بغض کی آگ - چوتھا حصہ

 urdu stories

 Sublimegate Urdu Stories

بغض کی آگ - چوتھا حصہ


اور کچھ ہی دیر میں سب گھر پہنچ گئے گھر پہنچتے ہی اسمہ گاڑی سے نکلی اور بنا بولے اپنے کمرے میں چلی گئی جبکہ سعید اور ثمینہ ہال کمرے میں کھڑے ہوئے باتیں کر رہے تھے ۔ پھر اسمہ نے کپڑے وغیرہ چینج کیئے اور بیڈ پر لیٹ کر سوچنے لگی کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ آخر وہ کون عورتیں تھیں جو کہ مجھے تنگ کر رہی ہیں اتنے میں ثمینہ اور سعید اسمہ کے پاس آئے انھے دیکھتے ہی اسمہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ ثمینہ نے ہاتھ میں دودھ کا گلاس پکڑا ہوا تھا اتنے میں سعید نے اسمہ سے کہا کیا بات ہے تم چپ چاپ یہاں آگئ ہو کسی بات سے ناراض ہو کیا ؟؟ اسمہ نے کہا نہیں نہیں بس میں اس عورت کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ کیا وہ صرف میرا وہم ہی تھا یاں کچھ اور ؟؟.

 تبھی ثمینہ نے کہا ارے اسمہ تم اب اس بات کو بار بار مت سوچو اور پتا ہے انسان جتنا ایسی الٹی سیدھی باتوں کے بارے میں سوچتا ہے اس کے ساتھ اتنا ہی یہ سب ہوتا ہے کیونکہ وہ اور کچھ نہیں بلکہ اس انسان کا وہم ہی ہوتا ہے اور اکثر انسان وہم کر کر کے نفسیاتی مریض بن جاتا ہے ۔ تو چلو اب بس ان باتوں کے بارے میں سوچنا چھوڑو اور یہ دودھ پی لو میں نے اس میں پستہ اور بادام گرینڈ کر کے ڈالا ہے اس سے تمہیں سکون ملے گا اور تمہارا ذہن بھی فریش ہو جائے گا ۔ اسمہ نے کہا آپی اسے رکھ دیں میں ٹھہر کے پی لوں گی ۔

 ثمینہ نے کہا ٹھہر کے نہیں بلکہ تم اسے ابھی پی لو مجھے پتا ہے تم پھر سے الٹی سیدھی باتیں سوچنے لگ جاؤ گی اور اسے پینا بھول جاؤ گی اس لیئے اس کو ابھی پی کر ختم کرو اور پھر تم آرام کرو ۔ اسمہ نے کہا جی ٹھیک ہے آپی یہ کہتے ہوئے اسمہ نے دودھ کا گلاس پکڑ کر دودھ پی لیا اور خالی گلاس ثمینہ کو دیتے ہوئے کہا شکریہ آپی آپ بہت اچھی ہیں میرا کتنا خیال رکھتی ہیں اور میں نے گاڑی میں آپ کے ساتھ بہت بری حرکت کی تھی اس کے لیئے میں آپ سے معافی چاہتی ہوں ۔ ثمینہ نے اسمہ کے ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا ارے نہیں نہیں وہ بات تو میں کب کی بھول چکی اس لیئے اب تم بھی زیادہ مت سوچو اور اپنی صحت پر توجہ دو اور اپنے دماغ پر فضول باتوں کا بوجھ مت ڈالو ۔ اسمہ نے کہا جی آپی آپ بلکل سہی کہہ رہی ہیں وہ صرف میرا وہم ہی تھا اور شاید میں بار بار اسی بارے میں سوچ رہی تھی تو اسی وجہ سے وہ مجھے بار بار دکھائی دے رہی ہے لیکن اب میں اس کے بارے میں نہیں سوچوں گی ۔ اتنے میں سعید نے کہا یہ ہوئی نا بات اب تم آرام کر لو میں ابھی آتا ہوں اور گھبرانا نہیں میں یہیں ٹی وی لاؤنچ میں ہی بیٹھا ہوا ہوں ذرا نیوز دیکھ لوں اسی بہانے ایک کپ چائے بھی پی لوں گا ۔ 

اسمہ نے کہا جی جی آپ جائیں میں ٹھیک ہوں ۔ اس کے بعد سعید نے ثمینہ کو کہا یار چائے بنا کر ٹی وی لاؤنچ میں لے آؤ یہ کہتے ہوئے سعید ثمینہ کے ساتھ اسمہ کے کمرے سے چلا گیا اور اسمہ دوبارہ لیٹ گئی تبھی کچھ دیر میں اس کے کمرے میں پڑا ہوا صوفہ خودبخود آہستہ آہستہ سے سرکتے ہوئے اسمہ کے قریب آنے لگا جس کی آواز سن کر اسمہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور صوفے کی طرف غور سے دیکھنے لگی اور وہ صوفہ اسمہ کے بیڈ کے پاس آکر رک گیا پھر اس صوفے کی گدی خود ہی نیچے ہو گئی ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی صوفے پر بیٹھ گیا ہے یہ دیکھ کر اسمہ ڈرنے لگی اسمہ نے ڈرتے ہوئے ہی سعید کو زور سے آواز دے دی اور بیڈ سے اٹھ کر باہر بھاگنے لگی تو تبھی اچانک اسمہ کے کمرے کا دروازا جھٹ سے بند ہو گیا اسمہ ڈرتی ہوئی دروازے کو کھولنے کی کوشش کرتی رہی پر دروازا کھل ہی نہیں رہا تھا اتنے میں کسی کے ہنسنے کی آواز سنائی دینے لگی وہ آواز اتنی ڈراؤنی تھی کہ اسمہ چلاتے ہوئے دروازے کو اندر سے ہی کھٹکھٹانے لگی کہ اچانک کسی نے پیچھے سے اسمہ کے بال پکڑ لیئے اور اسے بالوں سے پکڑتے ہی زور سے پیچھے کی دھکیلا جس سے اسمہ زمین پر گر گئی تبھی دروازے پر باہر سے دستک ہونے لگی اور پھر باہر سے سعید نے کہا دروازا کھولو اسمہ کیا ہو رہا ہے جلدی دروازا کھولو ۔ سعید کی آواز سنتے ہی اسمہ سعید سعید چلاتی ہوئی اٹھ کر دروازے کی طرف بھاگنے لگی تو پھر سے کسی نے اسمہ کی ٹانگ کو پکڑ کر کھینچا جس سے اسمہ پھر سے زمین پر گر گئی اس دوران سعید باہر سے دروازے پر مسلسل دستک دیتے ہوئے کہے جا رہا تھا دروازا کھولو ۔۔۔۔۔ اسمہ پلیز جلدی دروازا کھولو ۔۔۔۔

کیا ہو رہا ہے تمہیں کھولو دروازا ۔۔۔۔ تبھی ثمینہ بھی سعید کے پاس آکر اسمہ کو آوازیں دینے لگی اور اسے دروازا کھولنے کا کہا لیکن اسمہ چلاتے ہوئے بس سعید سعید بولے جا رہی تھی اور زمین پر رینگتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھ رہی تھی لیکن اس شیطانی چیز نے اسمہ کی ٹانگ پکڑ رکھی تھی اتنے میں سعید اور ثمینہ نے مل کر باہر سے دروازے پر زور سے دھکا مارا اور درواز کھل گیا ۔ اور جیسے ہی سعید اور ثمینہ کمرے میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ اسمہ زمین پر گری ہوئی تھی سعید نے جلدی سے آگے بڑھ کر اسمہ کو اٹھا کر بیڈ پر بیٹھایا تو اسمہ جلدی سے سعید سے لپٹ گئی اس دوران اسمہ بری طرح کانپ رہی تھی تبھی سعید نے حیرت سے ثمینہ کی طرف دیکھا اور پھر اسمہ کے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس سے پوچھا یہ سب کیا ہے اور تم اتنی ڈری ہوئی کیوں ہو ؟؟ اور تم نے دروازا کیونکہ بند کیا ہوا تھا ؟؟ اسمہ سہم کر تیز تیز سانسیں لیتی ہوئی سعید سے لپٹی ہوئی اس صوفے کی طرف دیکھ رہی تھی ۔ سعید نے کہا کیا دیکھ رہی ہو ؟؟ دیکھو کچھ بتاؤ تو کیا ہوا ہے ؟؟۔ اسمہ نے کانتی ہوئی آواز میں کہا وہ۔۔۔ وہ پھر سے آئی تھی ۔

 سعید نے حیرانی سے پوچھا کون آئی تھی ؟؟؟ اسمہ نے کہا ہاں وہ آئی تھی اس نے مجھے پکڑ لیا تھا یہ کہتے ہوئے اسمہ نے صوفے کی طرف دیکھا تو صوفہ وہیں اپنی جگہ پر بلکل ٹھیک پڑا تھا اسمہ نے سعید کو کہا اس نے یہ صوفہ بھی گھسیٹ کر میرے بیڈ کے پاس کیا اور اس پر بیٹھ گئی تھی ۔ سعید کو اسمہ کی کسی بات کی کوئی سمجھ نہیں لگ رہی تھی تو سعید نے اسمہ سے کہا یار تم کیا کہہ رہی ہو مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا آخر تم کس کی بات کر رہی ہو ؟؟ اسمہ نے کہا وہ جو نظر نہیں آرہی تھی وہی مجھے تنگ کر رہی تھی اسی نے یہ صوفہ بھی گھسیٹ کر میرے بیڈ کے پاس رکھا تھا اور اسی نے میرے بال نوچ کر مجھے زمین پر گرایا تھا اور میری ٹانگ پکڑ لی تھی ۔ سعید نے کہا ارے وہ صوفہ تو اپنی جگہ پر ہی پڑا ہے اور جب ہم اندر آئے تھے تو کمرے میں تمہارے اعلاوہ ہم نے کسی کو نہیں دیکھا اور تمہاری باتوں سے ایسا لگ رہا ہے کہ تمہیں کسی نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا پڑے گا کیونکہ تمہارا ذہنی توازن بگڑ رہا ہے اس سے پہلے تم پاگل ہو جاؤ میں تمہیں صبح ہی ڈاکٹر کے پاس لے کر جاتا ہوں ۔ اسمہ نے کہا میں جھوٹ نہیں بول رہی میں پاگل نہیں ہوں میں نے واقعی میں اسے دیکھا تھا وہ یہیں تھی۔ سعید نے کہا ارے کیا مجھے بھی پاگل کرنا ہے کبھی کہہ رہی ہو وہ نظر نہیں آتی کبھی کہہ رہی ہو تم نے اسے دیکھا ہے یہ کیا تماشا لگایا ہوا ہے ؟؟ اس دوران ثمینہ کے چہرے پر دھیمی سی شیطانی مسکراہٹ تھی اور ثمینہ نے سعید کو کہا دیکھیں آپ پریشان نہ ہوں یہ بس کسی خواب کی وجہ سے گھبرا گئی ہے اور اسی گھبراہٹ میں ہی اس نے دروازا کھولنے کی بجائے بند کر دیا ہو گا اور ڈر گئی ہو گی کیونکہ انسان کبھی کبھی گھبراہٹ میں ایسے الٹے سیدھے کام کر جاتا ہے جن کے بارے اس کو ہی پتا نہیں چلتا ۔ اسمہ نے ثمینہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا آپی آپ کو بھی یہی لگتا ہے کہ میں پاگل ہو رہی ہوں اور جو بھی میں نے بتایا وہ سب جھوٹ ہے بکواس ہے ؟؟

 ثمینہ نے مسکراتے ہوئے کہا ارے ایسا کچھ نہیں ہے بس تم پریشان مت ہو ایسا ہو جاتا ہے کبھی کبھی ۔ اسمہ نے کہا آپی میں سمجھ رہی ہوں آپ کیا کہنا چاہتی ہیں اس لیئے اب میں آپ لوگوں سے اپنی کوئی بات شیئر نہیں کرونگی پھر چاہے میں مر ہی کیوں نہ جاؤں لیکن اب آپ لوگوں سے کچھ نہیں کہوں گی یہ کہتے ہوئے اسمہ منہ پھیر کر لیٹ گئی۔ سعید نے پہلے اسمہ کی طرف دیکھا اور پھر بنا بولے نہ میں سر ہلاتے ہوئے ثمینہ کی طرف دیکھنے لگا تو ثمینہ نے بھی بنا بولے ہی سعید کو اشارے سے کہا سب ٹھیک ہو جائے گا اس کے بعد ثمینہ کمرے سے باہر چلی گئی ۔ اور سعید اسمہ کے پاس بیٹھ کر اس کی طرف دیکھنے لگا پھر سعید نے کہا دیکھو ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ تم پاگل ہو بلکہ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ یہ سب جو تمہارے ساتھ ہو رہا ہے یہ سب ٹھیک ہو جائے اسی لیئے میں نے تمہیں بولا ہے کہ میں تمہیں نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس لے کر جاؤں گا کیونکہ جو بھی تم بتاتی ہو وہ صرف تمہیں ہی لگ رہا ہوتا ہے جبکہ ہمارے سامنے ایسا کچھ نہیں ہوتا اس لیئے ذرا تمہاری بات پر یقین کرنا تھوڑا عجیب لگتا ہے لیکن پھر بھی اگر تم جو کہہ رہی ہو وہ سچ ہے تو بھی ایک بار میرے ساتھ ڈاکٹر کے چل کر دیکھ لو اس کے بعد تم جیسا کہو گی میں ویسا کر لوں گا ۔ سعید کی یہ بات سن کر اسمہ نے سعید کی طرف منہ کر لیا اور بولی اس معاملے کو حل کرنا ڈاکٹر کا کام نہیں پھر بھی اگر آپ کہتے ہیں تو میں آپ کے ساتھ ڈاکٹر کے ہاں چلی جاؤں گی لیکن مجھے یقین ہے میں سہی ثابت ہووں گی ۔ سعید نے کہا تو ٹھیک ہے ہم کل صبح ہی ماہرِ نفسیات سے ملیں گے اور دیکھیں گے یہ سب کیا ہے ۔ اور پلیز مجھے معاف کر دو کہ آج میں نے تم سے ذرا تلخ انداز میں بات کی ۔ اسمہ نے کہا کوئی بات نہیں مجھے کچھ برا نہیں لگا یہ کہتے ہوئے اسمہ نے سعید کا ہاتھ پکڑ لیا پھر سعید نے اسمہ کے ہاتھ پر اپنا دوسرا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا چلو اب تم سو جاؤ صبح سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اس کے بعد سعید اور اسمہ دونوں سو گئے اگلے دن اسمہ سعید کے ساتھ ماہرِ نفسیات کے پاس گئی اور وہاں جا کر اسمہ نے ڈاکٹر کو سب کچھ بتایا اور پھر سعید نے بھی کچھ باتیں بتائیں پھر ڈاکٹر نے اسمہ کے ذہن کا چیکپ کرتے ہوئے اس سے کچھ سوالات کیئے جن کے جوابات اسمہ نے تسلی بخش دیئے پھر ڈاکٹر نے سعید سے کچھ سوال جواب کیئے اور پھر ڈاکٹر نے سعید سے کہا کہ اسمہ بلکل ٹھیک ہے اور یہ جو بھی کہہ رہی ہے اس میں صداقت ہو سکتی ہے کہیں آپ لوگوں کے گھر میں واقعی میں کوئی آسیبی طاقت وغیرہ تو نہیں ہے ؟؟ سعید نے مسکراتے ہوئے کہا ارے ڈاکٹر صاحب آپ بھی یہ باتیں کر رہے ہیں میں تو سمجھا تھا کہ آپ اسمہ کی کچھ مدد کریں گے لیکن آپ کی باتوں سے لگ رہا ہے جیسے آپ بھی ان چیزوں پر یقین رکھتے ہیں ؟ ڈاکٹر نے کہا دیکھیں سعید صاحب میڈیکل سائینس چاہے جتنی بھی ترقی کر لے لیکن جہاں میڈیکل سائینس ختم ہوتی ہے وہاں سے یہ چیزیں شروع ہوتی ہیں اور اس دنیا میں انسانوں کی طرح ان کی موجودگی ایک حقیقت ہے جسے جھٹلایا نہیں جا سکتا لیکن یہ چیزیں میڈیکل سائینس سے باہر ہیں اسی وجہ سے زیادہ تر لوگ ان چیزوں پر یقین نہیں رکھتے جب کہ قرآن وحدیث میں بھی ان چیزوں کا واضح ذکر ہے اس لیئے ان چیزوں کو جھٹلایا نہیں جا سکتا ہاں البتہ ان جگہ کا تعین ٹھیک سے نہیں لگایا جا سکتا کہ وہ کس وقت کس جگہ پر موجود ہیں لیکن یہ واقعی میں موجود ہوتی ہیں ۔ اور رہی بات اسمہ کی مدد کی تو میں نے اسمہ بی بی کے ذہن کا پوری طرح ٹیسٹ لے کر ہی آپ سے یہ بات کی ہے کیونکہ میری تحقیق کے مطابق اسمہ ذہنی طور پر پوری طرح ٹھیک ہیں اور اگر آپ کو میری تحقیق پر کسی قسم کا کوئی شک ہے تو آپ کسی دوسرے سائیکالوجسٹ کے پاس جا کر اسمہ بی بی کا چیکپ کرا سکتے ہیں ۔ سعید نے کہا نہیں نہیں ڈاکٹر صاحب ایسی کوئی بات نہیں ہے مجھے بھلا آپ کی قابلیت و تحقیق پر کیوں شک ہو گا ۔ ڈاکٹر نے ہنستے ہوئے کہا سعید صاحب کبھی کبھی ہم چھوٹے سے معاملے پر توجہ نہ دے کر اسے معاملے سے معاملات میں تبدیل کر دیتے ہیں اور معاملے کا حل تو جلدی ہی مل جاتا ہے لیکن معاملات کا حل تھوڑا مشکل ہو جاتا ہے ۔ اسی لیئے میری آپ سے گزارش ہے کہ اس معاملے پر توجہ دے کر اسے معاملات میں تبدیل ہونے سے بچا لیں ۔ سعید نے کہا جی میں سمجھ گیا ہوں ۔ اس کے بعد سعید اسمہ کو لے کر گھر واپس آگیا گھر آتے ہی ثمینہ نے سعید سے اسمہ کے بارے میں پوچھا تو سعید نے کہا اسمہ بلکل ٹھیک ہے بس اب اس معاملے میں کسی عامل سے رابطہ کرنا پڑے گا کہ آخر یہ سب اسمہ کے ساتھ کیوں ہو رہا ہے ۔ یہ سنتے ہی ثمینہ کے چہرے کا رنگ اڑ گیا اور وہ گھبرا گئی اور بولی دیکھیں سعید مجھے نہیں لگتا کہ آپ کو ان لوگوں کے چکروں میں پڑنا چاہیئے کیونکہ یہ عامل اور جادو ٹونے والے لوگ بہت ہی مکار اور دھوکے باز ہوتے ہیں کیونکہ یہ سچ جھوٹ بتا کر ایسے ہی لوگوں کے دلوں میں وہم ڈال دیتے ہیں میں تو کہتی ہوں آپ کو ایسے لوگوں سے دور ہی رہنا چاہیئے ۔اور مجھے بھی لگتا ہے اسمہ بالکل ٹھیک ہے بس وہ سب اس کا وہم تھا اور کچھ نہیں ۔ سعید نے کہا پر ہمیں کچھ تو کرنا ہو گا نا ؟؟ ثمینہ نے کہا یہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں میں اس معاملے کو خود دیکھ لیتی ہوں میری ایک دوست ہے نازی ۔ اس کے ایک عزیز دم جھاڑے کا کام کرتے ہیں میں نازی کے ساتھ مل کر اسمہ کو اس کے عزیز کے پاس لے کر چلی جاؤں گی اور ان سے بولوں گی کہ اسمہ کے لیئے کوئی اچھا سا تعویذ دے دیں کہ جس سے اسمہ کے ساتھ ایسے واقعات نہ ہوں اور مجھے امید ہے کہ وہ ہماری ضرور مدد کریں گے ۔ ثمینہ کی یہ بات سن کر سعید نے کہا اچھا ٹھیک ہے تو پھر تم آج ہی اس کو ان کے پاس لے جانا۔ اب میں آفس کے لیئے جارہا ہوں ۔ ثمینہ نے کہا جی جی آپ بے فکر ہو کر جائیں میں یہ معاملہ حل کرلوں گی ۔ اس کے بعد سعید اپنے آفس کے لیئے چلا گیا ۔ اور ثمینہ اسمہ کے ساتھ بیٹھ گئی پھر کچھ دیر بعد ثمینہ اسمہ کے لیئے چائے بنا کر لائی اور اسمہ کو چائے دیتے ہوئے بولی یہ لو تم چائے پیو اور میں اپنی دوست نازی فون کر کے آتی ہوں پھر ہم چلتے ہیں پیر صاحب کے پاس۔ اسمہ نے کہا ٹھیک ہے آپی۔  پھر ثمینہ اپنے کمرے میں گئی اور دروازا بند کر کے نازی کو فون کرنے لگی پھر ثمینہ نے سلام دعا کے بعد نازی سے کہا ارے ہمیں جلدی ہی کچھ کرنا ہوگا جو تعویذ اس عامل نے دیئے تھے وہ سب کے سب میں نے جلا کر اسمہ کو پلا دیئے ہیں اور اس کی وجہ سے اسمہ کو ڈراؤنی چیزیں نظر آنے لگیں ہیں لیکن وہ چیزیں اسمہ کو کچھ بھی نہیں کر رہیں بس وہ اس کو ڈرا رہیں ہیں ایسے ہی چلتا رہا تو وہ ایک دن ماں بن جائے گی پھر سعید تو اس کے اور زیادہ دیوانے بن جائیں گے اور اگر ایسا ہو گیا تو سعید کی نظر میں میری جو تھوڑی بہت اہمیت ہے وہ بھی ختم ہو جائے گی کیونکہ سعید کے بھائی بہن تو پہلے ہی میرے خلاف ہیں وہ تو سعید کو سمجھا بجھا کر میری اس گھر سے بھی چھٹی بھی کرا سکتے ہیں ۔ نازی نے کہا ارے ثمینہ باجی آپ تھوڑا انتظار تو کریں بھول گئیں ہیں کہ پیر صاحب نے ہم سے کہا تھا کہ ان تعویذوں سے اسمہ کو عجیب عجیب چیزیں نظر آئیں گی پھر اس کے بعد جب بھی اسمہ حاملہ ہو گی تو وہ چیزیں اسمہ حمل گرا دیا کریں گی ۔ ثمینہ نے کہا وہ سب تو ٹھیک ہے پر اب تو سعید کو بھی کچھ شک ہونے لگا ہے کہ اسمہ کے ساتھ کچھ تو غلط ہو رہا ہے اور اسی لیئے آج وہ اسمہ کو کسی عامل کے پاس لے کر جانے لگے تھے اور اگر ایسا ہو جاتا تو ہمارے سارے کیئے کرائے پر پانی پھر جانا تھا اور ہو سکتا تھا کہ وہ عامل یہ بھی بتا دیتا کہ اس سب کے پیچھے میرا ہاتھ ہے ۔ نازی نے کہا ایسا کچھ نہیں ہوگا میں آپ کے گھر آتی ہوں تو پھر چلتے ہیں پیر صاحب کے پاس ۔ ثمینہ نے کہا ہاں آجاؤ اسی لیئے تو میں نے تمہیں فون کیا ہے کیونکہ آج ایک بات اور ہے وہ یہ کہ ہمیں آج اسمہ کو بھی پیر صاحب کے پاس لے کر جانا ہوگا ۔ نازی نے کہا ارے باجی وہ کیوں ؟؟ ثمینہ نے کہا اگر میں ایسا نا کہتی تو شاید سعید خود ہی اسمہ کو کسی اور عامل کے پاس لے جاتے اور میں یہ ہرگز نہیں چاہتی تھی کہ وہ اسمہ کو کسی عامل کے پاس لے جائیں اس لیئے میں نے کہا کہ اسمہ کو میں لے جاؤں گی ۔ نازی نے کہا اچھا ٹھیک ہے ایک طرح سے یہ ہمارے لیئے اچھا ہی ہے کہ پیر صاحب بھی اس کو دیکھ کر بتا دیں گے کہ ان کے عمل نے اسمہ پر کتنا اثر کیا ہے ۔ ثمینہ نے کہا ہاں نا اسی لیئے تو میں نے یہ سب کچھ کیا ہے ۔ نازی نے کہا اچھا ٹھیک ہے میں پھر آرہی ہوں ۔ ثمینہ نے کہا ٹھیک ہے اور فون کاٹ دیا ۔ پھر ثمینہ نے باہر جا کر اسمہ سے کہا نازی آرہی ہے پھر میں تمہیں پیر صاحب کے پاس لے کر چلتی ہوں ۔ اسمہ نے کہا ثمینہ آپی پتا نہیں آج کل جب میں کچھ کھاتی یاں پیتی ہوں تو مجھے اس چیز کا ذائقہ بہت ہی عجیب سا لگتا ہے جبکہ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا ۔ ثمینہ نے کہا ارے کوئی بات نہیں دراصل آج کل تم ٹینشن میں رہتی ہو نا اس وجہ سے تمہیں کھانے پینے کی چیزوں کا پتا نہیں چلتا پر کوئی بات نہیں آج پیر صاحب کے پاس جائیں گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ پھر کچھ دیر ثمینہ اسمہ کے ساتھ ادھر اُدھر کی باتیں کرنے لگی تبھی نازی بھی آگئ اور وہ ثمینہ کے ہمراہ اسمہ کو لے کر پیر صاحب کے پاس چلی گئی وہاں پہنچتے ہی نازی نے پیر صاحب کے کان میں کھسر پھسر کی تو پیر نے اسمہ کی طرف دیکھتے ہوئے بنا بولے ہی ہاں میں سر ہلایا پھر پیر نے اسمہ کو کہا میرے سامنے آکر بیٹھو اور اسمہ ڈرتی ہوئی ثمینہ کی طرف دیکھتے ہوئے پیر کے سامنے بیٹھ گئی۔ اس کے بعد پیر نے اسمہ سے کہا اب بولو کیا مسلہ ہے تمہارے ساتھ ؟؟ تو اسمہ نے پیر کو وہ سب کچھ بتایا جو جو اسمہ کے ساتھ ہوا ۔ تو پیر نے اپنی آنکھیں بند کر کے کچھ پڑھا اور پھر اسمہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا تیری جان بہت مشکل میں ہے اس لیئے جس جگہ تو رہ رہی ہے وہ جگہ تیرے لیئے قبر بن جائے گی لیکن اس سے بچنے کا واحد راستہ ہے کہ تو اس جگہ کو چھوڑ دے ورنہ جو چیزیں تیرے پیچھے ہیں وہ تجھے اس جگہ پر چین سے رہنے نہیں دیں گی اور ہو سکتا ہے وہ چیزیں ایک دن تیری جان بھی لے لیں اس لیئے بہتر ہو گا کہ تم جتنی جلدی ہو سکے اس جگہ کو چھوڑ کر چلی جاؤ یہ آسمانی چیزیں ہیں جو کہیں سے تیرے پیچھے پڑ چکی ہیں اور یہ ایسے ہی واپس نہیں جائیں گی جب تک ان کا مقصد پورا نہ ہو جائے ۔ اسمہ نے حیرانی سے ثمینہ اور نازی کی طرف دیکھا اور پھر پیر سے کہا پیر صاحب میں نے تو کسی کا کچھ نہیں بگاڑا پھر یہ میری دشمن کیوں بن گئیں اور آخر ان کا مقصد کیا ہے ؟؟ پیر صاحب نے کہا ان کا مقصد تجھے اس جگہ سے باہر کرنا ہے کیونکہ وہ تجھے وہاں برداشت نہیں کر سکتیں ۔ اتنے میں ثمینہ نے کہا پیر صاحب اس کا کوئی اور حل نہیں ہے کیا ؟ پیر نے غصے میں کہا کوئی حل نہیں سوائے اس کے کہ یہ وہ جگہ چھوڑ دے ورنہ وہ چیزیں اس کے ساتھ ساتھ وہاں رہنے والے ہر فرد کو تنگ کریں گی ۔ ثمینہ نے کہا پیر صاحب ٹھیک ہے پر اتنی جلدی ہم دوسری جگہ کا بندوست نہیں کر سکتے تب تک آپ ہمیں کوئی تعویذ ہی دے دیں جو کہ کچھ وقت کہ لیئے اسمہ کو ان چیزوں سے محفوظ رکھ سکے ۔پیر نے کہا ایسا کوئی تعویذ نہیں ہے اب تم لوگ جا سکتے ہو اور جیسا بولا ہے ویسا ہی کرو اب جاؤ یہاں سے ۔ پیر کی یہ بات سنتے ہی تینوں وہاں سے باہر آگئے اور پھر نازی نے کہا اسمہ تم یہیں رکو میں ایک بار پھر سے پیر صاحب سے ریکوئسٹ کر کے آتی ہوں شاید کوئی تعویذ مل ہی جائے ثمینہ نے کہا چلو میں بھی آتی ہوں یہ کہتے ہوئے نازی اور ثمینہ دوبارہ پیر کے آستانے پر گئیں اور کچھ دیر میں ہاتھ میں ایک تعویذ لے کر واپس آگئیں اور نازی اسمہ کی طرف دیکھ کر بولی اوف۔۔۔ بہت مشکل سے یہ تعویذ دیا ہے انھوں نے اور کہا ہے کہ یہ اسمہ کے بازو پر باندھ دو اگر پھر بھی کوئی فرق نا پڑے تو اسمہ کو اس جگہ سے دور لے جانا پھر سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ اسمہ نے ثمینہ اور نازی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے وہ تعویذ نازی سے لے لیا پھر اس تعویذ کو ثمینہ کی مدد سے اسے اپنے بازو پر بندھوا کر بولی چلیں دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے اب ۔ ثمینہ نے کہا سب ٹھیک ہو جائے گا اب چلو یہاں سے ۔ اس کے بعد تینوں وہاں سے گھر واپس آگئے پھر ثمینہ نے اسمہ کو کہا تم یہاں نازی کے پاس بیٹھو میں تم لوگوں کے لیئے چائے لے کر آتی ہوں اسمہ نے کہا آپی چائے میں بنا کر لاتی ہوں ۔ ثمینہ نے کہا ارے نہیں تم بیٹھو نازی کے پاس گپ شپ کرو میں جلدی ہی بنا کر لاتی ہوں ۔ اسمہ نے کہا جی ٹھیک ہے آپی یہ کہتے ہوئے اسمہ نازی کے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگی ۔ اور ثمینہ نے پھر سے چائے بناتے ہوئے اپنے کپڑوں میں چھپایا ہوا ایک تعویذ نکالا اور خود سے کہنے لگی اسمہ اب تو نہیں بچے گی تجھے تو اس گھر سے جانا ہی ہوگا یہ کہتے ہوئے اس نے تعویذ کو آگ لگائی اور اس کی راکھ پھر سے اسمہ کی چائے سے بھرے کپ میں ڈال کر مکس کر دیا پھر وہ چائے لے کر نازی اور اسمہ کی طرف گئی تو نازی نے غلطی سے اسمہ کا کپ اٹھا لیا جس پر ثمینہ جلدی سے کہا ارے نہیں نہیں نازی وہ کپ اسمہ کا ہے ۔ نازی نے جلدی سے وہ کپ اسمہ کو پکڑا دیا یہ دیکھتے ہوئے اسمہ نے حیرانی سے ثمینہ سے پوچھا ارے آپی اس کپ میں ایسا کیا ہے جو کہ نازی آپی نہیں پی سکتیں ؟؟ سب کپ ایک جیسے تو ہیں آپ ان کو پینے دیتیں ؟؟ ثمینہ نے گھبرا کر کہا ارے نہیں نہیں ایسا تو کچھ نہیں ہے میرا مطلب یہ تھا کہ نازی کی چائے میں۔ میں نے چینی ذرا تیز ڈالی ہے کیونکہ یہ بہت تیز چینی پیتی ہے اسی لیئے میں نے اس کا کپ الگ رکھا تھا کیوں نازی ؟؟ یہ سنتے ہی نازی نے بھی ہڑبڑا کر کہا اوہ ہاں ۔۔ ہاں میں چینی تیز پیتی ہوں یہ کہتے ہوئے نازی نے دوسرا کپ پکڑ لیا ۔ اسمہ نے کہا اوہ اچھا اچھا تو یہ بات تھی ۔ نازی نے کہا ہاں بھئ جب تک چائے پوری طرح میٹھی نا ہو مجھے چائے کا مزہ ہی نہیں آتا ۔ اتنے میں اسمہ نے نازی سے کہا نازی آپی سوری دراصل جب پہلی بار میں نے آپ کے لیئے چائے بنائی تھی تو میں نے آپ کی چائے میں نارمل چینی ڈالی تھی کیونکہ مجھے نہیں پتا تھا کہ آپ تیز چینی والی چائے پیتی ہیں ۔نازی نے کہا ارے نہیں اس میں سوری کی کیا بات ہے تمہاری چائے بھی اچھی تھی اور تم نے اتنے پیار سے بنائی تھی تو میں وہ بھی آرام سے پی گئی تھی ۔ اتنے میں ثمینہ سے کہا ارے اب چائے پی لو ٹھنڈی ہو جائے گی اسمہ نے کہا جی جی پی رہی ہوں اس کے بعد سب اپنی اپنی چائے پینے لگے اس دوران ثمینہ اور نازی آنکھوں سے ایک دوسرے کو اشارے کر رہے تھے پھر چائے پی کر نازی اپنے گھر جانے لگی تو اس نے ثمینہ کو اشارے سے ساتھ میں گیٹ تک چلنے کو کہا تبھی ثمینہ نے اسمہ سے کہا تم یہ برتن کچن میں رکھ دو میں نازی کو دروازے تک چھوڑ کر آتی ہوں یہ کہتے ہوئے ثمینہ نازی کے ساتھ باہر چلی گئی اور اسمہ چائے کے برتن اکھٹے کر کے کچن میں چلی گئی ۔ نازی نے باہر جاتے ہی ثمینہ سے کہا باجی کیا وہ تعویذ والی چائے تھی ؟؟ ثمینہ نے کہا ہاں تو اور کیا ۔ نازی نے کہا ارے باپ رے اگر میں وہ چائے پی لیتی تو میرا حال بھی اسمہ جیسا ہو جانا تھا ثمینہ نے کہا اسمہ جیسا نہیں اس سے بھی برا ہو جانا تھا یاد نہیں آج پیر صاحب نے تعویذ دیتے ہوئے کیا کہا تھا؟؟ کہ یہ تعویذ اسمہ کا جینا اور مشکل کر دے گا کیونکہ اسمہ کو تو پتا ہی نہیں ہے کہ اس کی بازو پر جو تعویذ بندھا ہوا ہے وہ اس کی حفاظت کے لیئے نہیں بلکہ وہ تعویذ اس کھانے میں ملانے والے تعویذ کی طاقت بڑھانے کے لیئے ہے بیچاری وہ تو ایسے باندھ کر پھر رہی ہے جیسے سب کچھ واقعی میں ٹھیک ہو جائے گا ۔ یہ کہتے ہوئے نازی اور ثمینہ کھلکھلا کر ہسنے لگے تبھی نازی نے کہا ویسے اس بیچاری کو تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ ہم دوبارہ پیر صاحب کے پاس کیا لینے گئے تھے۔ یہ سن کر ثمینہ نے ہنستے ہوئے کپڑوں میں چھپائے ہوئے باقی تعویذ نکال کر نازی کو دیکھائے تو دونوں پھر سے زور زور سے ہنسنے لگے پھر نازی نے کہا ثمینہ باجی اچھا اب میں چلتی ہوں اور یہ تعویذ چھپا لو کہیں وہ آکر دیکھ ہی نہ لے ثمینہ نے گیٹ سے اندر دیکھا پھر جلدی سے اس نے باقی کے تعویذ دوبارہ اپنے کپڑوں میں چھپا لیئے اس کے بعد نازی چلی گئی اور ثمینہ اسمہ کے ساتھ گھر کے کام وغیرہ میں مصروف ہو گئی کچھ دیر کام کرنے کے بعد ثمینہ نے کہا اسمہ اب میں کچھ دیر آرام کرنے لگی ہوں تم بھی چاہوں تو جا کر آرام کرلو اسمہ نے کہا آپی آپ جائیں میں ٹی وی دیکھنے لگی ہوں ثمینہ نے کہا ٹھیک ہے اور اپنے کمرے میں چلی گئی پھر اسمہ ٹی وی لاؤنچ میں بیٹھی ہوئی ٹی وی دیکھ رہی تھی کہ اچانک چھن چھن کی آواز اسمہ کے پاس سے آنے لگی اسمہ نے یہ آواز سنتے ہی جلدی سے ٹی وی کی آواز کم کی اور پھر سے ادھر اُدھر دیکھ کر چھن چھن کی آواز پر غور کرنے لگی تبھی اچانک پھر سے چھن چھن کی آواز اس کے آس پاس سے آنے لگی ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی پاؤں میں گھنگرو یا پازیب پہن کر اسمہ کے گرد چکر لگا رہا ہے اسمہ صوفے پر چپ چاپ بیٹھی ہوئی اپنے بازو پر بندھے ہوئے تعویذ کو دیکھنے لگی پھر اچانک چھن چھن کی آواز بند ہو گئی اسمہ کافی ڈر گئی تھی لیکن جب چھن چھن کی آواز آنی بند ہو گئی تو اسمہ نے ایک لمبی سانس لیتے ہوئے اپنے بازو پر بندھے تعویذ کو دیکھتے ہوئے کہا اوہ۔۔۔۔ شکر ہے یہ کہتے ہوئے اسمہ پھر سے ٹی وی دیکھنے لگی تبھی اچانک اسمہ کے بالوں کی چوٹی خودبخود ہی اوپر کو ہونے لگی پھر ایک دم سے کسی نے اسی چوٹی زور سے کھینچی اور اسمہ چلا کر وہاں سے ثمینہ کے کمرے کی طرف بھاگنے لگی اور اس کے ساتھ ساتھ چھن چھن کی آواز بھی تیز ہونے لگی جیسے کہ وہ چیز بھی اسمہ کے پیچھے بھاگ رہی ہو ۔ لیکن اسمہ جلدی سے دوڑ کر ثمینہ کے کمرے میں چلی گئی اور اسمہ کا شور سن کر ثمینہ بھی گھبرا کر اٹھ گئی اسمہ جلدی سے جا کر ثمینہ سے لپٹ گئی اس وقت اسمہ پوری طرح سے کانپ رہی تھی ثمینہ نے اسمہ کی یہ حالت دیکھ کر پوچھا اسمہ کیا ہوا تم اتنی ڈری ہوئی کیوں ہو ؟؟ اسمہ نے ثمینہ کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا بس دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چپ چاپ کانپتی ہوئی ثمینہ سے لپٹی رہی ۔ پھر ثمینہ نے دروازے کی طرف دیکھا اور مسکرانے لگی تبھی اسمہ نے کہا آپی مجھے اب یہاں نہیں رہنا آپی مجھے اپنے گھر جانا ہے اپنے بابا کے پاس وہ مجھے ۔۔۔۔۔ وہ مجھے۔۔۔۔ پلیز آپی وہ مجھے نہیں چھوڑے گی مجھے اپنے بابا کے گھر جانا ہے آپی کچھ کریں ثمینہ نے اسمہ کو جھوٹا دلاسہ دیتے ہوئے کہا ارے کچھ نہیں ہو گا تمہیں میں ہوں نا تمہارے ساتھ ۔ کچھ نہیں ہو گا چلو تم میرے ساتھ باہر چلو ۔ اسمہ نے کہا نہیں آپی وہ باہر ہے مجھے نہیں جانا آپی وہ وہاں ہے ثمینہ نے مسکراتے ہوئے کہا ارے تم چلو میرے ساتھ میں دیکھتی ہوں اس کو آؤ شاباش میرے ساتھ کچھ نہیں ہو گا یہ کہتے ہوئے ثمینہ اسمہ کا ہاتھ پکڑ کر اسے کمرے سے باہر لے آئی اور بولی بتاؤ کہاں ہے وہ ؟؟ اسمہ نے اپنی کانپتی ہو انگلی سے ٹی وی لاؤنچ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا وہ وہاں ہے اس نے گھنگرو پہنے ہوئے ہیں وہاں ہے وہ ۔۔۔ اسمہ کی یہ بات سن کر ثمینہ ہنستے ہوئے بولی ارے کس نے گھنگرو پہنے ہوئے ہیں وہاں کیا وہ ناچ رہی ہے گانے لگا کر ؟؟ اسمہ نے کہا آپی میں مزاق نہیں کر رہی وہ وہاں ہے خدا کے لیئے میرا یقین کریں ۔ ثمینہ نے کہا اچھا اچھا چلو تبھی اسمہ نے ثمینہ سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا نہیں میں نہیں جاؤں گی وہاں ثمینہ نے ذبردستی اسمہ کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا ارے چلو آؤ دیکھو میں بھی تو ہوں تمہارے ساتھ چلو یہ کہتے ہوئے ثمینہ اسمہ کو لے کر ٹی وی لاؤنچ میں چلی گئی وہاں جاتے ہی ثمینہ نے کہا بتاؤ کہاں ہے وہ اسمہ ثمینہ کے پیچھے چھپتی ہوئی ادھر اُدھر دیکھ رہی تھی لیکن اس وقت وہاں کوئی نہیں تھا اور نہ ہی کوئی گھنگرو کی آواز سنائی دے رہی تھی پھر ثمینہ نے اسمہ کو کہا دیکھو یہ جو تعویذ تم نے بازوں پر باندھا ہوا ہے اب اس کی وجہ سے تمہیں کوئی خطرہ نہیں ہے وہ بس اب تمہارا وہم ہے اس لیئے اب تمہیں خود کو اس وہم سے باہر نکالنا ہو گا ٹھیک ہے دیکھو کچھ نہیں ہے اب ؟؟ اسمہ نے بنا بولے ہی ڈرتے ہوئے ہاں میں سر ہلا دیا ۔ پھر اس دن اسمہ ثمینہ کے ساتھ ساتھ رہنے لگی وہ زیادہ سے زیادہ وقت ثمینہ کے ساتھ ہی رہ رہی تھی یہاں تک کہ اگر ثمینہ واشروم بھی جاتی تو اسمہ کسی نہ کسی بہانے سے واشروم کے دروازے کے پاس رکی رہتی۔ شام کو جب سعید گھر واپس آیا اور پھر سب نے کھانا وغیرہ کھایا تو ثمینہ نے سعید کو اسمہ کے بارے میں بتایا اور پیر صاحب کے بارے اور ان کے اسمہ کو دیئے ہوئے تعویذ کے بارے میں بتایا اس دوران اسمہ نے بھی سعید کو اپنے ساتھ دن میں ہوئے واقعے کے بارے میں بتایا جس پر ثمینہ نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ پردہ ڈالتے ہوئے سعید سے یہ کہہ دیا کہ وہ سب اسمہ کا وہم تھا کیونکہ اس تعویذ کے ہوتے ہوئے اسمہ بالکل محفوظ ہے اور آگر کوئی چیز ہوتی بھی تو بھی وہ اسمہ کو کچھ نہیں کہہ سکتی تھی ۔ تبھی سعید نے اسمہ سے کہا ارے تم آئیت الکرسی پڑھتی رہا کرو جب بھی اکیلی ہوتی ہو ۔ اسمہ نے کہا وہی پڑھتی ہو پتا نہیں جب بھی میں کوئی آئیت پڑھنے لگتی ہوں تو میرے منہ الفاظ سہی سے نہیں نکلتے جس سے میں سہی سے پڑھ نہیں پاتی جبکہ کہ مجھے بہت سی آیات زبانی یاد ہیں اور میں جب اپنے بابا کے گھر میں تھی تو کبھی مجھے سے آیات پڑھنے میں زیر زبر کی بھی غلطی نہیں ہوتی تھی لیکن یہاں آکر ایسا لگتا ہے جیسے مجھے کچھ یاد ہی نہیں ہے پتا نہیں کیا ہوا ہے مجھے ۔ یہ کہتے ہوئے اسمہ رونے لگی۔ 

سعید نے اسمہ کو چپ کراتے ہوئے کہا دیکھو تم رو مت سب ٹھیک ہو جائے گا اور اگر تمہاری حفاظت کے لیئے مجھے تمہیں یہاں سے کہیں اور بھی رکھنا پڑا تو میں تمہیں وہاں ہی رکھ لوں گا میں تمہیں الگ سے گھر لے دونگا ۔ یہ سنتے ہی ثمینہ نے کہا نہیں نہیں الگ گھر کیوں لے کر دینا ہے یہ یہی میرے پاس ہی رہے گی میں اس کا خیال رکھوں گی اور میں کل پھر سے اس کو پیر بابا کے پاس لے کر جاؤں گی مجھے امید ہے کہ سب ٹھیک ہو جائے گا آپ اطمینان رکھیں ۔ سعید نے ثمینہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ارے کیا وہ تمہارا پیر بابا ٹھیک آدمی بھی ہے کہ نہیں ؟؟ جس کے بارے میں تم نے مجھے بتایا ؟؟؟ ثمینہ نے کہا جی جی بالکل سہی ہے ۔ سعید نے اپنا سر کجھاتے ہوئے کہا اچھا۔۔۔۔ پر پتا نہیں کیوں مجھے اس پیر بابا کی باتوں پر پوری طرح یقین نہیں آرہا کیونکہ ہمارے گھر میں پہلے تو ایسا ویسا کبھی کچھ نہیں ہوا اور نہ ہی کبھی ایسا کچھ نظر آیا ہے جو کہ وہ پیر بابا اس گھر کو اسمہ کے لیئے غیر محفوظ کہہ رہا ہے ؟؟ ثمینہ نے کہا نظر تو مجھے بھی کچھ نہیں آیا پر آپ پیر بابا کے بارے میں ایسا کیوں بول رہے ہیں ہو سکتا ہے کہ پیر بابا سہی کہتے ہوں کہ یہ چیزیں بھی اسمہ کے ساتھ ہی اس گھر میں آگئ ہوں اور وہ اسمہ کو اس گھر سے نکالنا چاہتی ہوں ۔ سعید نے ایک لمبی سانس لیتے ہوئے نہ میں سر ہلاتے ہوئے کہا پتا نہیں کیا سہی ہے کیا غلط مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا خیر تم صبح پھر سے اس پیر سے بات کرو اور اسے بتاؤ کہ اس کے باندھے ہوئے تعویذ کے بعد بھی اسمہ کو وہ چیزیں نظر آرہی ہیں کچھ کرے ورنہ میں اسمہ کو کسی اور کے پاس لے کر جاتا ہوں کیونکہ وہم وہم کہہ کر ہی ہم اس بیچاری کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں لیکن اب مجھے اسمہ کی باتوں پر پوری طرح بھروسہ ہے کہ یہ جو بھی کہہ رہی ہے وہ سب سچ ہے اور ہمیں جلدی سے جلدی اسمہ کی حفاظت کے لیئے کچھ کرنا ہوگا کیونکہ اب مجھے اس ڈاکٹر کی بات کی سمجھ لگ رہی ہے کہ اگر مسلہ ہو تو اس کا فوری حل کر لینا چاہیئے ورنہ وہ مسلہ مسائل میں تبدیل ہو جاتا ہے اور مسائل کا حل دیر سے ہوتا ہے اور مشکل ہوتا ہے ۔ سعید کی یہ بات سن کر ثمینہ نے کہا آپ بس مجھے کل تک کا وقت تو دیں میں اس مسلے کو حل کر لوں گی ۔ سعید نے کہا ٹھیک ہے ورنہ مجھے بتانا ۔ یہ کہتے ہوئے سعید اسمہ کے ساتھ کمرے میں چلا گیا ۔ پھر اس رات کو جب اسمہ سو رہی تھی تو اس خواب میں ایک گھر دیکھا جہاں صحن میں ایک بڑا سا برگد درخت لگا ہوا تھا اور اسمہ اسی درخت کو دیکھ کر بہت خوش ہو رہی تھی کیونکہ اس درخت کے نیچے کچھ بچے کھیل رہے تھے جو کہ اسمہ کو امی امی کہہ کر بلا رہے تھے تبھی ان میں سے بھاگتے ہوئے ایک بچہ گرتا ہے جسے دیکھ کر اسمہ زور سے اس بچے کو آواز دیتی ہے ۔ تبھی اچانک سے اسمہ کی آنکھ کھل گئی اور وہ ادھر اُدھر دیکھنے لگی پھر اسمہ تھوڑا سا مسکرائی اور پھر سے سو گئی اگلے دن پھر سے سعید کے جانے کہ بعد ثمینہ اسمہ کو لے کر پیر صاحب کے پاس گئی اور پیر کو اسمہ کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ کچھ بھی کریں لیکن اسمہ کو اب سے دوبارہ کوئی چیز نظر نہ آئے کیوں میرے شوہر نے مجھے کہا ہے کہ اگر پیر صاحب سے کچھ نہیں ہوگا تو وہ اسمہ کو کسی اور کے پاس لے جائیں گے یہ کہتے ہوئے ثمینہ نے پیر کو آنکھوں سے کچھ اشارا کیا تو پیر ثمینہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہنے لگا تمہارا شوہر ان چیزوں کو نہیں سمجھتا اسی لیئے وہ نادانی کی باتیں کر رہا ہے لیکن پھر بھی بات میری عزت کی ہے تو اب میں اسے ایسا تعویذ دونگا کہ اب سے کوئی چیز اس کے پاس بھٹکے بھی نہیں ۔ یہ کہتے ہوئے پیر نے اسمہ کے بازوں پر بندھا ہوا تعویذ اتارا اور اسمہ کو ایک اور تعویذ دیا اور کہا اسے اپنے گلے میں پہن لو لیکن اسے کسی بھی حالت میں مت اتارنا ۔ اسمہ نے کہا جی میں نہیں اتاروں گی اس کے بعد ثمینہ اسمہ کے ساتھ پیر کے آستانے سے باہر آگئ اور پھر اچانک بولی اسمہ ایک منٹ رکو میں نے پیر صاحب کو پیسے تو دیئے ہی نہیں تم یہی رکو میں ابھی پیسے دے کر آتی ہوں یہ کہتے ہوئے ثمینہ پیر کے پاس چلی گئی اور پیر سے کہا پیر صاحب کیا اب واقعی میں اسمہ ٹھیک ہو جائے گی ؟ پیر نے ہنستے ہوئے کہا میں اتنا بیوقوف نہیں ہوں جب تم مجھے اسمہ اور اپنے شوہر کے ارادوں کے بارے میں بتا رہی تھی تو میں تمہارا اشارا سمجھ گیا تھا لیکن تم گھبراؤ مت ویسا ہی ہو گا جیسا تم چاہتی ہو بس اس تعویذ سے کچھ مہینوں تک وہ چیزیں اسمہ کو نظر نہیں آئیں گی لیکن وہ ہر وقت اسمہ کے پاس ہی ہونگی اور جیسے ہی تعویذ اترے گا وہ اس پر حاوی ہو جائیں گی پھر اس کے بعد اسمہ زندگی میں کبھی ماں نہیں بن پائے گی کیونکہ یہ کالا جادو ہے اتنی آسانی سے اسمہ کی جان نہیں چھوڑے گا ۔ بس وہ جو تعویذ میں نے تمہیں دیئے ہیں وہ کھانے پینے کی چیزوں میں ملا کر دیتے رہنا باقی کا کام وہ شیطانی چیزیں خود کریں گی ۔ پیر کی یہ بات سن کر ثمینہ مسکرانے لگی اور پھر ثمینہ نے کچھ پیسے پیر کو دیئے اور وہاں سے اسمہ کے ساتھ گھر واپس آگئی ۔ اس دن کے بعد اسمہ کو کوئی چیز نظر نہیں آئی اور نہ ہی کبھی کسی چیز نے اسمہ کو تنگ کیا لیکن اس دوران ثمینہ کھانے پینے کی چیزوں میں تعویذات ملا کر اسمہ کو دیتی رہی ۔ پھر ایک دن اسمہ اپنے کمرے میں سو رہی تھی تو اس دوران نازی ثمینہ سے ملنے آئی تو ثمینہ اسے اپنے کمرے میں لے گئی اور نازی کو پیر صاحب سے ہوئی باتوں کے بارے میں بتایا تو نازی حیرت سے ثمینہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ارے آپی جب سعید بھائی اسمہ کو اس گھر سے دور لے کر جانے لگے تھے تو اس کی کیا ضرورت تھی اچھا ہی تھا نا کہ سعید بھائی اسمہ کو الگ گھر کے کر دے دیتے اس طرح آپکی اسمہ سے جان بھی چھوٹ جاتی اور آپ بھی تو یہی چاہتی تھیں نا کہ اسمہ پاگل ہو کر اس گھر سے چلی جائے اور سعید بھائی اسے چھوڑ دیں ؟؟

 ثمینہ نے کہا ارے تم یہ کیا فضول باتیں کر رہی ہو ؟ سعید اسے چھوڑنے کی نہیں بلکہ اس کا علاج کروانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اب تو سعید کو بھی یقین ہو گیا ہے کہ اسمہ کے ساتھ ضرور کچھ برا ہو رہا ہے اس لیئے وہ اب اسمہ کو کبھی بھی نہیں چھوڑیں گے اسی لیئے اب میں چاہتی ہوں کہ اسمہ کبھی ماں نہ بن پائے اور اس طرح سعید کی نظروں میں اسمہ کی قدر کم ہو جائے گی کیونکہ وہ بھی میری طرح بانجھ ہی کہلائے گی اور پھر اس دن میں اسمہ کو اس گھر سے نکلوا دوں گی کیونکہ تب سعید کو بھی یقین ہو جائے گا کہ اسمہ ماں نہیں بن سکتی تو وہ اسے آسانی سے چھوڑ دیں گے ۔ لیکن اگر ابھی اسمہ اس گھر سے جاتی ہے تو وہ اور زیادہ مضبوط ہو جائے گی اور ہو سکتا ہے کہ دوسرے گھر جانے کے بعد سعید اس کا علاج کروا کر اسے ٹھیک کرلیں یاں پھر اسمہ کا باپ جو کہ کسی دربار کا گدی نشین ہے وہ ہی اسمہ کو ٹھیک کر لے گا اور پتا لگا لے گا اسمہ کے ساتھ یہ سب کس نے کروایا اور یہ سب ہونے کے بعد وہ ماں بن جائے گی تب تو سعید مجھے ہی چھوڑ دیں گے اس کے چکر میں ۔ اسی لیئے اسمہ کا میری نظروں کے سامنے رہنا بہت ضروری ہے یہاں کم سے کم میں اس پر نظر تو رکھ سکوں گی اور اس کے ہر علاج کو میں مشکل سے مشکل بنا دونگی ۔

بغص کی آگ (قسط نمبر 5)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے