سیاہ رات ایک سچی کہانی - تیسرا حصہ

  

سیاہ رات ایک سچی کہانی - تیسرا حصہ

عنائزہ نے ڈائری کھولی تو پہلے ہی ورق پر پوری فیملی کی تصویر تھی،،،
اس نے پر نفس کو غور سے دیکھا اسے یہ تصویر کسی تقریب کی لگ رہی تھی،،،
پھر اس نے ورق بدلا اور مریم کی کہانی سامنے آئی اور وہ دلچسپی سے پڑھنے لگی
ماضی
1991-10-1
پوری ہویلی مہمانوں سے بھری ہے چار سو خوشیوں کا سما ہے،،،
آج میں "مریم جمال رانا" اپنے چچا زاد "ارسم کمال رانا" سے منگنی کے رشتے میں منسلک ہونے جا رہی ہوں،،،
ہائے رے میری پیاری سی انار کلی آج تو آپ کو آپ کے خوابوں کا شہزادہ سلیم مل ہی گیا،،، اٹھارہ سالہ شہزادی نے مریم کو چھیڑا

شہزادی چھوٹی ہو چھوٹی رہو اور ویسے بھی تم تو ایسے کہہ رہی ہو جیسے آج ہی میری شادی ہونے والی ہے،،، مریم نے اسے پیار سے ڈانٹا
ہائے کاش آج آپ کی شادی ہوتی میں نے تو خوب ناچنا تھا بلکل پارو کی طرح یوں یوں کر کے،،، وہ ڈانس سٹیپ کرتے ہوئے مریم کو بتا رہی تھی
شرم کرو امی جان آ گئی نا تو تمہارا سارا ناچنا نکال کر رکھ دیں گی،،، اس نے شہزادی کے ڈانس سٹیپ کی طرح انگلی گھمائی
او ہو آپی ایک تو آپ مجھے دو پل ڈھنگ خوش بھی نہیں ہونے دیتی آپ تو جانتی ہیں نا مجھے ناچنے کا کتنا شوق ہے،،،

اچھا چھا ناچ لینا میری شادی پر ابھی جاؤ اور دیکھو مہمان آگئے ہیں کیا،،، مریم کا مطلب ارسم کی طرف تھا
اوووو،، تو ارسم بھائی کا انتظار کیا جا رہا ہے،،، اس نے بتیسی نکالی
شہزادی اب تم نے اور بکواس کی نا تو جان نکال لوں گی تمہاری،،، مریم اسے مارنے کے لیے اپنے آس پاس کوئی چیز ڈھونڈنے لگی
بس بس ناراض تو مت ہوں جا رہی ہوں دیکھنے،،، وہ مٹک مٹک کر چلتی باہر نکل گئی


اوئے شفیق سب کام ہو گیا ہے کچھ رہ تو نہیں گیا نا،،، کمال صاحب نے آواز لگائی
نہیں صاحب جی سارے کام ہو گئے ہیں،،، شفیق نے جواب دیا
عقیلہ دیکھو زرا ارسم اور راحیل کہاں رہ گئے ہیں دیر ہو رہی ہے،،، دردانہ بیگم نے عقیلہ کو آواز لگائی
بیگم صاحبہ راحیل صاحب جی تو کسی کام سے ابھی ابھی باہر نکلے ہیں اور چھوٹے صاحب جی اپنے کمرے میں ہیں،،،
ایک تو یہ لڑکا تیار ہونے میں اتنا وقت کیوں لگاتا ہے،،، دردانہ بیگم ارسم کے کمرے کی طرف چلنے لگیں
ارسم ڈریسنگ کے آگے کھڑا خود پر پرفیوم چھڑک رہا تھا جب دردانہ بیگم کمرے میں داخل ہوئیں،،،
ہائے میرا لال میرا چاند کا ٹکڑا ماں صدقے جائے کتنا پیارا لگ رہا ہے،،، دردانہ بیگم نے شیشے سے اسے دیکھتے ہوئے ہاتھوں سے اس کی نظر اتاری
ارسم نے اپنا رخ ان کی طرف کیا،،،
گھنے کالے بال جو اوپر کی طرف ٹکائے گئے تھے، موٹی آنکھیں، درمیانے سائز کے ہونٹوں کے اوپر باریک کالی مونچھیں جن کی نوکیں اس کی شخصیت کو دگنا کر رہی تھیں، سفید لٹھے کا سوٹ اور سیاہ کھیڑی پہنے وہ چھبیس سال کا جوان بہت پر کشش لگ رہا تھا،،،
ارے امی آپ کیوں آگئیں میں نکل ہی رہا تھا،،، ارسم نے اپنی مونچھ کو بل دیتے ہوئے کہا

مجھے پتہ ہے تمہارا جب تک میں تمہارے کمرے میں نہ آؤں تم باہر نکلنے کا نام ہی نہیں لیتے،،،
ارے چلیں ابھی نکل جاتے ہیں باہر اور ٹائم دیکھیں ذرا آپ کی باتوں میں ہم لیٹ ہو گئے،،، اس نے سارا الزام دردانہ بیگم پر لگایا
کیا کہا میری وجہ سے،،، دردانہ بیگم نے ارسم کا کان کھینچا
امی چھوڑیں نا درد ہو رہا ہے،،، ارسم منہ کے زاویے بگاڑتا ہوا بولا
تم ہر بار میرے ساتھ ایسے کرتے ہو آج بتا دیر کس کی وجہ سے ہوئی،،، وہ مسکراتی ہوئی بولیں
میری وجہ سے ہوئی اب چھوڑیں نا،،، ارسم کے بولتے ہی دردانہ بیگم نے اس کا کان چھوڑا
لو تم ماں پتر یہاں کھیلیں کھیل لو زرا وقت دیکھو کیا ہو گیا ہے بھئی میں تو جا رہا ہوں جس کو آنا ہوا آجائے،،، کمال صاحب ہر بار کی طرح یہی دھمکی دیتے ہوئے چل دیے

دردانہ بیگم اور ارسم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر ہنسی دبائی کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ کمال صاحب باہر گاڑی کے پاس کھڑے ہو کر ان کا انتظار کریں گے
ماں بیٹا حویلی کے گیٹ سے باہر نکلے تو کمال صاحب واقع ہی اس بار بھی گاڑی کے پاس کھڑے ان کے آنے کا انتظار کر رہے تھے،،،
ایک گاڑی گیٹ کے پاس آکر رکی جس میں سے راحیل باہر نکلا، وہ خوش اخلاق اور خوش شکل لڑکا تھا تھوڑا سانولا رنگ مگر پرکشش موٹی آنکھیں ، سلم چہرے کے ساتھ ہلکی سی تیکھی ٹھوڑی، اوپر والا ہونٹ نیچے والے ہونٹ سے قدرے باریک تھا،،،،

ارسم کی نسبت اس کے خیالات ذرا ماڈرن قسم کے تھے جیسے کہ ارسم قمیض شلوار پہنتا تھا اور راحیل پینٹ شرٹ پہننا پسند کرتا تھا ارسم کو گاؤں میں رہنا ہی پسند تھا اور راحیل شہر کو پسند کرتا تھا، ارسم تھوڑا سنجیدہ اور بارعب تھا اور راحیل نٹ کھٹ شرارتی سا تھا،،،

راحیل دردانہ بیگم کی بہن فرزانہ کا بیٹا تھا، جب راحیل دس سال کا تھا فرزانہ اور اس کا شوہر ایک کار ایکسیڈنٹ میں وفات پا گئے تب سے ہی راحیل دردانہ بیگم کے گھر رہ رہا تھا کوئی بھی ارسم اور راحیل میں فرق نہ کرتا اور ارسم تو راحیل پر جان چھڑکتا تھا، ارسم راحیل سے دو سال بڑا تھا تو یوں راحیل چوبیس سال کا ہوا،،،
شکر کر تو بھی آگیا ورنہ آج تیرے بغیر ہی میں نے ارسم کی منگنی کر دینی تھی،، کمال صاحب نے راحیل کو کہا

خالو جان ذرا ارسم بھائی سے تو پوچھ لیں میرے بغیر وہ منگنی کر بھی لے گا یا نہیں،،، راحیل ارسم کی بگل میں جا کر کھڑا ہوا
تو تو جان ہے میری تیرے بغیر تو میں کھانا نہیں کھاتا مگنی تو دور کی بات ہے،،، ارسم نے راحیل کے بالوں میں ہاتھ پھیرا
ارے بھائی کیا کر رہے ہیں اتنا اچھا ہیر سٹائل خراب کریں گے آپ،،، راحیل کی بات پر ارسم مسکرانے لگا

ہمیشہ تم دونوں کی وجہ سے مجھے دیر ہو جاتی ہے اب باتیں ختم ہو گئیں ہوں تو چلیں،،، کمال صاحب نے تنز کیا
ہاں ہاں کیوں نہیں،،، راحیل بولتا ہوا گاڑی میں بیٹھا اور اس کے ساتھ ارسم بیٹھ گیا،،
کمال صاحب اور دردانہ بیگم الگ گاڑی میں بیٹھے اور ڈرائیور نے گاڑی سٹارٹ کی،،،
ان کے پیچھے کھڑی مہمانوں کی پانچ گاڑیاں بھی سٹارٹ ہوئیں،،،


ہر بار کی طرح کمال آج بھی آدھا گھنٹہ لیٹ ہے،،، جمال صاحب نے ہاتھ پہ بندھی گھڑی پر ٹائم دیکھتے ہوئے کہا،
او ہو رانا صاحب آپ کو معلوم تو ہے کمال بھائی آپ کی طرح وقت کے پابند نہیں ہیں آتے ہوں گے راستے میں ہی،،، صفیہ بیگم بولیں
مگر آج کی بات اور ہے آج تو جلدی آ جاتا بس ابھی آجائے اس کی دیکھنا کیسی خاطر تواضح کرتا ہوں،،، جمال صاحب نے اپنی موٹی لمبی مونچھوں کو بل دیا
تبھی حویلی سے کمال صاحب اپنے خاندان کے ساتھ داخل ہوئے،،،
میرا بھائی،،، جمال صاحب خوشی سے بازو پھیلاتے ہوئے اس کی طرف بڑھے
صفیہ بیگم نے اپنی ہنسی دبائی کیوں کہ آج بھی ہر بار کی طرح جمال صاحب کا غصہ کمال صاحب کو دیکھتے ہی ٹھنڈا ہو گیا تھا،،،
ویسے تو جمال صاحب کمال صاحب سے بڑے تھے لیکن ان دونوں کی شادی ایک ہی دن ہوئی تھی،،،

شادی کے ایک سال بعد کمال کے گھر ارسم پیدا ہوا اور جمال کے گھر چار سال تک اولاد نہ ہوئی اور پانچ سال بعد مریم پیدا ہوئی جس وجہ سے وہ ارسم سے چار سال چھوٹی تھی،،،
جب مریم چار سال کی ہوئی تو صفیہ بیگم کو اللہ نے ایک اور بیٹی سے نوازا جس کا نام انہوں نے شہزادی رکھا،،،
شہزادی بھاگتی ہوئی مریم کے کمرے میں داخل ہوئی،،،
آپی آپی چچی جان اور چچا جان آگئے ہیں،،، وہ خوشی سے کھلکھلا رہی تھی
کیا ارسم آگئے،،، مریم کا دل زوروں سے دھڑکنے لگا
اچھا شہزادی بتاؤ میں کیسی لگ رہی ہوں،، مریم کرسی سے اٹھی اور خود کو شیشے میں دیکھنے لگی،،،
پیروں تک آتی سبز اور گلابی رنگ کی فراک گلابی دوپٹہ سر پر ٹکائے ہوئے، سبز آنکھوں میں کاجل اور باریک چھوٹے ہونٹوں پر ہلکی سی لپ سٹک لگائے وہ پھر بھی اپسرا لگ رہی تھی،،،

ارے آپی آپ تو کمال لگ رہی ہیں فکر ہی نہ کریں ارسم بھائی تو ویسے بھی آپ پر پہلے سے ہی فدا ہیں،،، وہ بتیسی نکالتی ہوئی اسے پھر سے چھیڑنے لگی تھی
چپ کر شہزادی ورنہ،،،
اچھا بھئی میں چپ،،، شہزادی نے اس کی بات ٹوک دی ۔۔۔


عنائزہ کی آنکھیں اس کے کانوں میں گونجنے والی ایک میٹھی دھن کی وجہ سے کھلی تھیں،،،
اس نے سائیڈ ٹیبل پر پڑے کلاک سے ٹائم دیکھا تو صبح کے سات بج رہے تھے،،،
وہ آنکھوں کو مسلتی ہوئی اٹھی اور گلاس وال کی طرف دیکھا آج نارمل سی سنو فالنگ ہو رہی تھی،،،،
عنائزہ کو ابھی بھی وہ دھن سنائی دے رہی تھی وہ اٹھ کر گلاس وال کے پاس کھڑی ہوئی،،،

ایک شخص وائٹ اوور کوٹ پہنے سر پر ہڈی لیے جنگل کی شروعات میں جہاں دخت قدرے فاصلے پر تھے، لکڑی کے بینچ پر بیٹھا سیلیو (cello) بجا رہا تھا،،،
اس کی دھن عنائزہ کے دل کو چھونے لگی، اس نے گرم شال اٹھا کر کندھوں پر لی اور سر پر کیپ پہنے باہر کی جانب چل دی،،،
وہ تیز تیز قدموں سے چل رہی تھی اس شخص کو دیکھنے کی جستجو نہ جانے کیوں اس کے دل میں جاگ اٹھی تھی،،،
گیٹ سے باہر نکل کر دس بارہ قدموں کے فاصلے پر وہ اس شخص کے پیچھے چپکے سے کھڑی ہو گئی،،،

ہلکی ننھی برف اس شخص کے اوپر پڑی سفید پھولوں کی مانند لگ رہی تھی، عنائزہ نے آنکھیں بند کیں اور اس کی دھن کو محسوس کرنے لگی،،،
ایک احساس ایک درد تھا جو کہ وہ شخص لفظوں کی بجائے اس دھن کے ذریعے اپنے اندر کا حال بیان کر رہا تھا،،،
کچھ دیر تک عنائزہ یوں ہی آنکھیں بند کیے سکون سے دھن سے سنتی کھڑی رہی کہ دھن کی آواز بند ہوئی،،،
عنائزہ نے آنکھیں کھولیں تو روحان سہما ہوا اس کی طرف دیکھ رہا تھا،،،
کیا یہی وہ شخص تھا،،، عنائزہ نے دل میں سوال کیا اور پھر روحان کے ہاتھوں کو دیکھا وہ ایک ہاتھ میں سیلیو پکڑے کھڑا تھا،،،
عنائزہ کے دل کو ٹھیس لگی کاش وہ شخص بھی عام انسانوں کی طرح ہوتا جو اس سے ڈرنے کی بجائے اس سے محبت کرتا،،، وہ اسے بنا کچھ کہے مڑی اور گھر میں داخل ہو گئی،،،


دوپہر ہو چکی تھی مگر عنائزہ نے آج روحان کے ساتھ ایک لفظ بھی بات نہیں کی تھی،،،
وہ چور نظروں سے عنائزہ کو دیکھتا رہا اسے معلوم ہو چکا تھا کہ کوئی بات ہے جس کی وجہ سے وہ آج خاموش ہے مگر اس سے خود پوچھنے کی روحان میں ہمت نہ تھی،،،
عنائزہ کو آج اپنے پاپا کی بہت یاد آرہی تھی جب سے وہ یہاں آئی تھی انہوں نے ایک بار بھی کال نہیں کی تھی،،،
ایک تو انہوں نے اس قسم کے انسان کے ساتھ عنائزہ کو باندھ دیا تھا جو اس سے بات تک نہیں کرتا تھا دوسرا انہوں نے خود بھی رابطہ نہ کیا،،،
وہ لاؤنج میں صوفے سے ٹیک لگائے بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی کہ رات کو لیٹ سونے کی وجہ سے اس پر نیند کا غلبہ طاری ہوا،،،
روحان نے کمرے کا دروازہ کھول کر عنائزہ کو دیکھا تو اسے سوتا پایا،،،
وہ آس پاس نظریں پھیرتا بے آواز قدموں سے ایک ایک سیڑھی اترتا ہوا صوفے کے قریب کھڑا ہوا اور اسے دیکھنے لگا،،،

اسے وہ سوئی ہوئی بہت خوبصورت لگ رہی تھی اس وقت روحان کو اس کے سوئے ہوئے ہونے کی وجہ سے ڈر بھی نہیں لگ رہا تھا،،،
وہ خوبصورت سبز آنکھوں سے اسے دیکھنے میں مصروف تھا،،،
وہ آج پہلی بار اسے غور سے دیکھ رہا تھا، اس نے عنائزہ کی گھنی اور اوپر کی جانب مڑی ہوئی پلکوں کو دیکھا پھر اس کی پتلی ناک کو پھر اس کے گول شیپ کے پنک ہونٹوں کو دیکھنے لگا،،،
وہ اس کے قریب چہرہ کیے دیکھ رہا تھا کہ عنائزہ نے اپنی آنکھیں کھولیں،،،
روحان اچانک ڈر کر پیچھے ہوا اور معصوم سا بنا سیڑھیوں کا رخ کر گیا،،،
عنائزہ اس کی حرکت پر اسے حیرت سے دیکھتی رہی،،،


عنائزہ وارڈ ڈروب میں کپڑوں کی سیٹنگ کر رہی تھی جب کمرے کا دروازہ کھٹکا،،،
آجائیں،،، عنائزہ بولی
بیگم صاحبہ آپ کا کھانا ٹیبل پر لگا دیا ہے،،، عقیلہ ہاتھ میں روحان کا کھانا لیے کمرے میں داخل ہوئی
عنائزہ نے پیچھے مڑ کر اس کی طرف دیکھا پھر روحان کی طرف، وہ سہما ہوا سر نیچے جھکائے بیٹھا تھا،،،
روحان کا کھانا لے جاؤ آج وہ ٹیبل پہ کھانا کھائے گا،،، عنائزہ نے کہا تو عقیلہ اور روحان دونوں نے ہی تیزی سے اس کی طرف دیکھا
جی مگر روحان بابا نے کبھی ٹیبل پر کھانا نہیں کھایا،،،
تو کوئی بات نہیں آج کھا لے،،، وہ لا پرواہی سے بولی
روحان کو جان کے لالے پڑے یہ سوچ سوچ کر کہ وہ کیسے باہر کھلِ عام بیٹھ کر عنائزہ کے ساتھ کھانا کھائے گا،،،
عقیلہ دروازہ بند کرتے ہوئے چلی گئی،،،
اٹھو روحان ہمیں نیچے ٹیبل پر جانا ہے،،، عنائزہ اب اپنے کام سے فارغ ہو چکی تھی
روحان بغیر کوئی ردِعمل کے خاموش بیٹھا رہا،،،
روحان،،

اس کے دوبارہ پکارنے پر روحان نے آہستہ سے سبز آنکھیں اٹھا کر عنائزہ کی طرف دیکھا،،،
چلو،،، اس نے باہر کی طرف اشارہ کیا
روحان نے نفی میں سر ہلایا،،، عنائزہ نے آنکھیں کھولے اس کی طرف دیکھا
تم اٹھتے ہو یا میں آکر زبردستی اٹھاؤں،،، اس نے دھمکی لگائی
روحان ڈرتا سہما بیڈ سے اٹھ کر کھڑا ہوا،،، اس نے اپنی شکل بلکل کسی ناراض بچے کی طرح بنا لی تھی
عنائزہ باہر نکلی اور وہ بھی آہستہ سے اس کے پیچھے چلنے لگا،،،
ٹیبل پر پہنچ کر عنائزہ کرسی کھسکائے بیٹھی اور روحان اس سے دور سب سے آخر والی کرسی پر بیٹھ گیا،،،
اففف،،، عنائزہ کو اس کا ڈرنا غصہ دلاتا تھا

وہ خود ہی اٹھ کر روحان کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئی،،،
روحان کی آنکھیں اسے اپنے اتنا قریب بیٹھتے دیکھ کر خوف سے پھیلیں،،،
عنائزہ نے اس کی اس حرکت کو نظر اندار کیا اور کھانا ڈالنے لگی،،،
اس نے ایک پلیٹ روحان کی طرف بڑھائی اور ایک اپنے سامنے رکھی،،،
عنائزہ نے کھانا شروع کیا اور روحان ابھی تک ویسے ہی بت بنا بیٹھا رہا،،،
دو منٹ تک روحان کو ویسے ہی بیٹھا دیکھ کر عنائزہ نے ضبط سے آنکھیں بند کیں،،،
کھانا کیوں نہیں کھا رہے،،، اس نے تلخ لہجے میں پوچھا
روحان پریشان سا خاموش بیٹھا رہا،،،
عنائزہ نے نوالہ بنا کر اس کی طرف بڑھایا،،، روحان نے سہمی ہوئی نظروں سے اس کی طرف دیکھا
عنائزہ نے اپنے چہرے کے تاثرات نرم کیے تو روحان نے اس کے ہاتھ سے نوالا کھا لیا
نوالا کھاتے وقت روحان کے ہونٹ عنائزہ کی انگلیوں کو چھو گئے،،،
ایک احساس اس کے اندر جاگا مگر اس نے جلد ہی اپنا دھیان کھانے میں لگایا،،،
اب روحان آرام سے کھانا کھا رہا تھا، عنائزہ کی نظر اس کے نچلے ہونٹ کے تل کے دل پر پڑی جو کھانے کے وجہ سے آئلی ہو چکا تھا،،،
اس نے اپنے ہاتھ کے انگوٹھے سے اس کا ہونٹ صاف کیا تو روحان کا چلتا منہ بند ہوا،،،

وہ ہاتھ میں نوالا لیے بت بنا بیٹھا رہا،،،
کھانا کھاؤ،،، عنائزہ نرمی سے بولی
روحان بمشکل حلق سے نوالا اتار اور پانی پینے لگا،،،
عقیلہ نے کچن سے روحان کی طرف دیکھا، وہ اسے دیکھ کر خوش ہوئی آج پہلی بار وہ کمرے سے باہر ٹیبل پر بیٹھ کر کھانا کھا رہا تھا،،،
کھانا ختم ہونے کے بعد عنائزہ اٹھی اور روحان وہیں بیٹھا رہا،،،
ہر بات کہہ کر کروانی ضروری ہے کیا،،، اس کا لہجہ سنجیدہ تھا
روحان اس کی بات کا مطلب سمجھتے ہوئے اٹھا اور اس کے ساتھ کمرے کی طرف چلنے لگا،،،
عقیلہ ٹیبل سے برتن اٹھانے لگی، وہ مسکراتے ہوئے روحان اور عنائزہ کو سیڑھیاں چڑھتا ہوا دیکھنے لگی،،،


لیٹنے کے کچھ دیر بعد روحان نیند کی وادی میں گم ہو گیا مگر عنائزہ ابھی بھی جاگ رہی تھی،،،
اس نے لیمپ آن کیا اور تکیے تلے سے ڈائری نکالی،،،
ماضی
1991-10-15
آج میری شادی کو ایک ہفتہ رہ گیا ہے ساری تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں،،، شہزادی کی تو خوشی کی حد نہیں وہ تو ناچنے کی تیاری میں کھانا پینا سب کچھ بھول چکی ہے،،،
راحیل "جمال رانا ہویلی" میں داخل ہوا،،،
صفیہ بیگم کے ساتھ مریم اور شہزادی برامدے میں بیٹھی کڑھائی کر رہی تھیں،،،
السلام علیکم چچی جان،،،
اس کو اچانک دیکھ کر شہزادی چونک اٹھی،،،
ارے راحیل تم کب آئے،،، صفیہ بیگم اسے یوں اچانک آتا دیکھ کر حیران ہوئی
بس چچی جان آپ کی یاد بہت ستا رہی تھی تو سوچا یہ کون سا بڑی بات ہے ابھی دیدار کر آتا ہوں،،، اس کا اشارہ شہزادی کی طرف تھا
آہ،،، اس کی معنی خیز بات سے شہزادی کے ہاتھ میں سوئی چبھ گئی، راحیل کی نظریں تیزی سے اس کی طرف اٹھیں
کیا ہو گیا ہے شہزادی دھیان کدھر ہے تمہارا،،، صفیہ بیگم نے کہا
ک۔۔کہیں نہیں امی جان اچانک ہو گیا،،،
اچھا جاؤ راحیل کے لیے چائے بنا کر لاؤ،،، صفیہ بیگم نے کہا تو شہزادی اٹھ کر کچن کی جانب بڑھی

اور بھابھی جان کیسے مزاج ہیں آپ کے،،، وہ بتیسی دکھاتا ہوا بولا
ٹھیک ہوں تم بتاؤ کیسے ہو،، مریم اس کے انداز پر مسکرانےگی
ارے میں تو آپ کے سامنے ہوں،،، اس نے بازو پھیلائے
کبھی سنجیدہ بھی ہو جایا کر ایسی ہی حرکتیں کرتے رہے تو کسی نے اپنی بیٹی نہیں دینی،،، صفیہ بیگم مسکراتے ہوئے بولیں
ارے چچی جان چھوڑیں آپ لڑکیاں بہت ہیں،،، اس نے کچن کی کھڑکی کی طرف کن اکھیوں سے دیکھا جہاں شہزادی چائے بناتی ہوئی اسے دکھائی دے رہی تھی،،،
اَسْتَغْفِرُ اللّٰه‎،،، بڑے بدلیحاظ ہو راحیل میں لگاتی ہوں دردانہ آپا کو تمہاری شکایت
ارے ارے چچی جان کیسی باتیں کر رہی ہیں مجھ سا معصوم بھی بھلا آپ نے کہیں دیکھا ہو گا،،،
وہ بہانے سے اٹھ کر صفیہ بیگم کی چارپائی پر بیٹھا اور ان کے کندھے دبانے لگا،،،
اسی دوران اس نے مریم کی طرف ایک کاغذ کا ٹکڑا پھینکا اور اشارے سے "ارسم بھائی" کہا

مریم نے اسے اپنے دوپٹے کے نیچے چھپایا اور چارپائی سے اٹھ کر اپنے کمرے کی جانب چل دی،،،
چل ہٹ شرارتی،،، صفیہ بیگم نے اس کے ہاتھ پر تھپکی لگائی
مریم نے کمرے میں آکر کاغذ کا ٹکڑا کھولا
"آج رات گیارہ بجے تمہارے گھر کی چھت پر تمہارا انتظار کروں گا آنا ضرور"
تمہارا ارسم،،
مریم کا دل دھڑکنے لگا وہ آج تک ارسم سے اکیلے میں نہیں ملی تھی،،،
اسی ہفتے ان کی شادی تھی پھر ارسم کو ملنے کی کیا ضرورت آن پڑی،،، وہ پریشان سی سوچنے لگی اس کے لیے اکیلے میں ملنا اتنا آسان نہ تھا


رات کے گیارہ بجے مریم نے ایک نظر سوئی ہوئی شہزادی کی طرف دیکھا پھر بے آواز اٹھنے کی کوشش کی،،،
اسے اپنے ہاتھ پاؤں کانپتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے اس طرح کا کام وہ پہلی بار کرنے چلی تھی،،،
کمرے سے نکل کر اس نے پوری ہویلی میں نظر دوڑائی ہر طرف سناٹا چھایا تھا،،، ایک بار تو مریم پر خوف طاری ہونے لگا پھر ہمت کرتے ہوئے سیڑھیوں کی جانب بڑھی،،،
ہویلی کی چھت کافی وسیع تھی مریم پہنچ کر ارسم کو تلاشنے لگی،،،
اسے دور کونے میں ارسم دکھائی دیا وہ اسے اشارے سے پاس بلا رہا تھا،،،
مریم کانپتے ہوئے جسم کے ساتھ اس کے پاس پہنچی،،،
ارسم،،، اس نے پکارا
ارسم اس کے پاس آکر کھڑا ہوا،،،
اس نے مریم کو غور سے دیکھا،،

سنہری کمر تک آتے بال چاند کی روشنی میں چمک رہے تھے سفید دودھ جیسی رنگت سبز خوبصورت آنکھیں ہونٹ کے نیچے سیاہ تل،،، وہ اسے دیکھتا ہی رہ گیا
مجھے معلوم تھا کہ تمہارے لیے یہ مشکل ہے مگر پھر بھی یقین تھا تم آؤ گی،،، وہ مسکرایا
مگر آپ اس طرح میرے گھر کیوں آئے ایسی کیا بات ہے،،،
بات بس یہ ہے کہ پورا ایک ہفتہ میں تمہیں دیکھے بغیر نہیں گزار سکتا مریم،،،
مریم نے شرم نے چہرہ جھکایا،،،
ا۔۔ارسم آپ کو ایسے نہیں آنا چاہیے تھا،،،
کیا کروں دل کے ہاتھوں مجبور تھا،،،
مریم،، اس نے پکارا
جی،،، جواب ملا

ہم نے کبھی ایک دوسرے کو کچھ کہا نہیں آج تک صرف آنکھوں کی زبان سے ہی بات کی ہے،،،
میں آج سننا چاہتا ہوں تمہارے منہ سے کہ تم کتنا چاہتی ہو مجھے،،،
شرم سے مریم کا چہرہ لال گلابی ہونے لگا
ا۔۔ارسم آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں،،، وہ بمشکل بول پائی تھی
عادت ڈال لو شادی کے بعد صرف باتیں ہی نہیں کروں گا،،، ارسم کی بات پر مریم نے چھم چھم کرتی چوڑیوں والے ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپایا،،، اس کی اس ادا پر ارسم مسکرانے لگا
ابھی سے شرما گئی،،،
ارسم ا۔۔ایسے مت کہیں نا ورنہ میں واپس چلی جاؤں گی،،، اس نے ابھی تک اپنے ہاتھ چہرے سے ہٹائے نہیں تھے
ٹھیک ہے بس ایک بار کہہ دو تمہیں مجھ سے محبت ہے،،، ارسم نے ابھی بھی موضوع نہیں بدلا تھا
ا۔۔۔ارسم،،،

مریم کا دل چاہ رہا تھا وہ کہیں ایسی جگہ چھپ جائے جہاں ارسم اسے دیکھ نہ پائے
ارسم اس کے شرمانے پر مسکرانے لگا،،،
اچھا بابا جا رہا ہوں میں ہٹا لو ہاتھ،،،
نہیں پہلے آپ جائیں پھر میں اپنے چہرے سے ہاتھ ہٹاؤں گی،،،
ٹھیک ہے جیسے تم کہو،،، وہ مسکراتا ہوا وہاں سے چلا گیا
ارسم آپ چلے گئے،،، مریم کے ہاتھ ابھی بھی اس کے چہرے پر تھے
ا۔۔ارسم،،،
ارسم کا جواب نہ ملنے پر اس نے اپنے چہرے سے ہاتھ ہٹائے تو وہ جا چکا تھا مریم نے دل پر ہاتھ رکھ کے شکر ادا کیا،،،
وہ نیچے جانے کے لیے مڑی تو اسی سائے کو چھت پر پایا،،، مریم کے پاؤں وہیں جم گئے

اس نے اپنی سبز آنکھیں آس پاس گھما کر دیکھا اسے نظر نہیں آیا کہ وہ شخص کہاں کھڑا ہے جو اس کا سایہ ہویلی کی چھت پر پڑ رہا ہے،،،
سائے نے تھوڑی حرکت کی تو مریم نے اپنے منہ پر چینخ نکل جانے کے ڈر سے ہاتھ رکھا،،،
اس سائے نے پھر سے وہی اشارہ کیا
اپنی شہادت والی انگلی اٹھائی پھر ہاتھ سینے پر رکھا،،،
ایک رات کا وقت دوسرا وہ سایہ،،، مریم کے لیے اب اپنے پاؤں پر کھڑے ہونا بھی مشکل لگ رہا تھا
وہ سایہ اپنی بات کر کے غائب ہوا تو مریم بنا وقت ضائع کیے نیچے بھاگ گئی،،،


عنائزہ ڈائری پڑھتے پڑھتے خوفزدہ ہونے لگی تو اس نے ڈائری بند کر کے تکیے تلے رکھی،،،
اس نے روحان کی طرف دیکھا وہ اس کی طرف کمر کیے ہوئے لیٹا تھا، عنائزہ کچھ دیر تک اسے دیکھتی رہی پھر کھسک کر اس کے قریب ہوئی،،،
اس نے آہستہ سے روحان کو کندھے سے پکڑ کر سیدھا کیا،،، وہ ابھی بھی گہری نیند میں تھا
عنائزہ ہاتھ پر سر ٹکائے اسے دیکھنے لگی،،،
تم کتنے خوبصورت ہو بلکل اپنی ماں کی طرح،،،
اور سوتے ہوئے تو اور بھی خوبصورت لگتے ہو بے عیب صورت بے عیب سیرت،،، وہ دل میں اس سے باتیں کر رہی تھی
جس وقت تم پر سکون ہوتے ہو اس وقت مجھے تم سے محبت کا احساس ہوتا ہے جیسے اس وقت،،، اس نے روحان کے دل پر ہاتھ رکھا جو دھک دھک کر رہا تھا
اس کی نظر پھر سے روحان کے ہونٹ کے تل پر پڑی بے ساختہ اس کا ہاتھ اس کے ہونٹوں کی طرف بڑھا،،،
اس نے ایک انگلی سے اس چھوٹے سیاہ تل کو چھوا،
پھر اس نے روحان کی بند آنکھوں کو دیکھا،،،
وہ آہستہ سے اپنا چہرہ اس کے چہرے کے قریب لائی اور نہایت نرمی سے اس کے تل کو چوم لیا،،،
اس دوران اس کے ہونٹوں نے روحان کے نچلے لب کو بھی چھو لیا تھا،،،
روحان کی نیند میں خلل پیدا ہوا تو وہ اس سے پیچھے ہو کر لیٹ گئی،،،
نیند میں روحان نے عنائزہ کی طرف رخ کیا اور اس کی گردن میں چہرہ چھپا لیا،،،
عنائزہ کی دھڑکن اتنی زور شور پہ تھی کہ اس کی سماعت اپنے دل کی دھڑکن کو سن سکتی تھی،،،

سیاہ رات ایک سچی کہانی (قسط نمبر 4)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں