سیاہ رات ایک سچی کہانی - چوتھا حصہ

سیاہ رات ایک سچی کہانی - چوتھا حصہ

بیگم صاحبہ آج یکم ہے روحان بابا کا ہر پہلی تاریخ پر ڈاکٹر سے چیک اپ ہوتا ہے،،، عنائزہ کچن میں آئی تو عقیلہ نے اسے بتایا
کس چیز کا چیک اپ،،، عنائزہ نے پانی کا گلاس بھر کر ہونٹوں سے لگایا
جی وہ روحان بابا کو جو بیماری ہے اس کا،،، عقیلہ سر جھکائے بولی
ہممم کتنے بجے جانا ہے،،،

جی جانا کہیں نہیں ہے ڈاکٹر یہاں آئے گا،،،
لیکن آج ڈاکٹر یہاں نہیں آئے گا بلکہ روحان خود ڈاکٹر کے پاس جائے گا،،، وہ گلاس شیلف پہ رکھتے ہوئے کچن سے باہر نکلی
مگر،،،
عنائزہ اس کی بات سنے بغیر کچن سے باہر نکل گئی،،،
وہ کمرے میں داخل ہوئی تو روحان وارڈ ڈروب سے اپنے لیے ڈریس دیکھ رہا تھا، اس نے ایک سادہ سی پینٹ شرٹ نکال کر ہاتھ میں پکڑی،،،
کیا کر رہے ہو،،، عنائزہ نے دیکھنے کے باوجود پوچھا
روحان نے پیچھے مڑ کر عنائزہ کی طرف دیکھنے کی جرأت نہ کی اور بڑے آرام سے واش روم کی جانب چلنے لگا،،،

رکو،،، عنائزہ اس کی دیدہ دلیری پر حیران تھی
روحان کے قدم رکے،،،
عنائزہ اس کے قریب آ کر کھڑی ہوئی اور اس کے ہاتھ سے ڈریس پکڑا،،،
روحان خاموش کھڑا رہا،،،
عنائزہ نے وارڈ ڈروب سے کچھ ڈریسز نکال کر دیکھے، اس نے بلیو شرٹ اور بلیک پینٹ نکال کر وارڈ ڈروب کو بند کیا،،،

یہ لو،،، اس نے روحان کے ہاتھ میں ڈریس تھمایا
ہم آج باہر جا رہے ہیں تمہیں ڈاکٹر کے پاس کے کر جانا ہے،،،
باہر جانے کا سنتے ہی روحان کی سبز آنکھیں خوف سے پھیلنے لگیں،،،
کیا ہوا،،، عنائزہ اسے گھورنے کے انداز میں دیکھا
روحان خاموش رہا مگر عنائزہ کے بدلتے تیور دیکھ کر وہ خوفزدہ ہونے لگا،،،
اور تم میری بات کا جواب کیوں نہیں دیتے ایک ہفتہ ہونے والا ہے مجھے یہاں آئے اور شادی کی پہلی اور منہوس رات کو ہی بس تمہاری آواز سنی تھی اس کے بعد آج تک تمہیں بولتے نہیں دیکھا،،، عنائزہ کو اس کا ڈرنا پھر سے غصہ دلا گیا تھا
روحان اسے یوں غصے میں بولتا دیکھ کر دو قدم پیچھے ہٹا،،،
عنائزہ اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر انگلیوں سے مسلنے لگی،،،
اوکے جاؤ اب کھڑے کیوں ہو،،، وہ بغیر اس کی طرف دیکھتے بولی
روحان جلدی سے واش روم گھس گیا اور وہ بیڈ پر بیٹھی اپنی قسمت پہ افسوس کرنے لگی،،،
ایک یہی نمونہ بچا تھا میرے لیے،،، وہ زیرِلب بڑبڑائی


عنائزہ کے ساتھ ڈاکٹر روحان کے کمرے میں داخل ہوا تو روحان اسے دیکھتے ہی خوفزدہ ہونے لگا،،،
ہیلو روحان کیسے ہو،،، ڈاکٹر پیار سے بولا
روحان بیڈ سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا، اس کا جسم کانپ رہا تھا،،،
عنائزہ اسے دیکھ کر پریشان ہونے لگی،،،
روحان یہ وہی ڈاکٹر ہیں جو ہر ماہ تمہارا چیک اپ کرتے ہیں پہلے بھی کرواتے ہو نا ان سے چیک اپ تو آج بھی کروا لو،،،
روحان نے نفی میں سر ہلایا،،،
روحان ادھر آکر بیٹھو آرام سے،،، عنائزہ کو پھر سے غصہ آنے لگا تھا
وہ کانپتا ہوا لگاتار نفی میں سر ہلانے لگا، وہ آہستہ آواز میں نہیں نہیں بول رہا تھا،،،
عنائزہ اس کے پاس جانے لگی تو روحان بھاگ کر صوفے کے پیچھے چھپا اور رونے لگا،،،

عنائزہ کو اپنی شادی کی پہلی رات یاد آئی جب وہ اسی طرح اس سے چھپ کر صوفے کے پیچھے بیٹھا رو رہا تھا،،،
وہ اب صحیح معنوں میں پریشان ہوئی تھی،،،
روحان،،، وہ نہایت پیار سے بولی
روحان نے بھیگی پلکیں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا،،،
میں ہوں نا تمہیں ڈاکٹر کچھ نہیں کریں گے،،،
روحان نے نظریں نیچے کیں اور موٹے موٹے آنسو اس کی آنکھوں سے پھسل رہے تھے،،،

عنائزہ نے اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا،،،
روحان آجاؤ،،،
روحان کپکپاتا ہوا اسے دیکھتا رہا
میری خاطر،،، عنائزہ پھر سے پیار سے بولی تھی
اس نے عنائزہ کا ہاتھ تو نہیں پکڑا مگر آہستہ سے صوفے کے پیچھے سے نکل کر کھڑا ہوا،،،
ڈاکٹر اسے دیکھ کر حیران ہوا،،،
بیڈ پر لیٹ جاؤ،،، عنائزہ نے کہا
وہ اپنے ہاتھ کی پشت سے آنسو صاف کرتا ہوا بیڈ پر لیٹ گیا،،،
ڈاکٹر اس کے پاس آیا تو روحان نے زور سے اپنی آنکھیں بھینچ لیں اس کا کپکپاتا جسم اس کے قابو میں نہ تھا،،،
ڈاکٹر نے کچھ دیر لگا کر اس کا چیک اپ کیا اور عنائزہ کو اشارہ کرتا کمرے سے باہر آیا،،،

روحان نے آنکھیں کھولیں اور لمبے لمبے سانس لینے لگا،،،
عنائزہ ڈاکٹر کو گیٹ تک چھوڑنے آئی،،،
ڈاکٹر روحان کی یہ بیماری کب تک ہے میرا مطلب اس کے ٹھیک ہونے کے کتنے پرسینٹ چانسز ہیں،،،
دیکھیے دراصل بات یہ ہے کہ روحان کو یہ بیماری اب کی نہیں بلکہ جب وہ ماں کے پیٹ میں تھا تب سے ہے اس لیے اس کا ختم ہونا آسان نہیں،،،
عنائزہ کو حیرت کا جھٹکا لگا اگر روحان کبھی بھی نارمل نہ ہو سکا تو،،، وہ یہ سوچ کر پریشان ہونے لگی
ہاں ایک بات ہے میں نے اس بار روحان میں کچھ بہتری نوٹ کی ہے جیسے کہ اس نے آپ کی بات مان لی ورنہ مجھے اکثر اسے بے ہوش کر کے اس کا چیک اپ کرنا پڑتا تھا آج پہلی بار اس نے مجھ سے اپنے ہوش و ہواس میں چیک اپ کروایا ہے،،،
اس بیماری میں مریض سے غصے سے ہرگز پیش نہیں آنا چاہیے اس سے پیار سے نرمی سے بات کرنی چاہیے آپ نے بھی نوٹ کیا ہو گا جب تک آپ اسے غصے سے کہتی رہیں اس نے آپ کی بات نہیں مانی اور جیسے ہی آپ نے تھوڑی نرمی برتی تو اس نے آپ کی بات مان لی،،،

تو کیا اگر میں اس کے ساتھ اپنا رویہ نرم رکھوں تو وہ ٹھیک ہو سکتا ہے،،،
بلکل ہو سکتا ہے مگر آپ کو ثابت قدم رہنا ہو گا، کیوں کہ یہ بیماری اتنی آسانی سے جانے والی نہیں ہے،،،
میں پوری کوشش کروں گی،،، عنائزہ نے کہا تو ڈاکر گیٹ سے باہر نکل گیا،،،


عنائزہ رات تک کمرے میں نہ گئی تھی تا کہ روحان خود کو ہینڈل کر سکے،،،
رات کا کھانا اس نے روحان کے کمرے میں بھیج دیا تھا،،،
اور خود ٹیبل پر کھانا کھانے لگی،،،
کھانے سے فارغ ہو کر اس نے ٹائم دیکھا تو آٹھ بج رہے تھے، وہ اپنے کمرے کی جانب چل دی،،،
کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی تو لائٹ آف تھی، اس نے بٹن کی طرف ہاتھ بڑھا کر لائٹ آن کی،،،
روحان سر سے پاؤں تک کمفرٹر میں چھپا ہوا تھا،،،
اس نے کھانے کے برتن دیکھے تو آدھا کھانا کھایا ہوا تھا،،،
عنائزہ نے سائیڈ ٹیبل سے لیمپ آن کیا اور لائٹ آف کی،،،
وہ اپنی جگہ پر لیٹی ہوئی روحان کو دیکھنے لگی،،،
پتہ نہیں یہ سو رہا ہے یا نہیں،،، عنائزہ نے دل میں سوچا
کچھ دیر تک لیٹے رہنے کے بعد جب روحان نے کوئی حرکت نہ کی تو اسے یقین ہوا کہ وہ سو رہا ہے،،،
اس نے تکیے تلے سے ڈائری نکال کر کھولی،،،

ماضی
1993-10-22
آج میری مہندی ہے جمال رانا ہویلی روشنیوں سے جگمگا رہی ہے،،،
گھر مہمانوں سے بھرا ہے،،،
شہزادی ہاتھوں پہ مہندی لگائے پورے گھر میں بھاگتی پھر رہی تھی،،،
ناچ ناچ کر اسے اپنا بھی ہوش نہ رہا تھا،،،
مریم نے پیلے رنگ کی کرتی شلوار پہنی ہوئی تھی،،، سر پر سبز دوپٹہ اوڑھے وہ ہاتھوں پر مہندی لگوا رہی تھی،،،
ارے میری پیاری سی آپی صبح آخر وہ دن آ ہی گیا جس کا آپ کو کب سے انتظار ہے،،، شہزادی بتیسی نکالتی ہوئی اسے چھیڑنے لگی،،،
شہزادی،،، مریم نے اسے آنکھیں دکھائیں کیوں کہ کمرے میں آس پاس ہمسائیوں کی لڑکیاں بھی موجود تھیں،،،
شہزادی نے منہ کو تالا لگایا اور مریم کی مہندی دیکھنے لگی،،،
دلہے کا کیا نام ہے،،،مہندی والی لڑکی نے پوچھا
ارسم،،، مریم سے پہلے شہزادی بولی

اس نے مہندی میں چھپا کر ارسم لکھ دیا،،،
اچانک سے پورے گھر کی لائٹ آف ہو گئی،،،
یہ کیا لائٹ کیسے چلی گئی،،، مریم نے کہا
میں باہر سے لالٹین لے کر آتی ہوں آپی،،، شہزادی کمرے سے باہر نکلی
باہر چاند کی روشنی تھی کمرے میں اندھیرا ہونے کی وجہ سے ایک ایک کر کے سبھی لڑکیاں باہر نکل گئیں،،،
پتہ نہیں شہزادی کہاں رہ گئی،،، مریم اکیلی کمرے میں بیٹھی تھی،،،
اسے کمرے میں کسی کے ہونے کا احساس ہوا،،،
شہزادی،،، اس نے پکارا
آگے سے کوئی جواب نہ ملا
کمرے کا دروازہ بند ہوا مریم چونک گئی،،،
شہزادی یہ تم ہو کیا،،،
آگے سے مکمل خاموشی تھی

د۔۔دیکھو مجھے ابھی بتا دو مجھے ڈر لگ رہا ہے،،،
مریم کا ہاتھ کسی نے پکڑا خوف کی لہریں اس کے جسم میں دوڑنے لگیں،،،
ک۔۔کون ہے،،،
اسے کسی کے سانس لینے کی آواز آرہی تھی،،،
اسے اپنے ہاتھ پر کچھ محسوس ہونے لگا جیسے کوئی اس کے ہاتھ پر کوئی چیز مسل رہا ہو،،،
ک۔۔کون ہے،،،
وہ پھر سے ہمت کر کے بولی
میری (merry)
اس نے سرگوشی میں اس کا نام پکارا،،،
مریم کا جسم کانپنے لگا،،،
ک۔۔کون ہو تم،،،
ششششش،،، آگے سے سرگوشی ہوئی

اب مریم کے لیے واقع ہی ایک لفظ بھی بول پانا نا ممکن تھا،،،
کچھ دیر بعد وہ سایہ مریم سے دور ہو گیا،،،
مریم ابھی بھی سکتے کی حالت میں بیٹھی تھی کہ لائٹ آن ہوئی،،،
کمرے کا دروازہ کھلا تھا مریم نے اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا تو دونوں ہاتھوں کہ مہندی مسلی جا چکی تھی،،،

پھر اس نے پاس پڑے مہندی کے تھال کو دیکھا جس میں سے مہندی اٹھائی گئی تھی، شاید اس نے وہاں سے مہندی لے کر مریم کے ہاتھوں پر مسل دی تھی،،، اب تو ارسم کا لکھا نام بھی پہچانا نہیں جا رہا تھا،،،
اپنے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے مریم کے ہاتھ کانپنے لگے،،،
شہزادی کمرے میں داخل ہوئی،،،
آپی یہ کیا ہوا مہندی کیسے خراب ہوئی،،، وہ حیران ہوئی
پ۔۔پتہ نہیں شہزادی کچھ دنوں سے میرے ساتھ عجیب سی چیزیں ہو رہی ہیں،،، خوف مریم کی آنکھوں سے واضح تھا
کیا مطلب ہے آپ کا،،، شہزادی نے پوچھا
شہزادی رات کو دو بار مجھے کسی کا سایہ دکھائی دیا وہ مجھ سے اشاروں میں کچھ کہہ رہا تھا میں نے کسی کو بتایا نہیں کہ سب پریشان ہو جائیں گے ویسے بھی وہ جو بھی تھا میرے سامنے نہیں آیا تھا مگر،،،
مگر کیا بتائیں،،،

مگر آج وہ میرے سامنے آیا ہے ابھی ت۔۔تھوڑی دیر پہلے جہاں تم بیٹھی ہو وہ بیٹھا تھا اس نے میرے ہاتھوں کو پکڑا تھا اس کی سانسوں کی آواز میں سن سکتی تھی، دیکھو اس نے میری مہندی کا کیا حال کر دیا،،، مریم پریشانی سے رونے لگی
آپی آپ پریشان مت ہوں اللہ سب خیر کرے گا،،، شہزادی بھی پریشان تھی مگر مریم کو حوصلہ دینا اس نے ضروری سمجھا،،،
ن۔۔نہیں مجھے لگتا ہے وہ ضرور کچھ نہ کچھ کرے گا مجھے کچھ غلط ہونے کا احساس ہو رہا ہے،،،
آپی ایسا مت سوچیں اللہ پر بھروسہ رکھیں سب ٹھیک ہو گا اور اٹھیں آپ یہ ہاتھ دھو کر آئیں،،،
مریم سوچ میں گم وہیں بیٹھی رہی کہ شہزادی نے اسے بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور اس کے ہاتھ دھلوائے،،،


اگلے دن بارات جانے کے لیے تیار کھڑی تھی،،،
آج تو ارسم وقت سے پہلے ہی تیار ہو گیا تھا،،،
دردانہ بیگم ارسم کی نظر اتار رہی تھیں جب کمرے میں راحیل داخل ہوا،،،
اس غریب کی بھی نظر اتار لے کوئی،،،
تیری میری ایک ہی بات ہے،،، ارسم نے مسکراتے ہوئے کہا
یہ تو ہے بھائی جان،،، راحیل ارسم کے گلے لگا
اچھا اب دونوں ایک ساتھ کھڑے ہیں تو اکٹھے نظر اتارتی ہوں،،، دردانہ بیگم بولیں
رکو بھئی رکو،،، کمرے میں کمال صاحب داخل ہوئے
وہ بھی ان دونوں کے ساتھ آکر کھڑے ہوئے،،،
لو بھئی میری بھی نظر اتارو،،،
دردانہ بیگم کی ہنسی چھوٹی،،،
ارسم اور راحیل بھی اپنی ہنسی دبانے لگے،،،
ایسا کیا کہہ دیا میں نے،،، کمال صاحب بھنویں اچکائے انہیں دیکھنے لگے،،،
کمال صاحب اس عمر میں آپ کو کس نے نظر لگانی،،، دردانہ بیگم بمشکل اپنی ہنسی روکتی ہوئی بولیں
کیوں بھئی مجھے کوئی نظر نہیں لگا سکتا کیا وہ ہے نا ماسی بشیرا کی دھیح نظیرا روز مجھے چھپ چھپ کر دیکھتی،،،
کمرے میں سب دردانہ بیگم ارسم اور راحیل کے قہقے گونجنے لگے تھے،،،
دردانہ بیگم نے اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے ان کی نظر اتاری،،،


باہر سے بینڈ باجوں کی آواز پر سبھی بچے بارات دیکھنے کے شوق میں جمال رانا ہویلی کے باہر جمع ہو گئے،،،
شہزادی بھاگتی ہوئی گیٹ پر آئی اور باراتیوں کی گاڑیوں کو دیکھنے لگی،،،
پہلی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر اسے راحیل دکھائی دیا،،،
شہزادی نے اس کی طرف دیکھا تو راحیل کی نظریں بھی اچانک گیٹ کی طرف اٹھیں،،،
شہزادی کو اپنی طرف دیکھتا پا کر اس نے ایک آنکھ بند کی،،،
شرم کے ماری شہزادی واپس گھر کے اندر بھاگ آئی،،،
آپی بارات آگئی،،، وہ اونچی آواز میں چلاّتی ہوئی مریم کے کمرے میں داخل ہوئی،،،
افف شہزادی کیا ہو گیا ہے آہستہ بولو میرے کان پھٹ جائیں گے،،،
مریم کھڑی ہوئی،،، سرخ رنگ کا لہنگا خوبصورت کڑھائی کے ساتھ سفید سٹونز سے سجایا گیا تھا، سلیقے سے سر پر دوپٹہ اٹکائے، سونے کے زیورات سے لدی وہ دلہن بنی ہوئی خوبصورتی کی حد پار کر چکی تھی،،،
آپی آپ کو نہیں پتہ میں کتنی خوش ہوں وہ مریم کا ہاتھ پکڑے گھومنے لگی،،،
شہزادی چھوڑو مجھے میں نے لہنگا پہنا ہوا ہے میں گر جاؤں گی،،،
شہزادی نے اسے چھوڑا اور شیشے میں خود کو دیکھنے لگی،،،
آپی بتائیں میں کیسی لگ رہی ہوں،،،
گول چہرہ، ہلکی سی ابھری ہوئی موٹی آنکھیں، ننھی سی ناک اور گلابی چھوٹے ہونٹ،،، وہ خوبصورت تو تھی مگر مریم بہت کم،،،
کیا بات ہے آج کل خوش بھی بہت نظر آرہی ہو اور آئینہ بھی دیکھا جا رہا ہے،،، مریم کو اس پر شک ہوا
ن۔۔نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں،،،
دیکھو تمہارای زبان لڑکھڑا رہی ہے اس کا مطلب تم جھوٹ بول رہی ہو چلو بتاؤ کون ہے وہ،،، مریم مدعے پر آئی
آپی،،،

شہزادی بتاؤ،،،
آپی وہ ر۔۔راحیل،،، اس نے کہہ کر چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپایا
مریم کو راحیل کا نام سن کر اچھا لگا کیوں کہ راحیل خود بھی ایک تعلیم یافتہ اچھا لڑکا تھا،،،
ہممم تو یہ بات ہے،،، مریم مسکرائی
شہزادی نے ہاتھ چہرے سے ہٹائے اس کے رخسار سرخ ہو رہے تھے،،،
آپی آپ ہماری مدد کریں گی نا،،،
بلکل کروں گی میری چٹکی ابھی وقت تو آنے دو،،،
ہائے آپی آپ کتنی پیاری ہو،،، وہ مریم کے گلے سے لگی
ہاہا بس بس اتنی جذباتی مت ہو،،، مریم نے ہنستے ہوئے کہا
اچھا میں باہر جا رہی ہوں مہمانوں کے پاس،،، وہ کہتی ہوئی باہر بھاگ گئی،،،


شہزادی گلاسوں میں ٹھنڈے جوس کی ٹرے لیے کمرے میں داخل ہوئی جہاں دونوں خاندان اکٹھے بیٹھے باتیں کر رہے تھے،،،
باری باری سب کو جوس دینے کے بعد اس نے راحیل کے آگے ٹرے کی،،،
راحیل نے گلاس اٹھاتے ہوئے ٹرے میں ایک چھوٹی سی پرچی رکھ دی،،،
شہزادی نے ادھر ادھر دیکھا اور پرچی ہاتھ میں پکڑے کمرے سے باہر نکلی،،،
وہ ایک خالی کمرے میں آئی اور پرچی کھول کر دیکھی،
" پانچ بجے اسی کمرے میں انتظار کروں گا "

شہزادی نے دیوار پر لگے کلاک پر ٹائم دیکھا تو چار تیس ہوئے تھے،،،
آدھا گھنٹہ مہمانوں میں گزارنے کے بعد وہ پچھلے گیٹ کے ساتھ والے کمرے میں داخل ہوئی،،،
راحیل نے اچانک اسے بازو سے پکڑ کر دیوار کے ساتھ لگایا،،،
شہزادی کا دل دھک دھک کر رہا تھا،،،
بہت خوبصورت لگ رہی ہو،،، اس نے شہزادی کے جھمکے کو انگلی سے چھوا
شہزادی نے شرم سے نظریں جھکائیں،،،
پتہ نہیں میں کسی کو کیسا لگ رہا ہوں،،، وہ شہزادی سے اپنی تعریف سننا چاہتا تھا
بہت پ۔۔پیارے،،، وہ خاموش ہوئی
میری آنکھوں میں دیکھ کر کہو،،،
شہزادی نے نظریں اٹھا کر اس کی آنکھوں میں دیکھا،،،
اب بتاؤ کیسا لگ رہا ہوں میں،،، اس کی نظروں میں خمار آنے لگا تھا
بہت پیارے،،، شہزادی نے اس کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئے کہا
راحیل نے اپنے ہاتھ کا انگوٹھا شہزادی لے پنک لپسٹک سے سجے ہوئے نچلے ہونٹ پر پھیرا،،،

شہزادی نے شرم سے آنکھیں بند کیں اس کے ہونٹ کپکپا رہے تھے،،،
اس کی سانسیں راحیل سن سکتا تھا،،،
آنکھیں کھولو،،، وہ بولا
شہزادی نے آہستہ سے اپنی آنکھیں کھولیں اور راحیل نے انگوٹھے کو چوم لیا اس کے ہونٹ لپ سٹک کی وجہ سے پنک ہو چکے تھے،،،
شرم سے شہزادی کا کھڑے ہونا محال ہو گیا تھا وہ بھاگنے کے لیے مڑی تو راحیل نے اس کا ہاتھ پکڑا،،،
جلد ہی خالہ جان کو بھیجوں گا ہمارے رشتے کے لیے،،،
شہزادی شرم سے مسکرائی اور ہاتھ چھڑواتی ہوئی باہر بھاگ گئی،،،


شام کے سات بج چکے تھے مریم اپنی رخصتی پر خوب روئی تھی اور شہزادی کی رونے کی وجہ سے ہچکیاں ہی بند نہیں ہو رہی تھیں،،،
مریم کو ارسم کے ساتھ گاڑی میں بٹھایا گیا، سب کی آنکھیں اشک بار تھیں،،،
الوداع کے بعد ڈرائیور نے گاڑی سٹارٹ کی،،،
گاڑی میں ڈرائیور کے ساتھ ارسم اور پچھلی سیٹ پر مریم کے ساتھ دردانہ بیگم بیٹھی تھی،،،

راحیل اور کمال صاحب الگ گاڑی میں بیٹھے تھے،،،
رات کا اندھیرا چھا چکا تھا باراتیوں کی گاڑیاں اپنی منزل کو بڑھنے لگیں،،،
کمال صاحب والی گاڑی ایک الگ راستے کی طرف مڑ گئی،،،
یہ کون سا راستہ ہے،،، ارسم نے پوچھا
صاحب جی یہ شارٹ کٹ ہے،،، مولا بخش جو ڈرائیور تھا اس نے جواب دیا
اچھا ایسے کرو ہماری گاڑی بھی ادھر موڑ لو،،،
مگر صاحب جی یہ راستہ تھوڑا سنسان ہے،،،
مولا بخش نے کہا تو مریم خوفزدہ ہونے لگی،،،
ڈرتی کیوں ہو مریم ہم ہیں نا ساتھ،،، دردانہ بیگم نے اس کا ہاتھ پکڑا
مولا بخش نے گاڑی اس راستے موڑ لی کچھ دیر تک چلنے کے بعد اچانک گاڑی رک گئی،،،
ارے یہ کیا ہو گیا مولا بخش دیکھو ذرا،،، ارسم کے کہنے پر وہ گاڑی سے اترا اور چیک کرنے لگا
صاحب جی ٹائر کی ہوا نکل گئی ہے،،،

مگر کیسے کیا ہوا ہے،،، دردانہ بیگم بولیں
مریم نے خوف سے اپنی سبز آنکھیں گاڑی کی کھڑکی سے باہر سنسان راستے پر گھمائیں جہاں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بڑے بڑے پیپل کے پیڑ تھے،،،
ارسم گاڑی سے باہر نکل کر کھڑا ہوا،،،
دیکھو کوئی حل ہے اس کا،،،
نیا ٹائر لگے گا بس یہی حل ہے،،، مولا بخش بولا
رات بھی بہت ہو رہی ہے زیادہ دیر یہاں رکنا ٹھیک نہیں ہے،،، ارسم نے کہا
مولا بخش تم ایسے کرو جتنی جلدی ہو سکے چل کر گھر جاؤ اور وہاں سے گاڑی لے کر آؤ،،،

صاحب جی میں جاتا ہوں مگر وقت لگے گا،،،
ہاں تم جاؤ ہم یہاں زیادہ دیر تک نہیں رک سکتے،،، ارسم پریشان ہونے لگا تھا
چچی جان مجھے ڈر لگ رہا ہے،،، مریم کو اس جگہ سے خوف آرہا تھا
اللہ کا ذکر کرو میری بچی وہ ہماری مشکل حل کر دے گا،،، دردانہ بیگم نے کہا
مریم کو گھبراہٹ ہونے لگی اس نے کھڑکی نیچے کی اور خود کو نارمل کرنے لگی،،،
وہ خوفزدہ نظروں سے باہر دیکھ رہی تھی جب اس کی نظر پیپل کے پیڑ پہ پڑی،،،
ایک شخص بلیک پینٹ شرٹ پہنے سر پر ہڈی لیے کھڑا تھا اس کا رخ مریم کی طرف ہی تھا،،،
مریم کو اپنا جسم کانپتا ہوا محسوس ہونے لگا،،،
چ۔۔چچی ج۔۔جان،،،
کیا ہوا مریم،،، دردانہ بیگم نے اس کی طرف دیکھا
و۔۔وہ،، مریم نے اس شخص کی طرف اشارہ کیا
ارسم بھی مریم کی طرف متوجہ ہوا اور جدھر وہ انگلی سے اشارہ کر رہی تھی اس نے وہاں دیکھا،،،
وہ شخص زرا برابر بھی حرکت نہ کر رہا تھا کسی لکڑی کی مانند اٹک کر کھڑا تھا،،،
رات کے وقت سنسان سڑک پر ایک سیاہ پرسرار شخص کا ہونا مریم کے ساتھ ارسم اور دردانہ بیگم کو بھی خوفزدہ کرنے لگا تھا،،،


ڈائری کے اوپر اچانک کسی کا ہاتھ پڑا تو عنائزہ کے منہ سے چینخ نکلنے لگی،،،
اس نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی چینخ کو دبایا،،،
روحان نے نیند میں وہاں ہاتھ رکھا تھا،،،
عنائزہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر لمبے لمبے سانس لینے لگی، اس نے کلاک پر ٹائم دیکھا تو رات کے بارہ بج رہے تھے،،،
اس نے ڈائری بند کی اور سر سے پاؤں تک کمفرٹر اوڑھ لیا،،،
اس کے ذہن میں بار بار وہ سیاہ کپڑوں والا شخص آرہا تھا،،،
کچھ دیر تک عنائزہ نے سونے کی کوشش کی مگر خوف نے اسے سونے نہ دیا،،،
اس نے کمفرٹر سے چہرہ باہر نکال کر روحان کی طرف دیکھا جو مزے کی نیند سو رہا تھا،،،
اس نے اپنا کمفرٹر اتار کر ایک سائیڈ رکھا اور آہستہ سے روحان کے کمفرٹر میں گھس گئی،،،

اس کے سینے پر سر رکھتے ہی وہ نارمل ہونے لگی اور نیند کی وادی میں کھو گئی،،،

سیاہ رات ایک سچی کہانی (قسط نمبر 5)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں