پراسرار لڑکی - پارٹ 2

 mysterious-girl


 پراسرار لڑکی - پارٹ 2

شہباز احمد اور شہزاد کو گاڑی سے نیچے اترئے کافی دیر ہوگئی تھی ۔ وہ سب بے چینی سے ان کا انتظار کر رہے تھے ۔ کافی دیر بعد بھی وہ دونوں واپس نہ آئے تو عرفان اور دوسرے فکرمند ہوگئے۔ ایسے میں سلطان جھلا کر کہنے لگا:۔
اباجان نے بھی عجیب فیصلہ سنا دیا ۔۔۔ ہمیں یہاں اکیلا چھوڑ کر وہ خود گاڑی سے نیچے اتر گئے ہیں ‘‘ سلطان نے جھلاہٹ کے انگارے چباتے ہوئے کہا۔
مجھے تو اباجان اور شہزاد بھائی کہیں نظر نہیں آرہے ہیں ۔۔۔آخر وہ کہاں چلے گئے ‘‘ سادیہ نے گاڑی کے آگلے شیشے سے اِدھر اُدھر جھانکتے ہوئے پریشانی کے عالم میں کہا۔

شہزاد بھائی بھی کمال کے ہیں ۔۔۔ اباجان کے ساتھ جا کر وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اب اباجان کو ہماری نہیں ان کی ضرورت ہے ۔۔۔ لہٰذا ب ہم اباجان کے کسی کام کے نہیں ہیں‘‘ سلطان نے جل بھن کر کہا۔
آخری جملے میں’ہم‘کے بجائے ’میں‘کہہ دیتے تو جملہ کس قدر خوبصورت معلوم ہوتا ۔۔۔یعنی میں اباجان کے کسی کام نہیں ہوں‘‘ عمران نے سلطان کی طرف مسکرا کر دیکھا۔

یہ جملہ تم پر فٹ ہوتا ہے ۔۔۔ مجھ پر نہیں ۔۔۔اور یہ بات کہہ کر تم نے اپنے بڑے بھائی کی بے عزتی ہے لہٰذا اب تم مجھ سے معافی مانگو‘‘ سلطان نے مطالبہ کیا۔
ٹھیک ہے ۔۔۔ آج جلدی سو جانا۔۔۔ خواب میں معافی مانگ لوں گا‘‘ عمران نے مذاق اُڑانے والے انداز میں کہا۔
میں کہتی ہوں یہ وقت مذاق کا نہیں ہے ۔۔۔ اباجان اور شہزاد بھائی کو گئے کافی وقت ہوگیا ہے ۔۔۔ اب ہمیں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہیں رہنا چاہیے ‘‘ سادیہ فکرمند لہجے میں بولی۔

تم ٹھیک کہتی ہو۔۔۔ ان لوگوں کو یہاں باتیں بنانے دو۔۔۔ تم اور میں اباجان اور شہزاد بھائی کو دیکھتے ہیں کہ وہ اتنے دیرہونے کے بعد بھی واپس گاڑی میں کیوں نہیں آئے‘‘ عرفان نے جھنجھلا کرکہااور سادیہ کو ساتھ لے کر گاڑی سے نیچے اتر گیا۔ اس کے جانے کے بعد سلطان بھی غصیلے انداز میں کہنے لگا:۔

میں اس قدر بھی سست اور کام چور نہیں ہوں جتنا کہ تم سب خیال کرتے ہو ۔۔۔ میں بھی اباجان اور شہزاد بھائی کی تلاش میں جارہا ہوں ‘‘ یہ کہتے ہوئے سلطان نے گاڑی کادروازہ کھولا اور نیچے اترگیا۔ اس کے پیچھے عدنان اور عمران نے بھی نیچے اترنے میں دیر نہ لگائی۔باہر نکل کر انہوں نے دیکھا سادیہ اور عرفان پاگلوں کی طرح اِدھر اُدھر دیکھ رہے ہیں ۔ ان کو اس حالت میں دیکھ وہ تینوں حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکے:۔

کیا ہوگیا ہے تم دونوں کو ۔۔۔ اباجان اور شہزاد بھائی کہاں ہیں ‘‘ سلطان نے حیرانگی کے عالم میں کہا۔
پتا نہیں ۔۔۔ وہ دونوں کہیں بھی نظر نہیں آرہے ۔۔۔ اس قدر جلدی وہ ہم لوگوں کو اس گھنے اور خطرناک جنگل کے درمیان چھوڑ کر کہاں جا سکتے ہیں ‘‘ سادیہ تقریباً روتے ہوئے بولی۔ سلطان کے ماتھے پر شکنیں ابھر آئیں۔اب اسے سمجھ آیا کہ معاملہ اتنا سلجھا ہوا نہیں ہے جتنا وہ سمجھ رہا ہے۔ اس جنگل کے درخت کے پتے کافی اوپر تک پھیلے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے سورج کی روشنی نیچے نہیں پڑ رہی اور نیچے کافی تاریکی ہے ۔

 اس کے بعد اب جیسے جیسے سورج غروب ہونے کی طرف جائے گا تاریکی میں اضافہ ہی ہوتا جائے گا اور ان حالات میں وہ کسی وحشی درندے یا زہریلے جانور کا بھی شکار بن سکتے ہیں۔ان سب باتوں کو سوچ کر وہ ایک لمحے کے لیے کانپ گیا۔ پھر اس نے اپنے آپ کو سنبھالا۔ اسے گھبرانے کے بجائے سادیہ کو تسلی دینی تھی جس کے آنسو اُن سب کو اور کمزور کر رہے تھے۔
اباجان !!!۔۔۔ شہزاد بھائی !!!‘‘ سلطان پوری قوت سے چلایا لیکن اس کی آواز دور کہیں جا کر ختم ہوگئی۔ اس کی آواز کے جواب میں صرف پرندوں کی چہچہانے کی آواز سنائی دی۔ ایل ایل بی شہباز احمد اور شہزاد کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا تھا۔ سلطان کا حلق خوف کی وجہ سے خشک ہونے لگا۔ اس نے بڑی مشکل سے تھوک نگلا اور ایک بار پھر آواز لگائی لیکن اس بار بھی کوئی جواب نہ ملا۔اب تو سلطان پاگلوں کی طرح چلانے لگا اور پھر اس کی آواز مدھم ہوتے گئی۔ اب اس کی حلق سے آواز کی بجائے گھٹی گھٹی چیخیں نکلنے لگیں۔اور پھر !!!۔۔۔ اس کا دم گھٹنے لگا۔ سانس لینے میں دشواری ہونے لگی۔ وہ منہ کھول کر سانس لینے لگا۔ دوسر ے اس کی یہ عجیب سی کیفیت دیکھ کر حیران رہ گئے۔یہاں سلطان کا سر چکرا رہا تھا۔ اچانک وہ لڑکھڑا گیا اور پھر سیدھا زمین کی طر ف آیا۔ عرفان نے فوراً آگے بڑھ کر اسے سنبھالنا چاہا لیکن وہ بھی منہ کے بل زمین پر گرا۔ باقیوں کے ساتھ بھی کچھ مختلف نہ ہوا۔

ان سب کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا۔انہیں دنیا گھومتی ہوئی محسوس ہوئی اور پھر وہ تینوں بھی ایک ایک کر کے چکرکھاتے ہوئے زمین پر گرئے ۔تبھی ایک آواز ان کے کانوں میں گونجی :۔
اب ان کے والدانہیں زندگی بھر بھی تلاش کریں تب بھی وہ اپنے ہونہار اور فرماں بردار بچوں کا چہرہ کبھی نہیں دیکھ پائیں گے ‘‘ایک کھکھلا کر ہنستی ہوئی لڑکی کی آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی اور پھران سب کے ذہن تاریکی میں ڈوب گئے۔
شیر سے لڑائی
سلطان کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنے آپ کو جنگل کے ایک سنسان حصے میں پایا۔اس نے آس پاس نظریں دوڑائیں تو اسے کوئی بھی نظر نہ آیا۔ وہ اس وقت بالکل تنہا تھا۔اس نے اٹھنے کی کوشش کی اور آخر زمین کا سہارہ لے کر کافی مشکل سے اٹھ کھڑا ہوا۔اس نے گھڑی دیکھی تو اس کے جسم میں سنسنی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ شام کے پانچ بج چکے تھے۔ وہ صبح کے وقت ریسٹ ہاؤس کے لیے نکلے تھے اور اب شام ہوچکی ہے ۔ وہ پور ا دن بے ہوش رہا تھا۔ نہ جانے دوسروں کے ساتھ کیا حالات پیش آئے تھے۔ یہ سب سوچ کر سلطان کے چہرے پر خوف کے بادل اُمڈ آئے۔اسے ڈر تھا کہ جیسے جیسے رات کی سیاہی گہر ی ہوگئی سانپ اور دوسرے زہریلے جانور اسے ایک پل میں اپنا شکار بنا سکتے ہیں۔وہ اس وقت خود کو بالکل تنہا محسوس کر رہا تھا لیکن ان حالات میں بھی وہ شوخی سے باز نہ آیا۔
! سامان باندھ لیاہے میں نے اب بتاؤ غالب

کہاں رہتے ہیں وہ لوگ جو کہیں کے نہیں رہتے ‘‘سلطان نے خود کلامی کرتے ہوئے شوخ انداز میں شعر پڑھا۔پھر اس نے مسکرا کر خود کو جھٹکا اور آخر اللہ کا نام لے کر چند قدم چلنے کی ٹھانی۔اندھیرا بڑھتا جارہا تھا اور سلطان خود کو بڑی مشکل سے سنبھالتے ہوئے چل رہا تھا۔کچھ وقت میں ان کے حالات کس قدر پلٹی کھا گئے تھے۔ وہ تو آج صبح تفریح کی غرض سے ریسٹ ہاؤس کے لیے نکلے تھے لیکن راستے میں ہی ان کی یہ تفریح ایک سنسنی خیز حادثے کا رخ اختیار کر گئی تھی۔ اسے کچھ پتا نہیں تھا کہ اس کے بھائی اور اس کے اباجان کہاں ہیں ؟شہزاد بھی ایل ایل بی شہباز احمد کے ساتھ گاڑی سے اتر ا تھا اور پھر نہ جانے ان کے ساتھ کہاں چلا گیا تھا۔ان سوچوں کے سمندر کو ساتھ لیے سلطان کے لئے ایک ایک قدم اٹھانا بھار ی پڑ رہا تھا۔ کمزوری نے اسے اندر تک کھوکھلا کر دیا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اچانک بے ہوش کیسے ہوگیا تھا؟ بے ہوش ہونے سے پہلے اسے کسی لڑکی کے زہریلی ہنسی کے ساتھ ادا کیے گئے وہ جملے بھی یاد آگئے اور ان جملوں کا خیال آتے ہی سنسنی کی ایک لہر اس کے جسم میں دوڑ گئی۔ 

ابھی وہ تھوڑا سا ہی فاصلہ طے کر پایا تھا کہ کمزوری نے اس سے قدم اٹھانے کی طاقت بھی چھین لی۔وہ قدم اٹھانے کی پوری کوشش کرنے لگا لیکن آخر کار کمزوری کی وجہ سے زیادہ دیر چل نہ سکا اور ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔یہ درخت کافی گھنا اور سایہ دار تھا۔ یہاں اس نے راحت محسوس کی۔ سورج غروب ہونے کے قریب تھا اور رات کی تاریکی آسمان پر چھا رہی تھی۔ ان حالات میں وہ بے بسی کے عالم میں درخت کے نیچے بیٹھا ہاتھ مل رہا تھا لیکن ابھی وہ کچھ دیر ہی آرام کر پایاتھا کہ اس نے ایک زبردست دھاڑ کی آواز سنی۔دھاڑ سن کر اس کا چہرہ فق ہوگیا۔ یہ دھاڑ شیر کے علاوہ اور کسی کی نہیں تھی۔ اب اسے اپنی موت چند قدم کے فاصلے پر نظر آئی کیونکہ شیر کی دھاڑ زیادہ دور سے نہیں آئی تھی۔ اس کے چہرے کا رنگ زرد پڑ گیا۔ حلق خشک ہونے لگا۔ تبھی شیر کی ایک بار پھر زبردست دھاڑ سنائی دی لیکن اس بار شیر کی آواز کافی قریب سے آتی معلوم ہوئی تھی۔ دوسرے ہی لمحے اس کا رنگ اُڑ گیا۔ وہ فوراً اچھل کر کھڑا ہوگیا اورچھپنے کی جگہ ڈھونڈنے لگا۔

ابھی وہ اِدھر اُدھر دیکھ ہی رہا تھا کہ ایک چھے فٹ اونچے اور دو فٹ چوڑے جانور کی سانس لینے کی آواز نے اس کے رونگٹے کھڑ ے کر دئیے۔ سلطان نے ہمت کرکے سامنے دیکھا تو اس کا چہرہ دودھ کی طرں سفید پڑ گیا۔ایک لمحے میں اس کی سٹی گم ہو گئی۔ سامنے ایک بھورے بالوں والا زرد رنگ کا شیر اسے بری طرح گھور رہا تھا۔اس کی آنکھوں میں بھوک اور پنجوں میں شکار کی حسرت اسے صاف بتا رہی تھی کہ اب وہ اسے اپنا شکار بنانے کے لیے ایک لمحہ بھی دیر نہیں کرئے گا۔سلطان ابھی بدحواسی کے عالم میں اپنی بچاؤ کی تدابیر سوچ ہی رہا تھا کہ شیر نے ایک چست لگائی اور اس کے اوپر آ پڑا لیکن سلطان بھی اس کے لیے ترنوالہ ثابت نہ ہوا ۔ اس کے چھلانگ لگاتے ہی سلطان نے مخالف سمت چھلانگ لگا دی اور شیر سے صرف چند انچ کے فاصلے سے دوسری طرف نکل گیا۔ شیر واپس پلٹا اور غراتے ہوئے سلطان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال لیں۔

 شاید وہ سمجھ گیا تھا کہ مقابلہ کسی عام لڑکے سے نہیں ہے بلکہ کافی چست اور پھرتیلے لڑکے سے ہے جو ایک لمحے میں اس کا شکار نہیں بنے گا۔شیر نے اس بار چھلانگ لگانے کی بجائے قد م اٹھانا شروع کیے اور ایک ایک قدم چلتا ہوا سلطان کے قریب آنے لگا۔ سلطان پیچھے ہٹتا چلا گیالیکن سلطان کی رفتار شیر کی ر فتار سے کافی کم تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ شیر جلد ہی سلطان کے قریب پہنچ گیا۔ اس بار اس نے سلطان کی طرف پوری طرح احتیاط کے ساتھ حملہ کیا۔ آخری لمحے میں سلطان زمین پر لیٹ کر لوٹ لگا گیا اور قلابازی کھاتے ہوئے دوسری طرف نکل گیا۔ شیر اپنے ہی جھونک میں ایک درخت سے جا ٹکرایا اور اس کے منہ سے گھٹی گھٹی چیخ نکل گئی۔اب شیر دھاڑتے ہوئے دوبارہ سیدھا ہوا ۔ اس بار وہ زخمی دکھائی دے رہا تھا کیونکہ درخت سے چوٹ کھانے کے بعد اس کی دھاڑ میں لرزش آگئی تھی۔ اس کی آنکھوں میں بے پناہ غصہ نظر آرہا تھا جیسے وہ سلطان کو کچا چپا جانا چاہتے ہو۔ دوسرے ہی لمحے شیر نے سلطان کو موقع نہ دے کر اسے پوری طرح اپنی گرفت میں لینے کے لیے تاک کر چھلانگ لگائی۔ اس بار سلطان شیر کے حملے سے نہ بچ سکا اور نتیجے کے طور پر سلطان شیر کے پنجوں میں تھا۔ شیر نے ایک زبردست دھاڑ لگائی اور اسکے سینے پر پاؤں رکھ کر اسے ایک نوالے کی طرح اپنی منہ کے سامنے لے لایا۔ سلطان کو اب اپنی موت یقینی معلوم ہوئی۔اس نے کلمہ طیبہ کاورد شروع کردیا۔تبھی اس کے منہ سے ایک گھٹی گھٹی چیخ نکلی۔ اسے شیر کے پنجے اپنے سینے میں گھستے ہوئے محسوس ہوئے تھے۔

پراسرار لڑکی (قسط نمبر 3)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, 
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں