سیاہ رات ایک سچی کہانی - گیارواں حصہ

 

 - سیاہ رات ایک سچی کہانی - گیارواں حصہ

روحان کیا سچ میں،،، عنائزہ کو یقین نہیں آرہا تھا کہ روحان نے شفیق کے ساتھ مل کر یہ سب کچھ کیا ہے،،،
ہاں سچ میں،،، روحان عنائزہ کو خوش دیکھ کر خوشی سے بولا
عنائزہ خوشی سے اس کے گلے سے لگ گئی، اس کی آنکھیں بھیگنے لگی تھیں مگر وہ روحان کو دکھانا نہیں چاہتی تھی،،،
تم خوش ہو نا میرے سرپرائیز سے،،، روحان نے پوچھا
میں بہت خوش ہوں روحان،،، عنائزہ نے اس سے الگ ہو کر اس کی طرف دیکھ کر کہا

یہاں بیٹھو،، روحان نے اس کے لیے چیئر کھینچی
عنائزہ مسکراتے ہوئے بیٹھ گئی،،،
روحان دوسری چیئر پر آ کر بیٹھا،،،
واؤ اتنی ساری ڈشز، عقیلہ سے بنوائی ہیں کیا،،، اس نے ڈشز سے فل ٹیبل دیکھ کر کہا
جی اسی نے بنایا ہے سب کچھ،،، روحان نے پلیٹ میں کباب نکال کر عنائزہ کے آگے رکھے
اٹس ڈیلیشیئس،،، عنائزہ نے کباب منہ میں رکھ کر کہا
آج میرا سب سے اچھا دن ہے آج تم نے میرے لیے اتنا سب کچھ کیا،،،
عنائزہ میں تمہاری ہر وِش پوری کرنا چاہتا ہوں، ابھی صرف یہی میرے بس میں تھی جو پوری کر دی،،، روحان اداس ہوا

روحان،،، عنائزہ نے اپنی چیئر روحان کے پاس کی
میں بہت خوش ہوں تمہارے ساتھ تم پریشان کیوں ہو،،، عنائزہ نے اس کا ہاتھ تھاما
ت۔۔تم سچ میں خوش ہو نا میرے ساتھ،،،
ہاں روحان مجھے تم سے محبت ہے اس لیے میں تمہارے ساتھ بہت خوش ہوں تم اپنے دل میں کسی قسم کا وہم مت پالو،،،
اس کی بات پر روحان مسکرایا،،،
چلو اب کھانا شروع کرو صبح سے کام کو لگے ہو کچھ کھایا بھی نہیں ہو گا،،، عنائزہ اس کے کیے پلیٹ میں کباب نکالتی ہوئی بول رہی تھی
دونوں نے کھانا شروع کیا، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں ماحول میں خوشگواری پیدا کیے ہوئے تھیں،،،

کھانے سے فارغ ہونے کے بعد روحان نے کوٹ کی پاکٹ سے ڈبیہ نکال کر اس میں سے ڈائمنڈ کی رنگ نکالی،،،
Oh my God it's beautiful…
رنگ کو دیکھ کر عنائزہ کے منہ سے بے ساختہ نکلا،،،
پسند آئی،،، روحان نے پوچھا
بہت،،، اس نے مسکراتے ہوئے روحان کی طرف دیکھا
روحان نے اس کی فنگر میں رنگ ڈال کر اس کا ہاتھ چوم لیا،،،
عنائزہ حیرت سے اسے دیکھتی رہ گئی،،،
آج میرے شائے ہبی میں بھی تھوڑی سی ہمت آ گئی،،،
عنائزہ کی بات پر روحان مسکرا کر نظریں جھکا گیا،،،
وہ اس کا ہاتھ پکڑتا ہوا ٹیبل سے تھوڑا دور لے آیا،،،
عنائزہ نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا،،،
آج سونگ لگاؤ،،،
روحان کی بات سے عنائزہ سمجھ گئی وہ کیا کہہ رہا ہے اس نے موبائل پر سونگ لگا کر ٹیبل پر رکھا،،،

عنائزہ کی کمر میں ہاتھ ڈالے اس نے ڈانس شروع کیا،،،
وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا سٹیپ سے سٹیپ ملا رہا تھا،،،
تم نے ڈانس کی پریکٹس کی ہے کیا،،، عنائزہ کو اس کے سٹیپس سے ایسا لگا
ہاں جب تم کمرے میں ہوتی ہو میں تم سے چھپ کر پریکٹس کرتا ہوں،،،
تم تو چھپے رستم نکلے،،، عنائزہ اس کی بات پر حیران ہوئی
اس کی بات پر روحان ہنسنے لگا،،،
عنائزہ کی نظر اس کے نچلے ہونٹ کے سیاہ تل پر پڑی،،،
عنائزہ نے مسکرانا بند کیا اور اس کے تل کی طرف دیکھنے لگی،،،
اسے دیکھ کر روحان بھی سیریس ہوا،،،
وہ دونوں ڈانس کرتے کرتے ایک دوسرے کے مزید قریب آنے لگے،،،
عنائزہ نے آنکھیں بند کیں تو روحان نے بھی آنکھوں کے پردے گرائے،،،
عنائزہ نے اس کے تل پر لب رکھے، اور دونوں بازو اس کے کندھوں پر سخت کیے،،،
روحان نے عنائزہ کی کمر کو دبایا اور اسے محسوس کرنے لگا،،،
کچھ دیر تک وہ دونوں یوں ہی ایک دوسرے سے سکون حاصل کرتے رہے پھر عنائزہ نے روحان کے کندھے پر سر رکھا اور روحان نے اس کی کمر کے گرد گرفت کو سخت کیا،،،


صبح سات بجے سورج کی روشنی سے عنائزہ کی آنکھیں کھلیں اس نے اپنے ساتھ سوئے ہوئے روحان کو دیکھا،،،
محبت بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے اس نے روحان کے ماتھے پر لب رکھے اور فریش ہونے کے لیے اٹھ گئی،،،
دس منٹ بعد گیلے بالوں کے ساتھ وہ واش روم سے باہر نکلی روحان ابھی تک سو رہا تھا،،،
عنائزہ کے دماغ میں شرارت آئی وہ روحان کے پاس کھڑی ہو کر اس پر جھکی،،،
اس کے بالوں سے گرتے پانی کے قطرے روحان کے چہرے پر گرنے لگے،،،
روحان نے نیند میں اپنا چہرہ صاف کیا جیسے اسے لگا کہ کوئی چیز اس کے چہرے پر رینگ رہی ہے،،،
مسلسل پانی گرنے کی وجہ سے روحان نے اپنی آنکھیں کھولیں،،،
اس کی نظر مسکراتی ہوئی عنائزہ پر پڑی،،،
اٹھ جائیے جناب صبح ہو گئی ہے،،،
سونے دو مجھے،،، روحان نے اپنے اوپر کمفرٹر لیا،،،
ارے اٹھو روحان بہت سو لیا،،،
نہیں نا مجھے نیند آئی ہے،،،
اففف میں نیچے جا رہی ہوں جلدی اٹھ جانا،،،
اس نے بال خشک کیے اور ریڈی ہو کر نیچے چلی گئی،،،
کچھ دیر تک روحان فریش ہو کر نیچے آیا تو عنائزہ کچن میں کھڑی ناشتہ بنا رہی تھی،،،
روحان اس کے پاس آکر کھڑا ہوا،،،
عقیلہ کہاں ہے اس نے ناشتہ نہیں بنایا،،،
نہیں آج اس کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے،،، عنائزہ نے پراٹھے کی سائیڈ چینج کرتے ہوئے کہا
یہ کیا بنا رہی ہو،،، روحان پہلی بار دیکھ تھا
یہ آلو کے پراٹھے ہیں کیوں تم نے کبھی نہیں کھائے کیا،،، عنائزہ نے حیرت سے پوچھا
پراٹھے تو کھائے ہیں مگر ایسے نہیں،،، روحان نے جواب دیا
کیا واقع ہی چلو آج میں تمہیں پاکستان کے مشہور آلو والے پراٹھے کھلاتی ہوں،،،
تم بیٹھو باہر میں لاتی ہوں ابھی،،،
روحان باہر ٹیبل پر آکر بیٹھا اور کچھ دیر تک عنائزہ پراٹھوں کے ساتھ چائے کی ٹرے لیے ٹیبل پر آئی،،،
ہمم تو کھاؤ اور بتاؤ کیسا لگا تمہیں،،، اس نے روحان کے آگے پراٹھا رکھا
روحان نے لقمہ بنا کر منہ میں رکھا،،
اب عنائزہ اس کی طرف دیکھ رہی تھی،،،
کیسا لگا،،، عنائزہ نے پوچھا
یہ تو بہت ٹیسٹی ہے میں ایک اور لوں گا،،،
اوہ ریئلی مجھے پتہ تھا تمہیں ضرور پسند آئے گا، ساتھ چائے کا سِپ بھی لو نا پھر آئے گا اصلی مزہ،،،
اب روحان مزے سے پراٹھا کھا رہا تھا اور ساتھ ساتھ چائے کا سِپ لے رہا تھا،،،
عنائزہ نے بھی ناشتہ شروع کیا،،،
عنائزہ اور روحان چہل قدمی کے لیے لان میں داخل ہوئے تو بہت سے نئے پودے لان میں پڑے تھے،،،
ارے یہ کون لے کر آیا،،، عنائزہ پودوں کی طرف چلنے لگی اور روحان بھی اس کے ساتھ چل دیا
شفیق لے کر آیا ہو گا،،، روحان نے ایک چھوٹے سے پودے کو ہاتھ میں اٹھایا
کتنے پیارے ہیں یہ کس چیز کے ہیں،،، عنائزہ نے پوچھا
شاید پھولوں کے ہیں،،، روحان نے کہا
ارے یہ والے تو امرود کے پودے ہیں،،، عنائزہ نے سائیڈ پر پڑے پودوں کی طرف اشارہ کیا
اچھا تب کا کہا ہوا اور یہ آج لے کر آیا ہے،،، روحان نے امرود کا پودا چیک کیا
بیگم صاحبہ پودے لگانے کا موسم اب آیا ہے موسم بہار شروع ہو رہا یے،،، اوپر سے شفیق آکر بولا
ہاں یہ تو تم ٹھیک کہ رہے ہو موسم بہار تو اب شروع ہوا ہے،،، عنائزہ نے کہا
تو روحان کیوں نہ یہ پودے ہم لگائیں،،، عنائزہ مسکرائی
ہاں بلکل،،، روحان نے جواب دیا
ارے بیگم صاحبہ اور روحان بابا آپ دونوں تھک جاؤ گے میں خود لگا لوں گا،،، شفیق بولا
نہیں شفیق یہ امرود کے پودے میں اور روحان خود لگائیں گے،،، عنائزہ نے کہا
ٹھیک ہے جیسے آپ کی مرضی،،، وہ کہتا ہوا اندر چلا گیا
روحان اور عنائزہ نے گڑھا کھودنا شروع کیا وہ دونوں مٹی سے کھیلتے ہوئے پودے لگانے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے پر صاف مٹی بھی پھینک رہے تھے،،،
دونوں کے کھلکھلا کر ہنسنے کی آوازیں اندر گھر تک جا رہی تھیں،،،
عقیلہ اور شفیق کھڑکی سے ان دونوں کو دیکھنے لگے اور اللہ کا شکر ادا کرنے لگے،،،
دو تین گھنٹوں بعد وہ فارغ ہوئے تو مٹی سے بھرے ہوئے تھے اور فریش ہونے کے لیے کمرے میں آئے،،،
کتنا مزہ آیا نا آج کھیلنے کا،،، عنائزہ نے ہنستے ہوئے کہا
ہاں بہت،،، روحان بھی ہنس رہا تھا
چلو تم فریش ہو جاؤ پھر میں بھی ہوتی ہوں،،،
روحان وارڈ ڈراب سے اپنے کپڑے نکال کر واش روم چلا گیا اور عنائزہ اس کے باہر آنے کا انتظار کرنے لگی،،،
کچھ دیر بعد وہ باہر نکلا تو عنائزہ واش روم چلی گئی،،
جب وہ باہر آئی تو روحان کمرے میں موجود نہیں تھا،،،
اس نے گلاس وال سے باہر دیکھا تو اسے وہ شفیق کے پاس کھڑا دکھائی دیا،،،
عنائزہ کو تھکن محسوس ہونے لگی اس نے کچھ دیر ریسٹ کرنے کا سوچا،،،
اب وہ ڈائری نکالے بستر پر لیٹ گئی،،،
ماضی
دردانہ ہم کیا کریں مریم کو جس بات کا شک تھا وہ صحیح نکلا کہ شہزادی کی حفاظت ضروری ہے،،، صفیہ بیگم سبزی بناتے ہوئے دردانہ بیگم سے کہہ رہی تھیں
اب وہ چاہتی ہے کہ ہم یہاں اس گھر میں رہیں تا کہ جب سب اکٹھے ہوں گے تو زیادہ مظبوت ہوں گے،،،
ہاں وہ ٹھیک کہہ رہی ہے،،، دردانہ بیگم نے کہا
لیکن ہم کب تک یہاں آپ کے گھر رہیں گے ایسے اچھا نہیں لگتا،،، صفیہ بیگم نے کہا
صفیہ آپا آپ ایسا کیوں سوچ رہی ہیں مجھے ہم سب کی جان پیاری ہے میں نہیں چاہتی کہ ہم میں سے کسی کو بھی نقصان پہنچے آپ تینوں ہمارے ساتھ رہو گے جب تک ہماری خوشیوں کا قاتل پکڑا نہیں جاتا،،، دردانہ بیگم نے صفیہ کو ڈانٹنے کے انداز میں کہا
مگر دردانہ،،،
بس آپا آپ یہاں رہو گے اللہ ہم سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے،،، صفیہ بولنے لگی جب دردانہ نے اسے ٹوک دیا
آمین،،، صفیہ نے کہا
کمال صاحب کی ہویلی کا ٹیلی فون رنگ ہوا تو کمال صاحب نے فون اٹھا کر کان کو لگایا،،،
کمال صاحب مجھے آپ کا مجرم مل گیا ہے،،، انسپکٹر شرافت بولا
اچھا کون ہے وہ،،،
کمال صاحب خیریت آپ کی آواز کو کیا ہوا ہے،،، انسپکٹر شرافت کو ان کی آواز بدلی بدلی لگی
ہاں میرا گلا کچھ خراب ہے تم بتاؤ کون ہے وہ شخص،،، کمال صاحب بولے
جب شہزادی سیڑھیوں سے گری تو میں چھت پر گیا تھا جہاں مجھے سیڑھیوں کے پاس سے ایک بٹن ملا جس سے مجھے معلوم ہوا کہ ایسے بٹن صرف شرٹ پر لگے ہوتے ہیں جبکہ آپ کے خاندان کے سبھی مرد سوٹ پہنتے ہیں سوائے،،، انسپکٹر خاموش ہوا
جی بتائیے سوائے کس کے،،، کمال صاحب نے کہا
سوائے راحیل کے،،،
کیا یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں،،، کمال صاحب کو یقین نہیں آرہا تھا
کمال صاحب یا آپ مجھ سے ملنے آجائیے یا میں آپ سے ملنے آجاتا ہوں پھر آپ کو پوری بات صحیح سے سمجھاؤں گا،،،
ٹھیک ہے انسپکٹر صاحب میری طبیعت تو ٹھیک نہیں ہے بہتر ہوتا اگر آپ مجھ سے ملنے آجاتے،،،
اوکے میں ایک گھنٹے میں آپ کے پاس پہنچتا ہوں،،، انسپکٹر شرافت نے فون رکھا
رات کے وقت آٹھ تھا جب انسپکٹر شرافت اکیلے گاڑی چلاتے ہوئے کمال صاحب کی ہویلی جا رہے تھے جب اچانک آسمان پر بادل گرجنے کی آواز آئی،،،
یہ اچانک موسم کو کیا ہو گیا،،، انسپکٹر شرافت نے گاڑی کی کھڑکی سے باہر کی طرف دیکھا
اب آدھا سفر طے کر چکے تھے انہوں نے واپس جانے سے آگے جانا ہی بہتر سمجھا،،،
کچھ دیر بعد بارش شروع ہو گئی انسپکٹر نے اپنی گاڑی کی رفتار تیز کی،،،
وہ تیز گاڑی چلاتا ہوا جا رہا تھا جب اسے سامنے سڑک پر کوئی کھڑا ہوا دکھائی دیا،،،
اس نے دو بار اسے ہاتھ سے سائیڈ پر ہونے کا اشارہ کیا مگر وہ شخص ویسے ہی اپنی جگہ پر جم کر کھڑا رہا،،،
اس نے گاڑی دوسری طرف کی تو وہ شخص اس طرف آگیا، مجبوراً اسے تیز بارش میں بھی گاڑی سے باہر نکلنا پڑا،،،
ارے کون ہو بھائی راستہ چھوڑو،،، انسپکٹر بارش میں بھیگتا ہوا بولا
وہ شخص ایک ایک قدم اٹھاتا ہوا اس کی طرف بڑھنے لگا،،،
انسپکٹر کو وہ شخص مشکوک لگا اس نے اپنی گن کور سے نکال کر ہاتھ میں پکڑی،،،
کون ہو تم،،، وہ ہھر سے بولا مگر سامنے والا جیسے بہرا تھا وہ ابھی بھی چپ چاپ اس کی طرف بڑھ رہا تھا،،، جیسے ہی وہ گاڑی کے قریب آیا اس کا جسم گاڑی کی لائٹس سے روشن ہونے لگا،،،
بلیک پینٹ کوٹ اور سر پر بلیک ہڈی لیے وہ شخص اس کے بلکل مقابل کھڑا تھا،،،
انسپکٹر کو مریم کی باتیں یاد آنے لگی جس سے اسے شک ہوا کہ یہ بھی ان ہی میں سے ایک ہے یا خود ڈیوِل ہے،،،
وہیں رک جاؤ،،، انسپکٹر نے گن کا رخ اس کی طرف کیا
وہ شخص ایک پل کے لیے رکا،،،
ایک طرف سے کلہاڑی گھومتی ہوئی آئی اور انسپکٹر جس ہاتھ میں گن تانے کھڑا تھا اس ہاتھ کو کاٹتی ہوئی سڑک پر گری،،،
گرجتے بادلوں کے ساتھ انسپکٹر کی چینخیں آسمان تک پہنچ رہی تھیں،،،
اس کا ہاتھ لہو لہان سڑک پر گرا ہوا تھا،،،
آس پاس کی جگہ سے دس پندرہ سیاہ لباس والے اس شخص کے پیچھے آکر کھڑے ہو گئے،،،
وہ دو قدم آگے بڑھ کر ایک گھٹنے کے بل زمین پر بیٹھا اور اپنا ہڈ اوپر کیا،،،
اسے دیکھ کر انسپکٹر کے رہے سہے ہوش بھی اڑ گئے،،،
پہچانا مجھے،،، وہ شخص اس کے قریب ہو کر بولا
میری دنیا میں مجھے کہتے ڈیوِل ہیں،،، وہ بارش سے بھیگتا ہوا بول رہا تھا
تم میرا راز فاش کرنے چلے تھے نا تا کہ مجھے میری میرّی سے دور رکھ سکو،،،
لو آج میں تمہیں اس دنیا سے ہی بہت دور پہنچا دوں گا اتنا دور کہ تم کبھی لوٹ کر واپس نہیں آسکو گے،،،
نہیں پلیز مجھے مت مارو میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گا،،، انسپکٹر کو اپنی جان پر بن گئی
بتا تو تم نے دیا یہ تو اچھا ہوا کہ فون میں نے اٹھایا تھا،،،
فلیش بیک
کمال صاحب مجھے آپ کا مجرم مل گیا ہے،،، انسپکٹر شرافت بولا
اچھا کون ہے وہ،،، راحیل نے فون کان کو لگا کر بولا
کمال صاحب خیریت آپ کی آواز کو کیا ہوا ہے،،، انسپکٹر شرافت کو ان کی آواز بدلی بدلی لگی
ہاں میرا گلا کچھ خراب ہے تم بتاؤ کون ہے وہ شخص،،، راحیل نے اپنی آواز بھاری کرتے ہوئے کہا
جب شہزادی سیڑھیوں سے گری تو میں چھت پر گیا تھا جہاں مجھے سیڑھیوں کے پاس سے ایک بٹن ملا جس سے مجھے معلوم ہوا کہ ایسے بٹن صرف شرٹ پر لگے ہوتے ہیں جبکہ آپ کے خاندان کے سبھی مرد سوٹ پہنتے ہیں سوائے،،، انسپکٹر خاموش ہوا
جی بتائیے سوائے کس کے،،،
سوائے راحیل کے،،، انسپکٹر کے منہ سے اپنا نام سنتے ہی راحیل کی آنکھوں میں خون اترنے لگا
فلیش ناؤ
بہت کر لیا لیحاظ اب جو بھی میرے اور میرّی کے درمیان آئے گا اسے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے گا،،، اس نے اپنے آدمی کی طرف اشارہ کیا
ان میں سے ایک آدمی ہاتھ میں مظبوتی سے کلہاڑی پکڑے انسپکٹر کی طرف بڑھنے لگا،،،
نہیں مجھے معاف کر دو میری جان بخش دو میں وعدہ کرتا ہوں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں بلکہ م۔۔میں اپنا ٹرانسفر کروا لوں گا پلیز میری جان بخش دو،،،
وہ مسلسل اپنی جان کی بھیک مانگ رہا تھا جب تیز کلہاڑی کے ایک ہی وار سے اس کا سر اس کے جسم سے جدا ہو کر دور جا گرا،،،
اس کے جسم سے خون کی تیز دھاریاں نکلتی ہوئیں بارش کے پانی کے ساتھ بہنے لگیں،،،
ڈیوِل نے ڈیڈ باڈی کی شرٹ ٹٹولی اور اس کی جیب سے اپنی شرٹ کا بٹن نکال کر مٹھی میں لیا،،،
بہت جلد تم میرے پاس ہو گی میرّی صرف میری بن کے رہو گی ساری عمر،،، اس نے بٹن کو سختی سے مٹھی میں بھینچ لیا
صبح پولیس کی ٹیم انسپکٹر شرافت خان کی ڈیڈ باڈی کا جائزہ لے رہی تھی کہ کوئی ثبوت ہاتھ لگ جائے مگر انہیں کوئی بھی ایسی چیز نہ ملی،،،
کمال صاحب کی ہویلی میں شرافت خان کے بے رحمی سے قتل کی خبر پہنچ چکی تھی اب ان سب کی پریشانی پہلے سے بھی بڑھ گئی تھی،،،
راحیل،،،
دردانہ بیگم صبح کے وقت راحیل کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹا رہی تھیں،،،
راحیل کی نیند سے بیدار ہوا وہ آنکھیں پھاڑے دروازے کی طرف دیکھنے لگا،،،
راحیل جلدی اٹھ جاؤ ضروری بات کرنی ہے،،،
آتا ہوں خالہ جان،،، راحیل نے ان کو جواب دیا اور وہ واپس مڑ گئیں
وہ واش روم گیا اور شیشے میں اپنا چہرہ دیکھا،،،
اس کے سر پر زخم ابھی بھی باقی تھا اور ایک رخسار پر کانچ کا گہرا نشان تھا جس پر اس نے نقلی سکن اتنی مہارت سے لگائی کہ کوئی بھی پہچان نہیں سکتا تھا،،،
سر کے زخم پر نقلی بال لگا کر اس نے زخم چھپا دیا،،،
آنکھوں میں وحشت لیے وہ شیشے میں اپنا عکس دیکھ رہا تھا،،،
راحیل،،،
ایک آواز مزید آنے پر وہ کمرے سے باہر نکلا،،،
کیا ہوا خالہ جان صبح صبح کیوں جگا دیا،،،
بات ہی کچھ ایسی ہے کہ جگانا پڑا،،، دردانہ بیگم نے جواب دیا
جی بتائیں کیا بات ہے،،، وہ جانتا تو تھا کہ کیا بات ہو سکتی ہے لیکن انجان بننے کے لیے پوچھنا ضروری تھا
انسپکٹر شرافت کا کسی نے بہت بے رحمی سے قتل کر دیا ہے،،،
کیا کب اور کس نے،،، راحیل نے ایکٹنگ کی
یہ ابھی معلوم نہیں ہوا ہے لیکن اس کا قتل کسی تیز دھار والی چیز سے کیا گیا ہے جس سے اس کا سر جسم سے جدا کر دیا گیا،،، دردانہ بیگم بہت سہمی ہوئی تھیں
خالہ جان آپ پریشان مت ہوں سب ٹھیک ہو جائے گا،،، راحیل نے انہین جھوٹا دلاسہ دیا
ایک اور بات ہم سب کو بہت پریشان کر رہی ہے،،،
جی بتائیں وہ کیا،، راحیل نے پوچھا
انسپکٹر شرافت کا خاص پولیس والا اکرم اس کے کہنے کے مطابق انسپکٹر شرافت کل رات ہماری طرف آرہا تھا،،،
دردانہ بیگم سے یہ بات سن کر راحیل کی آنکھوں میں لالگی آنے لگی،،
اس کا مطلب جس نے انسپکٹر شرافت کا قتل کیا ہے وہ وہی انسان ہے جو مریم کو اغواہ کر کے لے گیا تھا،،،
لیکن خالہ جان اس کا انسپکٹر شرافت سے کیا تعلق،،، راحیل کو اکرم پہ غصہ آرہا تھا
ضرور اس کے ہاتھ کوئی ثبوت لگا تھا جس کی خبر اس شخص کو ہو گئی اسی لیے اس نے انسپکٹر کا قتل کیا،،،
واہ بڈھیا اس عمر میں بھی تیرا دماغ کتنا چلتا ہے،،، راحیل نے دل میں کہا
شاید ایسا ہی ہو،،، راحیل انجان بنا
اب انسپکٹر شرافت کی جگہ جو انسپکٹر آئے گا وہی ہمارا کیس حل کرے گا،،، دردانہ بیگم نے بتایا
اب وہ کون ہے جس کو اپنی جان پیاری نہیں،،، راحیل دل میں سوچنے لگا
دردانہ،،، کمال صاحب کی آواز آئی
آتی ہوں،،، انہوں نے کمال صاحب کو جواب دیا
میں تمہارے خالو جان کی بات سن لوں تم بھی منہ ہاتھ دھو کر آجاؤ،،
ٹھیک ہے خالہ جان میں دس منٹ میں آتا ہوں،،،
دردانہ بیگم مڑ گئیں اور راحیل اپنے کمرے میں چلا گیا،،،
دو دن بعد انسپکٹر شرافت خان کی جگہ ایک اور انسپکٹر آچکا تھا اس نے جمال اور کمال صاحب کو پوچھ گیچھ کے لیے پولیس سٹیش بلایا،،،
ہاں بھئی میں نے سنا ہے اس رات انسپکٹر شرافت تم لوگوں کی طرف جا رہا تھا جب کسی نے نہایت بے دردی سے اس کا قتل کر دیا،،، اس نے اپنے موٹے پیٹ سے پینٹ اوپر کھینچتے ہوئے کہا
لیکن انہوں نے ہمیں آنے کی اطلاع نہیں دی تھی،،، کمال صاحب نے کہا
لیکن وہ روڈ تو تم لوگوں کے گھر کی طرف ہی جاتا ہے نا جہاں وادرات ہوئی،،، انسپکٹر نے کہا
آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں لیکن انہوں نے ہم سے کسی قسم کا رابطہ نہیں کیا تھا،،، جمال صاحب بولے
لیکن یہ اکرم تو کہہ رہا ہے کہ شرافت اس کو بتا کر گیا تھا کہ وہ آپ کی طرف جا رہا ہے،،، اس نے سامنے پڑی سموسوں کی پلیٹ سے ایک سموسہ اٹھایا
انسپکٹر صاحب پھر وہی بات جب ہم ایک بار آپ کو بتا چکے ہیں کہ ہمیں اس بات کی خبر ہی نہیں تو ہمیں کیسے کچھ پتہ ہو سکتا ہے،،، جمال صاحب نے تنگ آکر کہا
اچھا ٹھیک ہے ابھی آپ جاؤ ضرورت پڑنے پر پھر بلاؤں گا،،، وہ آدھا سموسہ اپنے منہ میں رکھ کر بمشکل بولا
لیکن ہمارا کیس،،، کمال صاحب نے کہا
ہاں ہاں دیکھ لیں گے اس کو بھی،،، وہ کہہ کر پھر سے کھانے میں مصروف ہو گیا
جمال اور کمال صاحب ایک دوسرے کا منہ دیکھتے ہوئے اٹھ دیے،،،
ہممم ہمارا جوان انسپکٹر پہلے ہی ان کی وجہ سے مر گیا ہے بھئی میں کیوں موت کے منہ میں ہاتھ ڈالوں،،، ان کے جانے کے بعد وہ سموسہ کھاتا ہوا بڑبڑایا
کمال مجھے تو یہ انسپکٹر ٹھیک نہیں لگا یہ ہمارا کیس حل نہیں کرے گا،،، گاڑی میں بیٹھ کر جمال صاحب نے کمال صاحب کو کہا
بھائی جان لگا تو مجھے بھی کچھ ایسے ہی ہے بس اللہ خیر کرے،،، انہوں نے گاڑی سٹارٹ کی
مریم کمرا صاف کرنے کے بعد بیڈ کی چادر ٹھیک کرنے لگی،،،
اس نے ارسم کا سر اٹھا کر تکیہ سیٹ کر کے رکھا پھر نرمی سے سر واپس تکیے پر رکھا،،،
وہ اسی کام میں مصروف تھی جب اس نے دیکھا کہ ارسم کے ہاتھ کی انگلی نے حرکت کی ہے،،،
مریم کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا،،،
ا۔۔ارسم ارسم،،، اس نے دو بار ارسم کو پکارا لیکن وہ ابھی بھی ساکت لیٹا ہوا تھا
مریم بھاگتی ہوئی صحن کی طرف گئی،،،
امی جان، چچی جان،،،
ارے مریم کیا ہو گیا کیوں پورے گھر میں شور مچا رکھا ہے،،، دردانہ بیگم نے کہا
چچی جان و۔۔وہ ارسم،،،
کیا ہوا ارسم کو وہ ٹھیک تو ہے نا،،، وہ پریشانی سے کھڑی ہوئی
چچی جان ارسم بلکل ٹھیک ہے،،،
تو بتاؤ نا پھر کیا ہوا ہے،،، صفیہ بیگم نے کہا
امی جان ارسم کے ہاتھ نے حرکت کی ہے،،، مریم سے خوشی سے بولا نہیں جا رہا تھا
کیا یا اللہ تیرا شکر ہے،،، دردانہ بیگم نے کہا اور وہ تینوں ارسم کے کمرے کی طرف بھاگیں
کمال صاحب ارسم کو لیے ہوسپٹل گئے انہوں نے کال کر کے ڈاکٹر کو ارسم کے حرکت کرنے کا بتایا تو ڈاکٹر نے ارسم کو اپنے پاس لانے کا کہا تا کہ اس کے ٹیسٹ وغیرہ کر سکیں،،،
ڈاکٹر میرا بیٹا کب تک ہوش میں آجائے گا،،، کمال صاحب نے بے تابی سے پوچھا
ان کے ہوش میں آنے کے کافی امکان نظر آرہے ہیں اب بس آپ دعا کریں اللہ نے چاہا تو یہ آج یا کل بھی ہوش میں آ سکتے ہیں یا اسی ہفتے یا اسی مہینے،،،
ڈاکٹر کی بات سن کر کمال صاحب کو خوشی کے مارے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہیں،،،
شکریہ ڈاکٹر صاحب آپ نے مجھے اتنی بڑی خوش خبری سنائی ہے،،،
ارے کوئی بات نہیں یہ سب تو اللہ کے کام ہیں ہم تو بس ذریعہ ہیں،،،
راحیل شہر سے گاؤں گھر آیا تو اسے سب ہی بہت خوش نظر آرہے تھے، وہ حیران ہوا کہ ابھی دو دن پہلے تو انسپکٹر شرافت کے قتل کی خبر سن کر گھر میں سوگ پڑا ہوا تھا اور اب یوں اچانک ایسا کیا ہوا کہ سب کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے ہیں،،،
السلام علیکم،،
سب کو سلام کرتا ہوا وہ کرسی پر آر بیٹھا،،،
وعلیکم السلام،، سب نے اس کے سلام کا جواب دیا
کیا بات ہے آج سب بہت خوش دکھائی دے رہے ہیں،،،
ہاں کیوں نہیں اور تم سنو گے نا تو تم بھی خوشی سے پاگل ہو جاؤ گے،،، دردانہ بیگم نے کہا
اچھا ایسی کیا خاص بات ہے،،، راحیل کو تجسس ہوا
تمہارا بھائی بہت جلد کومہ سے باہر آنے والا ہے انشاءاللّٰه‎‎،،، دردانہ بیگم کی بات تھی یا پگھلا ہوا سیسہ جو راحیل کو اپنے کانوں میں اترتا ہوا محسوس ہو رہا تھا،،
کیا واقع ہی م۔۔مگر کیسے میرا مطلب ہے آپ کو کیسے معلوم ہوا،،، اس کے اندر طوفان اٹھ رہا تھا لیکن سب کو نارمل ظاہر کرنا اس کی مجبوری تھی
میں بتاتی ہوں کیسے،،، مریم کمرے میں داخل ہوئی
آج میرے شوہر کے جسم نے حرکت کی ہے جو میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے،،، وہ راحیل کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی بولی
پھر ڈاکٹر نے ان کا چیک اپ کیا اور کہا کہ انہیں بہت جلد ہوش آنے والا ہے انشاءاللّٰه‎‎،،، وہ تنزیہ مسکرائی
راحیل کی آنکھوں میں اترنے والا خون اس وقت صرف مریم ہی دیکھ سکتی تھی،،،
ی۔۔یہ تو بہت اچھی خبر ہے اللہ بھائی جان کو جلد کومہ سے نکال دے بس ہمیں اور کیا چاہیے،،، راحیل نے کہا تو مریم نے تنزیہ اس کی طرف دیکھا
شہر میں لڑکیوں کے اغواہ کے کیسز بڑھتے جا رہے تھے ہر نیوز چینل یہی خبر سنا رہا تھا،،،
ایک ماہ میں تقریباً دس لڑکیاں اغواہ ہو چکی تھیں ان کے ماں باپ انصاف مانگنے سڑکوں پہ نکل آئے تھے،،،
پولیس کسی کی بات سننے کو تیار نہ تھی،،،
ڈیوِل آج شام ان لڑکیوں کی دبئی کی فلائٹ تیار ہے،،، ایک لڑکے نے ڈیوِل کو کہا
ہر کام بلکل ٹھیک ہونا چاہیے پولیس کو کسی قسم کا شک نہ ہو،،، ڈیوِل نے کرسی کے سٹینڈ پر انگلیاں چلاتے ہوئے کہا
کسی کو بھی شک نہیں ہو گا لڑکیوں کے نکاح کے پیپز تیار ہیں ہر لڑکی ایک آدمی کے ساتھ اس کی بیوی کے طور پر جائے گی،،،
ہممم،،، ڈیوِل کمرے کی جانب چل دیا
عنائزہ،،، روحان اسے پکارتا ہوا کمرے میں آیا، عنائزہ نے اس کے آنے سے پہلے ڈائری چھپائی اور آرام سے بیٹھ گئی،،،
ہاں روحان کیا بات ہے،،، روحان کے کمرے میں داخل ہوتے ہی عنائزہ نے کہا
دیکھو باہر کتنا اچھا موسم ہے چلو باہر گھومنے جاتے ہیں،،،
گھونے لیکن کہاں،،، عنائزہ حیران ہوئی
گھر سے باہر واک کرتے ہیں،،،
اوکے چلو پھر چلتے ہیں،،، عنائزہ کھڑی ہو کر بالوں کو باندھنے لگی
مت باندھو،،، روحان نے کہا
کیوں،،، عنائزہ نے پوچھا
ایسے اچھے لگتے ہیں،،، روحان کی بات پر عنائزہ مسکرائی
گھر سے باہر صاف لمبی سڑک پر وہ دونوں چلنے لگے،،،
بہار کا سماں دونوں کے دل کو بہت بھا رہا تھا،،،
عنائزہ نے روحان کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ ڈالا،،،
ایک بات پوچھوں روحان،،، عنائزہ نے کہا
پوچھو،،،
تم نے اتنی جلدی اپنے خوف پر کافی حد تک قابو پا لیا ہے کیسے کیا یہ سب،،، وہ اس کی طرف دیکھ کر چلتی ہوئی بولی
اس کے پیچھے صرف ایک ہی وجہ ہے،،، روحان نے بھی اس کی طرف دیکھا
اور وہ کیا،،، عنائزہ نے آئیبرو اچکا کو پوچھا
تم،،، روحان بولا
میں تمہاری ہر خواہش پوری کرنا چاہتا ہوں عنائزہ اور میں جانتا ہوں اس کے لیے مجھے اپنے خوف پر قابو پانا ہو گا،،،
میں یہ بھی جان چکا ہوں کہ یہ خوف صرف میرے اندر کا ہے اور باہر ایسی کوئی بات نہیں، میں تمہاری ایک خواہش پوری کر تو چکا ہوں لیکن پھر بھی تمہیں ریسٹورنٹ نہیں لے جا سکا،،،
اوہ روحان تم ہرگز ایسے مت سوچو جو تم نے میرے لیے کیا وہ ریسٹورنٹ سے بہت زیادہ اچھا تھا میں کبھی بھی ان لمحوں کو بھول نہیں پاؤں گی،،،
لیکن میں پھر بھی تمہیں ریسٹورنٹ ضرور لے کر جاؤں گا تمہاری ہر خواہش پوری کروں گا میں،،، روحان مسکرایا
مجھے تم سے زیادہ کچھ بھی پیارا نہیں ہے روحان تم میرے ساتھ ہو تو مانو میری ہر خواہش پوری ہو گئی،،،
روحان کو عنائزہ کی بات سے خوشی محسوس ہوئی کہ عنائزہ کے لیے سب سے زیادہ ضروری صرف روحان ہے اس کی خواہشیں نہیں،،،
عنائزہ نے اس کے کندھے پر سر رکھا اور چلنے لگی،،،
کچھ دیر تک چلنے کے بعد عنائزہ کو سوکھے پتوں کے ٹوٹنے کی آواز آئی، س نے جنگل کی طرف دیکھا،،،
کیا ہوا،،، روحان نے پوچھا
یہاں کوئی ہے،، عنائزہ جنگل کی طرف چلنے لگی
لیکن کون،،، روحان پریشان ہوا اور اس کے پیچھے چلنے لگا
ادھر ادھر دیکھنے کے بعد عنائزہ کو وہاں کوئی نظر نہ آیا،،،
یہاں تو کوئی بھی نہیں ہے،،، روحان نے کہا
لیکن مجھے کسی کے قدموں کی چانپ سنائی دی ہے،،، عنائزہ نے روحان کو دیکھتے ہوئے کہا
ہو سکتا ہے کوئی جانور ہو،،، روحان نے اندازہ لگایا
لیکن اس جنگل میں تو جانور ہیں ہی نہیں،،،
چھوڑو جو بھی تھا ہمیں کیا،،، روحان نے پھر سے عنائزہ کا ہاتھ پکڑا
آؤ نا پھر سے واک کرتے ہیں،،، عنائزہ وہیں جم کر کھڑی تھی تو روحان نے کہا
نہیں اب ہمیں گھر چلنا چاہیے،،، عنائزہ اس کا ہاتھ کھینچتے ہوئے واپس سڑک پر آئی
لیکن گھر کیوں اتنا مزہ تو آرہا تھا،،، روحان نے منہ پھلایا
نہیں روحان یہاں ہم سیف نہیں ہیں،،، عنائزہ نے اسے سمجھانا چاہا لیکن اس کا منہ ابھی بھی پھولا ہوا تھا
رات کے وقت روحان کمفرٹ ایبل نائٹ ڈریس پہن کر واش روم سے نکلا جب اسے عنائزہ وارڈ ڈروب کے پاس کھڑی کچھ سوچتی ہوئی دکھی،،،
کیا ہوا،،، روحان نے پوچھا
روحان میری ہیلپ تو کرو،،،
ہیلپ۔۔۔ کس کام میں،،،
عنائزہ دو نائٹز لیے بیڈ کی طرف آئی،،،
اچھا بتاؤ ان دونوں میں سے کون سی پہنوں،،، وہ باری باری دونوں کو اپنے ساتھ لگاتی ہوئی روحان سے مشورہ لے رہی تھی،،،
نائٹیز کو دیکھ کر روحان کے ہوش اڑے وہ آنکھیں کھولے عنائزہ کو دیکھتا رہا،،،
ارے دیکھ کیا رہے ہو بتاؤ نا،،، عنائزہ نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا
ہاں کچھ نہیں،،، روحان نے نظریں جھکائیں
کچھ نہیں کیا میری ہیلپ کرو بتاؤ ان میں سے کونسی اچھی لگ رہی ہے،،،
اب روحان بیچارہ شرمیلا بچہ اسے کیا جواب دیتا اس نے نہایت آرام سے کمفرٹر میں گھس جانے میں ہی بہتری سمجھی،،،
ارے ارے،،، عنائزہ پہلے تو اس کے عمل پر حیران ہوئی پھر اپنی ہنسی دبانے کے لیے لب دانتوں تلے دبایا،،،
عنائزہ پنک کلر کی نائٹی لیے واش روم گھس گئی،،،
روحان کو پچھلی بات یاد آنے لگی جب عنائزہ گھٹنوں تک نائٹ ڈریس پہنے اس کے کمفرٹر میں گھس گئی تھی،،،
اب کی بار وہ کیا کرے گی یہ سوچ سوچ کر روحان کے چودہ طبق پہلے سے ہی روشن ہونے لگے،،،
عنائزہ واش روم سے نکلی تو روحان کو ویسے ہی کمفرٹر میں دبکے پایا،،،
"ہائے رے میرے اناڑی پیا"،،، عنائزہ نے اپنا ماتھا پیٹا
روحان،،، اس نے روحان کو بلانے کی کوشش کی لیکن آگے سے پکا سناٹا
روحان بتاؤ میں کیسی لگ رہی ہوں،،،
عنائزہ کی اس بات پر روحان کا نازک سا دل تیز تیز دھڑکنے لگا، اب وہ اسے دیکھ پاتا تو ہی بتاتا نا کہ وہ اس نائٹی میں کیسی لگ رہی ہے،،،
روحان کمفرٹر اتارو،،، عنائزہ نے بھی جیسے آج کچھ ٹھان لی تھی
روحان کی دھڑکنوں کے ساتھ سانسوں نے بھی مقابلہ لگایا،،،
روحان میں کیا کہہ رہی ہوں،،،
اتنی بار عنائزہ کے کہنے پر روحان کو لگا کہ اب اس نے عنائزہ کی بات نہ مانی تو وہ ناراض ہو جائے گی،،،
اس نے دھیرے سے کمفرٹر چہرے سے نیچے کیا مگر معصوم سبز آنکھیں ابھی بھی بند تھیں،،،
آنکھیں کھولو،،،
عنائزہ کے کہنے پر بھی اس میں آنکھیں کھولنے کی ہمت نہ ہوئی،،،
روحان،،،
دوسری بار کہنے پر روحان نے آنکھیں کھولیں مگر یہ کیا عنائزہ تو سادہ سے سوٹ میں ملبوس تھی،،،
ہاہاہا۔۔۔کمرے میں عنائزہ کا قہقہ گونجا،،،
روحان آنکھیں مٹکتا اسے دیکھتا رہا وہ کب سے کیا سوچ رہا تھا،،،
کیسا لگا مذاق،،، عنائزہ نے بمشکل اپنی ہنسی کنٹرول کرتے ہوئے کہا
میں نہیں بولتا،،، روحان کے کہہ کر کمفرٹر میں چہرہ چھپایا
ہائے رے میرے اناڑی پیا مجھ سے ناراض ہو گئے،،، عنائزہ اس کے ساتھ چپک کر لیٹ گئی
بولو نا کیوں ہو گئے ناراض میں تو مذاق کر رہی تھی،،، اس نے روحان کے چہرے سے کمفرٹر ہٹانا چاہا لیکن روحان نے مظبوتی سے دبایا ہوا تھا،،،
روحان پلیز کنفرٹر اتارو،،،
نہیں اتاروں گا،،، روحان بھی ضدی بنا
تم سے مذاق نہیں کروں گی تو اور کس سے کروں گی،،،
عنائزہ کی بات پر روحان نے چہرہ کنفرٹر سے نکالا اور اسے دیکھ کر بولا،،،
یہ مذاق تھا میری جان حلق میں اٹک گئی تھی،،،
افف میرے خدایا کیا کروں اس شرمیلے لڑکے کا،،، عنائزہ نے ماتھا پیٹا
تو کیا تم کبھی بھی میرے ساتھ رومانس نہیں کرو گے،،،
روحان نے عنائزہ کی بات پر غور کیا اور سوچنے لگا،،،
بتاؤ نا،،، اس نے پھر سے پوچھا
کروں گا،،، روحان کے منہ سے اچانک نکلا
اچھا تو آج پھر تمہارا ایک چھوٹا سا ٹیسٹ ہو جائے،،، عنائزہ خوشی سے سیدھی ہو کر بیٹھی
وہ کس لیے،،، روحان حیران ہوا
آج تم خود مجھے کس کرو گے،،،
عنائزہ نے کہا تو روحان کچھ دیر اسے دیکھتا رہا،،
دیکھو جتنی بار بھی کی ہے میں نے کی ہے اس لیے آج تم کرو گے پھر میں اس ٹیسٹ میں تمہیں مارکس بھی دوں گی اوکے،،،
روحان اٹھ کر بیٹھا عنائزہ اسے کافی مرتبہ کس کر چکی تھی تو اب خود اسے کس کرنا شاید اسے مشکل نہیں لگا،،،
روحان کے اٹھنے پر عنائزہ خوش ہوئی،،،
اب وہ دونوں ایک دوسرے کو گھورے جا رہے تھے،،،،
کرو بھی،،، وہ بولی
پہلے اپنی آنکھیں بند کرو،،، روحان نے شرط رکھی
اوکے۔۔۔ عنائزہ نے آنکھیں بند کیں
روحان نے شرماتے ہوئے اپنا چہرہ اس کے قریب کیا اور دو سیکنڈ کے لیے اپنے ہونٹوں کو اس کے ہونٹوں پہ رکھ کر الگ ہونے لگا،،،
تبھی عنائزہ نے اس کی گردن میں ہاتھ ڈال کر اسے مزید خود کے قریب کیا اور اس حسین عمل کو جاری رکھا،،،

سیاہ رات ایک سچی کہانی (قسط نمبر 12)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں