خونی عشق - قسط نمبر5

 خونی عشق - قسط  نمبر1

خونی عشق - قسط  نمبر5


"کیا مطلب شہلا ۔۔"
شمعون نے اس کی کلائی تھام کر روک لیا اور سنجیدگی سے پوچھنے لگا ۔۔
البتہ آنکھیں پہلی بار یوں چمک رہی تھیں ۔۔
شہلا سے کوئی جواب نہیں بن پایا تو وہ کھانا ٹھنڈا ہوجانے کا کہتی ہوئی جھنجلا کر اپنی کلائی چھڑوانے لگی ۔۔
ہاتھ میں پکڑی ٹرے کی وجہ سے وہ زیادہ مزاحمت نہیں کر پا رہی تھی ۔۔
شمعون نے گہری نظروں سے اس کی گھبراہٹ ملاحظہ کی ۔۔
پھر جیسے ترس کھا کر اس کی کلائی چھوڑ دی ۔۔
شہلا ایک اچٹتی سی گھوری اس پر ڈال کر آگے بڑھ گئی تو وہ بھی مسکراہٹ دبائے اس کے ہمقدم ہوگیا ۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دونوں جب طوبی کے کمرے کے باہر پہنچے تب شہلا کے چہرے پر کچھ گھبراہٹ تھی ۔۔
جبکہ شمعون کا چہرہ بلکل سرد ہوگیا تھا ۔۔
اگر طوبی دماغی طور پر معذور نہ ہو چکی ہوتی تو اب تک وہ اس کا بھی صفایا کر چکا ہوتا ۔۔
جبڑے بھینچ کر شمعون نے کمرے کا لاک کھولا ۔۔
کمرے میں اندھیرا تھا ۔۔
تیمور نے گردن نکال کر اندر کا جائزہ لیا ۔۔
بیڈ پر دراز ہیولا دیکھ کر وہ کچھ مطمئین ہوگیا اور شہلا کو آگے بڑھنے کا اشارہ کیا ۔۔

شہلا نیم اندھیرے کمرے میں بمشکل میز تک پہنچی ۔۔
ٹرے میز پر رکھ کر اس نے آگے بڑھ کر دیوار گیر کھڑکی کے پردے ہٹائے ۔۔
پورا کمرہ سورج کی تیز روشنی میں نہا گیا ۔۔
شمعون نے ترچھی ناگوار نظروں سے "اوں ہوں" کر کے نیند سے بیدار ہوتی طوبی کو گھورا پھر صوفے پر ٹک گیا جبکہ شہلا لب کچلتی طوبی کو اٹھتا دیکھنے لگی ۔۔
"طوبی نقصان پہنچا دیگی ۔۔
طوبی یہ کر دیگی ۔۔
طوبی وہ کر دیگی ۔۔"
حویلی کے مکینوں نے باتیں ہی کچھ ایسی کی تھیں کہ وہ دل ہی دل میں سخت پریشان ہوگئی تھی ۔۔
لیکن اب شمعون کو وہیں بیٹھتا دیکھ کر کچھ مطمئین بھی ہوگئی تھی ۔۔
طوبی نے عجیب سی نظروں سے شہلا کو گھورا پھر گردن موڑ کر شمعون کی طرف دیکھا ۔۔
شمعون پاس پڑا کوئی میگزین اٹھا کر چہرے کے آگے کر چکا تھا ۔۔
وہ ہر بار یہی کرتا تھا ۔۔

اسے نہیں اندازہ تھا ۔۔
کہ طوبی اس کے چہرے سے واقف ہے یا نہیں ۔۔
لیکن احتیاط ضروری تھی ۔۔
"کیوں آئے ہو تم لوگ یہاں ۔۔
کون ہو تم لوگ ۔۔
تت تم لوگ وہی بلائیں ہو ناں ۔۔
تم لوگ ابھی بلیاں بن جائوگے ۔۔
بڑی بڑی بلیاں ۔۔
لال لال آنکھوں والی ۔۔
پھپ پھر ۔۔
پھر تم لوگ میری گردن سے گوشت نوچوگے ۔۔
ہے ناں ۔۔
میرا خون پی لو گے تم لوگ ۔۔
میری جان لے لوگے تم لوگ ۔۔
جیسے طبیب بھائی کی لی تھی ۔۔
طبیب بھائی کی طرح مجھے مار دو گے تم لوگ ۔۔
مار دوگے ہے ناں ۔۔
ہاں ۔۔

مار دوگے ۔۔
پھر میں اپنے ماماں پاپا اور بھائی کے پاس چلی جائوں گی ۔۔
اوپر آسمانوں میں ۔۔
جہاں اللہ میاں بھی ہوتے ہیں ۔۔
وہاں کوئی مجھے کچھ نہیں کر سکے گا ۔۔
تم لوگ بھی نہیں ۔۔
ہاہاہاہاہاہاہاہا ۔۔"
چیخ چیخ کر بولتے بولتے طوبی اب قہقے لگانے لگی تھی ۔۔
اس کے پیروں میں زنجیر تھی جو بیڈ کی پائنتی سے بندھی تھی ۔۔
طوبی تالیاں پیٹ پیٹ کر اب شمعون اور شہلا کو اپنے پاس آنے کی اور اپنا خون پینے کی آفر کر رہی تھی ۔۔
"آئو ناں ۔۔
ختم کردو مجھے ۔۔

مجھے آسمان پر جانا ہے ۔۔
اپنے بھائی اور ماماں پاپا سے ملنا ہے ۔۔
پلیز میرا خون پیو ناں ۔۔"
شمعون جو میگزین کے اوپر سے اپنی سیاہ سرد آنکھوں سے طوبی کا تماشہ دیکھ رہا تھا ۔۔
اب اکتا کر شہلا کی طرف دیکھنے لگا ۔۔
اس کا خیال تھا شہلا خوفزدہ ہوگی ۔۔
لیکن شہلا کی چھوٹی چھوٹی غلافی آنکھوں صرف ترحم تھا ۔۔
اور بہت زیادہ تھا ۔۔
شمعون کو عجیب سے احساسات نے گھیر لیا جب ہی اس نے اٹھ کر شہلا کو چلنے کا کہا ۔۔
"یہ ابھی کھانے کے موڈ میں نہیں لگ رہی ۔۔
ایک وقت نہیں کھائے گی تو مر نہیں جائے گی ۔۔
تم چلو ۔۔"

شہلا نے حیرت اور افسوس سے شمعون کے کٹھور انداز کو ملاحظہ کیا پھر نفی میں سر ہلا کر اسے جانے کا اشارہ دیا اور خود طوبی کے قریب بڑھ گئی ۔۔
شمعون تیوریاں چڑھائے کھڑکی کی طرف رخ موڑ کر کھڑا ہوگیا ۔۔
طوبی سے یہ ہمدردی کوئی بھی کر لیتا لیکن شہلا نہیں ۔۔
وہ اکتایا ہوا سا پشت سے شہلا اور طوبی کی باتوں کی آوازیں سننے لگا ۔۔
"آپ یہ کھانا کھالیں پلیز ۔۔"
شہلا کی آواز کانپ رہی تھی ۔۔
حویلی کا ہر فرد خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھا ۔۔
لیکن سامنے بیٹھی یہ لڑکی ۔۔
جسے ایک حادثے نے ناکارہ بنا دیا تھا ۔۔
اس کے حسن کے آگے ساری حویلی والوں کا یکجا حسن بھی کچھ نہیں تھا ۔۔
ایک حسن سے مالامال وجود کو اس حال میں دیکھ کر شہلا کا افسوس اور بھی بڑھ گیا تھا ۔۔
طوبی کھانے کا کہنے پر بچوں کی طرح نفی میں سر ہلانے لگی ۔۔
"پہلے تم مجھے کھائو پلیز ۔۔
مجھے مرنا ہے ۔۔
مجھے بھائی کے پاس جانا ہے ۔۔
مجھے ماماں پاپا چاہئیں ۔۔"
شمعون نے کوفت سے ہاتھ کی مٹھی بنا کر اپنے سرپر ماری ۔۔
اس کا دماغ سہی خراب ہو رہا تھا ۔۔
"طوبی آپ کھانا کھالیں ۔۔
ایسے رہیں گی تو آپ کے ماماں پاپا اور بھائی ۔۔
سب کو تکلیف ہوگی ۔۔"
"تم بلی ہو ۔۔
تم مجھے کھانا کیوں کھلانا چاہتی ہو ۔۔
اوہ آئی سی ۔۔
تم اس اسٹوری والی وچ کی طرح کروگی ۔۔
میں کھانا کھا کر موٹی ہوجائوں گی تب تم میرا ڈھیر سارا گوشت کھائوگی ۔۔
ہے ناں ۔۔"
"ہاں ہم ایسا ہی کریں گے ۔۔
تمہارا سارا گوشت کھاجائیں گے ۔۔
یہ ہڈیاں نہیں کھانی ہمیں گوشت کھانا ہے ۔۔
اور گوشت بنانے کے لیئے ضروری ہے کہ تم یہ سارا کھانا کھائو ڈیئر ۔۔"
شمعون اس سب سے بیزار ہو کر اچانک چیخ پڑا اور بیڈ پر طوبی کے دائیں بائیں دونوں ہاتھ ٹکا کر آہستہ سے چبا چبا کر بولا ۔۔
شمعون کی پتلیاں غصے سے چھوٹی ہوگئی تھیں ۔۔
چہرے کے خدو خال نارمل ہونے کے باوجود ان میں ایک خوفزدہ کرنے والا تاثر نظر آرہا تھا ۔۔
شہلا شمعون کو بیڈ کے نزدیک آتا دیکھ کر پہلے ہی پیچھے ہوگئی تھی ۔۔
جب ہی شمعون کا چہرہ دیکھنے سے رہ گئی تھی ۔۔
لیکن طوبی ۔۔
طوبی پر تو جیسے بجلیاں گری تھیں ۔۔
ان آنکھوں کو بھلا کیسے بھول سکتی تھی وہ ۔۔
یہ وہی آنکھیں تو تھیں ۔۔
اور اس کے اتنے نزدیک بھی ۔۔
پہلے پہل تو طوبی کو لگا اس کی آواز کھو گئی ہے ۔۔
پھر اس نے وہ شور اٹھایا کہ شہلا کی بھی خوف سے چیخیں نکل گئیں ۔۔
اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ کر شہلا وہیں بیٹھنے لگی تھی لیکن شمعون کمرے میں بھاگے آتے وجدان کو طوبی کو سنبھالنے کا کہہ کر شہلا کو ساتھ لیئے کمرے سے باہر نکل آیا ۔۔
"اے لو ایک کام دیا وہ تک ہوا نہیں ۔۔
اللہ ہی حافظ ہے بھئی ان کا تو ۔۔"
حمنہ بیگم بھی نیچے سے اوپر بھاگی آئی تھیں ۔۔
طوبی کے کمرے میں جاتے ہوئے شہلا کو تیکھی نظروں سے دیکھتے ہوئے زبان کے نشتر چلانے ضروری سمجھے ۔۔
شمعون ان پر اچٹتی نظر ڈال کر ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا ۔۔
اس کے لبوں پر لمحہ بھر کو عجیب سی مسکراہٹ بکھری پھر معدوم ہوئی تھی ۔۔
"ہم باہر آگئے ہیں ۔۔
اب سب ٹھیک ہے ۔۔
میں نے تو پہلے ہی کہا تھا چلتے ہیں ۔۔
مجھے اس کی طبیعت کا پتہ جو ہے ۔۔
ہر کسی پر ہمدردیاں نہیں نچھاور کردیتے شہلا ۔۔
ابھی میں نہ آتا تمہارے ساتھ ۔۔
کوئی نقصان پہنچا دیتی وہ تمہیں ۔۔
پھر ۔۔"
شہلا نے کوئی جواب نہیں دیا اور غائب دماغی سے طوبی کے کمرے کے کمرے کے دروازے کو دیکھنے لگی جہاں سے طوبی کی آواز ہنوز آ رہی تھی ۔۔
"وہ آ چکا یے ۔۔
وہ پھر سے آچکا ہے ۔۔
وہ ہم سب کو مار دے گا جیسے بھائی کو مار دیا تھا ۔۔
بچائیں مجھے مامی ۔۔
بچائیں مجھے ۔۔"
"شہلا مت سنو اس کی باتیں ۔۔
جائو اپنے کمرے میں ۔۔"
شمعون نے جبڑے بھینچ کر بدقت نرمی سے کہا ۔۔
شہلا لب بھینچ کر مرے مرے قدموں سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔۔
اور پیچھے تیمور نے گھور کر طوبی کے کمرے کی طرف دیکھا ۔۔
"ایک بار شہلا میری ہوجائے ۔۔
سب کو ٹھکانے لگادوں گا ۔۔"
شمعون اندر ہی اندر دہاڑتا ہوا بجتے ہوئے فون کی طرف متوجہ ہوا ۔۔
فون اس کی کمپنی کی طرف سے تھا ۔۔
فون کان سے لگا کر وہ سائڈ ہوگیا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام ڈھلے کا وقت تھا ۔۔
موسم ابر آلود تھا ۔۔
گیلری میں کھڑی وہ سرمئی بادلوں پر نظریں ٹکائے طوبی کے متعلق ہی سوچ رہی تھی جب امتل نے آ کر اسے تیمور صاحب کا بلاوا پہنچایا ۔۔
شہلا غائب دماغی سے سر ہلا کر اس کے پیچھے نکل گئی لیکن لائبریری کے دروازے پر پہنچ کر اچانک ذہن میں کچھ کلک ہوا ۔۔
"کہیں تیمور انکل ۔۔
شمعون کے بارے میں تو ۔۔
اففف ۔۔
کیسے جواب دوں ۔۔
تیمور انکل کیا سوچ رہے ہونگے ۔۔
اتنا بڑا حادثہ ہوا ہے ان کے خاندان میں ۔۔
اور میں ان کی حویلی میں رہ کر کیا کیا گل کھلاتی پھر رہی ہوں ۔۔"
اپنی سوچوں میں گم اسے احساس نہیں ہوا کہ شمعون اس کے بلکل قریب آ چکا ہے ۔۔
شہلا کے شانے کے اوپر سے اپنا چہرہ آگے کر کے شمعون کچھ دیر تک شہلا کے ترچھے چہرے پر آتے جاتے رنگ دیکھتا رہا پھر اس کے کان کے قریب ہونٹ کر کے مدھم گمبھیر آواز میں التجائیا گویا ہوا ۔۔
"ہاں کہنا شہلا ۔۔
پلیز ۔۔"
کان پر گرم سانسوں کا احساس ۔۔
اور یہ التجا ۔۔
شہلا اچھل کر پیچھے ہوئی تو نظریں شمعون کی آنکھوں سے ٹکرائیں ۔۔
جو ہمیشہ کی طرح آج بے تاثر نہیں تھیں ۔۔
کچھ کہہ رہی تھیں ۔۔
کچھ پوچھ رہی تھیں ۔۔
اکسا رہی تھیں ۔۔
شہلا کو اپنے گال تمتاتے محسوس ہوئے تو خود سے ہی گھبراتی ہوئی وہ جلدی سے لائبریری میں گھس گئی ۔۔
پیچھے شمعون شاد سا مسکرا دیا ۔۔
وہ اب مطمئین تھا ۔۔
کیونکہ وہ اپنا کام کر چکا تھا ۔۔
اسے سو فیصد یقین تھا کہ شہلا اب ہاں ہی کرے گی ۔۔
وہ کچھ وقت کے لیئے اس کے ذہن کو اپنے سحر میں لے چکا تھا ۔۔
شہلا اگرچہ خود بھی "ہاں" کہنے کا فیصلہ کر چکی تھی ۔۔
لیکن شمعون جانتا تھا ۔۔
انسان اپنی باتوں پر کم ہی قائم رہتے ہیں ۔۔
پھر اس کا دل بھی ایک بے نام سے خوف کا شکار رہتا تھا ۔۔
شہلا کی طرف سے ایک دھڑکا لگا رہتا تھا ۔۔
سو اس نے اپنا سحر چلانا ضروری سمجھا تھا ۔۔
اوپر جانے والی سیڑھیوں پر بیٹھ کر شمعون نے اپنی نظریں لائبریری کے بند دروازے پر جما دی تھیں ۔۔
سگرٹ کے کش لیتا حمزہ جب اپنے کمرے سے نکلا تو شمعون کے چہرے پر پھیلی گہری مسکان دیکھ کر حیران ہوا ۔۔
شمعون کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھنا ایسا ہی تھا جیسے رات کے وقت سورج دیکھنا ۔۔
"چاچو ۔۔"
حمزہ نے شمعون کے قریب جا کر پکارا ۔۔
شمعون کی مسکراہٹ معدوم ہوگئی اور اس نے سپاٹ نظروں سے حمزہ کو دیکھا ۔۔
"خوش لگ رہے ہیں ۔۔"
حمزہ نے ابرو اچکا کر پوچھا ۔۔
"تو ۔۔؟
تکلیف ہو رہی ہے تمہیں ۔۔"
شمعون کی طرف سے طنزیہ جواب ملنے کی ہی امید تھی ۔۔
اور وہی ملا بھی ۔۔
حمزہ کوفت سے اسے دیکھتا ہوا پلٹنے لگا جب لائبریری کا دروازہ کھلا ۔۔
پہلے شہلا نکلی ۔۔
بڑی جلدی میں لگتی تھی ۔۔
سیڑھیوں پر شمعون کو دیکھا تو سٹپٹا کر لان میں بھاگ گئی ۔۔
شمعون بے ساختہ قہقہ لگا کر ہنس پڑا ۔۔
حمزہ چونک کر ٹکر ٹکر کبھی شمعون کو دیکھتا تو کبھی اس راہ کو جہاں سے شہلا گئی تھی ۔۔
ابھی وہ الجھا ہوا سا شہلا کے پیچھے جانے کا سوچ ہی رہا تھا جب اندر سے بڑبڑاتی ہوئی جویریہ بیگم بھی نکلیں ۔۔
ان کے ساتھ تیمور آفندی بھی تھے ۔۔
"تیمور آپ ایک بار ۔۔
شہلا کو شمعون کی حقیقت تو بتا دیتے ۔۔
ایسے ہی جلد بازی میں رشتہ جوڑ دیا ۔۔
کل کو وہ لڑکی گلا کرے کہ مجھے ایک حرام ۔۔"
جویریہ بیگم کی چلتی زبان شمعون کی چڑھی تیوری دیکھ کر رک گئی ۔۔
گڑبڑا کر وہ سر جھٹکتی ہوئی حویلی کی باقی خواتین کو اس نئے رشتے کے بارے میں بتانے بھاگ نکلیں ۔۔
جبکہ تیمور آفندی شمعون کی طرف بانہیں پھیلا کر بڑھ گئے ۔۔
شمعون مدھم سی مسکراہٹ کے ساتھ ان کے گلے لگ گیا ۔۔
پیچھے کھڑا حمزہ خود کو دنیا کا سب سے بیوقوف انسان محسوس کر رہا تھا ۔۔
بالآخر تیمور آفندی کو اس کا دھیان بھی آ ہی گیا اور وہ ایسے ہی بانہیں پھیلائے پھیلائے اس کی طرف بڑھے ۔۔
حمزہ خجل سا ہو کر ہنس پڑا ۔۔
"اب بتائیں ناں ۔۔
کیا ہو رہا ہے ۔۔
چاچی کیوں بگڑ رہی ہیں ۔۔"
"ارے تمہاری چاچی کب نہیں بگڑتیں ۔۔
اسے چھوڑو ۔۔
بات یہ ہے کہ ۔۔
شمعون اور شہلا کی شادی کا فیصلہ کیا ہے ہم نے ۔۔
سب اسی مہینے ہوگا سادگی سے ۔۔
کمپنی کے کام سے شمعون پھر کینیڈا چلا جائے گا ۔۔
بہت وقت لگ جائے گا اگر اس کی واپسی کا انتظار کیا ۔۔
اور یہ ہوا جا رہا ہے بے صبرا ۔۔"
آخر میں تیمور آفندی نے شرارت سے شمعون کو دیکھا تو وہ اس بار اپنی ہنسی روک نہیں سکا ۔۔
ان دونوں کے ہنستے مسکراتے چہروں کو دیکھتے ہوئے حمزہ کو اپنا آپ بلکل خالی خالی محسوس ہو رہا تھا ۔۔
ابھی تو اس کے دل میں محبت کی ننھی سی کونپل پھوٹی تھی ۔۔
زیادہ وقت تو نہیں گزرا تھا ۔۔
ایک یہی تو شغل تھا اس کا آج کل صرف ۔۔
چوری چوری شہلا کو دیکھنا ۔۔
ڈانٹ ڈپٹ کر اسے اپنی طرف متوجہ رکھنے کی کوشش کرنا ۔۔
(خواہ برا ہی سوچے ۔۔
لیکن سوچے تو سہی ۔۔)
محبت ہوگئی تھی ۔۔
لیکن پہلی پہلی نئی نئی تھی ۔۔
ابھی محبت نبھانے کا سلیقہ نہیں آتا تھا ۔۔
پھر جو حالات چل رہے تھے حویلی میں ۔۔
کیا ایسے میں اس کا اظہار محبت اچھا لگتا ۔۔؟
بلکل نہیں ۔۔
لیکن اس بیچارے کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا ۔۔
کہ اس کا تکلف ۔۔
اس کی خاموشی ۔۔
اس کا اتنا بڑا نقصان کر دے گی ۔۔
اور وہ بیٹھا دیکھتا رہ جائے گا ۔۔
جیسے ہی یہ خبر حویلی میں پھیلی ۔۔
ایک شور سا مچ گیا تھا ۔۔
کوئی ناگواری کا اظہار کر رہا تھا تو کوئی حیرت کا ۔۔
کوئی کوئی خوش بھی لگ رہا تھا ۔۔
"چلو کوئی تو خوشی کی گھڑی نصیب ہوئی ۔۔"
جعفر صاحب کی بیوہ شمائلہ بیگم کی عدت بھی کچھ دن پہلے ہی ختم ہوئی تھی ۔۔
انہوں نے اپنا واویلا شروع کر رکھا تھا ۔۔
ایسے میں سیڑھیوں پر شاک کی کیفیت میں بیٹھے حمزہ پر توجہ کسے دینی تھی ۔۔
گم صم سا وہ سب کو دیکھتا رہا ۔۔
پھر پھیکی سی مسکراہٹ لبوں پر سجائے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خونی عشق (قسط نمبر 6)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے