سیاہ رات ایک سچی کہانی - دوسرا حصہ

 

سیاہ رات ایک سچی کہانی - دوسرا حصہ

روحان ایک جھٹکے کے ساتھ اس سے الگ ہوا اور خود کو نہ سمبھالتے ہوئے بیڈ سے نیچے فرش پر جا گرا،،،
دڑام کی آواز سے عنائزہ نے آنکھیں کھولیں اپنے ساتھ روحان کو نہ پا کر وہ اٹھ کر بیٹھی جب اس کی نظر فرش پہ گرے ہوئے روحان پر پڑی،،،
روحان کو پھر سے ڈرتا دیکھ کر عنائزہ کو برا لگا ،،،
روحان جلدی سے اٹھ کر بیٹھا اور سہما ہوا اس کی طرف دیکھنے لگا کل رات عنائزہ کا اس کے ساتھ جو رویہ تھا اب وہ اس سے مزید ڈرنے لگا تھا،،،
نیچے کیا کر رہے ہو ٹھنڈ لگ جائے گی ادھر آکر لیٹو،،، عنائزہ نے اسے گھوری سے نوازتے ہوئے کہا

روحان نے اپنا سر نفی میں ہلایا،،،
کیا،،، عنائزہ نے ایک گھوری مزید روحان کی پیشِ خدمت کی
وہ روحان کی آنکھوں میں ڈر دیکھ سکتی تھی،،،
اچھا ادھر آکر لیٹو ٹھنڈ لگ جائے گی اور تمہیں بخار بھی ہے،،، اس بار وہ نرمی سے بولی تھی
اس کا نرم لہجا دیکھ کر روحان آہستہ سے اٹھا اور بیڈ کے بلکل کونے میں لگ کر کمفرٹر لیے دبک گیا،،،
عنائزہ اس کی اس حرکت پر غصے سے اٹھی اور فریش ہونے کے لیے واشروم چلی گئی،،،
روحان نے اس کے قدموں کی آواز سنی تو کمفرٹر سے ایک سبز آنکھ نکال کر اس کی طرف دیکھا تبھی عنائزہ اپنے کپڑے لینے کے لیے باہر نکلی اس کی نظر روحان کی نظر سے ٹکرائی،،،
اس نے جلدی سے اپنا چہرہ کمفرٹر میں چھپایا اور دوبارہ ایسی حرکت کرنے سے توبہ کر لی،،،
اس کے ڈرنے کی وجہ سے عنائزہ کو غصہ آرہا تھا وہ وارڈ ڈروب سے ڈریس نکالتی ہوئی واپس واش روم چلی گئی،،،


عقیلہ کچن میں کھڑی ناشتہ بنا رہی تھی جب عنائزہ وہاں پہنچی،،،
ناشتے میں کیا بنا رہی ہو،،، اس نے عقیلہ سے سوال کیا
روحان بابا کو تو فرائی انڈہ، ٹوز اور چائے دوں گی آپ نے کیا کھانا ہے بتا دیں،،،
میرے لیے بھی یہی بنا دو،،، عنائزہ بولی
جی اچھا،،، عقیلہ نے جواب دیا
اتنا بڑا گھر ہے یہ اور یہاں کیا بس روحان کے ساتھ اس کی دادو ہی رہتی تھیں،،، عنائزہ گھر کو دیکھتے ہوئے بولی وہ واقع ہی ایک خوبصورت اور بڑا گھر تھا
جی،،، عقیلہ نے مختصر جواب دیا
تم سے میں نے پہلے بھی روحان کی فیملی کے بارے میں پوچھا تھا تب بھی تم نے مجھے نہیں بتایا،،، عنائزہ کو اس کا جواب نہ دینا برا لگا
بیگم صاحبہ بڑی بیگم صاحبہ نے ہم سے وعدہ لیا تھا کہ ہم کبھی بھی روحان بابا کے ماں باپ کا ذکر اس گھر میں نہیں کریں گے اور نہ ہی وہ خود ان کا ذکر کرتی تھیں،،،

اچھا ایسی کیا بات ہے کہ کوئی ان کا ذکر ہی نہیں کرنا چاہتا،،، عنائزہ نے بات کو کریدا
ناشتہ بن گیا ہے میں روحان بابا کو دے کر آتی ہوں،،، عقیلہ نے ناشتے کی ٹرے اٹھائی
رہنے دو میں خود لے کر جاؤں گی تم میرا ناشتہ بھی رکھ دو اس میں،،، عنائزہ چِڑ کر بولی
عقیلہ نے ایک بڑی ٹرے اٹھائی جس میں روحان کے ساتھ عنائزہ کا بھی ناشتہ رکھا اور اسے پکڑایا،،،
عنائزہ ٹرے تھامتی ہوئی سیڑھیاں چڑھنے لگی،،،
وہ کمرے میں داخل ہوئی تو روحان واش روم میں تھا،،،
عنائزہ نے ناشتہ ٹیبل پر رکھا اور اس کے باہر آنے کا انتظار کرنے لگی،،،
روحان اپنے کپڑے لینا بھول گیا تھا اب وہ پریشان ہونے لگا کہ باہر کیسے جائے اسے آہٹ سے شک ہو گیا تھا کہ عنائزہ کمرے میں موجود ہے،،،
اس نے واشروم کا دروازہ اتنا کھولا کہ ایک آنکھ سے باہر دیکھا جا سکے،،،
وہ دروازے میں آنکھ لگائے دیکھ رہا تھا کہ عنائزہ کمرے میں ہے یا نہیں،،،
عنائزہ صوفے پر بیٹھی اس کا انتظار کر رہی تھی روحان نے تیزی سے دروازہ بند کیا،،،

روحان جلدی آجاؤ باہر ناشتہ ٹھنڈا ہو رہا ہے،،، دروازہ بند ہونے کی آواز سے اسے معلوم ہوا کہ روحان نے اسے دیکھا ہے
روحان پریشان سا اندر کھڑا رہا کہ اب کیا کرے ایک کپڑے نہ ہونے کی پریشانی دوسرا عنائزہ کے ہونے کا ڈر،،،
وہ کھڑا ابھی سوچ ہی رہا تھا جب عنائزہ کی دوسری بار آواز اس کے کانوں میں پڑی،،،
روحان باہر آؤ،،،
اب نہ جانے کیا ہو گا اس ڈر سے روحان کانپنے لگا،،،
مزید دو منٹ گزرنے پر بھی جب روحان باہر نہ آیا تو عنائزہ اٹھ کر واش روم کے پاس آئی،،،
روحان تم اب بھی اگر باہر نہ آئے تو میں اندر آجاؤں گی،،، وہ دروازے کے پاس ہوتی بولی
روحان نے دروازے کا لاک چیک کیا جو اس نے لگایا ہوا تھا وہ سوچنے لگا کہ لاک تو لگا ہے پھر عنائزہ اندر داخل نہیں ہو سکتی اس نے دل میں شکر ادا کیا،،،
روحان میرے پاس واش روم کی دوسری چابی ہے اگر تم ایک منٹ کے اندر اندر باہر نہ آئے تو پھر دیکھنا میں خود اندر آجاؤں گی،،،
عنائزہ کے پاس کوئی چابی نہیں تھی اس نے یہ جھوٹ روحان کو باہر نکالنے کے لیے بولا تھا،،،

اس کی چابی والی بات سن کر روحان کے پاؤں تلے سے زمین نکلی وہ دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھا اور ڈرنے لگا،،،
ایک،،
دو،،،
تین،،،
جیسے جیسے عنائزہ کاؤنٹنگ کر رہی تھی ویسے ویسے روحان کا خوف بڑھتا جا رہا تھا،،،
عنائزہ کاؤنٹنگ کرتے کرتے انسٹھ پر پہنچی جب واش روم کا لاک کھلا مگر دروازہ ابھی بھی بند تھا،،،
عنائزہ نے دروازہ دھکیلا تو اس کی طرف کمر کیے ہوئے دیوار کے ساتھ چپک کر کھڑے روحان کو دیکھا،،،
روحان نے اپنے جسم پر دو ٹاول لپیٹے ہوئے تھے ایک جو اس کے سینے اور کمر کو ڈھانپے ہوئے تھا دوسرا جو اس نے ٹانگوں کے گرد باندھا تھا،،،
عنائزہ کو اسے یوں دیکھ کر حیرت ہوئی،،،
اتنا تو لڑکیاں بھی نہیں شرماتیں جتنا تم شرما رہے ہو،،، عنائزہ نے تنز کیا
وہ وارڈ ڈراب کی طرف گئی اور روحان کے لیے پینٹ شرٹ نکالی،،،
یہ لو اور پہن کر ابھی باہر آنا،،، وہ اس کی طرف کپڑے بڑھاتے ہوئے بولی
روحان کا کانپتا ہوا ہاتھ اس کی طرف بڑھا اور تیزی سے کپڑے پکڑ کر اس نے دروازہ بند کیا،،،
عنائزہ واپس صوفے پر آکر بیٹھی،،،
روحان باہر نکلا تو عنائزہ نے اس کی طرف دیکھا،،،
سنہری بال جن سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھی، سبز آنکھوں پہ بھیگی کالی پلکوں کی جھالر، وہ مبہوت سی اس کی طرف دیکھنے لگی،،،
روحان اس کی نظروں سے مزید گھبرانے لگا اس نے صوفے پر بیٹھنے کی جرأت نہ کی اور وہیں جم کر کھڑا رہا،،،
آؤ ادھر ناشتہ کریں،،، عنائزہ نے اس کی طرف سے دھیان ہٹایا
روحان بغیر جواب دیے خاموشی سے کھڑا رہا،،،
آؤ بھی،،، وہ پھر سے بولی
روحان نے آہستہ سے نفی میں سر ہلایا،،،
تم آرہے ہو کہ نہیں،،، عنائزہ کا لہجہ تلخ ہوا
ابھی ایک سیکنڈ بھی نہ گزرا تھا کہ روحان کہ آنکھوں سے آنسو گرنے لگے، عنائزہ حیرت زدہ اسے دیکھتی رہ گئی،،،
روحان ادھر آؤ ناشتہ کر لو ورنہ بخار مکمل طور پر نہیں ختم ہو گا،،،
اس بار وہ پیار سے بولی تھی جیسے کسی روٹھے ہوئے بچے کو منایا جائے
روحان نے کن اکھیوں سے عنائزہ کی طرف دیکھا اور مردہ قدموں سے صوفے پر آکر بیٹھا،،،

عنائزہ نے اپنے اور اس کے درمیان ٹرے رکھی اور اسے ناشتہ کرنے کو کہا،،،
وہ پہلے ہی اس سے خوفزدہ تھا اس کے سامنے کھانا کیسے کھاتا،،،
عنائزہ نے ناشتہ شروع کیا مگر روحان ویسے ہی بیٹھا رہا،،،
بھوک نہیں ہے کیا،،، عنائزہ نے سوال کیا
روحان نے مثبت میں سر ہلایا،،،
تو شروع کرو ناشتہ ایسے کیوں بیٹھے ہو،،،
روحان نے کوئی ردِعمل نہ کیا،،،
عنائزہ نے ٹوز کا نوالہ بنا کر روحان کی طرف بڑھایا،،،
روحان نے ایک نظر نوالے کو دیکھا پھر ایک نظر عنائزہ کی طرف دیکھا،،،
منہ کھولو،،، وہ نرمی سے بولی
آہستہ سے لب کھلے اور عنائزہ نے اس کے منہ میں نوالا ڈالا
جب وہ نوالا چبا رہا تھا عنائزہ اس کی طرف دیکھنے لگی،،،
باریک سرخ لب جیسے جیسے گردش کرتے اسے کے ہونٹ کا نچلا تل بھی وہی عمل دوہراتا،،،
عنائزہ کے ذہن میں ایسے ویسے خیالات آنے لگے پھر جلد ہی اپنے ذہن کو جھٹکا اور ناشتہ کرنے لگی،،،
روحان بھی کپکپاتے ہاتھوں سے ناشتے میں مصروف ہوا،،،


آج سنو فالنگ نہیں ہو رہی تھی اسی لیے دوپہر کے وقت شفیق لان میں بیٹھا پودوں کی کانٹ چھانٹ کر رہا تھا جب عنائزہ کوٹ کی پاکٹس میں ہاتھ ڈالتی ہوئی اس کے پاس آئی،،،
اس نے ایک بیل سے سفید پھول توڑا،،، یہ کونسے پودے ہیں میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے، اس نے شفیق سے پوچھا
بیگم صاحبہ آپ پاکستان سے آئی ہیں نا اس لیے آپ کو ان کے بارے میں نہیں معلوم یہ یہاں کے مہنگے ترین پودے ہیں بڑی بیگم صاحبہ نے لگوائے تھے ان کو پودوں کا بڑا ہی شوق تھا،،،
ہممم،،، عنائزہ نے کہا
کب نیو یارک میں سیٹل ہوئی تھیں آپ کی بیگم صحابہ ،،، اس نے پھر اندر کی بات جاننا چاہی
روحان بابا کی پیدائش کے بعد سے ہی وہ یہاں آگئی اور ہم ان کے پرانے نوکر ہیں ہمارے باپ دادا بھی ان کے ہاں کام کرتے رہے ہیں اسی لیے وہ ہمیں بھی اپنے ساتھ لے آئیں،،،
اچھاااا،،، اور روحان کے ماں باپ اس وقت کہاں ہیں،،، وہ اسی موضوع پر آئی
مجھے اور عقیلہ کو مارکیٹ جانا ہے گھر کا بہت سا ضروری سامان ختم کو چکا ہے،،، اس نے کہتے ہوئے عقیلہ کو آواز لگائی
عنائزہ نے اس کے بات بدلنے پر دانت پیسے،،،
اندر کی کہانی تو میں بھی پتہ لگا کر ہی رہوں گی،،، اس نے دل میں کہا
عقیلہ چادر لیے شفیق کے پاس آئی،،،
ہاں ہاں چلو،،، اس نے جواب دیا

بیگم صاحبہ ہم بس ایک دو گھنٹوں میں واپس آجائیں گے آپ روحان،،،
ہاں ہاں خیال رکھوں گی بے فکر رہو،،، عنائزہ نے اس کی بات کو ٹوکا
عقیلہ منہ بسورتی ہوئی شفیق کے ساتھ چل دی،،،
عنائزہ واپس گھر میں داخل ہوئی اور سبھی کمروں کو چیک کرنے لگی،،،
آج کچھ تو پتہ لگا کر رہوں گی،، اس نے دو تین کمرے چیک کیے سبھی لاکڈ تھے،،،
افف یہ چابیاں پتہ نہیں کہاں ہیں،،،
ہاں عقیلہ کے کمرے میں ہوں گی،،، وہ بھاگتی ہوئی عقیلہ کے کمرے میں پہنچی
بستر دراز اور الماریاں چیک کرنے پر بھی اسے چابیاں نہ ملیں
شِٹ میں یہ موقع ہاتھ سے نہیں گنوا سکتی،،،
اس نے پھر سے ہمت پکڑی اور ایک ایک چیز دھیان سے دیکھنے لگی کہ اسے "چھن" کی آواز آئی
یہ کیا ہے،،، خود کلامی کرتے ہوئے اس نے ایک چھوٹا سا باکس نکالا
وہ کافی پرانا لگ رہا تھا عنائزہ نے اسے کھولا تو چابیوں کا ایک گچھا ملا
خوشی سے اس کی آنکھیں چمکیں وہ ہر چیز کو اپنی جگہ پر سیٹ کرتی ہوئی کمرے سے باہر نکلی،،،

گھر کے چار کمرے بند تھے وہ ایک ایک کمرے کا لاک کھولتی چیک کرتی گئی وہ تین کمرے دیکھ چکی تھی جن میں سوائے فرنیچر کے کچھ نہ تھا،،،
اس نے چوتھے کمرے کا لاک کھولا اور اندر داخل ہوئی،،،
کمرے کی تمام چیزیں سفید کپڑے سے ڈھانپی گئی تھیں اور بیڈ سے اوپر ایک بڑی سی تصویر لگی تھی،،،
دھول مٹی کی وجہ سے عنائزہ کو تصویر میں کچھ نظر نہ آیا اس نے بیڈ سے کپڑا ہٹایا اور اوپر چڑھ کر تصویر اتاری،،،
وہ اسی سفید کپڑے سے تصویر کو جھاڑنے لگی دھول اڑنے کی وجہ سے وہ کھانسنے لگی،،،
مکمل طور پر صاف کرنے کے بعد اس کی نظریں اس تصویر پر جمی کی جمی ہی رہ گئیں ،،،
وہ تقریباً 23 سالہ جوان لڑکی تھی، کمر تک آتے سنہری بال، بڑی سبز آنکھیں، سرخ و سفید اور باریک ہونٹوں کے نیچے دائیں جانب سیاہ تل،،،
خوبصورت بے حد خوبصورت،،، عنائزہ نے زیرِلب کہا
وہ اسے دیکھتے ہی پہچان گئی کہ یہ روحان کی ماں ہے اسی لیے روحان بلکل اپنی ماں سے مشابہت رکھتا ہے،،،

تصویر کے کونے پر "مریم جمال رانا " لکھا تھا،،،
عنائزہ نے وہ تصویر کو بیڈ پر رکھا اور سائیڈ ٹیبل کے دراز کھولنے لگی،،،
دونوں دروازوں سے کچھ نہ ملا پھر تیز قدموں سے ڈریسنگ ٹیبل کی طرف بڑھی،،،
پہلا دراز کھولتے ہی اس کی نظر ایک کتاب پر پڑی اس نے باہر نکال کر اسے صاف کیا،،،
اوہ تو یہ ایک ڈائری ہے،،، اس نے خود کلامی کی
عنائزہ نے وہ ڈائری اپنے دوپٹے میں چھپائی اور تصویر کو دیوار پر لگاتے ہوئے کمرہ لاک کر کے باہر نکلی،،،
اس نے عقیلہ کے کمرے میں جا کر اسی باکس میں چابیاں رکھیں اور اپنے کمرے کا رخ کیا،،،
وہ کمرے میں آئی تو روحان میگزین پر سر جھکائے بیٹھا تھا،،،
تم میگزین بھی پڑھ لیتے ہو میں تو سمجھی ڈرنے اور رونے کے سوا کوئی کام نہیں تمہیں،،،
عنائزہ نے روحان پر خوب تنز کیا
روحان پیج پلٹ رہا تھا کہ اس کے آنے سے سہم گیا اس کا ہاتھ ابھی تک پیج پکڑے وہیں پر ہی ٹکا ہوا تھا،،،
عنائزہ نے روحان کی اس حرکت تو دیکھا تو تنز سے سر ایک طرف جھٹکا،،،
میڈیسن لے لی تھی تم نے،،،
روحان نے نفی میں سر ہلایا،،،

کس خوشی میں،،، عنائزہ نے پھر سے تنز کیا
بیڈ پر بیٹھ کر اس نے چپکے سے ڈائری تکیے کے نیچے رکھی،،،
روحان عنائزہ کی طرف کمر کیے بیٹھ گیا عنائزہ کو یہ دیکھ کر تپ چڑھی،،،
کیا کوئی چڑیل ہوں میں جو تمہیں کھا جاؤں گی،،، اس نے اونچی آواز میں کہا
روحان کے جسم میں خوف سے کپکپی طاری ہوئی،،، یہ چیز عنائزہ نے نوٹ کی
ادھر میری طرف رخ کرو،،،
روحان بغیر ردِعمل کیے بیٹھا رہا

روحان میں کیا کہہ رہی ہوں،،، عنائزہ بولی
روحان اس کی بات کان پیچھے پھینکتے ہوئے اٹھا اور کمرے سے باہر نکل گیا،،،
اوہ میرے خدایا یہ کس قسم کے انسان کی تو نے مجھے بیوی بنا دیا،،، اس نے اپنا ماتھا پیٹا
رات کا اندھیرا چھا چکا تھا عنائزہ کی گلاس وال پر نظر پڑی تو عقیلہ اور شفیق گھر آرہے تھے،،،


رات کا کھانا عنائزہ نے ٹیبل پر کھایا تھا اور روحان کے لیے کمرے میں بھجوا دیا تھا،،،
وہ کمرے میں داخل ہوئی تو روحان میڈیسنز لے رہا تھا،،،
رکو میں دیتی ہوں،،، وہ میٹھی زبان بولی
روحان نے چور نظر سے اس کی طرف دیکھا مگر خاموش رہا،،،
عنائزہ نے اسے میڈیسنز نکال کر دیں جو کہ پکڑتے ہوئے روحان کے ہاتھ ڈر سے کانپنے لگے تھے عنائزہ نے دل ہی دل میں اسے کھری کھری سنائیں مگر زبان سے کچھ نہ بولی،،،
وہ بستر پر اپنی جگہ آ کر بیٹھی اور روحان کمفرٹر میں دبک گیا،،،
پل ہی میں وہ گہری نیند سو چکا تھا عنائزہ نے اسے میڈیسنز میں نیند کی ٹیبلیٹ دے دی تھی،،،
اس نے روحان کو غور سے دیکھا وہ واقع ہی سو رہا تھا پھر اس نے تکیے کے نیچے سے ڈائری نکال کر کھولی،،،

سیاہ رات ایک سچی کہانی (قسط نمبر 3)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں