رہا تھا،،،
وہ اس کے سینے پہ ہاتھ مارتی خود سے الگ کرنے کی کوشش کرنے لگی،،،
وہ جتنی مزاحمت کر رہی تھی ڈیوِل کے لمس میں اتنی ہی شدت آرہی تھی، اس نے مریم کا ہاتھ چھوڑ کر اس کی گردن میں ہاتھ ڈالا،،،
کچھ دیر بعد وہ پیچھے ہوا تو مریم نے اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپایا،،،
وہ مسلسل سسک رہی تھی اور ڈیوِل نہایت آرام سے اسے دیکھنے کا شغل فرما رہا تھا،،،

کھانا بھیج رہا ہوں کھا لینا ورنہ یہی عمل دوبارہ دوہرایا جائے گا،،،
وہ کمرے سے باہر نکل گیا،، مریم زمین پر اپنے گھٹنوں میں چہرہ چھپائے اونچی آواز میں رونے لگی،،،


شام کا وقت ہو چکا تھا عنائزہ ڈائری پڑھتے ہوئے اتنا کھو چکی تھی کہ اسے وقت کا اندازہ ہی نہ ہوا،،،
وہ ڈائری کوٹ کے اندر چھپائے گیسٹ روم سے باہر نکل گئی،،،،
رات کے وقت آسمان نے اپنا رنگ بدلا، بادل سفید سے سیاہ ہوئے، ہوا طوفان میں تبدیل ہو گئی،،،
بادل پورے زورو شور سے گرجا تو سوتی ہوئی عنائزہ ایک چینخ کے ساتھ اٹھی،،،
روحان بھی اس کی چینخ سن کر جاگا،،،
عنائزہ نے لائٹ آن کی اور بیڈ سے بھاگ کر گلاس وال کی طرف جا کر باہر کا ماحول دیکھنے لگی،،،

یا میرے اللہ رحم،،، وہ ہاتھ جوڑتی ہوئی شدید گھبرائی ہوئی تھی،،،
بادل کی ایک اور گرج پر وہ بھاگتی ہوئی بیڈ پر آکر بیٹھی،،،
روحان حیرت زدہ اس کی طرف دیکھ رہا تھا کیوں وہ عنائزہ کو ہر لیحاظ سے بہادر لڑکی سمجھتا تھا،،،
بادل کے گرجنے کی مسلسل آواز آرہی تھی عنائزہ اپنے کانوں پہ ہاتھ رکھے کمفرٹر میں خود کو چھپائے گھس گئی،،،
روحان پریشان بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا کہ وہ کیا کرے جس سے عنائزہ کا ڈر ختم ہو وہ سوچ ہی رہا تھا،،،
ر۔۔روحان،،، وہ گھبرائی ہوئی آواز میں بولی
روحان خاموش رہا تو عنائزہ نے اپنا چہرہ کمفرٹر سے باہر نکالا،،،
ر۔۔روحان مجھے بہت ڈر،،، وہ ابھی بول ہی رہی تھی جب پھر سے بادل گرجا اور عنائزہ کی چینخ نے روحان کے کان کا پردہ پھاڑا،،،
روحان پلیز میرے ساتھ لیٹ جاؤ مجھے کچھ حوصلہ ہو گا،،،
روحان معصوم سبز آنکھوں کو کھولے اسے دیکھنے لگا،،،
پلیز،،، عنائزہ نے پھر سے التجا کی

باہر سے تیز طوفان کے چلنے کی آوازیں آ رہی تھیں،،،
روحان اپنی جگہ بیٹھا رہا عنائزہ نے ایک مایوسی کے ساتھ اپنا چہرہ پھر سے کنفرٹر میں چھپا لیا،،،
اچانک لائٹ آف ہو گئی، عنائزہ نے جلدی سے کمفٹر ہٹا کر دیکھا تو ساتھ ہی بادل گرجا،،،
وہ زور سے چینخی اور روحان کا ہاتھ پکڑا،،،
روحان پلیز میرے ساتھ لیٹ جاؤ مجھے تمہاری ضرورت ہے مجھے بچپن سے ہی طوفان اور بادل کے گرجنے سے بہت ڈر لگتا ہے،،، وہ شدید پریشانی کے حالت میں بولی

روحان کو اب کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے،،،
جیسے تیسے کر کے وہ خود پر قابو پاتا ہوا اس کے کمفرٹر میں گھس کر لیٹ گیا،،،
عنائزہ سختی سے اس کے سینے سے چپک گئی،،،
روحان نے اس کے وجود کی اس قدر قربت پر اپنا سانس بند کیا اسے اپنے دل میں کچھ ہل چل سی محسوس ہو رہی تھی،،،
جیسے بادل گرجتے ویسے ویسے وہ روحان کے اور قریب ہوتی جا رہی تھی،،،
عنائزہ نے اچانک اپنا ہاتھ روحان کے دل کے مقام پر رکھا،،،
دھک، دھک، دھک،
روحان کی دھڑکنوں نے شور مچا رکھا تھا،،،
عنائزہ نے اپنی بند آنکھوں کو کھولا،،،
روحان،، اس نے پکارا
روحان خاموش رہا،،،
روحان،، اس نے پھر سے پکارا
ج۔۔جی،، اس نے جواب دیا
تمہارا دل،،، وہ خاموش ہوئی
اس کی بات سن کر روحان کے دل نے مزید سپیڈ پکڑی،،،
بادل گرجنا بند ہو گئے تھےاب باہر زورو شور سے بارش ہو رہی تھی،،،
عنائزہ تو پرسکون ہو گئی تھی مگر روحان کا حال برا تھا،،،
روحان،، اس نے ایک بار پھر پکارا
اس بار بھی روحان خاموش رہا،،،
روحان،، وہ پھر سے بولی
ج۔۔جی،،، آخر اس نے جواب دیا
ایک بات پوچھوں،،
جی،،،

تمہیں میں۔۔۔کیسی لگتی ہوں،،، عنائزہ نے رک کر کہا
روحان پریشان ہونے لگا اب وہ اسے کیا جواب دے، نہ کرے تو یہ جھوٹ ہو گا اور عنائزہ کو بھی اچھا نہیں لگے گا اگر ہاں کرے تو اس کے دل کی بات عنائزہ کو معلوم ہو جائے گی،،،
بتاؤ نا روحان،،، وہ پھر سے بولی
پ۔۔پتہ نہیں،،، آخر روحان نے جواب سوچ ہی لیا
مجھ سے نہیں پوچھو گے کہ تم مجھے کیسے لگتے ہو،،،
نہیں،،، روحان فٹ سے بولا کیوں کہ وہ جانتا تھا عنائزہ کی فیلینگز کو
کیوں،، وہ پھر سے بولی

پ۔۔پتہ نہیں،،، اس نے نہایت معصومیت سے کہا
اگلے ہی پل وہ روحان پر ہاوی ہوئی،،،
عنائزہ کے اس عمل پر روحان کا جسم ساکت ہو گیا، ابھی تو اندھیرا تھا اس نے شکر ادا کیا ورنہ روشنی میں اس کا نہ جانے کیا حال ہوتا،،،
ع۔۔عنائزہ،،،
روحان نے آج پہلی بار اس کا نام لیا تھا عنائزہ کو اس کی آواز میں اپنا نام آج پہلی بار اتنا خوبصورت لگا تھا،،،
کیا، تم نے میرا نام لیا،،، اس کی آواز میں خوشی تھی
روحان خاموش رہا،،،
پلیز ایک بار اور کہو،،،
روحان کی طرف سے اس بار بھی خاموشی تھی،،،
اس نے اندھیرے میں روحان کے چہرے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کی پیشانی سے بال ہٹا کر اپنے ہونٹ رکھے،،،،
عنائزہ،، وہ پھر سے بولا
اب عنائزہ کے ہونٹ اس کی ایک رخسار پر تھے، اور پھر دوسری رخسار پر،،،
روحان کبھی کسی انسان کے اتنا قریب نہیں آیا تھا کہ ان کے درمیان زرا سا بھی فاصلہ نہ ہو اور یہاں تو پھر بھی بات کسی اور ہی قسم کی تھی،،،
عنائزہ نے روحان کی ٹھوڑی کو نرمی سے چوما تو روحان نے اسے کندھے سے پکڑ کر اس کا چہرہ پیچھے کیا،،،

ع۔۔۔عنائزہ مت کرو،،، وہ دھڑکتے دل پر بمشکل قابو پا رہا تھا
عنائزہ نے اس کے ہاتھوں کو ہٹایا اور اس کے ہونٹوں پر جھکی،،،
روحان کے پاؤں تلے سے زمین نکلی وہ کیا کر رہی تھی اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا، اسے اس بارے کچھ بھی معلوم نہیں تھا، بس کچھ تھا جو روحان کو اس وقت محسوس ہو رہا تھا ایسا کہ اس نے پہلے کبھی محسوس نہ کیا تھا،،،
عنائزہ نرمی سے اپنا لمس چھوڑ رہی تھی اس نے ایک ہاتھ روحان کے دل کے مقام پر رکھ لیا،،،
روحان نے اسے ہٹانے کی کوشش کی لیکن اسے اس وقت خود کا بھی ہوش نہ رہا تھا اسے اپنی جان جاتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی،،،
کچھ دیر بعد وہ سانس لینے کے لیے پیچھے ہوئی تو روحان فوراً پلٹا اور عنائزہ بیڈ پر آگری،،،
روحان،،، اس نے خمار بھری آواز سے پکارا
عنائزہ پلیز نہیں کرو،،، وہ تیز تیز سانس لے رہا تھا
ڈر لگ رہا ہے کیا،،،
نہیں،،

تو پھر کیوں نہیں آتے میرے قریب،،،
مجھے نہیں معلوم،،،
میں اچھی نہیں لگتی کیا،،،
روحان خاموش رہا،،،
بتاؤ پلیز روحان،،،
ا۔۔ایسی بات نہیں،،،
تو کیسی بات ہے،،،
اچھی لگتی ہو،،، اس نے اعتراف کیا
پھر اپنا حق استعمال کیوں نہیں کرتے،،،
م۔۔مجھے اس بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں،،،
کیا،،، عنائزہ کی حیرت سے آنکھیں کھلیں،،،
روحان خاموش رہا،،،
تمہیں نہیں پتہ رومانس کیا ہوتا ہے،،،
ن۔۔نہیں،، وہ بے حد معصومیت سے بولا
تم نے کبھی کوئی لوّ سٹوری مووی نہیں دیکھی کیا،،،
وہ کیا ہوتا ہے،،، اس بار پہلے سے بھی زیادہ معصومیت
روحان آر یو سیریس،،،
لاؤنج میں اتنا بڑا ٹی وی ہے تم نے کبھی نہیں دیکھا کیا،،،
یہ پہلے نہیں تھا،،،
مطلب میرے آنے پے لایا گیا ہے،،،
ج۔۔جی
اففف،،، عنائزہ نے اپنا ماتھا پکڑا،،،
لیکن تم کیوں نہیں دیکھتے،،، عنائزہ نے پوچھا
ٹی وی میں ان۔۔انسان ہوتے ہیں،،، وہ گھبرایا ہوا بولا
تو کیا ہماری لائف ایسے ہی چلتی رہے گی،،،
روحان خاموش رہا،،،
کل تم میرے ساتھ رومانٹک سی مووی دیکھو گے اور انکار بلکل نہیں چلے گا آئی سمجھ،،،

جی،،، اس نے ہاں تو کر دی مگر پریشان بھی بہت تھا
لائٹ آگئی اور باہر موسم بھی صاف ہو چکا تھا،،،
عنائزہ نے لائٹ آف کی اور روحان کو ہگ کیے سونے لگی،،،
کچھ دیر تک عنائزہ سو چکی تھی مگر روحان کی جان کو لالے پڑے ہوئے تھے،،،،


سورج کی پہلی کرن نے کمرے میں اپنی آمد کا احساس دلایا،،،
عنائزہ آنکھیں مسلتی ہوئی اٹھی اور گلاس وال کی طرف دیکھا،،،
واؤ آج دھوپ نکلی ہے،،، وہ اچھل کو بیڈ سے اتری اور پوری گلاس وال سے کرٹین کو پیچھے ہٹایا،،،
پورا کمرہ روشنی سے نہا گیا، روحان نے آہستہ سے آنکھیں کھولیں اور اٹھ کر بیٹھا،،،
گڈ مارننگ مائے سویٹ ہبی،،، اس نے روحان کی طرف پیار سے دیکھ کر کہا
روحان نے نظریں جھکا لیں،، عنائزہ واش روم گھس گئی،،،
اس کے جانے کے بعد روحان ہلکا سا مسکرایا،،،


آج میں مارکیٹ جاؤں گی کمرے کے لیے نیو فرنیچر لینا ہے اور تمہارے لیے شاپنگ بھی کرنی ہے،،،ناشتے کی ٹیبل پر ناشتہ کرتے ہوئے عنائزہ نے روحان کو کہا
روحان خاموشی سے ناشتہ کرتا رہا،،،
عقیلہ تم میرے ساتھ چلو گی،،،
اچھا بیگم صاحبہ،،، اس نے جواب دیا
ناشتے کے بعد عنائزہ روحان کو پکڑے لان میں لے آئی،،،
کتنے دن بعد دھوپ نصیب ہوئی ہے،،، وہ خوشی سے بازو پھیلائے بول رہی تھی
روحان ادھر بیٹھو،،، وہ زمین پر جہاں ہری بھری گھاس اگی ہوئی تھی وہاں بیٹھ کر بولی

روحان خاموشی سے اس کے ساتھ بیٹھ گیا،،،
تمہیں پتہ ہے روحان کالج میں میری ایک دوست تھی اس کا نام تانیہ تھا ہم فری پِریڈ میں یوں ہی گراؤنڈ میں بیٹھ کر بہت ساری باتیں کرتے تھے،،،
اب نہ جانے وہ کیسی ہو گی پتہ نہیں اس کی بھی میری طرح شادی ہو گئی ہو گی یا نہیں،،،
وہ باتیں کرتی کرتی اداس ہو گئی،،،
روحان غور سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا،،،
اس کا فون نمبر نہیں ہے،،، روحان نے اس کی بات پر ردِعل دینا ضروری سمجھا
نہیں، جب میں یہاں آئی تو میرے موبائل میں سِم نہیں تھی شاید پاپا نے نکال لی ہو گی،،،
وہ خاموش ہوئی،،،

وہ تو مجھے بھول ہی گئے ہیں ایسے تو کوئی دشمن کی بیٹی کے ساتھ بھی نہیں کرتا ہو گا جس طرح انہوں نے میرے ساتھ کیا،،، عنائزہ کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے
روحان کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اسے کس طرح سے تسلی دے،،،
جب سے یہاں آئی ہوں ایک بار بھی پاپا نے کال نہیں کی یہ بھی نہیں خبر لی کہ ان کی بیٹی مر گئی ہے یا زندہ،،، وہ سسکنے لگی
روحان نے ایک ہاتھ اس کی طرف بڑھا کر اس کے دونوں رخساروں کو شہادت کی انگلی سے صاف کیا،،،
عنائزہ نے نظریں اٹھائے اس کی طرف دیکھا،، اسے یوں لگا ہوا جیسے روحان اس کا دکھ محسوس کر رہا ہو،،،
عنائزہ نے اس کا ہاتھ تھام لیا،،،
روحان،،

جی،،
جب میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تھا تو مجھے اپنی قسمت پر بہت افسوس ہوا تھا کہ مجھے تم جیسا کمزور ذہن اور بیمار انسان ملا،،،
لیکن جیسے جیسے میں تمہیں جانتی گئی تو مجھے احساس ہوا کہ تم سے زیادہ پاک ذہن اور معصوم اس وقت شاید ہی کوئی دنیا میں ہو،،،
جیسے جیسے تمہیں جانتی گئی تم سے محبت ہوتی چلی گئی،،،
میرا تم سے وعدہ ہے میں تمہیں اس بیماری سے نجات ضرور دلاؤں گی کیوں کہ اس بیماری کا علاج میں نے ڈھونڈ لیا ہے،،،
وہ مسلسل اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بول رہی تھی اس نے نوٹ کیا کہ روحان نے ایک بار بھی نظریں نہیں جھکائیں اور نہ ہی اس کا ہاتھ کانپ رہا تھا،،،
تمہیں مجھ پر یقین ہے نا روحان،،،
روحان نے مثبت میں سر ہلایا،،،
تو بس پھر یقین کر لو کہ بہت جلد تم ایک نارمل انسان کی طرح بیحیو کرنے لگو گے باہر جاو گے گھومو پھرو گے زندگی کو انجوائے کرو گے بلکہ ہم دونوں مل کر اپنی دنیا کو خوشحال بنائیں گے،،، وہ مسکرائی تو روحان بھی مسکرانے لگا
عنائزہ کی نظر اس کے ہونٹوں پر پڑی باریک سرخ ہونٹوں کے نیچے چھوٹا سیاہ تل بھی مسکرا رہا تھا،،،
Oh my God how much charming smile u have.
اس کی بات پر روحان شرماتے ہوئے نظریں جھکا گیا،،


عنائزہ نے اچھا سا فرنیچر گھر ڈیلیور کروا دیا تھا، روحان اور اپنے لیے خوب ساری شاپنگ کر لی تھی،،،
رات ہونے سے پہلے پہلے اس نے کمرے میں فرنیچر سیٹ کروایا اور اپنی پسند کے ساتھ سیٹنگ کیے اب وہ روحان کو کمرہ دکھانے کا سوچ رہی تھی،،،
روحان،،، عنائزہ نے کمرے کے دروازے پر کھڑے ہو کر آواز لگائی
روحان لاؤنج میں صوفے پر بیٹھا تھا اٹھ کر سیڑھیاں چڑھنے لگا،،،
عقیلہ روحان کے اس اچھے بدلاؤ پر بہت خوش ہوئی،،،
روحان اس کے پاس پہنچا،،،
پہلے اپنی آنکھیں بند کرو پھر روم دکھاؤں گی،،،
اس کے کہنے پر بھی روحان بڑے آرام سے آنکھیں مٹکتا ہوا اسے دیکھ رہا تھا،،،
افو بند کرو بھی،،، وہ ضدی بنی

روحان نے جھچکتے ہوئے آنکھیں بند کیں اور عنائزہ نے دروازہ کھولا،،،
جب تک میں نہ کہوں آنکھیں نہیں کھولنی ٹھیک ہے نا،،،
ٹھیک ہے،،، روحان نے جواب دیا
عنائزہ اسے پکڑتے ہوئے ایک جگہ کھڑا کیا،،،
چلو اب آنکھیں کھولو،،،
سبز آنکھوں کے دروازے کھلے اور روحان کمرے کو دیکھتا ہی رہ گیا،،،
یہ تو اس کا کمرہ لگ ہی نہ رہا تھا، خوبصورت قیمتی بیڈ میچنگ صوفہ سیٹ اور ماڈرن قسم کا وارڈ ڈروب، گلاس وال سے لٹکتے پرپل کلر کے خوبصورت پردے، زمین پر سرخ قالین،،،
روحان کی نظر بیڈ سے اوپر دیوار پر پڑی تو وہ حیران ہوا،،،
روحان اور عنائزہ کی ایک تصویر بڑے سے فریم میں لگائی گئی تھی،،،
یہ،،، روحان نے عنائزہ کی طرف دیکھا کیوں اس نے تو کبھی پکس بنوائی ہی نہیں تھیں
ہو گئے نا شوکڈ،،، عنائزہ مسکرائی

میرے پاس صرف یہی نہیں تمہاری اور بھی بہت ساری پکس ہیں جب تم کسی چیز میں مصروف ہوتے تھے تو میں تمہاری پکس بنا لیتی تھی،،،
روحان نے آج پہلی بات اپنی تصویر دیکھی تھی اسے وہ بہت اچھی لگی اور عنائزہ کے ساتھ اور بھی اچھی لگ رہی تھی، عنائزہ نے ان پکس کو اس طرح سے جوڑا تھا کہ ایسے لگ رہا تھا جیسے ان دونوں نے ایک ساتھ پک بنوائی ہو،،،
روحان نے پورے کمرے میں نظر دوڑائی تو اسے ڈریسنگ ٹیبل دکھائی دیا،،،
تمہیں خود کے عکس سے ڈر لگتا ہے نا،،، عنائزہ نے کہا
روحان سر جھکا گیا
آؤ میرے ساتھ،،، وہ اس کا ہاتھ پکڑتی ہوئی ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے لے آئی
دیکھو خود کو،،،
میں نے تم سے زیادہ خوبصورت لڑکا اپنی زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا اور شاید ہی کبھی دیکھ سکوں،،،

اتنی خوبصورتی کے باوجود بھی تم خود کے عکس سے ڈرتے ہو،،،
روحان آئینے میں اسے باتیں کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا،،،
عنائزہ نے اس کے بازو میں اپنا بازو ڈالا،،،
جب تم میرے ساتھ ہوتے ہو تو میں مکمل ہوتی ہوں مجھے کسی اور کی ضرورت نہیں رہتی،،،
تو کیوں نا جب میں تمہارے ساتھ ہوتی ہوں تو تم بھی خود کو مکمل سمجھو،،، اس نے روحان کے کندھے پر سر رکھا
ایسا ہی تو ہوتا ہے یہ رشتہ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے بغیر بلکل نا مکمل ہوتے ہیں اور جب وہ ایک ساتھ ہوتے ہیں تو ایک جان ہوتے ہیں،،،
عنائزہ کی باتیں روحان کے دل پر اثر کر رہی تھیں وہ حیرت سے اس کی باتیں سن رہا تھا،،،
بتاؤ اب ڈر لگ رہا ہے تمہیں اپنے عکس سے،،، عنائزہ نے سوال کیا
روحان نے خود کا عکس غور سے دیکھا اور بولا۔۔ " نہیں "،،،
اس کے جواب پر عنائزہ مسکرائی،،،
اچھا اب ادھر آؤ تمہیں ہماری شاپنگ دکھاتی ہوں،،، وہ اس کا ہاتھ پکڑتی بیڈ کی طرف لے آئی

وارڈ ڈروب سے اس نے دس بارہ ڈریسز روحان کے اور دس بارہ اپنے نکال کر پورے بیڈ پر پھیلا دیے،،،
روحان کی نظر ابھی اپنے ڈریسز پر تھی وہ تو انہیں دیکھتا ہی رہ گیا،،،
عنائزہ نے اس کی آنکھوں میں آنے والی چمک کو نوٹ کیا،،،
روحان نے بٹنوں والی ایک ریڈ شرٹ کی طرف ہاتھ بڑھایا اور اسے اٹھا کر دیکھنے لگا،،،
یہ زیادہ پسند آئی ہے کیا،،، عنائزہ نے پوچھا
روحان نے مسکراتے ہوئے مثبت میں سر ہلایا،،،
اس کے ساتھ یہ بلیک جینز کی میچنگ اچھی رہے گی چلو اب پہن کر دکھاؤ،،، اس نے روحان کے ہاتھ میں جینز کی پینٹ دی
روحان پہلے تو اس کی طرف دیکھتا رہا پھر پینٹ پکڑے واش روم چلا گیا،،،
عنائزہ اپنے ڈریسز کو دیکھ رہی تھی کچھ دیر بعد روحان واش روم سے نکلا،،،
اسی نظر روحان پر ٹھہر گئی، سنہری بال سبز آنکھیں دودھیا سفید رنگت پر ریڈ شرٹ اس پر بہت زیادہ جچ رہی تھی،،،

You are looking most handsome my hubby.
وہ اس کے قریب آئی اور اس کے بال اپنے ہاتھوں سے سیٹ کرنے لگی،،،
اب ادھر آؤ،،، اس نے روحان کو ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑا کیا
روحان کو تو آج معلوم ہوا تھا کہ اللہ نے اسے کتنا حسن عطا کیا ہے،،،
روحان نے عنائزہ کی طرف اپنا رخ کیا اور جھچکتے ہوئے اس کا ہاتھ پکڑا،،،
وہ اسے لیے بیڈ کی طرف لے گیا جہاں ان دونوں کے ڈریسز پڑے تھے، روحان نے بلیک کلر کی میکسی اٹھا کر اس کے ہاتھ میں دی،،،
عنائزہ نے مسکراتی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا وہ سمجھ گئی تھی اس کا مطلب، مگر اس کے منہ سے سننا چاہتی تھی،،،
کیا،، عنائزہ نے آئیبرو اچکائے
یہ تم پہنو،،، روحان آہستہ سا بولا

عنائزہ نے مسکراتے ہوئے اس کے ہاتھ سے میکسی پکڑی اور واش روم چلی گئی،،،
روحان بیڈ پر بیٹھا اس کا انتظار کرنے لگا،،،
عنائزہ کچھ دیر بعد باہر نکلی، پاؤں تک آتی بلیک میکسی جس میں عنائزہ کے فگر کی بناوٹ بہت خوبصورتی سے واضح ہو رہی تھی، بالوں کا جوڑا بنا کر ایک لٹ گردن میں لٹکائے ننگے پاؤں وہ باہر نکلی،،،
روحان اسے مبہوت سا دیکھتا ہوا کھڑا ہو گیا،،،

سیاہ رات ایک سچی کہانی (قسط نمبر 7)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں