پُراسرار حویلی - پارٹ 5

 

Sublimegate Urdu Font Stories

 پُراسرار حویلی - پارٹ 5


میں نے گھڑی پر نگاہ ڈالی رات کے تین بج رہے تھے۔ پہلے تو میرا جی چاہا کہ وہیں سے بمبئی کے ریلوے سٹیشن پر چلا جاؤں اور پنجاب کو جاتی جو پہلی ٹرین ملے اس میں سوار ہو کر اپنے شہر امرتسر نکل جاؤں اور جمشید ایسے بے وفا بلکہ دشمن دوست کی پھر کبھی شکل تک نہ دیکھوں۔ پھر خیال آیا کہ کم از کم ایک بار تو اس کے پاس ضرور جا کر اسے ذلیل کروں اور اس سے پوچھوں کہ آخر میں نے اس کے ساتھ کیا برائی کی تھی جس کا اس نے مجھ سے یوں بدلہ لیا کہ مجھے اندھے تہہ خانے میں بند کر کے موت کے حوالے کر دیا۔ سڑک دونوں جانب دور دور تک خالی پڑی تھی ۔ کمبوں کی بتیاں روشن تھیں ۔ یہ بھی شہر سے باہر جانے والی کوئی سڑک تھی۔ مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا کہ میں بمبئی کے کس علاقے میں ہوں۔ میں نے ایک طرف چلنا شروع کر دیا۔ پیچھے سے کسی گاڑی کی مجھ پر روشنی پڑی۔
میں نے رک کر پیچھے دیکھا۔ کوئی بہت بڑا ٹرک آرہا تھا۔ میں نے اس خیال سے اسے ہاتھ دے دیا کہ شاید رک جاۓ۔ مجھے بہت کم امید تھی مگر ٹرک مجھ سے تھوڑا آگے جاکر رک گیا۔ میں دوڑ کر اس کے پاس گیا۔ ڈرائیور نے کھڑکی میں سے سر نکال کر پوچھا۔

”میں کولایہ جارہا ہوں۔ جانا ہے تو پیچھے بیٹھ جاؤ۔‘‘ میں نے کہہ دیا کہ مجھے بھی کولایہ جانا ہے ۔ اور میں ٹرک کے پیچھے جا کر اس پر چڑھ گیا اور ایک طرف بیٹھ گیا۔ ٹرک چل پڑا۔ حالانکہ مجھے کولایہ نہیں جانا تھا بلکہ پرمیل کے علاقے میں جانا تھا جہاں میرے دشمن دوست جمشید کی گیراج نما دکان اور ، اوپر فلیٹ تھا۔ کولایہ پہنچ کر میں ٹرک سے اتر گیا۔ بمبئی بہت وسیع شہر تھا۔ ساری رات سڑکوں پر ٹیکسیاں وغیرہ چلتی رہتی تھیں۔ میری جیب میں پیسے موجود تھے ۔ میں نے ایک ٹیکسی لی اور پرمیل کے علاقے میں جمشید کے فلیٹ کے باہر آکر ٹیکسی سے اتر گیا۔

جمشید کا گیراج بند تھا۔ ایک طرف اس کی پرانی گاڑی کھڑی تھی۔ جمشید کے فلیٹ کو سٹرھیاں جاتی تھیں اور سیڑھیوں کے دروازے پر گھنٹی کا بٹن لگا ہوا تھا۔ اس بٹن کے اوپر رات کے وقت ایک سرخ بتی جلتی رہتی تھی۔ دروازہ بند تھا۔ جی تو میرا چاہتا تھا کہ میرے پاس بھری ہوئی بندوق ہو اور گھنٹی بجانے پر جب جمشید نیچے آۓ تو میں اسے فورآ گولی سے اڑا دوں ۔ میں گھنٹی کا بٹن دبانے کے لئے آگے بڑھا تو میں نے دیکھا کہ جمشید کی گاڑی کا بونٹ ایک طرف سے اوپر کو اٹھا ہوا تھا اور گاڑی کا سارا انجن غائب تھا۔

میں نے دل میں جمشید کو گالی دی اور سوچا کہ کس قدر عیار شخص ہے یہ جمشید ..... مجھے اندھے تہہ خانے میں مرنے کے لئے چھوڑ کر آنے کے بعد اس نے گاڑی کا انجن نکلوا کر ایک طرف رکھوالیا تاکہ اگر میں اس پر کسی قسم کا الزام لگا دوں تو وہ کہہ سکے کہ میری گاڑی کا تو انجن ہی نکلا ہوا ہے میں تمہارے پاس گاڑی لے کر سینما ہاؤس کیسے آسکتا تھا۔

میں نے کال بیل کا بٹن دبا دیا۔ فلیٹ میں اوپر کسی جگہ گھنٹی بجی جس کی دھیمی سی آوز مجھے وہاں کھڑے کھڑے بھی سنائی دی۔ تیسری گھٹی پر جمشید نے فلیٹ کی بازار والی کھڑکی کھول کر نیچے دیکھا اور نیند بھری آواز میں پوچھا۔ ” کون ہے اس وقت ؟“ جمشید کی آواز سن کر میرا خون کھول اٹھا۔ میرا جی اسے وہ تمام گالیاں دینے کو چاہا جو میں نے بچپن سے لے کر اس وقت تک سنی تھیں ۔ مگر میں نے اپنے غصے پر ضبط کرتے ہوۓ اسے صرف اتنا ہی کہا۔” نیچے آؤ۔“ جمشید نے مجھے دیکھا تو بولا۔ ” تم اوپر کیوں نہیں آ جاتے۔ کہاں تھے تم؟‘‘ میں نے طیش میں آ کر کہا۔ ”جس قبر میں تم مجھے زندہ دفن کر آۓ تھے میں وہیں تھا ۔۔۔
”یہ کیا بکواس کر رہے ہو ؟ میں آ رہا ہوں۔‘‘جمشید نیچے آ گیا۔ جیسے ہی وہ میرے سامنے آیا میں نے زور سے اس کے منہ پر ایک تھپڑ مارا اور دوسرے ہاتھ سے تھپڑ مارنے ہی والا تھا کہ جمشید نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔’’پاگل ہو گئے ہو ؟ لگتا ہے بہت پی رکھی ہے تم نے ... . . چلو ... . اوپر چلو۔ ‘‘

میں نے غصے میں اسے گالیاں دینی شروع کر دیں ۔ وہ مجھے کھینچتا ہوا، گھسیٹتا ہوا اوپر لے گیا اور مجھے صوفے پر گراتے ہوۓ بولا۔‘‘ یہ تم نے شراب کب سے شروع کر دی ہے ؟“

میں نے اسے گالی دے کر کہا۔ ” میں نے شراب نہیں پی ۔ . . . . . جمشید نے بھی محسوس کر لیا تھا کہ میں نے شراب نہیں پی ہوئی۔ شاید اس لئے کہ میرے منہ سے شراب کی بالکل بو نہیں آ رہی تھی۔ اس نے بڑی مشکل سے مجھے سنبھالا اور بولا۔ ”فیروز ! فیروز ! خدا کے لئے ہوش میں آ جاؤ۔ مجھے بتاؤ آخر بات کیا ہوئی ہے۔ ٹھیک ہے تم نے شراب نہیں پی رکھی۔ لیکن تم مجھے کیوں گالیاں دے رہے ہو ؟ میں نے کیا کیا ہے ؟

میں نے بڑی مشکل سے اپنے اوپر قابو پالیا تھا۔ میں نے کہا۔ ” جمشید! پہلے تم مجھے یہ بتاؤ کہ تم نے مجھ سے کس چیز کا بدلہ لیا ہے۔ میں نے تمہارے ساتھ ایسا کون سا برا سلوک کیا تھا کہ تم مجھے ورغلا کر مال لانے کے بہانے ویران علاقے میں لے گئے اور پھر ایک جھوٹا ڈرامہ کھیل کر مجھے ایک اندھے کنوئیں میں پھینک کر آگئے ؟ اگر قدرت

میری مدد نہ کرتی تو صبح تک وہاں میری لاش کو چیونٹیاں کھا رہی ہوتیں۔
“ جمشید حیران ہو کر میری صورت تک رہا تھا۔ کہنے لگا۔ ’’ تم کس اندھے کنوئیں کا ذکر کر رہے ہو ؟ میں نے تمہارے ساتھ کون سا ڈرامہ کھیلا ہے۔ میں تو جب سے تم میٹرو سینما ہاؤس میں فلم دیکھنے گئے ہو اس وقت سے لے کر اب تک اپنے گیراج اور فلیٹ پر ہی ہوں۔ایک لمحے کے لئے یہاں سے نہیں گیا۔‘‘
میں نے کہا۔ ” تم جھوٹ بول رہے ہو ۔ کیا تم گاڑی لے کر میٹرو سینما نہیں آۓ تھے اور وہاں سے مجھے گاڑی میں بٹھا کر یہ کہہ کر ایک ویران شیڈ میں نہیں لے گئے تھے کہ ایک پارٹی مال لینے آئی ہے ..... "
جمشید پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ کہنے لگا۔ ’’ میری گاڑی تو انجن کے بغیر باہر پڑی ہے۔ میں تو پرسوں سے اس کا انجن اوورہال کر رہا ہوں۔ بے شک نیچے جا کر دیکھ لو ۔ گاڑی کا انجن نہیں ہے۔“

جب میں نے اسے پورا واقعہ بیان کیا تو جمشید مجھے ایسے دیکھنے لگا جیسے اسے میری دماغی حالت کے نارمل ہونے پر شک پڑ گیا ہو۔ کہنے لگا۔’’فیروز ! میں نے زندگی میں بھی ایسا کام نہیں کیا۔ میرے پاس کوئی پارٹی نہیں آئی ۔ میں تمہارے پاس میٹرو سینما نہیں پہنچا تھا۔‘‘ میں نے کہا۔ " تو پھر وہ کون تھا ؟ وہ تم ہی تھے۔ تم ..... جمشید تھے ۔ کیا میں تمہیں پہچانتا نہیں ؟“

جمشید کہنے لگا۔ ” تم کہہ رہے ہو کہ میں نے تمہیں کہا تھا کہ میرا نوکر عبدل اپنی بیمار ماں کی خبر گیری کر نے ناسک گیا ہوا ہے ۔ نوکر عبدل کہیں نہیں گیا جا کر دیکھ لو۔ وہ نیچے گیراج میں سو رہا ہے ۔ وہ گزشتہ کئی مہینوں سے ناسک نہیں گیا۔ میری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ تم یہ سب کچھ کیا کہہ رہے ہو ۔ “ جمشید کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ جھوٹ نہیں بول رہا۔ آدمی جھوٹ بول رہا ہو تو اس کا پتہ چل جاتا ہے اور جمشید تو میرا بچپن کا دوست تھا۔

میں اس کے مزاج کو اچھی طرح جانتا تھا۔ میں سوچ میں پڑ گیا۔ آخر وہ کون تھا جو جمشید بن کر میرے پاس آیا تھا اور مجھے ہلاک کرنے کے لئے اندھے تہہ خانے میں پھینک گیا تھا۔ مجھے خیال آیا کہ کہیں یہ ان بدروحوں کا کام تو نہیں تھا جو مجھے رانی بائی کے قلعے کی حسین روح یا بدروح کو مرتبان سے آزاد کرنے کی وجہ سے میری جان کی دشمن بن گئی تھیں اور اس سے پہلے بھی مجھے دو بار ہلاک کرنے کی کو شش کر چکی تھیں ۔

چونکہ میں نے جمشید سے قلعہ رانی بائی میں اپنے ساتھ گزرے ہوئے مافوق الفطرت واقعات کا بالکل ذکر نہیں کیا تھا اس لئے اب بھی میں نے اسے یہ نہ بتایا کہ ویران علاقے کے اندھے تہہ خانے میں میرے ساتھ کیا گزری ۔۔۔۔

اس خیال سے کہ جمشید اس واقعے کو میری دماغی کمزوری پر محمول نہ کرے میں نے کہا۔’’میر اخیال ہے یہ کسی جن ، بھوت یا آسیب کی کارستانی ہے۔ایک بار امرتسر میں جب میں چھوٹا سا تھا تو پہلے بھی ایک جن مجھے گھر سے اٹھا کر بڑی نہر پر لے گیا تھا اور وہاں مجھے نہر کی سیر کروانے کے بعد گھر لا کر چھوڑ گیا تھا۔“ جمشید نے انتہائی تعجب کے ساتھ کہا۔ شاید ایسا ہی ہوا ہو ۔ لیکن کسی جن بھوت کو کیا ضرورت تھی کہ وہ میری شکل بنا کر تمہارے پاس میٹرو سنیما ہاؤس میں آتا۔ وہ ویسے بھی تمہیں وہاں سے اٹھا کر لے جا سکتا تھا۔ ‘‘

یہ بات میری سمجھ سے بھی باہر تھی۔ میں اس کے بعد وہیں صوفے پر ہی سو گیا۔ دوسرے روز گیارہ بجے اٹھا۔ نیچے جاکر جمشید کی گاڑی کا بغور معائنہ کیا۔ اس کی گاڑی کا انجن غائب تھا۔ یہ وہی گاڑی تھی جس پر جمشید کی شکل کا جن بھوت یا وہ جو کوئی بھی تھا سوار ہو کر میرے پاس میٹر و سینما آیا تھا۔ لیکن جمشید کے ایک مستری نے مجھے بتایا کہ جمشید صاحب کی گاڑی کا انجن تو تین روز سے باہر نکلا ہوا ہے۔ میرے ساتھ اوپر تلے دو تین اس قسم کے واقعات گزرے تو میں گھبرا گیا۔ جان سب کو پیاری ہوتی ہے۔ مجھے یقین ہو گیا تھا کہ قلعہ رانی بائی کے زرد پوش کاہن کی بدروح میری دشمن بن گئی ہے۔ زرد پوش کاہن کی بدروح اپنی غلام بدروحوں سے تین بار مجھ پر قاتلانہ حملہ کر اچکی تھی لیکن قدرت کی کوئی خفیہ طاقت میری مدد کر رہی تھی اور اس نے ہر بار مجھے اس شیطانی زرد پوش کی بدروح کے حملے سے بچا لیا تھا۔

میں نے سوچا کہ میں بمبئی سے چلا ہی جاؤں تو اچھا ہے ۔ یہاں رہا تو زرد پوش شیطان میرا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ اس زرد پوش پجاری کا نام رانی بائی کے قلعے والی پراسرار عورت نے رگھو بتایا تھا۔ اس عورت نے مجھے اپنا نام نہیں بتایا تھا لیکن اس نے مجھے خبردار کر دیا تھا کہ تم نے مجھے مرتبان سے آزاد کر دیا ہے اس کی وجہ سے رگھو تمہاری جان کا دشمن بن گیا ہے ۔ وہ تمہیں جان سے مار دینے کی ہر ممکن کوشش کرے گا لیکن تمہاری حفاظت مجھ پر فرض ہو گئی ہے ۔
میں نے ان حالات کے پیش نظر فیصلہ کر لیا کہ بمبئی میں نہیں رہوں گا، واپس امرتسر چلا جاؤں گا۔ ویسے بھی حالات دن بدن خراب ہوتے جارہے تھے۔ پنجاب کے ایک دو شہروں میں فسادات بھی شروع ہو گئے تھے۔ جب میں نے جمشید سے کہا کہ میرا امرتسر واپس جانے کا ارادہ ہے تو اس نے کسی قسم کا اعتراض نہ کیا بلکہ کہنے لگا۔ میں نے تو تمہیں پہلے ہی کہا تھا کہ امرتسر جا کر اپنی تھوڑی سی جو زمین اور ایک باغ ہے وہ فروخت کر ڈالو۔ حالات کا کچھ پتہ نہیں ہے
ان تمام حالات کو دیکھتے ہوۓ آخر میں ایک روز بمبئی سے امرتسر کی جانب روانہ ہو گیا۔1947ء شروع ہو چکا تھا۔ جنوری کا مہینہ تھا پنجاب میں اس موسم میں بہت سردی پڑتی ہے۔ حالات ابھی نارمل تھے فضا میں کشیدگی ضرور تھی۔
مگر ابھی فسادات شروع نہیں ہوۓ تھے۔ مارچ کے مہینے میں فسادات شروع ہو گئے ۔ پھر فسادات کی آگ بھڑکتی ہی چلی گئی۔ کر فیو لگنے لگے ۔
میرا سارا دن محلے کے لوگوں کے ساتھ بیٹھے گزرتا۔ فسادات تیز ہوتے گئے۔ یہاں تک کہ 14 اگست کا دن قریب آ گیا۔ مشرقی پنجاب سے مہاجرین کے لئے بے قافلے پاکستان کی طرف ہجرت کر رہے تھے۔

حالات نازک شکل اختیار کر گئے ۔ پھر بھی ہماری گلی کے مسلمان پاکستان ہجرت کرنے کے لئے ان ٹرکوں کے انتظار میں تھے جنہوں نے انہیں پاکستان پہنچانا تھا۔
گلی میں افرا تفری مچ گئی۔ جس کا جدھر منہ اٹھا دوڑ پڑا۔ میں بھی مکان کے خفیہ دروازے میں سے نکل کر ساتھ والے بازار میں آ گیا۔ شام کا وقت تھا۔ بازار سنسان پڑا تھا۔۔میں اس کیمپ میں جانا چاہتا تھا۔جہاں سے پاکستان کے بارڈر تک پہنچایا جاتا تھا۔
جیسے ہی میں بازار پونچھا میرے کانوں میں اس عورت کی سر گوشی ایک بار پھر سنائی دی۔ فیروز !اس طرف مت جاؤ۔“ اس کے فورا بعد کسی نے مجھے بازو سے پکڑ لیا اور مجھے ایک طرف دھکیلنا شروع کیا۔ رات کا اندھیرا چاروں طرف پھیل رہا تھا۔ میرے سامنے بائیں جانب جی ٹی روڈ تھی جو پاکستان کی طرف جاتی تھی۔ میں سمجھ گیا تھا کہ یہ وہی پراسرار عورت ہے جس نے مجھے بازو سے پکڑ رکھا ہے اور مجھے کسی محفوظ مقام کی طرف لے جار ہی ہے ۔ وہ مجھے جی ٹی روڈ سے ہٹا کر کھیتوں میں لئے جار ہی تھی۔ وہ مجھے نظر نہیں آ رہی تھی مگر مجھے احساس ہو رہا تھا کہ وہ میرے ساتھ ساتھ چل رہی ہے ۔

میں نے اس سے کہا۔ ” تم رانی بائی کی ویران حویلی والی عورت کی بدروح ہی ہو ؟
“ اب مجھے اس عورت کی باقاعدہ آواز سنائی دی۔ ’’ہاں! میں وہی ہوں۔‘‘
”تم مجھے کہاں لئے جار ہی ہو ؟‘‘ میں نے پوچھا۔
اس غیبی عورت نے جواب دیا۔ ’’وہاں جہاں تمہاری زندگی محفوظ ہو گی۔‘‘ میں اس عورت کا ممنون احسان ضرور تھا۔ خدا نے اس عورت کے وسیلے سے میری زندگی بچالی تھی لیکن یہ الجھن بھی ہو رہی تھی کہ یہ بدروح آخر کب تک میرا پیچھا کرتی رہے گی ۔ میں اس قسم کی خرافات اور توہمات میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا۔ ” تمہارا نام کیا ہے ؟‘‘
اس نے جواب دیا۔ میر اہندو نام روہنی ہے ۔ مگر جیسا کہ میں تمہیں پہلے بھی بتا چکی ہوں میں نے روہت گڑھ کے مغل صوبیدار ہاشم خان سے شادی کے بعد اسلام قبول کر لیا تھا اور میرے شوہر ہاشم خان نے میرا اسلامی نام قمر النساء سلطانہ رکھ دیا تھا جو مجھے بہت پسند تھا۔ میرا خاوند ہاشم خان مجھے سلطانہ کہہ کر بلاتا تھا۔ مجھے بھی اپنا یہ نام پسند ہے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ مجھے اس بدروح کے ہند و نام سے کوئی دلچسپی تھی اور نہ اس کے مسلمان نام سے کوئی سروکار تھا۔ میں تو کسی طرح اس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا تھا۔ ہم رات کے دھندلے اندھیرے میں ایک اونچی فصل والے کھیت میں سے گزر رہے تھے۔ میں نے اس سے کہا۔” مجھے ایک بات بتاؤ۔“
پوچھو۔ اس عورت کی مجھے آواز آئی۔
مجھے اس کی آواز ہی آسکتی تھی کیونکہ وہ اگر چہ میرا بازو چھوڑ کر میرے ساتھ ساتھ چل رہی تھی اور مجھے اس کے ریشمی ملبوس میں سے اٹھتی ایک پراسرار سی خوشبو باقاعدہ محسوس ہو رہی تھی لیکن وہ مجھے دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا۔ ” تم کہاں تک میرے ساتھ ساتھ چلتی رہو گی؟
“ اس نے کہا۔ ”میں تمہیں پاکستان چھوڑ کر واپس آؤں گی۔
“ میں نے اسے کہا۔’’آگے راستہ بالکل صاف ہے میں خود ہی چلا جاؤں گا تم یہاں سے واپس چلی جاؤ۔
اس نے کہا۔ ” پجاری رگھو تمہاری جان کا دشمن بن چکا ہے ۔ کوئی پتہ نہیں وہ تم پر کہاں حملہ کر کے تمہیں موت کے گھاٹ اتارنے کی کوشش کرے۔ میں تمہیں اکیلا نہیں چھوڑ سکتی۔“
میں نے جھنجلا کر کہا۔ "لیکن میں نہیں چاہتا کہ تم سائے کی طرح میرے ساتھ لگی رہو ۔ میں تم سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہوں۔“
وہ بدروح کہنے لگی۔ ” مجھے تمہاری پریشانی کا احساس ہے لیکن تم میری مجبوری کو نہیں سمجھ رہے۔ جب تک مجھے یقین نہیں ہو جاتا کہ تمہاری زندگی پجاری رگھو کی بدروح سے محفوظ ہو گئی ہے میں تمہارا ساتھ نہیں چھوڑ سکتی اور میں تمہیں یہ بتا دینا چاہتی ہوں کہ میری اپنی نجات بھی اسی میں ہے کہ تم زندہ رہو ۔
“ میں نے تنگ آکر کہا۔” آخر تم مجھ سے کیا چاہتی ہو ۔ تم جو کچھ چاہتی ہو مجھے ایک بار بتا دو اور میری جان چھوڑ دو۔ حسین و جمیل بدروح کی ٹھنڈا سانس بھرنے کی آواز آئی ۔ پھر اس نے کہا۔ وقت آنے پر میں تمہیں یہ بھی بتا دوں گی کہ میں تم سے کیا چاہتی ہوں اور میں تمہاری جان بچانے کی کس لئے کوشش کر رہی ہوں۔“
معاملہ اور زیادہ الجھتا جارہا تھا۔ یہ بدروح میرا پیچھا چھوڑنے کو تیار نہیں تھی اور میں اس سے ہر حالت میں پیچھا چھڑانا چاہتا تھا۔ میں چلتے چلتے رک گیا اور ہاتھ جوڑ کر کہا۔’’خدا کے لئے اب واپس جاؤ۔ میں پاکستان پہنچ جاؤں گا۔ تم نے میری جان بچائی میں اس کے لئے تمہارا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ لیکن اب مجھے تمہاری ضرورت نہیں ہے۔
اس عورت کی طرف سے مجھے کوئی جواب نہ ملا۔ اس کے لباس میں سے جو پراسرار سی ہلکی ہلکی خوشبو آرہی تھی اب وہ بھی غائب ہو گئی تھی۔ میں نے اندھیرے میں چاروں طرف غور سے دیکھا۔ پھر کہا۔ ” کیا تم چلی گئی ہو ؟“
کوئی جواب نہ ملا۔ وہ جاچکی تھی۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور جس طرف وہ مجھے لے جا رہی تھی اسی طرف چلنے لگا۔ میرے ارد گرد کھیت ہی کھیت تھے ۔ رات کے اندھیرے میں کہیں کھیتوں میں اونچی اونچی فصل نظر آرہی تھی کہیں کھیت خالی پڑے تھے ۔ نہ کوئی گاؤں قریب نظر آتا تھا اور نہ کسی کتے کے بھونکنے کی ہی آواز سنائی دیتی تھی۔ میرا خیال تھا کہ ابھی پاکستان کا بارڈر بہت دور ہو گا کیونکہ امرتسر سے لاہور کا فاصلہ جی ٹی روڈ پر تیس پینتیس میل ہوا کرتا تھا اور میں دائم گنج کے علاقے سے اس عورت کے ساتھ کھیتوں میں زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ ایک میل ہی چلا ہوں گا۔ مجھے امرتسر سے لاہور کے فاصلے کا پورا اندازہ تھا۔ میرے خیال میں ، میں اس وقت چہڑتہ گاؤں کے قریب ہوں گا مجھے کھیتوں میں کچھ فاصلے پر بجلی کی دو چار روشنیاں جھلملاتی نظر آئیں۔
میں سمجھ گیا کہ چہڑتہ میں سکھوں کا جو گردوارہ ہے یہ اس کی روشنیاں ہیں۔ یہ گردوارہ چھ ہڑتہ ریلوے سٹیشن کے قریب ہی تھا اور میرا دیکھا ہوا تھا۔ میں نے ان روشنیوں سے ہٹ کر کھیتوں میں دوسری طرف چلنا شروع کر دیا۔ میں کھیتوں میں چلتا چلتا دوسری طرف سے ہو کر کافی آگے نکل گیا۔ میرا رخ لاہور ہی کی طرف تھا۔
رات کے اندھیرے میں مجھے اتنا ضرور اب نظر آنے لگا تھا کہ میں راستہ دیکھ کر اور سمت کو برقرار رکھ کر چل رہا تھا۔ اپنی دائیں جانب مجھے کھیتوں کے پار بہت سے آدمیوں کے ساۓ سے چلتے دکھائی دیئے ۔ پھر ایک جیپ کی آواز بھی دور سے سنائی دی۔۔ کافی دیر تک چلنے کے بعد میں قریب پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ مہاجرین کا قافلہ ہے جو ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان کی طرف جارہا ہے۔ لٹے پٹے بد حال لوگ سڑک پر پیدل چلے جارہے تھے ۔ عورتیں اور بچے گھوڑوں پر سوار تھے ۔ ان میں شدید زخمی بھی تھے ۔ بلوچ رجمنٹ کے فوجیوں کی ایک جیپ ان کی حفاظت کے لئے ان کے ساتھ تھی۔ یہ جیپ سڑک پر کبھی آگے چلی جاتی تھی اور کبھی واپس آ کر قافلے کے پیچھے چلنے لگتی تھی کہ کہیں قافلے پر کوئی جتھہ پیچھے سے حملہ نہ کر دے۔
میں نے خدا کا شکر ادا کیا اور میں بھی اس قافلے میں شامل ہو گیا۔ قافلہ بمشکل ایک ڈیڑھ میل ہی چلا ہوگا کہ دور سے پاکستان زندہ باد ، قائد اعظم زندہ باد کے نعروں کی گونج سنائی دینے لگی۔ معلوم ہوا کہ قافلہ پاکستان کے واہگہ بارڈر کے قریب پہنچ گیا ہے ۔ مجھے خوشی بھی ہو رہی تھی اور حیرانی بھی ہو رہی تھی۔ خوشی اس بات کی ہو رہی تھی کہ میں آخر جان بچا کر پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہو گیا تھا اور حیرت اس بات پر ہو رہی تھی کہ پینتیس میل کا فاصلہ اتنی جلدی کیسے طے ہو گیا میں تو ابھی امر تسر کی آبادی دائم گنج سے چلا ہی تھا اور میرے اندازے کے مطابق تو ابھی چھ ہڑتہ کا سٹیشن بھی نہیں آتا تھا جو امرتسر سے لاہور آتے ہوۓ پہلا سٹیشن تھا۔ قافلہ پاکستان کی سرحد میں داخل ہوا تو مہاجرین کے مردہ جسموں میں جیسے جان پڑ گئی۔

پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھنے کے بعد جان و مال کے جس تحفظ اور جس خوشی کا احساس ہو اوہ آج بھی مجھے یاد ہے۔ میرے پاس اسے بیان کرنے کے لئے الفاظ نہیں ہیں ۔بے پناہ مسرت کا یہ ایسا ہی احساس تھا ۔۔۔۔
بہر حال میں بھی دوسرے مہاجرین کے ساتھ پاکستان پہنچ گیا۔ پاکستان میں ہمارا کوئی عزیز یا رشتے دار نہیں تھا۔ ایک ہفتہ میں والٹن لاہور کے مہاجرین کیمپ میں رہا جہاں سن سنتالیس کے زمانے میں مہاجرین کا والٹن کیمپ ہوا کرتا تھا وہاں آج کل لاہور کی سب سے بڑی ماڈرن اور خوبصورت ڈیفنس کالونی آباد ہے۔ رات کو یہاں کی جگمگاتی سڑکوں پر سے گزرتے ہوئے یہاں کی روشنیاں اور شاپنگ سینٹروں اور کشادہ سڑکوں کو دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ آدمی یورپ کے کسی شہر میں آ گیا ہے ۔ ڈیفنس کی آبادی کو دیکھ کر مجھے ہمیشہ بڑی خوشی ہوتی ہے ۔ اللہ تعالی پاکستان کے ہر شہر ، شہر کی ہر آبادی اور یہاں کی جگمگاتی روشنیوں کو ہمیشہ سلامت رکھے ۔ قائم و دائم رکھے۔ آمین!

ایک ہفتہ والٹن کے مہاجرین کیمپ میں رہنے کے بعد میں فکر معاش کی تگ و دو میں لاہور سے راولپنڈی آ گیا۔ میں مشرقی پنجاب سے کچھ روپے بچا کر ساتھ لانے میں کامیاب ہو گیا تھا وہی خرچ کر کے گزارہ کر رہا تھا۔

پُراسرار حویلی - پارٹ 6

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, 
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں