پُراسرار حویلی - پارٹ 3

  

Sublimegate Urdu Font Stories

 پُراسرار حویلی - پارٹ 3


مجھے باہر نكالو . . . . . مجھے آگ سے باہر نکالو۔“
میں نے محسوس کیا کہ آواز مرتبان میں سے آرہی تھی۔ چونکہ میں بدروحوں کا قائل نہیں تھا اس لئے میں نے اس عورت کی آواز پر کوئی توجہ نہ دی اور آنکھیں بند کر کے سوچنے لگا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے ۔ مرتبان کے اندر سے عورت کی درد بھری آواز تھوڑی تھوڑی دیر بعد آرہی تھی۔ آخر میرا شوق تجسس میری عقل پر غالب آ گیا۔ اور میں نے مرتبان کے پیچ دار ڈھکن کو آہستہ آہستہ کھولنا شروع کر دیا۔
ڈھکن کو کھلتے دیکھ کر عورت کی آواز اب نہیں آرہی تھی۔ میں نے مرتبان کا ڈھکن کھول دیا۔ ڈھکن کے کھلتے ہی ایک ایسی بھیانک چیخ کی آواز بلند ہوئی کہ جس سے جنگل کی فضا دیر تک گونجتی رہی۔ میں نے ڈر کر مرتبان کو ہاتھوں سے چھوڑ دیا تھا۔ مرتبان اندھیرے میں مجھ سے تین چار فٹ کے فاصلے پر فرش پر ٹیڑھا ہوکر پڑا تھا اور اس میں سے سفید دھوئیں کی لکیر سی نکل رہی تھی۔ میں بندوق تھام کر اٹھ کھڑا ہوا۔ وہی بھیانک چیخ ایک بار پھر بلند ہوئی۔ میں باہر کو بھاگنے لگا تو اچانک مرتبان میں سے نکلتے ہوئے دھوئیں نے ایک زندہ عورت کی شکل اختیار کر لی۔

یہ عورت وہی تھی جسے میری آنکھوں کے سامنے تخت پر لٹا کر قتل کیا گیا تھا۔ اس کے سر پر سفید ہیروں کا تاج تھا، گلے میں سفید موتیوں کی مالا تھی، بال کھلے تھے ۔ وہ گلابی رنگ کی ریشمی ساڑھی میں ملبوس تھی۔

عورت کا جسم اختیار کرتے ہی اس نے مجھے روک کر کہا۔’’ باہر مت جانا . . . . . میرے دل پر ایک خوف سا طاری ہو گیا تھا۔ انسانی چیخ کی بھیانک آواز نے میرے اعصاب کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اوپر سے ایک مردہ عورت زندہ ہو کر مرتبان سے نکل کر میرے سامنے آن کھڑی ہوئی تھی۔ میں نے بولنا چاہا لیکن خوف کے مارے میرا حلق خشک ہو رہا تھا۔ اب بیک وقت کئی انسانوں کی چیخوں کی آوازیں بلند ہونے لگی تھیں یہ آوازیں ایسے لگ رہا تھا جیسے ہماری کوٹھڑی کی طرف بڑھ رہی تھیں۔۔

پھر اچانک کوٹھڑی کے جھروکے میں سے آگ کا ایک شعلہ سانپ کی طرح پھنکارتا ہوا اندر کی جانب لپکا۔ عورت نے میری کلائی پکڑی اور مجھے کھینچتی ہوئی کوٹھڑی کے دروازے میں سے باہر نکل گئی۔ قلعے کے دالان میں اندھیرا تھا۔ عورت مجھے کھینچتی ہوئی قلعے کے بڑے دروازے کی طرف بھاگی جار ہی تھی۔ چیخوں کی آوازیں زیادہ خوفناک ہو گئی تھیں اور ہمارے پیچھے آرہی تھیں۔ایسے لگ رہا تھا جیسے قلعے کے بھوت ہمیں ہلاک کرنے کے لئے ہماری طرف دوڑے چلے آرہے ہیں۔ میں نے ایک لمحے کے لئے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ پیچھے آگ کے شعلے تھے۔
ہر شعلے کی شکل سانپ کی طرح تھی اور یہ آگ کے سانپ لہراتے ، پھنکارتے ہمارے اتنے قریب آگئے تھے کہ کسی بھی لمحے ہم دونوں کو جلا کر بھسم کر سکتے تھے ۔ جب آگ کے ایک شعلہ نما سانپ نے میرے جسم کو اپنی لپیٹ میں لینا چاہا تو عورت نے مجھے زور سے اپنی طرف کھینچ لیا اور پھر ایسا ہوا کہ مجھے نہیں معلوم کس طرح سے میرے پاؤں اپنے آپ زمین سے دو تین فٹ بلند ہو گئے اور میں اس ماورائی عورت کے ساتھ فضا میں پرواز کرتا ہوا تیزی سے قلعے کے دروازے سے باہر نکل گیا۔

جنگل میں رات کے پچھلے پہر کا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ عورت میری کلائی تھامے مجھے اپنے ساتھ لے کر درختوں کے درمیان سے اتنی تیزی سے پرواز کرتی چلی جا رہی تھی کہ جیسے درخت اس کو خود بخود راستہ دے رہے ہوں۔ میرا ایک ہاتھ اس ماورائی عورت کی گرفت میں تھا، دوسرے ہاتھ میں بندوق تھی۔ میں اپنے آپ کسی ماورائی طاقت کے زیر اثر فضا میں تیرتا جارہا تھا۔ درخت سامنے آتے تو میں آنکھیں بند کر لیتا کہ درخت سے ٹکرانے لگا ہوں لیکن درخت سے ٹکرائے بغیر میں عورت کے ساتھ آگے نکل جاتا۔ میں کب تک اس عورت کے ساتھ پرواز کر تا رہا مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا۔
پھر ایسا ہوا کہ ہم رات کی تاریکی میں ایک دریا کے اوپر سے گزر گئے ۔ دریا کے دوسرے کنارے پر مجھے اندھیرے میں ایک ویران سا کھنڈر دکھائی دیا۔ وہ عورت کھنڈر کے پاس جا کر زمین پر اتر گئی۔ میرے پاؤں بھی زمین پر لگ گئے۔ میں اس عورت سے بات کرتے ڈر رہا تھا۔ میں سمجھ گیا تھا کہ یہ عورت نارمل زندہ عورت نہیں ہے بلکہ ایک بدروح ہے جو میرے لئے کسی نہ کسی مصیبت کا باعث بن سکتی ہے۔ میں نے غلطی کی تھی کہ اسے مرتبان سے آزاد کر دیا تھا۔ اب معلوم نہیں ہے میرے ساتھ کیا سلوک کرنے والی تھی۔ اس نے ابھی تک میری کلائی پکڑ رکھی تھی اس کے ہاتھ کی گرفت بڑی سخت تھی،

اتنی سخت کہ میرے جیسے صحت مند شکاری آدمی کی کلائی درد کرنے لگی تھی۔ جب وہ مجھے ساتھ لے کر کھنڈر میں داخل ہونے لگی تو میں نے اپنے قدم روک لئے اور ہمت کر کے اس عورت سے کہا۔ میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا۔ تم مجھے چھوڑ دو۔ میں نے تمہیں آزاد کر دیا ہے ۔اب جہاں بھی جانا ہے چلی جاؤ ۔“ عورت نے میری کلائی چھوڑ دی۔ وہ بالکل میرے قریب کھڑی تھی۔ آسمان پر صبح کا اجالا نمودار ہونے لگا تھا۔ سحر کی دھندلی روشنی میں اس عورت کی آنکھیں سیاہ ہیروں کی طرح چمک رہی تھیں۔ اس چمک میں ایک محبت اور رحم کا احساس تھا۔
یہ عورت دراز قد تھی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت خوبصورت تھی۔ اس کا رنگ گندی تھا مگر چہرے کے نقوش بڑے دلکش تھے۔ کہنے لگی۔ ”تم نے مجھے رگھو کی قید سے آزاد کر کے مجھ پر اتنا بڑا احسان کیا ہے کہ تم اس کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ تمہاری زندگی کی حفاظت اب میرا فرض بن چکا ہے ۔"

میں نے کہا۔ ”مجھے تمہاری حفاظت کی ضرورت نہیں ہے ۔ میں اپنی حفاظت خود کر سکتا ہوں مجھ پر مہربانی کرو اور میرا پیچھا چھوڑ دو۔“ یہ کہہ کر میں نے بندوق کندھے پر رکھی اور واپس جانے کے لئے مڑا تو اس عورت نے پیچھے سے میرا بازو پکڑ لیا اور بولی۔”میں تمہیں مرنے نہیں دوں گی۔“
میں نے اپنا باز و چھوڑاتے ہوۓ کہا۔ ’’ میں مسلمان ہوں۔ میری زندگی اور موت میرے اللہ کے اختیار میں ہے۔“ عورت نے ایک بار پھر میرا بازو پکڑ لیا اور کہا۔ ’’میں جانتی ہوں تم مسلمان ہو ۔ میں تمہارے بارے میں اتنا کچھ جانتی ہوں کہ خود تم بھی نہیں جانتے۔ میں اگرچہ ہندو برہمن کے گھر پیدا ہوئی تھی لیکن میں اسلام قبول کر چکی ہوں۔ میں بھی مسلمان ہوں ۔ میں جانتی ہوں زندگی اور موت اللہ کے اختیار میں ہے لیکن اللہ پاک کا یہ بھی حکم ہے کہ اپنی زندگی کی حفاظت کرو اور جان بوجھ کر اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ
ڈالو۔“

میں حیران سا ہو کر اس عورت کو دیکھ رہا تھا۔ یہ ایک قتل ہوچکی عورت کی روح یا بدروح تھی مگر بالکل نارمل زندہ عورت کی طرح بول رہی تھی۔ عجیب بات تھی کہ اب مجھے اس سے بالکل خوف محسوس نہیں ہو رہا تھا مگر میں اس کے پاس ایک سیکنڈ کے لئے بھی ٹھہرنے کو تیار نہیں تھا۔ میں اس روحوں بدروحوں کے چکر میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔ چنانچہ میں نے کہا۔’’خدا کے لئے میری جان چھوڑ دو۔ تم ایک بدروح ہو ۔ میں نے تمہیں قتل ہوتے اور مرتے دیکھا ہے۔ تم ایک مردہ عورت ہو۔
تم ایک بدروح ہو ۔ چھوڑ دو مجھے ......

اور میں اپنا بازو چھڑا کر تیز تیز چل پڑا۔ میں نے ایک لمحے کے لئے بھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا کہ اس عورت کی بدروح چلی گئی ہے یا وہیں کھڑی ہے۔ صبح کا نور چاروں طرف جنگل میں پھیلنے لگا تھا۔ میرا رخ دریا کی طرف تھا۔ یہ وہی دریا تھا جس کے اوپر سے وہ عورت مجھے پرواز کرتے ہوے لائی تھی۔ جیسے جیسے میں آگے بڑھ رہا تھا جنگل زیادہ گھنا ہوتا جا رہا تھا۔ درخت گنجان تھے کہ انہوں نے سارے جنگل پر ایک چھت ڈال رکھی تھی۔ ان درختوں کے نیچے دن کی روشنی شاید کبھی نہیں پہنچتی تھی۔ دریا اس جنگل کے پار تھا۔ مجھے امید تھی کہ دریا پر کوئی نہ کوئی گھاٹ ضرور ہوگا جہاں سے دیہاتی لوگ دریا پار کرتے ہیں۔ میں وہیں سے دریا پار کر کے کسی ریلوے سٹیشن پر پہنچنے کی کوشش کروں گا تاکہ وہاں سے کوئی گاڑی پکڑ کر اس منحوس جنگل سے نکل جاؤں۔ ۔

بھری ہوئی ڈبل بیرل بندوق میں نے کندھے پر رکھی ہوئی تھی۔ میگزین والا تھیلا اس منحوس قلعے کی کوٹھڑی میں ہی بھاگتے وقت رہ گیا تھا۔ صرف ایک چاقو میری جیکٹ کی جیب میں تھا۔ چاقو میں نے نکال کر ہاتھ میں پکڑ لیا کیونکہ درختوں کے درمیان اگی ہوئی جھاڑیاں اور درختوں سے لٹکی بیلیں میرے راستے میں آرہی تھیں۔ میں چاقو سے انہیں کاٹ کر گزرنے کے لئے راستہ بناتا جارہا تھا۔ آخر یہ گنجان جنگل ختم ہو گیا اور میں نے اپنے سامنے ایک ٹیلے کو دیکھا جس کے دامن میں ایک سیاہ چٹان راستہ روکے کھڑی تھی۔ میں حیران ہو رہا تھا کہ ابھی تک دریا کا کنارہ کیوں
نہیں آیا۔
یہ ساری مصیبت میری اپنی لائی ہوئی تھی۔ اس لئے بزرگ کہہ گئے ہیں کہ آدمی کو اپنی حد کے اندر رہ کر اللہ کے دکھائے ہوۓ راستے پر چلتے ہوۓ پاکیزہ اور سادہ زندگی بسر کرنی چاہئے ۔ خواہ مخواہ ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مارنے سے آدمی کو کچھ نہیں ملتا اور وہ نیکی اور سادگی کے راستے سے بھی بھٹک جاتا ہے ۔
بہرحال اب میں پھنس گیا تھا اور اس کوشش میں لگا تھا کہ کسی طرح ان بدروحوں کے چکر سے نجات حاصل کر لوں۔ مگر مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ یہ کام اتنا آسان نہیں ہے اور میرے بس میں بھی نہیں ہے۔ میری حالت اس آدمی جیسی ہو گئی تھی جو دلدل میں پھنس گیا ہو ۔

ایک پاؤں دلدل سے باہر نکالتا ہو تو دوسرا پاؤں دلدل میں اور زیادہ دھنس جاتا ہو۔ میں نے اپنے دل میں خدا کو حاضر ناظر جان کر توبہ کر لی تھی کہ آئندہ کبھی کسی جن، بھوت، چڑیل یا کسی آسیب کی کھوج میں نہیں نکلوں گا۔ آئندہ کے لئے تو خدا نے ضرور مجھے معاف کر دیا تھا لیکن جو کام میں خراب کر چکا تھا اسے ٹھیک ہوتے ہوتے بھی وقت چاہئے تھا۔

میں جنگل کی دریا والی سرحد کے قریب پہنچ چکا تھا۔ کچھ دیر کے بعد میں جنگل سے باہر نکل آیا۔ سامنے دریا بہہ رہا تھا مگر وہاں نہ کوئی گھاٹ تھا نہ کشتی نظر آرہی تھی۔ دریا کا پاٹ زیادہ چوڑا نہیں تھا، میں اسے تیر کر پار کر سکتا تھا۔ میں دریا میں اترنے کی تیاری کر ہی رہا تھا کہ مجھے ایک طرف سے ایک کشتی آتی دکھائی دی۔ میں وہیں رک گیا۔ کشتی میں ایک ملاح بیٹھا اسے چلا رہا تھا۔ کشتی کا رخ اس طرف تھا جدھر میں کھڑا تھا۔ کشتی میرے قریب آکر کنارے پر رک گئی۔ کشتی کا ملاح ایک پندرہ سولہ سال کا لڑکا تھا۔ کہنے لگا۔ بابو دریا پار جانا ہے تو آجاؤ۔ میں تمہیں دیکھ کر ہی آیا ہوں۔“ میں نے کہا۔’’ہاں بھائی۔ مجھے پار لے چلو۔“
ملاح لڑکا بولا۔ ” دس روپے کرایہ ہوگا۔“ میں نے کہا۔ ”تم بے شک بیس روپے لے لینا۔“ لڑکے نے خوش ہو کر کہا۔ ”تو پھر بیٹھ جاؤ بابو ۔‘‘ میں کشتی میں سوار ہو گیا اور کشتی دریا کے بہاؤ کے رخ چلتی ہوئی آہستہ آہستہ دوسرے کنارے کی طرف بڑھنے لگی۔ میں نے لڑکے سے کہا۔ ” تمہارا نام کیا ہے ؟‘‘
ملاح لڑکے نے جواب دیا۔ میر انام بھلوا ہے ۔
میں نے کہا۔’’ بھلوا یہ بتاؤ دریا پار ادھر کون سا شہر ہے ؟
“ لڑکے نے چپو چلاتے ہوئے کہا۔ ادھر شہر تو کوئی نہیں ہے ۔ ہمارا گاؤں منڈالا ہے۔ تمہیں کہاں جانا ہے بابو ؟‘‘
میں نے کہا۔ ” بھائی مجھے جھانسی جانا ہے۔ یہ بتاؤ کہ میں جھانسی کیسے پہنچ سکتا ہوں؟“

ملاح لڑکا بولا۔ ” بابو جھانسی تو یہاں سے بہت دور ہے۔ یہ دریا بھی اس طرف کو نہیں جاتا۔ میں ایسا کرتا ہوں کہ تمہیں بیتال گڑھ کے گھاٹ تک پہنچا دیتا ہوں۔ وہاں سے تمہیں جھانسی جانے والی کوئی نہ کوئی گاڑی شاید مل جاۓ۔ بیتال گڑھ میں ایک ریلوے سٹیشن ہے ۔“
مجھے امید کی کرن نظر آئی۔ میں نے پوچھا۔ ’’بیتال گڑھ یہاں سے کتنی دور ہے
لڑکے نے کہا۔ ’’ دریا کے بہاؤ پر چلتے دو گھنٹے تو لگ ہی جائیں گے ۔ مگر اس کے پچاس روپے لگیں گے ۔ “
میں نے کہا۔ ”میں تمہیں ساٹھ روپے دوں گا مگر مجھے کسی طرح بیتال گڑھ پہنچا دو۔۔

ملاح لڑکے نے کشتی کو کنارے کی طرف لے جانے کی بجاۓ اسے دریا کے بہاؤ پر ڈال دیا اور بولا ۔’’ بھگوان بھلا کرے گا۔‘‘
دھوپ خوب نکل آئی تھی۔ موسم دھوپ کی وجہ سے گرم ہو رہا تھا۔ میں نے خالی بندوق کشتی میں ایک طرف رکھ دی ۔ ملاح لڑکے نے بندوق کو دیکھا تو بولا۔
’’ بابو تم شکاری ہو ؟“ میں نے گہرا سانس بھر کر کہا۔’’ہاں بھائی یہی سمجھ لو ۔ شکاری ہوں ۔
‘‘ لڑکے نے پوچھا۔ ’’شیر مارتے ہو ؟ ‘‘ میں نے کہا۔ ’’اگر شیر سامنے آجاۓ اور حملہ کر دے تو اسے مارنے کی کو شش ضرور کر تا ہوں۔ ویسے میں ہرنوں وغیرہ کا شکار کرتا ہوں ۔ ‘‘

لڑکا کہنے لگا۔ " بابو ! جس جنگل سے تم آ رہے ہو وہاں تو بھوت پریت رہتے ہیں۔
میں لڑکے سے زیادہ گفتگو نہیں کرنا چا ہتا تھا مگر اس کے سوالوں کے جواب دینے پر مجبور تھا۔ ایک طرح سے میں اس کے رحم و کرم پر تھا۔ میں نے بے دلی سے کہا۔ ” پتہ نہیں۔ رہتے ہوں گے ۔‘‘
لڑکا بولا۔ " بابو معلوم ہے اس جنگل میں ایک رانی بائی کا قلعہ ہے۔ اس قلعے میں رات کو ایک عورت کے گانے اور رونے کی آوازیں آتی ہیں۔
‘‘ میں نے بے نیازی سے کہا۔ ” آتی ہوں گی۔
“ لڑکے نے کہا۔ ”تم نے کوئی آواز ضرور سنی ہوگی۔“
”میں نے کوئی آوار نہیں سنی۔ میں نے جواب دیا اور اس کے بعد اپنی آنکھیں بند کر کے سر نیچے کر لیا جیسے سونا چاہتا ہوں۔

لڑکا بولا۔ " بابو ! سونا مت ۔ میں نے جلدی سے آنکھیں کھول دیں اور لڑکے سے پوچھا۔ ” کیوں کیا بات ہے ۔ کیا یہاں سونا منع ہے ؟
‘‘ لڑکے نے کہا۔ "منع نہیں ہے بابو جی۔ مگر گاؤں کے مندر کے پجاری جی کا کہنا ہے کہ دریا میں دن کے وقت سفر کرتے ہوئے اگر کوئی مسافر کشتی میں سو جائے تو دریا میں سے مگرمچھ نکل کر حملہ کر دیتا ہے۔
یہ لڑکا بھی عجیب مصیبت تھا۔ میں نے گھڑی پر نظر ڈالی۔ابھی بیتال گڑھ کے گھاٹ تک پہنچنے میں ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا۔ میں نے سونے کا خیال دل سے نکال دیا اور باتونی لڑکے کی باتیں سننے اور ان کے جواب دینے پر تیار ہو گیا۔ دو گھنٹے کے سفر کے بعد دریا کے دوسرے کنارے پر دور سے مجھے کسی بستی کے مکان نظر آنا شروع ہو گئے۔
ملاح لڑکے نے کہا۔ بابو وہ پیتال گڑھ کے مکان ہیں۔ میں نے لڑکے سے پوچھا۔’’بیتال گڑھ کا ریلوے سٹیشن کس طرف ہے۔ - لڑکا کشتی کنارے کی طرف لیجا رہا تھا۔ کہنے لگا۔ ’’گاؤں سے تھوڑی دور آگے دریا
کے کنارے پر ہی ہے۔

میں نے لڑکے سے کہا کہ وہ مجھے کنارے پر اس جگہ لے جاۓ جہاں ریلوے سٹیشن ہے۔ اس کے جواب نے لڑکے نے کہا۔ ” نہیں بابو ! میں اس طرف نہیں جا سکتا۔ میں گھاٹ پر بھی نہیں جاؤں گا۔ وہاں ٹھیکیدار مجھ سے کرائے کے آدھے پیسے لے لیگا۔ میں تمہیں اسی جگہ اتار دوں گا۔ تم خود ہی ریلوے سٹیشن پہنچ جانا۔
‘‘ میں نے کہا۔ " چلو ٹھیک ہے بھائی تم مجھے اس جگہ اتار دو۔ تمہارا شکریہ ‘‘
لڑکا کشتی کو کنارے کے قریب لاتے ہوئے بولا۔ ”شکریہ کس بات کا بابو ۔ تم نے مجھے ساٹھ روپے کرایہ دیا میں نے تمہیں بیتال گڑھ پہنچا دیا۔ ‘‘ ملاح لڑکے نے کشتی کنارے پر ایک طرف کر کے کھڑی کر دی۔ میں بندوق کندھے سے لٹکا کر کشتی سے اتر گیا اور جیب سے پیسے نکالنے لگا کہ لڑکے کو ساٹھ روپے دوں۔ میری پشت کشتی کی طرف تھی۔ جیب سے روپے نکال کر میں نے کشتی کی طرف منہ کیا تو یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا کہ وہاں نہ کشتی تھی نہ ملاح لڑکا تھا۔ دریا کا کنارہ خالی پڑا تھا۔ دس دس روپے کے چھ نوٹ میرے ہاتھ میں تھے اور میں عالم حیرت میں ڈوبا دریا کی طرف دیکھ رہا تھا۔

دریا میں دور دور تک کسی کشتی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ ۔
میں نے کرنسی نوٹ واپس جیب میں رکھے اور گاؤں کی طرف چل پڑا۔ کافی بڑا گاؤں تھا۔ کھیتوں میں کچھ کسان کام کر رہے تھے ۔ ملاح لڑکے نے کہا تھا کہ ریلوے سٹیشن گاؤں کی دوسری جانب دریا کے قریب ہی ہے۔ میں گاؤں کا چکر کاٹ کر اس کی دوسری طرف نکل آیا۔ یہاں مجھے ذرا اونچائی پر ایک ریلوے سگنل دکھائی دیا۔ اس کی راہ نمائی میں ، میں بیتال گڑھ کے سٹیشن پر پہنچ گیا۔ یہاں سے بٹاوا تک مجھے ایک پینجر ٹرین مل گئی۔ بٹاوا چھوٹا سا جنکشن تھا وہاں سے ریلوے لائن جھانسی کو جاتی تھی۔ دو گھنٹے مجھے انتظار کرنا پڑا۔ میں نے سٹیشن پر ہی کچھ کھا پی لیا۔ جھانسی جانے والی گاڑی آئی تو میں اس میں بیٹھ گیا وہاں سے جھانسی کافی دور تھا۔ ریل گاڑی بھی ہر سٹیشن پر کھڑی ہوتی تھی۔
دن کے دو بجے اس نے مجھے جھانسی پہنچا دیا۔ یہاں سے مجھے ایک میل ٹرین مل گئی اس نے مجھے دوسرے دن بمبئی پہنچا دیا۔ سٹیشن سے آٹو رکشا لے کر میں سیدھا اپنے دوست جمشید کی آٹو سپئیر پارٹس کی دکان پر آگیا۔
جمشید دکان پر ہی تھا۔ اس نے مجھے دیکھا تو کاؤنٹر چھوڑ کر میرے پاس آکر بولا۔ ’’ یہ کیا؟ کوئی شکار مار کر نہیں لاۓ۔ مامندر کے جنگلوں میں تو ہرن بہت ہوتے ہیں۔

میں نے رکشے سے اترتے ہوۓ کہا۔ ” مجھے دیکھ کر ہرن بھاگ گئے
جمشید نے رکشے میں مزید جھانک کر دیکھا اور بولا ۔ ’’ میگزین کا تھیلا کہاں چھوڑ آۓ ہو۔ “
میں نے کہا۔ ” جنگل میں ایک جگہ سو گیا تھا کوئی اٹھا کر لے گیا۔“ جمشید بولا ۔ " چلو نہاد ھو کر کپڑے بدلو۔ کھانا اکٹھے کھائیں گے ۔“ جمشید کا مکان دکان کے اوپر ہی تھا۔ یہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ جمشید وہاں اکیلا ہی رہتا تھا۔ میں نے نہا دھو کر کپڑے بدلے۔ اس دوران سوچتا رہا کہ رانی بائی کے قلعے میں میرے ساتھ جو واقعہ پیش آیا ہے اس کے بارے میں جمشید کو بتاؤں یا اس سے اس بات کو راز ہی رکھوں ۔ آخر میں نے یہی فیصلہ کیا کہ یہ راز مجھے اپنے تک ہی رکھنا چاہئے اور جمشید کو کچھ نہیں بتانا چاہئے اس کو بتانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ میں اسے بتا بھی دیتا تو اس نے مجھے برا بھلا ہی کہنا تھا کہ تم تو بمبئی کے قرب و جوار میں شکار کھیلنے گئے تھے جھانسی کی طرف کیسے نکل گئے اور رانی بائی کے آسیبی قلعے میں جانے کی تمہیں کیا ضرورت تھی۔
ویسے بھی جمشید سیدها سادھا شکار ی ٹائپ کا دنیادار آدمی تھا اس قسم کی ماورائے عقل اور مافوق الفطرت باتوں کے بارے میں وہ مجھے کوئی مفید مشورہ نہیں دے سکتا تھا۔‘‘

فیروز مجھے اپنی زندگی کی پراسرار اور دہشت خیز داستان سنا رہا تھا جسے میں آپ کے لئے لکھ رہا ہوں۔ میں وہی کچھ لکھ رہا ہوں جو مجھے فیروز نے سنایا تھا۔ میں اپنی طرف سے ایک لفظ بھی فالتو نہیں لکھ رہا۔
فیروز کہنے لگا۔ میں نے آپ کو ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ پاکستان بننے سے پہلے میں پنجاب کے کس شہر میں رہتا تھا اور کیا کرتا تھا۔ میں آپ کو بتانا نہیں چاہتا تھا لیکن چونکہ اب وہ شہر جہاں میں رہتا تھا اب انڈیا میں ہے اس لئے اس کا نام بتا دیتا ہوں۔ اس شہر کا نام امرتسر تھا۔ میں امرتسر میں جی ٹی روڈ پر محصول چونگی کے قریب ایک آبادی مقبول پورے میں رہتا تھا۔ میری پیدائش بٹالے میں ہوئی تھی لیکن میرے ماں باپ میرے پیدا ہونے کے دو سال بعد امر تبر آکر آباد ہو گئے تھے۔ میں اپنے ماں باپ کی اکیلی اولاد تھا۔ نہ میرا کوئی بھائی تھانہ بہن تھی۔ میں امرتسر کے سکول میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا کہ میرے ماں باپ کا انتقال ہو گیا۔ میرے باپ نے تھوڑی سی زمین اور ایک پھل دار باغ چھوڑا تھا۔ میرے چچا نے میری پرورش کی ذمہ داری اٹھالی اور یوں باغ اور زمین کی آمدنی پر قبضہ کر لیا۔
مجھے زمین اور باغ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ شروع ہی سے میرا مزاج آوارہ گردی کی طرف مائل تھا اور میں جنگلوں میں گھوم پھر کر شکار کھیلنا چاہتا تھا۔ میں نے ایک چھوٹی بندوق خریدی تھی۔ میں اپنی زمین اور باغ میں گھوم پھر کر پرندوں کا شکار کیا کرتا تھا۔ میں دسویں جماعت تک ہی پڑھ سکا اس کے بعد اپنے باپ کی دکان سنبھال لی۔ دکان سے کافی آمدنی ہونے لگی۔ میں نے دو چار نوکر رکھ لئے اور انہیں دکان پر بٹھا کر شکار کھیلنے کبھی کسی طرف اور کبھی کسی طرف نکل جاتا تھا۔

جمشید میرا دوست بن گیا تھا اسے بھی شکار کا شوق تھا۔ اس کے باپ کی بمبئی شہر میں آٹو سپئیر پارٹس کی دکان تھی۔ جمشید کو اس کے باپ نے بمبئی بلا لیا۔ جمشید نے باپ کا کاروبار سنبھال لیا۔ جب اس کے باپ کا انتقال ہو گیا تو جمشید بمبئی کا ہی ہو کر رہ گیا۔ میں کبھی کبھی اس سے ملنے بمبئی چلا جاتا تھا۔ اسی طرح وقت گزر تا چلا گیا۔
جب میں امرتسر سے جمشید کے پاس بمبئی آیا ہوا تھا اور میں نے رانی بائی کے قلعے کے بارے میں دہشت انگیز اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی کہانیاں سنی تھیں اور ایک روز ان خوفناک روایتوں کا کھوج لگانے رانی بائی کے قلعے کی جانب روانہ ہو گیا تھا اور میرے ساتھ وہ ماورائے عقل اور حیرت انگیز واقعات پیش آۓ تھے جو میں پوری تفصیل کے ساتھ آپ کو بتا چکا ہوں۔ اب میں کہانی کو آگے بیان کر تاہوں . . .

فیروزا یک لمحے کے توقف کے بعد کہنے لگا۔ ” میں نے اور جمشید نے اکٹھے بیٹھ کر رات کا کھانا کھایا۔ جمشید مجھ سے شکار کے بارے میں باتیں پو چھنے لگا۔ کہاں کہاں پھرے ، راتیں جنگل میں کہاں گزاریں ، کوئی شکار کیوں نہیں ملا؟ ان سب باتوں کا میں نے اسے ایک ہی جواب دیا کہ اس بار شکار میں میرا جی نہیں لگا تھا اور میں زیادہ تر جنگلوں میں گھومتا پھرتا رہا تھا۔ جمشید نے میری طرف گھور کر دیکھا اور کہنے لگا۔ " تم مجھ سے کچھ چھپا تو نہیں رہے فیروز ؟‘‘ آخر وہ میرا دوست تھا اور میری طبیعت اور میری نفسیات سے واقف تھا۔ اس نے میرے چہرے کی خاموشی سے اندازہ لگا لیا تھا کہ میرے ساتھ جنگل میں کوئی پراسرار واقعہ ضرور ہوا ہے۔ میں نے کہا۔
” تم سے مجھے کچھ چھپانے کی کیا ضرورت ہے ۔ اگر کوئی خاص بات ہوئی ہوتی تو میں سب سے پہلے تمہیں بتاتا۔“ پھر میں نے جان بوجھ کر گفتگو کا موضوع تبدیل کرتے ہوۓ کہا۔ ”ملک کے سیاسی حالات بڑی تیزی سے بدل رہے ہیں۔ پاکستان بن کر رہے گا۔ ماسٹر تارا سنگھ نے اعلان کر دیا ہے کہ ہم پاکستان نہیں بننے دیں گے۔“ جمشید بولا۔ ”ماسٹر جی سکھوں کے صحیح لیڈر نہیں ہیں۔ کانگریس نے انہیں ورغلایا ہوا ہے ۔ مجھے ڈر ہے کہ پنجاب میں فسادات شروع ہو جائیں گے۔“ میں بھی ایسے ہی سوچ رہا تھا۔ میں نے جمشید سے کہا۔’’تم بمبئی میں ہو ۔ بمبئی ایک کاسمو پولیٹن شہر ہے شاید یہاں کچھ نہ ہو لیکن پنجاب میں بہت خون خرابہ ہوگا۔ میں سوچتا ہوں میں امرتسر اپنے گھر چلا جاؤں . . . . .
‘‘ جمشید کہنے لگا۔’’وہاں تمہارا کون ہے ۔ایک دکان ہے ، ایک چھوٹا سا باغ ہے اور تھوڑی سے زمین ہے جس پر تمہارے چچا نے قبضہ کر رکھا ہے ۔ نہ تمہارے وہاں ماں باپ ہیں ، نہ بہن بھائی ہیں اور نہ بیوی بچے ہیں۔ وہاں جا کر کیا کرو گے ؟ میں تو کہتا ہوں کہ بمبئی میں میرے پاس ہی رہ جاؤ۔ پاکستان بن گیا تو یہیں سے پاکستان چلے جانا۔“

میں نے کہا۔ ” کہتے تو تم ٹھیک ہو ۔ امرتسر میں میرا کچھ نہیں ہے لیکن میرے ماں باپ کی قبریں ہیں۔ میں پاکستان جانے سے پہلے ان کی قبروں پر فاتحہ ضرور پڑھنا چاہتا ہوں۔“
جمشید بولا۔” جیسے تمہاری مرضی۔“
میں نے کہا۔ ’’لیکن ابھی میں بمبئی میں ہی رہوں گا۔ تمہارے پاس . . . . .“ کچھ دیر تک ہم باتیں کرتے رہے ۔ پھر میں نے اٹھتے ہوۓ کہا۔’’ آج میرا دل فلم دیکھنے کو چاہتا ہے۔ میٹرو سینما میں شیر کے شکار کی ایک انگریزی فلم لگی ہوئی ہے۔9 بجے والا شو ابھی شروع نہیں ہوا ہوگا۔ تم بھی میرے ساتھ چلو اکٹھے فلم دیکھیں گے ۔“
جمشید کہنے لگا۔ ’’آج سارا دن گیراج میں کام کرتا رہا ہوں۔ تھک گیا ہوں ۔ تم چلے جاؤ۔“

پُراسرار حویلی - پارٹ 4

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, 
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں