پُراسرار حویلی - پارٹ 14

 

Sublimegate Urdu Font Stories

 پُراسرار حویلی - پارٹ 14


ہم حویلی کے چھت پر آگئے ۔۔ یہاں روہنی نے منتر پھونک کر پہلے مجھے غائب کیا پھر خود بھی غائب ہو گئی۔ اس نے میرا ہاتھ تھام لیا اور ہم زمین سے بلند ہو کر آسمان پر پرواز کرنے لگے۔ ہم ایک بار پھر کافی بلندی پر چلے گئے تھے اور نیچے زمین بھورے رنگ کی نظر آ رہی تھی۔ میرے اندازے کے مطابق ہمیں زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس منٹ لگے ہوں گے کہ روہنی نے نیچے آتے ہوۓ کہا۔ ’’شیروان ! اس وقت ہم ہندوؤں کے متبرک شہر بنارس کے اوپر ہیں۔‘‘

میں نیچے دیکھ رہا تھا۔ پہلے تو مجھے نیچے سواۓ بھورے رنگ کے دھبوں کے اور کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ پھر ایک دم سے شہر کے مکان دکھائی دینے لگے۔ ان کے درمیان ایک سفید لکیر نظر آ رہی تھی۔ روہنی نے کہا۔ ’’یہ ہندوؤں کا پوتر دریا گنگا ہے ۔ یہی ہماری منزل ہے ۔“

ہم دریا کنارے ایک شمشان گھاٹ کے پاس اتر آۓ ۔ روہنی نے ٹھیک کہا تھا۔ یہ گنگا کنارے سب سے بڑا شمشان گھاٹ تھا۔ دریا کے ساتھ لمبے لمبے چبوترے بنے ہوۓ تھے جن پر چھ سات چتائیں جل رہی تھیں ۔ان چتاؤں کی آگ میں مردے جلائے جار ہے تھے۔ ہر چتا کے قریب مردوں کے بھوپان لمبی لمبی قطاروں کی شکل میں زمین پر پڑے تھے۔ ہم مسلمان جس چارپائی پر میت کو رکھ کر قبرستان لے جاتے ہیں اسے جنازہ کہتے ہیں۔ ہندو بانس کے جس چھاپے پر اپنے مردے کو ڈال کر جلانے کے لئے لے جاتے ہیں اسے بھوپان کہتے ہیں۔ بھوپان بانس کا ایک سٹریچر ہوتا ہے جس پر مردے کو ڈال کر اوپر کپڑا ڈال دیا جاتا ہے ۔ اگر کسی نئی نویلی دلہن کا مردہ ہو تو اس پر گوٹے والی لال چنی ڈال دی جاتی ہے ۔

میں اور روہنی غیبی حالت میں شمشان گھاٹ پر مردوں کی قطار کے پاس کھڑے تھے۔ ایک بھوپان کے مردے پر سرخ گونے والا دو پٹہ ڈالا ہوا تھا۔ روہنی نے مجھے سرگوشی میں کہا۔ ’’ یہ کسی نئی نویلی دلہن کا مردہ ہے ۔ مجھے اس مردے کے ادھ جلے سر کی ضرورت ہے۔ "

میں نے سرگوشی میں ہی جواب دیا۔ ”لیکن یہ لاش تو قطار کے سب سے آخر میں ہے۔ اس کی باری کافی دیر بعد آۓ گی ۔“ روہنی نے کہا۔ ”ہم اس کے جلنے کا انتظار کریں گے ۔ " کچھ مرنے والوں کے لواحقین اور رشتے دار بھی وہاں سوگوار حالت میں بیٹھے اپنے مردے کی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ کچھ ایسے رشتے دار جو دور پرے کے رشتے دار تھے مردے کو لاشیں جلانے والے کے حوالے کر کے جا چکے تھے ۔ ہم کسی کو دکھائی تو دیتے نہیں تھے ہم وہیں کھڑے ہو کر دلہن کے مردے کی باری کا انتظار کرنے لگے۔

یہ شمشان گھاٹ دریا کے کنارے پر تھا وہاں جلاۓ جانے والے مردوں کی چار قطاریں تھیں۔ ہر قطار میں سات سات آٹھ آٹھ مردوں کے بھوپان زمین پر پڑے تھے۔ ہم جس قطار میں ایک طرف ہٹ کر کھڑے تھے اس کے آخر میں جو چتا جل رہی تھی اس پر دو آدمی کام کر رہے تھے۔ جس مردے کے عزیز و اقارب وہاں موجود تھے یہ لاشیں جلانے والے بڑی احتیاط اور ادب احترام کے ساتھ مردے کے بھوپان کو اٹھا کر چتا کی آگ پر رکھتے تھے لیکن جس مردے کے بھوپان کے پاس مردے کا کوئی عزیز نہیں ہوتا تھا اس کے بھوپان کو وہ گھسیٹ کر چتا کے اوپر رکھ کر تھوڑا سا ادھر ادھر کرتے جیسے بھون رہے ہوں اور مردہ پورا جلتا بھی نہیں تھا کہ وہ ادھ جلے مردے کو دریا میں پھینک دیتے تھے۔

دلہن کے مردے کے پاس صرف تین آدمی بیٹھے تھے ۔ جب اس کے جلانے کی باری آئی تو لاشیں جلانے والوں نے دلہن کی لاش کو بھوپان سمیت اٹھایا اور بڑے آرام سے جلتی چتا کے شعلوں پر رکھ دیا۔ دلہن کے اوپر ڈالا ہوا سرخ ریشمی دوپٹہ دیکھتے دیکھتے جل گیا۔ اس کے بعد دلہن کے مردے کا جسم جلنے لگا۔ دلہن کے رشتے
دار جو اس کے ساتھ آئے تھے کچھ دیر وہاں کھڑے چتا کی طرف تکتے رہے پھر خاموشی سے ایک طرف کو چل دیئے ۔

لاشیں جلانے والوں نے انہیں جاتے دیکھ کر چتا میں سلاخیں ڈالیں اور دلہن کے ادھ جلے مردے کو نکال کر دریا میں ڈال دیا۔ روہنی نے مجھے کہا۔ ”میرے ساتھ آؤ۔“ روہنی ہوا میں کوئی چار فٹ بلند ہو کر دریا کے اس مقام پر آ گئی جہاں دلہن کی ادھ جلی لاش کو پھینکا گیا تھا۔ دلہن کی لاش جتا کی بھڑکتی آگ میں اتنی دیر میں ہی کافی جل چکی تھی۔ اس کا جسم سیاہ پڑ چکا تھا اور آدھے سے زیادہ گوشت جھڑ گیا تھا۔ یہ ادھ جلی لاش گنگا کی لہروں پر تیرتی ہوئی تیزی سے آگے کی طرف چلی جاری تھی۔ میں روہنی کے ساتھ ہی تھا۔ دن کا وقت تھا چاروں طرف دن کی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ روہنی میرا ہاتھ پکڑے دلہن کی تیرتی ہوئی لاش کے ساتھ ساتھ آگے جارہی تھی۔

میں بھی خاموشی سے اس کے ساتھ جارہا تھا۔ جب دلہن کی لاش دریا کنارے کافی آگے نکل گئی اور شمشان گھاٹ بہت پیچھے رہ گئے اور دریا کنارے جھاڑیاں اور گھنے درختوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تو روہنی نے دریا کی لہروں کے بہاؤ کے ساتھ تیرتی لاش کو جھک کر بازو سے پکڑ کر اٹھایا تو لاش کا بازو اس کے جسم سے الگ ہو گیا۔ روہنی نے دوسرے بازو کو پکڑ کر اٹھایا تو وہ بھی جسم سے الگ ہو گیا۔ اس کے فورا بعد ایسا ہوا کہ دریا کے اندر سے ایک بہت بڑی مچھلی منہ پھاڑے نمودار ہوئی اور اس نے دلہن کی لاش کی ایک ٹانگ کو اپنے جیڑوں میں دبوچ کر جھٹکا دیا تو لاش کی ایک ٹانگ بھی اس کے جسم سے الگ ہو گئی۔

مچھلی لاش کی ٹانگ منہ میں دباۓ دریا میں غوطہ لگا گئی۔ میں نے روہنی سے کہا۔ ”لاش کو دریا سے نکال لو نہیں تو مچھلیاں باقی بچی ہوئی لاش بھی ہڑپ سے کھا جائیں گی۔“ روہنی اس وقت لاش پر جھک گئی اور دلہن کی لاش کو بالوں سے پکڑ کر پانی سے باہر نکال لیا اور ایک درخت کے نیچے لا کر رکھ دیا۔ عجیب ڈراؤنی لاش تھی۔ صرف ایک ٹانگ ، دھڑ اور سر باقی رہ گیا تھا وہ بھی جل کر سباہ ہو چکا تھا۔ ایک طرف کے سر کے بال سارے جل چکے تھے۔

ایک طرف کے کچھ بال جانے کیسے جلنے سے بچ گئے تھے۔ ناک کا گوشت جل گیا ہوا تھا۔ آنکھوں کی جگہ دو سیاہ گڑھے باقی رہ گئے تھے ۔ دونوں ہونٹ بھی جل چکے تھے اور اوپر نیچے کے دانت سارے کے سارے دکھائی دے رہے تھے ۔
ہم لاش کے پاس بیٹھ گئے ۔ روہنی نے دونوں ہاتھوں سے دلہن کی لاش کے ادھ جلے سر کو پکڑ کر زرا سے اپنی طرف کھینچا تو اس کا سر دھڑ سے الگ ہو گیا اور صرف کھوپڑی روہنی کے ہاتھ میں رہ گئی۔

روہنی نے دلہن کی باقی ماندہ لاش کو وہیں چھوڑ دیا اور کھوپڑی اٹھا کر اوپر کو بلند ہو گئی۔ میں اس کے ساتھ ساتھ تھا۔ درختوں کے اوپر جا کر اس نے شہر بنارس کی دائیں جانب رخ کر لیا۔ کہنے لگی ۔ " شیروان ! بنارس کے شمال میں گن گھاٹ کے جنگل میں سوامی جی کی دو سو سال پرانی گھپا ہے ۔ اس گھپا کے اندر سوامی جی کی مڑھی ہے ۔ مجھے اس مڑھی کے پاس بیٹھ کر دلہن کی کھوپڑی اپنے سامنے رکھ کر ساری رات منتروں کے جاپ کا چلہ کاٹنا ہوگا۔ رات کے پچھلے پہر دلہن کی کھوپڑی میرے سوالوں کے جواب دینے شروع کر دے گی اور پچاری رگھو کی کمزوری ہم پر ظاہر کر دے گی۔“

اس وقت سورج ڈھلنے لگا تھا۔ گئو گھاٹ کے جنگل میں سوامی جی کی پرانی گھپا میں پہنچتے پہنچتے شام کا اندھیرا چھا گیا۔ سوامی کی گھپا ایک اجاڑ ویران کھنڈر کی شکل میں ایک تالاب کے کنارے واقع تھی۔ یہ پرانی اینٹوں کی مخروطی میناری عمارت تھی جس کی دیواروں کی اینٹیں جگہ جگہ سے اکھڑی ہوئی تھیں۔ دروازے کے دونوں پٹ غائب تھے ۔ ہم گھپا میں داخل ہو گئے ۔ اندر اندھیرا چھایا ہوا تھا۔
سیلن کی بو پھیلی ہوئی تھی۔ روہنی نے کہا۔ ”شیروان ! تم اندھیرے میں نہیں دیکھ سکتے۔ میں دیکھ لیتی ہوں۔ اپنی جگہ پر ٹھہرے رہو مجھے مڑھی کے سرہانے مٹی کا پرانا چراغ نظر آ رہا ہے میں اسے روشن کرتی ہوں۔“

مجھے اندھیرے میں روہنی ساۓ کی طرح دکھائی دے رہی تھی۔ اس نے آگے بڑھ کر ایک جگہ سے مٹی کا چراغ اٹھایا اور اس کو انگلی سے چھوا تو چراغ کی لو روشن ہو گئی۔ اس نے چراغ مڑھی کے سرہانے اینٹ پر رکھ دیا۔ چراغ کی روشنی میں، میں نے دیکھا کہ ایک ٹوٹا پھوٹا اینٹوں کا چبوترہ تھا جس پر چھوٹی سی مخروطی مڑھی بنی ہوئی تھی۔ ہر طرف مکڑیوں کے جالے لٹک رہے تھے۔

روہنی نے دلہن کی ادھ جلی کھوپڑی مڑھی کے آگے ایک اینٹ پر رکھ دی اور میری طرف دیکھ کر کہا۔ ” مجھے اس کھوپڑی پر منتر پھونک کر چلہ کاٹنا ہے۔ مجھے ساری رات لگ جاۓ گی۔ تم اگر چاہو تو یہاں گھپا کے کونے میں بیٹھ جاؤ۔ اگر چاہو تو باہر کھلی ہوا میں جا کر بیٹھ جاؤ۔ جب رات ڈھلنے لگے تو آ جانا۔‘‘ میں نے کہا۔ ”میں کچھ دیر تمہارے پاس ہی رہوں گا۔
اس کے بعد اگر جی چاہا تو باہر چلا جاؤں گا۔“ روہنی بولی۔’’ جیسے تمہاری مرضی ۔ لیکن جب میں منتر پڑھ کر چلہ شروع کروں تو مجھے بالکل نہ بلانا نہیں تو چلہ الٹا پڑ جاۓ گا۔“

میں نے کہا۔ " میں خاموش رہوں گا۔ لیکن یہ دلہن کی کھوپڑی تم سے کیسے بات کرے گی ؟
روہنی بولی ۔ ” میں اس نئی نویلی دلہن کی آتما کو حاضر کروں گی۔ وہ حاضر ہو کر مجھ سے خود ہی بات کرے گی۔ “
میں نے کہا۔’’وہ بھی تو بدروح ہی ہوگی۔ کہیں مجھے چمٹ تو نہیں جاۓ گی ؟‘‘ روہنی نے کہا۔ ” میرے ہوتے ہوۓ تمہیں کسی کی بدروح پریشان نہیں کر سکتی۔ پھر بھی احتیاط کے طور پر میں اپنے ارد گرد ایک طلسمی دائرہ کھینچ دیتی ہوں۔“ روہنی نے وہاں پڑی ہوئی ایک لکڑی کا ٹکڑا اٹھایا اور جہاں وہ کھڑی تھی وہاں اپنے ارد گرد ایک دائرہ کھینچ دیا۔ دائرہ کھینچتے ہوئے وہ ساتھ ساتھ کچھ پڑھتی جارہی تھی۔ دائرہ کھینچنے کے بعد اس نے مجھ سے کہا۔ ” میرے چلہ کاٹنے کے دوران کوئی بھی بدروح اس دائرے سے نکل کر تمہاری طرف نہیں آ سکے گی۔

اب خاموش ہو کر بیٹھے رہو۔ میں چلہ شروع کرنے لگی ہوں۔“ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ روہنی دلہن کی کھوپڑی کے سامنے آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی اور کسی عجیب و غریب منتر کا پاٹھ کرنا شروع کر دیا۔ دیئے کی روشنی میں وہ مجھے صاف نظر آرہی تھی۔ اس نے منتر پڑھنے شروع کر دیئے ۔ منتر پڑھتے پڑھتے تھوڑی تھوڑی دیر بعد وہ کھوپڑی پر پھونک مار دیتی تھی۔ کچھ دیر تک تو میں اسے تکتا رہا پھر مجھ پر غیبی حالت میں بھی ہلکی ہلکی غنودگی طاری ہونے لگی اور میں نیند کی آغوش میں اتر گیا۔

نیند کی حالت میں بھی میرے کانوں کو روہنی کے منتروں کی بھنبھناہٹ سی سنائی دے رہی تھی۔ کچھ دیر گزرنے کے بعد یہ آواز آنی بھی بند ہوگئی۔ کچھ پتہ نہیں میں کب تک سویا رہا۔ میری آنکھ اس وقت کھلی جب روہنی کے منتر پڑھنے کی آواز کافی بلند ہو چکی تھی۔ اب وہ منتر پڑھتے پڑھتے زمین پر سے تھوڑی سی مٹی اٹھا کر کھوپڑی پر ڈال دیتی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد میں نے دیئے کی روشنی میں دیکھا کہ دلہن کی ادھ جلی کھوپڑی نے حرکت کرنی شروع کر دی۔ وہ آہستہ آہستہ تھرکنے لگی تھی۔ کھوپڑی کو حرکت کرتے دیکھ کر روہنی نے زیادہ بلند آواز میں منتروں کا جاپ شروع کردی ۔۔

میں دل میں خوف سا محسوس کر رہا تھا کہ خدا جانے اب یہاں کیسی کیسی بدروحیں اترنا شروع ہو جائیں گی اور روہنی کے ساتھ مجھ پر بھی کوئی ناگہانی مصیبت نازل ہو جاۓ گی۔ کھوپڑی تھرکتے تھرکتے ایک بار ذرا سی اچھلی اور اینٹ پر سیدھی ہو کر کھڑی ہو گئی۔ اس کے ساتھ ہی اس کی آنکھوں کے سیاہ گڑھے اس طرح روشن ہوگئے جیسے اس کے اندر کسی نے بجلی کا بلب روشن کر دیا ہو ۔ جب روہنی منتر پڑھتے پڑھتے ایک لمحے کے لئے خاموش ہو گئی پھر اس نے ذرا اونچی آواز میں دلہن کی کھوپڑی کو سوال کیا۔ ” تمہارا نام کیا ہے ؟" کھوپڑی میں سے ایک عورت کی آواز آئی۔ میر انام چپا ہے۔"
روہنی نے پوچھا۔ ” کیا تم مجھے دیکھ رہی ہو ؟“ کھوپڑی نے جواب دیا۔’’ہاں میں تمہیں دیکھ رہی ہوں۔‘‘ روہنی نے کہا۔ میں نے تمہارا چلہ کاٹا ہے۔ جو پوچھوں گی بتاؤ گی ؟‘‘ کھوپڑی نے جواب دیا۔ ’’ بتاؤں گی ۔‘‘
روہنی نے پوچھا۔” مجھے بتاؤ پجاری رگھو کی کمزوری کیا ہے ؟“ کھوپڑی کی آنکھوں سے نکلتی روشنی یہ سوال سنتے ہی مدھم پڑ گئی۔ پھر ایک دم تیز ہو گئی ۔ کھوپڑی نے کہا۔ ” پچاری رگھو کی کوئی کمزوری نہیں ہے۔ اس کی شکتی کی کوئی اتھاہ نہیں ہے ۔ تم اس کا مقابلہ نہیں کر سکو گی۔ یہ خیال اپنے دل سے نکال دو۔“ روہنی نے کہا۔ ”تم اچھی طرح سے جانتی ہو کہ میں بھی بدروح ہوں اور بدروح جس بدروح کا چلہ کاٹ لیتی ہے اس کا ذمہ ہو جاتا ہے کہ وہ چلہ کاٹنے والی بدروح کی مدد کرے اس لئے میرا مدد کرنا تمہارا فرض بن چکا ہے۔
مجھے بتاؤ کہ میں پجاری رگھو کی بدروح کو کس طریقے سے شکست دے سکتی ہوں ؟‘‘ کھوپڑی نے کہا۔ " تم کسی بھی طریقے سے پجاری رگھو کو شکست نہیں دے سکو گی نادان بدروح! اس خیال کو بھول جاؤ ورنہ نقصان اٹھاؤ گی۔“ روہنی نے اپنی آواز کو ذرا بلند کرتے ہوۓ کہا۔ ”میں نے تمہارا چلہ کاٹ کر تمہارا حق ادا کر دیا ہے ۔ اب تم اپنا حق ادا کرو اور مجھے بتاؤ کہ میں اپنے دشمن کو کیسے نیست و نابود کر سکتی ہوں۔ میں جانتی ہوں تمہیں کوئی نہ کوئی طریقہ ضرور معلوم ہوگا۔“
کھوپڑی نے کہا۔” مجھے کچھ معلوم نہیں۔ مجھے پریشان نہ کرو۔“ روہنی نے دلہن کی بدروح کو دھمکی دیتے ہوئے کہا۔ " چمپا کی بدروح! میری بات غور سے سن اگر تم نے مجھے کوئی طریقہ بتا دیا تو میں تمہاری کھوپڑی آگنی دیوی کے شعلوں کے حوالے کر دوں گی تاکہ جل کر راکھ ہو جانے کے بعد تمہاری بدروح کو چین نصیب ہو ۔ اگر تم نے انکار کیا تو میں تمہاری کھوپڑی کو جنگلی درندوں کے آگے ڈال دوں گی جو تمہیں چبا چبا کر کھا جائیں گے اور تمہاری بدروح تڑپتی رہ جاۓ گی ۔
‘‘ اچانک کھوپڑی کی آواز بلند ہوئی۔ ” بھگوان کے لئے ایسا نہ کرنا۔ مجھے جو کچھ معلوم ہے تمہیں بتاۓ دیتی ہوں۔“ روہنی نے کہا۔ میں وعدہ کرتی ہوں کہ ایسا نہیں کروں گی ۔ اب بتاؤ وہ کون سا طریقہ ہے جس کے ذریعے میں اپنے دشمن پجاری رگھو کو شکست دے سکتی ہوں۔“ کھوپڑی کہنے گئی۔ ” یہ بات تم اچھی طرح سے جانتی ہو کہ تم غائب ہو کر دنیا والوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو سکتی ہو مگر پجاری رگھو تمہیں غیبی حالت میں بھی دیکھ سکتا ہے۔“
روہنی نے کہا۔ ” تم کہنا کیا چاہتی ہو ؟“ کھوپڑی نے کہا۔ ”میں تمہیں ایک ایسی چیز دوں گی جس کو استعمال کرنے سے تم پجاری رگھو کو بھی نظر نہیں آؤ گی۔ بس میں تمہاری اتنی ہی مدد کر سکتی ہوں۔ جب تم پجاری رگھو کی نگاہوں سے بھی غائب ہو سکو گی۔ جب وہ بھی تمہیں نہیں دیکھ سکے گا تو اس کے قریب پہنچ کر تم اسے ہلاک کرنے کا کوئی راستہ تلاش کر سکتی ہو ۔ “ روہنی نے پوچھا۔ ” وہ کون سی چیز ہے ؟‘‘
دلہن کی کھوپڑی نے کہا۔ ’’اس کے لئے تمہیں میرے سر کو اگنی دیوی کے شعلوں کے سپرد کرنا ہوگا۔ جب میری کھوپڑی جل کر راکھ ہو جاۓ گی تو میری راکھ کا کچھ حصہ تم اپنے پاس رکھ لینا اور باقی دریا میں بہا دینا۔ “ روہنی نے پوچھا۔ ”میں تمہاری راکھ کو لے کر کیا کروں گی ؟“ کھوپڑی نے کہا۔ ’’جب تم میری راکھ کی ایک ایک سلائی اپنے آنکھوں میں ڈال کر پجاری رگھو کے سامنے جاؤ گی تو وہ اپنی زبردست جادو کی طاقت کے باوجود تمہیں نہیں دیکھ سکے گا۔ اس حالت میں تم اپنے دشمن کو ختم کرنے کے لئے کوئی بھی وار کر سکتی ہو ۔
لیکن ایک بات کا تمہیں خیال کرنا پڑے گا۔ " کس بات کا ؟‘‘ روہنی نے پوچھا۔ دلہن کی ادھ جلی کھوپڑی نے کہا۔ ”میری کھوپڑی کی راکھ کا اثر ایک دن تک بھی رہ سکتا ہے اور ایک گھنٹے میں بھی ختم ہو سکتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ راکھ کی سلائی آنکھوں میں ڈالنے کے دس منٹ بعد ہی اس کا اثر ختم ہو جاۓ اور تم پجاری رگھو کو نظر آنے لگو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک منٹ بعد میری راکھ کا اثر دوبارہ واپس آ جاۓ اور تم ایک بار پھر پجاری رگھو کی نظروں سے غائب ہو جاؤ۔
“ روہنی نے جھنجلا کر کہا۔ ” اس طرح تو میں کسی مشکل میں بھی پھنس سکتی ہوں۔ میں پجاری رگھو کو ایک بار نظر آگئی تو وہ مجھے اس وقت اپنے قبضے میں کر لے گا۔ کھوپڑی نے کہا۔ اس کا کوئی توڑ تمہیں خود تلاش کرنا ہوگا۔ تمہارے لئے میں جو کچھ کر سکتی تھی وہ میں نے بتا دیا ہے اس سے زیادہ کچھ کرنے کی میری طاقت نہیں ہے۔۔۔۔۔
روہنی نے کہا۔ ” ٹھیک ہے۔ جیسا تم نے کہا ہے میں ویسے ہی کروں گی۔“ جیسے ہی روہنی کی زبان سے یہ الفاظ نکلے دلہن کی کھوپڑی کی آنکھوں کی روشنی بچھ گئی اور وہ ایک طرف کو لڑھک گئی۔ میں روہنی اور دلہن کی کھوپڑی کی باتیں بڑے غور سے سن رہا تھا۔ جب کھوپڑی جو تھوڑی دیر پہلے اینٹ پر سیدھی کھڑی تھی ایک طرف لڑھک گئی تو روہنی نے میری طرف دیکھا اور کہا۔ ”دلہن کی بدروح چلی گئی ہے۔ تم نے ہماری گفتگو ضرور سن لی ہوگی۔“
میں نے کہا۔ ” میں نے ایک ایک لفظ بڑے غور سے سنا ہے۔“ روہنی کھوپڑی کو ہاتھ میں لے کر اٹھ کھڑی ہوئی اور کہنے لگی۔ اب ہمیں اس کھوپڑی کو جلاد دینا ہوگا۔“
ہم گھپا سے نکل کر باہر تالاب کے پاس آگئے ۔ رات کا اندھیرا چاروں طرف پھیل چکا تھا ۔۔۔
ہم نے ادھر ادھر سے درختوں کے سوکھے پتے اور گری پڑی شاخیں ایک جگہ اکٹھی کر لیں۔ روہنی نے دلہن کی کھوپڑی کو اس کے اندر رکھ کر اس کے اوپر اور لکڑیاں رکھ دیں اور پھر روہنی نے سوکھی شاخوں اور پتوں کے ڈھیر کو اپنی انگلی سے چھوا اور ڈھیر کو آگ لگ گئی۔ جب ساری لکڑیاں جل گئیں تو روہنی نے درخت کی ایک ٹہنی سے کرید کر انگاروں کو ایک طرف ہٹایا تو دلہن کی کھوپڑی ویسی کی ویسی پڑی تھی ۔۔۔
روہنی نے کہا۔ ” یہ جل کر راکھ ہو چکی ہے۔“ پھر روہنی نے درخت کا ایک چوڑا پتا اٹھایا اور اس کو کھوپڑی کے ساتھ لگا کر کھوپڑی کو ٹہنی سے ہلایا۔ آدھی کھوپڑی راکھ بن کر پتے میں گری۔ اس کے فورا بعد باقی کی کھوپڑی بھی اپنے آپ راکھ بن کر بیٹھ گئی۔ روہنی نے پتے میں جو راکھ اٹھائی تھی اسے پتے سمیت اپنے آنچل کے ساتھ اچھی طرح سے باندھ کر رکھ لیا اور کہنے گئی۔ کھوپڑی کی بچھی ہوئی راکھ کو ہمیں دریا میں بہانا ہوگا۔‘‘ اور اس نے کھوپڑی کی باقی کی راکھ کو بھی اپنے آنچل کے دوسرے سرے میں ڈال کر باندھ لیا اور کہنے لگی۔ ”دریا یہاں سے دور نہیں ہے ۔ ہمیں وہاں اس راکھ کو بہا دینا ہوگا۔ میرے ساتھ آجاؤ۔“
ہم سوامی جی کی گھپا کے علاقے سے پرواز کر کے دریائے گنگا کی طرف چلے۔ دریا قریب ہی تھا۔ ہم بنارس شہر کے شمال میں ہی تھے۔ ہم نے دلہن کی کھوپڑی کی راکھ کو دریا میں بہا دیا۔
آسمان پر اس وقت سحر کا امبالا نمودار ہو رہا تھا۔ میں نے روہنی سے پوچھا ۔ " مجھے یہ بتاؤ کہ اب ہمیں کس طرف جانا ہے اور کیا کرنا ہے۔ اگر دیکھا جاۓ تو ہمیں ابھی تک اپنی مہم میں کوئی کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ تم نے دلہن کی لاش کا چلہ ضرور کاٹا ہے مگر اس کے بدلے میں دلہن کی بدروح نے تمہاری طاقت میں تھوڑا سا اضافہ
کرنے کے سوا تمہیں کچھ نہیں بتایا۔ اگر ہم ذرا غور کریں تو ہم بالکل نہتے ہیں اور ایک ایسے دشمن کے سامنے کھڑے ہیں جس کے پاس ہر قسم کا اسلحہ موجود ہے۔
میں مانتا ہوں کہ کھوپڑی کی راکھ کی سلائی آنکھوں میں لگانے کے بعد ہم اپنے دشمن پجاری رگھو کو نظر نہیں آئیں گے لیکن اس سے کیا فائدہ ہوگا۔ جب تک ہمیں یہ معلوم نہیں ہوگا کہ پجاری رگھو کی طاقت کا سب سے کمزور پہلو کون سا ہے تاکہ ہم اسے اپنے حملے کا نشانہ بنا سکیں۔ جب تک ہمیں اس کے کسی کمزور پہلو کا راز معلوم نہیں ہوگا ہم اپنی مہم میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے ۔ ہم پجاری رگھو پر دستی بموں کا ٹوکرا بھی پھینک دیں گے تو اس پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ “
روہنی بڑے غور سے میری باتیں سن رہی تھی۔ جب میں نے اپنی بات ختم کی تو کہنے گی۔ ” میں تمہاری باتوں سے پورا اتفاق کرتی ہوں۔ لیکن ابھی ہم جنگ کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں۔ ہمیں جہاں کہیں سے بھی کوئی جنگ میں کام آنے والا اسلحہ ملتا ہے ہم اسے اپنے پاس رکھ لیتے ہیں کہ شاید یہی وقت پر کام آ جاۓ کیونکہ ہمارے دشمن پجاری رگھو کی طلسمی طاقت کے کئی پہلو ہیں، کئی حلقے ہیں۔ خدا نے چاہا تو ہمیں یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ ہمیں اپنے دشمن پر کہاں وار کرنا ہے ۔“ ” ٹھیک ہے۔ میں نے کہا۔ لیکن اب ہمیں کیا کرنا ہوگا ؟ " روہنی کہنے لگی۔
”ہمیں صبح ہونے کا انتظار کرنا ہوگا۔ جب دن نکل آۓ گا اور بنارس شہر کے بازار کھل جائیں گے تو مجھے کسی دکان سے چاندی کا ایک خالی تعویذ اور چاندی کا ایک تار خریدنا ہوگا۔ خالی تعویذ میں ، میں کھوپڑی کی راکھ بند کر کے اسے اپنے ایک بازو کے ساتھ باندھے لوں گی۔ چاندی کے تار میں کالی بدروح کا مہرہ پرو کر میں دوسرے بازو پر باندھ کر استعمال کروں گی یہ دونوں کام کرنے کے بعد ہی ہم دشمن تک پہنچنے کا کوئی راستہ تلاش کر سکیں گے ۔"
میں نے کہا۔ ” ہو سکتا ہے اس دوران دشمن خود بھی ہم پر حملہ کر دے کیونکہ میرا خیال ہے پجاری رگھو کو ضرور پہ چل گیا ہوگا کہ ہم بدروحوں کی دنیا میں کالی بدروح کے پاس چلے گئے تھے۔ پجاری رگھو ہو شیار ہوگیا ہوگا۔“ روہنی بھی شاید اسی طرح سوچ رہی تھی۔ کہنے لگی۔” پجاری رگھو بدروحوں کی دوسری دنیا میں رہتا ہے جہاں ہم لوگ نہیں جا سکتے۔ وہ میری بلکہ اب ہماری تلاش میں انسانوں کی دنیا میں ضرور آتا ہے۔
ہمیں صرف یہ سراغ لگانا ہوگا کہ وہ انسانوں کی دنیا میں کب آتا ہے اور یہاں کس شمشان گھاٹ میں آکر اترتا ہے۔“ میں نے کہا۔ ”تم خود ایک بدروح بھی ہو ۔ تمہارے پاس رگھو کے مقابلے میں کوئی کم طلسمی طاقت نہیں ہے۔ کیا تم یہ سراغ نہیں لگا سکتی؟“
روہنی نے جواب دیا۔ ”میں تمہیں پہلے بھی بتا چکی ہوں کہ میری طلسمی طاقت پجاری رگھو کی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ “
میں نے فورا کہا۔ ”تو پھر ہم تو اسی طرح بھٹکتے رہیں گے اور تمہارے ساتھ میں بھی بھٹکتا رہوں گا اور اس دوران کوئی پتہ نہیں کب ہمارا دشمن اچانک ہم پر وار کرکے ہمیں ختم کر ڈالے ..... روہنی کچھ سوچ رہی تھی۔ اچانک جیسے اسے کچھ یاد آ گیا۔ کہنے لگی۔’’
میں ایک کام کر سکتی ہوں۔“
”وہ کیا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
کہنے لگی۔ ’’آج سے تین سو سال پہلے جب میں اپنے محل میں ملکہ بن کر رہ رہی تھی تو درگا نام کی میری ایک سہیلی تھی جو جے پور کے راجہ کی رقاصہ یعنی اور محبوبہ بھی تھی۔ لیکن درگا کو محل کے ایک حبشی غلام سے محبت ہو گئی۔ راجہ کو پتہ چلا تو اس نے درگا کو قتل کروا دیا۔ مجھے یقین ہے کہ درگا کی بدروح محل میں موجود ہوگی۔ مجھے اس کے پاس جا کر، اس بارے میں مشورہ کرنا چاہئے ۔ بدروحوں کو دوسری بدروحوں کے بہت سے راز معلوم ہوتے ہیں ۔
میں نے کہا۔” تو پھر ابھی اس کے پاس چلتے ہیں۔“ روہنی نے کہا۔ ”بدروحیں ویران جگہوں پر آدھی رات کے وقت ظاہر ہوتی ہیں۔ دن کے وقت وہ زمین کے اندر پاتال میں چھپی رہتی ہیں۔ ہم کچھ وقت خالی تعویذ وغیرہ خریدنے میں گزارتے ہیں۔اس کے بعد جے پور کی طرف پرواز کر جائیں گے اور وہاں رات ہونے کا انتظار کریں گے ۔ “
یہ فیصلہ کرنے کے بعد ہم اس غیبی حالت میں پرواز کر کے بنارس شہر کی ایک ویران جگہ پر دریا کنارے اتر گئے ۔ روہنی نے کہا۔ ’’اب ہمیں عام انسانوں کی شکل صورت میں واپس آ جانا چاہئے۔ سب سے پہلے روہنی اپنی عورت کی شکل میں واپس آئی اس کے بعد اس نے مجھ پر منتر پھونکا اور میں اپنی انسانی شکل و صورت میں واپس آ گیا۔ ہم بنارس کے ایک بازار میں آگئے جہاں دوکانیں کھل چکی تھیں اور لوگ خرید و فروخت میں مصروف تھے۔
ہم ایک ہندو سنار کی دکان پر گئے اور اس سے خالی تعویذ طلب کیا۔ بنارس پجاریوں اور جوتشیوں کا شہر بھی مشہور تھا۔ ہندو ویسے بھی توہم پرست ہوتے ہیں اور جو تشی نجومی کی مرضی کے بغیر کوئی کاروبار شروع کرتے ہیں۔۔۔
لالہ جی نے روہنی کو چاندی کا ایک تعویذ دکھایا اور کہا۔ ”بہن کی یہ خالص چاندی کا تعویذ ہے ۔“
تعویذ چھوٹا سا تھا لیکن اس میں کھوپڑی کی راکھ ہی تو رکھنی تھی۔ روہنی نے وہ تعویذ اور چاندی کا ایک مضبوط باریک تار بھی خرید لیا۔ اس کے بعد ہم دکان سے باہر نکلے تو میں نے روہنی سے کہا۔ ’’انسانی جسم میں واپس آنے کے بعد مجھے بھوک کا احساس ہو رہا تھا۔‘‘
روہنی نے مسکرا کر میری طرف دیکھا۔ کہنے لگی۔ ” جے پور چل کر ناشتہ کر لینا۔“
بنارس سے ہم غیبی حالت میں جے پور آگئے۔ جے پور کا پرانا شہر ، شہر کے قلعے اور پرانے محلات اور پرانی بارہ دریاں سب روہنی کی دیکھی بھالی تھیں۔ ہم ایک ویران سے مقام پر اتر کر انسانی شکل میں واپس آ گئے۔ وہاں سے جے پور شہر میں داخل ہوئے یہ بڑا تاریخی شہر تھا۔ راجاؤں کے پرانے محل تھے جن میں سے بعض محل ابھی تک کافی صحیح حالت میں تھے ۔ دنیا بھر کے ملکوں کے سیاح ان محلات کو دیکھنے ہر سال آتے تھے ۔ میں نے ایک ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر ناشتہ کیا اور وہاں سے اٹھا کر روہنی مجھے اس تین سو برس پرانے محل میں لے آئی جہاں اس کی سہیلی درگا کا قتل ہوا تھا۔
یہ محل اپنی پرانی حالت میں نہیں تھا اور ویران ہو چکا تھا۔ لیکن بھارت کے محکمہ آثار قدیمہ والوں نے پھر بھی اسے کافی بہتر حالت میں رکھا ہوا تھا۔
جس وقت ہم محل میں داخل ہوئے اس وقت کچھ غیر ملکی سیاح بھی محل میں ادھر ادھر چل پھر کر تصویریں وغیر ہ اتار رہے تھے ۔ ہم دونوں اپنی عام انسانوں والی شکل میں ظاہر حالت میں تھے ۔ لوگوں کی نظروں سے غائب نہیں تھے۔ اگر چہ روہنی عام شلوار قمیض میں تھی مگر اس کی شخصیت ہی بڑی پرکشش تھی۔ وہ دراز قد اور خوبصورت تھی۔ اس کی چال میں بھی مہارانیوں والا وقار تھا۔
ہم دونوں وقت گزارنے کے لئے راجہ کے پرانے محل میں گھوم پھر رہے تھے ۔۔۔
اسی طرح باتیں کرتے ہم محل کے بے شمار ستونوں والے ہال کمرے میں ٹہل رہے تھے۔ ایک نوجوان غیر ملکی سیاح بھی وہاں چل پھر کر محل کی دیواروں پر بنے ہوۓ پرانے نقش و نگار کی تصویریں اتار رہا تھا۔ اس نے ہمیں دیکھا تو جانے اس کے دل میں کیا خیال آیا شاید وہ روہنی کی پروقار شخصیت سے متاثر ہوگیا تھا۔ اس نے ہمارے قریب آکر ٹوٹی پھوٹی اردو میں کہا۔ ”شما کرنا۔ میں تمہاری ایک فوٹو لینا چاہتا ہوں۔ کیا تم کو اعتراض تو نہیں۔ “
میرے منہ سے نکل گیا۔ ” نہیں کوئی اعتراض نہیں۔“ روہنی نے میری طرف ایسی نظروں سے دیکھا جیسے وہ تصویر اتروانا نہیں چاہتی تھی لیکن چونکہ میں نے حامی بھر لی تھی شاید اس لئے اس نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ اس غیر ملکی نوجوان سیاح کے ہاتھ میں ایسا کیمرہ تھا جس میں سے اس وقت کلر فوٹو باہر آ جاتی تھی۔ اس قسم کے کیمرے اس زمانے میں یورپ کے ملکوں میں عام ہوتے تھے۔ میں تصویر اتروانے کے لئے روہنی کے پاس پوز بنا کر کھڑا ہو گیا۔ غیر ملکی سیاح نے کیمرے کا رخ ہماری طرف کیا اور بٹن دبا دیا اور تھینک یو کہا۔ اس لمحے کیمرے کے اندر سے ہلکی سی آواز کے ساتھ ہماری رنگین فوٹو باہر نکل آئی۔
غیر ملکی سیاح نے بڑے شوق سے فوٹو کو نکال کر دیکھا اور پھر دیکھتا ہی رہ گیا۔ کبھی وہ فوٹو کو دیکھتا اور کبھی ہماری طرف دیکھتا۔ میں نے آگے بڑھ کر غیر ملکی سیاح سے کہا۔’’ یہ تصویر ہمیں دے دو۔ یہ ہماری یادگار فوٹو ہے۔“
غیر ملکی سیاح نے فوٹو میری طرف بڑھا دی اور پھر اپنے کیمرے کا شٹر کھول کر اسے غور سے دیکھنے لگا۔ اب جو میں نے فوٹو لے کر اسے دیکھا تو میں بڑا حیران ہوا کیونکہ اس فوٹو میں ، میں تو موجود تھا مگر روہنی موجود نہیں تھی وہ غائب تھی۔ اس کی تصویر نہیں اتری تھی حالانکہ تصویر اترواتے وقت وہ میرے ساتھ کھڑی تھی۔ روہنی بھی فوٹو کو دیکھ رہی تھی۔
غیر ملکی سیاح تو اس قدر حیرت زدہ تھا کہ کبھی اپنے کیمرے کو دیکھتا اور کبھی روہنی کی طرف دیکھتا تھا۔ اس حیرت کے عالم میں وہ ہمیں فوٹو دے کر وہاں سے چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد روہنی مجھ سے کہنے لگی ۔’’ میں جانتی تھی کہ میری فوٹو نہیں اترے گی۔ میں تمہیں منع بھی کرنا چاہتی تھی لیکن تم تصویر اتروانے کے لئے ہاں کر چکے تھے اس لئے خاموش رہی۔“
حیران میں بھی تھا اور کلر فوٹو کو بار بار دیکھ رہا تھا۔ فوٹو میں روہنی کی جگہ بالکل ایسے خالی تھی جیسے میں نے وہ تصویر اکیلے اتروائی ہو ۔۔ میں نے روہنی سے پوچھا۔ "کیمرے نے تمہاری تصویر کیوں نہیں اتاری؟“
اس نے میرا بازو تھام کر مجھے محل کے دوسرے حصے کی طرف لے جاتے ہوۓ آہستہ سے کہا۔ ”میں زندہ عورت نہیں ہوں۔ میں مر چکی ہوں اور اپنی بدروح کی شکل میں چل پھر رہی ہوں اور ہم بدروحوں کی تصویر کوئی بھی کیمرہ نہیں اتار سکتا۔ یہ میرے لئے ایک نیا انکشاف تھا۔ میں نے روہنی سے کہا۔ ” اس محل میں وہ کمرہ کہاں ہے جہاں تمہاری سہیلی درگاہ کو قتل کیا گیا تھا۔ اس نے کہا۔ ”وہ کمرہ اس محل کے تہہ خانے میں ہے مگر وہاں ہم صرف رات کے وقت ہی جائیں گے ۔“
میں خاموش رہا اور روہنی سے بالکل نہ پوچھا کہ ہم صرف رات کے وقت ہی وہاں کیوں جائیں گے ۔ دن کے وقت کیوں نہیں جا سکتے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ روہنی نے شروع دن ہی سے مجھے اس قسم کے سوالات پوچھنے سے منع کر دیا تھا۔ جے پور میں اتنے قدیم محلات ، بارہ دریاں اور تاریخی مقامات تھے کہ ہمیں ان میں گھومتے ہوۓ شام ہو گئی۔ مجھے پھر بھوک لگ گئی تھی چنانچہ ہم جے پور شہر کے ایک ہوٹل میں آکر بیٹھ گئے۔ وہاں میں نے کھانا کھایا اس کے بعد ہم درگا کے محل میں واپس آگئے۔
یہ محل بھی انڈیا کے محکمہ آثار قدیمہ کی تحویل میں تھا۔ رات کے آٹھ بج چکے تھے ۔ سیاحوں کی آمد ورفت کے لئے گیٹ بند کر دیا جا چکا تھا۔ باہر دو مسلح چوکیدار پہرہ دے رہے تھے۔ مگر ہمیں کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں تھی۔ روہنی مجھے ایک خفیہ راستے سے محل کے اندر لے گئی۔ ہم غائب ہو کر بھی جا سکتے تھے مگر غائب ہونے کی طاقت کو روہنی وہاں کبھی استعمال نہیں کرتی تھی جہاں اس کے بغیر بھی کام چل سکتا ہو۔ ہمیں آدھی رات گزر جانے کے بعد محل کے تہہ خانے میں جانا تھا اس لئے ہم وقت گزارنے کے لئے محل کی بارہ دری میں بیٹھ گئے۔
رات کا منظر بڑا خوبصورت تھا۔ آسمان پر چاند نکلا ہوا تھا جس کا عکس دوسری جانب ایک بہت بڑی جھیل میں پڑ رہا تھا۔ چاندنی دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ محل کی چھت پر سے جے پور شہر کی روشنیاں چمکتے ہیرے موتیوں کی طرح لگ رہی تھیں۔ روہنی نے کالی بدروح کا مہرہ اور وہ تہہ کی ہوئی کاغذ کی پڑیا نکال لی جس میں دلہن کی کھوپڑی کی راکھ تھی۔ پھر اس نے چاندی کا تار اور چاندی کا تعویذ بھی نکال کر اپنے سامنے رکھ لیا۔ کہنے لگی۔ میں چاہتی ہوں۔اس وقت یہ کام بھی ہو جاۓ۔‘‘
سب سے پہلے اس نے چاندی کے تعویذ میں دلہن کی کھوپڑی کی راکھ ڈالی اور اسے اچھی طرح سے بند کر کے اپنی قمیض کی آستین اوپر اٹھائی اور مجھ سے کہا۔ ”شیروان ! میری جان! یہ تعویذ اوپر کر کے میرے بازو پر باندھ دو۔“ میں نے تعویذ بڑی احتیاط کے ساتھ اس کے بازو کے اوپر کر کے باندھ دیا۔ اس کے بعد روہنی نے کالی بدروح کے مہرے میں چاندی کا تار پرو دیا اور مجھ سے کہا۔ کالی بدروح کا یہ مہرہ تعویذ کے نیچے کر کے باندھے دو۔“
میں نے اسے بھی روہنی کے بازو سے باندھ دیا۔ اس نے اپنی قمیض کی آستین نیچے کر لی۔ ہم باتیں کرنے لگے۔ میں نے روہنی سے کہا۔ ’’سلطانہ ! شروع شروع میں تمہارے سر پر ہیرے جواہرات سے جڑا ہوا چھوٹا سا تاج ہوا کرتا تھا اور گلے میں سفید موتیوں کی مالا ..... اب تم وہ کیوں نہیں پہنتیں ؟ انہیں تم نے کہاں غائب کر دیا ہے ؟“
روہنی نے مسکرا کر کہا۔ ”شیروان !! ابھی ان باتوں کے لئے میرے پاس وقت نہیں ہے۔ جب وقت آۓ گا تو میں انہیں بھی پہن لوں گی۔ میں نے کہا۔ " تم شلوار قمیض میں بھی بڑی اچھی لگتی ہو ۔“ وه شرما سی گئی۔ کہنے لگی۔ ’’شیروان ! میرے محبوب ! تم نے پہلی بار مجھ سے محبت پیار کی بات کی ہے۔ کبھی تم ہر وقت مجھ سے یہ باتیں کیا کرتے تھے۔“ میں نے کہا۔ ”میں وہ شیروان نہیں ہوں سلطانہ !جو تمہارا خاوند اور جھانسی کے صوبے کا صوبیدار ہوا کرتا تھا۔ میں محض اس کا ہم شکل ہوں یعنی میری تھوڑی سی اس سے شکل ملتی ہے ۔“
روہنی آسمان پر چمکتے چاند کو دیکھ رہی تھی کہنے لگی۔ اگر تم ایسا ہی سمجھتے ہو تو میں کوئی اعتراض نہیں کروں گی۔ میں تو اس میں خوش ہوں کہ تین سو برس کے بعد انسانوں کی دنیا میں مجھے میرے شیروان کی شکل مل گئی ہے ۔“
اس نے میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور گہرا سانس بھر کر محبت بھرے لہجے میں بولی۔ ’’شیروان ! وعدہ کرو کہ اس مہم میں کامیاب ہو جانے کے بعد بھی تم میرا ساتھ نہیں چھوڑو گے۔“
میں نے کہا۔ ” پتہ نہیں تب کیا حالات ہوں گے ۔ میں وعدہ نہیں کر سکتا۔“ میں اپنے دل میں کہہ رہا تھا کہ ایک بار مجھے اس بدروحوں کی خرافات سے نجات مل جائے تو پھر کسی بدروح سے ملنا تو درکنار میں اس کے بارے میں سوچوں گا بھی نہیں ۔۔۔۔
روہنی نے کہا۔ ”کیوں ! تم ایسا وعدہ کیوں نہیں کر سکتے ؟ لو میں تم سے وعدہ کرتی ہوں کہ اس مہم کی کامیابی کے بعد جب میری روح کو نجات مل جائیگی تو اس کے بعد بھی میں تمہارے ساتھ رہوں گی۔“
میں نے دل میں کہا۔ ” خدا نہ کرے کہ تم میرے ساتھ رہو۔“ اوپر سے کہا۔ ” ٹھیک ہے۔ بھلا میں تمہیں ایسا کرنے سے کیسے منع کر سکتا ہوں۔ تم جب اور جس وقت اور جہاں چاہو میرے پاس پہنچ جاؤ گی میں تمہیں روک ہی نہیں سکوں گا۔“
روہنی نے اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا۔ بولی۔”کیا تم نہیں چاہتے کہ میں تمہیں ملنے آیا کروں؟“
میں نے جلدی سے اسے مطمئن کرنے کے انداز میں کہا۔ نہیں ، نہیں سلطانہ ! میرا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے۔ میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ تم ہر وقت میرے پاس آ سکتی ہو۔
اس قسم کی منافقت سے صرف میرے جیسا زندہ انسان ہی کام لے سکتا تھا۔ میری منافقت کو روہنی ایک بدروح ہو کر بھی نہ سمجھ سکی اور میری جھوٹی تسلی سے مطمئن ہو گئی۔
محل کی چھت پر بیٹھے باتیں کرتے جب آدھی رات ہو گئی تو روہنی کہنے لگی۔ ”رات آدھی گزر چکی ہے۔ اب ہمیں محل کے تہہ خانے میں جانا ہوگا۔‘‘ یہ سن کر میرا دل ایک لمحے کے لئے دھڑکا اور پھر معمول پر آ گیا۔ بس دل میں یہی خیال آیا تھا کہ میں ایک اور تین سو سال پرانی مقتولہ کی بدروح سے ملنے جا رہا ہوں۔ خدا خیر ہی کرے۔ اس روہنی کو اس قدیم محل کے سارے راستوں اور خفیہ راستوں کا علم تھا۔ وہ تین سو سال پہلے اس محل میں اپنی رقاصہ سہیلی درگا سے ملنے آیا کرتی تھی۔
ہم ایک ایسی راہ داری میں سے گزرنے لگے جس کی ایک جانب سنگ مر مر کے روشندان کی جالیوں میں سے چاندنی اندر آ رہی تھی۔ وہ ایک زینے کے پاس آکر رک گئی جو نیچے اترتا تھا۔ کہنے لگی۔’’ یہ زینہ اس تہہ خانے میں اترتا ہے جہاں آج سے تین سو برس پہلے میری سہیلی کا خون ہوا تھا۔ ہو سکتا ہے وہاں پہنچنے کے بعد تمہیں کچھ ڈراؤنی آوازیں سنائی دیں ۔ تم ڈرو گے تو نہیں ؟"
میں نے دل میں کہا۔ ’’ڈروں گا نہیں تو کیا خوش ہوں گا؟“ مگر اوپر سے کہا۔’’ تم میرے ساتھ ہو ۔ مجھے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے ؟“ ” مجھے تم سے اسی جواب کی توقع تھی ۔‘‘روہنی نے خوش ہو کر کہا اور میرے آ گئے ہو کر زینہ اترنے لگی۔
زینے میں گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ زینہ نیچے کافی دور تک چلا گیا تھا۔ روہنی نے کہا۔ ” میرے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھ دو۔“ میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ زینہ ختم ہو گیا۔ ہم تہہ خانے میں آگئے ۔ تہہ خانے میں بھی گھپ اندھیرا تھا۔ میں نے اپنا ہاتھ ابھی تک روہنی کے کندھے پر ہی رکھا ہوا تھا کہ کہیں کسی چیز سے ٹھوکر کھا کر گر نہ پڑوں۔ روہنی نے کہا۔ ’’اپنا ہاتھ میرے کندھے پر ہی رکھنا۔ میں ایک جگہ روشنی کرتی ہوں۔
“ چند قدم چلنے کے بعد وہ ایک جگہ رک گئی۔ مجھے محسوس ہوا کہ اس نے اپنا ایک بازو اونچا کیا ۔ پھر تہہ خانے میں مدھم سی روشنی پھیل گئی۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا۔ ہم ایک ستون کے پاس کھڑے تھے اور ستون کے ساتھ لگی ہوئی ایک بریکٹ پر موم بتی روشن ہو گئی تھی۔
میں نے روہنی سے حیران ہو کر پوچھا۔ "کیا یہ موم بتی یہاں تین سو برس سے ہے۔۔۔

پُراسرار حویلی - پارٹ 15

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں