بغض کی آگ - دوسرا حصہ

 urdu stories

 Sublimegate Urdu Stories

بغض کی آگ - دوسرا حصہ

کیونکہ مجھے پتا تھا آپ آج جلدی نکلیں گے سعید نے مسکراتے ہوئے کہا کافی سمجھتی ہو مجھے ۔ ثمینہ نے کہا جی آپ کی بیوی جو ہوں اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ آپ آج پہلے اس لڑکی کو ڈھونڈنے جائیں گے ۔ سعید نے کہا اگر تم کہتی ہو تو نہیں جاتا ۔۔۔ ثمینہ نے کہا کیوں نہیں جائیں گے بلکہ میں چاہتی ہوں کہ آپ وہاں ضرور جائیں اور میں نے یہ بھی سوچ لیا ہے کہ اگر وہ لڑکی آپ کو وہاں ملتی ہے تو آپ اس کو صاف صاف بتا دینا ۔ یا اس کے گھر والوں کو اپنے خواب کے بارے میں سب سچ بتا دینا پھر جو بھی ہو گا دیکھا جائے گا لیکن آپ ذرا بھی جھجھکنا مت اور ہاں جو بھی ہو مجھے فون کر کے لازمی بتانا ۔

 سعید نے کچھ سوچا اور پھر بولا ہاں یہ سہی رہے گا تم نے بالکل ٹھیک مشورہ دیا ہے میں ایسا ہی کروں گا اور تم بے فکر رہو جو بھی بات ہو گی تمہیں بتا دونگا ۔ یہ کہتے ہوئے سعید نے جلدی سے ناشتہ ختم کیا اور ثمینہ کا ماتھا چوم کر چلا گیا ۔ اور سعید کو جاتا دیکھ کر ثمینہ آنکھیں بند کر کے سعید کے حق میں بہتری کے لیئے دعا کرنے لگی ۔ اور ادھر سعید جب اس جگہ پر پہنچا تو سعید نے دیکھا کہ یہ سارا علاقہ بلکل ویسا ہی تھا جیسا سعید نے خواب میں دیکھا تھا پھر نے گاڑی ایک سائیڈ پر کھڑی کی اور اتر کر اسی گھر کو ڈھونڈنے لگا جہاں خواب میں سعید نے اس لڑکی کو جاتے ہوئے دیکھا تھا لیکن اچانک سعید حیران رہ گیا کیونکہ سیعد کے حساب سے جہاں وہ لڑکی گئ تھی وہاں ایک گھر ہونا چاہیے تھا لیکن اب اس جگہ ایک دربار بنا ہوا تھا ۔ سعید نے کہا ارے نہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے خواب کے حساب سے تو یہاں گھر ہونا چاہیئے تھا یہ تو کوئی دربار ہے ۔

 سعید نے ایک بار پھر سے سارے علاقے میں چکر لگایا لیکن آخر میں اس دربار کے پاس آکر رک جاتا تھا ۔ تبھی سعید پریشان ہو گیا اور اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر افسردہ سا ہو گیا پھر سعید نے جیب سے فون نکالا اور ثمینہ کو اس بارے میں بتانے لگا ۔ ثمینہ نے کہا کوئی بات نہیں آپ پریشان مت ہوں آپ وہاں سے واپس آجائیں ہم اس کو کہیں اور ڈھونڈیں گے ۔ سعید نے کہا ٹھیک ہے لیکن اب میں آفس کے لیئے جا رہا ہوں ثمینہ نے کہا جی بہتر باقی باتیں جب آپ آئیں گے تب کریں گے ۔ سعید نے کہا ٹھیک ہے یہ کہتے ہوئے سعید نے فون بند کیا اور گاڑی کی طرف بڑھنے لگا تو اچانک سعید کی نظر ایک لڑکی پر پڑی جو کہ دربار میں داخل ہو رہی تھی تو سعید اچانک چونک گیا اور اس لڑکی کی طرف غور سے دیکھنے لگا کیونکہ وہ لڑکی بالکل ویسی ہی جسامت کی تھی جیسے کہ سعید نے خواب میں دیکھی تھی اور اس نے بالکل ویسے ہی کپڑے پہنے ہوئے تھے جیسے سعید نے اس کو خواب میں پہنے دیکھا تھا مگر سعید اس کا چہرہ نہیں دیکھ پایا کیونکہ جب سعید کی نظر اس پر پڑی تھی تو تب وہ دربار کے دروازے کی سیڑھیاں چڑ رہی تھی

سعید جلدی سے اس کی طرف بڑھا اتنے وہ دربار میں جا چکی تھی اور سعید بھی تیزی سے بڑھتا ہوا دربار میں داخل ہوا تو وہاں کوئی لڑکی نہیں تھی سعید پاگلوں کی طرح دربار میں اسے ڈھونڈنے لگا تبھی اتنے میں سعید کو کسی نے پیچھے سے کہا۔ کیا ہوا جناب ؟؟ آپ کیا ڈھونڈ رہے ہیں ؟؟ سعید نے یہ سنتے ہی پلٹ کر دیکھا تو ایک بہت ہی نورانی چہرے والا آدمی سعید کے پیچھے کھڑا ہوا تھا جو کہ تقریباً سعید سے دو تین ہی سال بڑا لگ رہا تھا ۔ سعید نے کہا جی آپ کون ہیں اس آدمی نے کہا میرا نام محمد جلال دین چشتی ہے اور میں یہاں کا گدی نشین ہوں اب آپ بتائیں کہ آپ کون ہیں اور آپ یہاں کیا تلاش کر رہے ہیں ؟؟ آج سے پہلے میں نے آپ کو کبھی اس دربار میں یاں اس محلے میں نہیں دیکھا ؟ سعید نے کہا میرا نام سعید احمد ہے اور میں ایک پرائیویٹ فوڈ کمپنی کا مالک ہوں اور میں یہاں کسی لڑکی کی تلاش میں آیا تھا اور اس لڑکی کو میں نے ابھی اس دربار میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا ہے اس وجہ سے میں یہاں اسے ڈھونڈ ہی رہا تھا کہ آپ آگئے ۔۔ سعید کی یہ بات سن کر جلال دین نے کہا اچھا ۔۔۔ اچھا۔۔۔ تو یہ بات ہے ؟؟

 سعید نے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا جی یہی بات ہے ۔ پھر جلال دین نے مسکراتے ہوئے سعید کی طرف دیکھا اور بولا ویسے کیا میں پوچھ سکتا ہوں تمہارا کیا رشتہ ہے اس لڑکی کے ساتھ ؟؟ سعید نے کہا جی میرا اس سے کوئی رشتہ نہیں ہے ۔ یہ سنتے ہی جلال دین نے حیرت سے سعید کی طرف دیکھا اور بولا تو پھر تم اسے کیوں تلاش کر رہے ہو ؟؟ سعید نے کہا جی یہ میں آپ کو نہیں بتا سکتا ۔ جلال دین نے کہا ارے بھئی مجھے کچھ تو بتاؤ ہو سکتا ہے میں تمہاری کوئی مدد کر سکوں ویسے بھی جس ہستی کے در پر آکر تم کسی کو ڈھونڈ رہے ہو تو ہوسکتا ہے وہ ہستی تمہارے لیئے کوئی دعا کر دے ۔

 سعید نے ایک بار دربار اندر بنی ہوئی اس تربت کی طرف دیکھا اور پھر ایک گہری سانس لیتے ہوئے جلال دین کی طرف دیکھتے ہوئے کہا دیکھیں مجھے یہ تو نہیں پتا کہ آپ میری مدد کر سکتے ہیں کہ نہیں پر آپ کے چہرے کو دیکھ کر پتا نہیں مجھے کیوں لگ رہا ہے کہ مجھے آپ کو وہ سب بتا دینا چاہیئے جو میرے ساتھ ہو رہا ہے ۔ یہ سنتے ہی جلال دین نے مسکراتے ہوئے کہا اچھا تو چلو پھر میرے آستانے میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں یہ کہتے ہوئے جلال دین دربار میں ہی ایک کمرے کی طرف جانے لگا اور اس نے مڑ کر سعید کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جناب کھڑے کیوں ہیں آجائیں میرے ساتھ ۔ اور یہ سنتے ہی سعید جلال دین کے ساتھ اس کے آستانے کی طرف بڑھنے لگا اور جب سعید اس آستانے پر پہنچا تو اس کے دروازے کے باہر کھڑے ہو کر اسے دیکھنے لگا آستانہ بہت صاف ستھرا تھا اور اس میں ایک خوبصورت سا قالین بچھا ہوا تھا اور ایک جائے نماز بچھی ہوئی تھی اور ہر طرف بہت پیاری سی خوشبو پھیلی ہوئی تھی یہ سب دیکھ کر سعید کو ایک عجیب سا سکون مل رہا تھا پھر سعید نے جلدی سے جوتے ایک سائیڈ پر اتارے اور آستانے میں داخل ہو کر قالین پر بیٹھ گیا اور جلال دین جائے نماز پر بیٹھ گیا ۔

 سعید اس آستانے کی ہر چیز ہو بہت حیرانی سے دیکھ رہا تھا کہ اچانک سعید کی نظر ایک جگہ پر پڑی جہاں دروازا نہیں بلکہ ایک پردہ پڑا ہوا تھا اور اس پردے کے ہلکے ہلکے اڑنے سے اس کے پیچھے باہر کسی کا صحن نظر آرہا تھا جس میں سورج کی روشنی پڑ رہی تھی سعید نے جلال دین سے پوچھا جناب یہ پیچھے کسی کا گھر ہے کیا ؟؟ جلال دین نے مسکراتے ہوئے کہا جی جناب سعید احمد صاحب یہ پیچھے آپ کے سامنے بیٹھے ہوئے اس ناچیز کا غریب خانہ ہے ۔ سعید نے کہا پتا نہیں کیوں مجھے یہاں بیٹھ کر بہت سکون سا مل رہا ہے ۔ جلال دین نے کہا جی اس جگہ میں تلاوتِ قرآن پاک جو کرتا ہوں اور ہر وقت اللّٰہ سے اپنے گناہوں کی توبہ کرتا ہوں جس سے مجھے بہت سکون ملتا ہے یہ کہتے ہوئے جلال دین اپنی جگہ سے اٹھا اور اس پردے کے پاس جا کر بولا ارے بچو کوئی چائے وغیرہ لے کر آؤ ہمارے پاس مہمان آیا ہے اور یہ کہہ کر جلال دین پھر سے اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گیا ۔ تبھی سعید نے کہا جناب آپ نے میرے لیئے تکلف کیوں کیا ؟ میں تو آپ سے اپنی بات کہنے آیا تھا بس ۔ جلال دین نے کہا ارے جناب کوئی بات نہیں دراصل میں بھی کچھ دیر میں چائے ہی پینے والا تھا اتنے میں آپ سے ملاقات ہو گئی تو میں نے سوچا چلو آپ کے ساتھ ہی بیٹھ کر چائے پی لیتا ہوں اور آپ کی بات بھی سن لیتا ہوں ۔ سعید نے کہا جی بہت بہت شکریہ۔

 پھر جلال دین نے کہا تو کہیئے جناب آپ مجھے کیا بتانے والے تھے ایسا کیا ہو رہا ہے آپ کے ساتھ جو آپ کچھ پریشان سے دکھائی دے رہے تھے ؟؟ پھر سعید نے کہا جناب میری شادی کو تقریباً بیس سال ہونے والے ہیں لیکن ابھی تک میرے گھر میں اولاد نہیں ہے جبکہ ہم نے ہر جگہ چیکپ کرایا جگہ جگہ جا کر دعائیں بھی کیں مگر کوئی افاقہ نہیں ہوا پھر ایک دن میں نے خواب دیکھا ۔۔ یہ کہتے ہوئے سعید نے جلال دین کو وہ سب کچھ بتایا جو جو اب تک سعید کے ساتھ ہو چکا تھا ۔ جس کو سن کر جلال دین بھی سوچ میں پڑھ گیا ابھی جلال دین کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ اتنے میں پردے کے پیچھے سے کسی لڑکی نے کہا بابا چائے لائی ہوں تو جلال دین نے اک دم سے چونک کر کہا ہاں ہاں بیٹی لے اور تبھی سعید نے اس پردے کی طرف دیکھا تو اس کے ہوش ہی اڑ گئے کیونکہ جو چائے لے کر آرہی تھی وہ وہی لڑکی تھی جس کو سعید نے دربار میں جاتے ہوئے دیکھا تھا پر اس کے چہرے پر نقاب تھا لیکن اس کی بڑی بڑی خوبصورت آنکھیں سعید نے دیکھ لیں اور فوراً سعید نے اپنی نظریں نیچے کر لیں ۔ اتنے میں وہ لڑکی چائے والی ٹرے جلال دین اور سعید کے درمیان رکھ کر واپس چلی گئی اور سعید نظریں جھکائے اس کو جاتے ہوئے دیکھتا رہا اور جیسے ہی وہ گئی تو سعید نے جلال دین کی طرف دیکھا اور بولا جناب یہ ۔۔۔۔۔ تو ۔۔۔ یہ تو ہاں۔۔ بالکل یہ تو وہی لڑکی ہے جناب جس کے بارے میں ۔ میں آپ کو بتا رہا ہوں ۔ سعید کی یہ بات سنتے ہی جلال دین نے سعید کی طرف حیرت سے دیکھا اور بولا میں جانتا ہوں جس کی تم بات کر رہے ہو وہ میری بیٹی ہی ہے اور یہ بات میں تب ہی سمجھ گیا تھا کہ جب میں نے تمہیں پہلی بار میری بیٹی کہ بارے میں بات کرتے ہوئے دیکھا تھا بس میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ آخر تم کس مقصد کے لیئے میری بیٹی کو ڈھونڈ رہے تھے ۔ سعید نے حیرانی سے جلال دین کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کیا ۔۔...۔؟؟؟؟ آپ جانتے تھے ؟؟ 

جلال دین نے کہا جی جناب میں جان گیا تھا کیونکہ جس وقت میری بیٹی دربار میں داخل ہوئی تھی اس وقت میں وضو کر رہا تھا کہ اتنے میں ۔ میں نے آپ کو اس کے پیچھے آتے ہوئے دیکھا تو اس وجہ سے میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ آپ کس کو ڈھونڈ رہے ہیں ۔ جلال دین کی یہ بات سن کر سعید شرمندہ سا ہو گیا اور بولا جناب معافی چاہتا ہوں مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ آپ کی بیٹی ہے ۔ جلال دین نے کہا کوئی بات نہیں ہم سب انسان ہیں اور غلطی انسانوں سے ہی ہوتی ہے اس لیئے مجھے تم سے کوئی شکوہ یا شکایت نہیں ہے پر تمہارے اس خواب نے مجھے عجیب سی مشکل میں ڈال دیا ہے اب مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ میں اس بارے میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں ۔ سعید نے جلدی سے آگے بڑھ کر جلال دین کے ہاتھوں کو پکڑ کر چوم لیا اور بولا جناب میں آج سے آپ کا مرید ہو گیا ہوں اور آپ میرے بارے میں جو بھی فیصلہ کریں گے میں خاموشی سے مان لوں گا اور اگر آپ چاہیں گے تو آج کے بعد میں کبھی اس علاقے میں نظر بھی نہیں آؤں گا ۔ جلال دین نے سیعد کی طرف دیکھا اور بولا اچھا پہلے آپ چائے تو پی لیں تب تک مجھے بھی کچھ سوچنے کا موقع دیں ۔ سعید نے کہا جی حضور ۔ یہ کہتے ہوئے سعید نے چائے کا کپ پکڑ لیا اور چائے پینے لگا اور جلال دین بھی چائے پیتے ہوئے گہری سوچ میں پڑا رہا۔ پھر کچھ سوچنے کے بعد جلال دین نے کہا دیکھو جناب آپ مجھ سے کچھ ہی سال چھوٹے لگ رہے ہیں اور میری بیٹی سترہ سال کی ہے اس حساب سے آپ کی بھی اگر کوئی بیٹی ہوتی تو وہ بھی میری بیٹی کی عمر کی ہی ہوتی مگر آپ کے خواب کے مطابق آپ یہاں تک آگئے ہیں

 اس کا مطلب ہے کہ یہاں آپ ائے نہیں ہیں بلکہ بلائے گئے ہیں وہ بھی ایک خواب کے ذریعے اور ہو سکتا ہے جس طاقت نے آپ کو یہاں تک بلایا ہے وہ آپ کو یہاں سے شاید آپ خالی ہاتھ نہ جانے دے لیکن اس سے پہلے مجھے اپنی بیٹی سے بھی اس بارے میں بات کرنی ہو گئ تب ہی پتا چلے گا آخر اس مسلے میں کیا حکمت ہے ۔ یہ کہتے ہوئے جلال دین اپنی جگہ سے اٹھ کر اپنے گھر میں چلا گیا اور سعید وہیں بیٹھ کر اپنے حق میں دعا کرنے لگا اور کچھ ہی دیر میں جلال دین واپس آگیا سعید حسرت بھری نظروں سے جلال دین کو دیکھ رہا تھا اور جلال دین بھی سعید کی طرف دیکھنے لگا ۔ تبھی سعید نے جلال دین سے کہا حضرت آپ مجھے ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں ؟؟ جلال دین کچھ نہیں بولا اور سعید کو دیکھتا رہا تبھی سعید نے کہا حضرت مجھ سے کوئی گستاخی ہو گئی ہے کیا ؟؟ پھر جلال دین نے اچانک پردے کی طرف دیکھا اور پھر سعید کی طرف دیکھتے ہوئے بولا مجھے اتنا تو سمجھ آگیا ہے کہ اس معاملے کے پیچھے کوئی بڑی طاقت ہے لیکن اپنی بیٹی سے ملنے کے بعد میں اس معاملے میں زیادہ حائل نہیں ہو سکتا ۔ سعید نے حیرت سے پوچھا حضرت میں کچھ سمجھا نہیں ؟ جلال دین نے کہا لگتا ہے جس طاقت نے تمہیں یہاں تک پہنچایا ہے اسی طاقت نے میری بیٹی کو بھی اسی معاملے کے لیئے پہلے ہی راضی کیا ہوا تھا اسی لیئے جب میں اس سے بات کرنے گیا تو اس سے پہلے میں اس سے کوئی بات کرتا میری بیٹی نے مجھے دیکھتے ہی کہہ دیا کہ بابا آپ جو فیصلہ کریں گے میں اس پر آمین کروں گی اور میں جانتی ہوں آپ مجھ سے کیا بات کرنے آئے ہیں ۔ سعید نے حیرانی سے کہا کیا ....؟؟؟

 لیکن آپ کی بیٹی کو کیسے پتا چلا کہ آپ اس سے یہ بات کرنے لگے ہیں ؟؟ جلال دین نے مسکراتے ہوئے کہا اس کو بھی اسی طاقت نے بتایا جس نے خواب میں آپ کو یہاں کا راستہ بتایا ہے ۔ لیکن میں تم سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں کیا تم مجھے اس بات کا صاف صاف جواب دے سکتے ہو ؟؟ سعید نے کہا جی حضور آپ پوچھیں کیا پوچھنا ہے ؟ جلال دین نے کہا جب بھی تم نے خواب دیکھا تو کیا تم نے اس میں نظر آنے والی لڑکی کا چہرہ دیکھا تھا جو کہ میری بیٹی سے تھوڑا بہت بھی مشابہت رکھتا ہو ؟؟ سعید نے کہا جی نہیں حضور کیونکہ اس کے چہرے پر روشنی ہی اتنی ہوتی ہے کہ میں اس کا چہرہ نہیں دیکھ پاتا بس اس کی باقی جسامت کو دیکھا تھا جو کہ ہوبہو ساری آپ کی بیٹی سے میل کھاتی ہے اور اسی نے مجھے اس جگہ کے بارے میں بتایا تھا ۔ سعید کی یہ بات سنتے ہی جلال دین نے کہا تو پھر ٹھیک ہے آپ میری بیٹی سے کب نکاح کرنا چاہتے ہیں؟؟

 کیونکہ یہ شادی بالکل سادگی سے ہو گی ۔ بس یوں سمجھ لو کہ میں اس طاقت کے آڑے نہیں آنا چاہتا ورنہ اگر میں صِرف ایک باپ کی حیثیت سے سوچتا تو یقیناً آپ کو یہاں سے خالی ہاتھ جانا پڑتا کیونکہ میں نے باپ کی حیثیت سے آپ سے بہت سے ایسے سوالات کرنے تھے جن کے جوابات آپ شاید تسلی بخش نہ دے پاتے لیکن پھر بھی میں چاہتا ہو یہ معاملہ جلدی ہی نمٹ جائے ۔ تو کیا خیال ہے آپ کا ؟؟ سعید نے کہا حضرت جیسے آپ مناسب سمجھیں لیکن میں چاہتا تھا کہ آپ میرے بارے میں کسی بھی قسم کوئی بھی انکوائری کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں ۔ جلال دین نے کہا میں بے بس ہوں اس لیئے میں نے کو یہ بھی نہیں پوچھا کہ آپ میری بیٹی کو خوش رکھیں گے یا نہیں کیونکہ جو طاقت آپ کو ملا رہی ہے اب سب انکوائریاں اور جاج پڑتال میں نے اسی کے بھروسے چھوڑ دی ہے اب بس آپ مجھے بتائیں کہ آپ کب نکاح کرنا چاہتے ہیں ۔ سعید نے سر جھکائے ہوئے کہا حضرت جب آپ حکم کریں ۔ سعید کی یہ بات سن کر جلال دین پھر سے اپنی جگہ سے اٹھ کر اپنے گھر گیا اور تھوڑی ہی دیر میں واپس آگیا اس دوران جلال دین کے چہرے پر اداسی چھائی ہوئی تھی ۔ سعید نے جلال دین کی طرف دیکھتے ہوئے کہا حضرت آپ کچھ اداس دکھائی دے رہے ہیں جلال دین نے سعید کی طرف مسکرا کر دیکھا اور کہا جناب بیٹی جگر کا ٹکڑا ہوتی ہے آج اس طرح اچانک اس رخصت کرنے کی وجہ سے بس دل میں کچھ اداسی ہے باقی بیٹیاں تو پہلے دن سے ہی ہمارے پاس امانت ہوتیں ہیں اور ہمیں ان امانتوں کو باحفاظت اور باعزت ان کے حقداروں کے حوالے کرنا ہوتا ہے بس یہی ماں باپ کا فرض ہوتا ہے اور آج میں بھی اپنا فرض ادا کرنے لگا ہوں

 ابھی جلال دین یہ بات کر ہی رہا تھا کہ اتنے میں جلال دین کی بیوی نے پردے کے پیچھے سے جلال دین کو آواز دی ۔ اور جلال دین نے جلدی سے جا کر پردہ اٹھایا تو جلال کی بیوی نے کہا جناب والا آپ کی بیٹی تیار ہو گئی ہے اور آپ کے حکم کی منتظر ہے جلال دین نے کہا ہاں لے آؤ اسے اور یہ کہتے ہوئے جلال دین نے سعید کی طرف دیکھا اور جناب سعید احمد صاحب آپ بھی وضو کر لیں کیونکہ اس کے بعد ہمیں مسجد جانا ہے آپ کے نکاح کے لیئے اور ہاں اگر آپ اپنے گھر والوں یاں عزیزوں کاروں میں سے کسی کو بلانا چاہتے ہیں تو بلا سکتے ہیں ۔ سعید نے کہا حضرت میرے بہن بھائی اور عزیز وغیرہ تو اسلام آباد میں رہتے ہیں لاہور میں صرف میں اور میری بیوی ہی رہتی ہے اس کے اعلاوہ ہمارا اور کوئی لاہور میں نہیں رہتا ۔ جلال دین نے کہا تو اس کا مطلب تمہاری طرف سے گواہان کا بندوست بھی مجھے ہی کرنا ہو گا ۔ سعید نے کہا جی حضرت آپ کی مہربانی ہوگی۔

 اس کے بعد جلال دین اپنی بیٹی اور سعید کو مسجد میں لے گیا اور وہاں ان دونوں کا نکاح کروا دیا اور نکاح کی ساری رسمیں ادا کیں اس کے بعد جلال دین نے سعید کو کہا دیکھیں جناب سعید صاحب آج سے آپ اسمہ کے شوہر ہیں اور آپ کو بھی پتا ہے کہ اب اسمہ کی آپ کی زندگی کیا اہمیت ہے میں آپ سے یہ نہیں کہوں گا کہ آپ اس کا خیال رکھیئے گا بس اتنا کہوں گا کہ جس طاقت نے آپ دونوں کو ملوایا ہے وہ ہر وقت آپ کے ساتھ ہی ہو گی اس وجہ سے آپ اس کو کسی بھی طرح کا کوئی دکھ تکلیف دینے سے پہلے ایک بار اس طاقت کے بارے میں سوچ لیجیئے گا ۔ سعید نے کہا حضرت میں آپ کی بات سمجھ رہا ہوں اور آپ اس کی بلکل بھی فکر مت کریں اسمہ اس گھر میں شان سے رہے گی اور میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں میں اس کو کسی بھی قسم کی تکلیف نہیں پہنچنے دونگا آپ اطمینان رکھیں سعید کی یہ بات سنتے ہی جلال دین نے بنا بولے ہی ہاں میں سر ہلا دیا ۔ اس کے بعد اسمہ اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے ملی اور پھر سعید کے ساتھ اس کی گاڑی میں بیٹھ کر چلی گئی ۔ اور سعید کے جاتے ہی جلال دین نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاتے ہوئے ان دونوں کے حق میں بہتری کے لیئے دعا کی اور پھر اپنی بیوی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا یہ ہماری بیٹی کے بارے میں کیئے گئے وعدے کو اچھے سے نہیں نبھائے گا ۔ اس کی بیوی نے کہا کیا۔۔۔۔۔؟؟؟

 تو پھر آپ نے اپنی بیٹی کا اس کے ساتھ نکاح کیوں کروایا ہم سب آپ کے اس فیصلے پر خوش نہیں تھے لیکن پھر بھی ہم میں سے کوئی بھی آپ کے فیصلے کی خلاف ورزی کرنے کی جراءت نہیں کر سکتا کیونکہ ہم سب جانتے ہیں آپ جو بھی فیصلہ کرتے ہیں وہ بلکل ٹھیک کرتے ہیں پر جب آپ جانتے تھے کہ وہ ہماری اسمہ کو خوش نہیں رکھ سکتا تو آپ نے ایسا فیصلہ کیوں کیا؟؟ جلال دین نے کہا میں اس بارے میں بلکل بے بس تھا کیونکہ اسمہ کو بھی اکثر خواب میں یہی شخص نظر آتا تھا جو کہ ایک عورت کا ہاتھ تھامے اسمہ کے سامنے آتا تھا اور خود کو اسمہ کا شو کہہ کر ہر بار میں ہمارے گھر کے دروازے پر آکر اسمہ کے سامنے گڑگڑاتا تھا اور اپنا سر زمین پر پٹخ پٹخ کر اسمہ سے مدد مانگتا تھا تبھی کہیں سے ایک فرشتہ نمودار ہوتا تھا اور وہ فرشتہ اسمہ سے کہتا تھا کہ تمہیں اپنے شوہر کی مدد کرنی ہو گی اور ساتھ ہی اسمہ کا خواب ٹوٹ جاتا تھا یہ سب مجھے اسمہ نے مجھے بہت پہلے ہی بتا دیا تھا تب میں نے اسمہ کو کہا تھا کہ جب وہ شخص آئے گا تب ہی پتا چلے گا کہ وہ کون ہے اور کیا چاہتا ہے اور آج جب وہ آگیا تو اسی لیئے اسمہ نے مجھے خود ہی کہہ دیا کہ وہ اس سے نکاح کرے گی اور اس کی مدد ضرور کرے گی ۔ اس لیئے وہ فوراً اس شخص سے نکاح کے لیئے راضی ہو گئی تھی اسی وجہ سے میں اس مسلے میں خاموش رہا ۔ لیکن میں نے اس شخص کی آنکھوں میں اسمہ کے لیئے بے قدری دیکھی ہے ۔ پر اللّٰہ سے دعا ہے کہ ہماری بیٹی اس کے ساتھ خوش رہے ۔ یہ کہتے ہوئے جلال دین اپنی فیملی کے ساتھ گھر چلا گیا ۔

اور جب سعید اسمہ کے ساتھ گھر کی طرف جا رہا تھا تو اس نے اسمہ سے کہا مجھے یقین نہیں ہو رہا کہ تم میری زندگی میں آگئ ہو اور یہ سب کچھ اتنا اچانک ہو جائے گا مجھے اس بات کا ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کیا تمہیں بھی میری طرح یہ سب بھی ایک خواب کی طرح لگ رہا ہے ؟؟۔ اسمہ نے کہا نہیں کیونکہ مجھے اس بات کا اندازہ پہلے سے تھا کیونکہ آپ میرے خواب میں اکثر آتے تھے لیکن اس وقت میں نے آپ کا چہرہ کبھی نہیں دیکھا تھا کیونکہ آپ کے چہرے پر بہت ہی زیادہ اندھیرا ہوتا تھا اس وجہ سے کبھی آپ کا چہرہ مجھے نظر ہی نہیں آیا تھا ۔ پر پھر بھی جو فرشتہ مجھے نظر آتا تھا اسی نے مجھے بتایا تھا کہ آپ میرے شوہر ہیں اور مجھے آپ کی مدد کرنی ہوگی اس وجہ سے میں نے آپ سے نکاح کرنے میں ذرا بھی دیر نہیں کی جبکہ میں آپ کو جانتی تک نہیں ہوں اور نہ ہی مجھے یہ معلوم ہے کہ آپ میرے ساتھ کیا سلوک کریں گے ۔ میں نے بس وہی کیا جیسا مجھے خواب میں حکم ملا کرتا تھا ۔ سعید نے کہا تمہارا بہت بہت شکریہ ۔ لیکن میری ایک اور بیوی بھی ہے ۔ اسمہ نے کہا میں سب جانتی ہوں کیونکہ خواب میں وہ بھی روتی ہوئی نظر آتی ہے جو آپ کی مدد کے لیئے مجھ بولتی تھی اور وہی آپ کو ہمارے دروازے پر سر پٹخنے سے روکتی تھی ۔ 

اسمہ کی یہ بات سنتے ہی سعید نے حیرت سے اسمہ کی طرف دیکھا پھر بولا مجھے یہ تو نہیں پتا تمہیں میرے بارے میں اور کیا جانتی ہو لیکن مجھ اتنا ضرور لگ رہا ہے کہ تم کوئی عام لڑکی نہیں ہو بلکہ تم نہایت ہی پاکیزہ اور دین اور دنیا کا علم رکھنے والی لڑکی ہو ۔ جس نے میری زندگی کو روشن کرنے کے لیئے اپنی خواہشات کی قربانی دے دی ہے ۔ نہیں تو میری عمر کے آدمی سے کوئی جوان لڑکی شادی تو کیا ٹھیک سے بات بھی نہیں کرنا چاہے گی الٹا مجھے زلیل اور رسوا کر دیتی ۔ اسمہ نے کہا ایسا بلکل نہیں ہے اللّٰہ نے ہر انسان کو قابلِ عزت بنایا ہے اس وجہ سے جہاں تک ہو سکے ہمیں سب کی عزت کرنی چاہیئے باقی عزت اور ذلت دینے والا اللّٰہ ہی ہے ۔ اس لیئے ہم صرف عزت دینے کی کوشش ہی کر سکتے ہیں بس ۔ اسمہ کی یہ بات سن کر سعید نے کہا اسمہ یہ بات کر کے آج تم نے میرا دل جیت لیا ہے اور میں اپنی طرف سے پوری کوشش کرونگا کہ کبھی بھی تمہیں کوئی تکلیف نہ ہو اور میں ہمیشہ تمہیں خوش رکھنے کی کوشش کرونگا ۔اتنے میں سعید اپنے گھر آگیا اور سعید نے کہا چلو اسمہ تمہارا گھر آگیا ہے اسمہ گاڑی سے اتری اور گھر کی در و دیوار کو دیکھنے لگی اور بولی یہ وہ گھر نہیں ہے جس میں ۔ میں رہوں گی ۔ سعید نے حیرت سے اسمہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ پر میں تو اسی گھر میں رہتا ہوں اور اس حساب سے یہ تمہارا ہی گھر ہے اسمہ ۔

 اسمہ نے مسکراتے ہوئے کہا چلیں دیکھ لیتے ہیں ۔ اتنے میں ثمینہ بھی لان میں آگئ اور سعید کو اسمہ کے ساتھ کھڑا دیکھ کر حیران و پریشاں ہو گی اور اک دم سے کہیں کھو گئی سعید نے مسکراتے ہوئے ثمینہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ارے کیا سوچ رہی ہو یہ وہی لڑکی ہے جس کو میں خواب میں دیکھا کرتا تھا اور اب یہ میری شریکِ حیات ہے ۔ ثمینہ سعید کی کسی بھی بات کا کوئی جواب نہیں دے رہی تھی بس وہیں کھڑے رہ کر اسمہ کی طرف آنکھیں پھاڑے دیکھ رہی تھی اور اس دوران اسمہ نظریں جھکائے سعید کے ساتھ کھڑی تھی ۔ تبھی سعید ثمینہ کی طرف بڑھا اور اس ثمینہ کی بازو کو پکڑ کر اسے ہلاتے ہوئے بولا ارے کہاں کھو گئی ہو اسے اندر نہیں لے کر جاؤ گی ؟؟ تبھی ثمینہ نے چونک کر سعید کی طرف دیکھا اور اسمہ کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے سعید سے کہا یہ۔۔۔۔۔۔ یہ ۔۔۔ تو ۔۔۔ یہ تو وہی ہے ۔۔ ہاں وہی ہے یہ ۔۔۔ میں نے اسے دیکھا تھا یہ وہی ہے ۔۔

 سعید نے مسکراتے ہوئے اسمہ کی طرف دیکھا اور پھر ثمینہ کی طرف دیکھتے ہوئے اپنا سر ہاں میں ہلا دیا پھر ثمینہ اسمہ کی طرف بڑھی اور اس کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے بولی ہاں تم وہی ہو نا ؟؟ جس کو میں نے خواب میں دیکھا تھا ؟؟ اس دوران اسمہ مسکراتے ہوئے سمینہ کی طرف دیکھ رہی تھی ۔ ثمینہ نے اسمہ کا ہاتھ پکڑا اور اسے بولی خوش آمدید۔۔۔ آؤ آؤ میرے ساتھ چلو اور یہ کہتے ہوئے اسمہ کو گھر کے اندر لے گئ اور پھر سعید نے ثمینہ کو اسمہ کے گھر جانے سے نکاح تک سارا واقع بتایا تو ثمینہ نے اسمہ کو گلے سے لگا لیا اور بولی شکریہ ہماری مدد کرنے کے لیئے دیکھو اس گھر میں سب کچھ ہے پر پھر بھی وہ خوشی نہیں ہے جو صرف تم دے سکتی ہو اگر تم نہ آتی تو ہم تو مایوس ہو چکے تھے۔ شکریہ اسمہ۔۔۔ شکریہ اور یہ کہتے ہوئے ثمینہ اسمہ کے ہاتھوں کو چومنے لگی ۔ اسمہ نے کہا خوشیاں اور غم اللّٰہ کی طرف سے ملتے ہیں اور ہمیں ہر پل اللّٰہ کا شکر ہی ادا کرنا چاہیئے اور ہمیں کبھی بھی اس کی ذات سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ اللّٰہ ہر پل میں ہمارے ساتھ ہوتا ہے بس وہ تبھی اپنے بندوں کو آزماتا ہے جب اسے اپنے بندوں پر زیادہ پیار آتا ہے اور اس لیئے ہمیں کسی بھی مشکل میں اللّٰہ کی ذات سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے ۔

 بلکہ ہمیں اللّٰہ سے دعا کرنی چاہیئے کہ اے اللّٰہ میں (جانتا/جانتی) ہوں کہ یہ تیری طرف سے میرے لیئے آزمائش کا وقت ہے اور میں اس آزمائش پر پورا اترنا (چاہتا/چاہتی) ہوں اور میں تجھ سے اس آزمائش پر پورا اترنے کی ہمت اور طاقت اور حوصلہ چاہتا ہوں تو میری مدد فرما میرے اللّٰہ میں کبھی بھی تیری ذات سے مایوس نہیں ہوا کیونکہ میں جانتا ہوں تو ہر پل میرے ساتھ ہے اور تو ہی میرے لیئے بہتر مددگار ہے میری مدد فرما میرے اللّٰہ میری مدد فرما۔۔۔۔ آمین ۔ کیونکہ ہماری ہر مشکل کو اللّٰہ ہی آسان کرتا ہے تو اس وجہ سے کبھی بھی کوئی مشکل آئے تو اللّٰہ سے یہی دعا کرنی چاہیئے ۔ اسمہ کی یہ بات سن کر سعید اور ثمینہ دونوں کی آنکھوں میں آنسوں آگئے ۔ اور دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے تبھی اسمہ نے کہا آپ لوگ رو کیوں رہے ہیں ۔ ثمینہ نے کہا دراصل ہم دونوں ہی اپنی سوچ کی وجہ سے بہت شرمندہ ہیں کیونکہ ہم دونوں نے ہی مایوسی جیسا گناہ کیا تھا اس لیئے ہمیں اب دکھ ہو رہا ہے ۔ اسمہ نے کہا کوئی بات نہیں آپ لوگ اللّٰہ سے معافی مانگ لیں اور وہ آپ کو معاف فرما دے گا کیونکہ آپ لوگوں کی آنکھوں میں پچھتاوے کے آنسوں ہیں اس وجہ سے اللّٰہ آپ کی حالت کو بہتر سمجھتے ہوئے آپ کو معاف کر دے گا ۔

 اسمہ کی یہ بات سن کر ثمینہ نے اسمہ کے ہاتھ پکڑ کر چومے اور بولی اسمہ تم نہایت ہی قابل تعریف اور سمجھدار لڑکی ہو اور ہمیں خوشی ہے کہ اب تم ہمارے ساتھ ہی رہنے والی ہو ۔ اسمہ نے کہا پر مجھے پتا نہیں کیوں لگ رہا ہے جیسے میں اس گھر میں نہیں رہوں گی ہو سکتا ہے آپ لوگ مجھے اس گھر میں نہ رکھیں ۔ ثمینہ نے کہا ارے ایسی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ اس گھر جتنے ہم مالک ہیں اتنی ہی تم بھی ہو کیونکہ اب تم بھی اس گھر کا ایک فرد ہو ۔ اسمہ نے کہا چلیں دیکھیں گے کیونکہ مجھے تو خواب میں کوئی اور ہی گھر نظر آتا تھا جس میں مجھے رہنا ہے ۔ سعید نے حیرانی سے اسمہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ارے اسمہ ایسا کچھ نہیں ہے اور اب تم اسی گھر میں ہمارے ساتھ رہنے والی ہو اور ہم سب اسی گھر میں رہیں گے تم دیکھنا ۔ اسمہ نے کہا ٹھیک ہے ۔ اس کے بعد ثمینہ نے سب کے لیئے کھانا تیار کیا اور سب نے مل کر کھانا کھایا اور پھر سعید نے اپنے رشتے داروں کو فون کر کے اپنے نئے نکاح کے بارے میں بتایا اور انہیں ولیمے کی دعوت دی اس کے بعد سعید نے جلال دین اور اس کی فیملی کو بھی ولیمے کی دعوت دی پھر ثمینہ نے اسمہ سے اس کے رشتے داروں وغیرہ کے بارے میں بات چیت کی پھر اسمہ کو گھر کے بارے میں بتایا اور پھر ادھر اُدھر کی باتیں کرکے گپ شپ کی از کے بعد سب نے رات کا کھانا کھایا پھر ثمینہ نے سعید اور اسمہ کو کہا اب آپ لوگ اپنے کمرے میں جائیں اور آرام کر لیں باقی باتیں کل کریں گے ۔

 یہ کہتے ہوئے ثمینہ اپنے ایک کمرے میں چلی گئی اور سعید اسمہ کے رات اپنے کمرے میں چلا گیا ۔ اگلے دن سعید نے اپنی دونوں بیویوں کے ساتھ ناشتہ کیا اور اسی دوران سعید نے ثمینہ سے کہا ہم کل سب رشتے داروں اور آفس کے دوستوں کی دعوت ولیمہ کریں گے امید ہے کل تک سبھی لوگ دعوت ولیمہ میں شریک ہو جائیں گے ۔ ثمینہ نے کہا جی یہ بہت اچھا کیا جو آپ نے سب کو دعوت میں بلایا ہے اسی بہانے اسمہ کی آپ کے باقی رشتے داروں سے بھی جان پہچان ہو جائے گی ۔ یہ کہتے ہوئے ثمینہ نے اسمہ کی طرف منہ کر کے کہا کیوں اسمہ ٹھیک ہے نا ؟؟ اسمہ نے بنا بولے ہی ہاں میں سر ہلا دیا ۔ اس کے بعد سعید اپنے آفس کے لیئے چلا گیا اور اسمہ ثمینہ کے ساتھ باتیں کرنے لگی پھر کچھ دیر گپ شپ کرنے کے بعد ثمینہ نے اسمہ سے کہا اب تم آرام کرو تب تک میں گھر کے باقی کام کر لیتی ہوں ۔ اسمہ نے کہا چلیں میں بھی آپ کے ساتھ کام کرتی ہوں ثمینہ نے کہا ارے نہیں میں کر لوں گی تم تو ابھی نئ نویلی دلہن ہو بھلا میں تمہیں کیسے کام کرنے دے سکتی ہوں ۔ اسمہ نے کہا نہیں نہیں کوئی بات نہیں ویسے بھی آگے آگے میں نے ہی اس گھر کے کام کرنے ہیں اس وجہ سے کوئی فرق نہیں پڑتا ثمینہ نے کہا ارے یہ تم کیا کہہ رہی ہو ؟ بھلا ہم تم سے کام کیوں کرائیں گے ؟؟

 میں ہوں نا کام کرنے کے لیئے تم بس اپنی صحت کا خیال رکھنا تاکہ جلدی ہی تم ہمیں وہ خوشی دے سکو جس کہ لیئے ہم بہت بے قرار ہیں ۔ ثمینہ کی یہ بات سن کر مسکرانے لگی اور بولی ثمینہ آپی وہ ٹائم جب ائے گا تب دیکھیں گے ابھی تو مجھے آپ کی مدد کرنے دیں کیونکہ ایسے تو میں بہت بور ہو جاؤں گی میں آپ سے التجاء کرتی ہو مجھے کچھ تو کام کرنے دیں ؟ ثمینہ نے کہا اچھا ٹھیک ہے میں تمہیں برتن دھو کر دیتی ہوں تم انہیں واپس الماری میں رکھتے جانا ٹھیک ہے ؟ اسمہ کہا جی ٹھیک ہے بہت بہت شکریہ ۔ اس کے بعد ثمینہ اور اسمہ گھر کے کاموں میں مصروف ہو گئے پھر شام کو سعید گھر آیا تو اس نے اپنی دونوں بیویوں کو بتایا کہ میں نے آفس کے تمام دوستوں کو بھی ولیمے کی دعوت دے دی ہے اور وہ سب لوگ کل دعوتِ ولیمہ میں شرکت کریں گے اور اس کے ساتھ میں نے ایک شادی ہال بھی بک کروا لیا ہے جہاں ہم اپنی دعوت ولیمہ کریں گے کیونکہ آفس کے ہی چالیس سے پچاس لوگ ہو جائیں گے پھر ہمارے اور اسمہ کے رشتے دار وغیرہ بھی آئیں گے اس وجہ سے میں نے اچھا بندوبست کر لیا ہے جس پر ثمینہ نے کہا چلو یہ کام بھی اچھا ہو گیا اب کل میں اسمہ کو پارلر سے تیار کروا کر دعوت میں لے کر جاؤں گی کیونکہ اس کی شادی بھلے ہی دھوم دھام سے نہ ہوئی لیکن اس کا ولیمہ پوری طرح دھوم دھام سے ہو گا جس پر سعید نے کہا ہاں ہاں کیوں نہیں اسی لیئے تو کم وقت میں تمام انتظامات مکمل کر لیئے ہیں میں نے اس کے بعد سب نے کھانا کھایا اور پھر سعید اور اسمہ حسب معمول اپنے کمرے میں چلے گئے 

اور ثمینہ اپنے کمرے میں جا کر سو گئی ۔ پھر اگلے دن سب لوگ ولیمے کے لیئے تیار ہو کر شادی ہال میں چلے گئے اس اس دن اسمہ واقعی میں بہت حسین لگ رہی تھی وہ بھی ایسے کہ جو بھی اس کو دیکھتا وہ دیکھتا ہی رہ جاتا اس دوران تقریباً سعید کے تمام رشتے داروں اور آفس کے تمام لوگ جو اپنی فیملیز کے ساتھ دعوتِ ولیمہ پر آئے تھے ان تمام لوگوں نے اسمہ کی تعریفوں کے پل باندھ دیئے اور سعید کی خوش قسمتی پر سعید کو بہت مبارکباد دی اس کے ساتھ سب نے اسمہ کو بہت سے تحائف اور دعائیں بھی دیں یوں سمجھ لو کہ اس دن ہر بندہ بہت خوش تھا اک سوائے ثمینہ کے۔ کیونکہ اس دوران ثمینہ افسردہ سا ہو کر جھوٹی مسکراہٹ اپنے چہرے پر سجائے ایک کونے میں بیٹھی رہی سب کو دیکھ رہی تھی کیونکہ ثمینہ کو سعید کے رشتے داروں میں زیادہ تر لوگ پسند نہیں کرتے تھے اس کی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ ثمینہ سعید کو وہ خوشی نہیں دے پائی جس کے لیئے سعید کو دوسری شادی کرنی پڑی کیونکہ ثمینہ ماں نہیں بن سکتی تھی اس وجہ سے سعید کے رشتے دار بہت پہلے بھی سعید کو دوسری شادی کا مشورہ دے چکے تھے جس پر ثمینہ ان رشتے داروں کو برا بھلا بول کر ناراض ہو جاتی تھی اور کسی رشتے دار کو برداشت نہیں کرتی تھی اور آج سعید کی دعوتِ ولیمہ پر بھی کچھ رشتے دار نے ثمینہ کو طرح طرح کے طنز کیئے جن کو ثمینہ نے اپنی جھوٹی ہنسی کے ساتھ مسکراتے ہوئے رفعہ دفعہ کیا ۔

 کیونکہ ثمینہ سب کچھ برداشت کر رہی تھی لیکن اس سے اسمہ کی جو تعریف ہو رہی تھی وہ برداشت نہیں ہو رہی تھی کیونکہ ایک تو اسمہ پہلے ہی بہت خوبصورت تھی اس کے بعد بیوٹی پارلر والوں نے بھی اس کو ایسا تیار کر دیا تھا کہ اسمہ واقعی میں چاند کا ٹکڑا لگ رہی تھی جو کہ ثمینہ سے برداشت نہیں ہو رہا تھا اوپر سے سعید کی آنکھیں تو اسمہ پر سے ہٹ ہی نہیں رہیں تھیں اور یہ سب اب ثمینہ کی برداشت سے باہر ہو رہا تھا اس لیئے ثمینہ خاموشی سے بنا کسی کو بتائے شادی ہال سے گھر چلی گئی اور جب ولیمے کی تقریب ختم ہوئی اور آہستہ آہستہ سب لوگ وہاں سے جانے لگے تو سعید نے سمینہ کو ڈھونڈنے کی کوشش کی تو سمینہ پورے ہال میں کہیں نظر نہیں آئی تو سعید اچانک سے پریشان ہو گیا اس دوران سعید نے بہت بار ثمینہ کو فون بھی کیا پر ثمینہ سعید کی کال نہیں اٹھا رہی تھی ۔ سعید نے ادھر اُدھر جاتے ہوئے ہال میں موجود کچھ لوگوں سے ثمینہ کے بارے میں پوچھا تو کسی کو کچھ پتا نہیں تھا کہ ثمینہ کہاں ہے ۔

 تبھی شادی ہال کے کسی ایک ویٹر نے سعید کو بتا کہ ان کے ساتھ جو عورت آئی تھی وہ کچھ دیر پہلے رکشہ میں بیٹھ کر کہیں چلی گئی ہے کیونکہ اس عورت کو رکشہ اس ویٹر نے ہی لا کر دیا تھا۔ ویٹر کی یہ بات سن کر سعید حیران ہو گیا پھر سعید نے ویٹر کا شکریہ اور ہال میں باقی رشتے داروں اور دوستوں رخصت کر کے سعید نے اسمہ گاڑی میں بیٹھایا اور گھر کی طرف نکل پڑا راستے میں سعید نے اسمہ کو کہا یار یہ ثمینہ نے آج تو بہت عجیب سی حرکت کی ہے بھلا مجھے بنا بتاۓ ایسے کیسے کہاں چلی گئی ہے اور اوپر سے میرا فون بھی نہیں اٹھا رہی ۔ اسمہ نے کہا آپ پریشان مت ہوں وہ گھر ہی چلی گئیں ہونگی ہو سکتا ہے ان کی طبیعت ٹھیک نہ ہو ؟؟ سعید نے کہا پر اگر ایسا بھی ہے تو کم از کم اسے مجھے بتا کر تو جانا چاہیئے تھا حد ہے ویسے ۔

بغص کی آگ (قسط نمبر 3)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے