خونی عشق - قسط نمبر6
شادی کی تمام تقریب حویلی میں ہی رکھی گئی تھی ۔۔
حویلی کے مکینوں کے سوا تیمور آفندی کے ہی کچھ جاننے والے شامل تھے ۔۔
اور شہلا کی طرف سے صرف فیروزہ خالہ اور ان کے اہل خانہ مدعو تھے ۔۔
اس قدر سادگی سے شادی پر تیمور آفندی نے اس سے بہت معزرت کی تھی ۔۔
شہلا خود اپنی جگہ شرمندہ تھی ۔۔
کیسی دلہن تھی وہ ۔۔
جہیز وغیرہ تو دور کی بات ۔۔
اپنے لباس اور زیورات سمیت کسی چیز میں بھی تو اس کی طرف سے ایک پھوٹی کوڑی نہیں لگی تھی ۔۔
وہ تو خود شرمندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں تھی اور کسی سے نظر نہیں ملا پا رہی تھی ۔۔
اب بات اگر شہلا کی ذاتی تیاری کی کی جائے تو کیا یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ شمعون نے کیا کیا نہیں کیا ہوگا ۔۔
مشہور و معروف ڈیزائنر کا سرخ اناری برائیڈل ڈریس ۔۔
جس پر کہیں کہیں سلور اور سیاہ کا ہلکا ہلکا دیدہ زیب کام ہوا تھا ۔۔
بھاری بھرکم دوپٹے کے کناروں پر ننھے ننھے موتی سجے تھے ۔۔
ڈائمنڈ جویلری میں اس کی رنگت چمک رہی تھی ۔۔
سرخ لبوں سے جھانکتے موتیوں جیسے دانت بہت بھلے لگ رہے تھے جن سے وہ الجھن میں گھری ہونٹ کاٹ رہی تھی ۔۔
پور پور سجی وہ ایک الگ ہی چھب میں تھی اور حویلی کی خواتین کو سخت حیران کر رہی تھی ۔۔
بہت سے لوگ اتنے بڑے حادثے کے بعد اچانک شادی پر ناخوش تھے ۔۔
لیکن پروہ کسے تھی ۔۔
ان لوگوں نے کبھی شمعون کو اہمیت کے قابل نہیں سمجھا تھا ۔۔
اسے ہر معاملے سے دور رکھا تھا ۔۔
پھر اس کے ذاتی معاملے میں کیسے کچھ کہہ سکتے تھے ۔۔
نکاح کے بعد جب شمعون لان سے اٹھ کر مرد حضرات سمیت لائونج میں آیا تو شہلا کو کہیں نہ پا کر اچھا خاصہ تلملا گیا ۔۔
اشارے سے امتل کو پاس بلایا جو حمزہ کو میسجز کیئے جا رہی تھی ۔۔
صبح سے وہ نہ جانے کہاں چھپا بیٹھا تھا ۔۔
"جی ۔۔"
امتل کا انداز لٹھ مار تھا ۔۔
شمعون نے گہری سانس خارج کر کے خود کو کچھ سخت کہنے سے روکا ۔۔
"شہلا کہاں ہے ۔۔؟
یہاں کیوں نہیں یے ۔۔؟"
"اسے تھکاوٹ ہو رہی تھی ۔۔
اس لیئے کمرے میں بھیج دیا آپ کے ۔۔"
شمعون کی پیشانی کا بل دیکھ کر امتل سیدھی ہوگئی اور گھبراہٹ میں جلدی جلدی بتا کر وہاں سے بھاگ نکلی ۔۔
جبکہ شمعون مطمئین ہو کر تیمور آفندی کی جانب متوجہ ہوگیا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمعون جب کمرے میں داخل ہوا ۔۔
تب تک شہلا رو رو کر اپنی آنکھیں سجا چکی تھی ۔۔
ظاہر ہے یہ وقت ہی کچھ ایسا تھا ۔۔
اپنوں کی یاد آنی فطری تھی ۔۔
شمعون کے آنے پر شہلا نے جلدی سے اپنی آنکھیں ہنائی ہاتھوں کی پشت سے پونچھیں ۔۔
شہلا کو اندازہ تھا وہ اس وقت خوف و ہراس سے بلکل ٹھنڈی یخ ہو رہی تھی ۔۔
موسم ابھی اتنا سرد نہیں تھا ۔۔
پھر بھی شہلا اپنا برف برف وجود محسوس کر سکتی تھی ۔۔
شمعون دم بخود سا لمبی لمبی گھنی پلکوں پر ٹکے آنسئوں کا رقص دیکھنے لگا ۔۔
شہلا گھبراہٹ میں کبھی نظریں اٹھا کر شمعون کی طرف دیکھتی ۔۔
کبھی نظریں جھکا لیتی ۔۔
کبھی ٹیبل پر جلتی شمع کو دیکھتی ۔۔
تو کبھی گیلری کے آگے پڑے سفید پردے کو ۔۔
جو ہلکی ہلکی ہوا کے زور پر لہرا رہا تھا ۔۔
کمرے کی تمام بتیاں بجھی تھیں ۔۔
صرف بیڈ کے سائڈ ٹیبل پر رکھے لیمپ روشن تھے جن سے زرد خواب ناک روشنی پھوٹ رہی تھی ۔۔
جو شہلا کے وجود کے ساتھ ساتھ ان لمحات کو بھی سحر انگیز بنا رہی تھی ۔۔
شمعون کو لگا اگر اس نے درمیانی فاصلہ مزید کچھ دیر قائم رکھا تو غضب ہی ہوجائے گا ۔۔
اس نے بے اختیار ہو کر اپنا ہاتھ شہلا کے چہرے کی طرف بڑھایا تھا ۔۔
شہلا اپنے سرد گال پر شمعون کا دہکتے مضبوط ہاتھ کا ہلکا سا لمس محسوس کر کے سر جھکا گئی جبکہ شمعون کے چہرے کا رنگ سفید ہونے لگا ۔۔
اس نے کرنٹ کھا کر اپنا ہاتھ پیچھے کیا تھا ۔۔
اتنا ہی نہیں ۔۔
خود بھی وہ کئی قدم پیچھے ہوتا شہلا کو حیران پریشان کر گیا تھا ۔۔
شہلا نے خوفزدہ ہو کر شمعون کی طرف دیکھا جو اپنے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑے متوحش سا اِدھر اُدھر چکرا رہا تھا ۔۔
"شش شم ۔۔"
شہلا نے اس سے اس کی طبیعت کے متعلق پوچھنے کی کوشش کی لیکن شمعون اچانک اس کی طرف پلٹا اور شہلا کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تقریباً دبوچ کر گویا ہوا ۔۔
"سوجائو شہلا ۔۔
ابھی اور اسی وقت ۔۔
آرام کرو شاباش ۔۔
اتنی اچانک بننے والے رشتے سے تم گھبرا رہی ہوں گی ناں ۔۔
میں تمہارے احساسات سمجھ رہا ہوں ۔۔
تم خود کو مینٹلی تیار کرو ۔۔
ساری الجھنیں بھلا دو ۔۔
میں صبر کر سکتا ہوں ۔۔
گڈ نائٹ ۔۔"
اپنی بات مکمل کر کے شمعون جھٹکے سے اس کا چہرہ چھوڑ کر کمرے سے نکلتا چلا گیا ۔۔
پیچھے شہلا خوف اور حیرت کی مورت بنی سیج پر بیٹھی رہ گئی ۔۔
اسے شمعون کی دماغی حالت پر شبہ ہونے لگا ۔۔
اور وجہ شمعون کے الفاظ نہیں اس کا انداز تھا ۔۔
اگر یہی باتیں وہ نارملی کرتا تو شہلا کے دل میں اس کی قدر بے انتہا بڑھ جاتی ۔۔
اسے واقعی ابھی کچھ وقت چاہیے تھا ۔۔
لیکن شمعون کا انداز تو ایسا تھا کہ شہلا کے دل میں الٹا ایک خوف سا بیٹھ گیا تھا ۔۔
کچھ دیر تک شہلا بیٹھی انتظار کرتی رہی کہ شائد ابھی شمعون آئے گا اور اپنے رویئے کی وضاحت دے گا ۔۔
لیکن انتظار انتظار ہی رہا ۔۔
تھک ہار کر وہ چینج کرنے اٹھ گئی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمعون لان میں لگے جھولے پر بیٹھا تھا ۔۔
جھولا آہستہ آہستہ آگے پیچھے ہل رہا تھا ۔۔
جبکہ اس کی نظریں اپنے کمرے کی گیلری پر جمی تھیں ۔۔
بے بسی کے احساس سے شمعون کا وجود ہولے ہولے کانپ رہا تھا ۔۔
اور آنکھوں کی پتلیاں چھوٹے چھوٹے نقطوں کی شکل اختیار کر چکی تھیں ۔۔
"کیوں کیوں کیوں ۔۔
کیوں نہیں ہوں میں ایک عام انسان ۔۔
کیوں میں اپنی محبت کو پا کر بھی چھو نہیں سکتا ۔۔
کیا فائدہ میری اتنی طاقتوں کا ۔۔
آخر کیوں نہیں ۔۔"
شمعون چیخنا چاہتا تھا لیکن اس کی چیخ ساری حویلی کی نیندیں اڑا سکتی تھی سو وہ دل میں دہاڑتا رہا ۔۔
اس نے جب شہلا کے چہرے کو چھوا تھا تب اسے یوں محسوس ہوا تھا جیسے اس کے جسم سے آگ کی لپیٹیں نکل رہی ہوں ۔۔
شہلا کے نرم سرد گال میں در حقیقت اس کی انگلیاں گڑ جانے کو ہو رہی تھیں ۔۔
وہ سرتاپا آگ تھا ۔۔
وہ شہلا کو جلا کر خاکستر کر سکتا تھا ۔۔
اگر معاملہ محبت کا نہ ہوتا صرف جسمانی تعلق کا ہوتا جو اس جیسی بہت سی دوسری مخلوقات کسی انسان پر فدا ہو کر قائم کر لیتی ہیں تو وہ بھی پیچھے نہ ہٹتا ۔۔
لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وہ شہلا کی جان نہیں لے سکتا تھا ۔۔
یہ ناممکن تھا ۔۔
جان ہی لینی ہوتی تو اتنے احتمام ۔۔
اتنا صبر کس لیئے کرتا ۔۔
اتنی بڑی حقیقت کیسے جھٹلا رہا تھا وہ ۔۔
"کیا مصیبت ہے ۔۔"
وہ اندر ہی اندر خود سے لڑ رہا تھا جب اس نے اپنے کمرے کی گیلری میں کودتی اس سیاہ بلی کو دیکھا ۔۔
شمعون لمحوں میں پہچان گیا تھا وہ اس کی ماں تھی ۔۔
اندیشوں میں گھرا وہ بھی سیاہ بلے کا روپ دھارتا درختوں کی دو تین چھلانگوں کے بعد اپنی ماں کے مقابل تھا ۔۔
ایونا نے سرد نظروں سے اسے گھورا اور غرائی ۔۔
"کون یے یہ ۔۔؟
تمہارے کمرے میں کیا کر رہی ہے ۔۔
یہ سب کیا چل رہا ہے شمعون ۔۔
مت کہنا کہ تم وہ ناقابل معافی غلطی کر چکے ہو ۔۔"
جواباً شمعون بھی اس سے اونچا غرایا ۔۔
"یہ میرا ذاتی معاملہ ہے ۔۔
میں اس میں کسی کی دخل اندازی برداشت نہیں کروں گا ۔۔
آپ صرف اتنا کریں کہ اس لڑکی سے دور رہیں ۔۔
بھوک لگی ہے آپ کو ۔۔
کل تک کا صبر کریں ۔۔
کچھ کرتا ہوں میں ۔۔
لیکن اس لڑکی کی طرف آپ نے یا قبیلے والوں نے نظر اٹھا کر بھی دیکھا تو انجام بہت بھیانک ہوگا ۔۔"
"تم ایک آدم زادی کے لیئے اپنی ماں اور قبیلے کی دشمنی مول لے رہے ہو ۔۔"
"میں کسی سے دشمنی مول نہیں لے رہا ۔۔
یہ آپ لوگ ہوں گے جو اس لڑکی کی طرف بڑھ کر مجھ سے دشمنی کریں گے ۔۔
میں نے کہہ دیا دور رہیں مطلب دور رہیں ۔۔"
شمعون کی غراہٹ ناقابل برداشت حد تک کریہہ تھی ۔۔
کچی نیند میں ڈولتی شہلا چونک کر اٹھ بیٹھی اور گیلری میں دو بڑی بڑی سیاہ بلیوں کو ایک دوسرے پر غراتے دیکھ کر خوف سے چیختے چیختے رہ گئی ۔۔
یہ بلیاں وہی بلائیں تھیں ۔۔
ان کے حد سے زیادہ بڑے سائز دیکھ کر شہلا نے اندازہ لگا لیا ۔۔
منہ پر ہاتھ رکھ کر شہلا نے یہاں وہاں شمعون کو ڈھونڈنا چاہا اور شمعون کو کہیں نہ پا کر مزید خوفزدہ ہوگئی ۔۔
شمعون نے ایونا سے بحث کرتے ہوئے ایک نظر شہلا پر ڈالی جو خوف سے سکڑی بیٹھی تھی ۔۔
پھر ایونا کو گھورا ۔۔
"کہا ناں جائیں یہاں سے ۔۔"
"اس مصیبت کو جڑ سے ختم کیئے بغیر میں نہیں جائونگی ۔۔"
ایونا نے نفرت سے کہتے کے ساتھ ہی شہلا کی طرف چھلانگ لگائی تھی لیکن شمعون نے اچھل کر ایونا کو دبوچ کر نیچے گرا لیا ۔۔
شہلا چیخوں کا گلا گھونٹی ہوئی تیزی سے کمرے سے باہر بھاگی ۔۔
اندر دونوں بلیوں نے وہ طوفان بدتمیزی مچا دیا کہ کوئی چیز اپبی جگہ سلامت نہیں رہی تھی ۔۔
اوپر سے بلیوں کی کان پھاڑتی غراہٹیں ۔۔
حویلی کے کمروں کے دروازے کھٹاکھٹ کھلے ۔۔
سب خوفزدہ سے لائونج میں جمع ہوگئے ۔۔
وجدان نے ہمت کر کے شمعون کے کمرے کا دروازہ بند کردیا لیکن شور غراہٹیں چیخیں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ تیز ہوتی جا رہی تھیں ۔۔
شہلا کا رنگ ہلدی کی طرح زرد ہو چکا تھا ۔۔
شمعون کی فکر میں الگ دل پریشان تھا ۔۔
نہ جانے اسے کیا پریشانی تھی ۔۔
وہ اسے یوں تنہا چھوڑ کر کہاں چلا گیا تھا ۔۔
"یہ بلیاں ۔۔
توبہ ۔۔
اللہ خیر کرے ۔۔ ۔۔
خدارا کچھ کریں فخر ۔۔"
حمنہ بیگم اپنے شوہر سے مخاطب ہوئیں ۔۔
"کیا کروں ۔۔؟
اندر جا کر ان کا ڈنر بن جائوں ۔۔"
فخر آفندی پریشانی سے چلائے ۔۔
کچھ وقت پہلے ہی انہوں نے ہانیہ کو کھویا تھا ۔۔
اور اب یہ حمزہ پتہ نہیں صبح سے کہاں گم تھا ۔۔
"آرام سے فخر بھائی ۔۔"
تیمور آفندی نے اپنے بڑے بھائی کا شانہ تھپتھپایا پھر شہلا کے پاس جا کر بیٹھ گئے ۔۔
"شہلا بیٹا ۔۔
شمعون کہاں ہے ۔۔؟"
شہلا ان کے پوچھنے پر خالی خالی نظروں سے انہیں دیکھنے لگی ۔۔
"کیسا لاپروہ لڑکا ہے آپ کا پیارا بھائی ۔۔
شادی کے لیئے اتاولا ہو رہا تھا ۔۔
اب ہوگئی تو ان حالات میں اپنی دلہن کو تنہا چھوڑ کر بھاگ گیا ۔۔"
جویریہ بیگم نے ہاتھ نچا نچا کر کہا ۔۔
باقی خواتین نے ہاں میں ہاں ملانی ضروری سمجھی جب اچانک بلیوں کا شور بلکل بند ہوگیا اور ہر طرف موت کی سی خاموشی چھاگئی ۔۔
ایسی ہیبت ناک خاموشی تھی ۔۔
سب ٹکر ٹکر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے ۔۔
"کون توڑے یہ خاموشی ۔۔؟"
"کون کرے یہ ہمت ۔۔؟"
سب کی آنکھوں میں یہی سوال تھا جب لائونج کا بھاری دروازہ کھول کر شمعون اندر داخل ہوا ۔۔
اس کے قدموں کی دھمک نے خاموشی کو توڑ ہی دیا ۔۔
سب کے سب گردنیں موڑے اسے دیکھ رہے تھے اور وہ شہلا کو ۔۔
"کیا ہوا ہے سب ٹھیک ہے ۔۔؟
یہاں کیوں جمع ہیں آپ لوگ ۔۔؟"
شہلا کے روئے روئے چہرے سے اپنی سپاٹ نظریں ہٹا کر وہ تیمور آفندی سے مخاطب ہوا ۔۔
"پہلے تم بتائو تم کہاں تھے ۔۔
کچھ ہوش ہے کیا حالات چل رہے ہیں ۔۔
ایسے میں تم اسے اکیلا چھوڑ کر کیسے جا سکتے ہو ۔۔
یہ لڑکی اب تمہاری ذمہ داری ہے ۔۔
اتنی لاپراہی برتو گے تو کیسے چلے گا شمعون ۔۔
تم سے یہ امید نہیں تھی ۔۔"
تیمور آفندی کی آواز اونچی سے سونچی ترین ہوگئی تھی ۔۔
انہیں خود بھی اندازہ نہیں ہوا تھا ۔۔
سب حق دق تھے ۔۔
کیونکہ پہلی بار تیمور آفندی شمعون سے اس طرح مخاطب ہوئے تھے ۔۔
شمعون کی ضبط سے مٹھیاں بھینچ گئی تھیں ۔۔
لیکن وہ سر جھکائے چپ رہا کونکہ مقابل تیمور آفندی تھے ۔۔
جو شہلا کی ہی بھلائی سوچ کر اس طرح بات کر رہے تھے ۔۔
"کینیڈا سے ایک کال آگئی تھی ۔۔
ڈسٹربنس کے خیال سے باہرچلا گیا تھا ۔۔
لان مں بیٹھے بیٹھے ہی آنکھ لگ گئی ۔۔
پھر اندازہ نہیں ہوا کسی چیز کا ۔۔
اب بتائیں گے پلیز کے سب یہاں کیوں جمع ہیں ۔۔"
تیمور آفندی چپ سے ہوگئے ۔۔
پھر اسے ساری صورتحال سمجھانے لگے ۔۔
جبکہ شہلا حیرت سے اپنی ڈبڈبائی آنکھوں سے شمعون کو دیکھ رہی تھی ۔۔
جس نے کس اعتماد سے فون کال کا جھوٹ بولا تھا ۔۔
"اوہ ۔۔
اتنا سب ہوگیا اور میں بے خبر رہا ۔۔
تم ٹھیک ہو ۔۔؟"
آخر میں س نے جھک کر شہلا سے پوچھا ۔۔
لیکن شہلا کچھ غصے سے اپنی نظریں اس پر سے ہٹا گئی ۔۔
اس کے اس انداز پر شمعون کے اندر آتش فشاں سا پھٹا تھا ۔۔
"چلیں پھر چل کر دیکھیں اب اتنی خاموشی کیوں ہوگئی ہے ۔۔"
شمعون نے تیمور آفندی سے کہا ۔۔
وہ سر ہلا کر آگے بڑھنے لگے ۔۔
جب جویریہ بیگم ان سے بولیں ۔۔
"صبح تک کا انتظار کر لیں ۔۔"
"تاکہ کوئی اور حادثہ ہوجائے ۔۔"
تیمور آفندی خفگی سے کہہ کر آگے بڑھے ۔۔
اب سب سے آگے شمعون تھا ۔۔
پھر تیمور آفندی ۔۔
اور ان کے پیچھے وجدان تھا ۔۔
پیچھے حمزہ بھی سارا دن اپنی ناکام محبت کا سوگ منا کر حویلی لوٹ آیا تھا اور اب حمنہ بیگم اور فخر صاحب کی جھڑکیاں حیرت سے سن رہا تھا ۔۔
شمعون نے جب اپنے کمرے کے دروازے کے ہینڈل کو پکڑا تب اس کے چہرے پر ایک رنگ سا آ کر گزرا تھا ۔۔
وہ جانتا تھا اسے کیا دیکھنے کو ملنے والا تھا جبکہ تیمور آفندی اور وجدان دم سادھے کھڑے تھے ۔۔
شمعون نے لاک گھمایا ۔۔
دروازہ بے آواز کھلتا چلا گیا ۔۔
سامنے کمرے کی حالت ایسی تھی جیسے یہاں سے کوئی طوفان گزرا ہو ۔۔
کوئی چیز بھی تو اپنی جگہ سلامت نہیں تھی ۔۔
لیکن سب سے خوفزدہ کر دینے والی چیز وہ مردہ سیاہ بلی تھی جس کے اندر سے سیاہ گاڑھا سیال بہہ بہہ کر اس کے آس پاس کی جگہ کو گھیر رہا تھا ۔۔
"اوہ خدا ۔۔"
تیمور آفندی بڑبڑائے ۔۔
وجدان نیچے سب کو بتانے بھاگا ۔۔
جبکہ شمعون کی سرد آنکھوں سے ایک موتی گرا جسے اس نے تیمور آفندی سے چھپا کر صاف کر لیا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سارے لائونج میں بھن بھناہٹیں ہو رہی تھیں ۔۔
جو سپاٹ چہرہ لیئے بڑے سے کالے شاپر میں مردہ بلی ڈال کر سیڑھیاں اترتے شمعون کو دیکھ کر رک گئی تھیں ۔۔
اب سب کی خوفزدہ نظریں اس کالے شاپر پر منڈلانے لگی تھیں ۔۔
"اسے کہاں پھینکو گے تم شمعون ۔۔؟
یہ کوئی عام سی بلی نہیں ہے ۔۔"
"جانتا ہوں ۔۔"
تیمور آفندی کے پوچھنے پر وہ بوجھل لہجے میں جواب دیتا ہوا آگے بڑھ گیا ۔۔
تیمور آفندی کو اس کا لہجہ چونکا گیا ۔۔
وہ بھی اس کے پیچھے ہو لیئے ۔۔
"کیا بات ہے شمعون ۔۔"
"جی ۔۔
کچھ نہیں ۔۔
کیا بات ہوگی ۔۔"
"سمجھ آگیا مجھے ۔۔
یہ تمہاری زندگی کا خاص وقت ہے ۔۔
اور آج ہی یہ بلیوں کی نحوست ۔۔
لیکن تم دل خراب مت کرو اپنا ۔۔"
تیمور آفندی شمعون کے دل کا حال جانے بغیر اپنے تئیں اسے حوصلہ دے رہے تھے ۔۔
اور وہ بیچارہ اس حال میں تھا کہ نہ انہیں چپ ہونے کو کہہ سکتا تھا ۔۔
اور پرسکون ہو کر ہنس دینا تو خیر ۔۔
ناممکنات میں سے تھا ۔۔
اس نے شاپر گاڑی کی ڈگی میں رکھا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا ۔۔
تیمور آفندی نے ساتھ چلنا چاہا لیکن اس نے منع کر دیا ۔۔
وہ اس وقت صرف تنہائی چاہتا تھا ۔۔
"اپنا خیال رکھنا ۔۔"
تیمور آفندی نے دل میں اٹھتے اندیشوں کو جھٹکتے ہوئے کہا تو شمعون کے لب پل بھر کو پھیل کر سمٹ گئے ۔۔
گیٹ پر کھڑے تیمور آفندی دور جاتی سیاہ گاڑی کو بہت دیر تک دیکھتے رہے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"میں ہی منحوس ہوں ۔۔
میرا نصیب ہی خراب ہے ۔۔
وقت ہی کتنا گزرا یے میری شادی کو جو اب یہ نئی مصیبت ۔۔"
شہلا واپس گیسٹ روم میں آگئی تھی ۔۔
سب لوگ لائونج میں جمع تھے اور اسی حادثے پر اظہار خیال کر رہے تھے ۔۔
لیکن شہلا کو یوں لگ رہا تھا جیسے سب اسی کی ذات کے بارے میں باتیں بنا رہے ہوں ۔۔
وہ خود کو اس سب کا قصوروار سمجھ رہی تھی ۔۔
اوپر سے شمعون کا عجیب و غریب رویہ ۔۔
سخت الجھن کا شکار تھی وہ اس وقت ۔۔
" کیا ہو گیا تھا ۔۔
اب کیا ہوگا ۔۔
شمعون نے وہ سب کیوں کیا ۔۔
سب کیا سوچ رہے ہونگے ۔۔"
پریشان کن سوچوں کی یلغار تھی ۔۔
اور جواب ندارد ۔۔
یونہی خود سے الجھتے الجھتے وہ صوفے پر بیٹھے بیٹھے نیند کی وادیوں میں اتر گئی ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امتل تیمور آفندی کے حکم پر رات کے ڈھائی بجے سب کے لیئے چائے بنا رہی تھی جب حمزہ پانی پینے کچن میں چلا آیا ۔۔
وہ فرج سے پانی کی بوتل نکال کر منہ سے لگانے لگا جب امتل نے تڑپ کر گلاس اٹھا کر اس کی طرف بڑھا دیا ۔۔
"بھائی کتنی بار سمجھایا ہے آپ کو ۔۔
منہ نہیں لگایا کریں بوتل سے ۔۔"
حمزہ نے امتل کی بات کی طرح اس کے بڑھائے گئے گلاس کو بھی نظر انداز کر کے منہ بوتل سے لگا لیا اور غٹاغٹ پانی حلق میں انڈیلنے لگا ۔۔
امتل صبر کا گھونٹ بھر کر رہ گئی ۔۔
جب بوتل واپس رکھ کر وہ کچن سے نکلنے لگا تب امتل طنزیہ انداز میں بولی ۔۔
"اب اپنی ناکام محبت کا سوگ ایسے منائیں گے آپ ۔۔؟
سب سے روڈ ہو کر ۔۔
رات گئے گھر سے باہر رہ رہ کر ۔۔
شہلا میڈم تو عیش میں ہیں ۔۔
پھر آپ ۔۔"
"شٹ آپ امتل ۔۔
کس سے روڈ ہوا ہوں میں ۔۔
میں ہمیشہ سے ایسا ہی ہوں ۔۔
اور زیادہ وقت نہیں ہوا ہے میری بہن کو گزرے ۔۔
سو مجھ سے لڈیاں ڈالنے کی امید رکھنا چھوڑ دو ۔۔
ہاں ۔۔
ہاں مجھے کچھ تکلیف ہوئی ہے ابھی زخم ہرا ہے ۔۔
لیکن ۔۔
آئندہ میرے ساتھ اس طرح شہلا کا ذکر مت کرنا ۔۔
ایک قابل احترام رشتے سے منسوب ہو چکی ہے وہ ہم سے ۔۔
زرا کسی کے کان میں بھنک بھی پڑ گئی تو تم جیسی بیوقوف لڑکی سوچ بھی نہیں سکتی کیا ہوجائے گا ۔۔
وہ بیچاری مفت میں بدنام ہوجائے گی ۔۔
حالانکہ وہ میرے جذبات سے بھی ناواقف تھی ۔۔
بہرحال ۔۔
آئندہ احتیاط کرنا ۔۔
ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ۔۔"
"ہے بھی نہیں ۔۔"
امتل نے اس کے پیٹھ پیچھے زبان چڑا کر کہا ۔۔
وہ ایسی ہی تھی ۔۔
زندہ دل سی ۔۔
کوئی بھی بات زیادہ دیر تک ذہن پر سوار نہیں رکھتی تھی ۔۔
اس وقت بھی اس کے چہرے پر کچھ دیر پہلے ہونے والے واقعے کا زرا بھی اثر نہیں تھا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچانک آسمان پر بڑے بڑے بادل منڈلانے لگے تھے ۔۔
چاند ستارے ان بادلوں کی اوٹ میں چھپ گئے تھے ۔۔
ہوا کا دبائو بہت زیادہ تھا ۔۔
بارش ہونی یقینی تھی ۔۔
ایسے میں وہ جنگل کے بیچ و بیچ کھڑا ہاتھ میں پکڑے شاپر کو زخمی نظروں سے ایک ٹک گھورے جا رہا تھا ۔۔
اس کے گھنے بال ایک طرف کو اڑے جا رہے تھے ۔۔
اور شرٹ بِھی ہوا سے پھول گئی تھی ۔۔
اس نے شاپر کو بہت عقیدت سے دونوں ہاتھوں میں اٹھا رکھ تھا ۔۔
اس کا ضبط اس کے حلق کی گٹھلی سے نمایاں تھا ۔۔
"کیوں مجھے اتنا مجبور کیا آپ نے ۔۔"
اس کی اچانک دہاڑ پورے جنگل میں گونجی تھی ۔۔
"میں سردار ہوں ۔۔
سب سنبھال لیتا ۔۔
پھر کیوں آپ نے اس کی جان لینے کی کوشش کی ۔۔
بہت عزیز ہے وہ مجھے ۔۔
نہیں کرنا چاہیے تھا آپ کو ایسا ۔۔
نہیں کرنا چاہیے تھا ۔۔"
اس کی دہاڑیں کسی عام انسان کے کانوں میں پڑ جاتیں تو لازمی اس انسان کا دل حلق میں آجاتا ۔۔
اس کی دہاڑ میں بلیوں کی غراہٹ تھی ۔۔
پھر وہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھا اور شاپر سامنے رکھ کر ہاتھوں جلدی جلدی گڑھا کھودنے لگا ۔۔
اس کے ہاتھوں میں ایسی پھرتی تھی ۔۔
جو عام انسانی نظروں کو چکرا دیتی ۔۔
دس منٹ میں وہ ایک بہت ہی گہرا گڑھا کھود چکا تھا ۔۔
جیسے ہی اس نے شاپر اٹھایا بارش کی پہلی بوند بھی اس کی ناک پر گر گئی ۔۔
جس پر شمعون نے دھیان نہیں دیا ۔۔
شاپر گڑھے میں ڈالتے ہوئے اس کے ہاتھ لرز رہے تھے ۔۔
دل پر جبر کیئے وہ مرے مرے ہاتھوں سے گڑھے کو کیچڑ بن جانے والی مٹی سے بھرنے لگا ۔۔
اچانک زور پکڑ چکی بارش کی مدھر آواز کے ساتھ اب کئی سارے قدموں کی آوازیں بھی جنگل کی خاموشی میں گونجنے لگیں ۔۔
بغیر پلٹے بھی وہ آنے والوں سے واقف تھا ۔۔
گہری سانس بھر کر جب وہ مڑا تو پیچھے کئی اونچے لمبے جوان بوڑھے سیاہ بے رونق آنکھوں والے لوگ موجود تھے ۔۔
یہ سب اس کے قبیلے کے لوگ تھے ۔۔
اور اس وقت سب ہی اس سے سخت ناخوش لگ رہے تھے ۔۔
کچھ دیر تک یونہی آمنے سامنے کھڑے وہ سب شمعون کو اور شمعون انہیں گھورتا رہا ۔۔
پھر اچانک ان میں سے کوئی ایک غرایا ۔۔
"جانتے ہو تم نے کیا کیا ہے ۔۔؟"
اس کے ساتھ ہی ایک اور طنزیہ غراہٹ ابھری ۔۔
"یہ اچھی طرح جانتا ہے اس نے کیا کیا ہے ۔۔
سردار جو ٹھہرا ۔۔"
"شاکوپا ۔۔
میں نے پہلے ہی کہا تھا ۔۔
ایک ہی خاندان کی غلامی ٹھیک نہیں ہے ۔۔
کوئی مقابلہ ہونا چاہیے ۔۔
اور قبیلے کی سرداری صرف سرداری کے لیئے اہل کو ہی دینی چاہیے ۔۔"
خیمو نامی شخص نے اپنے پہلو میں کھڑے جھکی کمر والے ایک بزرگ کو مخاطب کر کے کہا ۔۔
شمعون نے لبوں پر استہزا سجا کر بغور ان سب کو دیکھا ۔۔
پھر اپنی سرد آواز میں بولا ۔۔
"اور مجھ سے زیادہ اہل پورے قبیلے میں کوئی نہیں ہے ۔۔"
سب نے ایک ساتھ اپنی سرد نظروں سے اسے سرتاپا گھورا ۔۔
"تمہیں اپمی اہلیت ثابت کرنی ہوگی شمعون ۔۔"
شاکوپا نامی شخص نے ٹھنڈے ٹھار لہجے میں کہا ۔۔
شاکوپا کی سفید داڑھی اس کے گھٹنوں سے بھی نیچے جا رہی تھی ۔۔
جبکہ بھنویں اتنی گھنی تھیں کہ اندر کو دھنسی ہوئی ہری گدلی آنکھیں بلکل نظر نہیں آتی تھیں ۔۔
وہ قبیلے کا سب سے محترم بزرگ تھا ۔۔
جھریوں بھری اس کی سفید سفید کھال خوفزدہ کر دینے کی حد تک لٹک رہی تھی ۔۔
بارش کا پانی اس کی داڑھی میں جمع ہوکر نکل رہا تھا ۔۔
شمعون کچھ دیر تک انہیں گھورتا رہا ۔۔
پھر بے بسی کے احساس کے ساتھ سر ہلا دیا ۔۔
لیکن چہرہ سپاٹ ہی رکھا ۔۔
"اور اگر تم اپنی اہلیت ثابت نہ کر سکے ۔۔
تو شمعون تمہیں تمہاری نانی سے بھی بڑی سزا دی جائے گی ۔۔
کیونکہ تم نے غلطی نہیں کی ۔۔
غداری کی ہے ۔۔
ایک معمولی انسان کے لیئے ۔۔
اپنی ماں کی جان لے کر ۔۔"
شاکوپا کا انداز اس کی شخصیت کے برعکس بہت دبنگ تھا ۔۔
شمعون اس بار بھی چپ رہا ۔۔
کیونکہ وہ اپنی غلطی مانتا تھا ۔۔
"تم ابھی اور اسی وقت ہمارے ساتھ "کانادا" چلو ۔۔
"کانادا ۔۔
لیکن کیوں ۔۔"
شمعون بگڑ کر بولا ۔۔
"جب تک تم اپنی اہلیت ثابت نہیں کرتے ۔۔
ہم سے سوال پوچھنے کے بھی اہل نہیں ہو ۔۔"
ان میں سے ایک عورت چلائی ۔۔
شمعون مٹھیاں بھینچ کر رہ گیا ۔۔
"چلو ۔۔"
شاکوپا حکمیہ بولا ۔۔
اگلے ہی پل وہ سب شمعون سمیت بلیوں کے روپ میں بدل کر ایک طرف کو چل پڑے تھے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ اس ہی جنگل میں موجود ایک جھیل کے نزدیک بنا درختوں سے بھرا ہوا علاقہ تھا ۔۔
کوئی انسانی نظر اسے صرف بے شمار درختوں سے گھری جگہ کے طور پر ہی دیکھ سکتی تھی ۔۔
لیکن درحقیقت وہاں ایک قبیلہ آباد تھا ۔۔
وہاں چھوٹی چھوٹی کئی گفائیں بنی تھی جو ان کے "گھر" تھیں ۔۔
یہ علاقہ "کانادا" کہلایا جاتا تھا ۔۔
یعنی شمعون کا کینیڈا ۔۔!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمعون نے تیز نظروں سے بغور اپنے سامنے کھڑے ان تین نوجوانوں کو دیکھا جو بظاہر جسمانی طور پر اس سے بہت بھرپور نظر آ رہے تھے ۔۔
تین مقابلوں میں سے اسے کم از کم دو مقابلے جیتنے تھے ۔۔
پھر سجنا تھا اس کے سر سرداری کا تاج ۔۔
ہار جانے کی صورت میں وہ سرداری سے ہی نہیں ۔۔
اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو سکتا تھا ۔۔
اور اسے اپنی جان بیت عزیز تھی ۔۔
کیونکہ اگر وہ ختم ہوگیا تو ایونا کا بدلہ لینے کے لیئے یہ لوگ شہلا کو بھی ختم کر دیتے ۔۔
پہلے مقابلے میں اسے ان تینو سے باری باری لڑنا تھا ۔۔
اور ان تینو نوجوانوں میں سے دو کو لازمی ہرانا تھا ۔۔
شمعون بآسانی ان سب کی آنکھوں میں سرداری کے حصول کی چمک دیکھ سکتا تھا ۔۔
ان سب کے حلق سے عجیب و غریب غراہٹیں نکل رہی تھیں ۔۔
اچانک شاکوپا نے اپنی جگہ سنبھال کر طبلہ جنگ بجانے کا اشارہ دیا ۔۔
آنکھوں پر گرتے بارش کے پانی کو انگلیوں سے جھٹک کر شمعون بھی غرایا ۔۔
اور اس کے ساتھ ہی وہ اپنے بلے کے روپ میں لوٹ آیا ۔۔
اب ان تینوں نوجوانوں میں سب سے زیادہ بھرپور جسامت والا شخص چند قدم آگے بڑھا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ بھی بلے کی شکل اختیار کر گیا ۔۔
اور پھر وہ خونی کھیل شروع ہوگیا ۔۔
آس پاس قبیلے کے دیگر لوگ بلیوں اور انسانی شکلوں میں کھڑے شور مچا رہے تھے ۔۔
تقریباً سب ہی شمعون کے خلاف تھے ۔۔
ایک تو اس لیئے ۔۔
کہ وہ ایک آدم زاد کی اولاد تھا ۔۔
دوئم ۔۔
اس نے ایک انسان کے لیئے اپنی ماں کو قتل کر دیا تھا ۔۔
ہاں مگر کچھ لوگ اب بھی شمعون کا حوصلہ بڑھا رہے تھے ۔۔
شائد انہیں یقین تھا کہ شمعون اپنی سرداری کی لاج رکھ لے گا ۔۔
سو ایسے میں شمعون سے دشمنی مناسب نہیں تھی ۔۔
لڑائی زور و شور سے جاری تھی ۔۔
دونوں کے جسم سے گاڑھا سیاہ سیال نکل نکل کر گر رہا تھا ۔۔
بارش کا پانی جسمانی تکلیف کو اور بڑھاوا دے رہا تھا ۔۔
ہار ماننے کو دونوں میں سے کوئی تیار نہیں تھا ۔۔
لیکن وہ دوسرا بلا مطمئین تھا ۔۔
جبکہ شمعون کے ذہن پر کچھ بوجھ تھا ۔۔
شہلا کے مل کر بھی نہ ملنے کا بوجھ ۔۔
ماں کے قتل کا بوجھ ۔۔
اور سرداری اور جان کے خطرے کا بوجھ ۔۔
لیکن یہی بوجھ اسے تحریک بھی دے رہا تھا ۔۔
لڑنے کی اور جیت جانے کی ۔۔
لڑائی جاری رہی ۔۔
خون بہتا رہا ۔۔
غراہٹیں اونچی ہوتی رہیں ۔۔
اور پھر شمعون نے اپنے نوکیلے دانتوں سے جکڑ کر خود سے دگنا وزن رکھنے والے بلے کو بھنبھوڑ کر رکھ دیا ۔۔
بارش اب ہلکی ہو چکی تھی ۔۔
شمعون سکون سے الٹے قدم پیچھے ہوتا اب خود کو زبان سے چاٹ رہا تھا ۔۔
جبکہ دوسرے بلے کو میدان سے اٹھا کر لے گئے تھے ۔۔
ایک فتح نے اس کا جوش و جذبہ سو گنا زیادہ بڑھا دیا تھا ۔۔
اور پھر دوسرا اور اس کے بعد تیسرا مقابلہ بھی ہو گیا ۔۔
اسے دو جیتنے تھے ۔۔
وہ تینو جیت گیا ۔۔
پہلی منزل اس نے عبور کر لی تھی ۔۔
اور اب اپنا ادھڑا ہوا زخمی وجود لیئے تن کر شاکوپا کے آگے کھڑا تھا ۔۔
شاکوپا کو شمعون کی اکڑ اور غرور اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔۔
ساتھ ہی شمعون کی آنکھوں میں تمسخر بھی تھا ۔۔
"مجھ سے چھینیں گے سرداری آپ ۔۔؟
مجھے دیں گے سزا ۔۔؟"
شاکوپا نے گہری سانس بھر کر شمعون کو واپس حویلی جانے کو کہا ۔۔
ساتھ ہی کل بستی واپس آنے کو بھی کہا ۔۔
دوسرے امتحان کے لیئے ۔۔
جتاتی ہوئی ایک نگاہ سب پر ڈال کر وہ فاتح کی سی چال چلتا بستی سے نکل گیا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب اس کی گاڑی حویلی کے گیراج میں رکی تب صبح کے ساڑھے چھ بج رہے تھے ۔۔
وہ ہاسپٹل نہیں گیا تھا کیونکہ ڈاکٹر اس کے زخم دیکھ کر چونک سکتے تھے ۔۔
جگہ جگہ کسی جانور کے پنجوں کے نشانات واضع تھے ۔۔
شروع میں تکلیف اتنی نہیں تھی لیکن اب زخم سخت تکلیف دے رہے تھے ۔۔
جب لڑکھڑاتا ہوا وہ حویلی میں داخل ہوا تب ہر طرف خاموشی تھی ۔۔
یقیناً تھکا دینے والی رات کے بعد اب سب اپنے اپنے کمروں میں محو استراحت تھے ۔۔
لیکن سوال یہ تھا کہ شہلا کہاں تھی ۔۔
شمعون کے کمرے میں اس وقت ہونا بلکل ممکن نہیں تھا ۔۔
اچانک ذہن میں جھماکہ ہوا تو وہ کراہتا ہوا گیسٹ روم میں گھس گیا ۔۔
توقع کے مطابق وہ وہیں تھی ۔۔
بستر پر اوندھی پڑی وہ لحاف میں چھپی تھی ۔۔
ترچھا سا چہرہ نکل رہا تھا لیکن ۔۔
اب موسم بدل چکا تھا ۔۔
رات گئے اور صبح سویرے ٹھٹھرا دینے والے سردی ہوتی تھی ۔۔
جبکہ سارا دن جان نکالنے والے گرمی ہوتی تھی ۔۔
خیر ۔۔
شہلا کے قریب جا کر وہ لب بھینچے کچھ دیر تک اسے تکتا رہا ۔۔
کتنے سکون میں تھی وہ ۔۔
اس بات سے انجان کہ اس کے اسی سکون کے لیئے وہ ساری رات کتنی تکلیف میں گزار کر آیا تھا ۔۔
وہ ساری تکلیف تو ایک طرف ۔۔
وہ اس بے خبر سی لڑکی کے لیئے اپنی ماں کی جان لے چکا تھا ۔۔
اور شمعون کی اصلیت جاننے کے بعد ۔۔
کیا شہلا اس کی ان قربانیوں کا احساس کرے گی ۔۔؟
بلکل نہیں ۔۔
اسے ایک "بلا ۔۔ آسیب ۔۔ درندہ ۔۔" کہہ کر دور ہوجائے گی ۔۔
لیکن کیا شمعون اسے دور جانے دے سکتا تھا ۔۔
ظاہر ہے نہیں ۔۔
شمعون اپنی کراہوں پر ضبط کرتے ہوئے شہلا کے قریب ہی بیٹھ گیا ۔۔
پھر اپنی دو انگلیوں کے پوروں سے وہ آہستہ آہستہ شہلا کا ملائم گال سہلانے لگا ۔۔
"تم انسان بے وفا ہوتے ہو ۔۔
میری ساری قربانیاں بھلا کر تم صرف مجھے اس لیئے چھوڑ سکتی ہو ۔۔
کہ میں تمہاری طرح کا عام انسان نہیں ہوں ۔۔
لیکن میں تمہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا ۔۔
کیونکہ ۔۔
کیونکہ میں تمہاری طرح کا عام انسان نہیں ہوں ۔۔
ہاہاہاہاہا ۔۔۔"
شمعون جھک کر شہلا کے کان پر سے بال ہٹا کر آہستگی سے بولا اور پھر مدھم سا ہنس کر پیچھے ہوگیا ۔۔
کیونکہ شہلا نیند سے بیدار ہو رہی تھی ۔۔
شہلا نے جب اپنی آنکھیں کھولیں تو کچھ دیر تک وہ غائب دماغی سے شمعون کا زخمی وجود تکتی رہی ۔۔
پھر اچانک اچھل کر اٹھ بیٹھی ۔۔
"آآ آپ کو کیا ہوا ہے ۔۔؟
کیسے ہوا یہ سب ۔۔
کب آئے آپ ۔۔
کس نے کیا ۔۔خ
میں تیمور انکل کو بلاتی ہوں ۔۔"
سارے سوالات اور گلے شکوے بھلائے وہ اس وقت سخت ہراساں ہو رہی تھی ۔۔
بیڈ سے اتر کر وہ جانے لگی ۔۔
جب شمعون نے اس کی کلائی پکڑ کر اسے آہستہ سے اپنی طرف کھینچا ۔۔
اس طرح کے ایک فاصلہ اب بھی قائم تھا ۔۔
شہلا اپنی جگہ ساکت رہ گئی ۔۔
اس کی نظریں شمعون کے کیچڑ میں لتھڑے بوٹوں سے اٹھ ہی نہیں سکیں ۔۔
شمعون لب بھینچ کر کچھ دیر تک شہلا کے چہرے کو ایک ٹک دیکھتا رہا ۔۔
پھر اس کی کلائی چھوڑ کر چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھام لیا ۔۔
"ہر بات کے لیئے اپنے تیمور انکل کی طرف دیکھنا بند کرو ۔۔
بہت خیال رکھ لیا انہوں نے میرا اور تمہارا ۔۔
اب تم رکھو میرا ۔۔
اور میں تمہارا رکھوں گا ۔۔
اس جگہ دیکھو ۔۔
فرسٹ ایڈ باکس ہوگا ۔۔"
بہکے بہکے لہجے میں کہتے کہتے اچانک وہ شہلا سے دور ہوا اور سپاٹ انداز میں ٹیبل کی دراز کی طرف اشارہ کیا ۔۔
شہلا اس کے رنگ بدلنے پر حق دق ہوتی ٹیبل کی طرف بڑھ گئی ۔۔
شمعون ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا ۔۔
مجبوری اس قدر تھی ۔۔
"فرسٹ ایڈ باکس نکال کر بیڈ پر رکھا تو شمعون باتھ لینے کا کہہ کر واش روم کی طرف بڑھنے لگا ۔۔
پھر کپڑے لینے کے لیئے اپنے کمرے میں جانے کا خیال آیا ۔۔
جسے جان کر شہلا نے خود جانے کا فیصلہ کیا ۔۔
کیونکہ وہ زخمی تھا اور ایسے میں سیڑھیاں چڑھنا ممکن نہیں تھا ۔۔
"اٹس اوکے ۔۔
تمہیں ڈر لگ رہا ہوگا ۔۔
میں چلا جائونگا ۔۔"
شمعون نرمی سے بولا ۔۔
"میرا دل اتنا کمزور نہیں ہے ۔۔
سامنے "کچھ" ہو تو الگ بات ہے ۔۔
لیکن ویسے نہیں ڈرتی میں ۔۔"
شہلا کا لہجہ مضبوط تھا ۔۔
جس پر شمعون عجیب سے انداز میں مسکرایا ۔۔
"سامنے ہو ۔۔
تو ڈر جائو گی ۔۔"
"جی ۔۔"
شہلا شانے اچکا کر صاف گوئی سے بولی ۔۔
پھر اسے انتظار کرنے کا کہہ کر کمرے سے نکل گئی ۔۔
اور پیچھے شمعون لب بھینچے واش روم کی طرف بڑھ گیا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خونی عشق (قسط نمبر 7)
تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں
Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
0 تبصرے