بغض کی آگ - تیسرا حصہ

 urdu stories

 Sublimegate Urdu Stories

بغض کی آگ - تیسرا حصہ


یہ کہتے ہوئے سعید نے زور سے اپنا ہاتھ گاڑی کے سٹیرنگ پر مارا اور غصے سے گاڑی چلانے لگا ۔ یہ دیکھتے ہوئے اسمہ نے کہا دیکھیں آپ غصہ مت ہوں انشاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا آپ ایک بار گھر جا کر ان سے بات تو کر لیں ۔ سعید نے پھر ایک لمبی سانس لیتے ہوئے کہا ہاں ۔۔۔ دیکھتا ہوں پر مجھے اس کی یہ حرکت بالکل پسند نہیں آئی بھلا ایسے بھی کوئی کرتا ہے ؟؟ اسمہ نے کہا ہو سکتا ہے وہ آپ کو تقریب میں مصروف دیکھ کر آپ کو پریشان نہ کرنا چاہتی ہوں اس لیئے انہوں نے آپ کی خوشی میں رکاوٹ نہیں ڈالی اور وہ خود ہی گھر چلی گئیں ہیں ۔ سعید نے اسمہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ہاں یہ بھی ہو سکتا ہے اور ویسے بھی میرے رشتے داروں سے بھی اس کی کم ہی بنتی ہے شاید اس وجہ سے بھی وہ کسی سے ناراض ہو کر چلی گئی ہو گی ۔ 

اسمہ نے حیرانی سے سعید کی طرف دیکھتے ہوئے کہا آپ کے رشتے داروں کی ثمینہ آپی سے کیوں نہیں بنتی سعید نے مسکراتے ہوئے کہا پتا نہیں بس میرے رشتے دار اس کو بانجھ سمجھتے ہیں اس وجہ سے وہ ثمینہ کو کچھ خاص پسند نہیں کرتے اور ثمینہ بھی ان لوگوں سے بات نہیں کرتی میں نے بہت بار یہ معاملہ سلجھانے کی کوشش کی ہے لیکن ہر بار میں ناکام رہتا ہوں کیونکہ نہ تو میرے بھائی بھابیاں اس سے صلح کرنے پر راضی ہوتے ہیں نا ہی ثمینہ ان سے تمیز سے بات کرتی ہے اس وجہ سے اب میں کسی کو کچھ نہیں سمجھاتا کیونکہ اگر میں اپنے رشتے داروں کو سمجھاتا ہوں تو وہ بولتے ہیں کہ میں ثمینہ کی سائیڈ لے رہا ہوں اور اگر ثمینہ کو کچھ کہتا ہوں تو یہ بولتی ہے تمہیں صرف اپنے بھائی بھابیاں ہی عزیز ہیں اس لیئے تم مجھے باتیں سنا رہے ہو ۔ تو میں اس دن کے بعد اس معاملے سے باہر آگیا ہوں ۔ 

اسمہ نے کہا آپ کے ماں باپ اس معاملے میں کسی کو نہیں سمجھا سکتے ؟؟ جس پر سعید نے مسکراتے ہوئے کہا وہ تو بہت پہلے ہی اس دنیا سے جا چکے اگر ہوتے تو آج دعوت میں شریک نا ہوتے ؟؟ سعید کی یہ بات سن کر اسمہ نے کہا مجھے معاف کر دیں مجھے اس بارے میں پتا نہیں تھا اور نہ ہی مجھے اس بارے میں ثمینہ آپی نے کچھ بتایا تھا ۔ سعید نے کہا کوئی بات نہیں ۔ بس میرے تین بھائی ہیں ایک بہن ہے ایک چچا ہیں ایک پھپھو ہیں کچھ کزن وغیرہ تھے جن سے تم آج مل چکی ہو باقی تو میرا کوئی خاص رشتے دار نہیں ہے ۔

 اتنے میں سعید اور اسمہ گھر پہنچ گئے اور گھر جاتے ہی سعید نے دیکھا تو ثمینہ سوفے پر بیٹھی چائے پی رہی تھی سعید نے کہا ارے تم یہاں ہو اور میں تمہیں ہال میں ڈھونڈ رہا تھا اور تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ تم گھر جا رہی ہو ؟؟ آخر اتنی بھی کیا جلدی تھی تمہیں گھر آنے کی ؟؟ ثمینہ نے کہا کچھ نہیں ہوا بس اچانک میری طبیعت خراب ہو گئی تھی اس وجہ سے میں نے آپ لوگوں کو پریشان کرنا مناسب نہیں سمجھا کیونکہ خوشی کا موقع تھا تو ایسے میں اگر میں آپ سے یہ کہتی کہ میری طبیعت خراب ہے تو آپ سے پہلے آپ کے بھائی بھابیوں نے مجھے کہنا تھا کہ میں ڈرامہ کر رہی ہوں اور دعوت خراب کرنے کی کوشش کر رہی ہوں ۔ اس وجہ سے میں نے یہی مناسب سمجھا کہ میں اکیلی ہی وہاں سے آجاؤں ۔ ثمینہ کی یہ بات سن کر سعید کچھ دیر تک اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھ کے ادھر اُدھر دیکھنے لگا اور پھر ثمینہ کی طرف دیکھ کر بولا اچھا ٹھیک ہے پر تم مجھے فون پر ہی بتا دیتی تو میں اتنا پریشان نہ ہوتا لیکن تم نے میرا فون بھی نہیں اٹھایا؟؟ ۔

 ثمینہ نے کہا دراصل میری طبیعت اس قدر خراب تھی کہ مجھے پتا ہی نہیں چلا کہ فون آرہا ہے کیونکہ میرا فون غلطی سے (سائیلنٹ) پر لگ گیا تھا اور فون میرے بیگ میں تھا آپ چاہیں تو دیکھ لیں اب بھی بیگ میں ہی ہو گا ہے جبکہ میں جلدی سے گھر آئی اور چائے کے ساتھ سر در کی گولی کھا کر بیٹھی ہوئی ہوں اب بھی میرے سر میں بہت درد ہو رہا ہے یہ کہتے ہوئے ثمینہ اپنے سر کو پکڑ کر عجیب عجیب سے منہ بنانے لگی ۔

 تبھی سعید نے کہا چلو میں تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے چلتا ہوں ثمینہ نے کہا نہیں میں ٹھیک ہو جاؤں گی ویسے بھی مجھے اب یہ سب کچھ اکیلے ہی برداشت کرنا پڑے گا۔ آپ جائیں اپنے کمرے میں آرام کریں اور یہ اپنی حور پری کو بھی ساتھ لے جائیں ویسے بھی یہ آج بہت خوش ہو گی کیونکہ آج آپ کے سب رشتے داروں نے اس کی بہت تعریفیں کی ہیں۔ میرا کیا ہے میں تو اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ۔ ثمینہ کی یہ بات سن کر اسمہ نے کہا ثمینہ آپی یہ آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں بھلا آپ کو کون کہتا ہے کہ آپ خوبصورت نہیں جبکہ آپ تو بہت خوبصورت چہرے والی اور دل کی بہت اچھی ہیں ۔ابھی اسمہ یہ بات کر ہی رہی تھی کہ ثمینہ نے اسمہ کو کہا بس بس اب رہنے دو میری اتنی جھوٹی تعریف مت کرو اور اپنے شوہر کو کمرے میں لے جاؤ کیونکہ اب تو یہ میرا کم اور تمہارا شوہر زیادہ ہے ۔ ثمینہ کی یہ بات سن کر سعید نے کہا ارے ثمینہ یہ اچانک کیا ہو گیا ہے تمہیں ؟؟

 تم اسمہ سے طنزیہ انداز میں بات کیوں کر رہی ہو ؟؟ اس بیچاری نے تو تمہیں کچھ بھی نہیں کہا . پھر تم اس سے ایسے بات کیوں کر رہی ہو ؟ جبکہ آج تو تم خود ہی اس کو پارلر سے تیار کروا کر ہال میں لائی تھی پھر اچانک یہ سب باتیں کیوں کر رہی ہو ؟؟ ثمینہ نے اسمہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔ یہ دیکھ رہی ہو جادوگر حسینہ ؟؟ یہ میرا شوہر آج تمہارے لیئے مجھے ہی باتیں سنا رہا ہے اس کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ میں نے تمہیں اپنی سوتن نہیں بلکہ اپنی بہن ہی سمجھا ہے پھر بھی یہ تمہارے لیئے آج مجھے برا بھلا بول رہا ہے ۔

 اسمہ نے کہا نہیں ثمینہ آپی ایسی کوئی بات نہیں یہ پہلے آپ ہی کے شوہر ہیں پھر میرے ہیں اس لیئے ان پر آپ ہی کا زیادہ حق ہے اور یہ آپ سے بہت پیار کرتے ہیں اسی لیئے تو جب آپ ان کو ہال میں نظر نہیں آئی تھیں تو یہ بہت پریشان ہو گئے تھے شاید اس وجہ سے ان کا موڈ کچھ خراب ہے جو یہ آپ سے تھوڑا تلخ مجازی سے بات کر رہے ہیں لیکن یہ بھی صرف ان کا پیار ہی ہے اور کچھ نہیں ۔ ابھی اسمہ یہ بات کر ہی رہی تھی کہ ثمینہ نے اسمہ کی بات کاٹتے ہوئے کہا بس بس مجھے اور کوئی صفائیاں دینے کی ضرورت نہیں ہے میں سب جانتی ہوں تمہیں بھی اور اپنے شوہر کو بھی آج تو اس کی نظر تم پر سے ہٹ ہی نہیں رہی تھی تبھی تو اس شخص نے ایک بار بھی مجھے نہیں دیکھا جبکہ تمہارے ساتھ میں بھی تیار ہو کر گئی تھی لیکن مجال ہے کہ اس شخص نے ایک بار بھی میری جھوٹی تعریف بھی کی ہو یہ تو بس تم میں ہی کھویا ہوا تھا اور باقی لوگ بھی صرف تمہاری خوبصورتی کے ہی گن گا رہے تھے ۔ پہلے تو میں تمہیں معصوم سمجھتی تھی لیکن تم تو واقعی میں ایک جادوگرنی ہو جو ہر انسان کو اپنے جادو کے ذریعے اپنے بس میں کر لیتی ہو۔ اسی لیئے تو پہلے تم نے میرے شوہر کے خواب میں آکر اس کو اپنا دیوانہ بنا دیا پھر میرے خواب میں آکر مجھے میرے شوہر کی دوسری شادی کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا اور آج میرے شوہر کے ان تمام رشتے داروں کو بھی اپنے جادو کہ ذریعے اپنے بس میں کر لیا جو کہ کبھی مجھ سے سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتے تھے آج وہ بھی صرف تمہاری ہی تعریفوں کے پل باندھ رہے تھے اور میں جان چکی ہوں یہ سب تم صرف اپنے جادو کے ذریعے ہی کر رہی تھی کیونکہ تمہارے والد کسی دربار کے گدی نشین ہیں اور وہی تعویذ دھاگوں سے الٹے سیدھے جادو کرتے ہونگے اور مجھے یقین ہے کہ انہوں نے ہی تمہیں یہ جادو سکھایا ہو گا لیکن اب یہ جادو مجھ پر مزید نہیں چل سکتا کیونکہ میں تمہیں جان چکی ہوں تم کوئی عام لڑکی نہیں ہو ۔

 اس دوران سعید نے غصے سے ثمینہ کو کچھ کہنا چاہا لیکن اسمہ نے سعید کا ہاتھ دبائے رکھا اور اسے اشارے سے چپ رہنے کو کہا۔ اور ثمینہ اسمہ کی برائیاں کرتی چلی گئی ۔ پھر اسمہ نے ثمینہ کی طرف بڑھتے ہوئے کہا ثمینہ آپی آپ مجھے جو چاہیں کہہ دیں مگر خدا کے لیئے میرے والد پر کوئی الزام مت لگائیں ان بیچاروں نے آپ کا کیا بگاڑا ہے ؟؟ ابھی اسمہ یہ بات کر ہی رہی تھی کہ ثمینہ نے پھر سے اسمہ کی بات کاٹتے ہوئے کہا بس کرو اب میرا مزید اور دماغ خراب مت کرو اس سے پہلے میں تمہیں کچھ کر دوں تم اپنے شوہر کے ساتھ میری نظروں سے دور ہو جاؤ ۔۔۔ جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ثمینہ کی یہ بات سن کر اسمہ کی آنکھوں میں آنسوں آگئے جسے دیکھ کر سعید اگ بگولہ ہو گیا اور اس نے ثمینہ کو کھری کھری سنا دیں اور اسمہ کو ساتھ لے کر اپنے کمرے میں چلا گیا اور ثمینہ منہ پھلائے وہیں بیٹھی رہی اور کچھ دیر کے بعد رونے لگی ۔

 سعید نے اسمہ سے ثمینہ کے اس رویئے پر معافی مانگی تو اسمہ نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا دیکھیں آپ مجھ سے معافی مت مانگیں بس مجھے یہ سمجھ نہیں آرہا کہ اچانک ثمینہ آپی کو کیا ہو گیا ہے وہ تو ایسی نہیں تھیں ۔ سعید نے کہا کیا پتا کیا ہوا ہے اسے ۔ میں تو خود حیران ہوں اس کے اس رویئے پر ۔ یاں شاید دعوت میں کسی رشتے دار نے اس کو کچھ بول دیا ہو گا جس سے وہ غصے میں آکر بہکی بہکی باتیں کر رہی ہے اللّٰہ جانے کیا ہوا ہے اسے۔۔۔ یہ کہتے ہوئے سعید اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو پکڑ کر بیٹھ گیا تبھی اسمہ نے کہا چھوڑے آپ پریشان مت ہوں سب ٹھیک ہو جائے گا اب آپ آرام کریں ورنہ آپ کی طبیعت خراب ہو جائے گی سعید نے ایک لمبی سانس لیتے ہوئے کہا ہاں شاید تم ٹھیک کہہ رہی ہو چلو سو جاتے ہیں۔ اس کے بعد سعید اور اسمہ سو گئے ۔۔۔

 اگلے دن سعید اور اسمہ اپنے کمرے سے کچن کی طرف آئے تو دیکھا کہ ثمینہ نے پہلے سے ہی ناشتہ تیار رکھا تھا اور وہ ان کے انتظار میں ناشتے کی ٹیبل پر بیٹھی ہوئی تھی ۔ یہ دیکھ کر سعید اور اسمہ بہت حیران ہوئے اور دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے پھر ثمینہ کی طرف حیرت سے دیکھنے لگے تبھی ثمینہ نے مسکراتے ہوئے کہا آپ لوگ مجھے ایسے کیا دیکھ رہے ہیں چلیں ناشتہ کر لیں ۔ سعید نے کہا تم تو ناراض تھی نا ؟؟ ثمینہ نے کہا جی میں ناراض تھی پر مجھے بعد میں احساس ہوا کہ میں غلطی پر تھی اور میں نے گزشتہ رات آپ دونوں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا تھا خاص کر اسمہ کے ساتھ اس لیئے میں پوری رات ٹھیک سے سو نہیں پائی اور میں تو رات کو ہی آپ دونوں سے معافی مانگنے آرہی تھی پھر میں نے سوچا آپ لوگ آرام کر رہے ہونگے اس لیئے میں صبح ہونے کا انتظار کر رہی تھی تاکہ آپ دونوں سے اپنے کیئے پر معافی مانگ سکوں دراصل دعوت ولیمہ میں آپ کے کچھ رشتے داروں کی باتوں نے اچانک میرا دماغ خراب کر دیا تھا اس وجہ سے میں غصے سے گھر آگئ تھی اور مجھے اسمہ سے جلن ہونے لگی تھی اس وجہ سے مجھے غصے میں پتا ہی نہیں چل رہا تھا کہ میں کس سے کیا کہہ رہی ہوں تو میری آپ دونوں سے گزارش ہے کہ آپ لوگ اسے میری نادانی سمجھ کر مجھے معاف کر دیں میں آپ سے وعدہ کرتی ہوں دوبارہ میں ایسی غلطی کبھی نہیں کروں گی ۔ ابھی ثمینہ یہ بات کر کے اپنے ہاتھ اسمہ اور سعید کے سامنے جوڑنے ہی والی تھی کہ اسمہ نے جلدی سے ثمینہ کی طرف بڑھتے ہوئے اسے گلے سے لگا لیا اور بولی نہیں نہیں ثمینہ آپی آپ کو معافی مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں میں سمجھ سکتی ہوں اور میرے دل میں آپ کے لیئے ذرا بھی رنجش نہیں ہے یہ کہتے ہوئے اسمہ کی آنکھوں میں آنسوں آگئے ۔ یہ دیکھتے ہوئے سعید بھی مسکراتے ہوئے بولا ارے اب تم دونوں یہ سیڈ سین ختم کرو اب سے کوئی آنسو نہیں بہائے گا اور چلو سب مل کر ناشتہ کرتے ہیں اور شام کو تم دونوں تیار رہنا ہم سب رات کا کھانا باہر کھائیں گے ۔ یہ سنتے ہی اسمہ نے ثمینہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ والی کرسی پر بیھٹا لیا اور بولی آج میں اپنی ثمینہ آپی کو اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاؤں گی جس پر ثمینہ نے مسکراتے ہوئے کہا ارے میں کھا لوں گی تم آرام سے ناشتہ کرو اسمہ نے کھانے کا ایک نوالہ ثمینہ کے منہ میں ڈالتے ہوئے کہا اچھا پہلے آپ یہ کھائیں پھر میں کھاؤں گی یہ کہتے ہوئے اسمہ نے وہ نوالہ ثمینہ کو کھلا دیا یہ دیکھتے ہوئے سعید من ہی من بہت خوش ہو رہا تھا تبھی سعید نے کہا اب مجھے کون کھلائے گا تو اسمہ نے ثمینہ کو کہا چلیں آپی اب آپ ان کو کھانا کھلائیں ۔ ثمینہ نے کہا ارے ان کو بھی تم ہی کھلا دو ۔ اسمہ نے کہا نہیں ان پر پہلا حق آپ کا ہے اس لیئے پہلے آپ کھلائیں ۔ جس پر ثمینہ نے مسکراتے ہوئے کہا ارے اچھا اچھا ٹھیک ہے میں کھلا دیتی ہوں یہ کہتے ہوئے ثمینہ نے بھی کھانے کا ایک نوالہ پکڑ کر سعید کو کھلا دیا اور اسمہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولی یہ لو اب ٹھیک ہے ؟؟

 اب تم کھلاؤ جس پر سعید نے کہا ارے نہیں نہیں بس اب سب ناشتہ کرتے ہیں مجھے آفس کے لیئے دیر ہو رہی ہے ۔ ورنہ میں تم دونوں کے ہاتھوں سے کھانے کا لطف اٹھاتا کیونکہ آج تم دونوں میں اتنا پیار دیکھ کر دل بہت خوش ہو رہا ہے میری آدھا پیٹ تو یہ دیکھ کر ہی بھر گیا چلو اب ناشتہ کرتے ہیں اس کے بعد سب نے ناشتہ کیا اور سعید نے آفس جاتے ہوئے دونوں بیویوں سے کہا شام کو تیار رہنا میں لینے آؤں گا تو ریڈی رہنا تم لوگ ۔ جس پر ثمینہ نے کہا جی جی ٹھیک ہے اب آپ جائیں اور سعید جاتے ہوئے اچانک واپس پلٹا ہو پہلے ثمینہ کا ماتھا چوما پھر بعد میں اسمہ کے ماتھے کو چوم کر مسکراتا ہوا آفس چلا گیا ۔ سعید کے جاتے ہی ثمینہ اور اسمہ گھر کے کاموں میں مصروف ہو گئے اتنے میں ثمینہ کسی کو فون کرنے لگی اور فون کرتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی اس دوران اسمہ کاموں میں لگی رہی تبھی کچھ دیر کے بعد گیٹ پر لگی گھنٹی اسمہ نے باہر جا کر گیٹ کھولا تو ایک عورت گیٹ پر کھڑی تھی اور جیسے ہی اس عورت نے اسمہ کو دیکھا تو وہ اسمہ کو دیکھتے ہی رہ گئی تبھی اسمہ نے اس عورت سے کہا جی آپ کون ہیں ؟؟

 لیکن وہ عورت بنا بولے اسمہ کو گھورے جا رہی تھی پھر اسمہ نے دوبارہ اس عورت سے پوچھا آپ کون ہیں یہ کہتے ہوئے اسمہ نے اپنا ہاتھ اس عورت کی آنکھوں کے سامنے ہلایا جس پر اس عورت نے چونک کر کہا ہاں۔۔۔ ہاں ۔۔ وہ ۔۔ وہ ثمینہ باجی کہاں ہیں میں ان کی دوست ہوں ۔ اتنے میں ثمینہ بھی باہر لاؤن میں آگئ اور اس نے اسمہ سے پوچھا کون ہے باہر ؟؟ اتنے میں اسمہ نے اس عورت کو اندر بلاتے ہوئے کہا اندر آجائیں وہ ہیں ثمینہ آپی یہ کہتے ہوئے اسمہ نے ثمینہ کی طرف اشارہ کیا ۔ اور جیسے ہی وہ عورت گیٹ سے اندر آئی تو اس کی نظر ثمینہ پر پڑی تو ثمینہ نے کہا ارے واہ تم اتنی جلدی آ گئی تو اس عورت نے کہا جی آپ بلائیں اور میں نہ آؤں یہ کیسے ہو سکتا ہے یہ کہتے ہوئے ثمینہ اور وہ عورت گلے ملنے لگے پھر ثمینہ نے اسمہ کو اس عورت کا تعارف کراتے ہوئے کہا یہ نازی ہے اور میری بہت اچھی دوست ہے ۔ اس کے بعد اسمہ نے نازی کو سلام کیا اور پھر ثمینہ نے نازی سے اسمہ کا تعارف کراتے ہوئے کہا یہ اسمہ ہے میرے شوہر کی دوسری بیوی فون پر بتایا تھا نا میں نے ؟؟ یہ کہتے ہوئے ثمینہ نے نازی کو آنکھوں سے کچھ عجیب سا اشارہ کیا جس پر نازی نے کہا ہاں ہاں تو یہ ہے اسمہ ماشاءاللہ بہت خوبصورت ہے واقعی میں یہ تو چاند کا ٹکڑا ہے ۔

 اس کے بعد ثمینہ نے اسمہ کو کہا اسمہ مجھے اچھا تو نہیں لگ رہا کہ میں تم سے کوئی کام کہوں پر مجبوری ہے میری دوست آئی ہے اور میں کچھ دیر اس کے ساتھ بیٹھنا چاہتی ہوں تو کیا تم ہمارے لیئے چائے بنا دو گی ؟؟ اسمہ نے کہا ارے آپی اس میں پوچھنے والی کونسی بات ہے آپ بیٹھیں میں آپ کے لیئے ابھی چائے بنا کر لاتی ہوں یہ کہتے ہوئے اسمہ کچن میں چلی گئی اور ثمینہ نازی کے ساتھ لاؤن میں ہی بیٹھ کر باتیں کرنے لگی ۔ اور کچھ دیر میں اسمہ چائے بنا کر لے آئی اس کے بعد سب نے چائے پی تبھی ثمینہ نے کہا اسمہ تم ذرا گھر کے کام کو دیکھ لو مجھے ذرا کام ہے میں نازی کے ساتھ باہر جارہی ہوں تھوڑی دیر تک واپس آتی ہوں اسمہ نے کہا جی آپی آپ جائیں میں دیکھ لوں گی۔  اس کے بعد ثمینہ نازی کے ساتھ گھر سے چلی گئی اور اسمہ گھر کے کاموں میں مصروف ہو گئی پھر کافی دیر گزرنے کے بعد ثمینہ گھر واپس آگئی تو اسمہ نے کہا آپی وہ آپ کی دوست واپس نہیں آئیں ؟؟ ثمینہ نے کہا نہیں وہ باہر سے ہی واپس چلی گئی ہے دراصل ہم بازار گئے تھے نازی کو کچھ سامان لینا تھا اس لیئے میں اس کے ساتھ چلی گئی تھی ۔ اسمہ نے کہا جی ٹھیک ہے ویسے آپ کی دوست بھی آپ کی طرح کافی اچھی عادت کی لگ رہیں تھیں جس پر ثمینہ نے طنزیہ انداز میں کہا کیوں اس نے تمہاری تعریف اس لیئے 

؟؟ اسمہ نے کہا ارے نہیں نہیں آپی میرا مطلب ہے وہ کافی ملنسار لگ رہیں تھیں ۔ ثمینہ نے ہنستے ہوئے کہا ارے میری بات کا برا مت ماننا میں بس مذاق کر رہی تھی ۔ اسمہ نے کہا نہیں آپی میں کیوں برا مناؤں گی مجھے معلوم ہے آپ بہت اچھی ہیں ۔ تبھی ثمینہ نے کہا اچھا دوپہر ہو گئ ہے میں کھانا بناتی ہوں پھر ہم دونوں کھانا کھاتے ہیں تب تک تم آرام کر لو اسمہ نے کہا آپی میں آپ کی مدد کرتی ہوں ۔ ثمینہ نے کہا نہیں میں بنا لوں گی ویسے بھی آج تم نے بہت کام کیا ہے اس لیئے اب جیسا میں کہتی ہوں تم ویسا کرو جاؤ آرام کر لو ۔ اسمہ نے کہا جی ٹھیک ہے آپی ۔ یہ کہنے کے بعد اسمہ اپنے کمرے میں چلی گئی پھر ثمینہ نے کھانا تیار کیا اور پھر ثمینہ نے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے اپنے کپڑوں میں چھپایا ہوا ایک تعویذ نکالا اور اس کو جلا کر اس کی راکھ اسمہ کے کھانے میں ملا کر وہ کھانا اسمہ کے لیئے لے گئی ۔ اسمہ نے ثمینہ کو کھانے لاتے ہوئے دیکھا تو اسمہ نے کہا ارے آپی آپ نے کیوں تکلیف کی میں باہر آہی رہی تھی ۔ 

ثمینہ نے کہا ارے اس میں تکلیف کی کیا بات ہے یہ تو میرا فرض تھا اب تم یہ سب باتیں چھوڑو اور چلو پہلے کھانا کھا لو ورنہ سعید کہیں گے کہ میری دلہن کو کھانا بھی نہیں پوچھا ۔ اسمہ نے کہا نہیں نہیں آپی وہ ایسا کیوں کہیں گے آپ تو میرا بہت خیال رکھتی ہیں اور پتا ہے ؟؟ مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے آپ کی صورت میں مجھے بڑی بہن مل گئی ہے میری دعا ہے آپ ہمیشہ خوش رہیں اور سلامت رہیں یہ کہتے ہوئے اسمہ نے کھانے کا ایک نوالہ لیا اور ثمینہ کو کھلانے لگی لیکن ثمینہ نے وہ نوالہ پکڑ کر واپس اسمہ کے منہ میں ڈالتے ہوئے کہا ارے میں اس وقت کچھ نہیں کھا سکتی کیونکہ اچانک میرا پیٹ خراب ہو گیا ہے وہ نازی نے راستے میں گول گپے کھلائے تھے نا شاید اس وجہ سے پیٹ خراب ہو گیا اور ایسے میں اگر میں یہ کھا لوں گی تو زیادہ کام خراب ہو جائے گا اس لیئے یہ تم ہی کھاؤ ۔ یہ کہتے ہوئے ثمینہ نے وہ نوالہ اسمہ کو کھلا دیا ۔ تبھی اسمہ نے کہا ارے آپی آپ کو پھر آرام کرنا چاہیئے اور میں تبھی آپ سے کہا تھا کہ کھانا میں بنا لیتی ہوں لیکن آپ نے میری ایک نہیں سنی اور بیماری میں بھی میرے لیئے کھانا بنا کر لائی ہیں ۔ ثمینہ نے کہا ارے کچھ نہیں ہوتا میں دہی میں چھلکا ڈال کر کھا لیا ہے کچھ دیر میں ٹھیک ہو جاؤں گی تم اب میری فکر چھوڑو اور کھانا کھاؤ جلدی ٹھنڈا ہو رہا ہے ۔ 

یہ کہتے ہوئے ثمینہ نے ایک اور نوالہ پکڑا ہو اسمہ کو کھلا دیا ۔ اس کے بعد اسمہ نے کہا اچھا ٹھیک ہے آپی اب آپ آرام کریں میں کھا لیتی ہوں یہ کہتے ہوئے اسمہ کھانا کھانے لگی اور ثمینہ اس کے پاس بیٹھی رہی جب تک اسمہ نے اچھے سے کھانا کھا نہیں لیا ۔ اور کچھ دیر میں اسمہ کھانے سے فارغ ہو گئی پھر ثمینہ نے کہا اچھا اب تم بھی آرام کرلو اور میں بھی آرام کرنے جا رہی ہوں پھر شام کو سعید آجائیں گے تو اٹھ کر تیار بھی ہونا ہے دعا کرو شام تک میرا پیٹ سہی ہو جائے ۔ یہ کہہ کر ثمینہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔ 

 پھر اسمہ دوبارہ سے لیٹ گئی اور کچھ ہی دیر میں اس کی انکھ لگی تو اس نے خواب میں دیکھا کہ دو خوفناک چہرے والی عورتیں اس کے سرہانے دائیں اور بائیں بیٹھی ہوئیں کوئی کچے گوشت کے ٹکڑے کھا رہی ہیں اور ان کے منہ خون سے سنے ہوئے تھے تبھی اسمہ کی نظر اپنے پاس لیٹے ہوئے ایک چھوٹے سے بچے پر پڑتی ہے جو شاید مر چکا تھا کیونکہ اس کا پیٹ پھٹا ہوا تھا اور اس کی آنتیں باہر نکلی ہوئیں تھیں ابھی اسمہ اس کو دیکھ ہی رہی ہوتی ہے کہ تبھی دائیں طرف والی ایک خوفناک عورت نے اس بچے کی طرف ہاتھ بڑھا کر اس کی آنتیں ہاتھ سے کھینچی اور اسے کھانے لگی ۔ یہ دیکھتے ہی اسمہ نے چینخ کر اسے روکنا چاہا تو اتنے اچانک اسمہ کی آنکھ کھل گئی ۔ اور اسمہ گھبراہٹ میں اٹھ کر بیٹھ گئ اور جلدی سے ادھر اُدھر دیکھنے لگی پھر اپنے سر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر بولی اوہ میرے خدایا یہ کیسا خواب تھا ابھی اسمہ یہ بات کر ہی رہی تھی کہ اچانک اسمہ کو کسی کے غرانے کی آواز سنائی دی جو کہ بیڈ دائیں طرف کچھ فاصلے پر پڑے صوفے کی جانب سے آرہی تھی وہ سنتے ہی اسمہ ڈر سے کانپنے لگی اور اسمہ نے آہستہ آہستہ سے اپنی کانپتی ہوئی گردن اس صوفے کی طرف گھماتے ہوئے دیکھا تو اچانک اسمہ کے رونگٹے کھڑے ہو گئے کیونکہ وہ دونوں عورتیں جن کو اسمہ نے خواب میں دیکھا تھا وہ دونوں ہی صوفے پر بیٹھی ہوئیں اسمہ کو اپنی خوفناک آنکھوں سے گھور رہیں تھیں ۔

 انہیں دیکھ کر اسمہ کے جسم سے جیسے جان ہی نکل گئی تھی کیونکہ اسمہ کی نا تو آواز نکل رہی تھی اور نہ ہی وہ بیڈ سے اٹھ پا رہی تھی بس ایک جگہ ساکت ہوئی بیٹھی تھی تبھی اسمہ نے آئیت الکرسی پڑھنی چاہی تو اس سے آئیت الکرسی بھی ٹھیک سے نہیں پڑھی جا رہی تھی جبکہ اسمہ کو آئیت الکرسی اچھے یاد تھی لیکن اس وقت اس کو بالکل بھول گئی تھی اور وہ غلط ملط ہی پڑھتے ہوئے رک جاتی تھی تبھی اسمہ نے زور زور سے چیخنا چاہا پر اس کی آواز اس کو ہی سنائی دے رہی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ اس کے کان بھی بہرے ہو چکے ہیں تبھی ان عورتوں میں سے ایک عورت نے اسمہ کو عجیب سی آواز میں کہا ڈرو مت ہم صرف تمہارے بچے کو کھانے کے انتظار میں ہیں اس سے پہلے ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے ۔ اسی لیئے بہتر ہو گا کہ تم کسی سے اس بات کا ذکر نہیں کرنا ورنہ بچے کی جگہ ہم تمہارے اس خوبصورت جسم کا گوشت نوچ نوچ کر کھا جائیں گے اس لیئے ہماری بات یاد رکھنا ورنہ انجام بہت برا ہو گا ۔

 ابھی وہ عورت یہ بات کر ہی رہی تھی کہ اسمہ ہمت کر کے بیڈ سے نیچے اتر کر باہر کی طرف بھاگنے لگی تو اچانک اس عورت نے دور سے ہی اپنا خوفناک سا ہاتھ اسمہ کی طرف بڑھایا اور اس کا ہاتھ اتنا لمبا ہو گیا کہ اس نے اسمہ کی گردن کو پکڑ لیا اور گردن پکڑتے ہی اس عورت نے کہا تم ہمارا کچھ نہیں بگاڑ پاؤ گی اور اگر تم نے کسی سے یہ بات کی بھی تو تمہاری بات پر کوئی یقین بھی نہیں کرے گا اس لیئے تمہارے بچے کے پیدا ہونے تک تم کوئی چالاکی نہ کرنا ورنہ ہمیں غصہ آجائے گا اور اب تم ہم سے دور نہیں جا سکتی ہم کسی بھی پل تم سے ملنے آسکتے ہیں اس لیئے ابھی تو ہم جا رہے ہیں لیکن ہم پھر آئیں گے تب تک اپنا خیال رکھنا یہ کہتے ہوئے اچانک اس عورت نے اسمہ کی گردن کو جھٹکا مارا تو اسمہ ایک دم سے بیہوش ہو کر زمین پر گر پڑی ۔ پھر کچھ دیر کے بعد اسمہ کو ہوش آیا تو اسمہ بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی ثمینہ اور سعید اس کے پاس بیٹھے ہوئے اس کی طرف دیکھ رہے تھے اسمہ نے جلدی سے اٹھ کر صوفے کی طرف دیکھا تو صوفے پر کوئی نہیں تھا پھر سعید کی طرف دیکھ کر بولی وہ..... وہ.... دو عورتیں کہاں ہیں ؟؟؟ سعید نے حیرت سے اسمہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کون عورتیں کیسی عورتیں ؟؟ اسمہ نے ڈرتے ہوئے کہا وہ۔۔۔۔۔ وہ سامنے صوفے پر بیٹھی ہوئیں تھیں یہ کہتے ہوئے اسمہ نے صوفے کی طرف اشارہ کیا ۔ سعید نے ایک بار صوفے کی طرف دیکھا اور پھر اسمہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ارے وہاں تو کوئی نہیں تھا میں جب اس کمرے میں آیا تو تم زمین پر بیہوش پڑی تھی تو میں نے تمہیں اٹھا کر بیڈ پر لٹا دیا تھا لیکن اس وقت کمرے میں تمہارے سوا کوئی نہیں تھا پھر میں نے ثمینہ کو آواز دی تو ہم تب سے تمہارے پاس ہی بیٹھے ہوئے ہیں اس دوران ہمیں تو کوئی اور کمرے میں نظر نہیں آیا آخر بات کیا ہے ؟؟ کیا ہوا تھا تمہیں ؟؟ 

اسمہ نے سعید کو وہ ساری بات بتائی تو سعید نے مسکراتے ہوئے کہا ارے وہ تو صرف ایک خواب تھا جو کہ تمہارے ذہن میں پر سوار ہو گیا ہو گا اس لیئے تم ڈر سے بیہوش ہو گئی ۔اسمہ نے کہا میں سچ کہہ رہی ہوں کہ وہ خواب نہیں تھا اور اگر خواب بھی تھا تو آپ کو پتا ہے میرے خواب بے مقصد نہیں ہوتے ان کا ضرور کوئی نا کوئی مقصد لازمی ہوتا ہے ۔ اسمہ کی یہ بات سن کر سعید سوچ میں پڑ گیا اور پھر کچھ دیر میں بولا اچھا چلو جو بھی ہے لیکن اب تم تیار ہو جاؤ ہمیں آج کا کھانا باہر کھانا ہے اسی بہانے تمہارا موڈ بھی اچھا ہو جائے گا ۔ اسمہ نے کہا نہیں میرا دل نہیں مان رہا باہر جانے کو تبھی ثمینہ نے کہا ارے چلو نہ اسی بہانے سے میں بھی تمہارے ساتھ گھوم لوں گی ۔ اسمہ نے کہا اچھا ٹھیک میں تیار ہوتی ہوں ۔ یہ کہتے ہوئے اسمہ اٹھی اور فریش ہو کر تیار ہو گئی اور جب سعید نے اسمہ کو تیار ہوئے دیکھا تو اس نے کہا واہ تم تو واقعی میں چاند کا ٹکڑا ہی ہو کہیں میری نظر نہ لگ جائے تمہیں۔ اس دوران ثمینہ سعید کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھی تبھی ثمینہ نے کہا ارے بھئی چلیں جلدی کر لیں مجھے بہت بھوک لگی ہے ویسے بھی سارا دن پیٹ خراب ہونے کی وجہ سے میں نے صرف دہی چھلکا کھایا ہے اس لیئے اب بہت بھوک لگی ہوئی ہے تو اب انتظار نہیں ہو رہا ۔ سعید نے کہا ہاں ہاں چلو چلیں یہ کہتے ہوئے سعید اپنی دونوں بیویوں کو ساتھ لے باہر کھانا کھانے کے لیئے چلا گیا اور جب ریسٹورنٹ پہنچے تو ثمینہ نے گاڑی سے نکلتے ہوئے جان بوجھ کر اپنا دوپٹہ گاڑی میں ہی چھوڑ دیا 

پھر سعید اور اسمہ کے ساتھ ریسٹورنٹ میں چلی گئی پھر سب نے اپنے اپنے کھانے کا آرڈر دیا اور کچھ دیر میں کھانا آگیا۔ اور سب نے اپنا اپنا کھانا سامنے رکھ کر کھانا شروع کیا ہی تھا کہ تبھی ثمینہ نے کہا ارے یار۔۔۔ شٹ ۔۔ سعید نے ثمینہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ارے تمہیں کیا ہو گیا ؟؟ ثمینہ نے کہا وہ دراصل میں گاڑی میں اپنا دوپٹہ بھول گئی ہوں اور یہاں آس پاس بہت لوگ بیٹھے ہوئے ہیں تو مجھے بنا دوپٹے کہ بہت عجیب لگ رہا ہے مجھ سے تو شرم سے کھانا بھی نہیں کھایا جا رہا کیا آپ مجھے گاڑی کی چابی دیں گے میں جا کر اپنا دوپٹہ لے آتی ہوں ۔ سعید نے کہا ارے کوئی بات نہیں سب لوگ تو اپنے اپنے کھانے میں مصروف ہیں تمہیں کوئی نہیں دیکھ رہا کھانا کھا لو آرام سے ۔ ثمینہ نے کہا نہیں آپ مجھے چابی دیں میں بس ابھی لے کر واپس آتی ہوں ۔ سعید نے کہا اچھا ٹھیک ہے تم بیٹھو میں لے کر آتا ہوں یہ کہتے ہوئے سعید اٹھ کر گاڑی سے ثمینہ کا دوپٹہ لینے چلا گیا ثمینہ نے سعید کو جاتے دیکھا تو ثمینہ نے جلدی سے اپنا بیگ کھولا اور اس میں کچھ دیکھنے لگی اسی دوران ثمینہ نے اپنا موبائل بیگ سے نکالتے ہوئے جان بوجھ کر زمین پر گرا دیا اور اسے اپنے پاوں سے تھوڑا دور کر دیا اور بولی ارے یار اسمہ میرا موبائل تو پکڑنا ذرا ٹیبل کے نیچے چلا گیا ہے اور خود بیگ کھول کر اس میں سے کچھ دیکھتی رہی اور جیسے ہی اسمہ ٹیبل کے نیچے سے موبائل اٹھانے لگی تو اسی دوران ثمینہ نے جلدی سے کوئی سیاہ رنگ کا پاوڈر سا بیگ سے نکالا اور اس کے اسمہ کے گلاس میں پڑی( کوک کولڈرنک) میں ڈال کر اسے کسی چمچ سے ہلا دیا اور کچھ دیر میں اسمہ نے ٹیبل کے نیچے سے موبائل نکال کر ثمینہ کو دیتے ہوئے کہا یہ لیں آپی آپکا موبائل بڑی مشکل سے ہاتھ لگا ہے دور گرا ہوا تھا ۔ موبائل پکڑتے ہی ثمینہ نے اسمہ کو کہا سوری۔۔۔ 

اسمہ دراصل میں بیگ کو بند کر رہی اسی لیئے تم سے اٹھانے کو کہہ دیا اور تمہیں بلا وجہ تکلیف میں ڈال دیا جس پر اسمہ نے کہا نہیں نہیں آپی اس میں تکلیف کی کیا بات ہے آپ جب چاہیں مجھ بلا جھجک کام کہہ سکتی ہیں اور آپ کو سوری بولنے کی کوئی ضرورت نہیں مجھے اچھا لگتا ہے کہ میں آپ کے کسی کام آسکوں اتنے میں سعید بھی دوپٹہ لے کر واپس آگیا پھر سب نے کھانا کھایا اس دوران اسمہ گلاس میں پڑی ساری کوک پی گئی جسے دیکھتے ہی ثمینہ کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ آگئی پھر سعید نے اپنی دونوں بیویوں سے کہا ہاں بھئی اب گھر چلیں یاں کہیں اور گھومنا پھرنا ہے تم میں سے کسی نے ؟؟ ثمینہ نے کہا مجھے تو گھر جانا ہے ۔ ہاں اسمہ سے پوچھ لیں کہ اگر یہ گھومنا چاہتی ہے تو ۔ ابھی سعید نے اسمہ طرف دیکھا ہی تھا کہ اسمہ نے کہا نہیں بس اب گھر ہی چلتے ہیں پھر کبھی گھوم لیں گے ابھی اچانک سے میرا سر بھاری سا ہونے لگا ہے اور طبیعت بھی کچھ عجیب سی ہو رہی ہے سعید نے اسمہ کے ماتھے پر ہاتھ لگاتے ہوئے کہا ارے کیا ہو رہا ہے تمہاری طبیعت کو ؟؟ اسمہ نے کہا پتا نہیں الجھن سی ہو رہی ہے چلیں گھر چلتے ہیں ۔ سعید نے کہا ڈاکٹر کے پاس لے چلوں ؟؟ اسمہ نے کہا نہیں نہیں بس گھر جانا ہے ۔ سعید نے کہا اچھا ٹھیک چلو پھر گھر ہی چلتے ہیں اس کے بعد سب گاڑی میں بیٹھ کر گھر کی طرف جا رہے تھے اس دوران ثمینہ سعید کے ساتھ آگے بیٹھی ہوئی باتیں کر رہی تھی اور اسمہ پیچھے والی سیٹ پر بیٹھی ہوئی ان کی باتیں سن رہی تھی کہ تبھی اچانک سے اسمہ کو لگا کہ جیسے اس کے دائیں سائیڈ پر اس کے ساتھ کوئی بیٹھا ہوا ہے جیسے ہی اسمہ اپنے دائیں طرف دیکھا تو کوئی نہیں تھا تو اسمہ پھر سے سعید اور ثمینہ کی باتیں سننے میں مگن ہو گئی کہ اچانک پھر سے اسمہ کو ایسا لگا کہ کوئی اس کے چہرے کے پاس آکر سانس لے رہا ہے اور اس کی سانس کی ہوا اسمہ کے چہرے کو چھو رہی تھی اسمہ نے جلدی سے پھر اس طرف دیکھا تو اچانک اسمہ کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور اس کی آواز ہی بند ہو گئی اس نے دیکھا کہ کوئی بہت ہی بھیانک شکل والی عورت اس کے ساتھ پیچھے والی سیٹ پر بیٹھی ہوئی اسمہ کی طرف آنکھیں پھاڑے دیکھ رہی تھی اسمہ اس کو دیکھتے ہی اس قدر تھر تھر کانپنے لگی کہ اسمہ کے دانت بھی آپس میں بجنے لگے اسمہ نے چیںنخنا چاہا پر اس کے منہ سے آواز ہی نہیں نکل رہی تھی تبھی اس خوفناک عورت نے اسمہ کے چہرے کو اپنے خوفناک ہاتھ سے پکڑ لیا اس دوران ثمینہ اور سعید اس بات سے بے خبر آپس میں باتیں کر رہے تھے تبھی اسمہ نے اپنے کانپتے ہو ہاتھ سے ثمینہ کے بالوں کو پیچھے سے پکڑ کر کھینچ دیا جس سے ثمینہ نے چلا کر پیچھے دیکھا تو اتنے میں وہ خوفناک ناک عورت اچانک کہیں غائب ہو چکی تھی ثمینہ نے اسمہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ارے یہ کیا بیہودہ حرکت کی ہے تم نے میرے بال کیوں نوچے تم ؟؟؟ اسمہ نے کانپتے ہوئے کہا وہ ۔۔۔ وہ وہ عورت ابھی یہاں بیٹھی ہوئی تھی میرے پاس ۔ یہ سن کر اچانک گاڑی روک لی اور پھر ثمینہ اور اسمہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا اب کیا ہوا تم لوگوں کو ؟؟

 اسمہ نے کہا ابھی میرے ساتھ کوئی بھیانک سی عورت بیٹھی ہوئی تھی وہ مجھ ڈرا رہی تھی جس وجہ میری آواز بند ہو گئی تھی تو میں نے گھبرا کر غلطی سے ثمینہ آپی کے بال کھینچ دیئے تاکہ وہ میری طرف دیکھ لیں لیکن میں بس ثمینہ آپ سے مدد لینا چاہتی تھی میرا یقین کریں میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا ۔ سعید اسمہ کی بات بہت حیرت سے سن رہا تھا تبھی سعید نے اسمہ سے کہا اچھا اگر تمہارے ساتھ کوئی عورت بیٹھی ہوئی تھی تو پھر وہ کہاں گئی ؟؟ اسمہ نے کہا مجھے نہیں معلوم لیکن جیسے ہی ثمینہ آپی نے میری طرف دیکھا تو وہ اچانک سے غائب ہو گئ ۔ اسمہ کی یہ بات سن کر ثمینہ اور سعید ایک دوسرے کو بہت سنجیدہ ہوکر دیکھنے لگے پھر اچانک دونوں کھلکھلا کر ہنسنے لگے اور ہنستے ہوئے اسمہ کی طرف دیکھنے لگے ۔ تبھی سعید نے اسمہ سے کہا ارے محترمہ اپنے خواب سے باہر آجائیں یہ بھلا کون پاگل عورت ہو گی جو چلتی ہوئی گاڑی میں اچانک سے آئے گی اور پھر بنا کھڑکی دروازہ کھولے اچانک سے چلی جائے گی ۔ 

بھلا ایسا بھی کبھی ہوا ہے ؟؟ یہ سب تمہارا وہم تھا کیونکہ آج تم نے بہت بھیانک خواب جو دیکھا تھا اس لیئے تمہارے دماغ میں ابھی تک وہی گھوم رہا ہے ۔ اسمہ نے کہا نہیں میں سچ کہہ رہی ہوں میرے ساتھ واقعی میں وہ عورت بیٹھی ہوئی تھی ۔ثمینہ نے کہا ارے یار کچھ نہیں تھا بس سب تمہارا وہم ہے ۔ یہ کہتے ہوئے ثمینہ نے سعید سے کہا ارے آپ تو گاڑی چلائیں آپ نے گاڑی کیوں روکی ہوئی ہے چلیں گھر چلیں جلدی ۔ سعید نے کہا ہاں ہاں میں چلا رہا ہوں ۔ یہ کہتے ہوئے سعید پھر سے گاڑی چلانے لگا ۔۔۔

بغص کی آگ (قسط نمبر 4)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے