پُراسرار حویلی - پارٹ 13

 

Sublimegate Urdu Font Stories

 پُراسرار حویلی - پارٹ 13


یہ چار الفاظ کا منتر تھا جو آج بھی مجھے یاد ہے لیکن میں آپ کو بتاؤں گا نہیں کیونکہ یہ سب کفر ہے

اور کافروں کی خرافات ہے۔ مالینی نے مجھے کہا تھا کہ شیروان ! میں نے تمہیں بڑا قیمتی منتر بتا دیا ہے۔ ہمیں اس کی اجازت نہیں ہوتی کہ ہم یہ منتر کسی انسان کو بتائیں۔ لیکن جب کسی کی جان کو خطرہ ہو تو اس منتر سے کام لیا جا سکتا ہے۔ مالینی نے مجھے ہدایت کی تھی اور کہا تھا۔ ”شیروان ! میں نے جو خفیہ منتر تمہارے دماغ میں ڈال دیا ہے اب میں اسے تمہارے دماغ سے نکال نہیں سکتی۔ میں جانتی ہوں یہ منتر تمہیں اس وقت بھی یاد رہے گا جب تم میری سہیلی روہنی کے ساتھ انسانوں کی دنیا میں واپس جاؤ گے ۔ لیکن میری ایک بات یاد رکھنا اس منتر کو صرف اپنی جان بچانے اور کسی بے گناہ کی جان بچانے اور کسی بڑے مشکل وقت میں استعمال کرنا . . . . .

یہ منتر مجھے آج بھی یاد ہے۔ اور میں اس وقت بھی اگر چاہوں تو وہ خفیہ منتر پڑھ کر انسان سے کوئی دوسرا روپ اختیار کر سکتا ہوں مگر میں ایسا نہیں کروں گا کیونکہ مالینی بدروح نے مجھے بلا ضرورت سے منتر پڑھنے سے سختی سے منع کیا ہوا ہے۔ بہرحال میں اپنی داستان آگے شروع کرتا ہوں۔
بدروحوں کی دنیا میں وہ سیاہ چاند کے جشن کی رات تھی۔ اس رات مجھے چمگادڑ کے روپ میں خونخوار کالی بدروح کے غار میں داخل ہو کر اس کی مالا میں سے ہڑی کا ایک مہرہ نکال کر لانا تھا۔ یہ موت کا کھیل تھا۔ اس میں میری جان بھی جاسکتی تھی۔ اگر چہ بقول مالینی کے میں ہنگامی حالت میں منتر پڑھ کر انسان سے چمگادڑ بن کر وہاں سے بھاگ سکتا تھا لیکن کوئی پتہ نہیں تھا کہ اس دوران خونخوار کالی بدروح مجھ پر وار کر دے۔ آخر وہ ان سب بدروحوں کی سردارنی تھی اور بڑی زبردست آسیبی طاقت تھی۔ 

ہم نے کالی بدروح کا غار دیکھا ہوا تھا۔ مالینی نے بھی مجھے اچھی طرح سے سمجھا دیا تھا کہ اس کا غار کس جگہ پر ہے۔
رات ذرا گہری ہوئی تو مالینی نے اپنی سہیلی روہنی سے کہا۔ ” میں سیاہ چاند کے جشن میں شریک ہونے جارہی ہوں۔ آدھی رات کو جب سیاہ چاند نکلے گا اور جشن کا ہنگامہ گرم ہو جاۓ گا تو میں تھوڑی دیر کے لئے تمہارے پاس غار میں واپس آ جاؤں گی تاکہ اپنے سامنے شیروان کو کالی کے غار کی طرف بھیج سکوں ۔ تم دونوں اس دوران غار میں ہی رہنا، غار سے باہر ہر گز قدم نہ رکھنا۔‘‘ یہ کہہ کر مالینی چلی گئی۔

میں اور روہنی غار میں اکیلے رہ گئے۔ روہنی نے میرا ہاتھ تھام لیا اور بڑے پیار اور کسی قدر تشویش کے لہجے میں کہا۔ ”میرے شہزادے شیروان ! میں جانتی ہوں تم ایک بڑی ہی خطرناک مہم پر جار ہے ہو اور یہ خطرہ تم اپنے لئے ہی نہیں میرے لئے بھی مول رہے ہو۔ لیکن میرے شہزادے تم بھی جانتے ہو کہ ہمیں کالی بدروح کے مہرے کی کس قدر شدید ضرورت ہے اس کے بغیر ہم انسانوں کی دنیا میں واپس جا کر اپنے جانی دشمن پجاری رگھو کی خون خوار دشمنی کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔“ میں نے کہا۔ " تم میری فکر نہ کرو۔ میرا خدا میری حفاظت کرے گا۔ میں جس ہلاکت خیز دلدل میں پھنس چکا ہوں اب اس میں سے میرا خدا ہی مجھے باہر نکالے گا۔ تم مسلمان ہو چکی ہو ۔ بس میرے لئے دعا کرنا۔“

روہنی یعنی سلطانہ کہنے لگی۔ میں تو تمہارے جانے کے فورا بعد خدا کے حضور سجدے میں گر کر اس سے تمہاری حفاظت کی بھیک مانگوں گی۔ خدا میرے گناہ بھی بخش دے۔ شہرادے شیروان سے شادی کر نے اور اسلام قبول کرنے سے پہلے میں بتوں کو خدا سمجھ کر ان کی پوجا کرتی رہی ہوں جو بہت بڑا گناہ تھا۔ شاید مجھے میرے اس گناہ کی سزا مل رہی ہے۔“

روہنی کی آواز میں رقت پیدا ہو گئی۔ میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔ اتنی دیر سے ایک ساتھ رہنے کی وجہ سے مجھے بھی اس سے ایک قسم کا تعلق خاطر پیدا ہو گیا تھا۔ میں نے اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا اور کہا۔ ”سلطانہ ! اگر انسان سچے دل سے توبہ کرے تو اللہ تعالی اسے معاف فرما دیتا ہے۔ مجھ سے اور تم سے نادانی اور نا سمجھی میں جو برے عمل ہوۓ ہیں ہم نے ان سے توبہ کر لی ہے اور آئندہ سے ایسے برے عمل نہ کرنے کا دل سے فیصلہ کر لیا ہے اس لئے سمجھ لو کہ خدا نے ہمیں معاف کر دیا ہے۔ باقی ہمارے برے عمل کی وجہ سے جو نتیجہ ہمارے سامنے آ گیا ہے اسے تو ہمیں بھگتنا ہی ہوگا۔ مگر یقین کرو اللہ میاں اس آزمائش سے بھی ہمیں خیریت سے نکال دے گا۔‘‘
میری باتوں سے روہنی یعنی سلطانہ کو بڑا حوصلہ ہوا۔ کہنے لگی۔ ’’شیروان! پہلے کبھی تم نے مجھ سے اتنی اچھی باتیں نہیں کی تھیں ۔ تمہاری باتوں نے مجھے بڑا حوصلہ دیا ہے۔“

ہم غار میں ایک دوسرے کے پاس بیٹھے ایسی ہی باتیں کرتے رہے۔ اتنے میں دور سے بدروحوں کے شور و غل کی آوازیں آنے لگیں۔ روہنی نے کہا۔ ’’میر اخیال ہے سیاہ چاند نکل آیا ہے اور بدروحوں کا جشن شروع ہو گیا ہے ۔ " میر ادل چاہتا تھا کہ میں غار سے نکل کر آسمان پر دیکھوں کہ سیاہ چاند کیسا ہوتا ہے مگر مالینی نے ہمیں غار سے باہر قدم رکھنے کو سختی سے منع کیا ہوا تھا۔ بدروحوں کے شور وغل کی آوازیں دور سے آرہی تھیں ۔ان کی آوازیں چیخ و پکار کی بھیانک آوازیں تھیں۔ بدروحوں کے تو قہقہے بھی بھیانک ہوتے ہیں ۔ آدھی رات کے بعد بدروح مالینی غار میں آگئی۔ آتے ہی مجھ سے مخاطب ہو کر بولی۔

’’میرا خیال تھا کہ کالی سردارنی سوم رس میں مدہوش ہو کر اپنے غار میں چلی جائے گی مگر آدھی رات گزرنے کے بعد بھی وہ ابھی تک جشن میں دوسری بدروحوں کے ساتھ سوم رس پی رہی ہے۔ میں تمہیں صرف یہی بتانے کے لئے آئی تھی۔“

پھر اس نے روہنی سے کہا۔’’روہنی ! تم اپنے شہزادے کی فکر نہ کرنا۔ آج کالی سردارنی بہت سوم رس پی رہی ہے ۔ جب وہ غار میں جاۓ گی تو اسے کوئی ہوش نہیں ہوگا اور شیروان کا کام آسان ہو جاۓ گا۔ میں جاتی ہوں اور جس وقت کالی سردارنی اپنے غار میں چلی گئی تو اس وقت آؤں گی۔“
مالینی چلی گئی۔

میں اور روہنی بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ میری نیند بالکل اڑ چکی تھی۔ان حالات میں نیند کیسے آسکتی تھی۔ رات گزرتی جارہی تھی ۔ بدروحوں کے شور و غل کی آوازیں آہستہ آہستہ مدھم پڑنے لگی تھیں۔ پھر بالکل خاموشی چھا گئی۔ اب ہمیں مالینی کا انتظار تھا۔ ہر طرف سناٹا چھا گیا تھا۔مالینی آ گئی۔ کہنے لگی۔’’خونخوار کالی نے آج بہت پی ہے۔ شیروان ! تمہارا کام آسان ہو گیا ہے۔"

روہنی سلطانہ نے پوچھا۔ کیا وہ اپنے غار میں چلی گئی ہے ؟" مالینی نے کہا۔ اسے گئے ایک گھنٹہ ہو گیا ہے ۔ لیکن میں چاہتی ہوں کہ ذرا اور انتظار کر لیا جائے تا کہ کالی بدروح نشے میں پوری طرح بے سدھ ہو جاۓ ۔“ جب غار میں بیٹھے بیٹھے مزید ایک گھنٹہ گزر گیا تو مالینی نے مجھے کہا۔ "شیروان! تیار ہو جاو ۔۔۔
میں نے کہا۔ ” میں تیار ہی ہوں۔ لیکن یہ بتاؤ کہ چمگادڑ کی شکل اختیار کرنے کے بعد میں انسانوں کی طرح سوچوں گا یا میری سوچ بھی چمگادڑ کی طرح ہو جاۓ گی ؟‘‘ مالینی کہنے لگی۔ میں تمہیں پہلے بھی بتا چکی ہوں کہ چمگادڑ بننے کے بعد بھی تمہارا انسانی دماغ اسی طرح کام کرتا رہے گا۔ چمگادڑ کے روپ کا تمہارے دماغ اور دل پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ تم اسی طرح سوچو گے جس طرح اب سوچ رہے ہو ۔ اس طرح محسوس کرو گے جس طرح اب محسوس کر رہے ہو ۔ صرف اتنا فرق پڑے گا کہ تمہارے جسم کا وزن بہت ہلکا ہو جاۓ گا۔ میں نے کہا۔ ” میرے جسم کا وزن اس وقت بھی جبکہ میں غائب ہوں بہت ہلکابہے.
مالینی بولی ۔ بس چمگادڑ کے روپ بدلنے کے بعد تم بالکل ایسے ہی محسوس کرو گے ۔ کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ میرے سامنے چبوترے پر آکر بیٹھ جاؤ۔“ میں نے روہنی سلطانہ کی طرف دیکھا۔ روہنی سلطانہ کی آنکھوں میں اس وقت محبت کے جذبات جھلک رہے تھے۔ اس نے میرا غیبی ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا کیونکہ روہنی اور مالینی مجھے غیبی حالت میں بھی دیکھ رہی تھیں۔ مالینی نے مجھے ایک بار پھر کہا۔”تمہیں کالی بدروح کا غار یاد ہے نا ؟‘‘
میں نے کہا۔” مجھے روہنی نے یہاں آتے وقت دور سے دکھایا تھا۔‘‘ پھر میں نے مالینی کو کالی بدروح کے غار کا نقشہ بتایا تو مالینی نے کہا۔ ” تم نے بالکل صحیح نقشہ بتایا ہے ۔ بس وہی خونخوار کالی کا غار ہے۔ ویسے بھی جب تم چمگادڑ بن کر جاؤ گے تو تمہیں ایک غار میں سے دوسرے چمگادڑوں کی بو آۓ گی۔ جس غار میں سے چمگادڑوں کی بو آۓ سمجھ لینا کہ وہی خونخوار کالی کا غار ہے کیونکہ صرف کالی کے غار میں چمگادڑوں کا بسیرا ہے اور وہ کسی غار میں نہیں جاتے ۔
اب اپنی آنکھیں بند کر لو ۔ “ میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔مالینی نے میرا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا۔ خدا جانے وہ دل میں کیا پڑھ رہی تھی۔ میری آنکھیں اگر چہ بند تھیں مگر مجھے اس کی دھیمی دھیمی بڑ بڑانے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ کچھ دیر کے بعد مالینی نے اونچی آواز میں وہ منتر پڑھا جو اس نے مجھے پہلے ہی یاد کر آیا تھا۔ یہ چار لفظوں کا منتر تھا۔ لمبے لمبے چار لفظ تھے جو چڑیلوں کی زبان کے الفاظ لگتے تھے۔ جیسے ہی اس نے منتر ختم کیا اور میرا ہاتھ چھوڑ دیا مجھے ایک خفیف سا جھٹکا لگا اور میں چبوترے سے فضا میں بلند ہو گیا۔ اب میں نے دیکھا کہ میں انسان سے چمگادڑ بن چکا ہوں۔ میرے چھتریوں ایسے چھوٹے چھوٹے پر تھے اور میں غار کے اندر چکر لگا رہا تھا۔ روہنی حیرت زدہ سی ہو کر مجھے غار میں ادھر ادھر اڑتے دیکھ رہی تھی ۔ مالینی نے بلند آواز میں کہا۔ ”شیروان ! اس وقت تمہاری انگلی میں روہنی کی دی ہوئی انگو ٹھی نہیں ہے لیکن یاد رکھو اس کا سارا اثر اور اس کی ساری طاقت تمہارے جسم میں موجود ہے جو تمہیں خونخوار کالی کے آسیب سے محفوظ رکھے گی۔ اب جاؤ تم جانتے ہو تمہیں کیا کرنا ہے۔“ روہنی نے ہاتھ ہلا کر مجھے الوداع کیا۔ میں چمگادڑ کے روپ میں غوطہ لگا کر غار سے باہر آ گیا۔
رات تاریک تھی۔ ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا۔ غار سے باہر آتے ہی میں اڑان بھر کر اوپر کو اٹھ گیا۔ میری نگاہ آسمان پر پڑی۔ آسمان کے مشرقی افق پر میں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ ایک گول سیاہ چاند آہستہ آہستہ غروب ہو رہا تھا۔ وہ بالکل سیاہ تھا اور اس کے کناروں پر سے ہلکی ہلکی روشنی پھوٹ رہی تھی۔ انسانوں کی دنیا میں ایسا عام طور پر چاند گرہن کے وقت ہوتا ہے ۔ مالینی نے ٹھیک کہا تھا میرا جسم اگر چہ چمگادڑ کا تھا مگر میرا دماغ میرا اپنا تھا اور میں چمگادڑ کی طرح نہیں بلکہ انسانوں کی طرح سوچ رہا تھا۔
اتنا فرق ضرور پڑا تھا کہ میری سماعت کی حس زیادہ تیز ہو گئی تھی۔ میں اس طرف آ گیا جہاں مجھے روہنی نے خونخوار کالی سردارنی کا غار دکھایا تھا۔ غار کے باہر دونوں طرف دو مشعلیں روشن تھیں۔ چار بدروح باڈی گارڈ ہاتھوں میں تلواریں لئے پہرہ دے رہے تھے ۔ یہ کالے سیاہ حبشیوں کی طرح کی بدروحیں تھیں اور ان کی آنکھیں لال انگاروں کی طرح دنگ رہی تھیں۔ چمگادڑوں کے بارے میں یہ تو آپ کو معلوم ہی ہوگا کہ وہ سارا دن درختوں کی شاخوں میں الٹی لٹکی رہتی ہیں اور رات کو اپنے شکار کی تلاش میں نکلتی ہیں کیونکہ انہیں دن کی روشنی میں کچھ نظر نہیں آتا۔
میں نے یہ دیکھنے کے لئے کہ پہرے دار بدروحوں کو دکھائی دیتا ہوں یا نہیں غار کے باہر فضا میں بڑی تیزی سے دو تین غوطے لگاۓ تو میں نے دیکھا کہ دو بدروحوں نے اوپر نگاہیں اٹھائیں اور پھر خاموشی سے پہرہ دینے لگیں۔انہوں نے مجھے بھی کالی بدروح کے غار کی چمگادڑ سمجھا جو اپنا پیٹ بھر نے جار ہی تھی یا پیٹ بھر کر غار کی طرف واپس آگئی تھی۔ جب مجھے اطمینان ہو گیا کہ بدروحیں میرے وجود سے بے نیاز ہیں تو میں نے غوطہ لگایا اور ایک زناٹے کے ساتھ کالی بدروح کے غار میں گھس گیا۔ غار میں پہلے تو اندھیرا ہی اندھیرا تھا پھر دیکھا کہ آگے جا کر ایک چبوترہ تھا جس پر تخت بچھا تھا اس تخت پر ایک ڈراؤنی شکل والی بدروح بے سدھ پڑی تھی۔
یہ خونخوار کالی بدروح ہی ہو سکتی تھی۔ اس کی تصدیق یوں ہوئی کہ تخت کہ سرہانے کی جانب جلتی ہوئی مشعل کی روشنی میں مجھے اس ڈراؤنی شکل والی سیاہ فام بدروح کے گلے میں ہڈیوں کی مالائیں نظر آ گئیں۔ اس خیال سے کہ میرے بار بار پرواز کرنے خونخوار کالی کی آنکھ نہ کھل جاۓ میں دیوار کے ساتھ چمٹ گیا اور چمگادڑوں والا چھوٹا سا سر گھما کر کالی بدروح کو دیکھنے لگا۔ خونخوار کالی بھینس کی طرح سانس لے رہی تھی اس کے سانس کی ناگوار بو غار میں پھیلی ہوئی تھی۔ میری نظر میں اس کی گردن کی مالاؤں پر جمی ہوئی تھیں۔
میں نے دیوار کے ساتھ چمٹے ہوۓ اپنے آپ کو چھوڑ دیا اور نیچے زمین پر آگر چمگادڑوں کی طرح پر پھیلا کر بیٹھ گیا۔ میں بھی چمگادڑوں کی طرح ہانپ رہا تھا۔ معلوم ہوا کہ چمگادڑ کو بڑی جلدی سانس چڑھ جاتا ہے ۔ پھر میں اچھل کر خونخوار کالی بدروح کے تخت پر جا بیٹھا اور غور سے اسے سوتے میں دیکھنے لگا۔ یہ چڑیل واقعی بے سدھ ہو کر پڑی تھی اور اسے کوئی ہوش نہیں تھا۔ اب مجھے وہاں اپنے اصلی انسانی روپ میں ظاہر ہو کر کالی کی مالا سے انسانی ہڈی کا کوئی مہرہ نکالنا تھا۔
خونخوار کالی کے گلے میں ہڈیوں کی چھ سات مالائیں تھیں۔ میں نے غار کے دھانے کی طرف دیکھا۔ اس طرف کوئی نہیں تھا۔ پہرے دار روحیں باہر ہی پہرہ دے رہی تھیں ۔ میں نے مالینی کا بتایا ہوا منتر میں پڑھا اور اس کے فورا بعد مجھے جیسے ایک دھچکا سا لگا اور دوسرے لمحے میں خونخوار کالی کے تخت پر اس کے بالکل قریب اپنی انسانی شکل میں ظاہر ہو گیا۔ میں انسانی شکل میں آتے ہی بالکل سمٹ کر جتنا نیچے ہو سکتا تھا ہو گیا۔ مشعل کی روشنی ہڈیوں کی مالاؤں پر پڑ رہی تھی۔ ایک جگہ ہڈیوں کی ایک مالا کے مہرے باہر کو نکلے ہوۓ تھے۔
میں جھٹکے سے مہرے توڑتے ہوۓ ڈر رہا تھا کہ کہیں کالی بدروح کو ہوش نہ آجائے۔ مجھے کسی ایسے مہرے کی تلاش تھی جو ذرا سی کوشش کے بعد میرے ہاتھ میں آ جاۓ۔
جہاں سے کچھ سات ہڈیوں کے مہرے باہر کو نکلے ہوئے تھے میں نے ان کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا۔ اس وقت مجھے ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے میں ایک ہزار وولٹ کی بجلی کی تار کو چھونے کے لئے ہاتھ بڑھا رہا ہوں ۔ میں نے دیکھا کہ میرے ہاتھ کی انگلیاں دو تین بار کانپی تھیں مگر میں نے ہمت سے کام لیا اور خدا کا نام لے کر اپنی انگلیوں سے خونخوار کالی کی گردن کی مالاؤں کو اس جگہ سے چھوا جہاں سے کچھ ہڈیوں کے مہرے باہر کو نکلے ہوئے تھے۔
ایک مہرہ میری انگلیوں کی گرفت میں آ گیا۔ میں نے دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ اسے آہستہ سے اپنی طرف کھینچا۔ وہ اپنی جگہ سے بالکل نہ ہلا۔ میں نے مہرے پر اپنی گرفت کو مزید مضبوط کرتے ہوئے انگوٹھے سے اسے ذرا زور سے دبایا تو مہرہ مالا سے الگ ہو کر میرے ہاتھ میں آ گیا۔ یہ بہت بڑی کامیابی تھی جو مجھے نصیب ہوئی تھی۔
کالی بدروح کا مہرہ ہاتھ میں دباۓ میں ایک دو سیکنڈ کے لئے وہیں پتھر کا بت بنا۔رہا۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ کہیں خونخوار کالی کو پتہ تو نہیں چل گیا۔ لیکن اسے کوئی ہوش نہیں تھا۔ وہ سوم رس میں دھت ہو کر بے ہوش پڑی تھی۔ قدرت میری مدد کر رہی تھی۔ اب وہاں ایک سیکنڈ بھی رکنا خطرناک ہو سکتا تھا۔ میں نے دل میں مالینی کا بتایا ہوا منتر دوبارہ پڑھا اور اسی لمحے میں اپنی انسانی شکل کو چھوڑ کر ایک بار پھر چمگادڑ بن گیا۔ چمگادڑ بنتے ہی میں نے محسوس کیا کہ خونخوار کالی کا مہرہ میرے ایک ہاتھ کے چھوٹے سے پنجے میں تھا۔ میں نے فورا اڑان بھر کر اوپر کو اٹھا اور غوطہ لگا کر تیزی سے غار میں سے باہر نکل گیا۔ مجھے یقین نہیں آتا تھا کہ میں موت کے منہ سے زندہ سلامت ہی نہیں بلکہ اپنا مقصد حاصل کر کے نکل آیا ہوں۔
غار سے نکلنے کے فورا بعد میں اوپر کی طرف بلند ہو گیا اور کافی اوپر جا کر میں اس ٹیلے کے عقب میں اترنے لگا جہاں روہنی اور مالینی بے چینی سے میری راہ دیکھ رہی تھیں ۔ جب میں مالینی بدروح کے غار میں چمگادڑ کے روپ میں غوطہ لگا کر داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ روہنی اور مالینی کے چہروں پر ہلکی ہلکی مسکراہٹ تھی اور وہ نگاہیں اوپر اٹھاۓ مجھے غار میں چکر لگاتے دیکھ رہی تھیں۔ میں مٹی کے اس چبوترے پر اتر گیا جہاں سے مجھے مالینی نے چمگادڑ بنا کر اس خطرناک مہم پر روانہ کیا تھا۔
چبوترے پر بیٹھنے کے فورا بعد میں نے خفیہ منتر پڑھا اور اپنی انسانی شکل میں ظاہر ہو گیا۔ مالینی اور روہنی جلدی سے میرے پاس آ گئیں ۔ روہنی کو تو میرے زندہ واپس آ جانے کی بے حد خوشی ہوئی تھی۔ مالینی نے مجھ سے پوچھا۔ ”جس کام کے لئے تم گئے تھے کیا وہ ہو گیا؟‘‘
میں نے اپنی بند مٹھی کھول کر اس کے آگے کر دی۔ میری مٹھی میں کالی بدروح کی مالا کی ہڈیوں کا مہرہ تھا۔ مالینی نے اسے اٹھا کر غور سے دیکھا۔ پھر سونگھا اور بولی۔ "شیروان ! یہ کالی سردارنی کی مالا کا مہرہ ہی ہے ۔ تم نے وہ کام کر دکھایا ہے جس کی مجھے بہت کم امید تھی بلکہ مجھے تو تمہاری جان کی بھی فکر لگ گئی تھی۔
روہنی نے آگے بڑھ کر میری پیشانی کو چوم لیا اور کہنے لگی۔’’خدا نے میری دعائیں قبول کر لیں۔“
پھر اس نے مالینی سے کہا۔’’مالینی بہن ! اب ہم جتنی جلدی ہو سکے یہاں سے واپس انسانوں کی دنیا میں جانا چاہتے ہیں۔ ہمیں اجازت دو کیونکہ اگر کالی بدروح کو ہوش آ گیا تو ممکن ہے اسے پتہ چل جاۓ کہ اس کی مالا میں سے انسانی ہڈیوں کا ایک مہرہ کم ہو گیا ہے اور پھر ہمارے لئے یہاں سے فرار ہونا ناممکن ہو جاۓ ۔ مالینی کہنے لگی۔ ”تم ٹھیک کہتی ہو ۔ یہ مہرہ تمہارا ہے ۔ اب اسے سنبھال کر اپنے پاس رکھنا بلکہ اس کو کسی مضبوط باریک تار میں پرو کر اپنے بازو سے باندھ لینا اور ہرگز ہرگز کسی سے اس کا ذکر نہ کرنا۔‘‘
پھر مالینی نے مجھے بھی ہدایت کرتے ہوۓ کہا۔’’شیروان ! روہنی تو ایک روح یا بھٹکی ہوئی بدروح ہے ۔ تم زندہ انسان ہو ۔ تم دوسرے انسانوں سے اکثر ملتے جلتے رہو گے ۔ یادر کھو ۔ کالی کے مہرے کا ذکر تم بھی کسی کے آگے نہ کرنا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ راز بتا دینے سے تم دونوں اس سے بھی بھاری مشکل میں پھنس جاؤ۔
“ میں نے کہا۔ ”میں تم سے اور روہنی تم دونوں سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں خونخوار کالی کے مہرے کا ذکر بھول کر بھی کسی سے نہیں کروں گا۔۔ روہنی نے کالی کا مہرہ لے کر اسے اپنی ساڑھی میں چھپا کر رکھ لیا۔
اس کے بعد روہنی اور مالینی دونوں بدروح سہیلیاں ایک دوسری کے گلے لگ کر ملیں۔ مالینی نے کہا۔ ”روہنی! اپنا خیال رکھنا پجاری رکھو تمہیں اپنے قبضے میں کرنے کے لئے تمہارے پیچھے لگا ہوا ہے اور وہ بڑا مکروہ اور طاقتور دشمن ہے۔ اس کے پاس ایسے ایسے ویدک منتر ہیں کہ اگر وہ کسی چٹان پر پھونک دے تو چٹان دو ٹکڑے ہو جاۓ۔“ ۔
روہنی نے کہا۔ ”تم فکر نہ کرو مالینی ! مجھے اپنے خدا پر بھروسہ ہے ۔ میں اس کے ہر وار کا ڈٹ کا مقابلہ کروں گی اور پھر ایک دن اس شیطان کی مکروہ بدروح کو اگنی کی چتا میں جلا کر بھسم کر دوں گی اور اپنے آپ کو اور شہزادے شیروان کو اور دنیا کے سارے انسانوں کو پجاری رگھو کے چنگل سے مکت (آزاد ) کرادوں گی۔“ مالینی کہنے لگی۔ " میری پیاری سہیلی ! تمہیں اور شیروان کو اب قدم قدم پر چوکس ہو کر رہنا پڑے گا کیونکہ بہت جلد پجاری رگھو کو معلوم ہو جاۓ گا کہ تم کالی بدروح کی مالا کا مہرہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہو ۔
پجاری رگھو اس مہرے کی آسیبی طاقت کو جانتا ہے ۔ وہ ہر قیمت پر تم سے یہ مہرہ چھین لینے کی کوشش کرے گا۔‘‘ روہنی نے اس کے جواب میں کہا۔ ”میں پجاری رگھو کے تمام ہتھکنڈوں کو جانتی ہوں۔ وہ مجھ سے کالی کا مہرہ کیا چھینے گا بلکہ میں خدا کی مدد سے اور اس مہرے کی آ سیبی شکتی کے ذریعے رگھو کو ہمیشہ کے لئے نیست و نابود کر دوں گی۔ اب میں جاتی ہوں۔ ہمیں یہاں زیادہ دیر نہیں ٹھہرنا چاہئے۔“ روہنی نے اتنا کہہ کر میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے پکڑ لیا اور مجھے ایک دھچکا لگا اور میں غائب ہو گیا۔ مجھے سواۓ اپنے وہاں ہر شے نظر آرہی تھی۔ مالینی بھی نظر آ رہی تھی، روہنی بھی نظر آ رہی تھی۔ میرے دیکھتے دیکھتے روہنی بھی میری نگاہوں سے غائب ہو گئی۔
مالینی نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔’’ خداحافظ سلطانہ !‘‘ بد روح مالینی نے پہلی بار وہاں روہنی کو اس کے مسلمان نام سے پکارا تھا۔ اس کے جواب میں مجھے روہنی کی آواز سنائی دی اس نے کہا۔ ’’ خداحافظ ! مالینی!‘‘
میرے پاؤں اپنے آپ زمین سے بلند ہو گئے اور ہم مالینی کے غار سے تیرتے ہوۓ باہر ٹیلے کی ڈھلان پر نکل آۓ۔ باہر نکلتے ہی روہنی نے مجھے سرگوشی میں کہا۔ " جب تک میں نہ کہوں زبان سے کوئی لفظ نہ نکالنا۔ بالکل خاموش رہنا۔“ ٹیلے کی ڈھلان پر آتے ہی ہم فضا میں اوپر کی طرف اٹھتے چلے گئے۔ جب ہم کافی بلندی پر چلے گئے تو میں نے نیچے دیکھا۔ بدروحوں کی دنیا کے پہاڑ سیاہ دھبوں کی طرح نظر آنے لگے تھے۔ ایک خاص اونچائی پر پہنچنے کے بعد روہنی نے مجھے ساتھ لئے ہوئے دائیں جانب ایک غوطہ لگایا اور ہم تیزی سے اڑنے لگے ۔ ایک مقام پر آکر ہمیں سیاہ دھوئیں کے مرغولوں نے گھیرے میں لے لیا۔ یہاں روہنی نے رفتار اور زیادہ تیز کر لی اور ہم سیاہ دھوئیں کے مرغولوں میں سے تیر کی طرح نکل گئے۔
آگے کھلی فضا تھی اور کسی قدر روشن بھی تھی۔ سلطانہ کی آواز آئی۔ ”شیروان ! میں انتہائی رفتار سے پرواز کرنے والی ہوں۔“ ۔ میں نے ایک لمحے کے لئے اپنا سانس روک لیا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ جب آتی دفعہ روہنی نے انتہائی رفتار سے پرواز شروع کی تھی تو مجھے کچھ اس قسم کا احساس ہوا تھا جیسے کسی نے مجھے اچانک اوپر کھینچ لیا ہو ۔ ایک سیکنڈ بعد مجھے بالکل ویسا ہی احساس ہوا اور اس کے بعد مجھے نیچے زمین نظر آنا بند ہو گئی۔ ایک سنسناہٹ کی سی آواز میرے کانوں میں مسلسل گونج رہی تھی اور مجھے اپنے چاروں طرف اور اوپر نیچے ایک گہرے سناٹے کا احساس ہو رہا تھا۔
خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ خلا تھا یا دنیا کی فضا تھی یا کون ساخلائی زون تھا جس میں سے روہنی ایک ایسی رفتار کے ساتھ مجھے اپنے ساتھ اڑاۓ لئے جارہی تھی جس کا اندازہ لگانا میرے بس کی بات نہیں تھی۔ کسی وقت مجھے لگتا کہ ہم خلا میں کسی جگہ معلق ہو کر رہ گئے ہیں۔ پھر اچانک مجھے گرمی کا احساس ہوا۔ کچھ دیر بعد گرمی ختم ہو گئی اور سردی شروع ہو گئی۔ کچھ دیر کے بعد سردی بھی ختم ہو گئی اور پھر نہ سردی تھی اور نہ گرمی تھی۔
اچانک دور سے بادل کا ایک سیاہ ٹکڑا تیزی سے آتا ہوا ہمارے قریب سے ہو کر پیچھے نکل گیا۔ اس کی وجہ سے مجھے احساس ہوا کہ ہم کس قدر زیادہ رفتار سے پرواز کر رہے ہیں۔ بادل بہت بڑا تھا مگر وہ میرے پلک جھپکنے سے بھی پہلے ہمارے قریب سے نکل گیا۔
میں حیران ہو رہا تھا کہ اگر ہم زمین کے گرد غلاف کی طرح لیٹی فضا میں سے گزر رہے ہیں تو فضا میں بکھرے ہوئے کروڑوں ذرات کی رگڑ سے ہم آگ میں جل کر جسم کیوں نہیں ہو جاتے جس طرح کہ آسمان سے گرے ہوۓ شہاب ثاقب زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہی فضا کے ذرات کی رگڑ سے جل کر راکھ ہو جاتے ہیں ۔ اگر ہم خلا میں سے گزر رہے تھے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم نہ صرف زندہ تھے بلکہ سانس بھی لے رہے تھے۔ خلا میں تو آکسیجن بالکل ہی نہیں ہوتی اور کوئی انسان خلائی لباس کے بغیر خلا میں سفر نہیں کر سکتا اور پھر خلا میں آکسیجن نہ ہونے کے علاوہ اتنی سردی ہوتی ہے کہ قطب شمالی اور قطب جنوبی کی یخ بستہ سردی کو ایک ساتھ ملا کر اس کی شدت کو ایک لاکھ گنا زیادہ کر دیا جاۓ تو بھی وہ خلا کی سردی کے مقابلے میں گرمی ہی ہوگی۔
نہ صرف یہ کہ مجھے سردی نہیں لگ رہی تھی اور دم بھی نہیں گھٹ رہا تھا بلکہ میں اتنے آرام سکون سے کھڑا تھا جیسے کسی لفٹ میں کھڑا ہوں۔ اچانک ہلکی خوشگوار ہوا مجھے چھو کر گزرنے لگی۔ میں نے روہنی کی طرف دیکھا۔ اب وہ غائب نہیں تھی بلکہ نظر آنے لگی تھی۔ کہنے لگی۔ ’’ہم اپنی منزل پر پہنچنے والے ہیں۔“
میں نے نیچے دیکھا۔ سفید بادلوں کے ٹکڑے بڑی تیزی سے ہماری طرف آرہے تھے۔ ان کے نیچے کسی شہر کی چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں دکھائی دینے لگی تھیں۔ ہر طرف روشنی پھیلی ہوئی تھی۔
روہنی کے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔ "شیروان ! انسانوں کی دنیا کتنی خوب صورت ہے۔“
”ہاں!
میں دیکھ رہی ہوں۔ مجھے انسانوں کی دنیا اور انسانوں سے بڑی محبت ہے لیکن کچھ لوگ دنیا کی خوبصورتی اور یہاں رہنے والے معصوم انسانوں کی خوشیاں برباد کرنا چاہتے ہیں۔ میں انسانیت کے دشمن ایسے لوگوں کو ختم کرنے کا عہد کر چکی ہوں۔
” میں دنیا اور انسانوں کی بھلائی کی اس مہم میں تمہارے ساتھ ہوں۔ میں نے بڑے جذباتی انداز میں سلطانہ سے کہا۔ وہ بولی۔” تمہاری زبان سے یہ سن کر مجھے خوشی ہوئی ہے۔ اس لئے میں تم سے پیار کرتی ہوں۔“
روہنی سلطانہ کے منہ سے نکلے ہوۓ محبت بھرے الفاظ سن کر مجھے حیرانی بھی ہوئی اور خوشی بھی بہت ہوئی۔ اس نے پہلی بار مجھ سے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا۔ مجھے اس لئے بھی خوشی ہوئی کہ وہ جانتی تھی کہ میں اس کا مرحوم خاوند نہیں ہوں جس نے دنیا میں دوسرا جنم لیا ہے۔ وہ مجھے بتا چکی تھی کہ میں اس کے مرحوم شوہر شیروان کا ہم شکل ہوں ، اگرچہ میری شکل میں اسے اپنا مرحوم محبوب یاد آ جاتا تھا اس کے باوجود اس نے میری ایک الگ شخصیت کا اعتراف کیا تھا اور میری اسی الگ شخصیت سے محبت کرنے لگی تھی۔
کسی شہر کی پہاڑیاں ، جنگل اور کھیت ہمیں نیچے صاف نظر آنے لگے تھے۔ میں نے ابھی تک اس جگہ کو نہیں پہچانا تھا۔ پھر مجھے ایک دیو ہیکل قلعے کی فصیل دکھائی دی۔ میں نے روہنی سے پوچھا ۔ سلطانہ ! یہ کون سا شہر ہے ؟ -
اس نے کہا۔’’ہم جہاں سے چلے تھے اسی جگہ واپس آگئے ہیں یہ جھانسی کا شہر ہے
اور جو قلعہ تم دیکھ رہے ہو یہ میرے محل کا کھنڈر ہے۔“ ہم ویران محل کے کھنڈر کی چھت پر اتر گئے ۔ چھت پر قدم رکھتے ہی ہم دونوں غیبی حالت سے اپنی اپنی انسانی شکل میں واپس آگئے ۔ اس وقت جھانسی شہر میں صبح ہو رہی تھی۔ محل کے نیم تاریک زینے میں سے اتر کر ہم محل کے بالکونی والے کمرے میں آ کر سنگ مرمر کے چبوترے پر بنی ہوئی بارہ دری میں آ کر بیٹھ گئے۔ میں نے روہن سے کہا۔ ”
تمہاری سہیلی مالینی اگر ہماری مدد نہ کرتی تو ہم خونخوار کالی کا مہرہ حاصل کرنے میں شاید کبھی کامیاب نہ ہوتے۔“ روہنی کہنے لگی۔ ہماری مدد ہمارے خدا نے کی ہے ۔ مالینی میری سہیلی ایک ذریعہ تھی۔“
میں نے کہا۔ ” تمہارے خیال میں اب ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ کیا اس محل کے کھنڈر میں چپ کر اپنے دشمن پجاری رگھو کا انتظار کریں کہ وہ اپنے حبشی غلاموں کی بدروحوں کے ذریعے ہمارے خلاف کیا کارروائی کرتا ہے ۔“ روہنی کہنے لگی۔ اس سے پہلے کہ دشمن ہم پر وار کرے ہمیں اس پر وار کر دینا چاہئے۔ دشمن کو اپنی طاقت جمع کرنے کا موقع نہیں دینا چاہئے۔
میں نے اسے کہا۔ ”لیکن ہمیں تو معلوم ہی نہیں کہ ہمارا دشمن ہمارے خلاف کہاں گھات لگا کر بیٹھا ہوا ہے۔ ہم کیسے اس پر وار کر سکتے ہیں۔ کیا تم اپنی طلسمی طاقت سے یہ پتہ نہیں کر سکتیں کہ ہمارا دشمن پجاری رگھو اس وقت کہاں ہوگا اور وہ تمہیں اپنے قبضے میں کرنے اور مجھے ہلاک کرنے کے لئے کیا منصوبہ بندی کر رہا ہے ؟“ روہنی کہنے لگی۔ ” پجاری رگھو بڑی زبردست طلسمی قوت کا مالک ہے ۔ میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی لیکن اس کے وار کو ناکام ضرور بنا سکتی ہوں اور اس پر چپ کر یا گھات لگا کر وار بھی کرسکتی ہوں۔
میں اس کے سامنے نہیں جاسکتی۔ اگر میں اس کے سامنے آگئی تو پھر میں اپنا آپ نہیں بچا سکوں گی۔ یوں مجھے اس سے دو رخی جنگ کرنی ہوگی۔ اس سے اپنا آپ بچانا بھی ہوگا اور اس پر وار بھی کرنا ہوگا۔ ہماری یہ جنگ پستول، بندوق کی جنگ نہیں ہوگی بلکہ طلسمی منتروں کی جنگ ہوگی۔“
میں نے روہنی سے کہا۔ ”میں نے سن رکھا ہے کہ ہر جن بھوت یا چڑیل کی کوئی نہ کوئی کمزوری ضرور ہوتی ہے ۔ اگر انسان کو اس کمزوری کا پتہ چل جاۓ تو وہ چڑیل یا بھوت انسان کے قبضے میں آ جاتا ہے۔ پجاری رگھو بھی ایک بدروح ہے ، ایک بھوت ہے۔ کیا اس کی کوئی ایسی کمزوری نہیں ہے؟‘‘
روہنی کہنے لگی۔ ”ضرور ہوگی۔ قدرت نے ان شیطانی بدروحوں کی ہلاکت کے لئے ان کا کوئی نہ کوئی کمزور پہلو ضرور رکھا ہوتا ہے ۔ پجاری رگھو کی بھی کوئی نہ کوئی کمزوری ضرور ہوگی ، اس کا مجھے علم نہیں۔ اس کا ہمیں سراغ لگانا ہوگا۔“
” یہ سراغ کیسے لگایا جاسکتا ہے ؟ میں نے پوچھا۔ روہنی گہری سوچ میں تھی۔ کہنے لگی۔’’ پجاری رگھو کی کمزوری کا راز مجھے مردہ برہمن لڑکی کی ادھ جلی لاش ہی بتا سکتی ہے۔ ایسی لاش جسے چتا کی آگ پر پوری طرح جلاۓ بغیر دریائے گنگا کی لہروں کے حوالے کر دیا گیا ہو ۔ “
میں نے کہا۔ ” یہ تو بڑی پیچیدہ اور بھول بھلیوں والی بات ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے ہر ہندو عورت اور مرد کی لاش کو جب چتا پر رکھ کر آگ لگائی جاتی ہے تو اس کے جسم کو پورے طور پر جلا کر راکھ کر دیا جاتا ہے اور اس کے رشتے دار صبح کے وقت اس کی ہڈیاں وغیرہ برتن میں ڈال کر لے جاتے ہیں۔ کسی برہمن عورت کی ایسی لاش ہمیں شاید کہیں سے بھی نہیں ملے گی جسے آدھا جلا کر دریا میں بہا دیا گیا ہو ۔ “ روہنی کہنے لگی۔ صرف ایک جگہ سے ہمیں ایسی ادھ جلی لاش مل سکتی ہے وہ جگہ بنارس میں دریاۓ گنگا کے کنارے پر واقع شمشان ہیں۔
بنارس میں دریاۓ گنگا کے شمشانوں کو ہندو لوگ بڑا مقدس مانتے ہیں ۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اگر کسی ہندو مردے کو گنگا کے کسی گھاٹ کے شمشان میں جلایا جائے تو اس کی آتما سیدھی سورگ میں چلی جاتی ہے اور اسے آواگون کے چکر سے نجات مل جاتی ہے ۔ چنانچہ لوگ یہی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا اگر کوئی مر جائے تو وہ اس کی لاش گنگا کے گھاٹ پر نذر آتش کریں۔
اس وجہ سے بنارس کے دریا کنارے والے شمشانوں میں ایسی صورت حال پیدا ہو گئی ہے کہ وہاں مردہ لاشوں کی قطار لگی رہتی ہے ۔ بنارس اور دوسرے قریبی شہروں سے بھی لوگ اپنے مردوں کو وہاں جلانے کے لئے لاتے ہیں۔ مردے جلانے والوں کو سارا دن سر کھجانے کی فرصت نہیں ملتی۔اتنے رش میں کسی مردے کے پوری طرح سے جل کر راکھ ہونے کا انتظار نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض لوگ اپنے مردے گھاٹ پر لاشیں جلانے والوں کے حوالے کر کے انہیں پیسے دے کر چلے جاتے ہیں۔
وہ کچھ چھ سات سات گھنٹے انتظار نہیں کر سکتے۔ ایسے مردوں کے ساتھ لاشیں جلانے والے یہ سلوک کرتے ہیں کہ انہیں جلدی جلدی تھوڑا بہت جلا کر ادھ جلی لاش کو دریاۓ گنگا میں بہا دیتے ہیں۔ان آدھ جلی لاشوں کو مچھلیاں کھا جاتی ہیں ۔ بعض لاشیں تیرتی ہوئی دور نکل جاتی ہیں۔ ہمیں صرف دریاۓ گنگا کے گھاٹ پر سے ہی کسی برہمن ہندو عورت کی آدھ جلی لاش مل سکتی ہے ۔ “ میں نے روہنی سے پوچھا۔ ”
کیا تمہیں یقین ہے کہ کسی آدھ جلی لاش پر تم چلہ کرو تو وہ تمہیں رگھو کی کمزوری بتا سکے گی ؟ روہنی بدروح نے کہا۔ ”یہ میں جانتی ہوں کہ اگر میرا چلہ پورا ہوگیا اور چلہ کاٹنے کے دوران پجاری رگھو کو پتہ نہ چل گیا تو عورت کی آدھ جلی لاش بول پڑے گی اور مجھے بتادے گی کہ پجاری رگھو کی کمزوری کیا ہے ۔ " میں نے کہا۔ ” میرا خیال ہے کہ ہمیں سب سے پہلے یہی کرنا چاہئے۔ کیونکہ دشمن کی اگر کوئی کمزوری ہاتھ آ جائے تو اسے آسانی سے شکست دی جاسکتی ہے ۔ روہنی کہنے لگی۔ اس کے لئے ہمیں آج ہی بنارس جانا ہوگا اور وہاں شمشان گھاٹ پر کسی برہمن عورت کی آدھ جلی لاش کو تلاش کرنا ہوگا۔
اور اگر ہمیں پوری لاش نہ مل سکی تو کیا کریں گے ؟ میں نے پوچھا۔ روہنی نے کہا۔ ’’پوری لاش کی مجھے ضرورت بھی نہیں ہے۔ مجھے صرف ادھ جلی لاش کا سر چاہئے۔ مجھے ادھ جلے سر پر منتر پڑھ کر چلہ کاٹنا ہوگا۔ “ میں نے کہا۔’’ بنارس یہاں سے کتنی دور ہوگا؟“
روہنی نے جواب دیا۔ ’’ فاصلہ میرے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ ہمیں دیر نہیں کرنی چاہئے اور اسی وقت بنارس روانہ ہو جانا چاہئے۔
روہنی نے مجھے کہا۔” چلو ہم اپنے سفر پر روانہ ہوتے ہیں۔“

پُراسرار حویلی - پارٹ 14

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں