پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 17

Sublimegate Urdu Font Stories

 پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 17


اس کے ارد گرد آگ کے شعلے بلند ہونے لگے۔ پجاری رگھوکی گرج دار آواز ایک بار پھر بلند ہوئی ۔ "روہنی ! اب تو میری قید میں ہے ۔ تجھے اب کوئی نہیں بچا سکتا۔ تیرے منتر مجھ پر کوئی اثر نہیں کریں گے ۔ ہمارے ارد گرد آگ کی چار دیواری کھڑی ہوگئی تھی۔ روہنی نے گھبراہٹ میں مجھ سے کہا۔ "شیروان بھاگ کر جان بچاؤ۔" اور اس کے ساتھ ہی اس نے مجھے آگ کی دیوار کے اوپر سے پیچھے کی جانب اچھال دیا۔ میں روہنی کی مٹھی سے نکل کر شعلوں کی دیوار سے دور جھاڑیوں میں آ کر گرا۔ 

جھاڑیوں میں گرتے ہی میں جتنی تیز رینگ سکتا تھا۔
رینگ کر دوڑنے لگا۔ میرا رخ متھرا شہر کی طرف تھا۔ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ پجاری رگھو کو میں نظر نہیں آیا تھا ورنہ میں وہاں سے جان بچا کر نہیں نکل سکتا تھا۔ پجاری رگھو مجھے آسانی سے ہلاک کر سکتا تھا۔ دلہن کی کھوپڑی کی راکھ نے مجھے اس کی نگاہوں سے چھپا لیا تھا مگر روہنی کو نہ چھپا سکی تھی۔ اس کی شاید یہ وجہ ہو سکتی ہے کہ روہنی ایک بدروح تھی اور ایک بدروح اگر دوسری بدروح سے طاقتور ہو تو وہ دوسری کو غیبی حالت میں بھی دیکھ لیتی ہے اور پجاری رگھو کی بدروح بدی کے معاملے میں بہت طاقت ور تھی۔ اس نے شاید روہنی کو اسی وقت دیکھ لیا تھا جب وہ چتا کے چبوترے پر اپنے تخت سے اتر کر ایک پل کے لئے ساکت ہو گیا تھا۔

وہ کوٹھڑی میں اس لئے داخل ہوا تھا کہ روہنی اس کے پیچھے ضرور آۓ گی۔ کوٹھڑی میں جا کر وہ غائب ہو گیا۔ جب میں اور روہنی کوٹھڑی میں گئے تو کوٹھڑی خالی تھی۔ ہم پجاری رگھو کی تلاش میں باہر آگئے ۔ باہر پجاری رگھو روہنی کو پکڑنے کے لئے اپنا طلسمی جال بچھا چکا تھا۔ چنانچہ اس کے بعد روہنی اس کے جال میں پھنس گئی۔ لیکن اس نے مجھے آگ کی دیوار کے اوپر سے اچھال کر بچا لیا تھا۔ اس وقت مجھے خیال آیا کہ اگر میں روہنی کی ہدایت پر عمل نہ کرتا اور مالینی بدروح کا چار لفظی آتشی منتر پڑھ کر غائب ہوتا تو خدا جانے میں کسی ہا تھی یا لومڑ کے روپ میں ظاہر ہو جاتا اور دونوں صورتوں میں میرا آگ کی چار دیواری میں سے جان بچا کر نکلنا مشکل بلکہ ناممکن تھا کیونکہ آگ کی یہ دیوار دس فٹ چوڑی تھی اور اس کی تپش اتنی تھی کہ دور ہی سے آدمی جل جاۓ۔

مجھے روہنی کے پکڑے جانے کا افسوس تھا۔ مگر اس وقت مجھے اپنی جان کی فکر پڑی ہوئی تھی۔ روہنی نے کہا تھا اگر ایسی صورت حال پیدا ہو جاۓ تو تم میری فکر نہ کرنا اور جان بچا کر سیدھا جےپور کے ویران قلعے میں پہنچنا وہاں آدھی رات کے بعد درگا کی بدروح آۓ گی اسے بتانا کہ پجاری رگھو نے روہنی کو اپنے قبضے میں کر لیا ہے اور اس سے گن گن کر بد لے لے گا اور ایسی جگہ دفن کر دے گا جہاں سے شاید وہ قیامت تک باہر نہ نکل سکے گی ۔ اب مجھے متھرا شہر سے جے پور جانا تھا۔ میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ایک چھوٹے سے سانپ کی حیثیت سے میں یہ طویل سفر کیسے طے کروں گا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ میں انسانوں کی طرح دیکھ سکتا تھا، انسانوں کی طرح سوچ سکتا تھا، مجھے سردی گرمی کا احساس نہیں تھا۔ مگر میں غیبی حالت میں نہیں تھا۔ لوگ مجھے دیکھ سکتے تھے اور سانپ اور انسان کی دشمنی شاید ازل سے چلی آ رہی ہے ۔ آدمی جہاں کسی سانپ کو دیکھتا ہے اسے مارنے دوڑتا ہے ۔ دوسری مشکل یہ تھی کہ میں صرف رینگ سکتا تھا انسانوں کی طرح چل نہیں سکتا تھا اور انسانوں کی طرح ٹرین میں سوار ہو کر جے پور نہیں پہنچ سکتا تھا۔ مجھے سانپ کی طرح رینگ رینگ کر متھرا شہر سے جے پور پہنچنا تھا جو اس حالت میں مجھے ایک ناممکن بات دکھائی دے رہی تھی۔ مجھے تو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ جے پور کی طرف کون سی سڑک جاتی ہے۔

اگر مجھے سڑک کا علم بھی ہو جاتا تو ایک چھوٹے سے سانپ کے لئے اتنے لمبے سفر میں قدم قدم پر موت کا خوف موجود تھا۔ اس علاقے میں بندر عام تھے۔ راستے میں جنگل بھی بڑتے تھے۔ اگر جنگل میں کسی بندر کی مجھ پر نظر پڑ گئی تو وہ میری تکا بوٹی کر سکتا تھا۔ راستے میں گاؤں بھی آتے تھے۔ کسی آدمی کی نظر مجھ پر پڑ گئی تو وہ سانپ سانپ کا شور مچا دے گا۔ لوگ لاٹھیاں پکڑ کر میرے پیچھے دوڑیں گے اور مجھے مار کر ہی دم لیں گے۔ میرے لئے متھرا سے جے پور تک قدم قدم پر موت منہ پھاڑے کھڑی تھی۔ میں شمشان گھاٹ کے علاقے سے نکل آیا تھا اور اب ایک کھیت کی مینڈھ پر متھرا شہر کی دور سے دکھائی دینے والی روشنیوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔

سمجھ میں نہیں آتا تھا کیا کروں۔ میرے لئے ریلوے سٹیشن کا راستہ معلوم کرنا ہی مشکل تھا۔ میں انسانوں کی آواز میں بول کر کسی کو اپنا ڈکھڑا نہیں سنا سکتا تھا۔ میں صرف پھنکار سکتا تھا اور سیٹی بجا کر بات کر سکتا تھا۔ روہنی اس لئے میری زبان سمجھ لیتی تھی کہ وہ ایک بدروح تھی اور بدروحیں دنیا کے تمام کیٹرے مکوڑوں کی بھی بولی سمجھ لیتی ہیں ۔ میرے ساتھ یہی ایک سہولت تھی کہ میں اندھیرے میں بھی دیکھ سکتا تھا۔ سانپ اندھیرے میں بھی دیکھ سکتے ہیں ۔ لیکن مجھے اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا کیونکہ مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ کون سا راستہ ریلوے سٹیشن کو جاتا ہے۔ مجھے یہ بھی علم نہ تھا کہ اگر میں ریلوے سٹیشن پہنچ بھی گیا تو ٹرین میں کیسے سوار ہوں گا۔

سٹیشن پر تو روشنیاں ہوں گی وہاں تو لوگ مجھے آسانی سے دیکھ لیں گے اور مجھے ایک سیکنڈ میں کچل دیں گے۔ روہنی نے ایک اور بڑی خوفناک بات کہی تھی۔ اس نے کہا تھا اگر تمہیں کسی نے کچل دیا، مار دیا تو تم مرو گے نہیں بلکہ غائب ہو جاؤ گے اور غائب ہونے کے ایک گھنٹے یا ایک دن بعد یا تو اپنی اصلی شکل میں ظاہر ہو جاؤ گے یا پھر دوبارہ سانپ کی شکل میں ظاہر ہو جاؤ گے ۔

میں ان پریشان خیالات میں الجھا کھیتوں میں سے رینگتا ہوا ایک میدان میں نکل آیا۔ میں نے گردن اٹھا کر ایک جانب دیکھا۔ مجھے کچھ فاصلے پر ریلوے سگنل کی سرخ بتی نظر آئی۔ میں نے سوچا اگر میں ریلوے لائن پر پہنچ کر ریل کی پٹڑی کے ساتھ ساتھ اپنا سفر شروع کر دوں تو ایک نہ ایک دن جے پور پہنچ جاؤں گا۔ مگر سوال یہ تھا کہ مجھے یہ کیسے پتہ چلے گا کہ یہ ریل کی پٹڑی جے پور کی طرف ہی جاتی ہے۔ متھرا سے جے پور جاتے ہوۓ راستے میں آگرہ کا بڑا شہر آتا ہے اور وہاں سے جے پور کے لئے ریلوے لائن بدلنی پڑتی ہے۔ اگر بالفرض محال میں آگرہ تک پہنچ بھی جاتا ہوں تو مجھے کون بتائے گا کہ فلاں ریلوے لائن جے پور کی طرف جاتی ہے ۔ میں سخت مشکل میں پھنس گیا تھا۔ میری عقل جواب دے گئی تھی۔ صرف ایک خدا کا سہارا ہی تھا اور میں دل میں اسی سے مدد کی دعائیں مانگ رہا تھا۔ جھاڑیوں ، سرکنڈوں اور سوکھی گھاس میں رنگتے رنگتے آخر میں سگنل کی سرخ بتی کے قریب پہنچ گیا۔

ریلوے لائن زمین سے اونچی تھی۔ میں اوپر آ گیا۔ میں نے دیکھا کہ میری بائیں جانب دور متھرا ریلوے سٹیشن کی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ دائیں جانب ریل کی پڑی دور تک چلی گئی تھی۔ میں نے آسمان پر نگاہ ڈالی اور تاروں کی مدد سے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ پچتم یعنی جنوب کس طرف ہے۔ کیونکہ متھرا سے شمال کی جانب دلی تھا اور جنوب کی طرف آگرہ تھا جہاں سے مشرق کی جانب جے پور کے لئے ریلوے لائن بدلتی تھی۔ اگر دن کا وقت ہوتا تو مجھے سورج سے اندازہ ہو سکتا تھا کہ شمال جنوب کس طرف ہے مگر رات کے وقت کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔

آخر میں نے یہی فیصلہ کیا کہ کسی جگہ چپ کر مجھے سورج نکلنے کا انتظار کرنا چاہئے۔ ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ جنگلی جھاڑیاں دور تک چلی گئی تھیں۔ میں ایک جھاڑی میں گھس کر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا کہ میں کہاں سے چلا تھا اور کہاں آ گیا ہوں۔ کیا تھا اور کیا ہو گیا ہوں۔ میرے آباؤ اجداد میں سے کبھی کسی نے تصور تک نہیں کیا ہوگا وہ انسان سے سانپ بن جائے گا۔ خدا کا شکر ہے کہ میرا ذہن انسانوں کی طرح کام کر رہا تھا۔ مجھے اپنے بچپن کے بمبئی والے دوست جمشید کا خیال آگیا۔
اگر وہ مجھے اس عالم میں دیکھ بھی لے تو اسے بھی یقین تو کیا خیال بھی نہیں آ سکتا کہ یہ جو چھوٹا سا سانپ جھاڑیوں میں سمٹ کر بیٹھا ہوا ہے یہ اس کا دوست فیروز ہے ۔ لیکن میں اس چکر میں پھنس چکا تھا۔ میں نے اپنی حماقت سے بدروحوں کے چیتے کو چھیٹر دیا تھا اور اب بدروحیں میرے پیچھے پڑ چکی تھیں ۔ اگر میرا ذہن بھی سانپ کا ذہن ہو گیا ہوتا تو مجھے صبح کے انتظار کی کوفت نہ اٹھانی پڑتی کیونکہ سانپوں کو قدرت نے وقت کے احساس کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر دی ہوئی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سانپ سردیوں کے موسم اپنے بل میں پڑے پڑے بڑے سکون سے گزار دیتے ہیں ۔ انہیں وقت کے گزرنے کا زیادہ احساس نہیں ہوتا مگر میرا ذہن انسان کا ذہن تھا مجھے وقت کے ایک ایک پل کے گزرنے کا احساس ہو رہا تھا۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد میں جھاڑیوں میں سے نکل کر آسمان پر بکھرے ہوۓ تاروں کو دیکھ لیتا تھا کہ صبح ہوئی ہے یا نہیں . . . . . ایک بار میں آسمان کو دیکھنے جھاڑی سے باہر نکلا تو میں نے دیکھا کہ سگنل کی بتی جو پہلے سرخ تھی اب سبز ہو گئی ہے ۔ اس کا مطلب تھا کہ سٹیشن کی طرف سے کوئی ٹرین آنے والی تھی۔

میں یونہی ٹرین دیکھنے کے لئے وہیں بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد دور سے انجن کی سیٹی کی آواز سنائی دی۔ میں نے سٹیشن کی طرف نگاہیں اٹھا کر دیکھا انجن کی ہیڈ لائٹ کی روشنی نظر آئی جو آہستہ آہستہ قریب ہوتی جارہی تھی۔ پھر انجن کی چیک چیک کی آواز بھی آنے لگی۔ ابھی انڈیا میں ڈیزل ٹرینوں کا رواج نہیں ہوا تھا اور کوئلوں سے چلنے والے انجن چلتے تھے۔ مجھے زمین کی تھر تھراہٹ محسوس ہو رہی تھی۔ ٹرین قریب آگئی تھی۔ میں جلدی سے جھاڑیوں میں گھس گیا اور انجن شور مچاتا، دھڑ دھڑاتا زمین کو ہلاتا تیزی سے گزر گیا اور پھر ٹرین گزرنے لگی۔ زمین کی اتنی تھر تھراہٹ میں نے انسان کے روپ میں ٹرین گزرتے وقت کبھی محسوس نہیں کی تھی۔

ٹرین گزر گئی۔ شور اور تھر تھراہٹ آہستہ آہستہ ختم ہو گئی اور ایک بار پھر رات کا سناٹا چھا گیا۔ آخر خدا خدا کر کے آسمان پر دن کا اجالا نمودار ہونا شروع ہو گیا۔ کچھ دیر کے بعد سورج طلوع ہو گیا۔ سورج کے طلوع ہونے کے بعد میں ریلوے پٹڑی پر آ گیا۔

اور سورج کی طرف دیکھ کر اندازہ لگا لیا کہ جنوب کا رخ کس جانب ہے۔ مجھے معلوم ہوا کہ رات کو جو ٹرین گزری تھی وہ جنوب کی طرف ہی جارہی تھی اور آگرہ شہر بھی اس طرف تھا۔ چنانچہ میں ریل کی پٹڑی کے ساتھ ساتھ جنوب کے رخ پر چل پڑا۔ مجھے یہ احساس نہیں تھا کہ میں کتنی دیر تک رینگتا رہا۔ اتنا ضرور دیکھ لیا تھا کہ میں متھرا شہر سے کافی دور نکل آیا تھا۔ پہلے میری دونوں جانب کھیت تھے اب جنگلاتی علاقہ شروع ہو گیا تھا۔ آخر میں رینگتے رینگتے تھک گیا۔
سورج آسمان پر کافی اوپر آ چکا تھا۔ دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ میں ذرا دم لینے کے لئے ایک جھاڑی میں گھس کر بیٹھ گیا۔ کنڈلی مار کر بیٹھا تھا۔ اپنا چھوٹا سا سر نیچے کئے ہوۓ تھا۔ پتہ نہیں پندرہ منٹ گزرے تھے کہ ایک گھنٹہ گزر گیا تھا ، مجھے دو آدمیوں کے باتیں کرنے کی آواز سنائی دی۔ آواز قریب آرہی تھی۔ شاید یہ آدمی ریل کی پلڑکی کے ساتھ ساتھ چلے آرہے تھے ۔ جب وہ قریب آۓ تو مجھے ان کی گفتگو سنائی دینے لگی۔ایک آدمی دوسرے سے کہہ رہا تھا۔ یہاں کچھ ہے۔ ۔ دوسرے نے کہا۔ " مجھے بھی ایسے لگ رہا ہے ۔ پہلے کی آواز آئی۔’’ بڑا انمول کیٹر لگتا ہے ۔
‘‘ میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ یہ کون لوگ ہو سکتے ہیں اور کس انمول کیڑے کی بات کر رہے ہیں کہ اچانک مجھے بین کی آواز آنے لگی۔ میں فور ا سمجھ گیا کہ یہ سپیرے ہیں اور انہوں نے میری بو سونگھ لی ہے اور اب مجھے پکڑنا چاہتے ہیں ۔ میں نے وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی تو مجھے محسوس ہوا کہ میں خواہش کے باوجود بھاگ نہیں سکتا تھا بھاگنے کو میرا جی نہیں چاہتا۔ بین کی آواز نے مجھ پر ایک جنون کی کیفیت طاری کر دی تھی۔ میرا ذہن ضرور انسان کا تھا لیکن میرا جسم سانپ کا تھا اور سانپ کے کان نہیں ہوتے بلکہ وہ اپنے جسم کے مساموں سے سنتا ہے ۔ میرے جسم کے مساموں پر بین کی آواز کا اثر ہونے لگا تھا۔ میرا جی بے اختیار جھومنے کو چاہ رہا تھا۔
بین کی لے تیز ہوتی جارہی تھی۔ میرا سر اپنے آپ اوپر کو اٹھ گیا اور چھوٹا سا پھن بھی خود بخود کھل گیا اور میں بین کی آواز پر جھومنے لگا۔ اس کے تھوڑی دیر بعد مجھے ایسے لگا جیسے کوئی جھاڑی کی شاخوں کو ادھر ادھر ہٹا رہا ہے۔ میں سمجھ گیا تھا کہ یہ سپیرا ہے اور مجھے پکڑنے کی کو شش کر رہا ہے ۔ میں اس کے چنگل سے نکل کر بھاگ جانا چاہتا تھا مگر میرے جسم نے میرا حکم ماننے سے انکار کر دیا ۔
میں بین کی آواز پر اسی طرح جھوم رہا تھا۔ بین کی آواز نے مجھ پر جادو سا کر دیا تھا۔ آخر وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا۔ بین کی آواز پر مست ہو کر میں جھاڑی سے باہر نکل آیا۔ میں نے دیکھا کہ ایک سپیرا بیٹھا بین بجا رہا ہے اور دوسرا اس کے پاس بیٹھا ہے ۔ اس نے پٹاری کھول کر سامنے رکھی ہوئی ہے اس کے ہاتھ میں کپڑا ہے جیسے ہی میں جھومتا ہوا جھاڑی سے باہر نکلا دوسرے آدمی نے مجھ پر کپڑا پھینکا اور ہاتھ سے پکڑ کر اٹھا لیا اور پٹاری میں ڈال کر پٹاری کا منہ بند کر دیا۔
یہ ایک مصیبت پر دوسری مصیبت نازل ہو گئی تھی مگر میں مجبور تھا سواۓ صبر کرنے کے اور کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ پٹاری کے اندر گرتے ہی مجھے محسوس ہوا کہ پٹاری میں پہلے سے ایک سانپ موجود ہے۔ پٹاری میں گھپ اندھیرا تھا مگر میں اس اندھیرے میں ایک نسواری رنگ کے سانپ کو دیکھ رہا تھا۔ اس نے گردن اٹھا کر آہستہ سے پھنکار ماری اور سانپوں کی زبان میں پہلا سوال ہی یہی کیا۔’’ تم کون ہو ؟“ میں نے سانپوں کی زبان میں ہی کہا۔ ” تم دیکھ رہے ہو ۔ میں بھی ایک سانپ ہوں۔"
نسواری سانپ نے کہا۔’’ تم سانپ نہیں ہو ۔“ میں نے پوچھا۔’’اگر سانپ نہیں ہوں تو پھر میں کیا ہوں ؟“ نسواری سانپ نے کہا۔ " تم انسان ہو ۔ تمہیں کسی نے جادو کے زور سے سانپ بنا دیا ہے۔
میں نے کہا۔ ’’اگر تمہیں پتہ چل ہی گیا ہے تو میرے بھائی میں واقعی سانپ نہیں ہوں انسان ہوں اور ایک جادوگر نے مجھ پر جادو کر کے مجھے سانپ بنا دیا ہے ۔ نسواری سانپ نے پوچھا۔ ” تم ریل کی پٹڑی کے پاس کیا کر رہے تھے ؟‘‘ میں نے کہا۔” جے پور اپنے مرشد کے پاس جانا چاہتا تھا کیونکہ وہی جادو کا اثر ختم کر کے مجھے پھر سے سانپ کی جون سے انسان کی شکل میں واپس لا سکتے ہیں۔‘‘ نسواری سانپ بولا۔” جے پور تو یہاں سے بہت دور ہے تم تو وہاں نہیں پہنچ سکتے ۔۔
میں نے کہا۔ ”بس میں اس پریشانی میں جھاڑی میں چھپ کر بیٹھا تھا کہ جے پور کیسے پہنچوں گا کہ سپیرے نے اپنی بین سے مجھے مست کر کے پکڑ لیا۔“ نسواری سانپ کہنے لگا۔ ” تمہارا پکڑا جانا تمہارے حق میں اچھا ثابت ہوا ہے ۔‘‘ ”یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو ؟ " میں نے پوچھا۔ نسواری سانپ بولا۔’’ یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ یہ سپیرے جے پور ہی جا رہے ہیں ۔ “
نسواری سانپ کی زبان سے یہ سن کر میں خوش ہو گیا۔ اب مجھے یقین ہو گیا تھا کہ میں ویران محل میں درگا کی بدروح سے ملاقات کر سکوں گا اور وہ اپنے جادو کے زور سے مجھے سانپ سے دوبارہ انسانی شکل میں واپس لے آۓ گی۔ امید کی جو شمع میرے دل میں بجھ چکی تھی وہ پھر سے روشن ہو گئی تھی ۔ میں نے نسواری سانپ سے کہا۔ "لیکن دوست .....
جے پور پہنچ کر میں اس پٹاری سے کیسے باہر نکلوں گا؟ یہ سپیرے تو مجھے کبھی آزاد نہیں کریں گے ۔ یہ تو کہہ رہا ہے کہ میں بڑا انمول سانپ مل گیا ہے۔ “ نسواری سانپ کہنے لگا۔ اس کی تم فکر نہ کرو۔ ایک انسان دوسرے انسان کے کام آۓ یا نہ آئے لیکن ایک سانپ دوسرے سانپ کی ضرور مدد کرتا ہے ۔
میں تمہاری مدد کروں گا اور تمہیں جے پور پہنچنے کے بعد کسی نہ کسی طرح پٹاری سے باہر نکال دوں گا۔“
سپیرے نے مجھے پٹاری میں بند کرنے کے بعد پٹاری تھیلے میں ڈال کر تھیلا کندھے سے لٹکا لیا اور مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ سپیرا پیدل چلا جا رہا ہے۔ نسواری سانپ نے ان دونوں کو باتیں کرتے کہیں سن لیا تھا کہ وہ جے پور جار ہے ہیں جہاں کوئی میلہ تھا اور ان سپیروں نے وہاں سانپ کا تماشہ دکھانا تھا۔ ۔ کافی دیر تک چلتے رہنے کے بعد سپیرے شاید کسی سٹیشن پر آگئے تھے کیونکہ مجھے وہاں کسی ٹنٹ کرتے انجن کی آواز سنائی دی تھی۔
یہاں سے دونوں سپیرے ٹرین میں سوار ہو گئے اور ٹرین کا سفر شروع ہو گیا۔ راستے میں انہوں نے کہیں سے گاڑی بدلی ہو گی مجھے اس کا علم نہیں کیونکہ میں پٹاری میں بند تھا۔ نسواری سانپ سارے راستہ مجھ سے پوچھتا رہا کہ وہ جادوگر کون تھا اور کہاں رہتا تھا جس نے مجھے انسان سے سانپ بنا دیا تھا۔ میں نے اسے اس سے زیادہ کچھ نہ بتایا کہ وہ کوئی سپیرا ہی لگتا تھا۔ میں نے اس کے ایک سانپ کو مار ڈالا تھا اس نے غصے میں آکر مجھے انسان سے سانپ بنا کر چھوڑ دیا کہ اب ساری زندگی تو سانپ بنا رہے گا۔
آخر ہم لوگ جے پور پہنچ گئے۔ دونوں سپیرے ایک جگہ آگئے جہاں میلہ لگا ہوا تھا۔ میلے کے شور و غل اور بچوں اور غبارے بیچنے والوں کی آوازیں مجھے پٹاری میں سنائی دے رہی تھیں ۔ نسواری سانپ نے مجھے کہا۔ یہاں یہ سپیرے تماشا دکھائیں گے ۔ تم موقع پا کر بھاگ جانا اور یہ لوگ ہزار بین بجائیں تم ہرگز ہرگز نہ رکنا۔ “ میں نے کہا۔ مگر میں کیا کروں مجھ پر بین کا بہت زیادہ اور بڑی جلدی اثر ہو
جاتا ہے۔“ ۔
نسواری سانپ ایک لمحہ خاموش رہنے کے بعد بولا۔ ” پھر تمہیں رات کے وقت جب سپیرے سو رہے ہوں گے فرار ہونا چاہئے ۔‘‘
دن بھر سپیرے میلے میں گھوم پھر کر سانپ کا تماشہ دکھاتے رہے۔ انہوں نے مجھے پٹاری سے صرف ایک دو بار ہی باہر نکالا اور سپیرے نے مجھے پکڑے ہی رکھا زمین پر نہ چھوڑا خدا جانے کیوں میں اسے انمول سانپ لگا تھا اور اسے خطرہ تھا کہ کہیں میں بھاگ نہ جاؤں۔
رات ہو گئی۔ سپیرے ایک جگہ سو گئے۔ باہر کی آوازیں خاموش ہو گئیں۔ میں نے نسواری سانپ سے کہا۔’’میر اخیال ہے رات ہو گئی ہے ۔‘‘ نسواری سانپ نے کہا۔ ’’سپیروں کی نیند ذرا اور گہری ہو جاۓ پھر تمہیں باہر ان نکالوں گا۔“
جب نسواری سانپ کو یقین ہو گیا کہ سپیرے اب گہری نیند سو رہے ہیں تو اس نے کہا۔ ” میرے ساتھ مل کر زور لگاؤ۔“ ہم نے اپنے سر پٹاری کے ڈھکن کے اندر کی جانب لگاۓ اور اسے اوپر کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا۔ تھوڑی سی کوشش کے بعد پٹاری کا ڈھکن ایک طرف سے تھوڑا سا اٹھ گیا۔ نسواری سانپ مجھ سے بڑا تھا۔ اس نے اپنا سر اندر ڈال کر ڈھکنے کو اور زیادہ اٹھا دیا اور بولا۔’’ جاؤ باہر نکل جاؤ۔‘‘
میں ٹیڑھے ڈھکنے میں سے رینگ کر نکل گیا۔ پٹاری کپڑے کے تھیلے میں بند تھی۔ پٹاری سے نکل کر میں کپڑے کے تھیلے میں سے رینگ کر باہر آ گیا۔ باہر آکر میں نے دیکھا کہ آسمان پر تارے نکلے ہوۓ تھے۔ سپیرے ایک جھیل کے کنارے درخت کے نیچے سو رہے تھے۔ میں چھوٹے سائز کا تھا بڑی تیزی کے ساتھ ان کے قریب سے نکل کر جھیل کے کنارے کنارے رینگنے لگا۔ مجھے جے پور کے ویران محل میں پہنچنا تھا۔ اگر چہ میرا ذہن انسان کا تھا مگر میرے اندر سانپ کی تمام خصوصیات پیدا ہو چکی تھیں مثلا میں اندھیرے میں دیکھ سکتا تھا اور بہت دور سے کسی بو کو یا نمی کو محسوس کر لیتا تھا۔ سانپ میں ایک اور خاص بات بھی ہوتی ہے
کہ قدیم تاریخی عمارتوں کے کھنڈروں کی بو بہت پسند کرتا ہے اور ان کھنڈروں اور پرانے قلعوں کی بو اسے کئی میل سے آ جاتی ہے۔ میں جھیل کے ساتھ ساتھ رینگتا چلا جا رہا تھا کہ اچانک مجھے ہوا کے جھونکے کے ساتھ کسی ویران قلعے کے کھنڈر کی نم دار بو محسوس
ہوئی۔
مجھے یقین نہیں تھا کہ درگا بدروح والے ویران محل کی ہی بو ہے لیکن میں نے بو کا تعاقب شروع کر دیا کہ وہاں چل کر معلوم ہو جاۓ گا کہ یہ وہی ویران محل ہے یا کوئی اور ہے۔ رات کا وقت تھا اور یہ شہر کے باہر کا علاقہ تھا۔ ہر طرف خاموشی اور اندھیرا تھا۔ شہر کی روشنیاں بائیں جانب کافی فاصلے پر تھیں پرانے محل کے کھنڈر کی بو مجھے ایک ویران محل کے پاس لے آئی۔ میں نے دیکھا کہ محل کے باہر چو کیدار پہرہ دے رہے تھے۔
میں نے فورا اسے پہچان لیا یہ درگا بدروح کا آسیبی محل ہی تھا جو بھارت کے محکمہ آثار قدیمہ کی تحویل میں تھا۔ میں محل میں داخل ہو گیا۔ میں راستے سے واقف تھا۔ روہنی بدروح مجھے جس راہ داری سے لے کر درگا بدروح کے تہہ خانے میں لے گئی تھی میں اس راہ داری میں آگیا۔ ہر طرف ہو کا عالم تھا۔ نہ آدم نہ آدم زاد . . . . . ویران قلعے کے اندر اس ویران محل کی خاموشی سے ویسے ہی خوف سا محسوس ہوتا تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ درگا بدروح آدھی رات کو وہاں آیا کرتی تھی۔ میرا خیال تھا کہ ابھی آدھی رات نہیں ہوئی تھی لیکن میں نے سوچ لیا تھا کہ اگر رات آدھی سے زیادہ گزر چکی اور درگا بدروح وہاں آکر جا بھی چکی ہوگی تو میں وہیں چپ کر دوسری رات کا انتظار کروں گا۔
اب میری نجات درگا بدروح کے پاس ہی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مجھے بدروح مالنی کا بتایا ہوا چار لفظوں کا منتر یاد تھا جس کو پڑھ کر میں سانپ سے انسان کے روپ میں آ سکتا تھا۔ مگر اس میں خطرہ صرف اس بات کا تھا کہ انسان کی بجائے میں کسی دوسرے جانور ، در ندے یا دوبارہ کسی بڑے سانپ کے روپ میں بھی ظاہر ہوسکتا تھا ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔ سنسنی روز روز بڑھتی جارہی ہیں ۔
میں راستہ تلاش کرتے کرتے آخر ویران محل کے اس تہہ خانے میں آگیا جہاں درگا کی بدروح اس روز ظاہر ہوئی تھی۔ تہہ خانے میں موت کی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ گھپ اندھیرا تھا مگر سانپ ہونے کی وجہ سے مجھے اندھیرے میں بھی دکھائی دے رہا تھا۔ محرابی ستونوں کے درمیان جہاں اس روز درگا کی بدروح ظاہر ہوئی تھی اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ میں تہہ خانے کے ایک کونے میں کنڈلی مار کر بیٹھا بڑے غور سے محرابی ستونوں کی طرف دیکھ رہا تھا کہ شاید وہاں درگا کی بدروح نمودار ہو جاۓ ۔ کچھ ہی دیر کے بعد مجھے عجیب سی ڈراؤنی آواز سنائی دی۔ میں چوکنا ہو گیا۔
ڈراؤنی آواز دور سے قریب آتی محسوس ہو رہی تھی۔ یہ کسی عورت کی آواز تھی اور ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے کوئی اس عورت کو آگ میں زندہ جلا رہا ہے ۔ پھر ایک خوفناک چیخ بلند ہوئی۔ میں اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے کانپ گیا۔
چیخ کی آواز خاموش ہو گئی لیکن اس کی باز گشت دیر تک سنائی دیتی رہی۔ ایک بار پھر سناٹا چھا گیا۔ اچانک محرابی ستونوں کے درمیان دھوئیں کا ایک ستون نمودار ہوا۔
میں اسے دیکھنے لگا۔ دھوئیں کے ستون نے ایک عورت کی شکل اختیار کر لی۔ میں نے اسے پہچان لیا۔ یہ درگا کی بدروح تھی۔ اس نے اپنی بیٹھی ہوئی ڈراؤنی آواز میں مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’ میں جانتی ہوں تم یہاں کس لئے آۓ ہو۔ مگر میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتی۔“
میں نے سانپ کی آواز میں کہا۔ ’’درگا! اپنے بھگوان کے لئے میری مدد کرو۔ میں عجیب مصیبت میں مبتلا ہو گیا ہوں۔ روہنی کو پجاری رگھو پکڑ کر لے گیا ہے۔ مجھے کچھ معلوم نہیں وہ کہاں ہے۔“
درگا کی بدروح نے کہا۔ ” میں جانتی ہوں وہ کہاں ہے مگر میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتی۔“
میں نے اس کی منت کرتے ہوۓ کہا۔’’درگا! تم روہنی کی بچپن کی سہیلی ہو ۔ روہنی نے مجھے خاص طور پر کہا تھا کہ اگر اس کو پجاری رگھو اپنے قبضے میں کر لے تو میں تمہارے پاس آکر تمہیں سارے واقعات بیان کروں۔ اس نے کہا تھا کہ تم ہی میری اور اس کی مدد کر سکتی ہو۔“
درگا کی بدروح بولی۔”روہنی پوری بدروح نہیں ہے ۔ اگر وہ پوری بدروح ہوتی تو اسے پجاری رگھو کی طلسمی طاقت کا ضرور اندازہ ہوتا مگر وہ پجاری رگھو کی طاقت سے واقف نہیں تھی۔ میں روہنی کی بھی کوئی مدد نہیں کر سکتی۔“
میں نے کہا۔ "اگر تم روہنی کی مدد نہیں کر سکتی تو کم از کم مجھے اس عذاب سے نجات دلاؤ اور مجھے سانپ سے دوبارہ انسانی شکل میں لے آؤ اس کے بعد میں خود روہنی کی تلاش کا کوئی راستہ نکال لوں گا۔“
درگا کی بدروح نے سخت لہجے میں کہا۔ ”تم بار بار یہ بات نہ دہراؤ میں نے تمہیں کہہ دیا ہے کہ تمہاری مدد کرنا میری طاقت سے باہر ہے۔“ میں پریشان ہو گیا کیونکہ اگر درگا بدروح میری مدد نہیں کر سکتی تھی تو پھر کوئی میری مدد نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے اسے کہا۔ ’’درگا ! پھر میں کیا کروں؟ میں ساری زندگی سانپ بن کر نہیں گزار سکتا۔“
درگا ہولی۔” تمہارے پاس مالینی کا دیا ہوا چار لفظوں کا منتر ہے۔ وہ پڑھو تم سانپ نہیں رہو گے۔“
میں نے کہا۔ ”لیکن اس میں یہ خطرہ بھی ہے کہ میں نہ جانے کس روپ میں ظاہر ہو جاؤں گا۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ میں بالکل ہی غائب ہو جاؤں اور دوبارہ کبھی اپنی انسانی شکل میں واپس نہ آسکوں۔“
درگا بدروح نے جواب دیا۔ ’’یہ خطرہ بہت زیادہ ہے ۔‘‘ درگا کی بدروح خاموش ہو گئی۔ میں بھی خاموش ہو گیا۔ کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں اور کس سے مدد طلب کروں۔ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد درگا کی بدروح نے کہا۔ ”میں تمہیں آخری بات کہتی ہوں ۔‘‘
”وہ کیا؟‘‘ میں نے بے تابی سے پوچھا۔ درگا نے کہا۔ ’’ میرے محل کی چھت پر ایک بارہ دری ہے ۔ اس بارہ دری میں بیٹھ کر اپنا پھن کھولو اور مالینی کے بتاۓ ہوۓ اگنی منتر کو دل میں دو بار پڑھو اور اپنے آپ کو قسمت کے حوالے کر دو۔ جو تمہاری قسمت میں ہے تمہیں مل جاۓ گا۔ جاؤ تمہارے لئے دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے ۔“
اتنا کہہ کر درگا کی بدروح ایک بھیانک چیخ کی آواز کے ساتھ دھوئیں کے ستون میں تبدیل ہو گئی اور پھر یہ ستون بھی غائب ہو گیا۔ یہ بدروح مجھے ایک زبردست کشمکش میں چھوڑ گئی تھی ۔۔ اگر میں مالینی بدروح کا اگنی منتر پڑھتا ہوں اور اپنی شکل میں ظاہر نہ ہوا تو خدا جانے کس روپ میں ظاہر ہو جاتا ہوں۔ اگر اگنی منتر پڑھنے کا خطرہ مول نہیں لیتا ہوں تو پھر ساری زندگی مجھے سانپ بن کر ہی رہنا ہوگا۔
ویران محل کے تہہ خانے میں کنڈلی مار کر بیٹھا دیر تک سوچتا رہا کہ کیا کروں کیا نہ کروں۔ اس وقت مجھے محسوس ہوا کہ میں دنیا میں اکیلا اور بے یار و مددگار رہ گیا ہوں ۔ روہنی جو میری ہمدرد تھی اور ہر مشکل وقت میں میرے کام آتی تھی وہ بھی میر اساتھ چھوڑ گئی تھی۔ مالینی بدروح کا مجھے ایک جملہ یاد آرہا تھا۔ اس نے کہا تھا۔ ”میرا چار لفظی آگئی منتر پڑھنے کے بعد تمہارے چمگادڑ سے انسان کی شکل میں واپس آنے کا صرف ایک فیصد امکان ہوگا۔“
مجھے اس خرافاتی اگنی منتر سے خوف آنے لگا تھا لیکن ایسا لگتا تھا کہ مجھے یہ خطرہ مول لینا ہی پڑے گا۔ سوچ سوچ کر جب میں کسی نتیجے پر نہ پہنچا تو میں نے تنگ آ کر اگنی منتر پڑھنے کا فیصلہ کر لیا۔ میری حالت اس شخص کی سی تھی جسے رات کی تاریکی میں پہاڑ کی چوٹی سے نیچے گرایا جارہا ہو ۔ اگر دریا میں گرا تو بچ گیا، اگر پتھروں پر گرا تو چکنا چور ہوگا۔ میں نے دل میں خدا کو یاد کیا اور تہہ خانے میں سے نکل کر بڑے کمرے میں آگیا۔
یہاں سے ایک زینہ ویران محل کی چھت کو جاتا تھا۔ میں نے آہستہ آہستہ رینگتے ہوۓ زینہ طے کیا اور محل کی چھت پر آ گیا۔ محل کی چھت سنسان پڑی تھی۔ رات تاریک تھی۔ آسمان پر ستارے ایسے ٹمٹما رہے تھے جیسے بجھنے ہی والے ہوں میں نے چھت پر ایک نگاہ ڈالی۔ چھت کے وسط میں مجھے ایک چھوٹی سی بارہ دری نظر آئی یہی وہ بارہ دری تھی جہاں بیٹھ کر مجھے درگا بدروح کی ہدایت کے مطابق اگنی منتر پڑھنا تھا۔
میں بارہ دری کی طرف رینگنے لگا۔ بارہ دری کے پاس آکر رک گیا۔ ایک بار سوچنے لگا کہ واپس چلا جاؤں پھر خیال آیا کہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ میں اپنی اصلی انسانی شکل میں واپس آجاؤں۔ میرے دل کو تھوڑا سا حوصلہ ہوا اور میں بارہ دری پر چڑھ گیا۔ بارہ دری کا فرش اکھڑا ہوا تھا۔ میں فرش کے درمیان کنڈلی مار کر بیٹھ گیا لیکن ابھی میں نے اگنی منتر پڑھنے کے لئے اپنا بھن نہیں کھولا تھا۔ میرے اندر سے کوئی چیز مجھے اگنی منتر پڑھنے سے بار بار روک رہی تھی۔ میرا دماغ مجھے بار بار کہہ رہا تھا فیروز تمہارے سامنے یہی ایک دروازہ کھلا ہے باقی تمام راستے بند ہو چکے ہیں۔
تمہیں آج نہیں تو کل ، کل نہیں تو ایک سال بعد ، دس سال بعد ادھر ادھر سے گھوم پھر کر پھر اس دروازے کے پاس آتا ہے۔ زندگی میں تم نے بڑے بڑے داؤ لگاۓ ہیں۔ یہ داؤ بھی لگا کر دیکھ لو، ہو سکتا ہے تم جیت جاؤ۔ مجھے یقین ہو گیا کہ سوچنے کا وقت گزر چکا ہے۔ میں نے فورا اپنا سانپ والا پھن کھول دیا اور دل میں آگنی منتر کو دو دفعہ پڑھ ڈالا۔ اس لمحے میری جو حالت ہوئی اسے بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ میری آنکھیں کھلی تھیں۔
سانپ کی آنکھیں کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوئے نہیں ہوتے ۔ وہ اپنی آنکھیں نہ جھپک سکتا اور نہ بند کر سکتا ہے۔ میری آنکھیں کھلی تھیں مگر مجھے نظر آنا آہستہ آہستہ بند ہو رہا تھا۔ پھر اچانک میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا جیسے میری آنکھوں کے آگے سیاہ پردہ گرا دیا گیا ہو ۔ مجھے ایسے لگا جیسے میرے ارد گرد تیز آندھیاں چل رہی ہیں۔ شور و غل اور چیخ و پکار کی آوازیں آنے لگی تھیں۔ میرا دل کانپ رہا تھا۔ میں نے بارہ دری سے بھاگنا چاہا مگر مجھ پر ہولناک انکشاف ہوا کہ میں ایک دم پتھر کا ہوگیا ہوں۔
میرا جسم اتنا بھاری ہوگیا لاکھ کوشش کے باوجود میں اپنی جگہ سے ذرا سی بھی حرکت نہ کر سکا۔ پھر ایسے لگا جیسے ویران محل کی بارہ دری مجھے ساتھ لے کر نیچے ہی نیچے زمین کے اور چلی جا رہی ہے۔ میرے چاروں طرف اندھیرا اور تاریکی ہی تاریکی تھی۔ پرے کانوں میں شاں شاں کی آوازیں گونج رہی تھیں جیسے میرے آس پاس طوفانی اندھیاں چل رہی ہوں۔
مجھے باقاعدہ محسوس ہو رہا تھا کہ میں ابھی تک سانپ کی صورت میں ہی ہوں۔ ابھی میری کایا پلٹ نہیں ہوئی اور ابھی مجھ میں کوئی پر تبدیلی نہیں آئی تھی۔ لیکن میری چھٹی حس مجھے آگاہ کر رہی تھی کہ میرے ساتھ کچھ ہونے والا ہے ، کچھ ہو رہا ہے ۔۔ میں اندھیرے میں دیکھ سکتا تھا مگر یہ اندھیروں کا اندھیرا تھا۔ مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ پھر ایسا ہوا کہ مجھے سنائی دینا بھی بند ہوگیا۔ اب مجھے نہ کچھ نظر آ رہا تھا، نہ سنائی دے رہا تھا میں جیسے اندھیروں اور سناٹوں کے خلا میں معلق ہو گیا تھا۔
میری صرف اپنے کی قوت ابھی باقی تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ میرے ساتھ یہ سب کیا کچھ ہو رہا ہے۔ پھر میری سوچنے کی طاقت بھی جواب دینے لگی۔ میرے ذہن پر بے ہوشی سی جاری ہوگئی۔ میں نے بڑی کوشش کی ، بڑی مدافعت کی ، بڑی مزاحمت کی ، مگر میرے ذہن نے میری سوچنے کی اہلیت نے میرا ساتھ چھوڑنا شروع کر دیا تھا۔ مجھ پر پہلے ایک غنودگی سی طاری ہوئی پھر غنودگی کا احساس بھی ختم ہوگیا۔ شاید میری موت واقع ہوگئی تھی لیکن موت کو محسوس کرنے کے لئے ایک احساس کی ضرورت ہوتی ہے
اور میرا یہ احساس بھی ختم ہو چکا تھا۔ شاید یہ موت سے بھی کچھ آگے کی کیفیت تھی ۔ شاید میں موت سے بھی آگے نکل گیا تھا۔ یہ کیفیت مجھ پر کب تک طاری رہی ؟ میں اس حالت میں کب تک رہا؟ مجھے کچھ معلوم نہیں۔ جب میں اپنے ہوش و حواس میں آیا تو سب سے پہلے جو تبدیلی میں نے محسوس کی وہ یہ تھی کہ میں اپنے انسانی جسم میں واپس آ چکا تھا۔ یہ میرے لئے خوشی کا مقام تھا۔ میں پوری طرح سے ہوش میں تھا۔ میں کسی سخت چیز پر بالکل سیدھا لیٹا ہوا تھا۔ میرے چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا۔ اب چونکہ میں سانپ نہیں رہا تھا۔۔۔
اس لئے اندھیرے میں دیکھ نہیں سکتا تھا اور یہ معلوم نہیں کر سکتا تھا کہ میں کہا ہوں ۔ اگنی منتر پڑھنے کے بعد میں خوش قسمتی سے اپنی انسانی شکل میں واپس آگیا تھا مگر میں کس جگہ نمودار ہوا تھا؟ یہ مجھے علم نہیں تھا۔ میں یہی معلوم کرنا چاہتا تھا۔ میں نے اپنے جسم پر ہاتھ پھیرا۔ میرا جسم ٹھنڈا تھا۔ جسم پر ہاتھ پھیرنے مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ میں اپنے کپڑوں یعنی پتلون قمیض میں نہیں ہوں بلکہ میں کسی چادر میں لپٹا ہوا ہے۔ میں کچھ سمجھ نہ سکا۔ میں نے لیٹے لیٹے گھٹنے اوپر اٹھائے ، تو میرے گھٹنے پوری طرح سے اٹھنے سے پہلے ہی اوپر چھت سے ٹکراۓ۔
میں نے گھبرا کر ہاتھوں کو اوپر اٹھا کر چھت کو ٹٹولا ۔ مجھ پر گویا بجلی سی گری ۔ میں لکڑی کے تابوت میں بند تھا اور جس کپڑے میں میرا جسم لپٹا ہوا تھا وہ چادر نہیں تھی بلکہ کفن تھا۔ دہشت سے میر اگلا خشک ہو گیا۔ ۔
تو کیا میں مر چکا ہوں ؟ مگر نہیں ۔ میں زندہ تھا۔ تو پھر مجھے کفن میں لپیٹ کر تابوت میں کیوں بند کیا گیا تھا؟ میرے حلق سے ایک چیخ نکل گئی۔ میں نے زور سے تابوت کی دیواروں اور چھت کو ہاتھوں سے پیٹنا شروع کر دیا۔ بہت جلد معلوم ہو گیا کہ میرا تابوت کسی قبر میں دفن ہے اور اسے پیٹنے اور چیخنے چلانے کا فائدہ نہیں ۔
یاخدا! یہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے ؟ اس سے تو بہتر تھا کہ میں آگنی منتر پڑھنے کے بعد چمگادڑ بن جاتا، سانپ ہی بن جاتا کم از کم آزاد تو ہوتا۔ زندہ درگور نہ ہوتا۔
جب مجھے یقین ہو گیا کہ باہر سے کوئی میری مدد کو نہیں آئے گا اور میں اگر کچھ دیر تابوت میں بند پڑا رہا تو دم گھٹنے سے مر جاؤں گا تو میں نے اپنے ہوش و حواس قابو میں کیا اور اس قبر سے بچ نکلنے کا کوئی طریقہ سوچنے لگا۔ کوئی طریقہ سمجھ نہیں آ رہا تھا سوائے اس کے کہ میں ناخنوں سے تابوت کی چھت کو ایک جگہ کریدنے لگا لیکن بہت جلد میرے ہاتھ تھک گئے اور تابوت کی چھت پر کوئی اثر نہ ہوا۔
بادلوں کی دھیمی گرج سنائی دی جیسے دور کسی پہاڑی وادی میں سے آئی ہو ۔ پھر مجھے اپنے اوپر زمین پر بارش کے قطروں کی آواز آنے لگی۔ اوپر زمین پر بارش شروع ہوگئی تھی۔ اپنی بے بسی دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں نے لرزتے ہوۓ ہونٹوں سے خدا کے حضور دعا مانگی کہ یا اللہ پاک مجھے اس مصیبت سے نکال لے آئندہ میں ایسی کوئی حماقت نہیں کروں گا جس کی وجہ سے میں کسی عذاب میں پھنس جاؤں۔“
تابوت کے اندر اب میرا دم گھٹنا شروع ہو گیا تھا۔ مجھے پوری طرح سے سانس لینے میں دقت ہو رہی تھی مگر میں نے حوصلہ نہ ہارا اور ایک بار پھر تابوت کی چھت کو زور زور سے پیٹنے لگا کہ شاید میری آواز سن کر باہر سے کوئی میری مدد کو آ جاۓ ۔ مگر بہت جلد میرا سانس پھول گیا اور میں بے دم ہو گیا۔ زمین کے اوپر سے بارش کی ہلکی ہلکی آواز مسلسل آرہی تھی ۔ خدا جانے مجھے میری قبر میں کتنی گہرائی میں دفن کیا گیا تھا۔ مگر یہ لوگ کون تھے جنہوں نے مجھے زندہ دفن کر دیا تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ میں مر گیا تھا اور قبر میں دفن ہونے کے بعد زندہ ہو گیا تھا
یا پھر میں مرا نہیں تھا مجھ پر سکتہ طاری ہو گیا تھا اور مجھے مرا ہوا سمجھ کر قبر میں دفن کر دیا گیا تھا اور قبر میں دفن ہونے کے بعد میرا سکتہ دور ہو گیا اور میں ہوش میں آ گیا تھا۔ اب یہ سب کچھ سوچنے سے کوئی فائدہ نہیں تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ میں قبر میں زندہ دفن تھا یا مردہ حالت میں دفن ہونے کے بعد زندہ ہوگیا تھا اور اگر پہلے نہیں مرا تھا تو اب کچھ دیر کے بعد میرا دم گھٹنے سے مر جانا یقینی تھا۔
جیسے بھی ہو مجھے باہر نکلنے کی کوشش کرنی چاہئے تھی۔ اچانک مجھے خیال آ گیا کہ کیوں نہ میں ایک بار پھر بدروح مالینی کا اگنی منتر دہراؤں؟
ہو سکتا ہے میں منتر پڑھنے کے بعد خواہ جانور کی شکل میں ہی سہی لیکن قبر سے باہر ظاہر ہو جاؤں گا اور اگر سانپ کی شکل میں ظاہر ہو جاتا ہوں تو سانپ بن کر میں تابوت کے کسی سوراخ میں سے نکل کر قبر کی مٹی میں راستہ بنا کر باہر
و میران حویلی کا نکل سکتا ہوں۔ میں نے فوراً آنکھیں بند کیں اور اگنی منتر کو دل میں دو بار دہرایا۔ میرے تابوت کو جیسے ایک دھچکا سا لگا اور میں نے جلدی سی آنکھیں کھول دیں ۔ میں نے دیکھا کہ میں اس طرح انسانی شکل میں تابوت میں پڑا تھا۔ میں نے سوچا شاید میں نے گھبراہٹ میں منتر ٹھیک سے نہیں دہرایا۔ میں نے فورا آنکھیں بند کر لیں اور اس دفعہ اگنی منتر کے ایک ایک لفظ کو دو دو بار دہرایا۔ جیسے ہی میں نے منتر ختم کیا میرے تابوت کو پھر ایک دھچکا لگا۔ میں نے آنکھیں کھول دیں اور دیکھا کہ میں اس طرح میں نے کچھ سات مرتبہ آنکھیں بند کر کے اگنی منتر پڑھا مگر ہر بار تابوت کو وہی دھچکا لگتا اور میں دیکھتا کہ تابوت میں ہی لیٹا ہوا ہوں۔
میں سمجھ گیا کہ قبر کے اندر اگنی منتر کا اثر ختم ہو چکا ہے اور مجھے اپنے طور پر ہی قبر سے نکلنے کی کوشش کرنی ہوگی ۔ اتنے میں میرے کفن پر تابوت کی چھت پر سے پانی کے قطرے گرنا شروع ہو گئے ۔ باہر بارش ہو رہی تھی اور یہ بارش کا پانی تھا جو قبر کے اندر داخل ہو کر تابوت کی درزوں میں سے میرے اوپر گر رہا تھا۔ کچھ قطرے میرے منہ پر بھی گرے۔ میں نے ہاتھ سے اپنا چہرہ صاف کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ پانی میں مٹی ملی ہوئی تھی۔
اب میں نے یہ کیا کہ دونوں ہتھیلیوں کو تابوت کی چھت کے ساتھ لگا اپنے جسم کا پورا زور لگا کر چھت کو اوپر اٹھانے کی کوشش کی لیکن تابوت پر سینکڑوں من مٹی پڑی ہوئی تھی۔ تابوت کی چھت تو سیمنٹ کے لینٹر کی طرح سخت ہو چکی تھی۔ شاید آپ میری بےبسی کا اندازہ نہیں لگا سکتے کیونکہ آپ کبھی اس ہولناک تجربے سے نہیں گزرے۔ خدا کسی کو ایسی آزمائش میں نہ ڈالے۔ یہ وہ حالت ہوتی ہے کہ آدمی زندہ بھی نہیں ہوتا اور مرا بھی نہیں ۔ کاش میں درگا بدروح کے کہنے میں آ کر اگنی منتر نہ پڑھتا اس سے تو ہزار درجے بہتر تھا کہ میں سانپ بن کر ہی ساری زندگی گزار دیتا کم از کم زندہ انسانوں کی دنیا میں زندہ تو رہتا۔
قبر کی مٹی میں ملے ہوۓ بارش کے پانی کے قطرے تابوت میں سے میرے اوپر مسلسل گر رہے تھے ۔ تابوت کے اندر میں نے اچانک یہ تبدیلی محسوس کی کہ میرا دم گھٹنا بند ہو گیا تھا مگر میں زیادہ گہرا سانس نہیں لے سکتا تھا۔ میں ایسے سانس لے رہا تھا جیسے آدمی لمبی دوڑ لگانے کے بعد ہانپ رہا ہو۔
یہ بڑی تکلیف دہ حالت تھی۔ پھر باہر سے بارش اور بادلوں کے گرجنے کی آوازیں آنا بند ہو گئیں۔ ایک بار پھر وہی ہولناک سناٹا دوبارہ چھا گیا۔اس موت کے سناٹے میں تابوت کی درزوں میں سے رکے ہوۓ پانی کے قطروں کے گرنے کی ٹپ ٹپ کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ کچھ دیر کے بعد یہ آواز بھی خاموش ہو گئی۔ میں اسی طرح چھوٹے چھوٹے سانس لے رہا تھا۔ تابوت میں سخت مایوسی اور کسمپرسی کی حالت میں لیٹا خدا سے اپنے گناہوں کی معافیاں مانگ رہا تھا۔
پھر ایسا ہوا کہ مجھے تابوت میں اپنے پاؤں کی طرف سے ہلکی ہلکی ٹھک ٹھک کی آواز سنائی دی۔ میرے کان کھڑے ہو گئے ۔ شاید یہ کوئی مردار خور جانور تھا جو میرے پاؤں کی طرف سے قبر کھود کر اندر آنے کی کو شش کر رہا تھا۔ خوف سے میرے جسم کا رواں رواں کھڑا ہو گیا۔ کیا یہ مردہ خور مجھے مردہ سمجھ کر کھانے کی کوشش کرے گا؟ مگر میں تو زندہ ہوں۔ لیکن مردہ خور جانور کو کیسے پتہ چلے گا کہ میں مردہ نہیں ہوں۔ میں نے سوچ لیا کہ اگر اس نے اپنے نوکیلے دانتوں سے تابوت کی کڑی توڑ کر میرے پاؤں کو چبانے کی کوشش کی تو میں زور زور سے جتنی ٹانگیں چلا سکتا ہوں چلا کر اسے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کروں گا۔
ہو سکتا ہے وہ ڈر کر بھاگ جائے۔ میرے دل میں امید کی شمع روشن ہو گئی۔
جس سوراخ میں سے مردہ خور لگڑ بگڑ یعنی مردار خور جانور میرے تابوت تک پہنچا ہوگا میں اسے بھگا کر اس سوراخ میں سے باہر نکلنے کی جدوجہد کر سکتا ہوں لیکن قبر کا سوراخ میرے پاؤں کی جانب ہو گا۔ پاؤں کی جانب میں کیسے ر ینگ سکوں گا ؟
اگر یہ سوراخ تابوت میں میرے سر کی جانب ہوتا تو میں الٹا ہو کر کہنیوں کے بل رینگ کر قبر سے باہر نکلنے کی کوشش کر سکتا تھا۔ لیکن ٹھک ٹھک کی آواز میرے پاؤں کی طرف سے آ رہی تھی۔ کچھ دیر کے بعد یہ آواز آنی بند ہو گئی۔ میں نے کان اس آواز پر لگاۓ ہوۓ تھے۔ آواز کے خاموش ہونے کے بعد پھر وہی سکوت چھا گیا۔ کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ آواز کیسی تھی اور اب خاموش کیوں ہو گئی ہے۔
اچانک میرے پاؤں پر کوئی چیز آکر گری۔ میں نے گھبرا کر پاؤں سمیٹنے چاہے لیکن میرے دونوں پاؤں کسی شکنجے میں بڑی سختی سے پکڑے گئے تھے ۔ میں نے اپنے پاؤں کھینچنے کی سر توڑ کوشش کی مگر میرے پاؤں تابوت کے اندر ایک انچ بھی نہ ہلے۔ میں یہی سمجھا کہ مردار خور جانور نے تابوت کی لکڑی توڑ کر میرے دونوں پاؤں اپنے جبڑوں میں دبوچ لئے ہیں۔
لیکن مجھے مردار خور درندے کے نوکیلے دانت بالکل محسوس نہیں ہو رہے تھے بلکہ ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے میرے دونوں پاؤں ٹخنوں تک لوہے کے کسی قلعے میں جکڑ دیئے گئے ہیں۔ میں نے پاؤں کو پیچھے کھینچنے کی کوشش کی تو مجھے سخت تکلیف محسوس ہوئی۔ میں نے اپنا آپ چھوڑ دیا اور خود کو تقدیر کے حوالے کر دیا..... پھر ایسا ہوا کہ میرا جسم تابوت کے اندر پاؤں کی جانب سے کسی نے باہر کی طرف کھینچتا شروع کر دیا۔ مارے دہشت کے میرے حلق سے نیچے نکل گئی لیکن قبر میں بند تابوت کے اندر میری شیخ میرے ہی کانوں سے نکر اگر رہ گئی۔ میر اکفن پوش جسم تابوت میں آہستہ آہستہ پیچھے کی طرف کھسک رہا تھا۔
اگر یہ کوئی مردار خور درندہ نہیں تھا تو پھر یہ کون تھا جو میرے پاؤں کو شکنجے میں جکڑ کر مجھے تابوت سے باہر کھینچ رہا تھا۔ اس کا جواب میرے پاس نہیں تھا۔ میں اس کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتا تھا کہ جو کچھ میرے ساتھ ہو رہا تھا اسے ہونے دوں اور یہ دیکھوں کہ اس کے بعد میرے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ میرا جسم تابوت میں سے کھسکتے ہوئے باہر نکل گیا تھا اور اب قبر کے کسی گول سوراح میں سے باھر لے جارہا تھا ۔۔۔

پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 18

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں