پراسرار لڑکی - پارٹ 3

 mysterious-girl


 پراسرار لڑکی - پارٹ 3

سلطان اس وقت زندگی اور موت کی کشمکش میں تھا۔ شیر کے پنجے اس کے سینے میں گھستے جا رہے تھے اور اس کے منہ سے گھٹی گھٹی چیخیں نکل رہی تھیں۔تبھی شیر نے ایک زبردست دھاڑ لگائی اور اسے چیر پھاڑنے کے لیے بڑھا لیکن اُسی وقت شیر کے منہ سے ایک دلدوزاور درد بھری غراہٹ نکلی۔ سلطان حیران ہو کر شیر کو دیکھنے لگا۔ شیر کی غراہٹ میں گہری لرزش تھی جیسے یہ اس کی غرانے کی آخری آواز ہو۔ دوسرے ہی لمحے شیر سلطان کے سینے پر سے لڑھک کر زمین پر گرگیا اور تڑپنے لگا۔ سلطان زمین پر لیٹاہوا یہ منظر ہکا بکا ہو کر دیکھ رہا تھااور تبھی شیر نے دم توڑ دیا۔اس کا جسم کچھ ہی دیر میں ٹھنڈا پڑ گیا۔ اُسی وقت ایک خوبصورت ہاتھ سلطان کی طرف بڑھا۔

 سلطان نے چونک کر ہاتھ کی سمت دیکھا تو ایک لڑکی اسے مسکرا کردیکھ رہی تھی۔ اس کی ہاتھ میں خون سے سنسناتا ہوا خنجر تھا جو اس نے تھوڑی دیر پہلے شیر کے دل پر اتاردیا تھا۔ سلطان نے لڑکی کے ہاتھ کا سہارا لیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ پھر اس کے چہرے پر شکرگزاری نظر آنے لگی:۔

آپ نے میری جان بچائی اس لیے میں آپ کو بہت مشکور ہوں‘‘ سلطان نے ممنونیت سے کہا۔
کوئی با ت نہیں۔۔۔ جنگل میں اس طرح کے حادثے تو ہوتے ہی رہتے ہیں اور کبھی کبھی یہ حادثے ہماری زندگی پلٹ کر رکھ دیتے ہیں‘‘ لڑکی نے عجیب سے لہجے میں کہا جس پر سلطان چونک کر اسے دیکھنے لگا۔
میں آپ کی بات کا مطلب نہیں سمجھا‘‘ سلطان نے حیرت زدہ لہجے میں کہا۔
چھوڑئیے۔۔۔ مطلب کی باتیں بعد میں کریں گے۔۔۔ پہلے تو آپ میرے ساتھ چلنے کی بات کریں گے‘‘ لڑکی کا لہجہ شوخ ہوگیا۔
آپ کے ساتھ چلنے کی بات۔۔۔ لیکن بھلا وہ کیوں۔۔۔ میں تو آپ کو جانتا تک نہیں‘‘ سلطان نے تعجب سے اس کی طر ف دیکھا۔

کوئی بات نہیں۔۔۔ اگر جانتے نہیں ہیں تو بہت جلد جان جائیں گے۔۔۔ میں آپ کو اپنے گھر لے کر جارہی ہوں۔۔۔آپ میرا گھر دیکھنا پسند نہیں کریں گے‘‘لڑکی کے لہجے میں ٹھہرا ؤ تھا۔نرمی تھی۔ سلطان نے اس لڑکی میں عجیب سے کشش محسوس کی۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے ساتھ چلنے پر خود کو مجبور محسوس کررہا تھا۔دوسرے ہی لمحے وہ اس کے ساتھ چلنے لگا۔ اس وقت سلطان کے ذہن میں مختلف خیالات سر ابھار رہے تھے لیکن اُس کے قدم اس کے ساتھ کب کا چھوڑ چکے تھے۔ اُس کے قدم تو اس لڑکی کے ساتھ ساتھ چلنے میں اس قدر مصروف تھے کہ سلطان کی پوری کوشش بھی انہیں روکنے پر مجبور نہیں کر سکی تھی۔کافی دیر تک وہ اس لڑکی کے ساتھ ساتھ چلتا رہا یہاں تک کہ وہ دونوں جنگل کی حدود سے نکلتے چلے گئے اور پھر کچھ دیر بعد اسے ایک پرانے طرز کا بنا ہوا بنگلہ نظر آیا۔ سلطان نے اس لڑکی کو بنگلے کا دروازہ کھول کر اندر جاتے ہوئے دیکھا۔ وہ بھی اس کے پیچھے پیچھے بنگلے کے صدر دروازے میں داخل ہوگیا۔

 اندر ایک اجڑا ہوا باغ نظر آرہا تھا جہاں پر پھول و پودے نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ سلطان نے اس اجڑے ہوئے باغ کو حیرت سے دیکھا اور پھر اندرونی دروازے کے قریب پہنچ گیا۔ اس لڑکی نے اندرونی دروازے کو ایک جھٹکے سے کھولا اور اندر داخل ہوگئی۔ سلطان ایک لمحہ کے لیے الجھ گیا کہ اندر جائے یا یہاں سے ہی واپس لوٹ جائے لیکن پھر نہ جانے کیوں؟ اس کے قد م گھر کے اندرونی حصے میں داخل ہوگئے۔ دوسرے ہی لمحے سردی کی ایک لہر اس نے اپنی جسم کے جوڑ جوڑ میں سرایت کرتی محسوس کی۔اس کے پاؤں کی انگلیاں زمین پر لگتے ہی ٹھنڈک سے سکڑ گئی تھی۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو مَلتے ہوئے سردی کو کم کرنے کی کوشش کی۔ وہ حیران تھا کہ باہر تو گرمی کا موسم ہے پھر یہاں اندر اس قدر سردی کس طرح ہو گئی ہے؟ وہ لڑکی بھی کہیں نظر نہیں آرہی تھی جو اسے یہاں لے کر آئی تھی۔ابھی وہ پریشانی سے اِدھر اُدھر دیکھ ہی رہا تھا کہ اسے دوبارہ اس لڑکی کا مسکراتا ہوا چہرہ نظر آیا۔ اس کے ہاتھ میں بھانپ اُگلتی ہوئی کافی کا کپ تھا جو اس نے سلطان کی طرف بڑھا دیا۔

 سلطان نے کچھ لمحے شش و پنج میں کاٹے اور پھر ہاتھ بڑھا کر کافی کا کپ پکڑ لیا۔لڑکی نے اسے سامنے بچھے ہوئے صوفے کی طرف بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود ایک بار پھر وہاں سے کھسک گئی۔ سلطان آگے بڑھ کر صوفے پر بیٹھ گیا اور کافی پینے لگے۔ خیالات کا ایک سمندروہ اپنے دماغ میں بہتا ہوا محسوس کر رہا تھا۔ آخر یہ لڑکی کون ہے؟ اُس لڑکی نے اس کی جان کیوں بچائی؟ پھر وہ اسے اپنے گھر کیوں لے کر آئی ہے؟ یہ تمام سوالات اس کے ذہن میں گونجنے لگے۔سوالات کو اپنے اندر دبائے وہ کافی پیتا گیا۔ یہاں تک کہ پورا کپ ختم ہوگیا۔تبھی اس کی نظریں ہال میں موجود کھڑکی کی طرف گئیں۔ وہ کھڑکی کے پاس چلا آیا اور باہر کی طرف جھانکا۔سورج غروب ہو چکا تھا۔رات کا اندھیرا آسمان کی سرخی کو جذب کرتا جارہا تھا۔ سلطان کچھ دیر کھڑکی کے پاس کھڑا رہا۔ پھر وہاں سے ہٹ آیا۔ اس نے ایک مرتبہ ہال کا مکمل جائزہ لیا۔ ہال میں کچھ کمرے ضرور تھے لیکن درمیان میں ایک زینہ بنا ہوا تھا جس کی سیڑھیاں اوپر کی طرف جارہی تھیں۔ سلطان نے کچھ دیر بغور ا ن سیڑھیوں کا جائزہ لیا اور پھر آگے بڑھ کر سیڑھیاں چڑھنے لگا۔

 مکمل سیڑھیاں چڑھ جانے کے بعد اسے راہ داری میں سامنے کی طرف چار قطار سے بنے ہوئے کمرے نظر آئے اور ایک پانچوں کمرہ راہ داری کے بالکل آخر میں تھا۔ سلطان نے ایک ساتھ بنے ہوئے چار کمروں میں سے پہلا کمرہ دیکھنا چاہا۔ ا س کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ اگر وہ لڑکی اسے چوروں کی طرح گھر کا جائزہ لیتے دیکھ لیتی تو ضرور اس پر برہم ہوتی لیکن سلطان کی دل میں یہ خواہش اُمڈ رہی تھی کہ وہ ایک بار پورا گھر دیکھ ہی لے۔ پہلے کمرے کا دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوا۔ یہ پرانے طرز کا بنا ہوا ایک صاف ستھرا کمرہ تھا۔ کمرے کے درمیان میں ایک پلنگ بچھا ہوا تھا جس پر سفید رنگ کی چادر بچھی ہوئی تھی۔سلطان ایک نظر پورا کمرے پر ڈال کر کمرے سے باہر نکل آیا۔اس کے بعد اس کا رخ دوسرے کمرے کی طرف ہوگیا۔ یہ کمرہ مہمان خانہ نظر آرہا تھا جہاں پر دو چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ا یک الماری بھی تھی جس پر تالا لگا ہوا تھا۔

 سلطان اس کمرے کو بھی دیکھ کر باہر نکل آیا۔ اب اس نے تیسرے کمرے پر نگاہ ڈالی۔ یہ کمرہ اسٹور روم تھا جہاں پر کچھ ٹوٹی ہوئی کرسیاں اور میزپڑی ہوئی تھیں۔ چوتھے کمرے میں بھی کباڑ خانے کا ہی نقشہ تھا۔ ان چاروں کمروں کو دیکھ کر سلطان باہر نکل آیا۔ تبھی اس کی نظر برآمدے کے آخر میں بنے پانچویں کمرے کی طرف گئی۔ اس کے قدم اس پانچویں کمرے کو دیکھنے کے لیے بڑھے لیکن تبھی کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ وہ بری طرح چونک کر پلٹا۔ سامنے وہ لڑکی کھڑی اسے دیکھ کر خوفناک انداز میں مسکرا رہی تھی۔اس کی دہشت ناک مسکراہٹ کو دیکھ کر سلطان کو اپنے رونگٹے کھڑے ہوتے محسوس ہوئے۔ اس کے جسم کا رواں رواں کانپ گیا۔ سلطان کا دل چاہا کہ ایک پل میں اس گھر سے بھاگ کھڑا ہولیکن وہ نہ چاہتے ہوئے بھی خود کو اس گھر کا بے بس قیدی محسوس کرنے لگا۔
 
سادیہ کی آنکھ کھلی تو وہ درخت کے ایک کونے میں بے سد پڑی ہوئی تھی۔ اس نے حیران ہو کر اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں۔ اسے یاد آیا کہ بے ہوش ہونے سے پہلے وہ سب گاڑی سے نیچے اتر کر شہزاد اور ا ن کے اباجان شہباز احمد کو ڈھونڈ رہے تھے۔ اس نے آس پاس دیکھا تو وہ سمجھ گئی کہ اس وقت بھی وہ جنگل کے درمیان میں ہی ہے اور تنہا ایک کونے میں کافی دیر تک بے ہوش پڑی رہی ہے۔ گھڑی پر نظر ڈالنے پر اس کا چہرہ ست گیا۔ اس وقت شام ہو چکی تھی اور اندھیرا کافی بڑھ گیا تھا۔سادیہ نے ہمت سے کام لیتے ہوئے اپنی پوری طاقت جمع کی اور درخت کا سہارا لیتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔اس نے چند قدم چلنے کی ٹھانی اور ایک سمت میں بڑھتی چلی گئی۔اس کے لب پر یہی دعا تھی کہ یا تو اسے اس کے اباجان مل جائیں یا پھر اس کے بھائی اس کے پاس پہنچ جائیں۔

 اس وقت وہ اس گھنے اورتاریک جنگل میں بالکل اکیلی تھی۔ کافی دیر تک چلنے کے بعد اس کا سانس پھولنے لگالیکن وہ اپنی پوری طاقت سمیٹے قدم بڑھارہی تھی۔تبھی اچانک!!!۔۔۔ وہ بری طرح چونک اُٹھی۔ خوف کی وجہ سے اس کے چہرے کی ہوائیاں اُڑنے لگیں۔ ایک سانپ کی پھن کی آواز اس کے بالکل نزدیک سے آرہی تھی۔ اس نے خوف کے عالم میں زمین پر نظریں دوڑائیں۔ دوسرے ہی لمحے اس کے اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ ایک بہت لمبا اور چوڑا سانپ پھن پھیلائے اس کی طرف تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ سادیہ نے خوف کے عالم میں سانپ کی رفتار کا جائزہ لیا اور یہ اندازہ لگانے میں اسے دیر نہ لگی کہ سانپ کچھ ہی پل میں اس کے پاس پہنچ جائے گا۔اس نے ہمت سے کام لیتے ہوئے سانپ کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی اور فوراً کسی بڑے سے پتھر کی تلاش میں نظریں دوڑائیں لیکن یہ دیکھ کر اس کا رنگ بالکل زرد پڑگیا کہ آس پاس بڑا پتھر تو کیا چھوٹے چھوٹے کنکر بھی موجود نہ تھے اور سانپ بدستور اس کے طرف بڑھ رہا تھا۔ اب اس کے پاس بھاگنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا۔ دوسرے ہی لمحے وہ پوری قوت سے بھاگ کھڑی ہوئی۔

 سانپ کے پھن کی آواز اسے بدستور سنائی دے رہی تھی اور وہ اپنی رفتار بڑھا رہی تھی لیکن کافی دیر تک بھاگنے کے بعد بھی جب اسے سانپ کے پھن کی آواز بدستور سنائی دیتی رہی تو وہ سمجھ گئی کہ سانپ جس قدر موٹا اور لمبا ہے اس کی رفتار اس سے بھی کئی گنازیادہ ہے۔ یہ حقیقت جان کر اسے اپنی موت بالکل سامنے نظر آنے لگی۔اب رک کر سانپ کا مقابلہ کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔آخر کار وہ ر ک کر پیچھے کی طرف پلٹی۔ سانپ ابھی کافی دور تھا لیکن اس کی رفتار یہ بتا رہی تھی کہ وہ بہت جلد اس کے پاس پہنچ کر اسے ڈس لے گا۔ ابھی وہ پریشانی کے عالم میں اس کا مقابلہ کرنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ سانپ اس کے بالکل قریب پہنچ گیا۔ دوسرے ہی لمحے اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ سانپ کی جگہ اب وہ ایک اژدھابن چکا تھا۔سادیہ کو ایک زبردست جھٹکا لگا۔اسے ایک بہت خوفناک خیال آیا تھا۔ اس نے فوراً اپنے خیال کی تصدیق کے لیے آیتہ الکرسی پڑھی اور پھر تین قل پڑھ کر اس اژدھے پر پھونک ماری۔ اگلے ہی لمحے اژدھا ایک دھواں میں تبدیل ہوگیا اور پھر ہوا میں تحلیل ہو کر کچھ ہی دیر میں وہاں سے غائب ہوگیا۔سادیہ کی آنکھوں میں خوف اور حیرت کے ملے جلے جذبات تھے۔

وہ سہمے ہوئے انداز میں اس جگہ کو دیکھ رہی تھی جہاں ابھی کچھ دیر پہلے وہ سانپ نما اژدھا موجود تھا۔ اسے یقین ہوگیا کہ یہ سانپ یا اژدھا نہیں کوئی آسیبی مخلوق تھی۔اس وقت وہ خوف کی لہریں اپنی جسم میں دوڑتی ہوئی محسوس کر رہی تھی۔ تبھی ایک آواز نے اس کے لیے گرم صحرا میں پانی کا کام دیا۔ یہ آواز اس کے بھائی عرفان کی تھی۔ وہ آواز کی سمت پاگلوں کے سے انداز میں دوڑ پڑی۔ دوسرے ہی لمحے اسے اپنے تینوں بھائی عرفان عدنان اور عمران نظر آگئے۔ وہ تینوں باتیں کرتے ہوئے چل رہے تھے:۔

اباجان اور شہزاد بھائی کی تلاش میں نکلے تھے اور یہاں سادیہ اور سلطان بھی گم ہوگئے۔۔۔ اسے کہتے ہیں آسمان سے گرے کھجور میں اٹکے‘‘ عمران کہہ رہا تھا۔
بلکہ اسے کہتے ہیں کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنہ‘‘ عدنان نے جلے کٹے انداز میں کہا۔ تبھی سادیہ دوڑتی ہوئے ان کے پاس آئی اور عرفان کے گلے لگ گئی۔عرفان کے چہرے پر خوشی اور بے قراری کے جذبات اُمڈ آئے۔ پھر اس نے سادیہ کو تھپکی دے کر دلا سا دیا اور کہنے لگا:۔

تم کہاں تھی۔۔۔ ہم تمہیں ہی ڈھونڈ رہے تھے۔۔۔ اور کیا سلطان تمہارے ساتھ نہیں ہے‘‘ عرفان نے بے تابانہ انداز میں کہا۔
میں تو تنہا ہی تھی۔۔۔اس خوفناک گھنے جنگل سے مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا۔۔۔ اچھا ہوا تم لوگ مل گئے‘‘ سادیہ ڈرے ڈرے انداز میں بولی۔
بھئی ہمیں نہیں معلوم تھا کہ تم اتنی ڈرپوک واقعے ہوئی ہو‘‘ عمران نے مذاق اُڑانے والے انداز میں کہا۔
سلطان بننے کی کوشش کر رہے ہو‘‘ سادیہ تلملا کر بولی۔
نہیں!۔۔۔ میں تو آج کل سلطان کی شاگردگی میں ہوں اس وجہ سے شوخ مزاج بن گیا ہوں‘‘ عمران نے مسکرا کر کہا۔تبھی وہ سب بری طرح اچھل پڑے۔انہیں لگا جیسے ان کے پیروں تلے زمین کھسک گئی ہو۔ ایک شیر کی دھاڑ کی آواز انہوں نے اپنے بالکل قریب محسوس کی تھی۔

شیر کی آواز سے پتا لگتا ہے کہ شیر ہمارے بالکل نزدیک ہی ہے۔۔۔ فوراً کسی جھاڑی میں چھپ جاؤ یا گھنے درخت پر چڑھ جاؤ۔۔۔ سادیہ تم میرے ساتھ آؤ‘‘ عرفان نے سخت لہجے میں انہیں حکم دیا۔ دوسرے ہی لمحے وہ سب بدحواسی کے عالم میں کسی جھاڑی یا درخت کی تلاش میں دوڑے لیکن ابھی ان کی نظریں گھنے درخت یا کسی جھاڑی کی تلاش میں ہی تھیں کہ انہیں نے شیر کی دل دوز دھاڑ کی آوازسنی۔ اس دھاڑ کی آواز میں گہری لرزش تھی جیسے وہ شیر کی آخری دھاڑ ہو۔ان سب نے حیرت کے عالم میں ایک دوسرے کو دیکھا۔ پھر تجسس سے وہ شیر کی آواز کی سمت بڑھے۔ ابھی انہوں نے کچھ ہی قدم طے کیے ہونگے کہ انہوں نے اپنے بالکل سامنے ایک شیر کو تڑپٹے ہوئے دیکھا اور پھران کی نظر شیر کے بالکل ساتھ لیٹے ایک لڑکے پر پڑی تو حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات سے ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

یہ لڑکا ان کا بھائی سلطان تھا۔ دوسرے ہی لمحے وہ فوراً آگے بڑھے لیکن تبھی انہیں ایک زبردست جھٹکا لگا۔سلطان ہوا میں ہاتھ اٹھائے خلا میں باتیں کر رہا تھا اور پھر سلطان اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور باتیں کرتا ہوا ایک سمت کی طرف بڑھنے لگا۔ ان سب کی آنکھوں میں حیرت کا سمندر غوطے کھانے لگا۔ سلطان اکیلے ہی اکیلے کس سے باتیں کر رہا تھا؟ یہ سوال ان سب کے ذہنوں میں ہلچل مچانے لگا۔ پھر وہ سلطان کی طرف تیزی سے بڑھے لیکن تبھی سلطان اور ان کے درمیان گہری سفید دھند حائل ہوگئی۔ سلطان اس دھند میں چھپ کر رہ گیا لیکن ابھی بھی وہ انہیں نظر آرہا تھا۔ ان سب نے بیک وقت سلطان کو پکارا۔

سلطان۔۔۔ تنہا کہاں جارہے ہو۔۔۔ ہم لوگ یہاں ہیں‘‘ وہ سب حلق پھاڑ کر چلائے لیکن سلطان کے کان پر تو جوں تک نہ رینگی۔ وہ تو مستی کے عالم میں ایسے چل رہا تھا جیسے کوئی اس کے ساتھ موجود ہو لیکن وہاں تو کوئی بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ان سب نے پھر سلطان کو پکارا لیکن سلطان نے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ انہیں ایسا لگا جیسے سلطان کے اور ان کے درمیان یہ گہری دھند دیوار کا کام دے رہی ہو اور ان کی آواز اِس دھند سے ٹکرا کر واپس آجاتی ہوں اور سلطان تک پہنچتی ہی نہ ہوں۔ ان سب کی آنکھوں میں خوف کا سمندر موجھیں مارنے لگا۔ سلطان ان کے سامنے ان سے دور جا رہا تھا اور وہ پوری کوشش کے باوجود سلطان کو روک نہیں پارہے تھے۔ سادیہ اسے اس طرح دور جاتے دیکھ تڑپ اُٹھی لیکن بھلاسادیہ دور تک پھیلی ہوئی گہری دھند کی دیوار کے آگے کیاکر سکتی تھی۔

تبھی انہوں نے سلطان کو اس سفید دھند میں پوری طرح غائب ہوتے دیکھا اور پھر آہستہ آہستہ دھند وہاں سے چھٹنے لگا۔ مکمل دھند چھٹ جانے کے بعد وہ پاگلوں کی طرح دوڑتے ہوئے اُس جگہ پر آئے۔انہیں نے حیرت سے اس جگہ کو دیکھا۔ وہاں اس وقت کوئی بھی نہیں تھا۔ سلطان وہاں سے اس طرح غائب ہوگیا تھا جیسے وہ سفید دھند اسے نگل گئی ہو۔ان سب کے جسموں میں خوف اورسنسنی کی ایک لہر دوڑ گئی اورپھر وہ سب پتھر کے بتوں کی مانند کھڑے، اُس جگہ کو پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھنے لگے جہاں ابھی کچھ دیر پہلے سلطان خلا میں باتیں کرتے ہوئے ان سب کی نظروں سے اوجھل ہوا تھا۔

پراسرار لڑکی (قسط نمبر 4)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, 
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں