خونی عشق - قسط نمبر4

  خونی عشق - قسط  نمبر1

خونی عشق - قسط  نمبر4

شہلا خالی خالی نظروں سے وسیع و عریض رقبے پر پھیلے لان کو دیکھ رہی تھی ۔۔
سونے سے پہلے اس نے ہمیشہ کی طرح اپنے بالوں کا ڈھیلا سا جوڑا بنا لیا تھا ۔۔
لیکن ہوا کے زور پر اس کے جوڑے سے بالوں کی موٹی موٹی لٹیں نکل کر لہرانے لگی تھیں ۔۔

وہ بہت خوبصورت تو نہیں تھی ۔۔
دبتی ہوئی گندمی رنگت ۔۔
بھرا بھرا گول چہرہ ۔۔
چھوٹی چھوٹی غلافی آنکھیں تھیں ۔۔
جن کی پتلیاں کافی بڑی تھیں ۔۔
چپٹی سی ناک کو لونگ نے سجا دیا تھا ۔۔
ہونٹوں کا کٹائو بہت دلکش نہیں تھا ۔۔
لیکن قطار سے بنے موتیوں جیسے دانتوں کی وجہ سے مسکراہٹ بہت پیاری لگتی تھی ۔۔

لیکن وہ مسکراتی کب تھی ۔۔
اسے خود بھی یاد نہیں آیا وہ آخری دفعہ کب مسکرائی تھی ۔۔
جبراً لب پھیلا لینا مسکرانا تو نہیں ہوتا نا ۔۔
اڑتے بالوں کو سمیٹ کر شہلا نے جوڑے کو تھپتھپایا تو سیاہ ریشمی بالوں کا جوڑا کھلتا چلا گیا ۔۔
اس نے بھی پروہ نہیں کی ۔۔
ہوا کے دوش پر اڑتے گدگداتے بال مزہ دے رہے تھے ۔۔
آنکھیں بند کر کے اس نے رات کی رانی کی خوشبوں اپنی سانسوں میں کھینچی تھی ۔۔
اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا درختوں کی ٹہنیوں سے دو سرخ آنکھیں کب سے اسے تک رہی تھیں ۔۔

اس کے بالوں میں کسی کا دل اٹکا تھا اس بات سے انجان وہ سوچ رہی تھی۔۔
"اتنے دراز بال سنبھالنے مشکل ہوتے ہیں ۔۔
کاٹ لوں گی کل ۔۔"
تھوڑی دیر اور خوشبودار ٹھنڈی ہوا سانوں میں اتارنے کے بعد وہ کمرے کے اندر چلی گئی تھی ۔۔
جبکہ وہ سیاہ بلا چھلانگ لگا کر اس کی گیلری میں کودا تھا جس سے اچھی خاصی آواز ہوئی تھی ۔۔

بلے نے گیلری کا دروازہ اپنے مضبوط وجود سے کھولنے کی کوشش کی لیکن دروازہ اندر سے بند تھا ۔۔
وہ دروازے کو قہربار نظروں سے گھورنے لگا ۔۔
وہ اپنی انسانی شکل میں ہوتا یا بلے کا روپ دھارے ہوتا ۔۔
وہ یا اس کے قبیلے کے باقی لوگ ایسی کسی دیوار یا دروازے کے آر پار نہیں ہوسکتے تھے ۔۔
وہ بے بس سا اُدھر اُدھر چکرانے لگا ۔۔
وہ کچھ دیر اور شہلا کو دیکھنا چاہتا تھا ۔۔
یا شائد دیکھتے ہی رہنا چاہتا تھا ۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حمزہ نے سگرٹ کا دھواں فزائوں کے سپرد کر کے وجدان کی طرف دیکھا جو اس سے چار سال بڑا تھا ۔۔
چہرے پر بلا کی سنجہدگی تھی جو اس حادثے کے بعد اور بھی بڑھ گئی تھی ۔۔
حمزہ نے اپنی بہن کو کھویا تھا تو وجدان نے بھی اپنی ماں کو کھو دیا تھا ۔۔
وہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا تھا ۔۔
باپ تو شفقت لٹاتا ہی تھا لیکن اپنی ماں کی آنکھ کا تارا تھا وہ ۔۔
اتنا بڑا ہونے کے باوجود وہ اس کے کان کے پیچھے کالا ٹیکا لگایا کرتی تھیں ۔۔
سب کزنز اسے "ماں کا لاڈلا" کہہ کہہ کر چھیڑا کرتے تھے ۔۔
وہ بھی اپنی ماں کے لیئے اتنا ہی حساس تھا جتنا حمزہ ہانیہ کے لیئے ۔۔
سر جھٹک کر حمزہ نے آنکھ کے کنارے سے آنسو صاف کیا ۔۔
ایک ٹھنڈی سانس بھر کر اس نے بہن کی یادوں سے پیچھا چھڑوایا تھا ۔۔
وہ دونوں شام ڈھلے آفس سے واپس لوٹ رہے تھے ۔۔
جو بھی تھا کبھی نہ کبھی صبر آنا ہی تھا ۔۔
حویلی والوں کو بھی رفتہ رفتہ آنے لگا تھا ۔۔
سب روٹین کی طرف لوٹ رہے تھے ۔۔
مرد حضرات تو چار و ناچار کام پر جاتے ہی تھے ۔۔
مگر آج تمام خواتین بھی کچن میں رات کے کھانے کی تیاریوں میں مصروف تھیں ۔۔
کچن سے اشتہاانگیز کھانے کی خوشبوئیں آ رہی تھیں ۔۔
تینوں لڑکیاں تو بس کچھ بھی ہلکا پھلکا الٹا سیدھا بنا کر جان چھڑا لیتی تھیں ۔۔
اور ذائقہ اتنا خراب ہوتا تھا کہ اگر کسی کو بھوک لگ ہی جاتی تو ایک دو نوالے کھا کر ہی بھوک مر جاتی تھی ۔۔
حمزہ کی بھوک بہت عرصے بعد چمکی تھی ۔۔
وہ فریش ہو کر آیا تو ڈائننگ ٹیبل پر سب جمع تھے ۔۔
غیر ارادی طور پر نظروں نے کسی کو تلاشہ تو وہ اسی وقت کچن سے ایک ڈونگا اٹھائے آتی نظر آئی ۔۔
حمزہ کی نظریں ساکت رہ گئی تھیں ۔۔
صرف حمزہ کی ہی نہیں ۔۔
دو کالی آنکھوں میں بھی اچانک ناگواری اتر آئی تھی ۔۔
شہلا کے اونچی پونی میں جکڑے ریشمی سیاہ بال کندھوں سے ذرا ہی نیچے آ رہے تھے ۔۔
صبح ہی اس نے اپنے بالوں کو کاٹا تھا ۔۔
اب وہ گردن بہت ہلکی پھلکی محسوس کر رہی تھی ۔۔
اپنے لیئے کھانا نکالتے ہوئے اس نے بے پروائی سے سر اٹھایا تو نظریں حمزہ کی نظروں سے ٹکرائیں ۔۔
حمزہ نے اپنی نظریں فوراً نہیں ہٹائی تھیں بلکہ ایک عدد گھوری سے نواز کر نظروں کا رخ بدلا تھا ۔۔
شہلا کچھ سمجھے بغیر ہی خجل ہوگئی ۔۔
خجالت مٹانے کو اس نے اِدھر اُدھر دیکھا تو اس بار نظریں شمعون کی سیاہ آنکھوں سے جا ٹکرائیں ۔۔
شمعون کوئی تاثر دیئے بغیر کھانے کی طرف متوجہ ہوگیا لیکن اس کی کشادہ پیشانی پر ایک گہرا بل نمایاں تھا ۔۔
"کیا مسئلہ ہے ان چچا بھتیجا کے ساتھ ۔۔"
دل میں بڑبڑاتے ہوئے شہلا بھی کھانے کی پلیٹ پر جھک گئی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امتل نازیہ اور فرح کے ساتھ لان میں چہل قدمی کرتے ہوئے وہ ہانیہ کی غیر موجودگی کافی محسوس کر رہی تھی ۔۔
ہانیہ اپنے تمام کزنز میں سب سے چھوٹی تھی ۔۔
لیکن سب سے بردبار بھی وہی تھی ۔۔
ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے شہلا نے جویریہ بیگم کو اس طرف آتا دیکھا ۔۔
"امتل ۔۔"
"جی امی ۔۔"
امتل ان کے قریب ہوئی ۔۔
"یہ کھانا طوبی کو دے آئو ۔۔"
"امی مجھے نہ کہا کریں ۔۔
اس نے پچھلی بار بھی میرا سر دیوار سے مار دیا تھا ۔۔"
امتل نے پیشانی پر بکھرے چھوٹے چھوٹے کٹے ہوئے بال پیچھے کر کے انہیں وہ گمشدہ نشان دکھانے کی کوشش کی ۔۔
"چل جا نا میرا بچہ ۔۔
میرے سے سیڑھیاں نہیں چڑھی جاتیں ۔۔
اور تو ڈر مت ۔۔
حمزہ جا رہا ہے ساتھ ۔۔"
انہوں نے اپنے پیچھے آتے حمزہ کی طرف اشارہ کیا ۔۔
امتل کی تیوری ہنوز چڑھی رہی ۔۔
فرح نیند کا کہہ کر اپنے کمرے میں چلی گئی جبکہ نازیہ کے فون پر کال آئی تو وہ سائڈ ہوگئی ۔۔
شہلا طوبی کے قصے کو جانتی تھی اور جویریہ بیگم کی تیوریاں بھی دیکھ چکی تھی سو ان سے کچھ فاصلے پر ہو کر ٹہلنے لگی ۔۔
"یہ لے شاباش لے جا ۔۔"
حمزہ جب پاس آیا تب انہوں نے زبردستی امتل کو ٹرے تھمائی اور مسکراتی نظروں سے امتل اور اس کے پہلو میں کھڑے حمزہ کو دیکھتی ہوئی وہاں سے چل دیں ۔۔
وہ اپنی لاابالی سی بیٹی کو کیسے اپنے خیالات سمجھاتیں ۔۔
براہ راست کچھ کہنے سے بھی ڈر رہی تھیں کہ کہیں امتل خواب سجانا نہ شروع کردے ۔۔
اور بعد میں اگر قسمت کو یہ منظور نہ ہو ۔۔
تو ان کی اکلوتی بیٹی کا ننھا سا دل ٹوٹ جائے ۔۔
سو وہ اپنی طرف سے ڈھکی چھپی کوشش کر رہی تھیں حمزہ اور امتل کی جوڑی بنانے کی ۔۔
کچھ دور کھڑی شہلا نے بڑی گہری نظروں سے ساری کاروائی ملاحظہ کی پھر دھیرے سے ہنس پڑی ۔۔
شائد ساری مائیں ایسی ہوتی ہیں ۔۔
"ارے واہ ۔۔"
ابھی وہ آگے بڑھ رہی تھی جب مسکراتی ہوئی مدھم آواز پر اچھل کر پلٹی ۔۔
شمعون ایک درخت کے تنے سے کمر ٹکائے نہ جانے کب سے وہاں کھڑا تھا ۔۔
شہلا اس کی موجودگی بلکل محسوس نہیں کر سکی تھی ۔۔
وہ خود پر حیران ہو رہی تھی جب شمعون آگے بڑھا اور اس کے پہلو میں آ کر کھڑا ہوگیا ۔۔
"اب سمجھ آیا آپ کم کم کیوں مسکراتی ہیں ۔۔"
شہلا نے کوئی جواب نہیں دیا اور انگلیاں چٹخانے لگی ۔۔
کسی انجان مرد سے تنہائی میں بات کرنے کا یہ اس کا پہلا تجربہ تھا ۔۔
سو اس کے مساموں سے پسینہ پھوٹنے لگا ۔۔
شمعون نے گہری نظروں سے اس کی گھبراہٹ ملاحظہ کی پھر قدم آگے بڑھا دیئے ۔۔
ساتھ ہی شہلا کو بھی چلنے کا اشارہ دیا ۔۔
شہلا نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے قدم گھسیٹنے لگی ۔۔
امتل کے ساتھ آگے بڑھتے حمزہ نے حیرت سے یہ منظر دیکھا تھا ۔۔
دیکھا تو امتل نے بھی تھا ۔۔
"ہو نہ ہو ۔۔
یہ میڈم اتنی ساری مصیبتیں جھیل کر فلمی سچویشن میں ہماری حویلی میں ہماری چاچی بننے ہی آئی ہیں ۔۔
لکھوا لیں مجھ سے حمزہ بھائی ۔۔
قدرت کو یہی منظور یے ۔۔"
امتل نان اسٹاپ بول رہی تھی ۔۔
حمزہ نے ترچھی نظروں سے اسے گھورا ۔۔
"تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتی ہو کہ چاچی بننے ہی آئی ہے ۔۔"
حمزہ نے منہ ایسا بنا لیا تھا جیسے منہ میں کڑوا بادام آیا ہو ۔۔
"اوہوووووو"
امتل کی آنکھیں پہلے باہر کو ابلیں پھر شرارت سے آنکھیں مٹکائیں اور چہک کر بولی ۔۔
"ممکن ہے بھابی بننے آئی ہو ۔۔
اب ٹھیک ہے ۔۔"
حمزہ اس کی بات پر ڈانٹنے کی کوشش کی لیکن منہ سے مدھم سی ہنسی نکل گئی ۔۔
امتل نے بھی پھر چھیڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔۔
کچن سے نکلتی جویریہ بیگم کا چہرہ کھل اٹھا یہ منظر دیکھ کر ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہلا کو اب نیند آنے لگی تھی ۔۔
حویلی کی لائٹس اندر سے آف کر دی گئی تھیں لیکن شمعون اسے جانے ہی نہیں دے رہا تھا ۔۔
شہلا سوچ رہی تھی کاش وہ تھوڑی بے مروت ہوتی ۔۔
سو ٹکا سا کوئی جواب دے کر چلتی بنتی ۔۔
لیکن ہائے رے مروت نام کی یہ مصیبت ۔۔
ہاں مگر اتنا تھا کہ اب وہ جبراً ہونٹ مسکرانے کے انداز میں پھیلا کر جواب نہیں دے رہی تھی ۔۔
سنجیدہ سا چہرہ بنائے ہوں ہاں میں جواب دیتی اپنی کوفت ظاہر کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔
اور شمعون سب محسوس کر کے بھی انجان بن رہا تھا ۔۔
"شہلا ۔۔"
نہ جانے شمعون کی اس گمبھیر پکار میں کیا تھا کہ شہلا کا چہرہ پسینے میں نہا گیا ۔۔
جیسے باتوں کی شروعات میں ہوا تھا ۔۔
شہلا نے لرزتی پلکیں بمشکل اٹھا کر شمعون کی طرف دیکھا ۔۔
"ڈونٹ مائنڈ لیکن ایسا لگتا یے اس حویلی میں آپ کو کوئی خاص پسند نہیں کرتا ۔۔
جیسے مجھے بھی کوئی پسند نہیں کرتا ۔۔
آئیں دونوں ایک دوسرے کو پسند کر لیں ۔۔"
شمعون نے اچانک اس کے سامنے ہو کر اپنا چوڑا ہاتھ اس کے آگے پھیلا دیا ۔۔
شمعون جانتا تھا یہ سب بہت عجلت میں ہوگیا تھا لیکن اب وہ مزید دیر نہیں چاہتا تھا ۔۔
ہرگز نہیں چاہتا تھا ۔۔
شہلا نے آنکھیں پھاڑ کر پہلے اپنے سامنے پھیلی ہتھیلی کو دیکھا پھر شمعون کے چہرے کو ۔۔
جہاں سنجیدگی کے علاوہ بھی کچھ تھا جس نے شہلا کو نظریں چرانے پر مجبور کردیا تھا ۔۔
شہلا کو بہت عجیب لگ رہا تھا ۔۔
مہینہ ہی ہوا تھا ابھی اس حادثے کو گزرے اور شمعون سسے پرپوز کر رہا تھا ۔۔
جھجھکتے ہوئے شہلا دو قدم پیچھے ہوئی اور پھر بھاگتی چلی گئی ۔۔
پیچھے اپنے خالی ہاتھ کو گھورتا شمعون اپنے اندر پکتے لاوے کو محسوس کر کے پہلی بار خوفزدہ ہوگیا ۔۔
"نہیں ابھی کچھ نہیں ۔۔
ہاں نہیں کیا تو ناں بھی نہیں کیا ۔۔
مجھے صبر کرنا چاہیے ۔۔
ڈائریکٹ جواب ملنے تک ۔۔
صبر شمعون صبر ۔۔
صبر ۔۔"
تین مہینے ہونے کو آئے تھے ۔۔
حویلی میں سب کچھ معمول پر آچکا تھا ۔۔
اپنے اپنے دلوں کے زخم چھپائے سب اب مسکرانے لگے تھے ۔۔
سوائے شمعون کے ۔۔
جس کے چہرے پر ہمیشہ رہنے والی وہ مدھم سی مسکان اب بلکل غائب ہوچکی تھی ۔۔
شہلا بے اسے پرپوز پر جواب تو کیا دیا تھا ۔۔
الٹا اس سے کنی کترا کر گزرنے لگی تھی ۔۔
اتنی بڑی حویلی تھی ۔۔
جس طرف شمعون جاتا وہ وہاں سے فوراً بھاگ لیتی ۔۔
سوائے رات کو کچھ دیر گیلری کے وہ اسے شاذ و نادر ہی نظر آتی تھی ۔۔
اور اس کے اس گریز نے شمعون کو سخت مشکل میں ڈال رکھا تھا ۔۔
وہ کوئی عام سا انسان تو تھا نہیں جو کسی لڑکی کے جذبات سمجھتا ۔۔
وہ کم ہی کسی کا احساس کرتا تھا ۔۔
اور اب اس کی بس ہو چکی تھی ۔۔
اسے جتنا وقت دینا تھا شہلا کو اس سے زیادہ ہی دے دیا تھا ۔۔
اس وقت وہ پیشانی پر ایک گہری لکیر لیئے آر یا پار کرنے جا رہا تھا ۔۔
شہلا اسے لان میں بینچ پر بیٹھی کسی اخبار کے مطالعہ میں مصروف نظر آئی ۔۔
توقع کے مطابق شمعون کو دیکھتے کے ساتھ ہی وہ اٹھ کر بھاگنے کو ہو رہی تھی جب شمعون دیوار کی طرح اس کے سامنے کھڑا ہوگیا ۔۔
شہلا کو اپنے فرار کی تمام راہیں مسدود نظر آئیں تو سر جھکا کر بے بس سی کھڑی ہوگئی اور انگلیاں چٹخانے لگی ۔۔
اس کے بس میں یہی تھا ۔۔
"کوئی واضع جواب نہ دو ۔۔
اشارہ تو دو ۔۔"
شمعون اسے پکڑ کر جھنجوڑ دینا چاہتا تھا ۔۔
اور گرج کر پوچھنا چاہتا تھا ۔۔
لیکن وہ شہلا کے سامنے ایسا کچھ کر نہیں سکا ۔۔
اسے اپنی ہی آواز اجنبی لگی ۔۔
طویل سانس خارج کر کے شہلا نے خود کو کپوز کیا پھر ذرا کی ذرا نظریں اٹھا کر شمعون کے بے بس سے چہرے کی طرف دیکھا ۔۔
شہلا نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ کوئی اسے یوں پرپوز کرے گا ۔۔
بہت سادہ سی مشرقی لڑکی کی زندگی تھی اس کی ۔۔
اس نے کبھی غیر ضروری طور پر کسی مرد سے بات نہیں کی تھی ۔۔
وہ اس شہزادے جیسے شخص کو کیا جواب دیتی جس کے آگے نظریں بھی اٹھاتے ہوئے جھجک جاتی تھی ۔۔
"شہلا ۔۔
کسی کا اتنا صبر نہیں آزماتے ۔۔"
شمعون نے مٹھیاں بھینچ کر خود پر کنٹرول کرتے ہوئے نرمی سے کہا ۔۔
"مم مجھے ۔۔
ایکچلی مجھے ۔۔"
"شہلا بیٹا ۔۔"
پیچھے سے آتی تیمور آفندی کی آواز پر شہلا کی جان میں جان آئی اور وہ سرپٹ وہاں سے بھاگتی چلی گئی ۔۔
تیمور آفندی جو اسے حویلی کی باقی لڑکیوں کے ساتھ شاپنگ پر جانے کا کہنے آئے تھے (جس سے شہلا منع کر چکی تھی) حق دق کھڑے رہ گئے جبکہ شمعون کی آنکھوں کی پتلیوں کا سائز خود بہ خود سکڑنے لگا ۔۔
وہ تیمور آفندی سے نظریں بچا کر تیزی سے مڑگیا اور پیچھے تیمور آفندی کبھی اس راستے کو دیکھتے جہاں سے شہلا گزری تھی تو کبھی شمعون کی چوڑی پشت کو دیکھتے ۔۔
کچھ دیر دماغ کی پیچیں لڑانے کے بعد ان کے ذہن میں کچھ کلک ہوا تھا ۔۔
بے ساختہ ان کے لب سیٹی کے انداز میں سکڑ گئے تھے ۔۔
"اوہ ۔۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیمور آفندی نے بالآخر اسے رات کو جا ہی لیا ۔۔
وہ لان میں سر جھکائے چہل قدمی کر رہا تھا ۔۔
رات کے پونے دو ہو رہے تھے ۔۔
ساری حویلی میں اندھیرا چھایا تھا ۔۔
لان کی لائٹس بھی بند تھیں ۔۔
تیمور آفندی کی یونہی گھبراہٹ میں آنکھ کھلی تو وہ کمرے کی کھڑکی میں چلے آئے ۔۔
جہاں اندھیرے لان میں انہیں ایک ہیولا ٹہلتا نظر آیا ۔۔
تیمور آفندی نے فوراً اندازہ لگا لیا وہ کون ہو سکتا تھا ۔۔
شمعون کی ہمیشہ سے عادت تھی ۔۔
جب کسی الجھن میں ہوتا یونہی اندھیرے لان میں تنہا ٹہلنے لگتا ۔۔
شمعون کے قریب جاتے ہوئے انہوں نے اس کی بار بار اٹھتی نظروں کے تعاقب میں دیکھا جو شہلا کے کمرے کی گیلری ہر منڈلا رہی تھیں ۔۔
اپنے اندازے کے صحیح ثابت ہونے پر وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے اس کے پیچھے جا کھڑے ہوئے اور ہمیشہ کی طرح "ہائو" کر کے اسے ڈرانے کی کوشش کی ۔۔
لیکن شمعون بھی ہمیشہ کی طرح ان کی آمد سے پہلے ہی واقف ہوگیا تھا ۔۔
جب ہی پل بھر کی مسکان لبوں پر سجا کر پلٹا پھر انہیں اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا ۔۔
وہ دونوں بھائی کچھ دیر تک خاموشی سے ٹہلتے رہے پھر تیمور آفندی نے ہی گلا کھنکھار کر بات کی شروعات کی ۔۔
"کیوں پریشان ہو ۔۔"
"آپ کو جب یہ پتہ چل چکا ہے کہ میں پریشان ہوں ۔۔
تو یہ کیسے ممکن ہے پریشانی کی وجہ سے ناواقف ہوں ۔۔"
دھیمی آواز میں پوچھتے ہوئے شمعون نے ان پر ایک مصنوعی گھوری ڈالی ۔۔
پھر دونوں ہنس دیئے ۔۔
شمعون کی ہنسی بہت مدھم اور مختصر تھی لیکن تیمور آفندی کی ہنسی زندگی سے بہت بھرپور تھی ۔۔
"اب سب کچھ بتائو مجھے شروع سے اب تک ۔۔
کیا چل رہا ہے درمیان ۔۔
اور کب سے چل رہا ہے ۔۔"
شمعون نے جواباً انہیں مختصر لفظوں میں اپنے مختصر ترین پرپوزل اور طویل ترین صبر کی داستان سنادی ۔۔
جسے سن کے تیمور آفندی نے ہنکار بھری ۔۔
"بیٹا جی وہ ایک پیور مشرقی لڑکی ہے ۔۔
اور ایسی سیدھی سادی اچھی لڑکیاں پرپوزل پر فوراً جواب نہیں دے دیتیں ۔۔
اور تمہیں چاہیے تھا تم پہلے ہی مجھ سے بات کرتے ۔۔
پھر میں اس سے بات کرتا تو معاملہ اب تک آر یا پار لگ چکا ہوتا ۔۔"
"تو پھر آپ کریں نا بات اس سے ۔۔"
شمعون فوراً بولا تھا ۔۔
"ہاں بھئی کرلیں گے ۔۔ اتاولے کیوں ہو رہے ہو صبر کرو ۔۔"
"تین مہینوں سے کر رہا ہوں ۔۔"
شمعون کے تیوری چڑھا کر کہنے پر وہ ہنس پڑے ۔۔
"صبح تک کا اور کرلو ۔۔"
شرارت سے کہہ کر تیمور آفندی نے خود سے تین انچ زیادہ اونچے اپنے چھوٹے بھائی کی پیشانی چومی ۔۔
وہ خود بھی نہیں جانتے تھے شمعون انہیں اتنا عزیز کیوں تھا ۔۔
شائد اپنی بچپن کی تنہائی کی وجہ سے ۔۔
وجہ جو بھی تھی ۔۔
حقیقت یہی تھی کہ شمعون ان کے لیئے امتل سے کم بلکل نہیں تھا ۔۔
وہ جو بچپن سے گم صم تنہا تنہا رہتا آیا تھا ۔۔
اب تیمور آفندی اسے خوش دیکھنا چاہتے تھے ۔۔
وہ دل سے چاہتے تھے کہ ان کے چھوٹے بھائی کی دلی مراد بر آئے ۔۔
ان کے پیار کرنے سے شمعون کی آنکھوں کی سردمہری غائب ہوگئی ۔۔
اور وہ ہلکا سا مسکرا دیا ۔۔
"اچھا بھئی اب سونے چلو ۔۔
تمہاری بھابی کی آنکھ کھلی اور مجھے نہ پایا تو خوف سے چیخ چیخ کر مردوں کو بھی جگا دے گی ۔۔"
وہ کوئی گزرا وقت یاد کر کے ہنسے اور شمعون کی پشت تھپکتے اسے اپنے ساتھ اندر لے جانے لگے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سو بالآخر تھانے جانے سے پہلے تیمور آفندی نے شہلا سے بات کر ہی لی تھی ۔۔
اور سوال اٹھتا ہے ۔۔
کیا بات کی تھیں ۔۔
تو وہی باتیں تھیں جو ایسے موقعوں پر کی جاتی ہیں ۔۔
شہلا کو اندازہ نہیں تھا کہ شمعون اتنی "جلدی" مچا دیگا ۔۔
تین مہینے اس کے لیئے یقیناً جلدی تھے کیونکہ اس کے دل میں فلحال کچھ بھی نہیں تھا ۔۔
لیکن شمعون نے یہ تین ماہ تین صدیوں کی طرح گزارے تھے ۔۔
ساری لڑکیاں کالج یونیورسٹی گئی ہوئی تھیں ۔۔
صرف ایک فرح باجی تھیں جو ان سب جھمیلوں سے فارغ تھیں اور ہر وقت فون پر اپنے منکوح سہیل سے محو گفتگو رہتیں ۔۔
سہیل، تیمور آفندی کے سب سے بڑے مرحوم بھائی کے اکلوتے فرزند بھی ہیں جو جاب کے سلسلے میں سات سمندر پار آباد ہیں ۔۔
سو اس وقت شہلا لائونج میں تنہا بیٹھی اپنا جواب سوچ رہی تھی جو اسے آج شام دینا تھا ۔۔
حویلی کے مرد حضرات اپنے کام سے کام رکھتے تھے حمزہ کے علاوہ جو بلاوجہ اس سے چڑتا تھا ۔۔
اور ایک تھے تیمور آفندی ۔۔
جو اس پر امتل کی طرح ہی شفقت لٹاتے تھے ۔۔
بات کی جائے شمعون کی تو اس کی شمعون سے کوئی خاص بات چیت نہیں ہوئی تھی ۔۔
لیکن جب ہوئی تب ایسی ہوئی کہ وہ ہر وقت اس سے چھپتی رہتی تھی ۔۔
یعنی وہ شمعون کے متعلق زیادہ نہیں جانتی تھی ۔۔
لڑکیاں سب اس کے ساتھ بہت فرینڈلی تھیں ۔۔
جبکہ خواتین ۔۔
ہاں ۔۔
حویلی کی خواتین کی آنکھوں میں اس نے اپنے لیئے کافی بار ناگواری دیکھی تھی ۔۔
وہ سب خواتین پڑھی لکھی تھیں ۔۔
کچھ ایسا ویسا سخت سست کبھی نہیں کہا تھا ۔۔
لیکن نظریں بھی بولتی ہیں نا ۔۔
"کیا یہ خواتین مجھے اس گھر میں قبول کریں گی ۔۔"
شہلا کے دل نے کانپ کر سوچا ۔۔
وہ اس حویلی میں بغیر کسی رشتے کے کب تک رہ سکتی تھی ۔۔
وہ سنجیدگی سے سوچتی تو یہ سوال بہت بڑا لگتا ۔۔
"ہاں واقعی مجھے حویلی میں رہنے کے لیئے کسی سہارے کی ضرورت ہے ۔۔
میں ہمدردی کے نام پر ہمیشہ یہاں نہیں پڑی رہ سکتی ۔۔
پھر شمعون تیمور انکل کے بھائی ہیں ۔۔
انکل کتنا پیار بھی کرتے ہیں ان سے ۔۔
اگر میرے اپنے حیات ہوتے ۔۔
تو شمعون صاحب کے رشتے پر خوشی خوشی راضی ہوجاتے ۔۔
ان میں بظاہر تو ایسی کوئی خرابی بھی نہیں ۔۔
انہیں حویلی کے باقی مرد حضرات کی طرح سگرٹ تک تو پیتے نہیں دیکھا ۔۔"
(شہلا بی بی وہ خون جو پیتے ہیں ۔۔)
شہلا جیسے اچانک ایک فیصلے پر پہنچ ک مطمئین ہوگئی ۔۔
اس کے دماغ میں تیمور آفندی کی آواز گونجنے لگی ۔۔
"شہلا یہ ہرگز مت سوچنا کہ تمہارے جواب کا تمہارے یہاں رہنے پر کوئی اثر پڑے گا ۔۔
تم میری بیٹی کی طرح ہو ۔۔
بیٹی بن کر یہاں آئی ہو ۔۔
اور بیٹیاں اگر "انکار" کردیں تو انہیں گھر سے نکال نہیں دیتے ۔۔
سو کھلے دل و دماغ سے فیصلہ کرنا ۔۔
جو بھی کرنا ۔۔"
اور شہلا نے واقعی کھلے دل س دماغ سے سوچا ۔۔
اور دونوں کی طرف سے ایک ہی جواب آیا تھا ۔۔
"کوئی حرج تو نہیں ۔۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اے لڑکی سنو ۔۔"
حمنہ بیگم کی ناگواری میں لپٹی پکار پر سیڑھیاں چڑھتی شہلا جبکہ باہر سے ابھی ابھی لوٹتا شمعون بھی اپنی جگہ رک گیا تھا ۔۔
"جی ۔۔"
"میں بہت تھک گئی ہوں ۔۔
تم یہ کھانا اوپر طوبی کو دے آئو ۔۔
سب سے آخر میں ہے اس کا کمرہ ۔۔"
انہوں نے کھانے کی ٹرے اس کی طرف بڑھائی جسے شہلا نے جھجک کر تھام لیا ۔۔
شمعون تیزی سے ان کی طرف بڑھا اور ناگواری سے بولا ۔۔
"بھابی وہ مہمان ہے ۔۔
اگر طوبی نے کوئی نقصان پہنچا دیا اسے تو ۔۔"
"تو ۔۔"
حمنہ بیگم نے سینہ تان کر پوچھا ۔۔
"اور میاں خوب سمجھ آ رہی ہیں تمہاری ہمدردیاں ۔۔
جو کبھی حویلی والوں کے لیئے تو نہیں جاگیں ۔۔"
"یہاں آپ نے "گھر والوں" کی جگہ "حویلی والوں" کہہ کر اچھی طرح سمجھا دیا ہے آپ لوگوں کو میری ہمدردی کی کتنی ضرورت ہے ۔۔"
شمعون کو اپنے خون میں ابال خوب محسوس ہو رہا تھا ۔۔
"ہنہہ ۔۔
مجھے تم سے بحث نہیں کرنی ۔۔
اور تم سنو لڑکی ۔۔
مہمان تین دن کا ہوتا ہے ۔۔
یہاں چار مہینے ہوگئے ہیں ۔۔
خود کو مہمان سمجھ کر ہم سے چاکریاں کروانا بند کرو اور ہاتھ بٹایا کرو ۔۔
اب یہ لے جائو ۔۔"
انہوں نے ٹرے کی طرف اشارہ کیا اور شمعون کی سرد نگاہوں کو نظرانداز کرتی وہاں سے گزر گئیں ۔۔
شہلا بیچاری یہ بھی نہیں کہہ سکی کہ آپ لوگوں نے ہی ایک بار کہا تھا ۔۔
"مہمان بن کر رہو ۔۔
سگی بننے کی ضرورت نہیں ۔۔"
سر جھٹک کر شہلا سیڑھیاں چڑھنے لگی تو شمعون کے دل کا چور حواس باختہ ہوگیا ۔۔
"رکو شہلا ۔۔
امتل اور نازیہ ابھی کالج سے لوٹنے والی ہوں گی ۔۔
وہ ہی لے جائیں گی ۔۔
طوبی تم پر کوئی اٹیک کر سکتی ہے ۔۔"
شمعون نے اس سے ٹرے لینا چاہی لیکن وہ پیچھے کرگئی ۔۔
"اٹس اوکے ۔۔
کسی نہ کسی پر اٹیک ہونا ہی ہے تو مجھ پر سہی ۔۔
ویسے بھی اب ہمیشہ یہاں رہنا ہے ۔۔
نفع نقصان ہر چیز میں ساتھ دینا چاہیے ۔۔"
غیر ارادی طور پر شہلا اقرار کر بیٹھی تھی ۔۔
اور پھر شمعون کے ٹھٹک کر دیکھنے پر سٹپٹا کر آگے بڑھ گئی ۔۔

خونی عشق (قسط نمبر 5)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے