پُراسرار حویلی - پارٹ 15

 

Sublimegate Urdu Font Stories

 پُراسرار حویلی - پارٹ 15



روہنی نے اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ مجھے اچانک خیال آ گیا کہ روہنی نے مجھے ایسے سوال کرنے سے منع کر رکھا ہے جس کے جواب کا تعلق اس دنیا کی عقل و دانش کی حدود سے باہر ہو۔

میں نے تہہ خانے کی فضا کو دیکھا۔ موم بتی کی مدھم روشنی میں تہہ خانے کا ماحول اور زیادہ پراسرار لگنے لگا تھا۔ تہہ خانے کی چھت زیادہ اونچی نہیں تھی۔ چھت سے لے کر فرش تک چھ سات ستون کھڑے تھے۔ ایک جگہ دو ستونوں کے درمیان پتھر کا ایک کافی بڑا تخت بنا ہوا تھا۔ تخت کے پیچھے دیوار کے ساتھ لوہے کے تین چار رنگ چھلے لگے ہوئے تھے جن کے درمیان لوہے کی بڑی میخیں ٹھکی ہوئی تھیں۔ روہنی نے مجھے وہ زنجیریں دکھاتے ہوۓ کہا۔ ” میری پیاری سہیلی درگا کو ظالم راجہ کے حکم سے ان زنجیروں کے ساتھ باندھ کر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ ظالم راجہ درگا سے اپنے ساتھ بے وفائی کرنے کا بڑی سنگ دلی سے بدلہ لے رہا تھا۔ ایک مہینے تک درگا کو طرح طرح کی اذیتیں دینے کے بعد آخر راجہ کے حکم سے اسے قتل کر دیا گیا۔“

میں نے پوچھا۔ کیا اس کی لاش کو یہاں دبا دیا گیا تھا؟ ۔
روہنی نے کہا۔ ” نہیں ۔ لاش کو راجہ کے حکم سے جنگل میں جلا کر اس کی ہڈیاں کو راجستھان کے صحراؤں میں جگہ جگہ بکھیر دی گئی تھیں۔“
روہنی یہ بتانے کے بعد خاموش ہو گئی۔ شاید وہ اپنی پرانی سہیلی کی سوگوار یادوں میں ڈوب گئی تھی۔ میں بھی خاموش ہو گیا تھا۔ روہنی میرے بالکل قریب ایک ستون کے پاس بیٹھی تھی۔ ہمارا رخ پتھر کے تخت کی طرف تھا۔ اچانک روہنی ایسے چونک کیا پڑی جیسے اسے تہہ خانے میں کسی تیسرے شخص کی موجودگی کا احساس ہوا ہو ۔ میں کچھ کہنے لگا تو روہنی نے جلدی سے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔
میں نے دیکھا کہ روہنی نے اپنی گردن کو ایک جانب تھوڑا سا ایسے جھکا لیا تھا جیسے کسی آواز کو سننے کی کوشش کر رہی ہو۔ میں بھی ہمہ تن گوش ہو کر کسی غیبی آواز کو سننے کی کو شش کرنے لگا۔ مگر ابھی تک وہاں مجھے کوئی آواز سنائی نہ دی تھی۔ تہہ خانہ زمین کے کافی نیچے جا کر بنایا گیا تھا اور وہاں قبر جیسا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ اس سناٹے میں اچانک مجھے ایسی آواز سنائی دینے لگی جیسے کوئی ٹھنڈے سانس بھر رہا ہو ۔

میرے جسم میں خوف کی لہر دوڑ گئی ۔ ٹھنڈی آہوں کی یہ آواز روہنی نے بھی سن لی تھی۔ اس نے میرے ہاتھ کو آہستہ سے دبایا جیسے کہہ رہی ہو کہ یہ آواز تم سن نے رہے ہو ۔ میں بھی سن رہی ہوں۔

ٹھنڈی آہوں کی آواز جیسے آہستہ آہستہ قریب ہوتی جارہی تھی۔ روہنی نے میرے بازو کو پکڑا۔ خود بھی اٹھ کھڑی ہوئی اور مجھے بھی اٹھا لیا۔ ہم ستون کے پاس موم بتی کی روشنی میں کھڑے تھے اور ہماری نظریں سامنے پتھر کے تخت کی جانب تھیں ۔ ٹھنڈے سانسوں کی آواز ہمارے اتنے قریب ہو گئی کہ مجھے لگا جیسے کوئی بالکل میرے کان کے قریب آکر ٹھنڈے سانس بھر رہا ہے۔ بڑے درد بھرے انداز میں ٹھنڈی آہیں بھر رہا ہے۔ اس وقت مجھ پر واقعی بہت زیادہ خوف طاری ہو چکا تھا۔ ٹھنڈے سانس بھرنے کی آوازیں آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگیں۔

یہاں تک کہ وہ بہت مدھم ہو گئیں جیسے بہت دور سے آ رہی ہوں۔ پھر اچانک ایک ہولناک چیخ سے میں لرز گیا اور روہنی کے ساتھ لگ گیا۔ یہ کسی عورت کی چیخ تھی اور ایسی اذیت ناک چیخ میں نے پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔ پھر کسی عورت کے کراہنے کی آواز آنے لگی۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے کسی بد نصیب عورت کو ذبح کیا جارہا ہے اور اس میں اتنی سکت بھی باقی نہیں رہی کہ وہ لفظ بھی منہ سے نکال سکے ۔ یہ اذیت ناک ڈراؤنی کراہیں بھی آہستہ آہستہ غائب ہو گئیں۔اب تہہ خانے کی فضا میں ایسا سناٹا چھا گیا جس میں موت کی دہشت تھی۔

شاید میرے ساتھ کھڑی روہنی کے یہ محسوسات نہ ہوں مگر میں ایک زندہ اور زندگی سے محبت کرنے والے انسان کی حیثیت سے ایسا ہی محسوس کر رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ روہنی بالکل ساکت کھڑی تھی اور اس کی نگاہیں تخت کے پیچھے سامنے والی دیوار پر لگی تھیں۔ میں بھی اس دیوار کو دیکھنے لگا۔ اچھانک دیوار پر ایک سایہ سا لہرا کر غائب ہو گیا۔ یہ سایہ روہنی نے بھی ضرور دیکھ لیا تھا۔ جیسے ہی یہ سایہ غائب ہوا روہنی نے پہلی بار زبان کھولے ہوۓ کہا۔ ’’درگا ! کیا تم نے مجھے پہچانا نہیں؟ میں روہنی ہوں۔ تمہاری سہیلی
روہنی!“

جس زمانے میں درگا روہنی کی سہیلی تھی اس زمانے میں ابھی روہنی کی شادی مغل صوبے دار سے نہیں ہوئی تھی اور وہ ابھی مسلمان بھی نہیں ہوئی تھی۔ روہنی نے شادی کے بعد اسلام قبول کر لیا تھا اور مغل شہزادے نے اس کا نام سلطانہ رکھا تھا۔
میں غیر شعوری طور پر سامنے والی دیوار کو دیکھ رہا تھا۔ اتنے میں ایک عورت کی خشک اور ویران سی آواز سنائی دی۔ ”میں نے تمہیں پہچان لیا ہے ۔ تم یہاں کیوں آئی ہو ؟“ ظاہر ہے یہ بدروح درگا ہی کی آواز تھی۔ اس کا لہجہ ایسا تھا جیسے اسے روہنی کا وہاں آنا ناگوار گزرا تھا۔ ہو سکتا ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ میں روہنی کے ساتھ تھا جس کا تعلق زندہ انسانوں کی دنیا سے تھا۔ اتنا مجھے معلوم ہوچکا تھا کہ یہ بدروحیں اپنی دنیا میں انسانوں کی مداخلت پسند نہیں کرتی اور اگر کوئی بھولا بھٹکا انسان غلطی سے ان کی دنیا کی حدود میں داخل ہو جاۓ تو پھر اس سے چمٹ جاتی ہیں اور اس وقت تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑتیں جب تک کہ اس کی جان نہیں لے لیتے۔

روہنی بھی اس نقطے کو سمجھ گئی تھی۔ شاید روہنی کو اپنی غلطی کا احساس بھی ہو گیا تھا کہ اسے مجھے ساتھ لے کر وہاں نہیں آنا چاہئے تھا۔
اس نے درگا کی بدروح سے مخاطب ہو کر وضاحت کرنے کے انداز میں کہا۔ درگا! تم دیکھ رہی ہو جو انسان میرے ساتھ آیا ہے وہ شہزادہ شیروان ہے ۔“ درگا بدروح ایک لمحے کے لئے خاموش رہی۔ پھر اس کی آواز آئی۔” یہ تمہارا شهزاده شیروان نہیں ہے ۔ یہ تم بھی اچھی طرح سے جانتی ہو نہ یہ اس کا ہم شکل ایک انسان ہے ۔“
روہنی نے کہا۔” درگا! میں مانتی ہوں کہ یہ میرے مرے ہوئے خاوند کا ہم شکل ہے مگر اس نے میری آتما کو پجاری رگھو کی قید سے رہائی دلا کر مجھ پر بہت بڑا احسان کیا ہے اسے میری مدد کرنے کی یہ سزا مل رہی ہے کہ پجاری رگھو اس کی جان کا دشمن بن گیا ہے اور مجھے دوبارہ اپنے قبضے میں کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ہلاک کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ میرا فرض بن گیا ہے کہ میں اس کی جان کی حفاظت کروں اور اسے پجاری رگھو کے انتظام سے بچاؤں۔“

درگا کی بدروح نے پہلے تو کوئی جواب نہ دیا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ وہاں سے جا چکی ہے لیکن روہنی کو درگا کی بدروح کی موجودگی کا احساس تھا۔ وہ خاموش کھڑی درگا کے جواب کا انتظار کر رہی تھی۔ جب درگا کی خاموشی طول پکڑ گئی تو روہنی نے کہا۔ درگا! میری پیاری بہن ! مجھے معلوم ہے کہ تم یہاں موجود ہو۔ میں تمہیں دیکھ رہی ہوں ۔ تم خاموش کیوں ہو ؟“ درگا بدروح کی خشک آواز ایک بار پھر سنائی دی۔ اس نے پوچھا۔

”روہنی ! تم کیا کہنا چاہتی ہو ؟" ۔ روہنی نے کہا۔ ”درگا! مجھے تمہاری مدد کی ضرورت پڑ گئی ہے ۔ کیا تم میری مدد کرو گی؟“
ایک پھر تہہ خانے میں خاموشی چھا گئی ۔ درگا بدروح کی آواز آئی۔ کس قسم مدد ؟
روہنی نے کہا۔ ” یہ بات تم سے چھپی ہوئی نہیں ہے کہ جب سے میں اس کی قید سے آزاد ہوئی ہوں پجاری رگھو مجھے دوبارہ اپنے قبضے میں کرنے کے لئے کئی خطرناک کوششیں کر چکا ہے۔ تم یہ بھی جانتی ہو کہ اگر اس بار میں اس کے قبضے میں چلی گئی تو میری کبھی مکتی نہیں ہوگی اور میں قیامت تک اس کی قید میں بے بس ہو کر پڑی رہوں گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ مجھے آزاد کرنے کی وجہ سے پجاری رگھو میرے ساتھی شیروان کا بھی دشمن بن گیا ہے اور وہ اس پر چار مرتبہ قاتلانہ حملے کر چکا ہے۔

اگر میں اس کے ساتھ نہ ہوتی تو یہ آج زندہ نہ ہوتا مگر میں اسے زندہ دیکھنا چاہتی ہوں۔“ ۔
درگاہ کی بدروح نے روہنی کی بات کاٹتے ہوۓ کہا۔ ’’روہنی ! تم مجھ سے کیا چاہتی ہو ؟
روہنی نے بھی بات کو مختصر کرتے ہوۓ کہا۔’’ پجاری رگھو کے آگ میں جل کر ختم ہو جانے میں ہی میری مکتی ہے۔ میری نجات ہے۔ لیکن میں اس کی طلسمی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ہاں ! اگر مجھے اس کی کسی کمزوری کا پتہ چل جائے تو پھر میں اس کو آسانی سے ختم کر سکتی ہوں۔ تم پجاری رگھو کو اس کی اور اپنی زندگی کے دوران بھی جانتی تھی اور موت کے بعد تمہیں اس کے بارے میں زیادہ پتہ چل گیا ہوگا۔ کیا تم مجھے اس کی کوئی کمزوری بتا سکتی ہو ؟ میں یہی معلوم کر نے تمہارے پاس آئی ہوں۔“

درگا بدروح نے حسب معمول کچھ دیر تک خاموش رہنے کے بعد کہا۔’’ پجاری رگھو کی طاقت کا راز موت کے دیوتا یم دوت کی وہ مورتی ہے جو اس نے پجاری رگھو کو خوش ہو کر دی تھی۔ اس مورتی پر یم دوت کا منتر لکھا ہوا ہے۔ اگر کسی ذریعے سے وہ مورتی تمہارے پاس آ جاتی ہے تو تم پجاری رگھو پر اپنی کم طلسمی طاقت سے بھی فتح حاصل کر لو گی۔“

یم دوت کی یہ مورتی پجاری رگھو نے کہاں رکھی ہوئی ہے ؟ کیا تم بتا سکتی ہو ؟“ ۔ روہنی کے اس سوال کے جواب میں درگا بدروح بولی۔’’اس کا کسی کو علم نہیں یہ تمہیں خود معلوم کرنا ہوگا۔ میرا وقت ختم ہو گیا ہے۔ اب میں جاتی ہوں۔“ ۔ روہنی نے جلدی سے کہا۔” مجھے ایک آخری بات بتا دو درگا۔“ ”بولو۔ میں سن رہی ہوں ۔‘‘درگا بدروح نے کہا۔ کہو ۔۔۔

روہنی کہنے لگی۔ ”تمہیں معلوم ہی ہے کہ میں بدروحوں کی اس دنیا میں داخل نہیں ہو سکتی جس کا سردار پجاری رگھو ہے ۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ پجاری رگھو اپنی بدروحوں کی دنیا سے نکل کر کب انسانوں کی دنیا میں آتا ہے اور اپنا ٹھکانہ کہاں بناتا ہے ؟“

درگا بدروح نے جواب دیا۔ ”میں اتنا جانتی ہوں کہ پجاری رگھو کی بدروح مہینے میں ایک بار اس شمشان گھاٹ کی یاترا کرنے ضرور جاتی ہے جہاں مرنے کے بعد اس کے مردہ جسم کو چتا کی آگ میں جلایا گیا تھا۔ جس کی رات کو پجاری رگھو کے مردے کو چتا کی آگ میں جلایا گیا تھا۔‘‘ روہنی نے جلدی سے پوچھا۔’’اب مجھے یہ بھی بتاتی جاؤ کہ یہ شمشان گھاٹ کس شہر میں ہے۔“۔

درگا بدروح نے کہا۔’’ پجاری رگھو کے مردے کو آج سے تین سو سال پہلے جلایا گیا تھا۔ اس زمانے میں مندروں کی نگری متھرانگری بھی ایک چھوٹا سا گاؤں ہوا کرتی تھی۔ متھرانگری کے پورب میں ایک شمشان گھاٹ ہوا کرتا تھا۔ پجاری رگھو کو اسی شمشان گھاٹ میں اگنی دیوی کے شعلوں کے سپرد کیا گیا تھا۔ آج یہ شمشان گھاٹ کھنڈر بن چکا ہے اور وہاں کوئی مردہ نہیں جلایا جاتا۔ پجاری رگھو ہر مہینے کی سولہویں تاریخ کو وہاں آتا ہے اور تین راتیں شمشان گھاٹ کے سولہ پھیرے لگاتا ہے ۔ اس ویران شمشان گھاٹ سے کچھ دور جنگل میں ایک اندھا کنواں ہے۔
پجاری رگھو کی بدروح اس کنویں کو اپنا ٹھکانا بناتی ہے ۔“ روہنی نے درگا کا شکر یہ ادا کرتے ہوۓ کہا۔ ’’درگا ! بس مجھے تم سے یہی پوچھنا تھا۔ اب میں بھی جاتی ہوں۔“ درگا بدروح کی آواز آئی۔ ”روہنی! ایک بات سے ہوشیار رہنا۔ بدروحوں کے دوسرے قبیلے کی سردارنی کالی بدروح پجاری رگھو کی منہ بولی بہن ہے اور پجاری رگھو کی بدروح جب شمشان گھاٹ کی یاترا کر نے انسانوں کی دنیا میں آتی ہے تو کالی کے راکھشش اس کی حفاظت کے لئے اس کے ساتھ آتے ہیں۔“
” میں ان سے ہوشیار رہوں گی۔ تمہاراشکر یہ درگا!‘‘ درگا بدروح کی اچانک غصیلی آواز بلند ہوئی۔ ’’اب اس منش جاتی (انسان ) کو لے کر یہاں سے نکل جاؤ۔‘‘
روہنی نے میرا بازو پکڑا اور ہم جلدی سے زینہ طے کرتے تہہ خانے سے نکل آۓ۔ محل کے اوپر والے کمرے میں آنے کے بعد روہنی کہنے لگی۔’’درگا کو تمہارا میرے ساتھ وہاں آنا برا لگا تھا کیونکہ بدروحیں ویسے بھی زندہ انسانوں کو سخت ناپسند کرتی ہیں۔ دوسری اہم بات یہ تھی کہ تم مسلمان بھی ہو ۔“ میں نے کہا۔ ”مگر تم بھی تو مسلمان ہو چکی ہو ۔ پھر درگا کی بدروح نے تمہیں کیسے گوارا کر لیا ؟“
روہنی کہنے لگی۔ ’’مسلمان ہونے سے پہلے بچپن سے جوانی اور شادی کے وقت تک کا عرصہ جب میں ہندو تھی ہم دونوں نے ایک ساتھ گزارا تھا۔ بس درگا اس دوستی کا لحاظ رکھے ہوئے تھی اور اس کی پالنا کر رہی تھی۔ رات ڈھلنے گئی تھی۔ اس ویران محل میں اب ہمارا کوئی کام نہیں تھا۔ ہم محل کے صدر دروازے سے باہر نکلے تو پہرے پر موجود چوکیداروں میں سے ہمیں کوئی بھی نہ دیکھ سکا کیونکہ ہم غیبی حالت میں تھے۔

صبح کے انتظار میں ہم ایک جھیل کنارے بارہ دری میں آکر بیٹھ گئے۔ میں نے روہنی سے کہا۔ " میں نہانا چاہتا ہوں۔ مجھے غیبی حالت سے انسانی شکل میں واپس لے آؤ۔“ روہنی نے خاص منتر پڑھ کر پھونکا اور میں اپنی ظاہری انسانی شکل صورت میں واپس آگیا۔ روہنی نے کہا۔ ”تم جھیل میں اتر کر نہالو۔ میں یہیں بیٹھی ہوں۔“ جھیل کنارے سیٹرھیاں بنی ہوئی تھیں۔ میرے پاس وہاں تولیہ صابن تو تھا نہیں ویسے ہی جسم کو اچھی طرح سے مل کر غسل کیا اور کپڑے پہن کر بارہ دری میں آ گیا۔
روہنی کہنے لگی۔ ”آج کارتک کے مہینے کی چودہ تاریخ ہے۔ دو دن بعد رات کو پجاری رگھو کی بدروح متھرا کے شمشان گھاٹ پر آۓ گی۔ ہمیں آج ہی وہاں پہنچ جانا چاہئے۔“

مجھے کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ اعتراض ہوتا بھی تو میرے اعتراض کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ بدروحوں کے آسیب کے جس چکر میں پھنس گیا تھا اب اسے ہر حالت میں مجھے پورا کرنا ہی تھا۔ میں نے کہا۔ ” جیسے تمہاری مرضی۔“ روہنی بولی۔ ”ہم آج اور کل کا دن متھرا شہر میں گزاریں گے۔ ہم وہ اندھا کنواں بھی دیکھیں گے جس میں پجاری رگھو کی بدروح اپنا ٹھکانا بناۓ

جے پور سے دہلی کی طرف جائیں تو راستے میں پہلے آگرہ سٹیشن آتا ہے اس کے بعد مھترا آجاتا ہے ۔۔۔ ہم چند منٹ بعد آگرہ شہر کے اوپر سے گزر رہے تھے ۔۔ مجھے ایک جانب دریا کے کنارے تاج محل کی عالی شان عمارت دکھائی دی۔ ہم آگرہ شہر کے اوپر سے بھی نکل گئے ۔ کچھ دیر تک نیچے جنگل اور کھیت دکھائی دیتے رہے جو بڑی تیز رفتاری سے پیچھے کی طرف جارہے تھے۔ اس کے بعد شہر کے مکان اور مندر نظر آنے لگے۔ روہنی نے کہا۔’’ہم متھرا پہنچ گئے ہیں۔‘‘ روہنی نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا۔

وہ نیچے کی طرف غوطہ لگا گئی۔ اس نے متھرا شہر کے اوپر چاروں طرف دائرے کی شکل میں ایک چکر لگایا اور پھر شہر کی پورب کی جانب درختوں کے ایک جھنڈ کے پاس اتر گئی۔ ہمیں لوگوں کی نظروں سے چھپنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ہم کسی کو نظر نہیں آتے تھے۔ روہنی آس پاس نظر دوڑاتے ہوۓ کہنے لگی ۔’’ پرانا شمشان گھاٹ یہیں کہیں ہونا چاہئے ۔ یہ شہر کے باہر کا علاقہ تھا اور ابھی اس طرف نئی کالونیاں آباد نہیں ہوئی تھیں۔ سامنے کھیت تھے۔ ان کے پار درختوں کا ایک جھنڈ نظر آرہا تھا۔ روہنی نے اس طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”چلو وہاں چل کر دیکھتے ہیں ۔“ ہم زمین سے پانچ سات فٹ بلند ہو کر ہوا میں تیرتے ہوۓ کھیتوں کے پار آ گئے۔ یہاں پہنچ کر روہنی نے اپنی رفتار بالکل آہستہ کر دی۔ اب ہم زمین سے سات فٹ کی بلندی پر ایسے تیر رہے تھے جیسے انسان خواب میں کبھی کبھی اپنے آپ کو اڑتے ہوۓ دیکھتا ہے ۔ اچانک روہنی میرا ہاتھ تھامے فضا میں ہی ساکت ہو گئی۔ میں نے اس کی طرف دیکھا۔ وہ کچھ فاصلے پر دکھائی دینے والے درختوں کے جھنڈ کی طرف دیکھ رہی تھی۔ کہنے لگی۔ ’’شیروان ! مجھے ان درختوں کی طرف سے جلے ہوۓ مردوں کی بو آرہی ہے ۔‘‘ میں نے کہا۔’’ ہو سکتا ہے وہاں کوئی نیا شمشان گھاٹ ہو جہاں کوئی مردہ جلایا جارہا ہو۔۔۔
روہنی بولی۔” نہیں ، یہ تازہ جلنے والے مردوں کی بو نہیں ہے ۔ یہ ان مردوں کی بو ہے جنہیں آج سے تین سو برس پہلے جلایا گیا تھا۔ میں بالکل حیران نہ ہوا۔ میں نے روہنی کی اتنی عقل کو حیران کر دینے والی باتیں دیکھی تھیں کہ اب مجھے کسی بات پر حیرت نہیں ہوتی تھی۔ ہاں کبھی کبھی خوف ضرور آنے لگتا تھا۔ کیونکہ روہنی بدروح اگر چہ بری بدروح نہیں تھی لیکن اب اس کے ہاتھوں اوپر تلے دو تین بڑی خوفناک وارداتیں سر زد ہو چکی تھیں جو ایک سے بڑھ کر ایک دہشت طاری کر دینے والی تھیں ۔
میں نے یونہی کہہ دیا۔ ”کیا تمہیں آج سے تین سو سال پرانے جلے ہوۓ مردوں کی بو آ جاتی ہے ؟‘‘ روہنی نے کہا۔ ” مجھے ان انسانوں کے جلنے کی بھی بو آ جاتی ہے جنہیں آج سے ہزاروں برس پہلے کسی وجہ سے زندہ جلا دیا گیا تھا۔ “ اس کے بعد میں نے روہنی سے کوئی سوال نہ کیا۔ روہنی کئی بار مجھ سے اپنی محبت کا اظہار کر چکی تھی۔ مجھے بھی اب اس سے تھوڑی تھوڑی محبت ہونے لگی تھی۔ لیکن اب مجھے اس سے تھوڑا تھوڑا ڈر بھی آنے لگا تھا۔
ہم کھیتوں کے پار درختوں کے جھنڈ کے پاس آکر زمین پر اتر گئے ۔ یہاں چاروں طرف ویرانی برس رہی تھی۔ کہیں زمین پر مٹی کی چھوٹی ڈھیریاں تھیں ، کہیں خشک گھاس تھی، کہیں جھاڑیاں ہی جھاڑیاں تھیں۔ ایک طرف کیکر کے کچھ درخت اپنی سیاہ شہنیاں پھیلاۓ اس طرح زمین کی طرف جھکے ہوئے تھے جیسے کسی شے کو اپنے پنجوں کی گرفت میں پکڑنے کی کوشش کر رہے ہوں۔ روہنی میرے پاس ہی کھڑی ان درختوں کی طرف دیکھ رہی تھی۔ کہنے لگی۔" ان درختوں کی طرف چلو۔
ہم چلتے ہوۓ کیکر کے بدشکل درختوں کے پاس آ گئے۔ یہاں ایک چوٹا چبوتراد کھائی دیا جس کی ایک جانب سرکنڈے اگے ہوۓ تھے ۔ روہنی چبوترے کے پاس آ کر کھڑی ہو گئی اور بولی۔ ’’اس چبوترے سے مجھے سینکڑوں برس پہلے جلے ہوئے مردوں کی بو آرہی ہے ۔ یہی وہ شمشان گھاٹ ہے جہاں آج سے تین سو سال پہلے ہمارے دشمن پجاری رگھو کی لاش کو چتا پر جلایا گیا تھا اور وہ پرسوں رات اسی جگہ کی یاترا کرنے آ رہا ہے۔“
میں اس منحوس چبوترے کی طرف دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ نہ جانے یہ شمشان گھاٹ میری زندگی میں اب کیا نیا گل کھلانے والا ہے ۔ روہنی نے ایک طرف نگاہ دوڑاتے ہوۓ کہا۔ ”شیروان ! میرے ساتھ آ جاؤ۔ وہ اندھا کنواں بھی یہاں قریب ہی ہوگا جہاں پجاری رگھو کی بدروح تین راتیں ، تین دن ڈیرہ جماۓ گی۔“ یہ اندھا کنواں شمشان کے چبوترے کے پیچھے کچھ فاصلے پر تھا۔ مجھے تو یہ اندھا کنواں بالکل نظر نہ آیا۔ لیکن روہنی کی تیز نگاہوں نے اسے دیکھ لیا تھا۔ ایک جگہ اونچے اونچے سرکنڈوں نے کچھ جگہ گھیر رکھی تھی۔ اندھا کنواں ان سرکنڈوں کے درمیان میں تھا۔
کنواں واقعی اندھا تھا۔ اس میں کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ نیچے تہہ تک اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ کسی کسی وقت کنوئیں کے اندر سے باریک سی سیٹی کی آواز آ جاتی تھی۔ روہنی نے کہا۔ " سانپ کی آواز ہے ۔ " میرے بدن میں خوف کی سرد لہر دوڑ گئی۔ میں دل میں خدا سے دعائیں مانگنے لگا کہ روہنی کہیں مجھے لے کر کنوئیں میں نہ اتر جاۓ ۔ آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ روہنی کہنے لگی ۔ ابھی رگھو کی بدروح یہاں نہیں پہنچی ۔ ہمیں کنوئیں میں اتر کر اس کا جائزہ
لینا ہوگا۔
میں نے روہنی کو صاف کہہ دیا کہ میں اس آسیب زدہ کنوئیں میں اس کے ساتھ نہیں جاؤں گا جہاں ایک سانپ بھی رہتا ہے۔ روہنی نے مجھے سمجھاتے ہوۓ کہا۔ ”میں تمہارے ساتھ ہوں پھر تم کیوں ڈرتے ہو ؟ کیا پہلے کبھی تمہیں کچھ ہوا ہے جو اب ہوگا۔ اور پھر ہم تو غائب ہیں ۔ ہمیں کوئی چیز کیسے نقصان پہنچا سکتی ہے ۔" میں جانتا تھا کہ مجھے روہنی کے ساتھ کنوئیں میں اترنا ہی پڑے گا۔ میں خاموش ہو گیا۔
روہنی مجھے ساتھ لے کر اندھے کنوئیں میں اتر گئی۔ ہم اس طرح کنوئیں میں نہیں اتر رہے تھے جس طرح آدمی رسی کی مدد سے کسی کنوئیں میں اترتا ہے۔ ہم کنوئیں کے بالکل درمیان میں سے ہو کر اس طرح نیچے جار ہے تھے جس طرح روئی کا ہلکا پھلکا گالا آہستہ آہستہ نیچے جارہا ہو۔
کنوئیں میں جیسے جیسے ہم نیچے اتر رہے تھے اندھیرا گہرا ہوتا جارہا تھا۔ اس اندھیرے میں صرف ہم غیبی حالت میں ہی تھوڑا بہت دیکھ سکتے تھے ۔ کنواں اتنا گہرا تھا کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آتا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے ہم کسی بڑے قطر والے پائپ کے اندر اتر رہے ہیں ۔ سانپ کی آواز آنا بند ہو گئی تھی۔ اس قسم کے موقعوں پر مجھے روہنی نے بات کرنے سے منع کر رکھا تھا۔ اس لئے میں اس سے پوچھ بھی نہیں سکتا تھا کہ ہم کنوئیں میں اتر رہے ہیں یا زمین کے اندر جارہے ہیں۔
میں نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا۔ پہلے کنوئیں کے دھانے پر روشنی کا دائرہ دکھائی دیتا تھا مگر اب وہ اتنا دھندلا ہو گیا تھا کہ ہمیں بھی بڑی مشکل سے نظر آتا تھا جن کی نگایں غائب ہو جانے کے بعد تیز ہو جاتی تھیں ۔
روہنی نے میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ اچانک ایک جگہ پہنچنے پر ایسی آواز آنے لگی جیسے دور کسی بند کوٹھڑی میں کوئی بچہ رو رہا ہو ۔ میں ڈر کر روہنی کے ساتھ لگ گیا۔ یہ آواز غائب ہوئی تو ایک دم سے دس بارہ سانپوں کی دل ہلا دینے والی پھنکار میں سنائی دینے لگیں۔ مجھے کنوئیں کی گول زنگ آلود دیوار پر گئی سانپ ادھر ادھر رینگتے نظر آۓ۔ میں نے خوف سے آنکھیں بند کر لیں ۔ روہنی نے آہستہ سے سرگوشی میں کہا۔ "ڈرو مت یہ ہمیں کچھ نہیں کہیں گے۔
ہم تھوڑا اور نیچے گئے تو سانپوں کی آوازیں خاموش ہو گئیں اور اس کے ساتھ ہی میرے قدم کنوئیں کی تہہ سے لگ گئے ۔ کنوئیں کی تبہ لجلجی تھی۔ مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے میں نے کسی بہت بڑی چھپکلی کے اوپر پاؤں رکھ دیئے ہوں۔ میں آتا کبھی نہیں ڈرتا تھا جتنا خوف مجھے اس وقت محسوس ہوا۔اندھیرے میں ہمیں کنوئیں کی گول دیوار دھندلی اور سرمئی رنگ کی نظر آرہی تھی۔ میں نے تہہ کی طرف دیکھا۔ ۔ دیکھ کر میری جان ہوا ہو گئی کہ کنوئیں کی تہہ جہاں ہم کھڑے تھے دلدل کی طرح اوپر نیچے ہونے لگی تھی ۔ میں نے روہنی کا بازو پکڑ لیا۔
اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ میں کس قدر خوف محسوس کر رہا ہوں۔ اس نے سرگوشی میں مجھے ہلکی سی سرزنش کرتے ہوۓ کہا۔ ” کیا ہو گیا ہے تمہیں شیروان ؟‘‘ میں نے لرزتی ہوئی سرگوشی میں کہا۔’’ مجھے کنوئیں کی تہہ نیچے کھینچ رہی ہے ۔‘‘ روہنی نے کہا۔’’یہ تمہارا وہم ہے۔ اپنا دل مضبوط رکھو۔“ میں نے دل میں کلمہ پڑھنا شروع کر دیا۔ اس کے فورا بعد جیسے کنوئیں کی تہہ ساکت ہو گئی اور میرا ڈر خوف دور ہو گیا۔ روہنی جھک کر کنوئیں کی دیوار کی زنگ آلود اکھڑی ہوئی اینٹوں کے درمیان پڑے ہوۓ چھوٹے بڑے شگافوں کو غور سے دیکھ رہی تھی۔
یہ اندھا کنوئیں واقعی چڑیلوں کا مسکن لگتا تھا۔ ایک تو یہ تین سو سال پرانا تھا۔ دوسرے اس کی دیواروں میں گڑھے پڑے ہوۓ تھے اور جگہ جگہ جنگلی بیلیں اگی ہوئی تھیں ۔
دیوار کے ایک شگاف کے پاس روہنی کچھ زیادہ دیر تک رکی رہی۔ وہ اس اندھے کنوئیں میں جو بھی سراغ رسانی کر رہی تھی مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ میں سہمی ہوئی نظروں سے ارد گرد یہ دیکھ رہا تھا کہ کوئی سانپ تو میری طرف نہیں بڑھ رہا۔ یہ کنواں دس پندرہ فٹ گولائی میں تھا اور کئی جگہوں پر گلے سڑے کوڑے کرکٹ کی ڈھیریاں پڑی ہوئی تھیں۔ کنوئیں کی تہہ جہاں ہم کھڑے تھے بے حد تاریک تھی اور مجھے بھی چیزیں بڑے غور سے دیکھنے کے بعد دکھائی دے رہی تھیں حالانکہ غیبی حالت میں مجھے گہری سے گہری تاریکی میں بھی چیزیں صاف نظر آ جاتی تھیں۔
روہنی ابھی تک گول دیوار کے شگاف سے باہر نکلی ہوئی اینٹوں کو بڑے غور سے جھک کر دیکھ رہی تھی۔ پھر اس نے ایک نوکیلی اینٹ پر آہستہ سے ہاتھ پھیرا تو ہلکی سی گڑگڑاہٹ کی آواز سنائی دی۔ پھر اس نے ایک جھٹکے کے ساتھ اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا جیسے اسے کسی
جگہ سے بجلی کے کرنٹ کا جھٹکا لگا ہو۔ میں نے سرگوشی میں پوچھا۔
”روہنی . . . . روہنی نے فورا میرے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ یہ وہی ہاتھ تھا جو وہ شگاف کی نوکیلی اینٹ پر پھیر رہی تھی۔ اس ہاتھ میں سے جلے ہوۓ انسانی گوشت کی بو آرہی تھی۔ میں روہنی سے بہت کچھ کا پوچھنا چاہتا تھا مگر یہ ہو نہیں سکتا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ ہاتھ کو کسی چیز کا جھٹکا لگنے کے بعد روہنی بھی ڈر گئی ہے ۔ اس نے مجھے بازو سے پکڑا اور ہم کنوئیں میں اوپر کو اٹھنے لگے۔
کنوئیں میں اترتے وقت ہماری رفتار بہت ہی ہلکی تھی لیکن کنوئیں سے باہر جاتے وقت ہماری رفتار تیز ہو گئی تھی۔ ہمیں اپنے نیچے سانپوں کی پھنکاریں سنائی دے رہی تھیں۔ یہ پھنکاریں آدھے کنوئیں تک ہمارے پیچھے آئیں پھر صرف ایک سانپ کی سیٹی کی آواز رہ گئی۔ اس آواز نے کچھ اوپر تک ہمارا پیچھا کیا پھر یہ آواز بھی خاموش ہو گئی۔ اوپر سے کنوئیں کے دہانے پر ان کی روشنی کچھ مدھم پڑ گئی تھی۔ ہم کنوئیں سے باہر نکلے تو معلوم ہوا کہ باہر آسمان بادلوں سے ڈھک چکا تھا اور کالی گھٹائیں چھا رہی تھیں ۔ ان کی وجہ سے دن کی روشنی مدھم پڑ گئی تھی۔
کنوئیں سے باہر نکلنے کے بعد جب روہنی نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا تو میں نے اس سے پوچھا۔ ”تمہیں دیوار کے شگاف میں کچھ نظر آیا تھا کیا ؟“ روہنی نے آہستہ سے کہا۔’’ مجھے کچھ نظر نہیں آیا تھا۔‘‘ میں نے کہا۔” پھر تم نے جلدی سے اپنا ہاتھ پیچھے کیوں کر لیا تھا؟‘‘ روہنی نے کہا۔ " تم بہت سوال پوچھنے لگے ہو ۔ یہ عادت ٹھیک نہیں۔"
میں خاموش ہو گیا۔ اتنے میں بارش شروع ہو گئی۔ ہم چونکہ غائب تھے اس لئے ہم بارش میں بھیگ نہیں سکتے تھے۔ روہنی میرے ساتھ تھی اور ہم زمین سے کوئی تین فٹ بلند ہو کر جارہے تھے مگر ہم چل نہیں رہے تھے بلکہ فضا میں تیر رہے تھے ۔ عام زندگی میں تو شاید آپ کو کبھی اس کا تجربہ نہ ہوا ہو لیکن خواب میں آپ نے ضرور کبھی نہ کبھی اس طرح فضا میں تیرنے کا تجربہ کیا ہوگا۔ ہم واپس ویران شمشان گھاٹ پر آ گئے۔ روہنی نے مجھ سے کہا۔
”تم یہیں روکو ۔۔ میں وہیں فضا میں رک گیا۔ میرے اندر کوئی موٹر انجن نہیں لگا ہوا تھا کہ جس کی بریک لگا کر میں رک جاتا تھا۔ میں جب غائب ہو جاتا تھا تو صرف اپنے ارادے سے پرواز کرنے یا فضا میں تیر نے لگ جاتا تھا اور اپنے ارادے سے ہی فضا میں رک جاتا تھا۔ میرا ارادہ ہی میرا موٹر انجن اور اس موٹر انجن کی بریک تھی۔ میں روہنی کو دیکھ رہا تھا۔ اس نے ویران شمشان گھاٹ کے شکستہ چبوترے کے ارد گرد دو تین چکر لگائے اور واپس میرے پاس آکر ٹھہر گئی۔
اس وقت بارش تیز ہو گئی تھی اور اس کا شور سنائی دینے لگا تھا۔ روہنی نے شمشان گھاٹ کی بائیں جانب نگاہ ڈالتے ہوۓ کہا۔’’وہ سامنے ایک کوٹھڑی نظر آرہی ہے۔ میرے ساتھ آؤ۔‘‘ ہم کوٹھڑی کی طرف بڑھے ۔ کوٹھڑی وہاں سے چند قدموں کے فاصلے پر تھی۔ کوٹھڑی کے در و دیوار سے لگ رہا تھا کہ یہ تین سو برس پرانی کوٹھڑی کا کھنڈر ہے ۔ اس کی ٹوٹی پھوٹی چار دیواری کا رنگ دھوپ اور بارشوں سے سیاہ پڑ چکا تھا۔ دروازہ غائب تھا اس کی جگہ ایک تنگ راستہ اندر جانے کے لئے رہ گیا تھا۔ ہم کوٹھڑی کے اندر چلے گئے ۔
کوٹھڑی میں کوئی کھٹڑکی ، کوئی روشندان نہیں تھا۔ تنگ دروازے میں سے ابر آلود دن کی جو مدھم سی روشنی اندر آرہی تھی وہ کوٹھڑی کے اندھیرے میں جذب ہو رہی تھی اور سواۓ دروازے کی چوکھٹ کے کوٹھڑی میں ہر طرف تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ روہنی نے مجھے سرگوشی کرتے ہوۓ کہا۔’’ آج سے تین سو سال پہلے یہاں مردے جلانے والے رہا کرتے تھے۔“
اس کے جواب میں ، روہنی نے کچھ نہ کہا۔ میں اس آسیبی کوٹھڑی سے باہر نکل جانا چاہتا تھا مگر روہنی کے ساتھ رہنے پر مجبور تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ اس پر ظاہر ہو کہ میں خوف محسوس کر رہا ہوں ۔ حالانکہ پہلے میں نے بھی اتنا خوف محسوس نہیں کیا تھا۔ پتہ نہیں اس وقت میں ایسا کیوں محسوس کرنے لگا تھا۔ روہنی کوٹھڑی کے کونے کی طرف گئی۔ اندھیرے میں مجھے وہاں کونے میں مٹی کا ایک بڑا مٹ نظر آ رہا تھا جس کے اوپر کسی نے پتھر کی سل رکھ دی تھی۔

مٹی کا یہ مٹ ایسا تھا جیسا کہ پرانے زمانے میں لوگ دیہات میں اناج رکھنے کے لئے گھروں میں استعمال کرتے تھے۔ روہنی نے مٹ کے اوپر رکھی ہوئی سل کو ایک طرف ہٹایا۔ معلوم نہیں اس وقت اسے کیا محسوس ہوا ہوگا لیکن مجھے اپنے چہرے پر بائیں رخسار پر کسی کا گرم سانس محسوس ہوا۔ پھر مجھے ایسے لگا جیسے کسی نے میری گردن پر اپنے گیلے لجلجے ہونٹ رکھ دیئے ہوں۔ میں اتنا ڈر گیا کہ چیخ مار کر کوٹھڑی سے بھاگ اٹھا۔ اور شمشان گھاٹ کے چبوترے کے پاس آ کر سہمی ہوئی آنکھوں سے کوٹھڑی کی طرف دیکھنے لگا
کہ کوئی آسیبی شے تو میرے پیچھے نہیں آ رہی۔ میں نے روہنی کو فضا میں تیرتے ہوۓ اپنی طرف آتے دیکھا۔ بارش ہو رہی تھی۔

روہنی میرے پاس آکر ایک لمحے کے لئے رکی۔ اس نے بڑی سختی سے میرا بازو پکڑا اور مجھے اپنے ساتھ اڑاتے ہوۓ وہاں سے شہر کی طرف لے گئی۔ وہ بڑی تیزی سے اڑ رہی تھی اور چند سیکنڈ میں متھرا شہر میں آگئی۔ سامنے ایک پرانے مندر کی اونچی دیوار تھی جس کے اوپر ایک درخت جھکا ہوا تھا۔ درخت کے گرد مٹی کا چبوترہ بنا ہوا تھا۔ اس وقت وہاں کوئی نہیں تھا۔ روہنی مجھے لے کر وہاں بیٹھ گئی۔ اس نے ڈانٹے ہوۓ کہا۔ تم چیخ مار کر وہاں سے کیوں بھاگے تھے ؟“

پُراسرار حویلی - پارٹ 16

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں