پراسرار لڑکی - پارٹ 1

mysterious-girl

 پراسرار لڑکی - پارٹ 1

ایل ایل بی شہباز احمد کو وکالت سے ایک ماہ کی چھٹی مل چکی تھی۔ ایک ماہ تک وہ کسی کا کیس نہیں لڑ سکتے تھے ۔یہی وجہ تھی کہ اس وقت شہباز احمد اور ان کی پوری فیملی ڈرائنگ روم میں بیٹھے اس خیال پر تبصرہ کررہے تھے کہ اب وہ یہ پورا ایک ماہ کس طرح گزاریں گے؟ ان دنوں عرفان بردارز کو بھی کالج سے چھٹیاں ملی ہوئی تھیں۔فرسٹ آئیر کے امتحان دینے کے بعدوہ سیکنڈ آئیر کی کلاسز شروع ہونے تک چھٹیاں منارہے تھے ۔ڈرائنگ روم میں اس وقت اسی موضوع پر گرما گرم بحث جاری تھی کہ ایک طرف ان کے اباجان کو بھی چھٹیاں مل چکی ہیں اور دوسری طرف ان کی بھی امتحان دینے کے بعد نئی کلاسز شروع ہونے تک چھٹیاں ہیں تو ان چھٹیوں کو گھر میں رہ کر نہیں بلکہ کسی پر فضا مقام پر گزارا جائے۔ شہباز احمد کا نیا اسسٹنٹ شہزاد بھی کبھی کبھی ان کی باتوں میں حصہ لے لیتا تھا۔ اس وقت ڈرائنگ روم میں سب سے زیادہ آواز سلطان کی گونج رہی تھی:۔
میں کہتا ہوں ان چھٹیوں کو گھر میں رہ کر ضائع نہیں کیا جاسکتا ‘‘ سلطان پرزور لہجے میں بولا۔

اس کا مطلب ہے کہیں باہر رہ کر ضائع کیا جاسکتا ہے ‘‘ عمران مسکرا کر بولا۔
تم آج کل بڑ ے شوخ مزاج بن رہے ہو ۔۔۔ سلطان کا اثر ہو گیا ہے کیا ‘‘عرفان نے جل بھن کر کہا۔
اوہ !۔۔۔ پھر تو ہم ایک گھرمیں دو شوخ مزاج افراد کو کس طرح برداشت کریں گے ‘‘ سادیہ گھبرا کر بولی۔
بات کہاں سے کہاں جارہی ہے ۔۔۔ میں کہتا ہوں کسی تاریخی مقام کے سیر کی بات کرو‘‘ سلطان نے جھلا کر کہا۔
تاریخی مقام کیوں ۔۔۔ ہم کسی تفریحی مقام کی سیر بھی کرسکتے ہیں‘‘ شہزاد نے ان کی باتوں میں حصہ لیا۔

کیوں نہ اباجان کے ریسٹ ہاؤس میں رہ کر یہ پورا ایک ماہ شہر سے باہر وہاں گزارا جائے ‘‘ عدنان نے خیال پیش کیا جس پر سب چونک اُٹھے۔
یہ خیال میرے ذہن میں کیوں نہ آیا۔۔۔ اباجان کا ریسٹ ہاؤس شہر سے دور بھی ہے اور پر فضا مقام بھی ہے ۔۔۔ ہم کتنے وقت سے وہاں گئے بھی نہیں ہیں ‘‘ سلطان نے پرجوش لہجے میں کہا۔

تو پھر ٹھیک ہے ۔۔۔ طے رہا۔۔۔ ہم کل صبح ریسٹ ہاؤ س کے لیے نکل جائیں گے ‘‘ شہباز احمد نے آخر میں فیصلہ کن لہجے میں کہا جس پر سب نے ان کی تائید میں سر ہلا دیا۔ بیگم شہباز ان دنوں اپنے میکے گئی ہوئی تھیں۔ ان کے دور کے رشتہ کے ماموں کی بیٹی کی منگنی تھی۔ انہوں نے وہاں جانا پسند کیا تھا البتہ باقی سب گھر میں ہی رہ گئے تھے۔شہباز احمد بھی اپنی بیگم کے ساتھ نہیں گئے تھے کیونکہ ان کے وہاں جانا کی کوئی تک نہیں بنتی تھی۔ ویسے بھی ان کے بیگم کے بھی دور کے رشتے دار تھے پھر بھلا شہباز احمد کا ان دور کے رشتے داروں سے کیا رشتہ بنتا؟ لہٰذا وہ بھی بچوں کے ساتھ گھر میں ہی رہ گئے تھے۔شہزاد بھی مستقل دور پر ان کے ساتھ رہ رہا تھا۔ اُس کے لئے انہوں نے گھرکے پچھلی طرف ایک کمرہ خالی کر دیا تھا جہاں وہ مستقل طور پر رہائش پذیر ہوگیا تھا۔ شہزاد کے والدین بچپن میں ہی فوت ہو چکے تھے اورپچپن سے لے کر اب تک وہ اپنے چچا کے گھر رہا تھا ۔ ابھی کچھ دنوں پہلے اس کے چچا بھی طویل بیماری کے بعد اجل کو لبیک کہہ گئے تھے یہی وجہ تھی کہ اب اسے کسی مستقل ٹھکانے کی تلاش تھی ۔

 پچھلے کیس میں اس نے یہ خبر پڑھی تھی کہ شہباز احمد کا اسسٹنٹ بطور مجرم پکڑا گیا ہے اس وجہ سے اس نے شہباز احمد سے یہ درخواست کی تھی کہ اسے اپنا اسسٹنٹ بنا لیں۔ اس کے بدلے میں اس نے صرف دو وقت کا کھانا اور رہائش مانگی تھی ۔شہباز احمد نے اسے کھانا اور رہائش دینے کے ساتھ ساتھ ایک اچھی خاصی تنخواہ بھی دینے کا فیصلہ کر لیا تھا اور اس کے بعد سے وہ ا ن کے ساتھ قیام پذیر ہوگیا تھا۔اگلے دن صبح وہ سب ریسٹ ہاؤس کے لیے نکلنے کو تیار تھے۔ایل ایل بی شہباز احمد نے اپنی گاڑی کی سروس کل ہی کروا لی تھی ۔ بچوں نے شہزاد کے ساتھ مل کر مارکیٹ کی راہ لی تھی اور پھر گاڑی کو کھانے پینے کی چیزوں سے بھر دیا تھا۔سلطان نے جیب میں کچھ ٹافیاں بھی بھر لی تھیں۔اسے ایسے کرتے دیکھ عرفا ن برے برے منہ بنا رہا تھا جس پر وہاں موجود ہر شخص کے چہر ے پر مسکراہٹ دوڑ گئی تھی۔تبھی شہباز احمد اپنے اسسٹنٹ شہزاد اور اپنے بچوں کے ساتھ گاڑی میں سوار ہوگئے۔ شہزاد گاڑی چلانے میں بھی کافی مہارت رکھتا تھا۔ گاڑی کی ڈرائیونگ تو شہباز احمد کو بھی خوب آتی تھی لیکن انہوں نے شہزاد کو موقع دیا اور خود اس کے ساتھ والی سیٹ پر برجمان ہوگئے ۔ 

بچہ پارٹی پچھلی سیٹوں پر بیٹھ چکی تھی اورپھر شہزاد نے گاڑی کا رخ ریسٹ ہاؤس کی طرف کر دیا اور ریس کا پیڈل دبا دیا۔ دوسری ہی لمحے گاڑی فراٹے بھرتی اپنے منزل کی طرف روانہ ہوگئی ۔ پندرہ منٹ کے سفر کے بعد جنگل شروع ہوگیا۔ تبھی سلطان نے راستے میں زبان کھولی:۔

ریسٹ ہاؤس کی صفائی کا بھی کچھ انتظام کیا گیا تھا اباجان ‘‘ سلطان نے سنجیدہ انداز میں شہباز احمد کی طر ف دیکھا۔
ہاں ۔۔۔ وہاں پر موجود سیکورٹی گارڈ کو کل ہی فون کرکے صفائی کرانے کی ہدایت کر دی تھی ‘‘ شہباز احمد نے حیران ہو کر کہا۔
اس میں حیران ہونے والی کون سی بات ہے اباجان ‘‘ سلطان بھی حیران رہ گیا۔
تمہاری زبان سے اس قدر سنجیدہ سوال سننے والا حیران تو ہو ہی جائے گا ‘‘ شہباز احمد معصومانہ انداز میں بولے جس پر گاڑی میں ایک قہقہہ گونج اُٹھا البتہ سلطان کا منہ بن گیا۔

میں ہر وقت تومذاق نہیں کرتا اباجان ۔۔۔ کبھی کبھی سنجیدہ بھی ہو جاتا ہوں‘‘ سلطان برا مان کر بولا جس پر سب ایک بار پھر مسکرا دئیے۔تبھی گاڑی زبردست ہچکولے کھانے لگی۔ وہ سب گھبرا گئے ۔ دوسرے ہی لمحے گاڑی کا رخ جنگل کی طرف ہوگیا اور وہ پوری رفتار سے گھنے جنگل کے اندر ہی اندر بڑھتی چلی گئی۔ شہزاد نے اپنی پوری مہارت صرف کردی ۔ اس کے چہرے پر پسینے کے قطرے صاف بتارہے تھے کہ گاڑی اس کے کنٹرول سے باہر ہو چکی ہے اور پھر!!!۔۔۔ گاڑی ایک درخت کی سمت گئی اور پوری قوت سے درخت سے ٹکرانے ہی لگی تھی کہ تبھی شہزاد نے اپنی پوری طاقت سے بریک لگائی۔ گاڑی صرف چند انچ کے فاصلے سے درخت سے دور رہ کر رک گئی۔ یہ دیکھ کر ان سب نے سکون کا سانس لیا۔
آپ نے پہلے ہی بریک کیوں نہ لگائی جب گاڑی جنگل کے اندر بڑھ رہی تھی ‘‘ سلطان نے لرزتی آواز کے ساتھ کہا۔

پہلے بریک کا پیڈل دبایا تھا لیکن اس وقت بریک کام نہیں کر رہی تھی۔۔۔ درخت سے ٹکراتے وقت ایک بار پھر اپنا پورا زور بریک کے پیڈل پر لگایا توبریک کام کر گئی اور گاڑی رک گئی‘‘ شہزاد ہانپتے ہوئے بولا۔
اس وقت ہم کہاں ہیں ‘‘سادیہ پریشان ہو کر بولی۔
یہ تو کوئی بہت ہی گہرا اورگھنا جنگل معلوم ہوتا ہے‘‘ عرفان نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا۔

میراخیال ہے میں اور شہزاد نیچے اتر کر دیکھتے ہیں ۔۔۔اگر کوئی خطرہ نہ ہوا تو تم لوگ بھی نیچے اتر آنا‘‘ شہباز احمد نے فیصلہ سنا دیا جس پر انہوں نے سر ہلا دیا۔ شہزاد اور ایل ایل بی شہباز احمد گاڑی سے نیچے اتر آئے۔انہوں نے دیکھا وہ اس وقت گہرے اور تاریک جنگل کے درمیان میں کھڑے تھے۔اس جنگل کو دیکھ کر وہ ایک پل کے لئے پریشان ہوگئے ۔ درخت کے جھنڈ ہی جھنڈ نظر آرہے تھے اور اوپر درخت کے پتوں نے سورج کی روشنی کو نیچے آنے سے مکمل طور پر روک دیا تھا۔ پھر کچھ وقت تک انہوں نے آس پاس کا جائزہ لیا تو اس نتیجے پر پہنچے کہ جنگل اس قدر بھی خطرناک نہیں ہے ۔ وہ یہاں سے کچھ فاصلہ طے کر کے کسی ایسی جگہ پہنچ سکتے ہیں جہاں سے دوبارہ یا تو اپنے ریسٹ ہاؤس کی طرف روانہ ہو جائیں یا پھر دوبارہ شہر کا رخ کر لیں۔ اس فیصلے پر پہنچ کر شہباز احمد ، شہزاد کی طرف مڑے۔ وہ اس وقت گاڑی کے انجن کے ساتھ لگا ہوا تھا۔ گاڑی کے انجن سے دھواں نکل رہا تھا۔
یہ گاڑی تو اب کسی کام کی نہیں رہی ۔۔۔ میں حیران ہوں کہ آپ نے کل ہی اس کی سروس کروائی تھی اور آج ہی اس کا انجن گرم ہو کر بند ہوگیا‘‘ شہزاد واقعی حیرت زدہ نظر آرہا تھا۔

اب تو کچھ دور کسی مکان میں رہائش پذیر شخص سے ہی مدد مل سکتی ہے ۔۔۔ تمہاری کیا رائے ہے ‘‘ شہباز احمد نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
میری بھی یہی رائے ہے ۔۔۔ کچھ فاصلہ پیدل طے کرلیتے ہیں ۔۔۔ پھر آس پاس کسی رہائشی مکان یا جھونپڑی میں رہنے والے افراد سے مدد مانگ کر شہر پہنچ جائیں گے ۔۔۔ وہاں سے کسی میکینک کو بلا کر گاڑی صحیح کرالیں گے ۔۔۔ پھر دوبارہ ریسٹ ہاؤس کی طرف سفرشروع کر دیں گے‘‘شہزاد نے ان کے خیال کی تائید کرتے ہوئے کہا۔شہباز احمد نے سر ہلا دیا ۔ پھر وہ دونوں گاڑی میں بیٹھے عرفان اور دوسروں کو اس فیصلے سے آگاہ کرنے کے لئے گاڑی کے پچھلی سیٹ کی کھڑکی کی طرف آئے لیکن تبھی ان دونوں کو ایک زبردست جھٹکا لگا۔ایک بچکانی سی آواز نے انہیں مخاطب کیا تھا:۔

انکل ۔۔۔ میری بات سنیں‘‘ آواز کسی بچی کی معلوم ہوتی تھی۔ شہزاد اور شہباز احمد حیران ہو کر آواز کی سمت پلٹے۔ ایک پندرہ سولہ سال کی لڑکی انہیں دیکھ رہی تھی۔ اس کی طرف دیکھ کر انہیں اَنجانا سا احساس ہوا۔ نہ چاہتے ہوئے بھی وہ دونوں اس کی سمت بڑھے۔ اس کے پاس پہنچ کر شہباز احمد کہنے لگے:۔
کیا بات ہے بیٹی۔۔۔ تم یہاں اس جنگل میں تنہا کیا کررہی ہو‘‘شہباز احمد نرمی سے بولے۔

میری ماں باپ یہاں کسی کام سے مجھے ساتھ لے کر آئے تھے ۔۔۔ میں ان کا ہاتھ چھڑا کر غلطی سے دوسری طرف نکل گئی اور بھٹک گئی ۔۔۔ اب مجھے اپنے ماں باپ مل نہیں رہے ہیں ۔۔۔ آپ میری مدد کریں گے‘‘ لڑکی نے سسکیاں لیتے ہوئے کہا۔ شہباز احمد کو اس پر بڑا ترس آیا البتہ شہزاد کے چہر ے پر الجھن نظر آرہی تھی۔اسے محسوس ہورہا تھا کہ بچی جتنی بھولی بن رہی ہے اتنی بھولی ہے نہیں!۔اس کے آنکھوں میں شہزاد کو حیرت انگیز عیاری نظر آرہی تھی۔
اچھا بیٹی۔۔۔ میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں ۔۔۔ تمہارے والدین کہاں پر تھے ‘‘ شہباز احمد نے ترس کھا کر کہا۔

یہاں سے کچھ فاصلے پر ۔۔۔ میں ابھی اسی جگہ پر تھی لیکن اب وہاں میرے والدین نہیں ہیں ‘‘ لڑکی نے روتے ہوئے کہا۔
کوئی بات نہیں ۔۔۔ وہ بھی تمہیں ڈھونڈتے ہوئے وہیں کہیں ہونگے ۔۔۔ آؤ ۔۔۔ ہم تمہارے کے ساتھ انہیں تلاش کرتے ہیں‘‘ شہباز احمد نے اسے دلاسا دیا اور شہزاد کو ساتھ لے کر اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔
لیکن بچے گاڑی میں رہ گئے ہیں‘‘ شہزاد نے شہباز احمد کو احساس دلایا۔
کوئی بات نہیں ۔۔۔ اس بچی کے والدین مل جائیں گے تو ہم واپس یہاں آ جائیں گے‘‘ شہباز احمد نے لاپروائی سے کہا۔ شہزاد مجبوراً شہباز احمد کے ساتھ چلنے لگا۔ اسے لڑکی کی آنکھوں میں کوئی بہت ہی گہری سازش چلتی ہوئی نظر آئی لیکن پھر بھی وہ بے بسی سے شہباز احمد کے پیچھے چل رہا تھا۔تھوڑا دور چل کر لڑکی رک گئی اور پھر عجیب سے لہجے میں کہنے لگی:۔

اب آپ واپس جا سکتے ہیں ۔۔۔ مجھے آپ کی مدد نہیں چاہیے‘‘لڑکی نے سفاک لہجے میں کہا جس پر وہ دونوں حیران رہ گئے ۔ شہبازاحمد اور شہزاد نے حیرانگی کے عالم میں ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ پھر دونوں نے واپس نظریں اس لڑکی کی طرف گھمائیں۔ دوسرے ہی لمحے شہباز احمد اور شہزاد دونوں دھک سے رہ گئے۔وہ لڑکی اب وہاں موجود نہیں تھی۔ و ہ کچھ پل میں وہاں سے غائب ہو چکی تھی ۔ تبھی شہباز احمد کو ایک زبردست جھٹکا لگا۔ انہیں فوراً اپنی غلطی کا احسا س ہوا اور وہ اپنی گاڑی کی سمت دوڑ پڑے ۔ شہزاد بھی سمجھ گیا کہ کیامعاملہ ہے ۔ دوسرے ہی لمحے وہ بھی ان کے پیچھے بھاگا ۔ دونوں آگے پیچھے دوڑتے ہوئے گاڑی کی طرف آئے۔ان دونوں کا سانس پھول چکا تھا اور دل کی دھڑکن کی رفتار کئی گنا بڑھ چکی تھی۔ حیرت اور خوف کے ملے جلے جذبات نے انہیں پوری طرح جکڑ رکھا تھا۔پھر دونوں نے ایک ساتھ گاڑی کی کھڑکی سے گاڑی کے اندر جھانکا۔ آگلے ہی لمحے ان کے جسموں میں سنسنی کی ایک لہر دوڑ گئی ۔چہر ے کا رنگ دودھ کی طرح سفید پڑ گیا اور ان دونوں کی آنکھوں میں بے پناہ خوف نظر آنے لگا۔

گاڑی کے اندر کوئی بھی نہیں تھی۔ عرفان اور دوسرے وہاں سے غائب تھے۔شہباز احمد کھوئے کھوئے انداز میں پچھلی سیٹ کو دیکھنے لگے جہاں ابھی کچھ دیر پہلے وہ اپنے بچوں کو چھوڑ کر گئے تھے۔ان کی آنکھوں میں ندامت اور حسرت صاف دیکھی جاسکتی تھی۔ شہزاد بھی پریشانی کے عالم میں انہیں دیکھ رہا تھا۔تبھی شہباز احمد سیدھے ہو کر کھڑے ہوگئے اور شہزاد کو خوف زدہ انداز میں دیکھنے لگے۔آگلے ہی لمحے شہزاد اور شہباز احمد دونوں کے منہ سے ایک ساتھ نکلا:۔
وہ لڑکی کون تھی؟‘‘۔خوف ہی خوف ان کی آنکھوں میں نظر آنے لگا اور انہیں اپنے جسموں سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔

پراسرار لڑکی (قسط نمبر 2)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, 
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں