خونی عشق - قسط نمبر3
تین دن گزر چکے تھے اس اندوہ ناک سانحے کو ۔۔
تیمور آفندی کے تین بڑے بھائی تھے ۔۔
جن میں سے سب سے بڑے صابر آفندی کئی سال پہلے ہی رضائے الہیٰ سے انتقال کر گئے تھے ۔۔
دوسرے نمبر پر جعفر آفندی تھے جو اس رات ہانیہ کے علاوہ بلیوں کا شکار ہوئے تھے ۔۔
تیسرا شکار جعفر صاحب کے بعد والے سمیر صاحب کی اہلیہ رضیہ تھیں ۔۔
اور ایک تھی ہانیہ ۔۔
حمزہ کی اکلوتی پیاری بہن ۔۔
جس کی موت نے حمزہ کو توڑ کر رکھ دیا تھا ۔۔
ان کی ایک بیوہ پھپھو بھی تھیں جو فوت ہو چکی تھیں ۔۔
ان کا اکلوتا بیٹا ٹین ایج میں ہی کئی سال پہلے ایسے ہی بلیوں کا شکار ہوگیا تھا ۔۔
جبکہ دماغی طور پر معزور ہوجانے والی بیٹی طوبی کسی کمرے میں بند رہتی ۔۔
تیمور آفندی کو چھوڑ کر ان سارے بہن بھائیوں نے اپنے پیاروں پر بلیوں کی بلا کا عذاب سہا تھا ۔۔
اب سب کے لب ہنسنا کیا جیسے بولنا بھی بھول گئے تھے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیمور آفندی نے آج شہلا سے اس شب کا احوال سنا اور خاموشی سے اس کا سر تھپک کر چلے گئے ۔۔
ان کا دل اتنا اداس تھا کہ وہ شہلا کو کوئی حوصلہ بھی نہ دے سکے ۔۔
تین لاشیں اٹھی تھیں اس گھر سے ۔۔
وہ بھی اس حالت میں کہ دیکھ کر روح کانپ اٹھے ۔۔
شہلا نے ان لاشوں کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا تھا لیکن وہ اپنے پیاروں کو اس حال میں دیکھ چکی تھی ۔۔
اسے اندازہ تھا لاشوں کا کیا حال ہوا ہوگا اور حویلی کے باقی افراد اس وقت کس کرب میں مبتلا ہوں گے ۔۔
حویلی میں ہر طرف ویرانی چھائی تھی ۔۔
نہ کسی کو کھانے کا ہوش تھا نہ پینے کا ۔۔
امتل نازیہ اور فرح مارے باندھے کچھ الٹا سیدھا پکا لیتیں اور سب زہر مار کر لیتے ۔۔
شہلا کو اس ماحول سے وحشت ہو رہی تھی ۔۔
لیکن یہ حویلی ہی اب اس کی آخری پناہ گاہ تھی ۔۔
اسے اس سب کو برداشت کرنا ہی تھا ۔۔
وہ سب سے اونچی سیڑھی پر کھڑی بڑے سے ہال نما لائونج کو گھور رہی تھی ۔۔
کتنے لوگ تھے اس حویلی میں لیکن ۔۔
ہر طرف ہو کا عالم تھا ۔۔
شہلا ہمت کر کے نیچے اترنے لگی ۔۔
ریلنگ پر ہاتھ رکھا تو ہاتھ مٹی سے بھر گیا ۔۔
کسی کو بھی صفائی ستھرائی کا ہوش نہیں تھا ۔۔
ہوش تو خیر خود کا بھی نہیں تھا ۔۔
شہلا نے جائزہ لیا ۔۔
ساری حویلی دھول مٹی سے اٹی تھی ۔۔
وہ واپس اپنے کمرے میں جانے کے خیال سے مڑی لیکن کمرے کے دروازے پر پہنچ کر وہ پھر کچھ سوچ کر پلٹی اور تیزی سے سیڑھیاں اترنے لگی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حمزہ نماز سے فارغ ہو کر دعا کے انداز میں ہاتھ پھیلائے خالی الذہنی کی کیفیت میں بیٹھا تھا جب کچھ گرنے کی زوردار آواز پر اچھل کر بجلی کی تیزی سے کمرے سے باہر بھاگا ۔۔
اس کے کمرے کے ہی باہر رکھا بڑا سا گملہ نیچے ٹوٹا گرا تھا اور شہلا پائنچے چڑھائے دوپٹہ سائڈ کر کے باندھے ہاتھ میں جھاڑو پکڑے افسوس کم خوف زیادہ سے دیکھ رہی تھی ۔۔
حمزہ کو دیکھ کر اس ک رنگ بلکل ہی اڑ گیا ۔۔
حمزہ نے بے تاثر نظروں سے دھلے دھلائے چمکتے ہوئے ہال کو دیکھا ۔۔
پھر ماسی بنی شہلا کو ۔۔
"یہ آپ کیا کر رہی ہیں اور کیوں ۔۔؟"
حمزہ کی آواز بھی اس کے چہرے کی طرح بے تاثر تھی ۔۔
شہلا اپنی جگہ سخت شرمندہ ہو رہی تھی ۔۔
"میں یہاں رہ رہی ہوں ۔۔
کک کچھ کر دیا تو کیا ہوگیا ۔۔
یہاں سب ۔۔"
"لسن مس شہلا ۔۔"
حمزہ نے اس کی بات کاٹ کر کہا ۔۔
اس بار اس کا لہجہ سخت تھا ۔۔
"آپ یہاں مہمان بن کر آئی ہیں ۔۔
مہمان بن کر رہیں ۔۔
نہ آپ حویلی کی ملازمہ ہیں نہ مستقل مکین ۔۔
سو پلیز ۔۔"
حمزہ نے مہذب لفظوں میں اسے اس کی اوقات میں رہنے کو کہا تھا ۔۔
شہلا کا چہرہ اہانت کے احساس سے دہکنے لگا لیکن وہ کچھ بولے بغیر دوپٹا ٹھیک کرنے لگی ۔۔
حمزہ نے ایک اچٹتی نظر شہلا کی بھری ہوئی آنکھوں پر ڈالی ۔۔
پھر بے پروائی سے سر جھٹک کر واپس کمرے میں گھس گیا ۔۔
پیچھے شہلا اپنی سسکیوں کا گلا گھونٹتی ناراض بچے کے طرح سینے پر ہاتھ لپیٹ کر دیوار سے پشت ٹکا کر کھڑی ہوگئی ۔۔
ابھی وہ لب کچلتی جھاڑو اس کی اصل جگہ رکھنے کے لیئے سیدھی کھڑی ہوئی ہی تھی جب حویلی کا دیو قامت قیمتی لکڑی کا دروازہ کھلا ۔۔
شہلا نے دیکھا ہاتھ میں سفری بیگ پکڑے وہ شمعون تھا ۔۔
اندر داخل ہوتے شمعون کی نظر فوراً اس پر پڑی تھی ۔۔
وہ اپنی جگہ رک گیا ۔۔
"اسلام علیکم ۔۔"
شہلا اس سے بہت دور تھی ۔۔
سلام کی آواز بھی بہت دھیمی تھی ۔۔
شہلا کو اندازہ تھا شمعون نے اس کا سلام نہیں سنا ہوگا ۔۔
لیکن وہ نہیں جانتی تھی ۔۔
شمعون کی سماعت کتنی تیز تھی ۔۔
شمعون کے لب پل بھر کو پھیلے ۔۔
اس کی نظروں نے دور تک شہلا کا پیچھا کیا تھا بے اختیاری میں وہ شہلا کے پیچھے بڑھنے لگا جب تیمور آفندی اپنے کمرے سے نکلے اور ایک حیران نظر جگمگاتے لائونج پر ڈال کر شمعون کی طرف بڑھے ۔۔
شمعون نے لمحہ بھر میں اپنے سپاٹ چہرے پر مصنوعی رقت طاری کر لی ۔۔
"تیمور بھائی یہ کیا ہوگیا ۔۔
کیسے ہوا یہ سب آخر ۔۔
میرے کاغزات میں کچھ مسئلہ ہوگیا تھا سو میں فوراً کینڈا سے آ نہیں سکا تھا ۔۔
اتنا سب کچھ ہوگیا میرے پیٹھ پیچھے ۔۔
کیسے بھائی ۔۔"
کوشش کے باوجود شمعون اپنی آنکھوں میں ایک آنسو نہیں لا سکا ۔۔
لیکن لہجے کو ہر ممکن حد تک بوجھل کر لیا ۔۔
تیمور آفندی سے کچھ نہیں کہا جا سکا ۔۔
وہ بس شمعون کے چوڑے شانوں میں منہ دیئے خود پر ضبط کرتے رہے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے کمرے میں داخل ہوتے ساتھ ہی شمعون کی پیشانی کی رگ پھڑکنے لگی اور جبڑے کس گئے ۔۔
اس کی ماں وہاں پہلے سے موجود تھی اور صوفے پر بیٹھی اس کی منتظر تھی ۔۔
"اس رات کے بعد تم اچانک کہیں چھپ کیوں گئے تھے ۔۔"
اس کی ماں بہت سنجیدہ اور پہلے کی بنسبت صحت مند لگ رہی تھی ۔۔
وجہ یقیناً انسانی گوشت اور خون تھا ۔۔
وہ لوگ ہر طرح کا گوشت کھا سکتے تھے ۔۔
انسان کا ۔۔
جانور کا ۔۔
زندہ کا ۔۔
یا مردہ کا ۔۔
لیکن جب ان میں سے کوئی بیمار ہوتا تو انسانی خون اور گوشت ان پر دوائی جیسا اثر کرتا تھا ۔۔
اور سب سے لذیذ بھی وہی گوشت اور خون تھا ۔۔
لیکن کیونکہ ان کے قبیلے کی سرداری شمعون کے پاس تھی ۔۔
سو وہ بہت کم انہیں انسانی گوشت کی طرف بڑھنے دیتا تھا ۔۔
اور اس حویلی کے تمام افراد سے ہمیشہ دور رہنے کو کہتا تھا ۔۔
وجہ صرف یہ تھی کہ وہ تیمور آفندی سے بے حد محبت کرتا تھا ۔۔
اور تیمور آفندی حویلی کے باقی افراد سے بھی محبت کرتے تھے ۔۔
لیکن اب شمعون کا دل کسی اور کے لیئے بھی دھڑکنے لگا تھا ۔۔
اس کے اندر شرارے پھوٹ پڑے تھے شہلا کے ہمیشہ کے لیئے حویلی چھوڑ جانے پر ۔۔
وہ حویلی والوں کو سبق دینا چاہتا تھا ۔۔
"دیکھو جب دل سے قریب شخص دور ہوجائے تو کیسا لگتا ہے ۔۔"
شمعون نے حکم دیا تھا کہ تیمور آفندی اور ان فیملی کو چھوڑ کر حویلی میں جس پر چاہے حملہ کردو ۔۔
اس کے حکم کو مدنظر رکھ کر ان بلیوں نما بلائوں نے تینوں فیملیز میں سے کسی نہ کسی ایک فرد کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا ۔۔
"تم حویلی والوں پر کبھی حملہ نہیں کرنے دیتے ۔۔
پھر اس رات کیوں ۔۔
وہ بھی ایک ساتھ تین ۔۔"
اس کی ماں اپنی تیز نظروں سے شمعون کے سپاٹ چہرے کو گھور رہی تھی ۔۔
شمعون نے کچھ جواب نہیں دیا ۔۔
"میں کچھ پوچھ رہی ہوں شمعون ۔۔"
اس کی ماں چیخی ۔۔
"میں جواب نہیں دے رہا اس کا مطلب یہ ہے کہ میں جواب نہیں دینا چاہتا ۔۔
اب آپ جا سکتی ہیں ۔۔
آئندہ میری اجازت کے بغیر یہاں نظر نہ آئیں ۔۔"
شمعون اسی سرد بے تاثر انداز میں بولا ۔۔
اس کی ماں آگ اگلتی نظروں سے اسے دیکھنے لگی جو سکون سے سفری بیگ سے کپڑے نکال کر وارڈروب میں سیٹ کر رہا تھا ۔۔
"تم کچھ ایسا تو نہیں کر رہے جو قبیلے کے اصولوں کے خلاف ہو ۔۔
شمعون میں قبیلے سے الگ ہونے کی سزا جھیل چکی ہوں ۔۔
تم خود کا خیال رکھو شمعون میرے بیٹے ۔۔
ورنہ تم قبیلے کی سرداری سے ہی نہیں بلکہ قبیلے سے بھی ہاتھ دھو سکتے ہو ۔۔
اپنی طاقتیں بھی گوا سکتے ہو ۔۔"
"یہ قبیلے کی بدقسمتی ہوگی کہ وہ مجھ سے ہاتھ دھوئے گا ۔۔
اب آپ جائیں ۔۔"
شمعون رکھائی سے کہہ کر ٹرائوزر اور شرٹ اٹھائے واشروم میں گھس گیا ۔۔
پیچھے اس کی ماں لب بھینچ کر اپنے اصل روپ میں لوٹتی کھڑکی سے کود گئی جب نظریں ہوا کے دوش پر اڑتے سیاہ بالوں پر اٹک گئیں ۔۔
بال اتنے خوبصورت اور دراز تھے کہ وہ خود کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے سے نہیں روک سکی ۔۔
"یہ کون ہے ۔۔
حویلی میں پہلے کبھی نظر نہیں آئی ۔۔"
وہ چمکیلی نظروں سے شہلا کو دیکھتی اس کی طرف بڑھنے لگی جب اچانک ایک پتھر اس کے سر پر پڑا ۔۔
وہ غرا کر پلٹی ۔۔
شہلا نے بھی چونک کر اسے دیکھا اور اچھل کر کئی فٹ دور ہوئی ۔۔
وہ گارڈن میں بینچ پر بیٹھی اپنے بالوں کی چوٹی بنا رہی تھی ۔۔
موسم اتنا خوبصورت تھا ۔۔
وہ باتھ لے کر بال سکھا کر بے اختیاری میں سر سبز لان میں چلی آئی تھی ۔۔
وہ سیاہ بلی حمزہ کو تیز نظروں سے گھورتی چحلانگ لگا کر درختوں کی ٹہنیوں میں گم ہوگئی ۔۔
حمزہ نے ہاتھ میں پکڑا دوسرا پتھر جھٹکے سے زمین پر پھینکا پھر گھور کر شہلا کو دیکھا جو سہمی نظروں سے درخت کی ٹہنیون کو دیکھ رہی تھی ۔۔
"آپ کے بال بہت خوبصورت ہیں لیکن کیا ان کی نمائش کرنی ضروری ہے ۔۔
حویلی کے حالات سے آپ واقف ہیں ۔۔
بہتر ہے کمرے کے علاوہ کہیں تنہا بیٹھنے سے گریز کریں ۔۔
ہر کوئی آپ کی حفاظت پر نہیں لگا رہے گا ۔۔
سب کو اپنی جان کے لالے پڑے ہیں ۔۔"
حمزہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گیا جبکہ شہلا اتنی خوفزدہ تھی کہ آگے سے کچھ بھی کہہ نہیں سکی ۔۔
شمعون آفندی ۔۔
جس نے جب آنکھ کھولی ۔۔
جب اسے ان باتوں کا مطلب بھی نہیں پتا تھا ۔۔
تب ہی اس کی چاروں تائیاں اور پھپھو بڑھ چڑھ کر اسے اس کی ذات کی حقیقت سے روشناس کراو چکی تھیں ۔۔
"ناجائز ہء تو ۔۔
گناہ ہے تو ۔۔"
اسے بچپن میں ہی بتا دیا گیا تھا ۔۔
اس کی سوتیلی ماں یعنی تیمور آفندی کی ماں جب تک زندہ رہیں اس کی ذات کو بلکل ان دیکھا کر دیا کرتی تھیں ۔۔
باپ کو تو اس نے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا ۔۔
بس سنا تھا کہ وہ اس کی پیدائش سے بھی پہلے ہی موت کو گلے لگا چکا ہے ۔۔
اس کے سوتیلے بھائیوں کے اپنے بھی بال بچے تھے ۔۔
اس پر جب نظر ڈالی جاتی حقارت بھری ہی ڈالی جاتی ۔۔
صرف ایک تیمور آفندی تھے جو اس پر جان چھڑکتے تھے ۔۔
ان کی گھر میں موجودگی تک کوئی اسے کچھ نہیں سکتا تھا ۔۔
وہ شمعون کو اپنی پہلی اولاد کی طرح چاہتے تھے ۔۔
اس لیئے شمعون کی بھی ان میں جان بسی رہتی تھی ۔۔
وہ کوئی دبو یا صابر شاکر سا بچہ نہیں تھا ۔۔
وہ بڑوں کا بدلہ ان کے بچوں کو مار پیٹ کر نکال لیتا تھا ۔۔
پھپھو کچھ کہتیں تو وہ ان کے اٹھارہ سالہ طبیب کی چمڑی ادھیڑ دیتا ۔۔
جمنہ بیگم نے کچھ کہا تو حمزہ کا سر غصہ میں پھاڑ دیا ۔۔
یوں حالات بد سے بد سے بدتر ہوتے گئے ۔۔
نہ حویلی والوں کے دلوں میں اس کے لیئے کبھی جگہ بنی نہ اس نے بنانی ضروری سمجھی ۔۔
اس کے پاس تیمور آفندی کی محبت اور سپورٹ تھی ۔۔
یہ کافی تھا ۔۔
شمعون تیرہ سال تک اپنے اصل سے ناواقف رہا جب ایک دن اچانک ایک بڑی سی سیاہ بلی درختوں کے جھنڈ سے نکل کر اس کے قریب چلی آئی ۔۔
وہ رات کی ویرانی میں بیٹھا باسکٹ بال کو انگلی پر گھما رہا تھا ۔۔
اتنی بڑی سیاہ بلی اپنے قریب دیکھ کر وہ عام بچوں کی طرح ڈرا نہیں تھا لیکن ناگواری محسوس کر کے اٹھنے لگا تھا ۔۔
جب اس کی سیاہ بے رونق آنکھوں نے ایک ناقابل یقین منظر دیکھا ۔۔
وہ بلی ایک لمبی سی خوبصورت عورت کا روپ دھار چکی تھی ۔۔
اس کی کشادہ پیشانی پر ننھے ننھے پسینے چمکنے لگے جب اِدھر اُدھر سے کئی اور بلیاں بھی آتی ہوئی نظر آئیں ۔۔
پھر آہستہ آہستہ سب ہی انسانوں کا روپ بدلنے لگیں ۔۔
لیکن ایک بات سب میں مشترکہ تھی ۔۔
سب کی آنکھیں بلکل سیاہ اور بے رونق تھیں ۔۔
بلکل شمعون کی اپنی آنکھوں جیسی ۔۔
اور اس شب شمعون کو اپنی حقیقت معلوم ہوئی ۔۔
شمعون کا خاندان اپنے قبیلے کا سردار خاندان تھا ۔۔
سب سے پہلے جو بھی لڑکا ان کے خاندان میں جنم لیتا ۔۔
اسے سرداری دے دی جاتی ۔۔
اور پھر اس کے مر جانے کے بعد سرداری نئے لڑکے کو سونپ دی جاتی ۔۔
اس کے نانا مر چکے تھے اور اس کی ماں "ایونا" اپنے باپ کی اکلوتی بیٹی تھی اور وہ اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا ۔۔
سو سرداری کا تاج اس کے سر سجا تھا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی نانی کو کسی بڑی غلطی کے پاداش قبیلے والوں نے قبیلے سے دور کردیا تھا ۔۔
وہ انسانی دنیا میں بے آسرا تھی جب حویلی کے ایک بڑے بزرگ نے اس پر رحم کھا کر اسے اپنی حویلی میں پناہ دے دی تھی ۔۔
یہاں اس نے ملازمہ کے طور پر کام شروع کر دیا جب ایک دن بھوک اور کمزوری سے نڈھال ہو کر ایک شخص کا قتل کر کے اس کے خون اور گوشت سے اپنا پیٹ بھر لیا ۔۔
(وہ وہی شخص تھا جسے تیمور آفندی نے اپنے بچپن میں مرتے دیکھا تھا)
پھر ایک دن شمعون کی ماں ایونا اس دنیا میں آئی ۔۔
بلا کی خوبصورت ۔۔
اس پر تیمور آفندی کے رنگین مزاج باپ کی نظر پڑی تو اس نے اپنی طاقتوں سے ناواقف اس کی ماں کا جنسی استحصال کردیا ۔۔
(شمعون کی نانی نے مزید انسانی جانوں کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیئے ۔۔
ایونا کو اس کی حقیقت نہیں بتائی تھی ۔۔
کہیں وہ اس کی طرح جذباتی ہو کر انسانی خون نہ کر دے)
کیونکہ تیمور کی ماں انسانی دنیا میں رہی تھی اور اسے اس کی حقیقت کے متعلق کبھی بتایا نہیں گیا تھا سو وہ خود کو بچانے میں ناکام رہی ۔۔
پھر جب شمعون کی پیدائش کے دن قریب آنے لگے ۔۔
تب قبیلے والوں نے ایونا اور اس کی ماں کو قبیلے میں شامل ہونے کی اجازت دے دی ۔۔
ایونا قبیلے کے ڈر سے شمعون کو حویلی میں ہی چھوڑ کر اپنی دنیا میں چلی گئی ۔۔
لیکن جب ان کے خاندان میں کوئی اور لڑکا سرداری کے لیئے نہیں پیدا ہوا ۔۔
تب ان سب کو شمعون کے بارے میں بتا دیا ۔۔
اور یوں شمعون اپنے اصل سے آگاہ ہوا ۔۔
اور قبیلے کا سردار بنا ۔۔
اپنی حقیقت سے واقف ہو کر وہ اور بھی ظالم ہوگیا تھا ۔۔
حویلی کے بچوں کی اس نے جان نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔۔
اس کی پھپھو جو بیوہ تھیں اور سب سے بڑے تایا ایک ایکسڈنٹ کا شکار ہو کر دنیا سے چلے گئے ۔۔
اور یوں اسے اپنے پھپھو زاد کزن طبیب (جو اسے سب سے زیادہ زہر لگتا تھا) کا شکار کرنے کا موقع مل گیا ۔۔
شمعون اس وقت سولہ سال کا تھا ۔۔
پوری حویلی دو اموات پر افسردگی کی چادر اوڑھے ہوئے تھی ۔۔
جب اس نے طیب کو بے دردی سے ختم کر کے اپنی بھوک اور پیاس مٹا لی تھی ۔۔
شمعون نہیں جانتا تھا بیڈ کے نیچے طبیب کی چھوٹی بہن طوبی کسی شرار کے لیئے چھپی ہوئی ہے ۔۔
اس نے سب اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا لیکن وہ کسی کو ٹھیک سے کچھ بتا نہیں سکتی تھی کیونکہ اس کی دماغی حالت درست نہیں رہی تھی ۔۔
وہ سب ہی کو دیکھ کر چیخنے لگتی ۔۔
سو طوبی کو حویلی کے ایک کمرے میں بند رکھا جاتا تھا ۔۔
دوسری طرف شمعون حویلی کے باقی افراد کو بھی ایسے ہی موت کے گھاٹ اتار دینا چاہتا تھا لیکن طبیب کی موت کے دن اس نے اپنے جان سے عزیز تیمور بھائی کو جس طرح روتے دیکھا تھا ۔۔
وہ اندر ہی اندر نادم ہوگیا تھا ۔۔
اس دن اس نے عہد کیا تھا ۔۔
وہ حویلی کے کسی شخص پر کبھی حملہ نہیں کرے گا ۔۔
وہ جنگل بیابان میں یا قبرستان میں جا کر جانوروں اور مردوں کا گوشت اور خون کھاتا پیتا تھا ۔۔
اس شب بھی وہ ایک جنگل نما جگہ پر کوئی شکار تلاش کر رہا تھا جب اس کا سامنا ایک درخت کے نیچے بیٹھے کچھ پڑھتے سفید لباس اور داڑھی والے شخص سے ہوا ۔۔
شمعون کو اس شخص کے اندر سے پھوٹتی خوشبو سے وحشت ہونے لگی ۔۔
وہ وہاں سے جانا چاہتا تھا ۔۔
جب اس بزرگ شخص نے بھی جان لیا کہ بظاہر اس خوبرو شخص کے پیچھے ایک خوفناک بلا ہے ۔۔
وہ اس پر پڑھ کر کچھ پھونکتا رہا ۔۔
شمعون کی سانسیں اکھڑنے لگیں ۔۔
وہ خود کو بچانے کے لیئے بھاگتا رہا ۔۔
وہ جنگل سے باہر تو پہنچ گیا تھا لیکن ایک عجیب سا لکڑی کا ننھا ٹکڑا اس کے پیر میں پھنستا اس کی جان اندر ہی اندر نکالنے لگا ۔۔
وہ خود بہ خود بلے کا روپ دھار چکا تھا ۔۔
شمعون کو لگنے لگا وہ کچھ ہی دیر میں مر جائے گا ۔۔
جب اسے ایک انسانی آواز سنائی دی ۔۔
"چاچی دروازہ کھولیں ۔۔
چاچی پلیز ۔۔"
وہ خود اس لکڑی کے ٹکڑے کو نکال نہیں سکتا تھا اس لیئے اس نے شہلا سے مدد لینے کا سوچا ۔۔
اور شہلا نے شمعون کی بچی کھچی طاقتوں کے زیر اثر اس کی مدد کی بھی تھی ۔۔
لکڑی کا ٹکڑا نکل جانے کے بعد شمعون بہت کمزوری محسوس کر رہا تھا ۔۔
اب اسے دوا ۔۔
(یعنی کے انسانی گوشت) کی اشد ضرورت تھی ۔۔
اس نے شہلا پر حملہ کرنے کا سوچا ۔۔
ابھی وہ اس کے خون کو چاٹنے ہی لگا تھا جب ایک عورت (شہلا کی چاچی) کمرے میں چلی آئی ۔۔
اور اندر کا منظر دیکھ کر چیخنے لگی ۔۔
اور یوں اس نے شہلا کو چھوڑ باقی سب کے خون اور گوشت پر ہاتھ صاف کر لیا ۔۔
وہ شہلا کو بھی ختم کر دینا چاہتا تھا ۔۔
لیکن اس کے احسان کی وجہ سے اسے زندہ چھوڑ آیا ۔۔
اور اب شمعون کو اندازہ ہو رہا تھا ۔۔
اس نے شہلا کو کسی احسان کے بوجھ تلے زندہ نہیں چھوڑا تھا ۔۔
معاملہ کچھ اور تھا ۔۔
خونی عشق (قسط نمبر 4)
تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
0 تبصرے