سیاہ رات ایک سچی کہانی - آخری حصہ

 

 - سیاہ رات ایک سچی کہانی - آخری حصہ

جیسے ہی وہ دونوں کمرے میں داخل ہوئے روحان نے روم لاک کیا جو کہ آج پہلی بار تھا،،،
عنائزہ نے آنکھیں پھیلائے روحان کو دیکھا جو اب اس کی طرف رخ کر کے کھڑا ہو گیا تھا،،،
ک۔۔کیوں لاک لگایا،،، وہ مظبوت لہجے میں بولنا چاہ رہی تھی لیکن اس کی زبان لڑکھڑا گئی،،،
میری مرضی،،، روحان اس کے قریب ہوا
چپ کر کے اپنی جگہ پر لیٹو،،، اس نے پہلے ہی طرح حکم چلانا چاہا
روحان کے ہونٹ کا تل مسکرایا،،،
آپکی حمکرانی کے دن اب گئے مسز روحان،،، اس نے عنائزہ کو پیچھے کی طرف دھکیلا تو وہ بیڈ پر جا گری،،،

اب مسٹر روحان کی حکمرانی کے دن ہیں جو ہمیشہ رہنے والے ہیں،،،
وہ جیسے ہی اس پر ہاوی ہونے لگا عنائزہ تیزی سے اٹھی،،،
ایسا کچھ نہیں ہونے والا سمجھ آئی،،، وہ اس کے سینے پہ انگلی رکھے اسے پیچھے دھکیلتی ہوئی بولی
کیوں خود ہی تو کہتی تھی کبھی بڑوں والے کام بھی کرو تو اب کرنے نہیں دے رہی،،،

ک۔۔کوئی کام وام نہیں کرنا وہ تو تمہیں چھیڑتی تھی میں،،،
اب میں چھڑ گیا ہوں کچھ تو کر کے رہوں گا،،، اتنا کہہ کر وہ شرٹ کے بٹن کھولنے لگا عنائزہ آنکھیں پھیلائے اسے دیکھ رہی تھی
اصلی چھکے تو عنائزہ کے اب لگے تھے جب روحان نے شرٹ اتار کر پھینکی اور اس کی مظبوت باڈی دیکھ کر عنائزہ کا منہ کھلا،،،
مظبوت بھرے ہوئے بازو چوڑا مظبوت سینہ اور پیٹ بھی کافی ہارڈ لگ رہا تھا البتہ پیکس ابھی نہیں بنے تھے،،،

ر۔۔روحان یہ س۔۔سب،،، وہ سکتے کی حالت میں روحان کو اوپر سے نیچے تک دیکھ رہی تھی
کیوں شوکڈ ہو گئی،،، اس نے مسکراتا ہوئے کہا
ہ۔۔ہاں لیکن تم نے یہ کیسے کیا،،،
یہ باتیں بعد کی ہیں فلحال مجھے ایک کام کرنا ہے جو کہ بہت ضروری ہے،،، یہ کہہ کر وہ اس پر ہاوی ہوا
عنائزہ کو لگا جیسے کسی نے اس پر دو من وزن لاد دیا ہو،،،
ر۔۔۔روحان،،، اور اس سے آگے روحان نے اسے بولنے کے قابل نہیں چھوڑا
اس کی بے باکیاں بڑھتی جا رہی تھی عنائزہ نے خود کو اس سے چھڑوانے کی کوشش کی لیکن اس کی طاقت کے آگے عنائزہ کی ننھی کوشش نے ہار مان لی،،،
روحان نے ایک ہاتھ سے لیمپ آف کیا اور عنائزہ کو روح تک محسوس کرنے لگا


صبح وہ دونوں دیر تک سوئے رہے روحان کی آنکھ کھلی تو اس نے آنکھیں مسلتے ہوئے سائیڈ ٹیبل پہ پڑے چھوٹے کلاک کی طرف دیکھا جو اس وقت صبح کے 9 کا ٹائم دکھا رہا تھا پھر اس نے ساتھ لیٹی عنائزہ کو دیکھا جو گہری نیند سو رہی تھی،،،
اسے دیکھتے ہی روحان کو اس پر پیار آنے لگا اور جھک کر اس کی رخسار پر اپنے لب رکھے پھر اس کے رخساروں کو سہلانے لگا،،،
عنائزہ کی نیند میں خلل پیدا ہوا تو اس نے آنکھیں کھولیں، روحان کو اتنا قریب پا کر اس کے چہرے پر شرم و حیا کے رنگ بکھرے،،،
گڈ مارننگ،،، آج پہلے کہنے والا روحان تھا
ہمم گڈ مارننگ،،،
کیسی نیند آئی،،، اس نے معنی خیز سا پوچھا
بہت اچھی،،،

اس کا مطلب روز ایسی نیند سونے کے لیے رات والا کام کرنا پڑے گا،،، وہ مسکراتا ہوا بولا
جی نہیں مجھے پہلے بھی اچھی نیند آتی ہے،،،
اچھا اٹھو دونوں مل کے فریش ہوتے ہیں،،، روحان نے کہا تو عنائزہ نے ترچھی نظروں سے اس کی طرف دیکھا
تم کچھ زیادہ ہی بے شرم نہیں ہو گئے،،،
رات کے بعد بھی ابھی یہ پوچھنا باقی تھا کیا،،،
ہٹو پیچھے مجھے فریش ہونا ہے پھر یونی جانا ہے
لیکن یونی کا ٹائم تو نکل گیا،،،
کیا۔۔۔ کیا مطلب،،، عنائزہ نے تیزی سے موبائل اٹھا کر آن کیا اور ٹائم دیکھ کر اس کی آنکھیں پھیلیں

اوہ گاڈ ایک لیکچر تو مِس ہو گیا اب جاتے جاتے دوسرا بھی ہو جائے گا چلو کوئی نہیں باقی تو لے ہی لوں گی،،، وہ تیزی سے کھڑی ہوئی اور کراہتے ہوئے واپس بیڈ پر بیٹھی
عنائزہ کیا ہوا،،، روحان اسے دیکھ کر پریشان ہوا
م۔۔میری طبیعت نہیں ٹھیک،،،
کیا ہوا بخار تو نہیں ہو گیا،،، وہ اس کے ماتھے پہ ہاتھ رکھے چیک کرنے لگا
نہیں بخار نہیں ہے،،،
تو پھر کیا ہے،،،
کچھ نہیں مجھے پین کلر لینی ہے،،،
لیکن خالی پیٹ کیسے اس کے لیے تو ناشتہ کرنا پڑے گا،،،
ٹھیک ہے میں فریش ہوتی ہوں تم عقیلہ سے کہو ناشتہ بنائے،،،
لیکن کیسے فریش ہو گی تمہاری تو طبیعت نہیں ٹھیک،،،
میں کر لوں گی تم جاؤ عقیلہ سے کہو،،،
روحان کمرے سے باہر نکل گیا اور عنائزہ آہستگی سے اٹھتے ہوئے واش روم گھس گئی،،،

جب وہ فریش ہو کر نکلی تو روحان ٹیبل پر اس کا ناشتہ رکھے بیٹھا تھا،،،
اس نے عنائزہ کو کندھوں سے پکڑا اور بیٹھانے لگا،،،
اتنی بھی بیمار نہیں ہوں میں،،، وہ روحان کی خدمتوں پر مسکرائی
جتنی بھی ہو میرے لیے بہت ہو میں تو ایسے ہی خیال رکھوں گا،،،
اچھا تم جلدی سے فریش ہو جاؤ اکٹھے ناشتہ کریں گے،،،
نہیں تم ناشتہ کر کے پین کلر لو یہ ٹیبل پر رکھ دی ہے میں نے اور میں کر لوں گا بعد میں،،،

نہیں روحان اکٹھے کرتے ہیں،،،
میں نے کہا نا ناشتہ کر کے پین کلر لو چلو جلدی کرو،،، روحان آج عنائزہ کی طرح حکم چلا رہا تھا اور وہ آنکھیں پھیلائے اسے دیکھ رہی تھی،،،
ٹھیک ہے کر لیتی ہوں،،، اس نے کہا تو روحان مسکراتا ہوا واش روم چلا گیا
عنائزہ نے ناشتہ کر کے پین کلر لی اور بستر پر لیٹ گئی،،،
وہ سوچنے لگی کہ اگر روحان اس پر حکم چلانے لگا تو وہ خود کیسے روحان پر حکم چلائے گی وہ تو پھر اس کے رعب تلے ہی نہیں آئے گا،،،
کچھ تو کرنا پڑے گا،،، عنائزہ سوچ رہی تھی جب روحان فریش ہو کر نکلا
اس نے ٹیبل کی جانب خالی برتن دیکھے اور پھر ٹیبلیٹس دیکھیں جس میں سے دو کھائی گئی تھیں،،،
اس نے سوچ رکھا تھا وہ صبح عنائزہ کو خوب چھیڑے گا لیکن اس کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے اس کا سارا پلین چوپٹ ہو گیا،،،
میں ناشتہ کر کے آتا ہوں اوکے،،، روحان نے کہا تو عنائزہ نے اثبات میں سر ہلایا
وہ کمرے سے باہر نکلا تو عنائزہ کے فون بیل نے اس کی توجہ کھینچی،،،
اس نے موبائل اٹھایا تو سکرین پہ لیلہ کا نمبر جگمگا رہا تھا،،،
ہیلو عنائزہ خیر تو ہے تم آج یونی نہیں آئی،،، عنائزہ نے کال ریسیو کرتے ہی وہ بولنے لگی
ہاں یار بس کچھ طبیعت نہیں ٹھیک اور لیٹ آنکھ کھلی تو اس لیے چھٹی کر لی،،،
کیوں کیا ہوا طبیعت کو ٹھیک تو ہو نا تم،،، لیلہ نے پریشانی سے کہا
ہاں زیادہ مسئلہ نہیں ہے بس پیٹ میں تھوڑی پین ہے،،،
اووو تو یہ بات ہے اور جناب کی آنکھ بھی دیر سے کھلی ہے کہیں رات میرے بھائی نے۔۔۔

لیلہ بے شرم چپ کرو کیسی باتیں کر رہی ہو،،، عنائزہ نے اس کی بات ٹوکتے ہوئے کہا تو لیلہ نے قہقہ لگایا
اس کا مطلب میرا تکا صحیح نکلا،،، وہ ہنستے ہوئے بولی
تم نے چپ کرنا ہے یا میں موبائل سے ہی کوئی چیز مار کر تمہارا سر پھوڑ دوں،،، عنائزہ چلّائی
ہاہاہا اوکے یار نہیں کرتی تنگ تمہیں،،،
اوکے میں رکھتی ہوں تم جلدی سے ٹھیک ہو کر صبح یونی آجانا اوکے،،،
ہاں آجاؤں گی،،، عنائزہ نے کہا تو لیلہ کال ڈسکنیکٹ کر گئی
لیلہ نے جینی کو اپنی طرف آتے دیکھا تو حیران ہوئی،،،
Why didn't your friend come today?
وہ اس کے پاس آکر بولی،،،
She is not feeling well.
لیلہ نے جواب دیا
Oh i see, can you give me her phone number?
Sorry I can't give without her permission.
لیلہ نے انکار کیا کیوں کہ وہ جانتی تھی جینی کو بھیجنے والا ایڈورڈ ہے،،،
Ok see you later.
وہ کہتی ہوئی واپس مڑ گئی، ویسے تو جینی نہ ہی لیلہ کو اور نہ ہی عنائزہ کو اچھا سمجھتی تھی لیکن ایڈورڈ کی کسی بھی بات سے اس نے کبھی انکار نہیں کیا تھا،،،
روحان میں بور ہو رہی ہوں کوئی مووی لگا لو،،، عنائزہ نے منہ بسورتے ہوئے کہا
اوکے کونسی لگاؤں،،، روحان نے ٹی وی چلایا
کوئی بھی اچھی سی،،،
سامنے موویز کی لسٹ تھی عنائزہ نے ان میں سے ایک مووی بتائی،،،
نہیں یہ نہیں کوئی اور دیکھتے ہیں،،، روحان نے کہا کیوں کہ وہ یہ مووی دیکھ چکا تھا
اچھا پھر اس کے ساتھ والی لگا لو،،،
یہ بھی نہیں،،،
اچھا پھر وہ والی لگاؤ جو لاسٹ پر ہے،،،
نہیں ہے خاص نہیں ہے،،،اچانک روحان کے منہ سے نکلا
کیا مطلب خاص نہیں کیا تم نے یہ دیکھی ہوئی ہے،،، عنائزہ کو حیرت کا جھٹکا لگا
روحان مسکرانے لگا اور اثبات میں سر ہلایا،،،
اس کا مطلب جب سے میں نے یونی سٹارٹ کی ہے تم روز موویز دیکھتے ہو،،،
ہاں تمہارے بعد اور کرنا بھی کیا ہوتا تھا،،،
اچھاااا تو اس کا مطلب تم یہ موویز دیکھ دیکھ کر ٹرینڈ ہوئے ہو،،، اس نے روحان کے بازو پر تھپڑ لگایا جس پر روحان ہنس کر رہ گیا
اور بتاو یہ باڈی کیسے بنائی ہے،،،
جم کے ذریعے،،،
جم کا باہر کرنے جاتے ہو،،،
نہیں گھر میں،،، روحان نے کہا تو عنائزہ سوچ میں پڑ گئی
تم نے جم کے انسٹرومنٹس گھر منگوائے ہیں،،، عنائزہ نے سوچ کر کہا
ہاں ایک روم میں سب فٹ ہے،،،
ت۔۔تم کتنے چالاک ہو گئے ہو تم نے یہ سب مجھ سے چھپایا میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں،،، وہ پِلو اٹھائے اسے مارنے لگی اور روحان کے قہقے پورے کمرے میں گونجنے لگے،،،
اس نے عنائزہ کو اپنی گرفت میں لے کر لیٹایا،،،
کیون چھپایا مجھ سے بتاؤ،،، اس کے ہاتھ روحان کی گرفت میں تھے اس لیے اب وہ روحان کو ٹانگیں مار رہی تھی جنہیں اگلے ہی پل روحان کی ٹانگوں نے کنٹرول میں کیا
لگتا ہے پین کلر نے اپنا کام دکھا دیا ہے اور تمہاری طبیعت اب بلکل ٹھیک ہو گئی ہے،،، اس نے عنائزہ کی گردن پر ہونٹ رکھے تو عنائزہ کے دماغ میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں
ہٹو پیچھے اب تمہیں کچھ نہیں کرنے دوں گی میں،،، اس نے اسے دھکیلنا چاہا لیکن ناکام رہی
روحان اس کی طرف دیکھ کر مسکرانے لگا عنائزہ کی نظر اس کے ہونٹ کے نیچلے تل پر پڑی جو پورے شوق سے مسکرا رہا تھا،،،
کہہ دو جو دل میں سوچ رہی ہو،،،
کیا سوچ رہی ہوں میں،،، اس نے فوراً سے تل سے نظر ہٹا کر اس کی آنکھوں میں دیکھا
یہی کہ میں بہت ہینڈسم لگ رہا ہوں،،،
کوئی نہیں ہو تم ہینڈسم ایسے خود سے باتیں بناتے ہو،،، عنائزہ نے آنکھیں گھمائیں
اچھااا لیکن میں اس دن تمہیں یونی چھوڑنے گیا تھا میں نے تو ایک بھی لڑکا نہیں دیکھا جو مجھ جتنا ہینڈسم ہو،،،
او ہو تمہاری غلط فہمی ہے یونی میں بھی بہت سے لڑکے ہین جو تم سے زیادہ ہینڈسم ہیں،،، وہ جانتی تھی اس نے آج تک روحان سے زیادہ خوبصورت کوئی بھی لڑکا نہیں دیکھا لیکن اس وقت وہ یہ بات اس سے نہیں کہنا چاہتی تھی
اچھا ایسی بات ہے تو کبھی مجھے بھی دکھاؤ وہ لڑکے میں بھی تو دیکھوں وہ کون ہیں جو مجھ سے زیادہ ہنڈسم ہیں،،،
ہاں دکھا دوں گی اس میں کونسا بڑی بات ہے اب ہٹو پیچھے،،،
وہ میں سوچ رہا تھا کچھ کر لیا جائے،،، روحان نے مسکراتے ہوئے کہا
روحان تم۔۔۔ اٹھو ابھی کے ابھی،،،
اوکے،،، روحان نے کہہ کر عنائزہ کے ہونٹوں پر چھوٹی سی کِسی کی اور اس کے الگ ہوا
بہت بھاری ہو گئے ہو تم،،، عنائزہ منہ بسورتے ہوئے بولی جس پر وہ مسکرا کر رہ گیا
ان کا باقی کا سارا دن باتیں کرتے ہوئے اور لان میں ٹہلتے ہوئے گزر گیا،،،
رات کو روحان نے عنائزہ کا خیال کرتے ہوئے اسے بخش دیا اور وہ دونوں لائٹ آف کیے سو گئے،،،
عنائزہ نے اس کے سونے کے بعد لیمپ آن کیا اور دراز سے ڈائری نکالی،،،
ماضی
ارسم نے کچھ دن تک راحیل کو ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ اسے کہیں نہ دکھا،،،
مریم کے دل سے اس کا خوف جاتے نہیں جا رہا تھا جب سے اس کے ابو اور تایا جان کی کی وفات ہوئی تھی وہ مزید خوفزدہ رہنے لگی تھی،،،
وہ اکثر راتوں میں خود کو ڈیوِل کی نظروں کے حصار میں محسوس کرتی تھی،،،
آج رات مریم اور ارسم سو رہے تھے جب مریم کو کھڑکی سے کھٹ کھٹ کی دو بار آواز سنائی دی جس وجہ سے مریم کی آنکھ کھلی،،،
ا۔۔ارسم،،،
ارسم اٹھیں پلیز،،، وہ خوف زدہ سی اسے جگانے کی کوشش کر رہی تھی
ہممم،،، ارسم غنودگی کی حالت میں بولا
پلیز اٹھیں،،،
کیا ہوا،،،
وہ ادھر کھڑکی میں کوئی ہے،،،
کون ہے،،، ارسم اٹھ کر بیٹھا
میں نے آواز سنی ہے آپ دیکھیں،،،
ارسم اٹھ کر کھڑکی کے پاس گیا اور آس پاس دیکھا لیکن کوئی نظر نہیں آیا،،،
مریم کوئی نہیں تم کیوں ڈر رہی ہو،،، وہ کھڑکی بند کر کے واپس آکر آیا
لیکن سچ میں ارسم میں نے دوبار آواز سنی ہے کھڑکی کے ہلنے کی لیکن ہوا بھی نہیں چل رہی تو کھڑکی کیسے ہل رہی تھی،،،
اچھا تم ادھر آؤ میرے پاس،،، اس نے لیٹ کر بازو پھیلائے تو مریم اس کے سینے سے لگی،،،
دن گزرتے گئے مریم کے دل میں ہر وقت کے لیے اس کا ڈر بس چکا تھا اس کے ذہن سے ڈیوِل نکالے نہیں نکل رہا تھا،،،
ڈر اور خوف کے مارے وہ دن بہ دن کمزور ہوتی جا رہی تھی اس کی آنکھوں کے گرد ہلکے پڑ گئے تھے،،،
ڈاکٹر نے مریم کو پریشانے لینے سے سختی سے منع کیا تھا کیوں کہ اس کا اثر اس کے بچے پر پڑ رہا تھا لیکن خود کو اس خوف سے نکالنا مریم کے بس سے باہر ہو چکا تھا،،،
مریم روز ارسم کو کہتی کہ یہ گھر ان کے لیے محفوظ نہیں ہے لیکن ارسم بھی کیا کرتا وہ پہلے ہی اپنی آبائی جگہ چھوڑ کر شہر میں شفٹ ہوئے تھے اور اب یہ شہر چھوڑ کر کہاں جاتے،،،
دوسرا ارسم کا یہاں بزنس چل رہا تھا کسی اور شہر جا کر بزنس سیٹ کرنا بھی آسان کام نہ تھا،،،
اس کے بچے کو چھٹا ماہ جاری تھا وہ لیکن کمزوری کے باعث وہ پانچ ماہ کی حاملہ لگ رہی تھی،،،
وہ نہیں جانتی تھی کہ ڈیوِل کیوں خاموش ہے یا شاید اس خاموشی کے پیچھے کوئی بڑا طوفان آنے والا تھا،،،
شہزادی ڈیوِل سے رابطے میں تھی مریم نے پہلے دن سے ہی اسے سمجھانا چاہا تھا کہ وہ نا سمجھ ہے لیکن اس نے مریم کی ایک نہ سنی،،،
کم عمری میں وہ اس کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس چکی تھی اور کم عقلی کہ وجہ سے وہ جان نہ پائی کہ ڈیوِل اس سے باتوں باتوں میں گھر کے بارے میں کیوں پوچھتا رہتا تھا ہے،،،
آج ڈیوِل نے شہزادی کو ایک پارک میں ملنے کے لیے بلایا تھا اب اس کا کیا پلین تھا شہزادی اس بات سے بے خبر تھی،،،
یہ گولیاں تم نے خالا جان اور تائی جان کو کسی بھی چیز میں ملا کر دینی ہیں،،،
لیکن صرف ان کو ہی کیوں اور باقی گھر والے،،، شہزادی اس کی بات پر حیران ہوئی
ان کے لیے یہ والی گولیاں ہیں،،، اس نے دوسرے پیکٹ سے نکال کر کہا
لیکن ایسا کیوں پچھلی بار تو ایک ہی قسم کی گولیاں تھیں جو سب کو دی تھیں میں نے اور آج یہ الگ الگ،،،
ہاں صرف اس لیے کیوں کہ خالا جان اور تائی جان کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں رہتی ہے اور ان کی عمر کے لیحاظ سے یہ کم اثر کرنے والی گولی ہے یہ ان کے لیے ٹھیک رہے گی،،،
اچھا اگر ایسا ہے تو ٹھیک ہے میں یہ انہیں پلا دوں گی،،، اس نے دونوں پیکٹس پکڑتے ہوئے کہا جس سے راحیل کے ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ رونما ہوئی
اب میں جاؤں کسی کو شک نہ ہو جائے دوست سے ملنے کا بہانہ لگا کر آئی تھی،،،
ہاں جاؤ اور میں رات کو گھر کے باہر انتظار کروں گا کھڑکی میں آجانا اوکے،،،
آؤں گی اب اللہ حافظ اپنا خیال رکھیے گا،،، وہ نقاب کرتے ہوئے وہاں سے نکل گئی
رات کے وقت شہزادی نے چائے بنا کر صفیہ بیگم اور دردانہ بیگم کی چائے میں راحیل کی دی ہوئیں ٹیبلیٹس ملا دیں اور باقی چائے میں دوسری ٹیبلیٹس،،،
پہلے دو کپس میں چائے ڈالی جو کہ ان دونوں کی تھی، ٹرے لیے وہ کمرے سے باہر نکلی،،،
امی جان یہ آپ کی چائے،،، وہ ٹرے پکڑے اندر داخل ہوئی
ارے آج عقیلہ نے چائے نہیں بنائی،،، صفیہ بیگم نے پوچھا
نہیں اسے میں نے منع کیا تھا میرا دل چاہ رہا تھا سب کے لیے آج خود چائے بناؤں،،،
اچھا کیا تم نے آج میں اپنی شہزادی کے ہاتھ کی چائے بہت دنوں بعد پیوں گی،،، انہوں نے ٹرے سے کپ اٹھا کر منہ کو لگایا
کیا ڈالا ہے اس میں ذائقہ تھوڑا عجیب ہے،،، انہوں نے پہلی گھونٹ پر ہی کہا
ادرک والی جائے بنائی ہے آپ کی کمر میں درد رہتا ہے نا اسی لیے،،،،
یہ تو بہت اچھا کیا تم نے درد تو واقع ہی بہت ہے میری کمر میں،،، وہ پھر سے چائے پینے لگیں
اچھا میں اب چچی جان کو چائے دے آؤں،،، وہ کمرے سے باہر نکلی اور دردانہ بیگم کے کمرے کا رخ کیا
چچی جان یہ رہی آپ کی چائے،،،
رکھ دو ٹیبل پر تھوڑی ٹھنڈی کر کے پیوں گی،،، دردانہ بیگم نے کہا اور شہزادی چائے رکھ کر کمرے سے باہر نکلی
اب وہ کچن میں آئی اور دوسری ٹرے اٹھائے سب کو چائے دی،،،
کھڑکی میں آکر اس نے راحیل کو دیکھا لیکن وہاں کہیں بھی نظر نہ آیا،،،
راحیل کہاں رہ گئے آپ،،، کچھ دیر وہ وہیں کھڑی راحیل کا انتظار کر رہی تھی جب اسے نیچے سے مریم کی چینخ سنائی دی،،،
وہ بھاگتی ہوئی نیچے گئی تا کہ دیکھ سکے کہ کیا ہوا ہے،،،
امی جان امی جان اٹھیں آپ کو کیا ہوا ہے،،، مریم حلق کے بل چلا رہی تھی
صفیہ بیگم کے منہ سے سفید جھاگ نکل کر اس کا تکیہ بھگو رہی تھی شہزادی گھٹنوں کے بل زمین پر گری،،،،
جاری ہے
پیارے ریڈرز بات یہ کہ شہزادی نے راحیل کے ساتھ مل کر کوئی غلط کام نہیں کیا

امی جان آنکھیں کھولیں،،، وہ چینختے ہوئے رو رہی تھی اس کی چینخیں سن کر سب گھر والے اکٹھے ہوئے
تائی جان۔۔۔ ارسم کمرے کے اندر آیا
کیا ہوا تائی جان کو،،، اس نے مریم سے پوچھا
پ۔۔پتہ نہیں جب میں آئی تو یہ ا۔۔ایسے ہی تھیں،،، مریم نے ہچکیوں میں بتایا
ارسم نے ان کی نبض چیک کی تو وہ رکی ہوئی تھی،،،
ان کی نبض نہیں چل رہی،،، ارسم نے سکتے کی حالت میں کہا
ن۔۔نہیں ایسا نہیں ہے امی جان پلیز آنکھیں کھولیں ابو جان بھی چھوڑ کر چلے جائیں پلیز آپ نہ جائیں میں مر جاؤں گی،،،
دردانہ بیگم بھاگی ہوئی آئیں ان کا حال بھی مریم جیسا تھا،،،
ان کے منہ سے جھاگ نکل رہی ہے انہیں زہر دیا گیا آخر بار کیا کھایا ہے انہوں نے عقیلہ کو بلاؤ جلدی،،، ارسم حلق کے بل چلایا
شہزادی جو سکتے کی حالت میں اپنی ماں کی طرف دیکھ رہی تھی ارسم کی بات سن کر ہوش میں آئی،،،
عقیلہ بھاگتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی،،،
کیا کھلایا ہے تم نے انہیں،،، ارسم عقیلہ کو دیکھتا ہوا چلایا
م۔۔میں نے کچھ بھی نہیں کیا صاحب جی قسم لے لیں،،، عقیلہ گھبرائی ہوئی بولی
شہزادی فوراً کھڑی ہو کر بھاگنے لگی،،،
تو کیا ہوا ہے انہیں بتاؤ مجھے،،، ارسم نے عقیلہ کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا
و۔۔وہ آخری بار انہوں نے چ۔۔چائے پی ہے جو شہزادی بی بی نے بنائی تھی،،،
ارسم نے ٹیبل پر پڑے کپ کی طرف دیکھا جو گرا ہوا تھا اور اس سے کچھ چائے نکل کر فرش پر گری ہوئی تھی،،،
نہیں ش۔۔شہزادی ا۔۔ایسا نہیں کر سکتی،،، مریم ارسم کی طرف دیکھ کر بولی
مجھے بھی شہزادی چائے دے کر گئی تھی میں پینے ہی والی تھی جب مریم کی آواز سن کر یہاں آگئی،،، دردانہ بیگم نے کہا
کیا شہزادی،،، ارسم کے رونگٹے کھڑے ہونے لگے
ابھی کہاں ہے وہ،،، ارسم نے پوچھا
اسے میں نے بھاگتے ہوئے دیکھا ہے صاحب جی،،، عقیلہ نے کہا
ارسم کمرے سے باہر نکلا اور مریم بھی سکتے کی حالت میں کھڑی ہو کر ارسم کے پیچھے بھاگی،،،
انہوں نے شہزادی کا کمرہ دیکھا لیکن وہ وہاں نہیں تھی،،،
سب ڈھونڈو اس کو کہاں ہے وہ،،، ارسم نے چلاتے ہوئے کہا
شہزادی چھت کے کنارے کی طرف چلتی ہوئی ہچکیوں سے رو رہی تھی اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنی ماں کو زہر دے کر مار چکی ہے،،،
اسے راحیل کی باتیں یاد آنے لگیں اس کا پیار اس کی محبت اس کے وعدے اس کی قسمیں ایک ایک چیز یاد کر کے اس کا دل درد سے چلا رہا تھا،،،
وہ سب جھوٹ تھا اس نے شہزادی کو صرف اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا یہ سب سوچ سوچ کر اس کا دماغ پھٹنے لگا،،،
آج اسے مریم کی بات سمجھ آئی تھی جب وہ بار بار اسے راحیل سے دور رہنے کا کہتی تھی اور آج ہی اسے یقین آیا تھا کہ راحیل واقع ہی ایک شیطان ہے،،،
اس نے کنارے پر قدم رکھا تو مریم کی آواز سنائی دی،،،
شہزادی رک جاؤ،،، مریم چلائی
شہزادی نے اپنا رخ ان کی طرف کیا لیکن اس کے قدم ابھی بھی کنارے پر ہی تھے وہ ہچکیوں سے رو رہی تھی،،،
آپی آپ سچ کہتی تھی راحیل اچھا انسان نہیں ہے ل۔۔لیکن میں نے ہی آپ کی ایک نہ سنی،،،
اس کے منہ سے راحیل کا نام سن کر ارسم کو اپنا سانس بند ہوتا محسوس ہونے لگا اسے سمجھ آچکا تھا کہ شہزادی سے زہر دلایا گیا ہے مگر اسے معلوم نہیں تھا کہ یہ زہر ہے،،،
آپی میں نے ا۔۔امی جان کو مار دیا ان کا ق۔۔قتل کر دیا،،، وہ روتی ہوئی کہہ رہی تھی
نہیں تم نے کچھ نہیں کیا یہ سب راحیل کے گناہ ہیں تم تو معصوم ہو،،، مریم کہتی ہوئی آگے بڑھی
آگے نہیں آنا میں کہہ رہی ہوں کوئی آگے نہ آئے،،، شہزادی نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں روکتے ہوئے کہا
باقی گھر والے بھی اوپر آچکے تھے شہزادی کو اس حال میں دیکھ کر سب کے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے،،،
دیکھو امی جان بھی چلی گئی ت۔۔تم مجھے چھوڑ کر مت جانا شہزادی پلیز میری بات مان لو ادھر آو میرے پاس،،، مریم نے روتے کہا
م۔۔میں نے راحیل کی باتوں میں آکر بہت غ۔۔غلط کیا وہ ایک رات مجھ سے ملنے آیا تھا اور م۔۔مجھے نیند کی گولیاں دیں ج۔۔جو میں نے آپ سب کو چائے مین پلا دیں اور وہ پوری رات میرے پاس رہا ل۔۔۔لیکن آپی م۔۔میں نے اپنی عزت کو داؤ پہ نہیں لگایا میرا یقین کرنا،،،
کل میں اپنی دوست سے نہیں بلکہ اس سے م۔۔ملنے کے لیے گئی تھی اس نے مجھے زہر کی گولیاں دے کر مجھ سے میری ماں کا ق۔۔قتل کروا دیا،،، اس کی آنکھوں سے پچھتاوے کے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے
اللہ اسے سزا دے گا شہزادی کیوں کہ تم نہیں جانتی تھی کہ وہ زہر ہے اب پلیز ادھر آؤ دیکھو تمہاری آپی تمہارے بغیر کیسے جی پائے گی،،،
ن۔۔نہیں آپی میں امی جان کی موت کا غم سہہ نہیں پاؤں گی م۔۔میرا مر جانا ہی بہتر ہے میں مرنا چاہتی ہوں آپی آپ سب یہاں سے کہیں دور چلے جانا کیوں کہ و۔۔وہ ایک ایک کر کے سب کو مار دے گا و۔۔وہ ہر حال میں آپ کو حاصل کر کے رہے گا میری بات یاد رکھنا آپ،،،
ٹھیک ہے لیکن تم کچھ نہیں کرو گی ادھر آؤ میرے پاس ہم سب کہیں دور چلے جائیں گے،،، مریم نے بازو پھیلائے
نہیں میں جا رہی ہو آپی اپنا خیال رکھیے گا اور مجھے معاف کر دینا آپی آپ سچ کہتی تھی کہ میں کم عقل ہوں،،، شہزادی نے جیسے ہی ایک قدم مزید پیچھے کیا تو اس کا پاؤں ہوا میں جھولنے گا، مریم کے ساتھ باقی گھر والے اسے تھامنے کے لیے بھاگے لیکن اس سے پہلے وہ نیچے گر چکی تھی،،،
شہزادی ی ی ی،،، مریم نے چینختے ہوئے زمین پر گری ہوئی شہزادی کو دیکھ کر کہا جس کے سر سے خون نکل کر زمین کو لال کر رہا تھا
صفیہ اور شہزادی کی موت کے بعد مریم کی حالت مزید بگڑ چکی تھی اس حادثے کا اس کے دماغ پر کافی حد تک اثر پڑا تھا وہ یا تو گم سم سی رہتی یا پھر اپنے والدین اور شہزادی کے بارے میں عجیب عجیب باتیں کرتی رہتی،،،
کبھی کبھی تو ارسم کو شک ہونے لگ جاتا کہ وہ اسے پہچاننے سے بھی انکار کر دے گی لیکن ایسا نہیں تھا کسی وقت وہ نارمل انسان کی طرح برتاؤ کرتی تھی،،،
ارسم نے گھر کے باہر اور اندر سیکیورٹی بڑھا دی تھی اس نے خفیہ طور پہ اپنی ساری پراپرٹی جس میں ان کا بزنس بھی شامل تھا بیچ کر ایک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دیے جو اس نے نیو یارک میں بنوایا،،،
سب کا ویزا بنانے کے بعد اسے اب یہ گھر چھوڑ کر سب کو نیو یارک لے کر جانا تھا،،،
یہ سب کام اس نے خفیہ طور پر کیے تھے تا کہ کہیں سے بھی راحیل کو ان کے بارے میں بھنک بھی نہ پڑے،،،
مریم کے بچے کو ساتواں ماہ جاری تھا وہ پہلے سے بھی زیادہ کمزور ہو چکی تھی،،،
ارسم نے عقیلہ اور شفیق کو کچھ مختصر سا سامان باندھنے کو کہا اور خود کسی کام سے دو گارڈز کے ساتھ گاڑی لیے باہر چلا گیا،،،
مریم گم سم سی بیٹھی تھی آج شام انہوں نے رات کے وقت نیو یارک کی فلائٹ کے لیے نکلنا تھا،،،
مریم کے دل میں اک خوف سا تھا کہ جیسے وہ کبھی بھی ڈیول سے چھپ نہیں سکتی وہ کہیں نہ کہیں اسے ڈھونڈ نکالے گا،،،
اس نے دراز سے اک ڈائری اٹھائی جو کہ اس نے منگنی کے روز لکھنی شروع کی تھی لیکن ان کی شادی پر ہونے والے حادثے پر جس میں مریم کو اغواہ کر لیا گیا تھا اور ارسم کومہ میں چلا گیا تھا اس کے بعد سے اس نے کبھی ڈائری نہیں لکھی تھی،،،
اس نے پین اٹھایا اور شادی کی رات سے اب تک تمام واقعات لکھنے لگی،،،
وہ یہ کیوں لکھ رہی تھی کس لیے لکھ رہی تھی وہ یہ بات نہیں جانتی تھی بس اس کے دل میں کچھ تو تھا جو اسے یہ ڈائری لکھنے پر مجبور کر رہا تھا،،،
پورا دن اس کا لکھنے میں گزر گیا رات ہو چکی تھی اور ارسم بھی گھر آنے والا تھا اس نے ڈائری کو کپڑوں میں چھپا کر بیگ میں ڈالا اور خود آنکھیں موندے لیٹ گئی،،،
اپنے پیٹ پہ ہاتھ پھیرتی وہ اپنے بچے کے بارے میں سوچ رہی تھی اگر وہ آج یہاں سے جا نہ پائی اور ڈیول اسے اپنے ساتھ لے گیا تو اس کے بچے کا کیا ہو گا کیا ڈیول اسے مار دے گا،،،
اس نے اپنی کن پٹیوں پر ہاتھ رکھا اور مسلنے لگی،،،
کمرے کا دروازہ کھلا اور ارسم اندر داخل ہوا،،،
مریم تیار ہو جاؤ ہمیں ایک گھنٹے تک ائیر پورٹ پہنچنا ہے،،،
ارسم،،، وہ گھبرائی سے بولی
ہاں بولو کیا ہوا،،، وہ اس کے پاس آکر بیٹھا
م۔۔مجھے ڈ۔۔ڈر لگ رہا ہے،،،
مت ڈرو مریم میں تمہارے ساتھ ہوں تمہیں کچھ نہیں ہو گا،،، اس نے مریم کا ہاتھ پکڑ کر کہا
م۔۔مجھے یہ ڈر نہیں کہ مجھے کچھ ہو جائے گا میں آپ کو اور اپنے ب۔۔بچے کو کھونے سے ڈرتی ہوں،،،
مریم اللہ سب ٹھیک کرے گا اپنے دل میں وہم مت پالو تم دیکھنا ہم نیو یارک میں بہت خوش رہیں گے کوئی ہمارے آس پاس نہیں ہو گا جو ہمیں نقصان پہنچا سکے،،، اس نے **مریم کو سینے سے لگایا**
چلو اٹھو اب ورنہ دیر ہو جائے گی میں فریش ہونے لگا ہوں تم بھی تب تک ریڈی ہو جاؤ،،، وہ اس کا گال تھپتھپا کر واش روم کا رخ کر گیا
کچھ دیر تک وہ سب گھر سے نکلنے کو تیار تھے دردانہ بیگم اور مریم کی آنکھوں سے آنسو رکنے نہیں پا رہے تھے،،،
عقیلہ اور شفیق اپنے مالکوں کا حال دیکھ کر بہت غمگین تھے،،،
ارسم نے ان کے ویزے بھی بنوائے تھے کیوں کہ باقی گھر والوں کو تو وہ کھو چکے تھے اور کبھی ان سے ملازموں والا سلوک بھی نہیں کیا تھا ویسے بھی وہ انہیں یہاں چھوڑ جاتا تو وہ کہاں جاتے کیوں کہ وہ ان کے خاندانی ملازم تھے،،،
ایک گاڑی میں ارسم، دردانہ بیگم اور مریم تھے ساتھ دو سیکورٹی گارڈ تھے،،،
دوسری گاڑی میں عقیلہ شفیق ایک سیکیورٹی گارڈ تھا،،،
دس بجے کی فلائٹ تھی اور نو بجے وہ سب نکل پڑے تھے،،،
ابھی انہوں نے آدھے گھنٹے کا ہی راستہ طے کیا تھا جب ایک کلہاڑی گھومتی ہوئی آئی اور ارسم کی گاڑی میں ایک سیکیورٹی گارڈ کے سر میں دھنس گئی،،،
یہ خوف ناک منظر دیکھ کر مریم اور صفیہ بیگم چلّانے لگیں،،،
گاڑی نہیں روکنی چلاتے رہو،،، ارسم نے ڈرائیور سے کہا اور وہ تیز رفتار میں گاڑی چلانے لگا جب اگلے پل دوسری کلہاڑی گھومتی ہوئی آئی اور ان کی گاڑی کے ٹائر میں دھنس گئی ساتھ ہی ان کی گاڑی کی بریک لگی
صبح روحان کے جگانے سے عنائزہ کی آنکھ کھلی،،،
اٹھ جاؤ یونی بھی تو جانا ہے،،، روحان نے کہا
عنائزہ اٹھ کر بیٹھی اور گہری نظرون سے روحان کی طرف دیکھنے لگی کہ اس کے خاندان پہ کیسے کیسے مظالم ڈھائے گئے،،،
کیا ہوا ایسے کیا دیکھ رہی ہو،،، روحان اس کی عجیب نظروں سے حیران ہوا
ہاں کچھ نہیں بس ایسے ہی،،، عنائزہ اٹھ کر واش روم چلی گئی اور روحان پریشان نظروں سے اسے دیکھنے لگا
عنائزہ نے خاموشی سے ناشتہ کیا اور شفیق کے ساتھ یونی جانے لگی،،،
آج میں تمہیں چھوڑنے جاؤں گا،،، روحان نے کہا تو عنائزہ نے اس کی طرف حیرت سے دیکھا
لیکن واپسی پر تم اکیلے کیسے آؤ گے،،،
میں آجاؤں گا اتنی ہمت آگئی ہے اب مجھ میں،،،
ہرگز نہیں میں شفیق کے ساتھ چلی جاؤں گی،،، وہ سنجیدگی سے بولی
لیکن عنائزہ میں کب تک گھر بیٹھوں گا مجھے بھی باہر جانا ہے،،،
جاؤ لیکن اکیلے نہیں مجھے ساتھ لے کر جاؤ یا شفیق کو لے کر جاؤ،،،
مجھے اب کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں ہے میں اب بلکل ٹھیک ہوں،،، روحان کو عنائزہ کا یوں کہنا بلکل بھی اچھا نہیں لگا
جو بھی ہے یہ زمانہ نہیں ہے اکیلے نکلنے کا تمہیں ساتھ چلنا ہے تو چلو لیکن شفیق بھی ہمارے ساتھ جائے گا،،،
نہیں تم جاؤ شوق سے شفیق کے ساتھ میں کہیں نہیں جاتا،،، وہ غصے سے اٹھ کر کمرے کی طرف چل دیا
عنائزہ کو روحان آج پہلی بار اتنا سیریس لگا تھا آج پہلی بار اسے روحان کے چہرے پر صحیح معنوں میں غصہ نظر آیا تھا وہ پریشان سی گھر کے اندرونی دروازے پر پہنچی اور شفیق کو آواز لگائے گاڑی میں بیٹھی،،،
آج یونی میں بھی عنائزہ چپ چپ تھی روحان کی فیملی کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا اس سے عنائزہ کو بہت دکھ محسوس ہو رہا تھا،،،
کیا ہوا تم آج اتنی خاموش کیوں ہو،،، لیلہ نے کہا
نہیں کچھ نہیں بس طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے،،،
کیا بھائی نے آج پھر،،،
شٹ اپ یار ایٹ لیسٹ اس وقت کسی قسم کا بھی مذاق مت کرو،،،
اوکے نہیں کرتی لیکن میرے پاس کچھ ہے تمہیں بتانے کے لیے،،، لیلہ نے کہا تو عنائزہ نے اس کی طرف دیکھا
وہ کیا،،،
وہ یہ کہ میں نے ایڈورڈ کے بارے میں انفارمیشن لے لی ہے،،،
کیا لیکن تم تو اس معاملے سے دور رہنا چاہتی تھی،،،
ہاں لیکن تمہیں دوست مانا ہے پھر تمہارا ساتھ تو دینا ہی تھا،،، اس نے مسکراتے ہوئے کہا
اچھا اب پوچھو گی نہیں کیا انفارمیشن ملی اس دن تو بہت جلد باز ہو رہی تھی،،،
ہاں بتاؤ کیا پتہ لگا،،،
پتہ یہ لگا کہ ایڈورڈ کی جو اس وقت مدر ہے وہ اس کی سٹیپ مدر ہے لیکن یہ بات سب سے چھپائی گئی ہے اس کی رئیل مدر ایک پاکستانی لڑکی تھی،،،
کیا لیکن اس کے ڈیڈ نے ایک پاکستانی لڑکی سے شادی کیوں کی،،، عنائزہ نے حیرت سے پوچھا
دونوں کی طرف سے لوّ میریج تھی اور شادی کے دس سال بعد تک وہ اکٹھے رہے لیکن اس کے ڈیڈ نے اس شادی کو خفیہ رکھا اور وہ پہلے سے ہی شادی شدہ تھا وہ لڑکی اس کے خاندان کی تھی اور اس میں سے اولاد نہیں تھی،،،
پھر کیا ہوا،،، عنائزہ کو تجسس ہوا
پھر کیا جب ایڈورڈ نو سال کا تھا تو اس کی موم کو ان کی پہلی وائف کے بارے میں معلوم ہو گیا اور پھر لڑائی جھگڑے شروع ہو گئے اس نے پہلی وائف کو ڈائورس دینے کا کہا تو وہ نہیں مانا،،،
پھر ایک دن مجبور ہو کر اس نے خود ہی ڈائورس لے لی لیکن ایڈورڈ کے ڈیڈ نے کسی صورت بھی ایڈورڈ کو اسے ساتھ لے جانے نہیں دیا اور اس کے جانے کے بعد اس نے ایڈورڈ کو یہی بتایا کہ اس کی موم کسی اور میں انٹرسٹڈ تھی اسی لیے وہ ڈائورس لے کر واپس پاکستان چلی گئی بس یہی وجہ ہے کہ ایڈورڈ پاکستانی لوگوں سے خاص کر لڑکیوں سے نفرت کرتا یے،،،
ہممم وہ بچہ تھا اسے جو بتایا گیا اس نے یقین کر لیا، لیکن تم بتاؤ تم نے اتنی انفارمیشن لی کہاں سے،،، عنائزہ نے کہا
تم آم کھاؤ گٹھلیاں مت گنو،،، لیلہ ہنستے ہوئے بولی
تم یہ بتاؤ کہ اب تم کیا کرو گی ایڈورڈ کے بارے میں انفارمیشن تو میں نے تمہیں دے دی،،،
کچھ نہیں یار پہلے بہت کچھ سوچ رکھا تھا لیکن اب کچھ نہیں کرنا کیا پتہ وہ دوسرا ڈیول بن کر میری بھی زندگی برباد کر دے،،،
کیا مطلب دوسرا ڈیوِل،،، لیلہ حیران ہوئی
ہاں کچھ نہیں چھوڑو تم چلو لیکچر کا ٹائم ہے،،، وہ دونوں کلاس کی طرف ہو لیں
عنائزہ اور لیلہ گراؤنڈ میں بینچ پر بیٹھی تھیں جب ایڈورڈ ان کے پاس آیا،،،
I wanna talk to you.
اس نے عنائزہ سے کہا تو وہ ناپسندیدگی سے اسے دیکھنے لگی،،،
It's lecture's time, we'll talk later.
اس نے اپنے غصے پر کنٹرول کرتے ہوئے عنائزہ کا ہاتھ پکڑا،،،
Hye leave me.
وہ تلخ لہجے سے بولی جس کا ایڈورڈ پر کوئی اثر نہ ہوا،،،
تمہیں ایک بات سمجھ نہیں آتی ہے کیا جب میں نے تم سے کہہ دیا میں نہیں بات کرنا چاہتی تو مطلب نہیں کرنا چاہتی،،، وہ غصے سے چلّائی جس سے آس پاس کے سٹوڈینٹس انہیں دیکھنے لگے
ایڈورڈ نے سرد نظروں سے آس پاس دیکھا کیوں کہ یہاں کوئی نہیں جانتا تھا کہ اسے اردو بولنا اور سمجھنا آتا ہے،،،
اس نے عنائزہ کے ہاتھ پر گرفت سخت کی جس سے عنائزہ کو تکلیف ہونے لگی،،،
میرا ہاتھ چھوڑو تمہارے دماغ میں پاکستانی لڑکیوں کے بارے میں جو بھی غلط فہمیاں بھری ہوئی ہیں انہیں اپنے دماغ سے نکال دو کیوں کہ میں کبھی بھی اپنے پیار سے بے وفائی نہیں کرنے والی،،، وہ لوگوں کا خیال کرتے ہوئے آہستہ لیکن ایک ایک لفظ چبا کر بولی
حیرت سے ایڈورڈ کی آنکھیں سکڑیں اور اس کی گرفت ڈھیلی پڑی، عنائزہ لیلہ کو لیے کلاس روم کی طرف چل دی اور وہ سوچتا رہ گیا کہ عنائزہ کیسے یہ بات کر گئی کیا وہ اس کی فیملی کے بارے میں جان چکی تھی،،، وہ تیز قدموں سے واپس مڑا
عنائزہ آج خاموش ہی رہی تھی پورا دن سٹڈی میں گزارنے کے بعد اب چھٹی کا وقت تھا وہ گیٹ ہر شفیق کو دیکھنے کے لیے آئی،،،
ایڈورڈ غصے سے آیا اور عنائزہ کا ہاتھ پکڑے اپنی گاڑی کی طرف چلنے لگا،،،
چھوڑو مجھے کہاں لے کر جا رہے ہو،،، وہ تلخ لہجے میں بولی
روحان آج عنائزہ کو لینے آیا تھا وہ اسے دکھانا چاہتا تھا کہ اسے اب کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں ہے وہ اکیلا اب کوئی بھی کام کر سکتا ہے،،،
اس کی نظر جیسے ہی عنائزہ پر پڑی جس کا ہاتھ پکڑے ایک لڑکا زبردستی اسے لے جا رہا تھا اس کا خون کھولنے لگا،،،
وہ گاڑی سے باہر نکلا اور تیزی سے عنائزہ کی طرف چلنے لگا اس نے عنائزہ کا بازو پکڑا جس کا ہاتھ ایڈورڈ کے ہاتھ میں تھا،،،
ایڈورڈ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اسے پہچاننے میں ایک پل نہ لگا کہ یہ وہی لڑکا ہے جو ریسٹورنٹ میں عنائزہ کے ساتھ تھا،،،
Leave her hand.
روحان دانت پیستے ہوئے بولا،،،
ایڈورڈ نے خاموشی سے اس کا ہاتھ چھوڑا اور اگلے ہی پل اچانک روحان کے منہ پر ایک زور دار پنچ مارا جس سے روحان کا ہونٹ پھٹ کر خون آلود ہونے لگا،،،
اوہ میرے خدایا روحان ت۔۔۔تم ٹھیک ہو،،، عنائزہ نے فوراً روحان کو پکڑا
اس نے بنا عنائزہ کو جواب دیے انگوٹھے سے اپنا ہونٹ صاف کیا اور بنا ایک سیکنڈ ضائع کیے پلٹ کر ایڈورڈ کے منہ پر جوابی پنچ مارا،،،
یہ منظر دیکھ کر سب اب کی طرف متوجہ ہوئے اور ایڈورڈ کو اس حالت میں دیکھ کر سب کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے،،،
ایڈورڈ اپنی توہین پر روحان کے گریبان پر جھپٹا اور روحان نے بھی اسے جکڑ لیا،،،
پریشانی سے عنائزہ کو اپنا سر چکراتا ہوا محسوس ہونے لگا،،،
ایڈورڈ نے ایک ساتھ دو پنچ روحان کو مارے تو وہ زمین پر گر گیا، عنائزہ کو اپنی جان نکلتی محسوس ہوئی،،،
Some body help please.
عنائزہ آس پاس لوگوں کو دیکھتے ہوئے چلّائی،،،
دو لڑکے آگے بڑھے جنہیں ایڈورڈ نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا،،،
روحان،،، عنائزہ اس کی طرف لپکی جسے دیکھ کر ایڈورڈ نے اپنی مٹھیاں بھینجیں
تم گاڑی میں بیٹھو عنائزہ،،، روحان نے کھڑا ہو کر کہا
نہیں تم چلو میرے ساتھ میں تمہیں یہاں نہیں چھوڑ سکتی،،،
میں اپنی حفاظت کر سکتا ہوں،،، روحان نے تلخ لہجے سے کہا
جو بھی ہے تم چلو میرے ساتھ،،، عنائزہ پریشان ہونے لگی
عنائزہ میں نے کہا نا تم جاؤ،،، روحان ایسے چلّایا کہ عنائزہ ڈر کر دو قدم پیچھے ہوئی
What's your relationship with her?
ایڈورڈ نے تلخ لہجے میں پوچھا
She is my wife bastard.
روحان کی بات سن کر ایڈورڈ سکتے میں چلا گیا اور روحان نے اس کے منہ لگاتار چار سے پانچ پنچ مارے جس کے نتیجے میں ایڈورڈ لہو لہان ہو کر زمین پر گرا،،،
اس کا نجام بہت برا ہونے والا ہے یہ بات عنائزہ جانتی تھی وہ روحان کا ہاتھ پکڑے اسے گاڑی کی طرف لے کر آئی اور جلدی سے گاڑی سٹارٹ کی،،،
تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے کیا،،، گھر آکر عنائزہ روحان پر چلّائی
ہاں ہو گیا ہے دماغ خراب کب سے وہ لڑکا تمہیں تنگ کر رہا ہے بتاو مجھے،،، روحان بھی بدلے میں چلّایا
کوئی تنگ نہیں کر رہا مجھے لیکن تم نے جو کیا ہے اس کا انجام بہت برا ہو سکتا ہے،،،
جو بھی انجام ہو میں فیس کرنے کے لیے تیار ہوں ڈرتا نہیں ہوں میں کسی سے،،، وہ تلخ لہجے میں بولا تو عنائزہ نے اسے گھورا
تم تب ہی اچھے تھے جب ڈر کے مارے تم سے کمرے سے بھی باہر نہیں نکلا جاتا تھا کم از کم میرے لیے مصیبت کا باعث تو نہیں بنتے تھے،،، عنائزہ غصے سے بولی لیکن اس کی بات سن کر روحان کا سارا غصہ ہوا ہو گیا اور وہ درد بھری نظروں سے عنائزہ کو دیکھنے لگا
جاؤ یہاں سے جب تک تم میرے سامنے رہے ٹینشن سے میرا سر پھٹ جائے گا،،، وہ چلّائی تو روحان خاموشی سے کمرے سے باہر نکل گیا
گیسٹ روم میں آکر روحان کی پلکوں سے آنسو ٹوٹنے لگے کیا عنائزہ کو وہی روحان اچھا لگتا تھا جو اس کا ہر حکم بجا لاتا تھا جو کبھی زبان نہیں کھولتا تھا جو کبھی ضد نہیں کرتا تھا ایک کونے میں بیٹھا صرف روتا تھا،،، یہ سب سوچ سوچ کر روحان کا دل درد کی شدت سے پھٹنے لگا
روحان کے جانے کے بعد عنائزہ نے خود کو ریلیکس کرنا چاہا لیکن ناکام رہی پھر اپنا مائنڈ اور طرف لگانے لے لیے اس نے ڈائری نکال کر پڑھنا شروع کی،،
ماضی
عقیلہ اور شفیق کی گاڑی ارسم کی گاڑی کے پیچھے تھی جب ارسم کی گاڑی رکی تو انہوں نے بھی گاڑی کو بریک لگائی،،،
سڑک کے آس پاس چھپے ہوئے سیاہ لباس والے دس بارہ شخص باہر نکلے،،،
انہیں دیکھ کر مریم کو اپنا سانس بند ہوتا محسوس ہو رہا تھا اس کے دل میں جو ڈر تھا آخر وہ ہو کر رہا،،،
اتنے سارے دشمن دیکھ کر ارسم کے سیکیورٹی گارڈ نے مسلسل ان پر گولیوں کی برسات کی جس کے نتیجے میں تین سے چار سیاہ لباس والے زمین بوس ہو گئے لیکن اگلے ہی پل کلہاڑی گھومتی ہوئی آئی اور اس کے گردن میں دھنس گئی،،،
ارسم نے بھی اپنی گن نکال کر ہاتھ میں لی اسے دیکھ کر مریم کی حالت بگڑنے لگی،،،
عقیلہ اور شفیق کی طرف ان میں سے کوئی نہ آیا تھا لیکن ان کا سیکیورٹی گارڈ جب گاڑی سے اتر کر ان پر حملہ آور ہونے لگا تو اس کی کمر میں ایک سیاہ لباس والے کہلاڑی پوست کر دی اور سیکیورٹی گارڈ کی خوفناک چینخیں آسمان تک پہنچنے لگیں،،،
مریم نے پیچھے مڑ کر یہ منظر دیکھا تو وہ خوف سے چلّانے لگی،،،
ا۔۔ارسم چ۔۔چی جان آ۔۔آپ دنوں بھاگ جائیں وہ مجھے حاصل کرناچاہتا ہے پ۔۔پلیز آپ دونوں ب۔۔بھاگ جائیں،،، وہ ہچکیوں سے روتے ہوئے بولی پورے خاندان کو تو وہ کھو چکی تھی اب کسی صورت ان دونوں کو کھونا نہیں چاہتی تھی،،،
کبھی نہیں۔۔ ہم یہاں سے ضرور جائیں گے وہ بھی ایک ساتھ،،، ارسم نے کہا اور گاڑی سے باہر نکلا
ا۔۔ارسم پلیز باہر مت نکلیں چچی جان روکیں انہیں،،، مریم مسلسل کہہ رہی تھی دردانہ بیگم بھی اسے آوازیں لگاتی رہیں لیکن ارسم نے اس کی ایک نہ سنی،،،
ایک شخص ارسم کی طرف چلنے لگا تو ارسم نے اس کے سینے کا نشانہ باندھا،،،
گولی اس کے سینے میں پیوست ہو گئی اور اگلے ہی پل وہ زمین بوس ہو کر تڑپنے لگا،،،
دوسرے شخص نے جب اپنے ساتھی کا یہ حال دیکھا تو ارسم کی طرف کلہاڑی گھمائی ارسم تیزی سے جھکا اور کلہاڑی اس کے سر سے ہوتی ہوئی ارسم کے پیچھے کھڑے سیاہ لباس والے کے سینے میں دھنس گئی اور وہ زمین پر گرا،،،
ارسم نے ایک سیکنڈ بھی ضائع کیے بغیر اس شخص کے پیٹ میں فائر کیا اس طرح اس کا بھی خاتمہ ہو گیا،،،
ارسم کے دوسرے سیکورٹی گارڈ نے بھی نہ آؤ دیکھے نہ تاؤ فائرنگ شروع کی ہوئی تھی جس سے تین سے چار سیاہ لباس والوں کا خاتمہ ہوگیا لیکن تبھی ایک کلہاڑی گھومتی ہوئی سیکورٹی گارڈ کا بازو کاٹ گئی،،،
وہ چینختا ہوا زمین پر بیٹھا اس کے بازو سے خون کے فوارے نکل رہے تھے گاڑی میں بیٹھی مریم نے جب اس کی طرف دیکھا تو خوف سے لمبے لمبے سانس لینے لگی،،،
مریم مریم کیا ہو رہا ہے تمہیں میری بچی،،، دردانہ بیگم نے پریشانی سے اس کا چہرہ تھپتھپایا
ارسم کی گن میں گولیاں ختم ہو چکی تھیں اس نے اپنے دفاع کے لیے ادھر ادھر کوئی چیز ڈھونڈنی چاہی تو اپنے پیچھے مردہ سیاہ لباس والے کے پاس کلہاڑی پڑی دکھی جسے وہ تیزی سے اٹھا گیا،،،
اس نے خود کا بچاؤ کرتے ہوئے ایک اور شخص کو زمین بوس کیا،،،
دردانہ بیگم نے گاڑی میں پڑی پانی کی بوتل اٹھائی اور مریم کے چہرے پر پانی ڈالنے لگی جس سے اسے کچھ ہوش آیا پھر انہوں نے اسے پانی پلایا،،،
مریم نے اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھا شدید درد کے باعث اس کے منہ سے چینخیں نکلنے لگ گئی تھیں،،،
مریم۔۔۔ یا اللہ ہماری مدد کر،،، دردانہ بیگم نے روتے ہوئے ہاتھ جوڑے،،،
مریم کی طرف کا دروزہ کھلا اور ایک سیاہ لباس والا اس کا ہاتھ پکڑے اسے باہر نکالنے لگا،،،
درد کی شدت سے مریم چلّا رہی تھی، اس شخص نے سر ہڈ اتارا تو وہ ڈیوِل تھا جسے دیکھ کر مریم کا جسم کانپنے لگا،،،
ارسم کی چینخ نے مریم کی توجہ اپنی طرف لی اس نے ارسم کی طرف دیکھا تو اس کی ٹانگ خون سے لت پت تھی اور وہ زمین پر گرا ہوا تھا،،،
ایک شخص مسلسل اس کی ٹانگ میں کلہاڑی مار رہا تھا،،،
ارسم۔۔۔ مریم چلّاتے ہوئے اس کی طرف جانے لگی تو ڈیوِل نے اس پر گرفت مظبوت کی،،،
خدا کا واسطہ ہے چھوڑ دو ارسم کو میں تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں تم جو کہو گے میں وہ مانوں گی میں تمہارے ساتھ جانے کو بھی تیار ہوں خدا کا واسطہ ہے چھوڑ دو اسے،،، مریم روتے ہوئے اور درد کو نہ سہتے ہوئے زمین پر گری اس کا ہاتھ ابھی بھی ڈیوِل کی گرفت میں تھا
ارسم کی چینخیں آسمان تک پہنچ رہی تھیں اس کی ٹانگ جیسے کچلی جا چکی تھی،،،
ارسم کا یہ حال دیکھ کر مریم چلّانے لگی دردانہ بیگم گاڑی سے نکلی اور ارسم کی طرف جانے لگی جب ڈیول نے ان کو پکڑ کر زمین پر دھکا دیا،،،
راحیل چھوڑ دو میرے بچے کو ہم لوگوں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے بچپن سے تمہیں پال پوس کے بڑا کیا اور اب تم ہماری ہی جان کے دشمن بنے ہوئے ہو آخر کیا غلطی تھی ہماری،،، دردانہ بیگم روتے ہوئے بولیں
یہ غلطی ہے آپ سب کی،،، اس نے مریم کی طرف اشارہ کیا
یہ صرف میری ہے میں نے بچپن سے اسے چاہا اس سے محبت کی لیکن جب میں گھر آپ سے بات کرنے لگا تو آپ سب نے پہلے ہی ارسم کا سوچ رکھا تھا،،،
تو تم اس بات کی ہمیں اتنی بڑی سزا دو گے،،، دردانہ بیگم چلائیں
ہاں ہاں دوں گا۔۔ میرّی تب تک میرے ساتھ نہیں رہے گی جب تک آپ سب زندہ ہو گے اور جب اسے معلوم ہو گا اس کے لیے اب اس دنیا میں کوئی سہارا نہیں ہے تو خود میرے پاس میرے ساتھ رہے گی اور یقین مانیں میں اسے آپ سب سے زیادہ خوش رکھوں گا،،، دردانہ بیگم کو اس وقت وہ کوئی جنونی انسان لگ رہا تھا جو اپنے مقصد کی خاطر کچھ بھی کر سکتا تھا
ڈیول ارسم کے پاس کھڑے شخص کو اشارہ کیا تو اس نے ارسم کے دل کا نشانہ باندھ کر کلہاڑی اس کے سینے میں پیوست کر دی،،،
ارسم۔۔۔ ارسم کا تڑپتا جسم دیکھ کر مریم مسلسل حلق کے بل چلّانے لگی اور درادنہ بیگم کا بھی یہی حال تھا وہ بھاگتی ہوئی ارسم کے پاس گئیں لیکن تب تک اس کے جسم سے جان نکل چکی تھی،،،
میرا بچہ،،، دردانہ بیگم روتے ہوئے چلٌائیں
ڈیول نے مریم کا ہاتھ پکڑ کر اسے کھڑا کرنا چاہا لیکن پیٹ میں شدید درد کے باعث اس سے کھڑا نہ ہو سکا اور وہ ارسم کی طرف دیکھتی ہوئی چینختی رہی،،،
چ۔۔چچی جان،،، مریم نے پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے انہیں آواز دی تو دردانہ بیگم کو شک ہوا جیسے بچے کی پیدائش کا وقت ہو گیا ہے شاید یہ مریم کے اس حد تک خوفزدہ اور چلّانے کا سبب تھا،،،
وہ بھاگتی ہوئی مریم کے پاس آئی اور عقیلہ کو آواز دی عقیلہ گاڑی سے نکل کر بھاگتی ہوئی ان کے پاس آئی،،،
جاؤ یہاں سے بچے کی پیدائش کا وقت ہو گیا ہے،،، دردانہ بیگم نے چلّاتے ہوئے ڈیوِل کو کہا تو وہ گاڑی کی دوسری سائیڈ جا کر کھڑا ہوا اس کے آدمیوں میں سے صرف دو ہی باقی بچے تھے جو اس کے ساتھ آکر کھڑے ہوئے،،،
رات کے سناٹے میں مریم کی چینخیں گونج رہی تھیں ڈیوِل نے آنکھوں کو سختی سے بند کیا جیسے اس سے مریم کا درد برداشت نہ ہو رہا ہو،،،
کچھ دیر بعد بچے کے رونے کی آواز آنے لگی اور مریم بے ہوش ہو گئی،،،
عقیلہ نے اپنا دوپٹہ اتار کر دردانہ بیگم کو دیا جس میں انہوں نے بچے کو لپیٹا وہ جانتے تھے کہ راحیل کبھی بھی مریم کو یہاں سے جانے نہیں دے گا،،،
وہ دونوں بے آواز قدموں سے تیزی سے گاڑی میں بیٹھیں اور شفیق نے فل سپیڈ سے گاڑی بھگائی،،،
ڈیوِل بھاگتا ہوا اس سائید آیا اور مریم کو دیکھ کر اس کی جان میں جان آئی،،،
ڈیول کے آدمیوں کے ہاتھ میں اس وقت کلہاڑی نہیں تھی جتنی دیر میں وہ کلہاڑی اٹھانے لگے تا کہ گاڑی کے ٹائر میں مار سکیں لیکن تب تک گاڑی بہت دور جا چکی تھی،،،
مریم۔۔۔ مریم،،، وہ اس کا چہرہ تھپتھپاتا ہوا اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگا
جاؤ جلدی گاڑی لے کر آؤ،،،
ڈیوِل کا ایک آدمی سڑک سے نیچے کی طرف بھاگا جہاں ان کی گاڑی کھڑی تھی، گاڑی سٹارٹ کیے وہ سڑک پر آیا اور ڈیوِل نے اسے گاڑی میں لیٹایا،،،
فلائٹ کا ٹائم ختم ہونے والا تھا شفیق نے آدھے گھنٹے کا راستہ پندرہ منٹ میں طے کیا وہ ائیر پورٹ پہنچے تو پلین کا دروازہ بند ہو چکا تھا دردانہ بیگم نے اپنی ٹکٹکس دکھائیں جس سے انہیں پلین میں داخل ہونے دیا گیا،،،
یہ بھیانک رات وہ کبھی بھی بھول نہ پائی تھیں انہوں نے بچے کا نام روحان رکھا تھا جو کہ ارسم کی پسند تھا،،،
نیو یارک میں کچھ دن بعد انہوں نے ارسم اور مریم کا سامان کھولا تو انہیں مریم کی ڈائری نظر آئی،،،
انہوں نے روتے ہوئے اس رات کا واقع لکھ کر ارسم اور مریم کی کہانی کو مکمل کیا،،،
روحان دو سال کا تھا تو کسی بھی انسان کو دیکھ کر رونے لگ جاتا انہوں ڈاکٹر سے روحان کا چیک اپ کروایا تو معلوم ہوا کہ ماں کے شدید خوف اور صدمے کے باعث روحان کو ہیومین فوبیا کی بیماری لگ چکی تھی جس میں وہ انسانوں سے خوف زدہ ہوتا ہے،،،
اس کی بیماری کے باعث دردانہ بیگم نے آبادی سے دور جنگل کے نزدیک گھر خریدا تا کہ روحان سکون کی زندگی گزار سکے،،،
ان کا ایک ایک پل ارسم اور مریم کی یاد میں گزرتا تھا جس وجہ سے انہوں نے مریم اور ارسم کے کمرے بنا لیے جس میں ان کی تصاویر لگا دیں جنہیں وہ روز دیکھتیں،،،
اگر ان کے پاس جینے کی وجہ روحان نہ ہوتا تو وہ کب کی اس دنیا سے رخصت ہو چکی ہوتیں لیکن اللہ نے انہیں روحان کے لیے زندہ رکھا،،،
ڈائری کا آخری ورق کچھ یوں تھا۔
"یہ میری بہو مریم جمال کی ڈائری ہے جس کا آخری حصہ میں نے مکمل کیا۔
میں چاہتی ہوں جو بھی لڑکی میرے پوتے کی ہمسفر بنے گی وہ اس ڈائری کو پڑھے تا کہ اسے میرے پوتے کو سمجھنے میں آسانی ہو اور اس سے محبت سے پیش آئے۔
میں نہیں جانتی میری بہو جو میری بیٹی کی طرح تھی وہ اب بھی زندہ ہے یا نہیں لیکن میں اپنی پوتے کی بیوی سے کہنا چاہتی ہوں کہ اگر ہو سکے تو مریم کو ڈھونڈنے کی کوشش کرے کیا پتہ وہ اب بھی زندہ ہو اور میرے پوتے کو ماں کا پیار ماں کی مامتا نصیب ہو۔
اس کے پاس کوئی رشتہ نہیں سوائے میرے اسے کسی کا پیار نہیں ملا وہ بہت معصوم ہے خدارا جو بھی اس کی زندگی میں آئے اسے محبت دے پیار دے جس کا وہ ہمیشہ سے بھوکا رہا ہے۔
روحان کی دادو دردانہ کمال۔"
ڈائری ختم ہو چکی تھی عنائزہ اپنے آنسوؤں کو صاف کرنے لگی جو کہ مسلسل بہہ رہے تھے،،،
اس نے ڈائری سائید پر رکھی اور کمرے سے باہر نکل گئی،،،
اس نے روحان کو لاؤنج میں دیکھا تو وہ نہ تھا پھر لان میں دیکھا لیکن وہاں بھی وہ نہیں تھا،،،
وہ گیسٹ روم میں داخل ہوئی تو روحان کھڑکی میں کھڑا تھا عنائزہ نے بھاگتے ہوئے پیچھے سے اسے ہگ کیا،،،
روحان اس کے اس عمل پر ایک دم سے حیران ہو گیا،،،
وہ ہچکیوں سے رو رہی تھی روحان نے اپنا رخ سیدھا کرنا چاہا لیکن عنائزہ نے اپنی گرفت سخت کی،،،
عنائزہ کیا ہوا کے کیوں رو رہی ہو،،، اس نے اپنے سینے سے اس کے ہاتھ ہٹائے اور رخ سیدھا کیا
وہ اس کے سینے سے لگی اور شدت سے رونے لگی،،،
عنائزہ بتاؤ کیا ہوا ہے،،، روحان اسے یوں دیکھ کر بہت پریشان ہو رہا تھا
مجھے معاف کر دو روحان،،، اس نے اپنا چہرہ روحان کے مقابل کیا اور روحان کی آنکھوں کو دیکھ کر اسے معلوم ہوا کہ وہ روتا رہا ہے،،،
میں تم سے ناراض نہیں ہوں پلیز رو مت،،، وہ اس کے آنسو صاف کرتا ہوا بولا
نہیں میں نے تمہیں بہت ہرٹ کیا ہے آئم سوری،،، وہ پھر سے اس کے سینے سے لگی
پلیز تم رو مت مجھے دکھ ہوتا ہے،،، وہ اس کے بال سہلاتا ہوا بولا
ہمیں آج ہی ٹکٹکس بک کروانی ہیں ہمیں پاکستان جانا ہے روحان،،، عنائزہ کے اچانک اتنی بڑی بات کرنے پر روحان شاکڈ ہو گیا
کیا پاکستان،،، روحان نے حیرت سے کہا
 
 
ہاں روحان پاکستان کیوں کہ یہاں رہنے کا ہمارا کوئی مقصد نہیں،،، عنائزہ نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا
اور پاکستان رہنے کا کیا مقصد ہے،،، روحان نے حیرت سے پوچھا
وہ تمہیں وہاں جا کر معلوم ہو جائے گا لیکن اب کے لیے سب سے ضروری کام ہمیں پاکستان کے لیے ٹکٹس بک کروانی ہیں،،،
لیکن عنائزہ یہ سب یوں اچانک،،،
کچھ نہیں ہوگا روحان اسی میں ہی ہماری بہتری ہے،،، عنائزہ نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا
ٹھیک ہے تم کہتی ہو تو ہم چلتے ہیں پاکستان،،، روحان کے ہامی بھرنے پر عنائزہ کا چہرہ کھل اٹھا اور وہ اس کے سینے سے لگی
انہوں نے رات کی ٹکٹس بک کروا لی تھیں اب انہیں یہاں واپس نہیں آنا تھا اس لیے عقیلہ اور شفیق بھی ساتھ جا رہے تھے ایک طرف پرانی باتیں سوچ کر وہ دونوں بہت دکھی تھے لیکن دوسری طرف وہ بے حد خوش بھی تھے کہ ایک لمبا عرصہ بعد وہ اپنے ملک اپنی سر زمین پر واپس جا رہے ہیں،،،
رات کے وقت انہوں نے سامان پیک کیا اور گھر سے نکلنے لگے روحان بار بار گھر کی طرف دیکھ رہا تھا کیوں کہ اس نے یہاں ہوش سنبھالا تھا اس کا بچپن یہاں گزرا تھا یہ ملک اس کے لیے اپنے ملک جیسا تھا،،،
روحان گاڑی میں بیٹھو ہمیں دیر ہو رہی ہے،،، عنائزہ کی آواز پر وہ ہوش میں آیا ایک آخری نظر گھر پر ڈالتا ہوا وہ گاڑی میں بیٹھ گیا،،،
انہوں نے یہ گھر بیچا نہیں تھا بلکہ اسے لاک لگا دیا تھا،،،
ایک گھنٹہ سے اوپر سفر کر کے وہ ائیر پورٹ پہنچے اس دورانیے میں عنائزہ کو ایک ہی ڈر لگا رہا کہ کہیں ایڈورڈ ڈیول بن کر راستے میں نہ آجائے لیکن ائیر پورٹ پہنچ کر اس کے اللہ کا شکر ادا کیا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا اور وہ پلین میں بیٹھے،،،
اب بس کچھ ہی گھنٹوں بعد اسے پاکستان میں ہونا تھا اپنے پاپا کے گھر ان کے پاس عنائزہ دل سے بہت مطمئن تھی، پاکستان جا کر سب سے ضروری کام روحان کی ماما کو تلاش کرنا تھا اگر وہ زندہ ہیں تو،،،
کچھ گھنٹے سفر میں گزرنے کے بعد انہوں نے پاکستان کی سر زمین پر قدم رکھا،،،
روحان پہلی بار پاکستان آیا تھا وہ ادھر ادھر لوگوں کو بار بار دیکھ رہا تھا،،،
ادھر شفیق اور عقیلہ نے سکھ کا سانس لیا لیکن پرانی یادوں سے ان کی آنکھیں بھی بھیگنے لگیں،،،
وہاں سے وہ باہر کی طرف نکلے پھر عنائزہ نے ایک ٹیکسی والے سے بات کی اور گھر کا ایڈریس سمجھایا،،،
شفیق نے ٹیکسی میں سامان رکھا اور سب اس میں بیٹھ گئے،،،
کچھ دیر بعد ٹیکسی عنائزہ کے گھر کے سامنے رکی وہ خوشی سے باہر نکلی لیکن اگلے پل اس کی خوشی ہوا ہو گئی کیوں کہ گھر کے گیٹ کو لاک لگا تھا،،،
روحان باہر سے اس کے گھر کو دیکھنے لگا جو چھوٹا لیکن خوبصورت تھا،،،
پاپا کہاں ہو سکتے ہیں،،، عنائزہ نے خود کلامی کی پھر ساتھ والوں کے گھر کی بیل بجائی کیوں کہ وہ ان کے ہمسائے تھے اور بچپن میں وہ ان کے گھر آتی جاتی تھی،،،
ایک عورت نے دروازہ کھولا اور خوشگواری سے عنائزہ کو دیکھا،،،
السلام علیکم آنٹی،،، عنائزہ نے کہا
وعلیکم السلام۔۔ عنائزہ بیٹا کیسی ہو تم پورے پانچ ماہ بعد دیکھ رہی ہوں تمہیں،،،
میں ٹھیک ہوں آنٹی آپ کیسی ہیں دراصل میں پاپا سے ملنے آئی ہوں لیکن گھر کو لاک لگا ہے،،،
اس کا مطلب تمہیں کچھ بھی معلوم نہیں،،، عورت نے حیرت سے کہا
کیا مطلب کچھ معلوم نہیں،،، اس نے حیرت سے پوچھا
بیٹا تمہارے پاپا ایک ماہ سے ہوسپٹل میں ایڈمٹ ہیں انہیں بلڈ کینسر ہے اور وہ بھی لاسٹ سٹیج ہے،،،
عنائزہ کو لگا جیسے اس عورت نے اس کے سر میں بھاری پتھر مار دیا ہو وہ سکتے ہی حالت میں آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہی تھی،،،
ن۔۔نہیں ایسے کیسے ہو سکتا ہے پاپا کو ک۔۔کینسر لیکن میں جب یہاں سے گئی تھی تو پاپا بلکل ٹھیک تھے،،،
بس بیٹا یہ تو اللہ کو ہی پتہ ہے میں تمہیں ہاسپٹل کا ایڈریس دیتی ہوں تم جاؤ اور ان سے ملو،،،
سکتے کی حالت میں عنائزہ کا سر چکرانے لگا تو روحان نے عنائزہ کو سمبھالا،،،
اندر آجاو بیٹا پانی وغیرہ پی لو پھر چلی جانا،،، عورت نے عنائزہ کی بگڑتی حالت دیکھ کر کہا
ن۔۔نہیں پلیز آپ جلدی بتا دیں وہ کونسے ہوسپٹل میں ہیں،،، اس نے کیا تو وہ عورت اندر چلی گئی
سب ٹھیک ہو جائے گا تم فکر مت کرو،،، روحان نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا
ل۔۔لیکن وہ بلکل ٹھیک تھے یا پھر انہوں نے اتنی بڑی بات مجھ سے چھپائی،،، اس کی آنکھوں میں آنسو آنے لگے
کچھ دیر بعد عورت واپس آئی اور عنائزہ کو ہوسپٹل کا پتہ بتایا،،،
عقیلہ اور شفیق سامان کے ساتھ عورت کے گھر میں ٹھہر گئے عنائزہ اور روحان ہاسپٹل کے لیے روانہ ہوئے،،،
ریسپشن سے انہوں نے نام بتا کر روم نمبر پوچھا اور ڈھونڈتے ہوئے روم میں پہنچے،،،
عنائزہ روم میں داخل ہوئی تو چینخ نکل جانے کے ڈر سے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا کیوں کہ اس کے پاپا کے سر سے تمام بال جھڑ چکے تھے چہرہ جھریوں زدہ تھا آنکھوں کے گرد ہلکے تھے اور وہ اس وقت ہڈیوں کا ڈھانچہ لگ رہے تھے،،،
پاپا۔۔۔ عنائزہ بھاگتی ہوئی ان کے پاس پہنچی اور وہ اکھڑتے سانس کے ساتھ اپنی بیٹی کو دیکھنے لگے،،،
پھر ان کی نظر روحان پر پڑی وہ لمبے لمبے سانس لیتے روحان کو دیکھ رہے تھے روحان کو ان کی نظروں میں جیسے کوئی راز چھپا نظر آرہا تھا،،،
ان کے منہ سے خون نکلنے لگا اور سانس لینے میں دشواری ہونے لگی،،،
پاپا۔۔ پاپا کیا ہو رہا ہے آپ کو۔۔۔ نرس۔۔۔ ڈاکٹر،،،، عنائزہ چلّانے لگی
ڈاکٹر تیزی سے اندر داخل ہوا اور عنائزہ کو باہر جانے کا کہا وہ باہر آئی اور روحان کے سینے سے لگی ہچکیوں سے رونے لگی اسے کیا خبر تھی وہ یہاں آئے گی تو اپنے باپ کو اس حالت میں دیکھے گی،،،
اللہ سب ٹھیک کر دے گا،،، روحان نے اسے تسلی دی ورنہ اسے خود ان کی حالت بچنے والی نہیں لگ رہی تھی
کچھ دیر میں ڈاکٹر باہر نکلا،،،
آئم سوری ہم انہیں بچا نہیں سکے،،، ڈاکٹر کے الفاظ تھے یا پگھلا ہوا سیسہ جو عنائزہ کے کانوں کو چیر کر اندر داخل ہو رہا تھا،،،
کچھ دیر وہ سکتے کی حالت میں کھڑی رہی اور ہوش آنے پر چینخ و پکار کے ساتھ رونے لگی،،،
عنائزہ سمبھالو خود کو،،،
پاپااااا۔۔۔ وہ زمین پر بیٹھی چینخنے لگی
نہیں جا سکتے آپ مجھے چھوڑ کر پاپاااا،،، وہ چینختی ہوئی رو رہی تھی
عنائزہ،،، روحان اسے دیکھ کر رونے لگا اور اسے سینے سے لگایا
ایک گھنٹے تک ان کی ڈیڈ باڈی کو گھر میں لایا گیا محلے کی عورتیں بھی ان کے گھر اکٹھی ہو چکی تھیں،،،
عنائزہ نے ان کا چہرہ کفن سے ڈھانپا ہوا تھا کیوں کہ ان کی جو حالت تھی وہ کسی کو بھی دکھانا نہیں چاہتی تھی،،،
پاپا۔۔۔ وہ مسلسل روتے ہوئے انہیں پکار رہی تھی جو اب کبھی بھی اس کی پکار کا جواب نہ دینے والے تھے،،،
نیو یارک میں گزرے پانچ ماہ اس کے پاپا نے اس سے کوئی رابطہ نہ کیا تھا اور آج اس سے ملتے وہ دم توڑ گئے،،،
پاپا پلیز اٹھ جائیں آپ ایسے کیسے جا سکتے ہیں اپنی بیٹی کو چھوڑ کر،،، عنائزہ خاموش ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی عقیلہ اور محلے کی عورتیں اسے سمبھال رہی تھیں،،،
میّت اٹھانے کا وقت ہو چکا تھا روحان نے ان کے چہرے سے کفن ہٹایا تا کہ عنائزہ آخری بار ان کا چہرہ دیکھ سکے،،،
کفن میں لپٹے شخص کو دیکھ کر عقیلہ اور شفیق کے پاؤں تلے سے زمین نکلی وہ دونوں حیرت سے آنکھیں پھاڑے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے،،،
روحان نے شفیق کو کندھا دینے کا کہا تو وہ ہوش میں آیا اور آگے بڑھا مزید دو لوگوں نے میّت کو کندھا دیا اور گھر سے باہر نکل گئے،،،
عنائزہ روتی ہوئی زمین پر ہاتھ مار رہی تھی اور عقیلہ اس کے پاس بیٹھی اسے چپ کروانے لگی،،،
رات کے وقت عنائزہ اور روحان ایک کمرے میں لیٹے تھے جس میں شادی سے پہلے عنائزہ رہا کرتی تھی،،،
لمبے سفر اور تھکاوٹ کے باعث روحان کو نیند آگئی لیکن عنائزہ ابھی تک بیٹھی رو رہی تھی،،،
روتے روتے اچانک عنائزہ کے چہرے کے تاثرات بدلنے لگے اور اسے ہاسپٹل والا سین یاد آیا،،،
اس کے پاپا کے بال جھڑ چکے تھے اور ان کے سر میں زخم کا نشان تھا پھر اسے ان کے چہرے پر کانچ کا نشان یاد آنے لگا جب گھر میں ان کی میّت پڑی تھی اور آخری نظر ڈالتے ہوئے اس نے ان کا چہرہ دیکھا تھا،،،
عنائزہ کے رونگٹے کھڑے ہونے لگے وہ بے یقینی کی حالت میں اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرنے لگی کیا وہ جو سوچ رہی تھی وہ حقیقیت تھی یا محض اس کا وہم تھا،،،
کچھ دیر بعد وہ بے آواز قدموں سے کمرے سے باہر نکلی اور اپنے پاپا کے کمرے کی طرف چلنے لگی،،،
کمرے میں داخل ہو کر اس نے چیزوں کی تلاشی لینا شروع کی اور دل ہی دل میں دعا کرنے لگی کہ جو وہ سوچ رہی ہے ایسا کبھی نہ ہو،،،
بیڈ کے سائیڈ ٹیبل پہ اسے ایک ڈسک پڑی ہوئی دکھائی دی جسے عنائزہ نے لیپ ٹاپ میں ڈال کر چلایا،،،
**یہ اس کے** پاپا کی وڈیو تھی جسے چلاتے ہی عنائزہ کی آنکھوں سے پھر سے آنسو بہنے لگے،،،
"عنائزہ میری پیاری بیٹی پاپا کی جان۔
میں جانتا ہوں تم بہت ناراض ہو گی کہ میں نے تمہیں یہاں سے بھیجنے کے بعد تم سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔
میری بچی میرا کوئی ایسا پل نہیں جو تمہاری یاد کے بغیر گزرا ہو لیکن رابطہ نہ کرنا میری مجبوری تھی۔
روحان کی دادو نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ وہ ایک ہی صورت میں روحان کی شادی تم سے کرنے کی اجازت دیں گی اگر میں تمہاری شادی کے بعد تم سے کوئی رابطہ نہ رکھوں۔۔۔
ا۔۔اور میں جانتا ہوں کہ تمہیں روحان کی ماں کے بارے میں سب کچھ معلوم ہو گیا ہو گا کیوں کہ روحان کی دادو نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ تمہیں سب کچھ بتا دیں گی لیکن وہ تمہارے جانے سے پہلے ہی رخصت ہو گئیں مگر وہ کوئی ایسی چیز ضرور چھوڑ کر گئی ہوں گی جس سے تمہیں ساری کہانی معلوم ہو جائے۔۔۔
م۔۔میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ میں وہ نہیں جو تمام عمر تمہارے سامنے بن کر رہا۔۔ میں ایک دیو ہوں ایک شیطان ہوں جو سب کی خوشیوں کو کھا گیا۔۔۔
عنائزہ ان کے چہرے پر دکھ اور پچھتاوا دیکھ سکتی تھی
میرا نام موسیٰ انصاری نہیں بلکہ راحیل رانا ہے۔۔۔
ان کے منہ سے یہ الفاظ سن کر عنائزہ کے رونگٹے کھڑے ہو گئے وہ سکتے کی حالت میں انہیں دیکھ رہی تھی اس کا وہم پورا ہو چکا تھا روحان کے خاندان پر ظلم ڈھانے والا ان کا نام و نشان مٹانے والا کوئی اور نہیں اس کا اپنا باپ تھا،،،
اس رات مریم کو حاصل کر لینے کے بعد مجھے آج تک ایک پل بھی چین کا نصیب نہیں ہوا۔۔۔
دکھ۔۔ پچھتاوا۔۔ ملامت۔۔ میں اندر ہی اندر سے کھوکھلا ہو گیا
اس رات مریم کو لے جانے کے بعد ۔۔۔
ماضی
تم جاؤ جلدی سے کسی نرس کا بندوبست کرو،،، ڈیول نے چلّاتے ہوئے اپنے آدمی سے کہا
اس نے مریم کو اٹھا کر گاڑی میں لیٹایا اور اس کے دوسرے آدمی نے گاڑی سٹارٹ کی،،،
وہ اسے ہوسپٹل نہیں لے کر جا سکتا تھا کیوں کہ اس کی حالت دیکھ کر شاید یہ پولیس کیس بن جاتا اس لیے وہ اسے ایک چھوٹے سے گھر میں لے آیا شاید یہ اس کا نیا ٹھکانہ تھا،،،
کچھ دیر میں اس کا آدمی نرس کو لیے گھر داخل ہوا،،،
نرس نے سب کو باہر جانے کا کہا اور مریم کو دیکھنے لگی،،،
آدھے گھنٹے بعد وہ باہر نکلی،،،
ان کی طبیعت کافی خراب ہے بہت کمزوری بھی ہے میں نے انہیں ڈرپ لگا دی ہے کچھ دیر تک انہیں ہوش آجائے گا ویسے ان کا بچہ کہاں ہے،،،
تمہیں پیسوں سے مطلب ہے یا جاسوسی سے،،، ڈیوِل نے ناگواری سے اس کی طرف دیکھ کر کہا اور پیسوں کی ایک گٹھی اس کی طرف پھینکی
تمہیں یہاں ہی رہنا ہو گا جب تک وہ ٹھیک نہیں ہو جاتی،،،
اتنے پیسے دیکھ کر نرس خوش ہو گئی اور سر اثبات میں ہلایا،،،
ڈیوِل کمرے میں داخل ہو کر مریم کے پاس بیٹھا اور اسے دیکھنے لگا،،،
کیوں تمہارے معاملے میں میں اتنا مجبور ہوں میرّی کیوں مجھ سے تمہارے بغیر نہیں رہا جاتا،،، وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر بولا
وہ اس کے سامنے بے ہوش پڑی نہایت کمزور لگ رہی تھی،،،
کچھ دیر اسے دیکھنے کے بعد وہ کمرے سے باہر نکلا اور دروازہ بند کیا،،،
حال
میں بہت خود غرض ہو گیا تھا اس وقت میرے سر پر مریم کو حاصل کرنے کا بھوت سوار تھا میں نے اپنے مقصد کی خاطر اپنے پیاروں کی جان لے لی۔۔۔ انہوں نے روتے ہوئے کہا اور عنائزہ بے یقینی کی حالت میں اپنے منہ پر ہاتھ رکھے اس وڈیو میں اپنے باپ کو دیکھ رہی تھی
میرے ماں باپ کے جانے کے بعد میں خالا جان کے گھر رہنے لگا وہ سب مجھے بہت پیار کرتے کبھی مجھے خود پر بوجھ نہ سمجھا لیکن میں ان سب کے پیار کو محض ہمدردی سمجھتا تھا۔۔۔
ارسم بھائی جنہوں نے مجھے اپنا چھوٹا بھائی بنایا اپنی ہر چیز مجھ سے شئیر کی کبھی مجھ سے پرائیوں جیسا سلوک نہیں کیا لیکن میرے دل میں ایسی آگ پیدا ہو گئی جس میں پورا خاندان جل کر راکھ ہو گیا،،، یہ سب کہتے ہوئے وہ شدت سے رو رہے تھے
میں نے بچپن سے مریم کو چاہا تھا اس کی محبت میرے دل میں پروان چڑھتی گئی۔۔۔ اس سے شادی کرنے کے بعد میں نے ہم دونوں کے لیے بہت سے خواب دیکھ رکھے تھے جنہیں کم وقت میں پورا کرنا آسان نہ تھا اس لیے میں نے کچھ لڑکوں کو اکٹھا کر کے ایک گینگ بنایا اور شہر سے لڑکیاں اغواہ کر کے ان کی قیمت وصول کر کے انہیں آگے بیچنے لگا۔۔۔
پیسہ تو میرے پاس بہت اکٹھا ہو گیا لیکن جب میں خالا جان سے اپنی اور مریم کی شادی کی بات کرنے لگا تو معلوم ہوا کہ اگلے ہی دن ارسم بھائی کے لیے وہ لوگ مریم کا رشتے مانگنے جا رہے ہیں۔۔۔
میرے دل میں ارسم بھائی کے لیے نفرت پیدا ہونے لگی سب کچھ تو ان کا تھا میرا کیا میرے پاس کیا تھا کچھ بھی نہیں۔۔۔
ماں باپ تو اللہ نے پہلے ہی مجھ سے چھین لیے تھے اور اب میری مریم۔۔۔ میں کسی صورت بھی اسے کھونا نہیں چاہتا تھا مجھے لگتا تھا مریم کے سوا میرا جینے کا کوئی مقصد نہیں اس کے بنا میری سانسیں رک جائے گی میں مٹی ہو جاؤں گا۔۔۔
جس لڑکی کو میں بچپن سے چاہتا آ رہا تھا اسے میں اتنی آسانی سے کیسے کسی اور کا ہونے دیتا۔۔۔
بس تب میں نے ٹھان لیا کہ چاہے جو بھی ہو جائے میں مریم کو حاصل کر کے رہوں گا۔۔۔
میں نے مریم کو حاصل تو کر لیا لیکن آستین کا سانپ بن کر ایک ایک کر کے اپنے پورے خاندان کو نگل لیا۔۔۔
مریم کو گھر لانے کے بعد جب اسے ہوش آیا۔۔۔
ماضی
ا۔۔ارسم
ارسم،،،
مریم عنودگی کی حالت میں ارسم کو پکار رہی تھی ڈیوِل اس کے آواز سن کر تیزی سے اندر بھاگا،،،
میرّی تمہیں ہوش آگیا،،، وہ اس کے پاس بیٹھ کر اس کا ہاتھ پکڑ کر بولا
مریم نے آہستگی سے آنکھیں کھولیں اور ڈیوِل کی طرف دیکھا،،،
چ۔۔چلے جاؤ چلے جاؤ،،، اسے دیکھ کر مریم لمبے لمبے سانس لینے لگی
میرّی کیا ہوا تمہیں،،، اس نے مریم کو کندھوں سے پکڑا
نرس جلدی آؤ،،، ڈیوِل کی آواز پر نرس بھاگتی ہوئی آئی
آپ باہر جائیں میں دیکھتی ہوں
ڈیوِل باہر آیا اور نرس مریم کا چیک اپ کرنے لگی،،،
مریم پھر سے بے ہوش ہو چکی تھی نرس باہر آئی تو ڈیوِل اس کی طرف بڑھا،،،
کیا ہوا ٹھیک ہے وہ،،، اس نے بے صبری سے پوچھا
اس کی حالت ٹھیک نہیں ہے اسے ہوسپٹل میں ایڈمٹ کرنا ہو گا،،،
کیا بکواس کر رہی ہو میں نے تمہیں اتنے پیسے کس لیے دیے ہیں تمہیں یہیں رہ کر اس کا علاج کرنا ہو گا باقی تمہیں جو سامان چاہیے مجھے بتاؤ،،،
ٹھیک ہے اگر آپ اسے ہوسپٹل نہیں لے جانا چاہتے تو میں اس کا یہیں علاج کروں گی لیکن نتائج کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے،،،
ہاں ٹھیک ہے جاؤ اب اس کا خیال رکھو،،، اس نے لاپرواہی سے کہا تو نرس مریم کے کمرے میں چلی گئی
دو دن بعد مریم کو اب ٹھیک طرح سے ہوش آیا تھا ڈیوِل یہ خبر سنتے ہی اس کے پاس بھاگا،،،
وہ کمرے کے نزدیک پہنچا تو مریم کی آواز سن کر رکا اور اس کی سماعت میں مریم کی آواز پڑی،،،
ابھی ماما اپنی جان کو نہلائے گی پھر نئے نئے کپڑے بھی پہنائے گی ماما کا بیٹا چندہ کی طرح چمکنے لگ جائے گا ہاہاہا،،،
بے یقینی سے ڈیوِل کے قدم وہیں جم گئے کیا مریم اپنے ہواس کھو بیٹھی تھی؟
نہیں نہیں یہ میرا وہم ہے،،، وہ سر جھٹکتا ہوا اندر داخل ہوا
میرّی کیسی ہو تم،،،
مریم تکیے کو سینے سے لگائے بیٹھی تھی جیسے وہ اسے اپنا بچہ سمجھ رہی ہو اس کی جیسے ہی ڈیوِل پر نظر پڑی اس کے چہرے کے تاثرات بدلنے لگے،،،
ن۔۔نہیں میرے ب۔۔بچے کو نہیں مارنا پ۔۔پلیز نہیں مارنا م۔۔میرے بچے کو،،، وہ تکیے وہ سینے سے لگاتی ہوئی اسے یوں چھپا رہی تھی جیسے ڈیوِل اس سے چھین لے گا
ڈیوِل آنکھیں پھاڑے مریم کو دیکھ رہا تھا وہ پاگل ہو چکی تھی جو اس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا،،،
میرّی میں تمہیں کچھ نہیں کروں گا،،، وہ اس کے پاس بیٹھا
د۔۔دور ہٹو ت۔۔تم پلیز م۔۔میرے بچے کو نہیں مارنا م۔۔مجھے مار دو ہاں مار دو مجھے لیکن میرے بچے کو نہیں،،، وہ بولتے ہوئے رونے لگی
ت۔۔تم نے میرے ا۔۔ارسم کو بھی مار دیا اب میرے ب۔۔بچے کو مارنا چاہتے ہو نا پ۔۔پلیز مت مارنا میرے بچے کو،،، اس کی آنکھوں سے آنسو تیزی سے بہہ رہے تھے ڈیوِل سکتے کی حالت میں اس کی طرف دیکھ رہا تھا ہوش آنے پر وہ بھاگ کر کمرے سے باہر نکلا اور گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا،،،
مریم کو پا کر بھی آج وہ خالی ہاتھ تھا اس نے اپنے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑا اور چلّانے لگا
میں اندر سے ٹوٹ چکا تھا مریم مجھے ایک نظر دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی تھی میرے سامنے آتے ہی وہ رونے اور چلانے لگ جاتی۔۔۔
دن گزرتے چلے گئے کبھی خالا جان کبھی ارسم بھائی کبھی شہزادی سب ایک ایک کر کے روز میرے خواب میں آتے میرے حال پر کبھی وہ ہنستے اور کبھی روتے کہ میں نے انہیں برباد کر دیا مار دیا۔۔۔۔ میرا سکون چین سکھ سب جاتا رہامیں نے ہر برے کام سے توبہ کر لی۔۔۔
جب مریم سوئی ہوتی اسے کچھ وقت دیکھ کر سکون حاصل کرتا لیکن ساتھ ہی میرا دل درد کی شدت سے مچلنے لگ جاتا تھا ۔۔۔۔
میں نے ایک ہنستے مسکراتے خاندان کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا اور اب میرے سامنے میری مریم ویسی نہ تھی جیسی وہ ہوا کرتی تھی میں اپنے پیار میں اتنا خود فرض کیوں ہو گیا کہ اپنی مریم کو میں نے بدل کر رکھ دیا اس کو بر بار کر دیا۔۔۔
وہ روتے ہوۓ اپنا ماتھا پیٹنے لگے اپنے باپ کو اتنا بے بس دیکھ کر عنائزو کے دل میں شدت سے درد اٹھنے لگا،،، تین سال۔۔۔ پورے تین سال میں بھٹکتا رہا ایک پل مجھے سکون کا نصیب نہ ہوا پھر ایک دن میں رات کے وقت سڑکوں پر مارا مارا پھر رہا تھا جب ایک آواز میرے کانوں میں پڑی اور میں نے اپنے آس پاس دیکھا تو سفید کپڑے میں لپٹی ایک پیاری سی بچی جو تقریبا سات ماہ کی تھی اس نے رورو کر اپنا برا حال کر رکھا تھا۔۔۔ میں نے دیکھا کہ شاید یہیں کہیں اس کے ماں باپ ہوں گے لیکن گہرا سناٹا تھا اور وہاں کوئی نہ تھا پھر میں نے اس ننھی سی جان کو ہاتھوں میں اٹھایا تو اک سکون میرے اندر تک اترا۔۔۔ میں نے اسے اپنے سینے میں چھپایا اور گھر کی طرف بھاگنے لگا۔۔۔ پھر اس ننھی پری کا نام میں نے عنائزہ رکھا مطلب عزت والی ۔۔۔
یہ جان کر کے عنائزہ اپنے باپ کی سگی بیٹی نہیں ہے اس کے آنسو بے یقینی سے تھم گئے اور وہ آنکھیں پھاڑے انہیں دیکھنے لگی،،،
میں جانتا ہوں میری بیٹی تمہیں حقیقت معلوم ہونے پر بہت دکھ ہو گا لیکن میں مرنے سے پہلے اپنی تمام عمر کی سچائی تمہیں بتادینا چاہتا ہوں۔۔۔ تمہارے ساتھ وقت کیسے گزرتا گیا مجھے معلوم ہی نہ ہوا۔۔۔ تمہارے لیے میں نے اپنی شناخت بدلی اپنا نام کام سب کچھ بدل لیا تمہیں لیے میں لاہور مچھوڑ کر کراچی آ گیا تمام عمر میں نے اپنے زخم کے نشانوں کو چھپا کر رکھا کہ کہیں تم بھی یہ نہ پوچھ لو کہ یہ زخم کس چیز کے ہیں۔۔۔
تم میرے جینے کی وجہ میری خوشی تھی لیکن جس وقت تم میرے پاس نہیں ہوتی تھی وہی بے چینی اور بے سکونی مجھے گھیر لیتی۔۔۔
جب تم میں سال کی ہوئی تو مجھے پتہ چلا کہ مجھے بلڈ کینسر ہے جو کہ کافی پرانا ہو چکا ہے لیکن میں نے اپنا علاج نہیں کروایا کیوں کہ میں مر نا چاہتا تھا مجھے سکون چاہیے تھا جو اس دنیا میں ممکن نہ تھا۔۔۔
ایک دن مجھے فون آیادہ آدمی تئیس سال پہلے میرے گینگ میں شامل تھا اس نے مجھے بتا یا کہ وہ اب نیو یارک میں
ہوتا ہے۔۔۔
تب مجھے یاد آیا کہ ایک دن مریم خود سے باتیں کرتے ہوۓ نیو یارک کا نام لے رہی تھی شاید وہ اس رات نیو یارک کے لیے نکلے تھے اس کا مطلب خالا جان اور مریم کا بیٹار وحان نیو یارک میں ہیں۔۔۔
پھر میں نے اسے خالا جان کا نام بتایا اور ڈھونڈنے کا کہا۔۔۔
دوماہ بعد اس نے مجھے خالا جان کے گھر کا ایڈرئیس اور فون نمر بھیجا اور بتایا کہ ان کا پوتار وحان ہیومین فوبیا کی بیماری
میں مبتلا ہے۔۔۔
یہ سن کر میرے غم میں مزید اضافہ ہو گیا میں خود کو مزید گنہگار سمجھنے لگا یقینا میری وجہ سے وہ معصوم بچہ ایسی بیماری میں مبتلا ہوا ہو گا۔۔۔
پھر میں نے سوچ لیا کہ میں تمہاری شادی روحان سے کرواؤں گا تا کہ تم اسے محبت اور پیار دے کر اس بماری سے نکال سکو۔۔۔
پورے تین سال میں خالا جان کو کال کرتارہا لیکن انہوں نے مجھ سے کبھی بات نہیں کی ہمیشہ سہم کر فون رکھ دیتیں شاید انہیں یہ ڈر تھا کہ میں اب ان کو اور روحان کو جان سے مار ناچاہتا ہوں۔۔۔
پھر ایک دن میں خود نیو یارک گیا ان سے بات کرنے کے لیے۔۔۔
ماضی
دردانہ بیگم اپنے کمرے میں سور ہی تھیں ان دنوں ان کی حالت کا فی بگڑنے لگی تھی انہیں اپنے پاؤں کسی کی گرفت میں محسوس ہوۓ انہوں نے جلدی سے پاؤں سمیٹے اور لائٹ آن کی،،، راحیل آنسوؤں سے تر چہرہ لیے نظر میں جھکائے بیٹھا تھا،،،
تم تم اب مجھے اور میرے پوتے کو مارنے آگئے ہو خدا کے واسطے جان چھوڑ دو ہماری پورے خاندان کو تو تم مارہی چکے ہو ہمیں بخش دو خدا کے لیے ،،، وواس کے سامنے کپکپاتے ہوۓ ہاتھ جوڑتی ہوئی گڑ گڑانے لگیں
خالا جان ۔۔۔
مت کہو مجھے خالا جان تم اس لائق نہیں ہو چلے جاؤ یہاں سے ،،،انہوں نے اکھٹڑ تے ہوئے سانس کے ساتھ کہا تو راحیل نے جلدی سے انہیں پانی کا گلاس بھر کر دیا جو کہ وہ ہاتھ مار کر گرا گئیں
خلا جان میری بات سن لیں میں پہلے ہی اپنے کیے گئے گناہوں کی وجہ سے پل پل مر رہاہوں اور اب میں کسی کو
نہیں مارنے آیامیر الیقین کر میں،،،
تم ایک جھوٹے ۔۔۔ اور دھوکے باز انسان ہو میں ۔۔۔ میں تمہارالیقین کیوں کروں گی میں نے کہا دفع ہو جاؤ یہاں سے ،،، وہ چلاناچاہتی تھیں لیکن پیار رہنے کے سبب ایسا ممکن نہ ہو سکا
میں یہاں صرف آپ سے ایک بات کرنے کے لیے آیا ہوں اللہ کا واسطہ ہے میری بات سن لیں خالا جان صرف
ایک بار ،،، اس نے ہاتھ جوڑتے ہوۓ کہا کیا کہنا ہے تمہیں جلدی کہو ،،،دردانہ بیگم اسے یہاں سے بھیجنے کے لیے اس کی بات سننے کو تیار ہو گئیں
میری ایک بیٹی ہے میں نے اسے لے کر پالا ہے اس کا نام عنائز د ہے میں چاہتا ہوں کہ آپ اس کی شادی روحان سے ، سے کرواد میں مجھے پورا یقین ہے وہ ہر وحان کو اس پیاری سے نکال لے گی ،،، کیوں۔۔۔ کیوں کر واؤں میں اپنے سپ۔۔ پوتے کی شادی اس سے ہو سکتا ہے تمہاری بیٹی تمہارے نقش قدم پر ہو اور یہ تمہاری کوئی سازش ہو ،،،
ایسا کچھ بھی نہیں ہے خالا جان پلیز مان جائیں میں اپنی غلطیوں کا ازالہ نہیں کر سکتا لیکن اگر روحان ٹھیک ہو جاتا ہے تو میرے گناہوں میں کچھ حد تک تو کمی آئے گی پلیز خالا جان مان جائیں ، ،، اس نے روتے ہوئے ان کے
سامنے ہاتھ جوڑے
چلے جاؤ میں اپنے پوتے کو تمہارے حوالے کبھی نہیں کروں گی تم انسان نہیں شیطان ہو تم اس معصوم کو بھی نگل جاؤ گے ،،،
میں ایسا کیا کروں جس سے آپ کو یقین آ جائے کہ میں اب پہلے جیسا نہیں رہا میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتاہوں پلیز یہ شادی ہونے دیں،،،
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ آپ کے بعد روان کا کیا ہو گا وہ اپنی پوری زندگی اکیلے کیسے گزارے گا اسے ہمسفر چاہیے جو اس کا خیال رکھے اسے محبت دے تا کہ وہ آگے بڑھ سکے اور اس پیاری سے نکل سکے کوئی بھی نارمل لڑکی اس سے شادی نہیں کرے گی ،،،
بس ایک بار ہاں گرد میں خالا حبان عنائزو کی شادی روحان سے کر داد میں،،، ابھی۔۔۔اس وقت چلے جاؤ یہاں سے ورنہ میں پولیس کو کال کر کے بلالوں گی ،،، دردانہ بیگم پریشانی سے لیے لمبے سانس لینے لگیں
خالا ۔۔۔
جاو ، وہ سر گوشی میں چلائیں تور اجیل سر جھکاتا ہو اوہاں سے نکل گیا
حال
میں نے امید چھوڑ دی تھی کہ خالا جان کبھی تمہاری روحان سے شادی کے لیے مانیں گی لیکن ایک دن مجھے رات کے وقت ایک انجان نمبر سے فون آیا۔۔۔
جب میں نے اٹھایاتو وہ خالا جان تھیں جن کی ہو سپٹل میں آخری سانسیں چل رہی تھیں ۔۔
شاید انہوں نے سوچا ہو گا کہ وہ تو اس دنیا سے جار ہی ہیں ان کے بعد روحان کا کیا ہو گا کوئی بھی نارمل لڑ کی اس سے شادی کرنا نہیں چاہے گی۔۔۔
انہوں نے میری بات مان لی لیکن اس شرط پر کہ میں کبھی تم سے رابطہ نہیں کروں گا کبھی تم سے بات نہیں کروں گا۔۔۔
تم تو میری بیٹی ہو ناجب میں برباد ہو چکا تھا مجھے تم ملی تمہارے سہارے میں نے اپنی باقی کی زندگی گزاری میں تم سے کیسے دور بت تمہیں دیکھے بغیر میں کیسے زند ہر ہتا۔۔۔ اور روتے ہوئے کہہ رہے تھے ان کی محبت دیکھ کر عنائزہ پھر سے رونے لگی
میں نے تمہیں نیو یارک بھیج دیا ایک ماہ تمہارے بغیر بہت مشکل سے گزار اہر وقت تمہارے بارے میں سوچتا پھر میں مجبور ہو کر تمہیں دیکھنے وہاں چلا گیا۔۔۔
اس دن جنگل میں تمہیں جو شخص دکھا تھا وہ میں ہی تھا میں تمہیں دیکھنے کے لیے وہاں آ یا تھالیکن تم نے مجھے دیکھ لیا اور میرے پیچھے بھاگنے لگی اس لیے میں وہاں سے بھاگ گیا کیوں کہ تمہارے سامنے آکر میں خالا جان سے کیا ہوا وعدہ نہیں توڑ ناچاہتا تھا زندگی میں ہمیشہ میں نے سب کچھ توڑا ہی تھا کبھی وعدوں کو کبھی رشتوں کو لیکن اس بار میں ایسا نہیں کر نا چا ہتا تھا۔۔۔
بعض اوقات تمہیں شک ہو جاتا تھا لیکن بعض اوقات نہیں ۔۔۔ پھر ایک بار حچت پر روحان نے مجھے دیکھ لیا تھا لیکن شاید تمہیں نہیں بتایا۔۔۔ دن گزرتے گئے تین ماہ تک میں وہاں رہا پھر جب میں نے دیکھا کہ تم روحان میں بہتری لا رہی ہو تو مجھے تم پر ناز ہونے لگا کہ میری بیٹی نے کر دکھا یادہ جو میں نے سوچا تھا۔۔۔
آخری دنوں میں آکر میری طبیعت بگڑنے لگی اس لیے مجھے پاکستان واپس آنا پڑا۔۔۔
میں چاہتا ہوں کہ تمہیں میری حقیقت معلوم ہونے سے پہلے میں اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں تا کہ میں تمہاری نظروں میں اپنے لیے نفرت نہ دیکھوں کیوں کہ میں جانتا ہوں میں اپنی بیٹی کی نفرت کو برداشت نہیں کر سکوں
میرے مرنے کے بعد بھی مجھ سے کبھی نفرت نہ کر نامیری بچی میں نے ہمیشہ لوگوں کو خود سے نفرت کرنے پر مجبور کیا ہے لیکن تمہاری نفرت مجھے موت کے بعد بھی بے چین رکھے گی اپنے پاپا کو معاف کر دینا۔۔۔ وہ ہاتھ جوڑتے ہوۓ رونے لگے عنائزہ سے اپنے دل میں اٹھتی تکلیف برداشت نہیں ہو رہی تھی
مریم زندہ ہے لیکن وہ ابھی بھی پاگل ہے اس کا اس حال میں ہو نا مجھے بہت تکلیف دیتا تھا وہ میرے سامنے آجانے سے بھی چینخنے چلانے لگتی تھی اسے حاصل کر کے بھی میں اسے پانہ سکا۔۔۔
اس لیے میں نے اسے پاگل خانے داخل کر واد یا اگر میں اسے یہاں رکھتا اس طرح وہ مزید بیمار ہونے لگتی اور وہاں تو اس کی دیکھ بھال بھی ہوتی ہے علاج بھی ہوتا ہے ۔۔۔۔
جیسے تم نے روحان کو بیماری سے نکالا ہے ایسے ہی تم مر یم کو بھی محبت اور اپنایت سے ٹھیک کر لو گی مجھے اپنی بیٹی کی قابلیت پر پورا یقین ہے ۔۔۔
مریم سے ملنے روحان کو ساتھ لے کر جانا مجھے یقین ہے کہ مریم اسے ضرور پہچان لے گی کیوں کہ وہ ہو بہو مریم کا عکس ہے۔۔۔
میرا آخری خواب ہے میری بیٹی اسے پورا کر دو مریم کو پاگل پن کی بیماری سے نکال لواسے زندگی کی طرف واپس لے آئے۔۔۔
میں جانتا ہوں میرے پاس اتنی مہلت نہیں کہ میں دیکھ سکوں جب تم روحان اور مریم ایک گھر میں ہنسی خوشی رہوگے۔۔۔۔
اب میرے جانے کا وقت ہو گیا ہے اپنے بابا کے لیے ہمیشہ دعا کرتی رہنا کیوں کہ آگے آنے والی زندگی میں مجھے اپنے گناہوں کے بہت سے عذاب برداشت کرنے ہیں ہو سکتا ہے تمہاری دعاؤں سے میر اعذاب کچھ حد تک تو کم
ہو جاۓ۔۔۔
تمہارے پاپار احیل"
عنائزہ نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا اور چھینچوں کا گلاد بانے لگی وہ شدت سے دور ہی تھی دوزندگی کی سچائی سے کتنی دور تھی اسے معلوم ہی نہ تھا،،،
اگلے تین دن تک عنائزہ خاموش رہی اس نے نہ روحان سے نہ ہی کسی اور سے بات کی تھی،،، روحان اس کی خاموشی کو اس کے باپ کے مرنے کا دکھ سمجھ کر خاموش رہا اس نے ایک دو بار اس سے بات کرنے کی کو شش کی لیکن عنائزو نے جواب نہ دیا،،،
چوتھے دن وہ دونوں اپنے کمرے میں بیٹھے تھے جب عنائزہ بولی،،،
تمہیں کسی سے ملوانا ہے میرے ساتھ چلو،،،
لیکن کس سے ،،،روحان حیران ہوا کہ وہ تین دن بعد بولی اور وہ بھی اچانک ایسی بات یہ تمہیں وہاں جا کر معلوم ہو جائے گا ،،،وہاٹھی تور وحان بھی اس کے ساتھ کھڑا ہوا عنائز ڈرائیو کر رہی تھی اور روحان سوچ رہا تھا کہ وہ اسے کہاں لے کر جارہی ہے ،،، کچھ دیر کی مسافت کے بعد عنائزہ نے ایک ہو سپٹل کے سامنے گاڑی رو کی روحان نے گیٹ کے اوپر مینٹل ہوسپٹل لکھا ہوا پڑھا تو حیرت سے عنائزہ کی طرف دیکھنے لگا لیکن عنائز وسامنے دیکھ کر چلنے لگی ،،،
وہ دونوں اندر داخل ہوئے تو عنایزہ نے روحان کو وہیں کھڑا کیا اور خود رسپشن پر جاکر مریم کا نام بتایا اور روم نمبر پوچھا
عنائزہ کے بلانے سے روحان اس کے ساتھ چلنے لگا جیسے ہی وہ ہو سپٹل کے اندرونی حصے میں داخل ہوئے تو ان کو
لوگوں کا شور سنائی دیا روحان حیرت سے ادھر ادھر دیکھنے لگا،،،
گیلری میں داخل ہوتے ہی ان کے سامنے بے شمار پاگل لوگ تھے جو مختلف قسم کی حرکتیں کرنے میں مصروف
عنائزہ ہم یہاں کیا کر رہے ہیں،،، ر وحان کو ان سے کوفت ہونے لگی تو پو چھالیکن وہ خاموش رہی پھر عنائز ونے ایک کیئر ٹیکر سے بات کی اور اس نے ایک کمرے کی طرف ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا،،،
وہ اس کمرے کی طرف چلنے لگی اور روحان اس کے پیچھے ،،،
اندر داخل ہونے کے بعد عنائزہ نے اپنے سامنے دس بارہ پاگل عورتوں کو پایا جس میں سے ایک بھاگتی ہوئی عنائزہ
کے پاس آئی،،،
اے سنو نا مجھے بھی ایک ایساسوٹ چاہیے پلیز مجھے ایک ایسا سوٹ لے دو،، وہ عورت بالوں کو کھاتی ہوئی بول رہی تھی
عنائزہ اسے اگنور کیے آگے بڑھی اس نے سبھی عورتوں کو دیکھا لیکن ان میں سے کوئی بھی مریم نہ تھی پھر آخری بیڈ جہاں ایک عورت دیوار کی طرف منہ کیے بیٹھی تھی عنائز اس کے قریب گئی ،،، عنائزہ نے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو اس نے مڑ کر دیکھا »»»
آمیری شہزادی آگئی میری شہزادی آگئی اے ناصر ہ دیکھو میری بہن آگئی میں نہ کہتی تھی کہ اس نے خود کشی نہیں کی ہاں خود کشی نہیں کی اس نے وہ زندہ ہے دیکھو دیکھواب وہ آگئی ہے ،،، وہ خوشی سے سب عورتوں کو بتانے لگی عنائزہ کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ کر رخسار پر پچھلے
شہزادی کا نام سن کر روحان اس عورت کی طرف متوجہ ہوا کیوں کہ اس کی دادو نے اس کی خالا کا نام اسے بتایا تھا،
اس کی اور مریم کی تصویر بھی دکھائی تھی ،،،
روحان حیرت سے اس عورت کو دیکھنے لگا جیسے اسے پہچانے کی کو شش کر رہاہو،،،
لیکن وہ بلکل بدل چکی تھی اس کے سنہری بال جو کبھی اس کی کمر کو ڈھانپتے تھے آج اتنے چھوٹے تھے کہ کانوں پر بھی نہ آتے تھے، نہایت کمزور اور لاغر سی لیکن اس کی آنکھوں کار نگ آج بھی سبز تھا،،، وہ تقریبا پچاس سال کی تھی لیکن اس وقت وہ اپنی عمر سے دس سال بڑی لگ رہی تھی ،،،
یہ تمہاری ماں ہے روحان،،،
عنائزہ کی بات سنتے ہی روحان آنکھیں پھاڑے کبھی عنائزہ کو اور کبھی مریم کی طرف دیکھنے لگا،،،
م۔۔ماں،،، سکتے کی حالت میں روحان کے منہ سے نکلا ماں کا لفظ سنتے ہی مریم کے چہرے کی خوشی غائب ہوئی اور وہ زمین پر بیٹھ کر رونے لگی ،،، روحان بے یقینی سے عنائزہ کو دیکھ رہا تھا کیوں کہ اس کی دادو کے بقول اس کے ماں باپ ایک ایکسیڈنٹ میں اس دنیا سے چلے گئے تھے ،،، ل۔۔ لیکن دادو نے تو۔۔۔
وہ جھوٹ تھا تمہیں بہلانے کے لیے تا کہ تم ان سے مزید سوال وجواب نہ کرو،،، عنائزہ کے روحان کی بات ٹوکتے ہوۓ کہا
کیانچ میں یہ میری ماں ہے ،،،اس کی آنکھوں میں در واتر آیا تھا عنائنز نے اثبات میں سر ہلایا م۔۔میرابچہ بھی مجھے ماں بولتال۔۔ لیکن وہ پتہ نہیں کہاں چلا گیا مجھے اکیلا چھوڑ کر ،،، وہ سسکنے لگی روحان گھٹنوں کے بل اس کے پاس بیٹھا اور غور سے اس کی طرف دیکھنے لگا،،،
قسط 35
آج آخری قسط ہے پلز پوسٹ کو شیئر ضرور کیجئے گا
اسے کیا پتہ تھاماں کیا ہوتی ہے اسے بھی کاں کی مامتا جو نصیب نہیں ہوئی تھی ۔۔۔ مال ،،، روحان نے اپنے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا ،،، اس کے منہ سے ماں کا لفظ سنتے ہی مریم نے نظر میں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا ،،، وہ بے یقینی سے روحان کو دیکھنے لگی پھر ہاتھ بڑھا کر اس کے چہرے پر لگانے لگی کیوں کہ روحان کا چہرہ ہو بہواپنی ماں جیسا تھا اس لیے مریم سکنے کی حالت میں اسے دیکھ رہی تھی ،،، تم کون ہو ،،، مریم نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ کہاتور وحان کا گلا آنسوؤں سے رند گیا وہ بولنا چاہتا تھا کہ وہ ان کا بیٹا ہے لیکن اس کی زبان نے اس کا ساتھ نہ دیا عنائزہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتی ہوئی بیٹھی ،،، آپ کہہ رہی تھی نا کہ آپ کا بچہ نہ جانے کہاں چلا گیا ،، عنائزو نے مریم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ہا ۔۔۔ ہاں میر ابچہ میرابچہ روحان نہ جانے وہ کہاں چلا گیا تم مجھے وہ لوٹاد و میر ابچہ ہے کیا تمہارے پاس ،،، مریم سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے تکلیف سے بولی
یہ ہے آپ کا بیٹار وحان ،،،
عنائزہ کی بات سن کر مریم حیرت سے روحان کو دیکھنے لگی کبھی وہ اس کے بالوں کو چھوتی کبھی اس کی رخساروں کو سبھی اس کی سبز آنکھوں کو غور سے دیکھتی ،،،
یہ یہ ہے میرابچہ ل۔۔ لیکن وہ تو چھوٹا سا تھام ۔۔ میں نے اس کے رونے کی آواز سنی تھی ،،، مریم اس وقت کی بات کر رہی تھی جب گاڑی کے پاس روحان کی پیدائش ہوئی تھی اور پھر وہ بے ہوش ہو گئی تھی
لیکن وہ پچیس سال پہلے کی بات تھی اب یہ بڑا ہو گیا ہے دیکھیں یہ بلکل آپ کے جیسا ہے آپ بھی تو اس کی عمر میں بالکل ایسی ہی تھیں تاء ،، مریم نے اسے پیار سے سمجھایا
ہاں ہاں میں ا۔۔ایسی تھی ۔۔۔ مجھے یاد ہے تو کیا یہ ۔۔ یہ میرا روحان ہے میرا بچہ اب بڑا ہو گیا ہے ۔۔ تم سچ کہہ رہی ہو نا شہزادی،، ،روتے ہوئے بولیں تو عنائزو سے بھی اپنے آنسو کنٹرول نہ ہوئے روحان تو پہلے سے سے ہی رو رہاتھا
ہاں یہ آپ کار وحان ہے اور اب آپ سے کبھی دور نہیں جاۓ گا ،،، کیا چ ،،، مریم روتے ہوۓ روحان کے سینے سے لگی اور روحان کے آنسو تیزی سے بہنے لگے
ہم آپ کو یہاں سے لے جانے آئیں ہیں آپ ہمارے ساتھ چلیں گی ناہمارے گھر ،، عنائزہ کی بات سن کر وہ روحان سے الگ ہوئی اس کے چہرے سے خوشی جھلکنے لگی ہا۔۔ ہاں میں جاؤں گی اپنے بیٹے کے ساتھ اس کے گھر میں ،، وہ خوشی سے بولتی ہوئی کھڑی ہوئی تو وہ دونوں بھی کھڑے ہو گئے
آپ یہاں ہمارا انتظار کر میں ہم کچھ دیر میں واپس آئیں گے آپ کو لینے ،،، عنائزو کی بات سن کر مریم کے چہرے کے تاثرات بدلنے لگے
۔ نہیں نہیں تم دونوں مجھ سے مجھوٹ بول رہے ہو تم دونوں واپس نہیں آؤ گے اور میں پھر سے ۔۔اکیلی رہ جاؤں گی ۔۔۔ میرے بچے تم ۔ ۔ مجھے چھوڑ کر جار ہے ہو کیا،،، وہ آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ امید لیے روحان کی طرف دیکھنے لگی
میں اب کبھی بھی آپ کو چھوڑ کر نہیں جاؤں گاما،،، روحان نے ان کا ہاتھ پکڑا تو وہ پھر سے خوش ہو گئی روحان تم یہیں رکوان کے پاس میں بات کر کے آتی ہوں ان کو ساتھ لے کر جاتا ہے ،»» ٹھیک ہے تم جاؤ جلدی آجانا،،، روحان نے کہا تو عنائز واثبات میں سر ہلانی کمرے سے نکل گئی
وہ آفس میں داخل ہوئی اور آفس ہیڈ سے بات کر کے اس نے پیچر زیر سائن کیے اور واپس آئی»»»
واپس روحان کے پاس آئی اور وہ دونوں مریم کو لیے وہاں سے جانے لگے ،،، ہوسپٹل سے باہر آنے کے بعد انہوں نے مریم کو گاڑی میں بیٹھا یا،،، کچھ دیر بعد گاڑی گھر کے سامنے رکی مریم نے ہارن بجایا تو شفیق نے گیٹ کھولا،،،
مریم خوشی سے سب کو اپنے بیٹے کے ساتھ جانے کا بتارہی تھی اور ان میں سے کچھ پاگل عورتیں مریم کے گلے ملنے لگیں ...
جیسے ہی مریم روحان کا ہاتھ تھامتے ہوئے باہر نکلی شفیق اور گھر کے اندرونی حصے پر کھٹری عقیلہ دونوں ہی سکتے کی
حالت میں مریم کو دیکھنے لگے ،،،
چھوٹی بی بی ،،، عقیلہ بھاگتی ہوئی اس کے پاس آئی اور رونے لگی
تم کیوں رورہی ہو تمہارا بھی بچہ تھوڑ کر چلا گیا کیا،،، مریم نے عقیلہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو عقیلہ کو حیرت کا جھٹکا لگا
تم روؤ نہیں تمہارا بچہ آجاۓ گادیکھو میرابچہ بھی آگیاوہ بھی بڑا ہو کر ،،، وہ خوش ہوتے بولی
عقیلہ حیرت سے شفیق کی طرف دیکھنے لگی پھر عنائزہ نے ان دونوں کو چپ رہنے کا اشارہ کیا اور مریم کو لیے اندر چلی گئی،،،
بیگم صاحبہ آپ نے ہماری چھوٹی بی بی کو کیسے ڈھونڈا اور انہیں کیا ہوا ہے ہم تو سمجھتے رہے کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہیں ،،، عنائز و جیسے ہی کمرے سے باہر نکلی تو عقیلہ اور شفیق راستے میں ہی کھڑے تھے وہ دماغی مرائضہ ہیں اس لیے ایسا بیجیو کر رہی ہیں اور رہی بات میں نے انہیں کیسے ڈھونڈا تو اللہ نے انہیں روحان سے ملاتا تھا تو کسی نہ کسی ذریعے سے ملاو یا،،، ہم آپ کا یہ احسان پوری زندگی نہیں اتار سکتے آپ بہت اچھی ہیں آپ نے ہمارے روحان بابا کو بھی کیا سے کیا بنا دیا اور اب چھوٹی بی بی کو بھی ڈھونڈ لائی ہیں،،، شفیق نے اپنی نم آنکھیں صاف کرتے ہوۓ کہا
بس اب رونا بند کر واور ہم سب نے مل کر ان کا خیال رکھنا ہے ان کا دماغی توازن ٹھیک نہیں ہے اس لیے وہ کچھ بھی کر سکتی ہیں عقیلہ تم نے ہمیشہ ان کے آس پاس رہتا ہے ،،، جی بی میں رکھوں گی اپنی چھوٹی بی بی کا خیال،،، عقیلہ خوش ہو کر بولی تو عنائز و مسکرانے لگی چلواب جلدی سے کھانا بناؤانہیں بھی کھلا نا ہے ،،
جی بیگم صاحبہ بھی بناتی ہوں،،، عقیلہ بچن کی جانب بھاگنے لگی
عنائزہ نے مریم کو نہلا کر نئے کپڑے پہناۓ پھر اس کے بالوں کو خشک کر کے کو منگ کر نے گی »»» روحان صوفے پر بیٹھا تھا کیوں کہ مریم ایک منٹ کے لیے بھی اسے خود سے دور نہیں ہونے دیتی تھی ...
بیگم صاحبہ کھانا تیار ہے آ جائیں ، عقیلہ نے کمرے میں داخل ہو کر کہا
ٹھیک ہے چلو ہم آتے ہیں ،،،
کھانا کھائیں گی نا آپ،،،عنائزو نے ان کے چھوٹے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا ان کے چھوٹے باوں میں انگلیاں پھیرتے ہو کہا
ہاں بھوک لگی ہے ،،،مریم نے پیٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو عنائزو نے انہیں پکڑ کر کھڑا کیا ان کا ایک ہاتھ عنائزہ کے ہاتھ میں تا وہ دوسرا ہاتھ روحان کی طرف کرنے لگی تور وحان نے فوراً سے اٹھ کر تمام
کھانے کی ٹیبل پر لا کے انہیں وودونوں اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتے رہے اور مریم عنائزہ کو شہزادی سمجھ رہی تھی جس وجہ سے وہ اس کے ساتھ بہت خوش تھی،،،
روحان نے ایک دو بار عنائز سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن مریم کی موجودگی میں وہ کوئی بات نہ کر سکا،،، رات کے وقت مریم کو سلانے کے بعد انہوں نے عقیلہ کو بھی اس کے کمرے میں سلایا اور خود اپنے کمرے میں آ گئے،،،
عنائز ، روحان نے فوراً اسے پکارا ہاں کہو،،،
تمہیں ماما کے بارے میں یہ سب کیسے معلوم ہوا، اللہ نے انہیں تم سے ملانا تھا تو بس ہو گیا معلوم ،،،
لیکن وہ اس حال میں کیسے پہنچی اور دادو نے مجھ سے جھوٹ کیوں کہ آخر کیا وجہ ہے اس سب کے پیچھے،، کہا
مجھے معلوم ہے تمہارے دماغ میں کئی سوالات ہیں اور تم بچ جاننا چاہتے ہو تمہیں تمہارے سبھی سوالوں کے جواب مل جائیں گے لیکن ابھی سو جاؤ میں بھی تین راتوں سے نہیں ہوئی اب سونا چاہتی ہوں،،، عنائزہ کے چہرے پر تھکن کے اثرات واضح تھے اس نے کہا تور وحان نے بے بسی سے اثبات میں سر ہلا یاور نہ وہ ابھی اپنے سوالوں کے جواب چاہتا تھا جو اسے الجھارہے تھے عنائز وبستر پر لیٹی دو آج کی رات سکون سے سوئی تھی اس کے دل سے بہت بڑا بوجھ اتر چکا تھا،،، اور روحان اپنی ماما کے بارے میں سوچتارہا،،،
صبح اٹھ کر عنائز ور وحان کو بنا بتاۓ اپنے پاپا کی قبر پر آئی تھی اس نے پوری قبر کو سرخ پھولوں سے بھر دیا تھا اور سے مجھے بے سہارا کو جسے اس کے اپنے ماں باپ سڑک پر روتا چھوڑ گئے آپ نے ماں اور باپ دونوں کا پیار دیا پوری زندگی کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دی بھی ایک پل کے لیے بھی محسوس نہیں ہوا کہ آپ میرے سگے باپ نہیں
گھٹنوں کے بل پاس بیٹھ کر رونے لگی ،،،
میں چاہ کر بھی آپ سے نفرت نہیں کر سکتی پاپا ،،،
پھر کیسے میں آپ سے نفرت کر لوں ،،،اس کے آنسو اس کا چہرہ بھگو چکے تھے
آپ نے بہت غلط کیا بہت گناہ کیسے ہیں آپ نے ، جو شاید میری دعاوؤں سے معاف نہیں ہوں گے لیکن میں پھر بھی اللہ سے آپ کی بخشش کے لیے دعا کرتی رہوں گی اللہ تور حیم ہے ناہو سکتا ہے وہ آپ کو معاف کر دے ،،، وہ
خود کو تسلی دیتے ہوۓ سسکیوں سے رونے لگی
میں نے روحان کی ماما کو اس سے ملادیا اور گھر بھی لے آئی ہوں جیسا آپ نے کہا تھا یا کر دیا میں نے پاپا » ہم ان کا خیال رکھیں گے انشاءاللہ بہت جلد وہ اس بیماری سے نکل آئیں گی ...
وہ باتیں کر رہی تھی جب اس کی توجہ اس کی فون بیل نے لی ،،،اس نے سکرین کی طرف دیکھاتو ر وحان کا نام نظر آرہا تھا۔۔۔
روحان پورے گھر میں عائزہ کو ڈھونڈ چکا تھا لیکن اسے وہ کہیں نظر نہیں آئی پھر پر پیشانی سے اس کا نمبر ملا یا عنائزہ کہاں ہو تم میں نے پورے گھر میں تمہیں ڈھونڈا ہے ،،،عنائزہ کے کال ریسیو کرتے ہی روحان بولا
پاپا کی قبر پر آئی ہوں کچھ دیر تک گھر واپس آ جاؤں گی،،،
تو مجھے بھی ساتھ لے جاتی ،،،روحان کی بات سن کر عنائزو نے تکلیف سے آنکھیں بند کیں کیوں کہ اگر روحان کو حقیقت معلوم ہوئی تو ان کی میت کو کندھا بھی نہ دیتا،،،
بولو عنائزہ کیا ہوا،،، روحان نے پریشانی سے کہا ہاں میں آرہی ہوں گھر ،،،اس نے روحان کا جواب سنے بغیر کال ڈسکنیکٹ کی دس منٹ دو جی بھر کر روٹی کھر اٹھ کر وہاں سے نکل آئی،،،
دو گھر پہنچی تو روحان لان میں بیٹھا اس کا انتظار کر رہا تھا اسے دیکھتے ہی دو کھٹڑ اہوا،،،
تم بنابتاۓ ہی چلی گئی میں اتناپر ایشان ہو گیا تھا،،،اس نے عنائزہ کو اپنے حصار میں لے کر پریشانی سے کہا پریشان کیوں ہوتے ہو تمہارے مولاب میرا اس دنیامیں کون ہے جس کے پاس جاؤں گی ،،، عنائز ونے اس کے اس
آئند وایسے کبھی مت کر نا جہاں بھی جاتا ہو بتا کر جانا میری جان نکل گئی تھی تمہارے بغیر »»» ایسے مت کہو پلیز ، عنائزہ اس سے ہو کر دیکھ بولی ایسے مت کہو پلیز ،، عنائز واس سے الگ ہو کر اس کی طرف دیکھ کر بولی او کے ،،،روحان نے اس کی پیشانی پر لب رکھے تو عنائز و نے سکون سے آنکھیں بند کیں
ماما کو ناشتہ کر وادیا،،،
ہاں کروادیا ہے اور میڈیسنر بھی کھلادی ہیں شاید انہیں کا اثر ہوا ہے اس لیے وہ پھر سے سو گئی ہیں ،،، ٹھیک ہے تم یہاں کو میں ابھی آتی ہوں ،،، عنائز وجانے لگی تو ر وحان نے اس کا ہاتھ پکڑا کمرے سے ہو کر ا بھی آتی ہوں،،، اس کے کہنے پر روحان نے اس کا ہاتھ تھوڑا عنائزو نے بیگ سے مریم کی ڈائری نکالی اور واپس لان کی طرف چلنے لگی وہ جانتی تھی روحان کو حقیقت معلوم ہونے کے بعد وہ اس کے باپ سے کتنی نفرت کرے گا لیکن وہ عنائز سے کبھی نفرت نہیں کر سکتا یہ بات بھی وہ اچھے سے جانتی تھی ،،،
آخر اسے ہیومین فوبیا جیسی بیماری سے نکال کر خوشگوار زندگی سے ملانے والی عنائز وہی تھی اور اسے دنیا کی سب سے بڑی نعمت اس کی ماں سے ملانے والی بھی عنائز وہی تھی۔۔۔
روحان چئیر پر بیٹھا تھا عنائزہ اس کے قریب آکر کھڑی ہوئی ...
تم بچ جاننا چاہتے ہو نا،،، عنائزہ کی بات سن کر روحان کھڑا ہوا اور اثبات میں سر ہلایا
یہ لو اس میں تمہیں تمہارے کبھی سوالوں کے جواب مل جائیں گے ،،،اس نے ڈائری اس کی طرف بڑھائی لیکن یہ تو ،،،ر وحان کو نیو یارک والی بات یاد آئی جب اس نے یہ ڈائری دیکھ کر عنائزہ سے پوچھا تھا تو وہ اسے ہسٹری کی بک کہہ کر ٹال گئی تھی
ہاں یہ ڈائری ہے تمہاری ماما کی ڈائری ان کی پچھلی گزری پوری زندگی کی کہانی اس ڈائری میں محفوظ ہے تمہیں
حق ہے کہ تم اپنے ماں باپ کے بارے میں جانو ،،،
روحان نے اس کے ہاتھ سے ڈائری پڑی اور پریشانی سے عنائزہ کی طرف دیکھنے لگا وہ الٹے قدموں سے واپس مڑی اور روحان اس کی پشت کو دیکھنے لگا اس نے چھٹیر پر بیٹھ کر ڈائری کھولی
ماضی
۔1991.10.1
پوری ہوٹل مہمانوں سے بھری ہے چاروں طرف خوشیوں کا سماں ہے،»»
آج میں مریم جمال رانا اپنے چچازاد "ار سم کمال رانا" سے منگنی کے رشتے میں منسلک ہونے جارہی ہوں

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, 
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں