پُراسرار حویلی - پارٹ 2

 

Sublimegate Urdu Font Stories

 پُراسرار حویلی - پارٹ 2

جس چیز نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا وہ صحن میں ایک طرف گول چبوترے پر بنی ہوئی چھوٹی سی بارہ دری تھی۔ میں بارہ دری کے پاس آ گیا۔ بارہ دری کے اندر ایک مخروطی برجی تھی۔ میں سمجھ گیا کہ یہ رانی بائی کی وہ مڑھی ہے جہاں رانی بائی کے قتل ہونے کے بعد اس کی لاش کو جلا کر اس کی ہڈیاں یعنی پھول دفن کئے گئے تھے۔ چبوترے کا فرش بھی ٹوٹ پھوٹ چکا تھا اور کہیں کہیں گھاس اگی ہوئی تھی۔ مڑھی کی برجی کا رنگ بھی بارشوں اور دھوپ کی وجہ سے سیاہ پڑ چکا تھا۔ میں مڑھی کے چبوترے سے اتر کر راہداری میں پھرنے لگا۔ ایک جگہ سے زینہ محل کے چوبارے کو جاتا تھا۔

میں زینہ طے کر کے اوپر آ گیا۔ ایک نیم تاریک چھوٹا سا خالی کمرہ تھا جس کی سیاہ دیوار میں گویا آگے کو جھکی ہوئی تھیں۔ ایک عجیب قسم کی ٹھنڈی آسیبی خاموشی طاری تھی۔ میں چھوٹے سے دروازے میں سے گزر کر دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ یہ مستطیل کمرہ تھا اور اس کے جنگل کی جانب تین جروکے تھے۔ ایک جروکے میں سے چھوٹی سے گیلری باہر کو نکلی ہوئی تھی مگر گیلری کا فرش غائب تھا اور نیچے گہرائی میں زمین نظر آرہی تھی۔ میں اس کمرے میں سے بھی گزر گیا۔ کمرے کے آخر میں پتھر کی تین سیٹرھیاں چڑھ کر میں ایک اور گیلری میں آگیا۔
اور یہ گیلری ایک بڑے سے ہال کمرے کی دیوار کے ساتھ نصف دائرے کی شکل میں بنی ہوئی تھی۔ گیلری کا جنگلا جالی دار پتھروں کا تھا اور فرش سے دو ڈھائی فٹ اونچا تھا۔ میں نے نیچے جھانک کر دیکھا نیچے گول ہال کمرہ تھا جس کے وسط میں ایک گول چبوترہ تھا۔ اس چبوترے پر سنگ سرخ کا ایک تخت بنا ہوا تھا۔ تخت خالی تھا۔ ہال کمرے کی ایک جانب دیوار میں ایک چھوٹا محراب دار دروازہ تھا جس کے اندر اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ میں ایک مسلمان سیاح کی حیثیت سے یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ میرے ذہن پر خوف کا شائبہ تک نہیں تھا۔
مجھے اس تین سو سال پرانے قلعے میں ابھی تک عقل کو حیران کر دینے والی یا رونگٹے کھڑے کر دینے والی کوئی شے نظر نہیں آئی تھی۔ مجھے ان لوگوں پر ہنسی آ رہی تھی جنہوں نے اس قلعے کے بارے میں عجیب و غریب آسیبی کہانیاں گھڑ رکھی تھیں ۔
مجھے چونکہ اس قلعے میں کم از کم ایک رات ضرور گزارنی تھی۔ اس لئے میں کسی ایسی جگہ کی تلاش میں تھا کہ جہاں بیٹھ کر رات گزار سکوں۔ میں گیلری والے ہال کمرے سے نکل کر اس کے ساتھ والے چھوٹے کمرے میں آ گیا۔ یہاں جنگل والے تالاب کے رخ پر ایک چھوٹا سا جروکا بنا ہوا تھا جس میں سے تازہ ہوا بھی اندر آرہی تھی۔ میں وہیں جروکے کے پاس بیٹھ گیا۔ ابھی بیٹھے رہنے کے سواۓ میرا اور کوئی کام نہیں تھا۔ میں یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ یہ جو لوگوں نے مشہور کر دیا ہے کہ رانی بائی کا قلعہ آسیب زدہ ہے اور آدھی آدھی راتوں کو اس قلعے میں سے کسی عورت کے درد ناک گیت اور چیخوں کی آوازیں آتی ہیں اس کی کیا حقیقت ہے ۔
میں کسی اخبار یا کسی رسالے کی طرف سے یہ تحقیقات کرنے نہیں گیا تھا۔ یہ محض میرا زوق تجسس تھا۔

مجھے بچپن ہی سے جن بھوتوں اور چڑیلوں وغیرہ کو دیکھنے کا شوق تھا۔ میں اپنے شہر کے قبرستانوں میں اکثر جایا کرتا تھا کہ شاید وہاں کسی روح سے ملاقات ہو جائے مگر ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ میری کبھی کسی روح ، کسی چڑیل یا جن بھوت سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔

کچھ دیر میں رانی بائی کے قلعے سے باہر آکر تالاب کے کنارے ادھر ادھر پھرتا رہا۔ میں نے دو ہرن دیکھے جو تالاب پر آ کر پانی پی رہے تھے ۔ جیسے ہی انہیں میری موجودگی کا احساس ہوا وہ ڈر کر جنگل میں بھاگ گئے ۔ جب سورج مغرب کی جانب ڈھلنے لگا اور جنگل میں شام کا دھند لکا چھانا شروع ہو گیا تو میں قلعے میں آکر جروکے کے پاس بیٹھ گیا۔ بھری ہوئی بندوق میں نے اپنے پاس ہی رکھی ہوئی تھی۔ بیٹھے بیٹھے تھک گیا تو میں تھیلے کا سرہانہ بنا کر لیٹ گیا۔ مجھے نیند آگئی۔
معلوم نہیں کتنی دیر سویا رہا ہونگا کہ اچانک میری آنکھ کھل گئی۔ مجھے ایسے لگا جیسے میں نے کوئی آواز سنی تھی لیکن یہ نیند کی حالت میں سنی ہوئی کوئی آواز بھی ہو سکتی تھی۔ میرے چاروں جانب اندھیرا تھا۔ جروکے میں سے رات کی پھیکی پھیکی روشنی اندر آرہی تھی۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا اور کان لگا کر سنے گا کہ وہ آواز کیا تھی مگر وہاں سوائے جنگل کے سنائے اور تالاب کے کنارے بولتے ایک دو جھینگروں کی آوازوں کے اور کوئی آواز نہیں تھی۔

میں نے دیوار کے ساتھ ٹیک لگالی اور آنکھیں بند کر کے دوبارہ سونے کی کوشش کرنے لگا۔ مجھے آنکھیں بند کئے بمشکل ایک ڈیڑھ منٹ ہی گزرا ہوگا کہ مجھے ایسی آواز سنائی دی جیسے کسی نے آہ بھرنے کے انداز میں گہرا سانس لیا ہو ۔ میں نے دیوار کے ساتھ بیٹھے بیٹھے آنکھیں کھول دیں اور اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگا۔ میں نے جیب سے لائٹر نکال کر جلایا۔ لائٹر کی روشنی نے اس چھوٹے سے پرانے کمرے کی تاریکی کو تھوڑی دیر کے لئے روشن کر دیا۔
کمرہ بالکل خالی تھا۔ میں نے لائٹر بجھا کر جیب میں ڈالا تو مجھے ایک بڑی پراسرار سی خوشبو کا احساس ہوا۔ اس قسم کی خوشبو میں نے پہلے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔ شاید وہ خواب میں دیکھے ہوئے باغ کی خوشبو تھی اس کے ساتھ ہی کسی کے لباس کی سر سراہٹ سنائی دی۔ ایسے لگا جیسے کوئی ریشمی لباس والی عورت میرے قریب سے گزر گئی ہو۔ میں نے جلدی سے دوبارہ لائٹر جلایا۔ کمرہ خالی تھا وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ لیکن میں نے اپنے ہوش و حواس کے ساتھ کسی عورت کے آہ بھرنے اور اس کے ریشمی ملبوس کی خوشبو محسوس کی تھی۔
اس کے بعد ایک بار پھر وہی پراسرار سناٹا چھا گیا۔ اب میں اٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔ میں سمجھ گیا تھا کہ کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔

 اچانک جنگل میں سے انسانی چیخوں کی آوازیں بلند ہوئیں۔ یقین کریں میں جو اپنی طرف سے بڑا حقیقت پرست اور بہادر بنتا تھا ایک بار میں بھی خوف سے لرز گیا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے کسی درندے نے اچانک کسی انسان کو دبوچ لیا ہو اور اسے پھاڑ رہا ہو ۔ دوسرے لمحے چیخوں کی آواز بند ہو گئی اور جنگل کی خاموشی اور زیادہ گہری اور دہشت ناک ہو گئی۔ مجھے یاد آ گیا۔اس قلعے کے بارے میں یہ بات بھی مشہور تھی کہ قلعے کے آس پاس جنگل میں سے رات کے وقت ان بدنصیب انسانوں کی چیخیں سنائی دیتی ہیں جنہیں جنگلی درندوں نے ہڑپ کیا تھا۔ میں سوچ میں پڑ گیا۔ اس کا مطلب تھا کہ کم از کم یہ روایت ضرور سچی تھی۔
میری نیند غائب ہو چکی تھی۔ میں قلعے کے چھوٹے سے ویران کمرے کے جروکے کے پاس کان لگاۓ اس انتظار میں بیٹھا تھا کہ دیکھیں اب کون سی آواز سنائی دیتی ہے۔ میں نے لائٹر جلا کر اپنی کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی پر نگاہ ڈالی۔ رات کے پونے بارہ بج رہے تھے ۔ میں نے گردن اونچی کر کے پتھر کے جروکے میں سے باہر دیکھا جنگل ایسے ساکت اور خاموش تھا جیسے کسی نے اس پر جادو پھونک دیا ہو۔ میں نے جنگل کی کئی راتیں دیکھی تھیں۔ جنگل کتنا ہی خاموش کیوں نہ ہو اس کی خاموشی میں بھی کوئی نہ کوئی آواز ضرور سنائی دے جاتی ہے ۔

کسی درخت کی سوکھی شاخ کے اپنے آپ اچانک گرنے کی آواز ، کسی بھٹکے ہو ۓ پرندے کی آواز جو راستہ بھول کر ادھر آ نکلا ہو یا پھر دور کسی بھیٹریئے یا لگڑ بگڑ کے بولنے کی آواز . . . . . اور کچھ نہیں تو کہیں نہ کہیں کوئی جنیھگر ضرور بول رہا ہوتا ہے ۔
لیکن اس جنگل میں تو موت کی خاموشی چھا گئی تھی۔ ایسے لگتا تھا جیسے جنگل کی ہر چیز بے جان ہو گئی ہے یا پھر کسی نے جنگل کی ہر شے پر خاموشی کا طلسم پھونک دیا ہے ۔
میں اعتراف کرتا ہوں کہ اس بے جان خاموشی کا اثر مجھ پر بھی ہونے لگا تھا اور مجھے یوں محسوس ہونے لگا تھا جیسے میرے دل نے بھی دھڑکنا بند کر دیا ہے اور میں نے جلدی سے اپنا ہاتھ سینے پر رکھا۔ میرا دل دھڑک رہا تھا مگر اس کی دھڑکن بڑی مشکل سے محسوس ہو رہی تھی۔

اتنے میں مجھے کسی عورت کے رونے کی آواز سنائی دی۔ میرے کان کھڑے ہو گئے ۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ یہ پراسرار آسیبی آواز سن کر کچھ دیر کے لئے میرے جسم کے رونگٹے بھی کھڑے ہو گئے تھے لیکن اپنے حقیقت پسند مزاج کی وجہ سے میں نے بڑی جلدی اپنے حواس پر قابو پالیا اور رونے کی آواز کو بڑے غور سے سننے لگا۔ رونے کی آواز کسی غم زدہ عورت کی تھی جو کبھی تو مجھے اپنے بالکل قریب محسوس ہوتی اور کبھی دور چلی جاتی۔ چند لمحوں کے بعد رونے کی آواز بند ہو گئی اور ایک بار پھر خاموشی چھا گئی . . . .
مگر یہ خاموشی زیادہ دیر تک نہ رہی۔ پھر ایسی آواز آنے لگی جیسے کوئی غم نصیب عورت روتے ہوۓ کوئی درد ناک گیت گاہ رہی ہو۔ یہ روایت بھی میں نے سن رکھی تھی کہ اس قلعے میں سے آدھی رات کو پہلے کسی عورت کے رونے اور پھر روتے ہوۓ درد بھرے گیت گانے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ میں کان لگا کر غور سے سننے لگا۔ عورت کی آواز ایسی تھی جیسے بین کرتے ہوئے ساتھ ساتھ گیت کے بول دہرا رہی ہو ۔ گیت کے بول میری سمجھ میں بالکل نہیں آ رہے تھے ۔
میں نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح سے معلوم کر سکوں کہ وہ کس زبان کا گیت گا رہی ہے مگر کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔ عورت کے بین ایسے تھے کہ ان میں خوف بھی تھا اور دہشت بھی محسوس ہونے گئی تھی۔ پھر ایک دم یہ آواز بھی غائب ہو گئی۔ رانی بائی کے قلعے کے بارے میں ، میں نے جو روایتیں سنی تھیں وہ سچی ثابت ہو چکی تھیں۔ اب میں یہ معلوم کرنا چاہتا تھا کہ اس کی حقیقت کیا ہے اور یہ عورت کون ہے
میں نے بیٹھے بیٹھے اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ آوازیں قلعے کی اس جانب سے آرہی ہیں جس طرف قلعے کا بڑا کمرہ تھا جس کی دیوار کے ساتھ نصف دائرے میں سنگ سرخ کی پرانی گیلری بنی ہوئی تھی۔
میں نے بندوق سنجالی اور اٹھ کر دبے پاؤں کمرے سے باہر نکل کر گیلری والے کمرے کی طرف بڑھا۔ اندھیرے میں مجھے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ میں نے جیب سے لائٹر نکال کر جلا لیا۔ لائٹر کی روشنی میں، میں نے پتھر کے زینے کی تین سیٹرھیاں چڑھیں اور اوپر گیلری میں آگیا۔ وہاں آتے ہی میں نے لائٹر بجھا دیا اور وہیں بیٹھ گیا اور گیلری کے جنگلے کی جالیوں میں سے نیچے ہال کمرے میں دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ ہال کمرے کے وسط میں چبوترہ اسی طرح خالی خالی تھا۔
چبوترے کے اوپر بنا ہوا پتھر کا تخت بھی خالی اور ویران پڑا تھا۔ فضا میں ایک سنسناہٹ سی لرز رہی تھی۔ایسے لگ رہا تھا جیسے یہاں کچھ ہونے والا ہے۔ میں پتھر کی جالی کے ساتھ لگ کر چپ چاپ اور دم بخود سا ہو کر بیٹھا نچے دیکھ رہا تھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہال کمرے کی دیواروں پر اندھیرا تھا مگر کمرے کے درمیان میں خدا جانے کہاں سے دھندلی دھندلی روشنی آ رہی تھی۔ یہ روشنی دھند کی طرح صرف چبوترے اور اس کے اوپر والے خالی تخت تک ہی محدود تھی۔
جنگل کی طرف تو پہلے ہی سناٹا طاری تھا۔ سنسناہٹ کی لرزتی ہوئی آواز ایسی تھی جیسے یہ کسی آواز کی صدائے باز گشت ہو اور آہستہ آہستہ مدھم پڑر ہی ہو ۔ پھر یہ آواز بھی گم ہو گئی۔ میں نے اپنی شکاری اور جہاں گردی کی زندگی میں کئی راتیں جنگلوں صحراؤں اور بیابانوں میں کاٹی ہیں مگر ایسی خاموشی میں نے کسی جگہ محسوس نہیں کی تھی۔ یہ خاموشی کی خاموشی تھی۔ موت کا سکوت بھی اس خاموشی کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ مجھے اپنا وجود اس خاموشی میں پتھر کے مجسے میں تبدیل ہوتا
محسوس ہونے لگا تھا۔
میں نے جلدی سے اپنے جسم پر ہاتھ پھیرا اور خدا کا شکر ادا کیا کہ میں پتھر کا مجسمہ نہیں بنا تھا۔ میں اس ازلی اور ابدی اور بہت حد تک آسیب زده سکوت کا حصہ بھی تھا اور اس کا تماشائی بھی تھا۔
یہ وہشت ناک سکوت زیادہ دیر تک قائم نہ رہا اور اچانک مجھے کسی عورت کے بین کرنے کی مدھم آواز سنائی دی۔ آواز ایسے لگ رہا تھا جیسے قلعے کے کسی دوسرے حصے سے آرہی تھی لیکن اس آواز سے موت کی خاموشی کا طلسم ٹوٹ گیا تھا۔ عورت کے آہستہ آہستہ بین کرنے اور رونے کی آواز قریب ہوتی جارہی تھی۔ میں نے اس آواز کو پہچان لیا تھا۔ یہ وہی آواز تھی جسے میں جروکے والے کمرے میں بیٹھا پہلے بھی سن چکا تھا۔
مجھے یہ سوال پریشان کر رہا تھا کہ یہ کس عورت کی آواز ہے۔ یہ کون بدنصیب عورت ہے جو آدھی رات کے وقت اس ویران قلعے میں آکر رو رہی ہے۔ میں اس عورت کو اپنی زندگی کی کوئی زندہ ہستی سمجھ رہا تھا۔
لیکن بہت جلد یہ معمہ حل ہو گیا۔ لیکن معمہ اس طرح حل ہوا کہ حل ہونے کے بعد اس نے ایک ایسے معمے کی شکل اختیار کر لی جس کا حل شاید کسی کو معلوم نہیں۔۔۔۔
عورت کے رونے اور بین کرنے کی آواز جیسے جیسے قریب ہوتی جارہی تھی میرے اشتیاق میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور مجھ پر ایک خوف سی کیفیت طاری ہو گئی تھی کہ یہ عورت کون ہے اور کس طرف سے اس کمرے میں آرہی ہے۔ دیواروں پر جیسے اندھیرے کے سیاہ گہرے سائے پڑے ہوئے تھے۔ پھر ایک ایسی بات ہوئی جس نے میرے بدن میں خوف کی سرد لہر دوڑا دی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے والی دیوار کا اندھیرا ایک جگہ سے غائب ہو گیا اور دیوار میں ایک غار نظر آنے لگا۔
پھر اس غار میں سے ایک سیاہ فام آدمی نمودار ہوا جس نے دونوں ہاتھوں سے تلوار تھام رکھی تھی اور آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا غار میں سے نکل رہا تھا۔ اس کے پیچھے دو اور حبشی غلام نمودار ہوۓ جنہوں نے ایک جوان عورت کو زنجیروں میں جکڑ رکھا تھا اور اسے آہستہ آہستہ کھینچتے ہوۓ لا رہے تھے ۔
عورت نے گلابی رنگ کی ریشمی ساڑھی پہنی ہوئی تھی۔ بال گھنے تھے ۔ سر پر سفید ہیروں سے جڑا ہوا چھوٹا سا تاج تھا۔ عورت بڑی خوبصورت تھی۔ اس کے نقش تیکھے تھے اور گلے میں بھی موتیوں کا ہار تھا۔ عورت سر کو دائیں بائیں کرب کے ساتھ ہلاتی دھیمی آواز میں بین کرتے ہوئے رو رہی تھی۔ اس کے پیچھے دو اور سیاہ فام حبشی غلام نمودار ہوئے جنہوں نے ایک زر نگار کرسی کو اپنے کندھوں پر اٹھار کھا تھا۔ کرسی پر ایک منڈھے ہوئے سر والا آدمی گردن اٹھائے بیٹھا تھا۔ اس آدمی کا رنگ گندمی تھا، آنکھوں میں طلسمی چمک تھی ۔ جسم کو ایک زرد چادر میں لپیٹ رکھا تھا اس کے ہاتھ میں ایک سیاہ رنگ کی چھڑی تھی۔ وہ اس شان سے کرسی پر بیٹھا تھا
جیسے اس قلعے کا مالک ہو۔ یہ جلوس کمرے کے وسط میں چبوترے کے پاس آکر رک گیا۔ منڈے ہوۓ سر والے آدمی کی کرسی حبشی غلاموں نے چبوترے کے سامنے آہستہ سے رکھ دی۔
دونوں غلام بڑے ادب سے کرسی کے دائیں بائیں کھڑے ہو گئے۔ جن دو حبشی غلاموں نے عورت کو پکڑ رکھا تھا وہ عورت کو کھینچتے ہوۓ چبوترے پر لے گئے اور اسے تخت پر لٹا دیا۔ عورت نے کوئی مزاحمت نہ کی وہ ایسے لیٹ گئی جیسے پہلے سے تیار ہو ۔ دونوں غلام پیچھے ہٹ گئے ۔ اب وہ غلام آگے بڑھا جس نے ہاتھوں میں تلوار اٹھا رکھی تھی۔ وہ عورت کے پہلو کی جانب تخت کے قریب آکر کھڑا ہو گیا۔ عورت اب بین نہیں کر رہی تھی۔ اس کے منہ سے بار بار یہی الفاظ نکل رہے تھے۔ ” مجھے جانے دو . . . . . مجھے جانے دو۔‘‘ تلوار بردار حبشی غلام نے گردن آہستہ سے موڑ کر کرسی پر بیٹھے آدمی کی طرف دیکھا۔
کرسی پر بیٹھے زرد پوش آدمی نے آہستہ سے اپنی چھڑی اوپر اٹھا دی۔ اس کے ساتھ ہی حبشی غلام نے تلوار کے دستے کو دونوں ہاتھوں میں تھام کر اوپر اٹھایا اور پھر تلوار پوری قوت سے تخت پر لیٹی ہوئی عورت کے سینے میں گھونپ دی۔ عورت کے حلق سے ایک دلدوز چیخ بلند ہوئی اور ساتھ ہی اس کے سینے سے خون کا فوارہ اچھل پڑا۔ خون کے چھینٹے حبشی غلام کے جسم پر پڑنے لگے ۔ حبشی غلام نے تلوار عورت کے سینے سے نکالی اور تلوار کو دونوں ہاتھوں میں تھام کر دو قدم پیچھے ہٹ کر ادب سے کھڑا ہو گیا۔ پھر کرسی پر بیٹھا ہوا ذرد پوش آدمی اٹھا اور بڑے وقار سے قدم اٹھاتا چبوترے کی سیٹرھیاں چڑھ کر تخت کے پاس آکر کھڑا ہو گیا۔ تخت پر عورت کی لاش خون میں لت پت بے حس و حرکت پڑی تھی۔
زرد پوش آدمی نے ہاتھ اٹھا کر ایسے اشارہ کیا جیسے کوئی چیز طلب کر رہا ہو ۔ اس کے ہاتھ کا اشارہ پاکر کرسی کی دونوں جانب کھڑے حبشی غلام دوڑ کر چبوترے کے پاس آۓ پھر انہوں نے چبوترے کی دیوار میں سے پتھر کی سل کو پیچھے ہٹایا اندر سے ایک سیاہ مرتبان نکالا جس کا منہ ڈھکن سے بند تھا۔ غلاموں نے سیاہ مرتبان زرد پوش کے سامنے تخت پر عورت کی لاش کے پاس رکھ دیا اور خاموشی سے پچھلے پاؤں چبوترے سے اتر گئے ۔ میں یہ منظر خوف زدہ آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اور حیران ہو رہا تھا کہ یہ سب کچھ میں خواب میں دیکھ رہا ہوں یا یہ عالم بیداری ہے ۔
میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ میں دہشت زدہ ضرور تھا اور پتھر کی جالی سے لگا پتھر بن کر یہ خونی کھیل دیکھ رہا تھا۔ زرد پوش آدمی نے سیاہ مرتبان کا ڈھکن الگ کر دیا اور عجیب سے منتر پڑھنے شروع کر دیئے ۔ منتر پڑھتے ہوۓ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہ عورت کی لاش پر مرتبان میں سے کوئی راکھ سی نکال کر چھڑک دیتا تھا۔ آہستہ آہستہ عورت کی لاش میں سے دھوئیں کی سیاہ لہریں اٹھنا شروع ہو گئیں۔ یہ دھواں عورت کی لاش سے الگ ہو کر لہروں کی شکل میں اس کے اوپر گول دائرے میں چکر لگانے لگا تھا۔
جیسے جیسے دھوئیں کی لہریں گہری سیاہ ہو رہی تھیں عورت کی لاش غائب ہونے لگی تھی۔ پھر عورت کی لاش غائب ہو گئی اور اس کی جگہ تخت کے اوپر سیاہ دھوئیں کا ایک گولہ سا چکر لگا رہا تھا۔
زرد پوش آدمی نے منتر پڑھتے پڑھتے اپنا ایک ہاتھ بلند کیا، دھوئیں کا گولہ گھومتے گھومتے چھوٹا ہوتا چلا گیا۔ پھر اس دھوئیں نے ایک عورت کے جسم کی شکل اختیار کر لی۔ جیسے ہی دھواں عورت کے جسم میں تبدیل ہوا زرد پوش آدمی نے دھوئیں کو اپنی مٹھی میں بند کر لیا۔ دھواں عورت کے چھوٹے سے جسم کی شکل میں ذرد پوش آدمی کی مٹھی میں بند تھا۔ وہ منتر اسی طرح پڑھتا جارہا تھا۔ اس کی آواز پہلے سے بلند ہو گئی تھی۔ پھر زرد پوش آدمی نے منتروں کا جاپ کرتے ہوۓ اپنی وہ مٹھی مرتبان کے اندر ڈال دی جس میں عورت کی لاش کا دھواں مجسم روپ میں تھا۔
کچھ دیر اپنی مٹھی مرتبان کے اندر ڈالے رکھنے کے بعد زرد پوش آدمی نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ مرتبان سے باہر نکال کر مرتبان کا منہ ڈھکن سے بند کر کے ڈھکن کو اچھی طرح سے کس دیا اور دونوں بازو پھیلا کر چھت کی طرف دیکھ کر حلق سے ایک چیخ کی آواز نکالی اور مرتبان کو دونوں ہاتھوں میں تھام کر آہستہ آہستہ چبوترے کی سیڑھیاں اتر کر اس جگہ آگیا جہاں چبوترے کی دیوار میں سے سل کو ہٹا کر مرتبان باہر نکالا گیا تھا
ذرد پوش آدمی کے اشارے سے دو حبشی غلام آگے بڑھے ۔ انہوں نے زرد پوش کے ہاتھوں سے سیاہ مرتبان اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور پھر مرتبان کو چبوترے کے شکاف کے اندر رکھ کر پتھر کی سل سے چبوترے کی دیوار کے شکاف کو بند کر دیا۔ زرد پوش آدمی واپس مڑا اور قدم قدم چل کر اپنی زر نگار کرسی پر جا کر بیٹھ گیا۔ دونوں غلاموں نے کرسی کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا۔ جس حبشی غلام نے عورت کے سینے میں تلوار گھونی تھی وہ خون آلود تلوار دونوں ہاتھوں میں تھام کر اسے اوپر اٹھاۓ کرسی کے آگے آگے چلنے لگا۔ باقی دونوں غلام پیچھے ہو گئے اور سر جھکاۓ کرسی کے پیچھے پیچھے ادب سے چلنے لگے۔
یہ عجیب و غریب جلوس اس دیوار کی طرف بڑھ رہا تھا جس کے شگاف میں سے یہ نکلا تھا۔ دیوار ساری تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ صرف جہاں غار نما شگاف تھا وہاں ہلکی ہلکی پراسرار سی روشنی تھی۔ زرد پوش آدمی اپنے غلاموں کے ساتھ دیوار کے غار نما شگاف میں داخل ہوتے ہی میری نظروں سے اوجل ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی ہال کمرے میں تاریکی چھا گئی۔ چبوترے اور تخت پر پہلے جو دھندلی دھندلی روشنی دکھائی دے رہی تھی وہ بھی اب غائب ہو چکی تھی۔ میری آنکھوں کے سامنے ایک خونی ڈرامہ کھیلا گیا تھا۔ میں حیران بلکہ حیرت زدہ وہیں کا وہیں بیٹھا تھا اور سوچ رہا تھا
کہ جو کچھ میں نے دیکھا ہے کیا وہ حقیقت تھی یا محض میرا وہم تھا۔ کیا یہ سب کچھ حقیقی دنیا میں ہوا تھا یا سب کچھ عالم ماورا میں وقوع پذیر ہوا تھا۔ اگرچہ یہ ساری باتیں ، سارے خونی منظر جو میں نے دیکھے تھے میری آنکھوں کے سامنے ہوئے تھے لیکن اس کے باوجود میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ تخت پر پڑی عورت کی لاش کیسے غائب ہو کر دھواں بن گئی تھی۔
میرے ذوق تجسس نے کہا کہ چبوترے کی دیوار کی سل ہٹا کر سیاہ مرتبان نکال کر اسے کھول کر دیکھوں کہ اس کے اندر دھواں ابھی تک عورت کے جسم کی شکل میں ہی ہے کہ نہیں ؟ حالانکہ مجھے اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا تھا بلکہ الٹا نقصان پہنچنے کا خدشہ تھا لیکن میرے ارادوں پر میرا شوق اور ذوق تجسس غالب تھا۔ میں یہ راز معلوم کرنا چاہتا تھا کہ مرتبان کے اندر اور کیا کیا ہے ؟
اگر اس وقت مجھے معلوم ہو جاتا کہ اس مرتبان کے کھولنے سے مجھ پر کیسی کیسی بھیانک مصیبتیں نازل ہو جائیں گی تو میں اس کالے مرتبان کو ہاتھ بھی نہ لگاتا۔ لیکن کہتے ہیں کہ مقدر میں جو لکھا ہوتا ہے وہ ہو کر رہتا ہے۔ چنانچہ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ جب میں نے تسلی کر لی کہ پراسرار ہال کمرے میں اب کوئی بدروح نہیں رہی تو میں گیلری کا تاریک زینہ اتر کر چبوترے کے پاس گیا۔ اندھیرے میں مجھے تھوڑا تھوڑا دکھائی دے رہا تھا۔
میں نے تخت کو غور سے دیکھا وہاں کسی جگہ پر خون کے نشان نہیں تھے۔ میں چبوترے کی دیوار کے پاس اس جگہ بیٹھ گیا جہاں سیاہ فام حبشی غلاموں نے سیاہ مرتبان چھپایا تھا۔ میں نے ہاتھ سے ٹٹول کر دیکھا کہ ایک جگہ سے پتھر کی سل ذراسی اکھڑی ہوئی تھی۔
میں نے سل کو دونوں ہاتھوں سے زور لگا کر پیچھے کھسکالیا۔ پھر شکاف میں جھانک کر دیکھا۔ وہاں سیاہ مرتبان موجود تھا۔ جیسے ہی میں نے مرتبان کو ہاتھ لگایا مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے بجلی کا خفیف سا جھٹکا لگا ہو ۔ میں نے ہاتھ پیچھے کر لیا۔ دوسری بار ہاتھ لگایا تو کسی قسم کا جھٹکا نہ لگا۔ میں نے مرتبان کو باہر نکال لیا۔ اس کے ڈھکن کو کھولنے لگا کہ کچھ سوچ کر رک گیا۔ پھر اس سل کو چبوترے کی دیوار کے ساتھ لگا کر شکاف کو بند کر دیا۔ مرتبان کو بغل میں دبایا اور زینہ چڑھ کر گیلری میں آیا۔ گیلری کا زبینہ اتر کر راہ داری میں سے ہوتا ہوا واپس جروکے والی چھوٹی سی کوٹھڑی میں آگیا۔ کوٹھڑی میں اندھیرا تھا۔
میں نے لائٹر جلا کر اس کی روشنی میں مرتبان کا جائزہ لیا۔ یہ کسی مضبوط دھات کا بنا ہوا مرتبان تھا۔ اس کا رنگ کچھ اور ہوگا لیکن اتنی مدت سے دیوار کے اندر پڑے پڑے اس کا رنگ سیاہ پڑ گیا تھا۔ میں نے ڈھکن کو دیکھا۔ ڈھکن پیچ دار تھا۔ میں اسے گھما کر کھولنے لگا تو جیسے اندر سے آواز سی آئی کہ اسے کھولو۔ میں رک گیا۔ مرتبان کو دیوار کے ساتھ اپنے قریب ہی رکھ لیا اور سوچنے لگ کہ اسے کھولوں یا نہ کھولوں؟
میں نے کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ جب آدمی کے کسی گناہ کی پاداش میں اس پر سزا کے طور پر کوئی مصیبت نازل ہوتی ہے تو سب سے پہلے اس آدمی کی عقل ماری جاتی ہے۔ عقل ان معنوں میں ماری جاتی ہے کہ قدرت اس سے اس کی قوت فیصلہ چین لیتی ہے۔ وہ یہ کروں یا نہ کروں کے چکر میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ مرتبان کھولوں یا نہ کھولوں . . . . . آدمی خطا کار ہے۔ اس سے زندگی میں خطائیں سرزد ہو جاتی ہیں۔ اس کی بعض خطائیں، بعض گناہ اللہ غفور الرحیم معاف فرما دیتا ہے لیکن بعض خطائیں ایسی ہوتی ہیں جن کی سزا انسان کو ضرور بھگتنی پڑتی ہے ۔ مجھے بھی قدرت کی طرف سے میرے کسی ایسے ہی گناہ کی سزا ملنے والی تھی۔
میں آسیبی قلعے کی جھروکے والی کوٹھڑی میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ مرتبان کو کھولوں کہ نہ کھولوں؟ - جب میں کسی فیصلے پر نہ پہنچ سکا تو میں نے کو ٹھڑی کی دیوار کے ساتھ سر لگا دیا اور آنکھیں بند کر لیں ۔ سربستہ رازوں کو بے نقاب کرنے کا شوق کہتا تھا کہ ابھی مرتبان کو کھول کر دیکھو کہ اس کے اندر کیا ہے۔ دل کے اندر سے بڑی دھیمی سی آواز آئی کہ اسے مت کھولنا،اسے وہیں چھوڑ آؤ جہاں سے اٹھا کر لاۓ ہو۔ اس کشمکش میں مجھ پر غنودگی سی طاری ہونے لگی۔ پھر میں عالم خواب میں پہنچ۔گیا۔
کیا دیکھتا ہوں کہ میں ایک تاریک غار میں سے گزر رہا ہوں ۔ میں زمین پر چل نہیں رہا میرے پاؤں زمین سے اوپر اٹھے ہوئے ہیں اور میں ہوا میں پرواز کرتا جا رہا ہوں۔غار میں اندھیرا ہی اندھیرا ہے ۔ پھر اچانک مجھے کسی عورت کے رونے کی آواز آتی ہے۔ میں اپنے آپ اس آواز کی طرف مڑ جا تا ہوں۔ یہ آواز غار کے اندر بنی ہوئی کوٹھڑی میں سے آ رہی ہے ۔ کوٹھڑی کا دروازہ کھول کر دیکھتا ہوں کہ اندر فرش کے درمیان ایک گول کنواں ہے ۔ کنوئیں کے اندر روشنی ہو رہی ہے ۔ عورت کے رونے کی آواز کنوئیں کے اندر سے آرہی ہے۔ میں کنوئیں کی منڈیر پر سے کنوئیں میں جھانکتا ہوں ۔ کنوئیں کی تہہ میں آگ کے شعلے بلند ہو رہے ہیں۔
عورت کے رونے کی آواز ان شعلوں میں سے آرہی ہے۔ وہ کہہ رہی ہے۔ مجھے باہر نکالو . . . . . مجھے باہر نکالو . . . . . میں جل رہی ہوں . . . . . میں جل رہی ہوں۔“
میں عالم خواب میں ہی عورت کو کہتا ہوں کہ میں تمہیں کیسے باہر نکالوں۔“ عورت روتے روتے کہتی ہے ۔ کنوئیں کا ڈھکن کھول دو۔ کنوئیں کا ڈھکن کھول دو۔ مجھے عذاب سے نجات مل جائے گی۔‘‘ میں عورت کو کہتا ہوں ۔ کنوئیں کا تو کوئی ڈھکن نہیں ہے ۔ کنواں تو کھلا ہے ۔“ عورت کی پھر کر کہتی ہے ۔ کنوئیں کا ڈھکن کھول دو۔ مجھے باہر نکالو۔ مجھے باہر نکالو۔“
اس کے ساتھ ہی اچانک میری آنکھ کھل جاتی ہے ۔ میں چونک کر ادھر ادھر دیکھتا ہوں۔ یقین نہیں آتا کہ میں نے کوئی خواب دیکھا تھا۔ مجھے خیال آتا ہے کہ کہیں وہ مرتبان میں قید عورت کی روح تو نہیں تھی جو بار بار کہہ رہی تھی کہ مجھے کنوئیں سے باہر نکالو۔ مجھے عذاب سے نجات دلاؤ۔“
میرا حقیقت پسند ذہن اس خواب کو سچ ماننے سے انکار کر رہا تھا۔ اچانک اس عورت کی آواز ایک بار پھر سنائی دی۔ وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ ”

پُراسرار حویلی - پارٹ 3

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, 
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں