پُراسرار حویلی - پارٹ 6

 

Sublimegate Urdu Font Stories

 پُراسرار حویلی - پارٹ 6

جب پنڈی میں کام کا کوئی سلسلہ نہ بنا تو واپس لاہور آ گیا۔ یہاں لاہور کے ایک سینما ہاؤس میں بکنگ کلرک کی نوکری مل گئی ساتھ ہی سینما کی عمارت میں ایک چھوٹا سا کمرہ بھی رہنے کو مل گیا۔ حالات بہتر ہونا شروع ہو گئے ۔ اس دوران بمبئی سے میرے پرانے اور بچپن کے دوست جمشید کا خط آیا کہ اگر پاکستان میں کوئی کام وغیرہ نہیں مل رہا تو بمبئی میرے پاس آ جاؤ۔ میں نے اسے لکھ دیا کہ میں پاکستان میں ہی رہنا چاہتا ہوں اور مجھے اب نوکری بھی مل گئی ہے ۔ کچھ میں اس لئے بھی بھارت کے شہر بھی نہیں جانا چاہتا تھا کہ وہاں وہ پرانی قلعہ نما حویلی ہے جہاں روہنی عرف سلطانہ کی بدروح سے میرا واسطہ پڑ گیا تھا اور جو ابھی تک میرے پیچھے پڑی ہوئی ہے اور جس سے میں چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہوں۔


مگر کہتے ہیں کہ مقدر کے لکھے کو کوئی نہیں ٹال سکتا، وہ ہو کر ہی رہتا ہے۔اس کی شدت میں کمی بیشی انسان کے اعمال کے مطابق ہو سکتی ہے مگر وہ ٹل نہیں سکتا۔ یہ میرا ذاتی خیال ہے۔ ہو سکتا ہے آپ کو اس سے اختلاف ہو مگر میرا تجربہ یہی کہتا ہے ۔ پاکستان بن جانے کے بعد میں لاہور کے ایک سینما ہاؤس میں گمنامی اور خاموشی سے بکنگ کلر کا کام کر رہا تھا۔ یہ کھٹکا مجھے برابر لگا رہتا تھا کہ پرانی حویلی نما قلعے کی بدروح روہنی کسی بھی وقت نمودار ہو سکتی ہے اور اس کو آزاد کر دینے کی پاداش میں اس کے اور میرے دشمن رگھو پیاری عرف زرد پوش کی بدروح کسی بھی وقت مجھ پر حملہ کر سکتی تھی۔


میں لاہور میں ایک بزرگ عامل سے اس سلسلے میں ملا۔ انہیں ساری حکایت بیان کی تو انہوں نے مجھے کوئی تعویذ وغیرہ تو نہ دیا صرف مجھے باقاعدگی سے نماز پڑھنے کی ہدایت فرمائی اور میں نے نماز پڑھنی شروع کر دی۔ لیکن میری سینما کی ملازمت کی نوعیت ایسی تھی کہ دو پہر اور شام کی نماز اکثر قضا ہو جاتی تھی۔
دن گزرتے چلے گئے۔ ایک سال گزر گیا۔ پرانی حویلی کی بدروح روہنی اور زرد پوش پجاری رگھو کی بدروح کی طرف سے اس دوران کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ یہ بلائیں میرے سر سے ٹل گئی تھیں۔ لاہور سے ہندو اور سکھ ہندوستان جاچکے تھے ۔ ان کے خالی مکان مشرقی پنجاب اور ہندوستان سے آنے والے دوسرے مسلمان مہاجرین کو الاٹ ہو گئے تھے۔ سینما ہاؤس کا ایک گیٹ کیپر انور میر ادوست بن گیا تھا۔ ہم اکثر ہوٹل میں اکٹھے ناشتہ کرنے اور کھانا کھانے جایا کرتے تھے۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ ہم شام کا شو شروع کرانے کے بعد ہوٹل میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ میرے دوست گیٹ کیپر انوار نے کہا۔ "فیروز! تمہیں معلوم ہے ہندو سکھ لاہور سے جاتے ہوۓ یہاں کئی جگہوں پر اپنا سونا اور زیورات مکانوں میں دبا گئے ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔ ” سنا تو میں نے بھی ہے لیکن آج تک کسی مکان سے دبا ہوا سونا چاندی نکلتے نہیں سنا۔


انور کہنے لگا۔ وہ کسی کو بتا کر تھوڑی گئے ہیں کہ ہم نے سونا چاندی کہاں دبایا ہوا ہے
” تو پھر وہ کس لئے دبا گئے ہیں؟ میں نے پوچھا۔ ’’انور نے کہا۔ ’’وہ اس خیال سے اپنی دولت مکانوں کے اندر ، زمین اور دیواروں میں گاڑ گئے ہیں کہ جب ذرا حالات ٹھیک ہوں گے تو آکر لے جائیں گے۔“
میں نے کہا۔’’ ٹھیک ہے ان کا مال ہے ۔ لے جائیں۔“ انور بولا۔ ”کیوں ؟ اب یہ ان کا مال نہیں ہے۔ اب یہ پاکستان کی دولت ہے ۔ ہمارے بھائی بھی تو ادھر بہت کچھ چھوڑ آۓ ہیں۔ وہ تو اپنے ساتھ ایک تنکا تک اٹھا کر نہیں لا سکے ۔“
میں نے کہا۔ "یار تم بھی ٹھیک کہتے ہو ۔ لیکن مجھے ان باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔


انور خاموش ہو کر کھانا کھانے میں مصروف ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد بولا۔” میں تمہیں ایک بات بتانے والا ہوں ۔ مگر شرط یہ ہے کہ تم آگے کسی کو نہیں بتاؤ گے ۔“ میں نے کہا۔ ’’ میرے یہاں تم ہی ایک دوست ہو جس کو میں بتا سکتا ہوں۔ اور تو کوئی دوست نہیں ہے جس کو میں بتاؤں۔“ انور بولا ۔’’ا بھی بتاتا ہوں۔‘‘
ہم کھانا کھا چکے تو میں نے چائے کا آرڈر دے دیا۔ انور ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہا۔ چاۓ آ گئی۔ ہم چائے پینے لگ گئے ۔ چاۓ کا ایک گھونٹ پی کر انور کہنے لگا۔ ”فیروز ! تم میرے دوست ہو اس لئے تمہیں یہ بات بتا رہا ہوں ۔“
میں نے کہا۔’’ بات کیا ہے ۔ وہ بھی تو بتاؤ۔ ‘‘ انور نے ایک نگاہ اپنے دائیں بائیں ڈالی ۔ چھوٹا سا دکان نما ہوٹل تھا کچھ اور لوگ بھی بیٹھے کھانا وغیرہ کھا رہے تھے لیکن ہمارے ساتھ والی میزیں خالی تھیں۔ انور نے میری طرف ذرا جھکتے ہوۓ کہا۔” مجھے ہندوؤں کے دباۓ ہوۓ ایک خزانے کا پتہ چلا ہے۔“


میں نے کوئی جواب نہ دیا اور خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔ انور بڑی راز داری سے بولا۔”تم اسے ضرور مذاق سمجھ رہے ہو گے مگر یہ مذاق نہیں ہے۔ یہ راز مجھے یا میری خالہ کے بیٹے سراج کو معلوم ہے ۔‘
‘ میں نے بھی یو نہی دلچسپی کی خاطر پوچھا۔’’اچھا تو یہ خزانہ کہاں دفن ہے ؟
‘‘ انور بولا۔ ”لاہور سے قصور کی طرف تین چار میل کے فاصلے پر ہندوؤں کی ایک بستی تیرتھ گڑھ ہوتی تھی اب تو وہاں سب مسلمان مہاجرین آباد ہیں۔اس بستی کے باہر ایک تالاب کے پاس ہندوؤں کا ایک مندر ہے جو کالی مندر کے نام سے مشہور ہے۔ اس بستی تیرتھ گڑھ میں سراج کا ایک ہندو دوست شیورام رہتا تھا۔
پچھلے دنوں سراج ویزا لے کر ہندوستان گیا ہوا تھا۔ وہاں اس کی ملاقات شیورام سے ہوئی تو شیورام نے اسے بتایا کہ اس کے پتاجی نے پانچ سیر وزن کے سونے کے زیورات کالی مندر کی پچھلی کوٹھڑی میں زمین کے نیچے دباۓ ہوۓ ہیں اور وہ حالات ذرا ٹھیک ہو جانے کے بعد پاکستان جا کر یہ زیورات نکال کر لے آئیں گے ۔ ۔ میں نے انور سے کہا۔’’اگر یہ راز تمہارے خالہ زاد بھائی سراج کو بھی معلوم ہے تو وہ تو اب تک سونا نکال کر لے گیا ہوگا۔


“ انور نے ہنس کر کہا۔ ’’سراج بڑا ڈر پوک ہے۔ میں نے یہ کہہ کر اسے اور بھی ڈرا دیا ہے کہ یہ سونا ایک طرح سے اب پاکستان کی حکومت کی ملکیت ہے ۔ اگر تم نے اسے نکالا اور کسی کو پتہ لگ گیا تو تم پکڑے جاؤ گے اور تمہیں سات سال قید ہو جاۓ گی۔ میں نے ساتھ ہی اسے یہ بھی یقین دلایا ہے کہ میں سونے بازار کے ایک سنیارے سے بات کرتا ہوں۔ ہم سونا نکال کر اپنے پاس رکھنے کی بجاۓ فورا اس کے حوالے کر کے رقم وصول کر لیں گے ۔ پھر وہ سنیارا جانے اور حکومت جانے ۔ سراج میری اس بات پر لگ گیا ہے اور میری اجازت کے بغیر وہ زیورات کبھی نہیں نکالے گا۔
“ وہ کہنے لگا۔ فیروز ! تم میرے جگری یار ہو۔ میں اکیلا یہ کام نہیں کر سکتا۔ میں چاہتا ہوں تم میرے ساتھ چلو۔ ہم رات کے اندھیرے میں یہ زیورات نکال کر لے آئیں گے ۔ میں نے ایک سنیارے سے بات کیی ہوئی ہے وہ اس کے عوض مجھے اس وقت ساری رقم ادا کرنے کو تیار ہے ۔ ہم دو رقم آدھی آدھی کر لیں گے کچھ نہیں تو پچاس ساٹھ ہزار کی مالیت کا سونا تو ضرور ہوگا۔“ ۔


اس زمانے میں سونے کا بھاؤ جہاں تک مجھے یاد رہ گیا ہے بارہ تیرہ روپے تولہ ہوا کرتا تھا۔ مگر اس زمانے کے بارہ تیرہ روپے آج کے زمانے کے بارہ تیرہ سو بلکہ اس سے بھی زیادہ کی مالیت کے ہوتے ہیں ۔ میں نے انور سے کہا۔ ” بھائی! مجھے روپے پیسے کا کوئی لالچ نہیں ہے۔ میں ان چند روپوں کی نوکری میں بڑا خوش ہوں۔ اور میں اس قسم کے کام میں پڑنا بھی نہیں چاہتا۔ جو روپیہ میں نے اپنی محنت سے نہ کمایا ہو میں اس کو ہاتھ بھی نہیں لگانا چاہتا۔


“ ۔ انور بولا ۔ ’’یار ! تم میرے جگری یار ہو ۔ کم از کم میری اتنی مدد تو کر دو کہ میرے ساتھ رات کے وقت مندر تک چلو۔ میں اکیلا زمین نہیں کھود سکتا۔ کیا معلوم خزانہ کتنی گہرائی میں دبایا ہوا ہے۔ تمہارے سوا میں کسی کے آگے یہ راز ظاہر بھی نہیں کر سکتا انور میرے چھوٹے چھوٹے کئی کام کر دیا کرتا تھا۔ میں اس کے آگے انکار نہ کر سکا اور میں نے اس کے ساتھ کالی مندر جانے کی حامی بھر لی۔ ایک روز شام کے وقت ہم دونوں نے اپنی جگہوں پر دوسرے آدمی بٹھا کر سینما والوں سے چھٹی لے لی اور مزنگ چونگی سے قصور جانے والی لاری میں بیٹھ گئے۔
ستمبر کا مہینہ ختم ہو رہا تھا۔ بارشوں کا موسم گزر چکا تھا۔ رات کو ہلکی خنکی ہو جاتی تھی۔انور نے اپنے ساتھ ایک تھیلا رکھ لیا تھا جس میں ہاتھ سے زمین کھود نے والی دو کھرپیاں تھیں۔ ہم احتیاطا رات کے دس سوا دس بجے لاہور سے روانہ ہوئے تھے۔ تیرتھ گڑھ قصور جانے والی سڑک پر زیادہ دور نہیں تھا۔ انور نے کالی مندر دیکھ رکھا تھا بلکہ وہ ایک روز دن کے وقت خفیہ طور پر اس کا سروے بھی کر آیا تھا۔۔ انور لاری کی کھڑکی میں سے باہر اندھیرے میں دیکھ رہا تھا۔ جب دور سے اسے تیرتھ گڑھ گاؤں کی چند ایک روشنیاں اندھیرے میں جھلملاتی دکھائی دیں تو اس نے ڈرائیور سے کہا۔ ”ہمیں تیرتھ گڑھ والے سٹاپ پر اترنا ہے ۔ “ اور لاری تیرتھ گڑھ کے سٹاپ پر کھڑی ہو گئی۔


ہم لاری سے اتر پڑے۔ سڑک پر سناٹا چھایا ہوا تھا۔ لاری آگے نکل گئی۔ ہم سڑک سے اتر کر تیرتھ گڑھ جانے والے کچے راستہ پر چل پڑے ۔ ہم اندھیرے میں چل رہے تھے ۔ آس پاس جھاڑیاں اور درخت تھے۔ کسی طرف سے جھینگر کے بولنے کی مسلسل آواز آرہی تھی۔
انور کہنے لگا۔’’گاؤں کی پیچھے ایک پرانا تالاب ہے ۔ کالی مندر اس تالاب کے پاس ہی ہے ۔ ہندوؤں کے چلے جانے کے بعد یہ مندر ویران ہوگیا ہے۔ یہاں کے لوگ کہتے ہیں کہ کسی کسی وقت رات کو کالی مندر میں گھنٹیوں کی آوازیں آتی ہیں ۔ مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ جب پوجا پاٹ کرنے والے ہی نہیں ہیں تو پھر گھنٹیوں کی آواز کیسے آ سکتی ہے ۔ "


اس وقت مجھے محسوس ہوا کہ میں نے انور کے ساتھ آکر غلطی کی ہے۔ مجھے نہیں آنا چاہئے تھا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ سوئی ہوئی بلا پھر سے جاگ اٹھے ۔ مگر اب میں اپنے سے دوست کو اکیلا چھوڑ کر واپس بھی نہیں جاسکتا تھا۔
تیرتھ گڑھ گاؤں کی اکا دکا بتیاں نظر آنے لگی تھیں۔ دور سے انسانوں کی بو پا کر گاؤں کے ایک دو کتے بھو نکلنے لگے ۔ انور مجھے لے کر گاؤں کے پیچھے سے چکر کاٹ کر پرانے تالاب کے پاس آ گیا۔ رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ ہر طرف عجیب ڈراؤنی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ تیرتھ گڑھ کی طرف سے آنے والی کتوں کے بھونکنے کی آوازیں بھی خاموش ہو گئی تھیں۔ تالاب اندھیرے میں بڑا ڈراؤنا لگ رہا تھا۔ اندھیرے میں اس کی سطح ساکت اور دھندلی دھندلی نظر آ رہی تھی۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے یہ تالاب بھی مر چکا ہے۔ اس کے عقب میں ایک کھنڈر سا اندھیرے میں کسی بھوت کی طرح معلوم ہو رہا تھا۔ انور مجھے لے کر اس بھوت نما کھنڈر کی طرف جارہا تھا۔ مجھے اس ڈراؤنے ویران کالی مندر سے اتنا خوف محسوس نہیں ہو رہا تھا جتنا خوف مجھے اس بات کا محسوس ہو رہا تھا کہ کہیں مجھ پر زرد پوش پیجاری رگھو کی بدروح حملہ نہ دے کیونکہ وہاں ماحول بدروحوں کا ہی بنا ہوا تھا۔


کالی مندر زمین سے تین چار فٹ اونچے چبوترے پر بنا ہوا تھا اس کی سیڑھیوں کی اینٹیں اکھڑی ہوئی تھیں۔ صرف اتنی اینٹیں باقی تھیں کہ آدمی ان پر پاؤں رکھ کر اوپر چڑھ سکتا تھا۔ انور میرے آگے آگے چل رہا تھا۔ مندر کی ڈیوڑھی میں اندھیرا تھا۔ انور نے تھیلے میں سے ٹارچ نکال کر روشن کر دی۔ کہنے لگا۔ ’’جس کوٹھڑی میں زیورات دفن ہیں وہ آگے ہے ۔‘‘
ڈیوڑھی میں سے ایک تنگ سرنگ نما راستہ دوسری کوٹھڑی کو چلا گیا تھا۔ ہم دونوں کوٹھڑی میں آگئے۔ انور نے ٹارچ کی روشنی کوٹھڑی کے فرش پر ڈالی۔ فرش پر ٹوٹی پھوٹی اینٹیں بکھری ہوئی تھیں۔ چھوٹی سی کوٹھڑی تھی ۔ دیوار میں کسی دیوی کا کالا بت لگا ہوا تھا جس کے بازو، ٹانگیں اور سر غائب تھا، صرف دھڑ دیوار میں باقی رہ گیا تھا۔ مجھے خوف سا محسوس ہو رہا تھا۔ لیکن اپنے دوست کی وجہ سے وہاں کھڑا تھا۔ انور جھک کر ٹارچ کی روشنی میں فرش کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ ایک جگہ کونے میں ٹوٹی ہوئی اینٹوں کا چھوٹا سا ڈھیر پڑا تھا۔ انور نے تھیلا ایک طرف رکھ دیا اور بولا۔ زیورات یہاں دفن ہیں ۔ مجھے یقین ہے۔“


میں نے کہا۔”جو بھی کرنا ہے جلدی کرو۔ کوئی آ گیا تو مصیبت پڑ جاۓ گی۔“ انور نے ٹارچ ایک طرف اس طرح رکھ دی کہ اس کی روشنی اینٹوں کے ڈھیر پر پڑ رہی تھی۔ اس نے تھیلے میں سے ایک کھرپی نکال کر مجھے دی اور دوسری اپنے ہاتھ میں پکڑ لی۔ پہلے اس نے اینٹوں کو ادھر ادھر ہٹایا۔ پھر زمین کھودنی شروع کر دی۔ میں اس کے سامنے کے رخ پر آکر بیٹھ گیا اور کھرپی سے زمین کھود نے لگا۔ زمین بھر بھری تھی۔ بڑی جلدی ہم نے دو ڈھائی فٹ زمین کھود ڈالی نیچے سے کچھ بھی نہ نکلا ۔۔۔
میں نے کہا۔ ”انور ! تمہیں غلط اطلاع دی گئی ہے۔ یہاں کوئی زیورات وغیرہ نہیں ہیں۔“


وہ برابر کھرپی چلا رہا تھا۔ کہنے لگا۔ ’’ابھی معلوم ہو جاۓ گا۔‘‘ ہم نے ایک فٹ اور زمین کھودی ہوگی کہ میری کھرپی کسی سخت چیز سے ٹکرائی۔ ٹکرانے کی آواز سن کر انور نے خوش ہو کر کہا۔ ”فیروز ! ضرور یہ زیوروں کا ڈبہ ہوگا۔۔۔
ہم اور تیزی سے زمین کھود نے لگے۔انور نے ٹارچ کو گڑھے کے کنارے پر اس طرح رکھ دیا تھا کہ اس کی روشنی گڑھے میں پڑتی تھی۔ بہت جلدی ہمیں مٹی میں دبی ہوئی کوئی چمکتی ہوئی شے دکھائی دی۔اس کارنگ سونے کی طرح زرد تھا۔ انور بولا۔ ” یہ سونے کا ڈلا ہوگا ۔“ ہم نے کھرپی کی مدد سے اس شے کو مٹی میں سے باہر نکالا تو دیکھا کہ وہ ایک سوڈا واٹر کی بوتل کے سائز کا ایک بت تھا۔ انور نے اس کی مٹی صاف کی اور اس پر اپنا ناخن زور سے رگڑتے ہوئے کہنے لگا۔ فیروز ! ہماری قسمت کھل گئی ہے۔ یہ سونے کا بت ہے۔۔۔


نہ جانے مجھے کیوں خیال آ گیا کہ یہ بت کہیں ہماری بدقسمتی کا باعث نہ بن جاۓ ۔ میں نے انور سے کہا۔’’انور میں تمہیں ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں ۔اس بت کو اس جگہ دبا ہوا رہنے دو۔“ انور نے بت کو تھیلے میں ڈالتے ہوئے کہا۔ ” میں پاگل نہیں ہوں کہ ہاتھ آئی ہوئی دولت کو چھوڑ دوں ۔“ ہم مندر سے باہر آگئے اور تیز تیز قدموں سے قصور لاہور روڈ کی طرف چلنے لگے۔ انور کہنے لگا۔ ’’ میر اخیال تھا زیور ہوں گے مگر اب معلوم ہوا کہ یہاں سونے کا بت دبا ہوا تھا۔ مجھے تو خالص سونا لگتا ہے۔ یہ لوگ اپنی مورتیوں میں خالص سونا استعمال کرتے تھے۔“
میں چپ رہا۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی منحوس سایہ ہمارے ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ خوف کی ایک سرد لہر میرے بدن میں دوڑ گئی جس نے میری ہتھیلیوں کو ٹھنڈا کر دیا تھا۔ میرے دوست انور کو بالکل علم نہیں تھا کہ کیسے کیسے دہشت ناک واقعات مجھ پر گزر چکے تھے۔ میں خوف محسوس کرنے میں حق بجانب تھا۔ انور خوفزدہ بالکل نہیں تھا۔ اس پر ایک ایسے شخص کی جذباتی کیفیت طاری تھی جس کو اچانک قارون کا خزانہ مل گیا ہو ۔ اگر وہ بت سونے کا ہی تھا تو اس کی قیمت ایک لاکھ روپے سے کم نہیں تھی اور اس زمانے میں ایک لاکھ روپیہ آج کے کروڑوں کے برابر تھا۔
انور نے دونوں گھرپیاں کھیتوں میں پھینک دی تھیں۔ بت کو تھیلے میں لپیٹ کر اس نے بغل میں دبایا ہوا تھا اور کہہ رہا تھا۔ اس وقت لاہور کی طرف جاتی ہوئی کوئی لاری بھی شاید ہی ملے۔‘‘ میں نے کہا۔’’ شاید مل جاۓ ۔ مجھے بت کے سونے کی مالیت سے کوئی دلچسپی اور سروکار نہیں تھا۔ میں اس بت کو ہاتھ بھی نہیں لگانا چاہتا تھا۔ انور نے کہا۔ " میں صبح صبح اسے لے کر سونے بازار جا کر اس کا وزن کراؤں گا۔ بڑا بھاری ہے فیروز مجھے تو تین سیر کا لگتا ہے۔ تین سیر سونا . . . . . یار ! تم کوئی خیال نہ کرنا۔ جتنی رقم ملے گی آدھی آدھی بانٹ لیں گے ۔ تم بے شک میرے ساتھ ہی سونے بازار جانا۔


ہم لاہور قصور روڈ پر آگئے ۔ رات کے اندھیرے میں سڑک سنسان پڑی تھی۔ انور کہنے لگا۔ اس وقت لاہور جانے والی لاری نہیں ملے گی ۔ پیدل ہی چل پڑتے ہیں۔
ہم سڑک کے کنارے کنارے لاہور کی طرف پیدل ہی چل پڑے۔ کچھ دور چلنے کے بعد انور نے تھیلے کو بغل میں سے نکال کر ہاتھ میں پکڑ لیا۔ کہنے لگا۔ ” یہ گرم کیوں ہو رہا ہے ؟“
میں نے چونک کر پوچھا۔ ”کون گرم ہو رہا ہے ؟‘‘ انور بولا ’’سونے کا بت لگتا ہے گرم ہو گیا ہے ۔ ہاتھ لگا کر دیکھو۔“ ۔ اس نے تھیلا میری طرف کر دیا۔ میں نے ہاتھ لگایا تو واقعی بہت گرم تھا۔ میں نے دل میں کہا مصیبت شروع ہو گئی ہے ۔ میں انور کو سمجھا نہیں سکتا تھا اس کی آنکھوں پر دولت حاصل کرنے کی پٹی بندھی ہوئی تھی۔ اسے آج کے ایک کروڑ روپے کے برابر دولت مل گئی تھی۔ اسے اور کچھ نظر ہی نہیں آ رہا تھا پھر بھی میں نے اسے کہا۔ ’’انور ! میں جانتا ہوں تم میری بات نہیں مانو گے ۔ مگر میں تمہیں کہنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ میری مانو اور اس بت کو یہیں کھیتوں میں چھوڑ دو۔“


انور جھنجلا کر بولا۔ "یار ! تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ مجھے بتاؤ میں اسے کیوں چھوڑ دوں؟ میرا دماغ خراب ہو گیا ہے کہ ہاتھ آئی دولت کو چھوڑ دوں؟ یہ مجھے زمین میں دبی ہوئی ملی ہے ۔ اس پر ہم دونوں کا حق ہے ۔ بس اب تم چپ رہو ۔ “
ظاہر ہے مجھے خاموش رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ انور تھوڑی تھوڑی دیر بعد سڑک پر کھڑے ہو کر پیچھے مڑ کر دیکھ لیتا تھا۔ ایک لاری رات کے بارہ بجے قصور سے چلتی ہے ۔ اسے اب تک آ جانا چاہئے ۔
مگر ہمیں کوئی لاری نہ ملی۔ اس زمانے میں لوگوں کے پاس کہاں اتنی موٹر کار میں ہوتی تھیں۔ کوئی موٹر کار بھی پیچھے سے نہ آئی ۔ انور نے بت والے تھیلے کو دوبارہ بغل میں دبالیا تھا۔ کہنے لگا۔’’اب یہ اتنا گرم نہیں ہے ۔ وہ زمین کی گرمی تھی۔ میرے استاد نے ایک بار کہا تھا کہ زمین کے اندر زیور یا سونا ایک سال تک دبا رہے تو وہ گرم ہو جاتا ہے۔۔۔


انور اسی قسم کی اوٹ پٹانگ باتیں کرتا میرے ساتھ چل رہا تھا۔ آخر دور سے ہمیں ماڈل ٹاؤن کی بتیاں نظر آئیں۔ ابھی لاہور کی اضافی کالونیاں کوٹ لکھپت وغیرہ آباد نہیں ہوئی تھیں۔ ماڈل ٹاؤن پاکستان سے پہلے کی کالونی تھی۔ اتنے میں سڑک پر پیچھے سے لاری کے ہارن کی آواز آئی۔ ہم نے مڑ کر دیکھا۔ سڑک پر دور لاری کی بتیاں روشن تھیں۔انور خوش ہو کر بولا۔’’یہ لاہور والی لاری ہے ۔‘‘ اس نے لاری کو زور زور سے ہاتھ کے اشارے کرنے شروع کر دیئے ۔ لاری ہمارے قریب آ کر رک گئی۔ ہم اس میں بیٹھ گئے۔ لاری میں دس بارہ سواریاں ہی بیٹھی اونگھ رہی تھیں ۔ لاری نے ہمیں مزنگ چونگی اتار دیا۔ وہاں سے ہم پیدل چل کر اپنے سینما ہاؤس آگئے ۔ انور نے کہا۔ "اگر تم چاہو تو یہ سونے کا بت اپنے پاس رکھ لو۔ مجھے تم پر اعتبار ہے ۔“ میں نے کہا۔ ” مجھے تم پر بھی اعتبار ہے اور اسے تم اپنے پاس ہی رکھو۔ مگر کہاں رکھو گے ؟“
انور بولا ۔’’ فکر نہ کرو ۔ میں اسے اپنے سرہانے کے نیچے رکھ کر سوؤں گا۔ کل صبح صرافہ بازار کھلتے ہی میں تمہیں ساتھ لے لوں گا پھر ہم سونے بازار جا کر اس کی قیمت ڈلوائیں گے ۔ وہاں ایک سنیارا میرا واقف ہے ۔اب تم بھی آرام کرو۔“ انور کی کوٹھڑی سینما ہاؤس کی پہلی منزل میں پیچھے کی طرف تھی۔ میرا چھوٹا کمرہ دوسری منزل پر تھا۔ وہ اپنی کوٹھڑی کی طرف چل دیا۔ میں اپنے کمرے میں آگیا بہت تھک گیا تھا۔ چارپائی پر اسی طرح پڑ گیا۔ کچھ دیر تک کالی مندر کے بت یا مورتی کے متعلق سوچتا رہا۔ طرح طرح کے تشویش پیدا کرنے والے خیالات آتے رہے پھر نیند غالب آ گئی اور میں سو گیا۔
دوسرے روز دن کے دس بجے کے قریب کسی نے میرے کمرے کا دروازہ زور زور سے کھٹکھٹایا۔ میں سو رہا تھا، دروازے کے شور سے ہڑ بڑا کر اٹھا۔ دروازہ کھولا سامنے گیٹ کیپر حنیف شاہ کھڑا تھا۔ سخت گھبرایا ہوا تھا۔ کہنے لگا۔ ” بڑا برا ہوا ہے بھائی جی۔‘‘


” کیا ہوا ہے؟‘‘ میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔ حنیف شاہ بولا ۔’’انور شاہ قتل ہو گیا ہے ۔‘‘ میں اس کا منہ تکتارہ گیا۔ ’’یہ تم کیا کہہ کہے ہو ۔‘‘ حنیف شاہ بولا۔’’بھائی جی ! جلدی آئیں ۔ کسی نے انور شاہ کا سر ہتھوڑے سے کچل دیا ہے . . . . . پولیس آئی ہوئی ہے ۔‘‘
میں اسی طرح گیٹ کیپر حنیف کے ساتھ انور کی کوٹھڑی کی طرف گیا۔ وہاں سینما ہاؤس کا مینجر ، دوسرا سٹاف اور پولیس پہلے سے موجود تھی۔ سینما کا مینجر پولیس انسپکٹر کو اپنا بیان دیتے ہوۓ کہہ رہا تھا۔ ’’کل انور شاہ نے شام کی چھٹی لے لی تھی۔ کہنے لگا مجھے ایک ضروری کام ہے اس کے بعد میں نے اسے نہیں دیکھا کہیں رات کو آ کر کوٹھڑی میں سو گیا ہوگا۔‘
‘ پولیس انسپکٹر نے پوچھا۔ ’’اس نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کس کام کی وجہ سے چھٹی لے رہا ہے ؟


“ مینجر نے کہا۔”کچھ نہیں بتایا۔‘‘ وہاں سوگ کی فضا طاری تھی۔ انور کی لاش اس کی کوٹھڑی کے باہر چارپائی پر چادر سے ڈھکی ہوئی پڑی تھی۔ پولیس انسپکٹر نے کہا۔ ’’رات کو کسی نے ہتھوڑے کی ضربات سے اس کا سر کچل دیا ہے ۔ یہ پرانی دشمنی کا معاملہ ہی ہو سکتا ہے ..... " مجھ سے کسی نے کوئی سوال نہ کیا۔ سونے کے بت یا مورتی کا بھی کسی نے ابھی تک ذکر نہیں کیا تھا کہ انور کے سرہانے کے نیچے سے سونے کی مورتی بر آمد ہوئی ہے۔ میں سمجھ گیا تھا کہ بد قسمت انور کا سر سونے کی مورتی کی ضربات سے ہی کچلا گیا ہے ۔ مگر ایسا کس نے کیا تھا؟
جب پولیس انور کی لاش پوسٹ مارٹم کے لئے لے گئی تو میں نے حنیف شاہ سے پوچھا کیا انور شاہ کی کوٹھڑی سے آلہ قتل بھی برآمد نہیں ہوا؟‘‘ حنیف شاہ بولا۔ ” بھائی! اگر آلہ قتل وہاں ہوتا تو پولیس ضرور برآمد کرتی ۔ مگر ایسی کوئی شے کوٹھڑی میں نہیں تھی۔“ پولیس انور کی لاش اپنی گاڑی میں ڈال کر لے گئی تھی۔ اس کی چار پائی ابھی تک کوٹھٹڑی کے باہر ایک طرف پڑی تھی۔ میں چارپائی کے قریب چلا گیا۔ سرہانے پر خون ہی خون جما ہوا تھا۔ بستر پر بھی خون تھا۔ انور نے رات کو مجھے کہا تھا کہ وہ سونے کا بت اپنے سرہانے کے نیچے رکھ کر سوئے گا۔ حنیف شاہ میرے ساتھ ہی تھا۔ میں نے آگے بڑھ کر سرہانے کو ایک طرف ہٹا کر دیکھا۔ میرا خیال تھا کہ سرہانے کے نیچے کالی مندر والا سونے کا بت ضرور موجود ہو گا۔ مگر سونے کا بت غائب تھا۔
اب مجھے اپنی فکر پڑ گئی۔ اگر انور کی موت کالی مندر کے بت کی وجہ سے ہوئی تھی تو میری جان بھی خطرے میں تھی کیونکہ میں بھی بت کو چرانے کے لئے انور کے ساتھ کالی مندر میں گیا تھا۔ اگر کالی مندر کا بت انور کی کوٹھڑی سے برآمد ہو جاتا تو پھر بھی میری تسلی ہو جاتی لیکن بت غائب تھا۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ کام انور کے خالہ زاد بھائی کا ہو جس نے انور کو بتایا تھا کہ کالی مندر میں زیورات دفن ہیں۔


میں مطمئن ہو گیا کہ یہ کام کسی بدروح کا نہیں ہے بلکہ انور کا خون اس کے خالہ زاد بھائی نے یا اس کے کسی ساتھی نے ہی کیا ہے ۔
میرے اند بیشے تو ختم ہو گئے تھے لیکن انور کی موت کا مجھے بہت افسوس ہوا تھا۔ یہ خون سونے کے بت کی وجہ سے کیا گیا تھا۔ اب اس سینما ہاؤس سے میر ادل اچاٹ ہو گیا اور کچھ روز بعد ہی میں نے سینما کی نوکری چھوڑ دی۔ میں پڑھا لکھا تھا۔ ایف ۔اے تک تعلیم حاصل کر چکا تھا۔ سینما کی نوکری تو اس لئے کر لی تھی کہ اس وقت کوئی انچی نوکری ملنی مشکل تھی ۔ افراتفری کا زمانہ تھا۔ مہاجرین آر ہے تھے ابھی لوگ اپنی اپنی جگہوں پر جم کر نہیں بیٹھے تھے۔
اب پاکستان بنے ڈیڑھ سال گزر گیا تھا۔ حالات بہتر ہونے لگے تھے۔ کاروبار بھی شروع ہو گئے تھے ۔ مجھے لاہور ہی میں ایک انشورنس کمپنی کے دفتر میں کلرک کی نوکری مل گئی۔ میں نے دفتر کے پچھواڑے میں ایک کٹڑی میں ایک کمرہ کرائے پر لے لیا اور خاموشی سے اپنے کام میں لگ گیا۔ انور کی موت کو دو مہینے گزر گئے تھے۔ میرا سارا دن اپنے آفس میں گزر جاتا۔ دفتر سے فارغ ہونے کے بعد میں کبھی محلے کے ایک ریستوران میں چائے پینے بیٹھ جاتا اور کبھی موسم اچھا ہوتا تو سیر کرنے جناح باغ کی طرف نکل جاتا۔
روہت گڑھ کے پرانے قلعے کی حویلی کی


بدروح روہنی عرف ۔ سلطانہ اور اس کے اور میرے دشمن زرو پوش رگھو کی خوفناک یاد میں اب میرے دل و دماغ سے محو ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ ان دونوں میں سے کسی ایک سے واسطہ پڑے ایک طویل مدت گزر چکی تھی ۔ لگتا تھا کہ ایک بھیانک خواب دیکھا تھا۔ اس وقت تک ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کے درمیان پاسپورٹ ویزا سسٹم رائج ہو چکا تھا اور بغیر ویزا پاسپورٹ کے بارڈر کراس کر نے والے کو پکڑ کر جیل بھیج دیا جاتا تھا۔
میرا بچپن کا دوست جمشید ابھی تک بمبئی میں ہی تھا اور و ہیں اپنا کاروبار کر رہا تھا۔

پُراسرار حویلی - پارٹ 7

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں