پُراسرار حویلی - پارٹ 1


Sublimegate Urdu Font Stories

 پُراسرار حویلی - پارٹ 1

بمبئی بروڑہ ریلوے لائن پر جھانسی سے بھوپال جاتے ہوۓ جھانسی سے کوئی ساٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر روہت گڑھ کا چھوٹا سا سٹیشن آ تا ہے ۔ روہت گڑھ سے تین چار کوس جنوب مشرق کی جانب گھنے جنگلوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ ان جنگلوں میں شیر ، چیتے ، ہاتھی اور غرض کہ ہر قسم کے درندے ، جانور اور حشرات الارض پاۓ جاتے ہیں۔ یہ جنگل آگے جا کر ہوشنگ آباد ناگ پور کے وسطی جنگلاتی سلسلے سے جا کر مل جاتے ہیں۔ ان جنگلوں کا روہت گڑھ سے ہوشنگ آباد تک کا علاقہ سب سے خطرناک اور خوفناک سمجھا جاتا ہے ۔ ان جنگلوں کے بارے میں یہ روایت بھی مشہور ہے کہ یہاں رات کی تاریکی میں ان لوگوں کی چیخیں سنائی دیتی ہیں جو جنگلی درندوں کا شکار ہو چکے ہیں ۔

اس جنگل میں روہت گڑھ سے تھوڑے فاصلے پر ایک پرانے قلعے کا کھنڈر ہے جسے رانی بائی کا قلعہ کہتے ہیں۔ یہ قلعہ مغلوں کے زمانے کا ہے۔ کہتے ہیں اسے کسی مغل صوبیدار نے اپنی کنیز رانی بائی کے لئے بنوایا تھا۔ قلعے کے اندر رانی بائی کا ایک عالی شان محل تھا۔ اس محل کے نیچے ایک خفیہ سرنگ بنائی گئی تھی جو زمین کے اندر ہی اندر روہت گڑھ تک جاتی تھی۔ ساون کے دنوں میں جب خوب بارشیں ہوتی تھیں تو رانی بائی اس قلعے میں آجاتی تھی اور محل کے باغ میں اپنی کنیزوں کے ساتھ جھولا جھولتی تھی اور موسم برسات کا لطف اٹھاتی تھی۔ پھر ایک دن ایسا ہوا کہ رانی بائی کی خون آلود لاش محل کے پائیں باغ میں پائی گئی۔
رانی بائی کے مسلمان صوبیدار خاوند نے رانی بائی کی لاش کو ہندو رسم کے مطابق نذر آتش کرنے کے بعد اس کی ہڈیاں جس کو ہندو لوگ پھول کہتے ہیں محل کے باغ میں جہاں رانی بائی کی لاش ملی تھی وہیں دفن کر کے اوپر مڑھی یعنی سنگ مر مر کا ایک چبوترہ بنا دیا تھا جس کے اوپر ایک سنگ مر مر کی چھوٹی سی بارہ دری تھی۔

رانی بائی کے اس قلعے کے بارے میں یہ روایت بمبئی تک مشہور تھی کہ کبھی کبھی تاریک راتوں میں اس قلعے میں سے کسی عورت کے رونے اور کبھی درد بھرے گیت گانے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں ۔

ان پر اسرار آسیبی آوازوں کی وجہ سے کوئی شخص اس قلعے کے نزدیک نہیں جاتا تھا۔ لوگوں کو تو اس قسم کی کوئی بات ہاتھ آجانی چاہئے ۔ لوگوں نے یہ بھی مشہور کر رکھا تھا کہ رانی بائی کے قلعے میں ایک ہندو طوائف کی بدروح رہتی ہے جو چڑیل کا جنم لے چکی ہے اور قلعے کے قریب سے گزرنے والے مسافروں یا شکاریوں کو محبت بھری آوازیں دے کر بلاتی ہے اور جب وہ قلعے کے اندر چلے جاتے ہیں تو اس کے بعد ان کا کچھ پتہ نہیں چلتا کہ وہ کہاں غائب ہو گئے ہیں۔

اس بدروح چڑیل کی آواز اب تک کئی انسانوں کو ہڑپ کر چکی ہے۔ جس شخص نے مجھے یہ خوفناک داستان سنائی ہے اس کا کہنا ہے کہ میں نے بمبئی میں رانی بائی کے قلعے کے بارے میں یہ مبالغہ آمیز اور دہشت ناک روایتیں سنیں تو میں نے دل میں اس معمے کو حل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔‘‘ وہ شخص خاموش ہو گیا۔ میں اس شخص کا یہاں نام اس لئے نہیں لکھوں گا کہ اس نے خود بھی اپنا نام نہیں بتایا اور مجھ سے وعدہ بھی لے لیا تھا کہ اگر کسی ذریعے سے مجھے اس کا اصلی نام معلوم بھی ہو گیا تو میں اپنے قارئین کو وہ نام نہیں بتاؤں گا۔

مجھے ابھی تک اس پراسرار قسم کے شخص کا اصلی نام معلوم نہیں ہوا لیکن یقین کریں اگر معلوم ہو بھی گیا تو میں اپنے وعدے کو نبھاؤں گا اور اس کا نام زبان پر نہیں لاؤں گا۔ لیکن چونکہ یہ اس شخص کی آپ بیتی ہے اور یہ سارے دہشت ناک واقعات اس کے ساتھ گزر چکے ہیں اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اس کا ایک فرضی نام رکھنا ضروری ہے۔ میں اس کا نام فیروز فرض کر لیتا ہوں۔ فیروز سے میری ملاقات محض ایک اتفاق سے ہو گئی تھی۔ جولائی، اگست کے موسم میں ، میں پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے ایک صحت افزا پہاڑی مقام پر گیا ہوا تھا۔ کچھ روز وہاں قیام کے بعد وہاں سے واپسی کا سفر شروع کیا تو راستے میں بارش آگئی۔
خیال تھا کہ پہاڑی بارش ہے گھنٹے آدھ گھنٹے بعد رک جاۓ گی۔ لیکن بارش رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ آسان کو سیاہ گھنگھور گھٹاوں نے ڈھانپ رکھا تھا۔ بجلی رہ رہ کر چمک رہی تھی۔ یہ تو کوئی بارش کا طوفان تھا۔ ہماری بس ایک مقام پر جا کر رک گئی۔ معلوم ہوا کہ آگے ایک پہاڑی پل ٹوٹ کر بارش میں بہہ گیا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں اگر کوئی سڑک یا کوئی پل بارش میں بہہ جاۓ تو اتنی جلدی ٹریفک کے واسطے دوسرا راستہ نہیں بنایا جا سکتا خاص طور پر جبکہ بارش بھی موسلا دھار ہو رہی ہو ۔

ہم پندرہ بیس مسافر ایک لگژری کوچ میں سفر کر رہے تھے ۔ کوچ کے ڈرائیور نے جہاں گاڑی کھڑی کی تھی وہ ایک چھوٹا سا پہاڑی گاؤں تھا۔ ذرا بلندی پر ایک ریسٹ ہاؤس بھی تھا۔ ڈرائیور نے مسافروں سے کہا۔ آپ لوگوں کو پریشانی ضرور ہوئی ہوگی۔ لیکن یہ مجبوری ہے ۔ آگے پل بارش میں بہہ گیا ہے شاید آپ لوگوں کو رات یہیں گزارنی پڑے۔“ مسافروں میں شدید مایوسی پھیل گئی۔ سب کے چہرے لٹک گئے ۔ مگر بارش کے آگے کسی کا زور نہیں چل سکتا تھا۔

صرف ایک ادھیڑ عمر کا چوڑے شانوں والا ایک مسافر ایسا تھا جس پر اس صورت حال کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ وہ بڑے سکون کے ساتھ اپنے اوور کوٹ کے کالر اوپر کئے سر پر سواتی ٹوپی پہنے چاۓ کی دکان کے سائبان کے لوہے کی کرسی پر بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔ میں نے دل میں سوچا کہ یہ آدمی تو بالکل ہی بے حس اور ڈل قسم کا ہے اور یا پھر وہ اس قسم کی تکلیفوں اور ناگہانی آفتوں کا عادی معلوم ہوتا ہے۔ اس کی سواتی ٹوپی کے کناروں پر اس کے بالوں کی سفیدی جھلک رہی تھی۔ اس کی عمر پچاس سال کے قریب ہو گی مگر جسم صحت مند اور متناسب تھا۔ ایک مسافر نے ڈرائیور سے کہا۔ ’’ہم لوگ رات کہاں بسر کریں گے ۔۔

بہتر یہی ہے کہ تم ہمیں واپس لے چلو۔“ ڈرائیور بولا۔’’صاحب فکر نہ کریں۔اوپر محکمہ جنگلات کا ایک پرانا ریسٹ ہاؤس ہے وہاں آپ لوگوں کے سونے کا بندوبست ہو جاۓ گا۔ باقی دو چار آدمی کوچ کے اندر بھی سو سکتے ہیں۔“
سورج بادلوں کے پیچھے ڈھلنا شروع ہو گیا تھا اور دن کی روشنی ماند پڑنے لگی تھی۔ ڈرائیور یہ کہہ کر اوپر ریسٹ ہاؤس کی طرف چلا گیا کہ آپ لوگ تب تک چاۓ کی دکان میں چائے وغیرہ پئیں میں اوپر آپ لوگوں کے سونے کا کچھ انتظام کرتا ہوں۔

چاۓ کی دکان پہاڑی سڑک کے کنارے پر ہی تھی۔ پتھریلی سلیٹوں والی ڈھلواں چھت کے نیچے ایک بڑا سا برآمدہ تھا۔ ایک طرف دکان کا مالک چاۓ وغیرہ پکاتا تھا۔ برآمدے میں لکڑی کی بوسیدہ دو چار میزوں کے گرد لوہے کی کرسیاں پڑی تھیں۔ ایک جانب لکڑی کے دو تین بینچ بھی رکھے ہوئے تھے۔ کچھ مسافر کرسیوں پر اور کچھ بنچوں پر بیٹھ گئے اور چاۓ وغیرہ پینے میں مصروف ہو گئے۔ میں سب سے الگ ہٹ کر دیوار کے ساتھ لگے لکڑی کے بنچ پر بیٹھا چاۓ پی رہا تھا اور بر آمدے کے باہر سڑک پر بارش کا نظارہ بھی کر رہا تھا۔

چائے کے ہوٹل کے مالک نے بادلوں کی وجہ سے شام کا اندھیرا جلدی گہرا ہوتے دیکھ کر برآمدے کی چھت پر لگا ہوا بلب روشن کر دیا تھا۔ میں نے لمبا کوٹ پہن رکھا تھا اور سردی سے بچنے کے لئے گلے میں مفلر بھی لپیٹا ہوا تھا۔
چھت کے لکڑی کے شہتیر سے لٹکتے ہوۓ بلب کی روشنی میرے چہرے پر پڑھ رہی تھی۔ اتفاق سے وہ ادھیڑ عمر کا آدمی جس کا میں ذکر کر چکا ہوں اس پر اس پریشان صورت حال کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا ، مجھ سے چند گز کے فاصلے پر ایک میز کے پاس کرسی پر اکیلا بیٹھا چاۓ پی رہا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ شخص میری طرف بڑے غور سے دیکھ رہا ہے۔ میں نے کوئی خیال نہ کیا اور خاموشی سے بیٹھا چائے پیتا رہا۔ کچھ دیر بعد ہی وہ شخص کرسی سے اٹھا اور میرے قریب آ کر بڑی شائستگی سے بولا۔ ” کیا میں آپ کے پاس بیٹھ سکتا ہوں؟“

میں اس کے مہذبانہ انداز گفتگو سے متاثر ہوا تھا۔ میں نے بینچ پر ذرا سا پیچھے سرکتے ہوۓ کہا۔ ”ضرور تشریف رکھئے۔ اور وہ شخص اپنے گرم اوور کوٹ کو سمیٹتے ہوئے میرے پاس بینچ پر بیٹھ گیا۔ پھر اس نے جیب سے پائپ نکال کر اس میں پہلے سے بھرے ہوئے تمباکو کو انگوٹھے سے دبا کر اسے سلگایا اور ایک دو ہلکے سے کش لگانے کے بعد مجھ سے میرا نام لے کر یوں مخاطب ہوا۔
’’ آپ وہی ہیں نا جو آج کل اخباروں ، رسالوں میں پر اسرار اور کسی حد تک دہشت ناک ایڈونچر کی کہانیاں لکھ رہے ہیں ؟“ میں نے کہا۔ ’’ جی ہاں! میں وہی ہوں۔“ وہ بولا۔ ”میں نے آپ کی ایک کتاب میں آپ کا فوٹو دیکھا تھا وہیں سے میں نے آپ کو پہچانا ہے .....

پھر وہ مجھ سے شمالی علاقہ جات کے موسموں اور بارش کی باتیں کرنے لگا۔ میں ہوں ہاں میں جواب دیتا رہا۔ اس آدمی کے چہرے کے نقوش تیکھے تھے۔ رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئی تھیں ۔ چہرے کا رنگ جو کبھی سرخ و سفید ہوگا اب گندمی رنگت اختیار کر چکا تھا۔ صاف محسوس ہو رہا تھا کہ اس شخص نے زندگی اور وقت کے بڑے گرم سرد موسم دیکھے ہیں۔ اس کی نسواری آنکھوں میں بھی ذہانت کی بڑی چمک تھی۔

وہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے جنگلوں کے بارے میں بڑے ماہرانہ انداز میں گفتگو کر رہا تھا۔ میں نے اس سے کہا۔ ” لگتا ہے آپ کو ان جنگوں کا کافی تجربہ ہے ۔ “ وہ پائپ کو اپنے ہونٹوں سے الگ کرتے ہوۓ بولا۔ ’’ان جنگلوں کا تو مجھے اتنا تجربہ نہیں ہے لیکن بھارت کے جنگلوں میں ، میں نے کافی وقت گزارا ہے ۔‘‘ بھارت کے جنگلوں میں پاکستان بننے سے پہلے میں بھی تھوڑی بہت آوارہ گردی کر چکا تھا۔

اس سے پہلے کہ میں اس سے کوئی سوال کرتا اس نے بجھے ہوۓ پائپ کو انگوٹھے سے دبانے کے بعد دوبارہ سلگایا اور کہنے لگا۔ ’’بھارت کے جنگلوں کے بارے میں تم نے بھی بہت کچھ لکھا ہے اور کافی حد تک درست لکھا ہے۔ لیکن ان پراسرار جنگلوں میں مجھے جو تجربے ہوۓ ہیں وہ تم سے بہت مختلف ہیں۔ میں نے پوچھا۔
” کیا آپ شکاری رہ چکے ہیں ؟“

وہ بولا۔ ”حجم کاربیٹ کی طرح کوئی پیشہ ور شکاری تو نہیں تھا لیکن تھوڑا بہت شکار کھیل لیتا تھا محض کھیل کی خاطر ..... زیادہ تر مجھے ان جنگوں کی پراسرار روایتیں ان کی طرف کھینچ کر لے گئی تھیں۔ میں پراسرار اور ماورائی چیزوں کو پسند کرتا ہوں اور مجھے پراسرار رازوں کا سراغ لگانے اور انہیں بے نقاب کرنے اور اصل حقیقت معلوم کرنے کا شروع سے ہی بڑا شوق رہا ہے ۔“ پھر اس نے اچانک چہرہ میری طرف گھما کر آہستہ سے کہا۔

”تم جو پر اسرار کہانیاں لکھتے ہو وہ مجھے فرضی کہانیاں لگتی ہیں لیکن میرے پاس ایک ایسی پراسرار کہانی ہے جو تم سنو گے تو تمہارے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے ۔ تمہیں یقین نہیں آۓ گا کہ آج کے ماڈرن اور کمپیوٹر سائنس کے زمانے میں ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن ایسا ہوتا ہے ایسا ہوا ہے اور ایسا میرے ساتھ ہوا ہے۔ یہ کہانی نہیں بلکہ میری آپ بیتی وہ چپ ہو گیا۔ اور خاموشی سے پائپ پیتے ہوئے جیسے گہری سوچ میں ڈوب گیا۔

بارش اسی طرح ہو رہی تھی۔ شام کا اندھیرا چھا چکا تھا۔ میں اس پراسرار شخص کی کہانی ضرور سننا چاہتا تھا۔ جب میں نے اس کے آگے اپنے اشتیاق کا اظہار کیا تو وہ بولا۔ ”میں تمہیں یہ حیرت انگیز کہانی ضرور سناؤں گا شاید اسی لئے میں وہاں سے اٹھ کر تمہارے پاس آ کر بیٹھا ہوں۔ پہلے یہ معلوم ہو جاۓ کہ ہمیں رات کہاں بسر کرنی ہے۔ کوچ میں یا اوپر والے ریسٹ ہاؤس میں . . . . میں تو اسی جگہ بینچ پر بیٹھے بیٹھے رات گزار سکتا ہوں میرا جسم اس قسم کی تکلیفوں کا عادی ہے ۔ میں نے کئی راتیں جنگلوں کے درختوں پر بیٹھ کر گزاری ہیں ۔

اس دوران کوچ کا ڈرائیور اوپر سے آ گیا۔ اس نے بتایا۔ ’’اوپر والے ریسٹ ہاؤس میں سب کے رات بسر کرنے کا بندوبست کر دیا گیا ہے ۔ برائے مہربانی سب مسافر اوپر آ جائیں وہاں آپ کو کھانا بھی مل جائے گا۔ بارش ذرا رک گئی تھی۔ مسافروں کی تعداد زیادہ نہیں تھی۔ان میں کوئی عورت اور بچہ بھی نہیں تھا۔ چنانچہ سارے مسافر ہلکی بارش میں بھیگتے پہاڑ کی چڑھائی چڑھ کر اوپر ریسٹ ہاؤس میں آ گئے۔ ان کا سامان کوچ کے اندر رکھوا دیا گیا تھا اور کوچ کے کنڈیکیٹر نے سامان کی حفاظت کی خاطر رات کوچ میں ہی گزارنی تھی۔ ریسٹ ہاؤس میں انتظام یہ ہوا تھا کہ ایک بڑے سے کمرے کے آتشدان میں آگ جلا کر زمین پر دریاں بچھا دی گئی تھیں۔ کچھ لخاف اور کچھ کمبل مہیا کر دیے گئے تھے ۔ وہیں دریوں پر لیٹ کر رات بسر کرنی تھی۔

میرے پر اسرار ساتھی نے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا اور ایک کمبل گھٹنوں پر رکھ کر آتش دان کے پاس بیٹھ گیا ۔

کھانا وغیرہ کھانے کے بعد سب لوگ وہیں دریوں پر لحاف اور کمبل وغیرہ اوڑھ کر سو گئے۔ آتش دان میں آگ جل رہی تھی جس کی وجہ سے ریسٹ ہاؤس کے بڑے کمرے کی سردی تھوڑی کم ہوگئی تھی۔ میں اور وہ پراسرار شخص آتش دان کے قریب ہی کمبل لے کر دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئے تھے ۔ اس رات اس پراسرار شخص نے مجھے وہ حیرت انگیز کہانی سنائی جو بقول اس کے اس کی آپ بیتی تھی اور جو میں آپ کو سنانے والا ہوں۔

اب میں آپ کو واپس بمبئی بروڑہ ریلوے لائن پر جھانسی سے تریسٹھ ، چونسٹھ کلو میٹر دور روہت گڑھ ہوشنگ آباد رینج کے ان جنگلوں میں لئے چلتا ہوں جہاں ایک گھنے جنگل میں کسی مغل صوبیدار نے اپنی چہیتی کنیز رانی بائی کے لئے ایک قلعہ نما محل تعمیر کرایا تھا جو رانی بائی کے قلعے کے نام سے مشہور تھا اور بقول فیروز کے جس کے متعلق طرح طرح کی ڈراؤنی کہانیاں مشہور تھیں۔
پر اسرار شخص فیر وز کہہ رہا تھا ۔

” یہ پاکستان بننے سے دو سال پہلے کی بات ہے جب میں نے بمبئی میں قلعہ رانی بائی کے بارے میں اس قسم کی عقل کو حیران کر دینے والی پراسرار اور آسیبی کہانیاں سنیں۔ میں پنجاب سے عام طور پر سردیوں کے موسم میں بمبئی کا ایک چکر ضرور لگایا کرتا تھا۔ وہاں میرا ایک بچپن کا دوست آٹو سپئیر پارٹس کا چھوٹا سا بزنس کرتا تھا۔ اس نے شادی نہیں کی تھی اور ممبئی کے ایک علاقے میں اپنے چھوٹے سے فلیٹ میں اکیلا رہتا تھا۔ اسے شکار کا شوق تھا۔ شکار کا شوق مجھے بھی تھا۔

چنانچہ جب میں اس کے پاس بمبئی آتا تو ہم شکار کا پروگرام بنا کر ہفتہ دس دن کے لئے بمبئی کے قریبی جنگلوں میں شکار کھیلنے نکل جاتے تھے ۔ ہم عام طور پر سانجر اور ہرن کا شکار کھیلتے تھے ۔ اگر کسی جگہ ہمیں دیہاتیوں کی زبانی پتہ چلتا کہ وہاں کوئی شیر ان کے مویشی اٹھا کر لے جاتا ہے تو ہم اس شیر کو بھی ہلاک کرنے کی کوشش کرتے تھے۔۔۔

ویسے مجھے شیر کے شکار سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ مجھے تو سانجر اور ہرنوں کے شکار سے بھی کوئی زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ میں تو بس اپنی مہم جوئی کے شوق کی تسکین کے لئے اپنے دوست کے ساتھ جنگلوں میں نکل جاتا تھا۔ جنگل بذات خود ایک بہت بڑا سر بستہ راز ہوتا ہے۔ جن جنگلوں کا میں ذکر کر رہا ہوں ان کے حسن میں بھی ایک ہلاکت آمیز ہیبت ہوتی ہے۔ ان جنگلوں کو دیکھ کر میرے جیسے آدمی پر بھی ایک بار دہشت طاری ہو جاتی ہے۔ جنگل کے بڑے بھید ہوتے ہیں۔ بہت راز ہوتے ہیں ۔ ان رازوں کو پانے کے لئے انسان کو اپنی جان پر کھیلنا پڑتا ہے۔ جب میں نے قلعہ رانی بانی کے بارے میں پراسرار قسم کی عجیب و غریب کہانیاں سنیں تو میں نے اس قلعے کے رازوں کو بے نقاب کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
اپنے اس فیصلے کو میں نے اپنے بمبئی کے دوست جس کا نام جمشید تھا سے بھی پوشیدہ رکھا۔ چنانچہ بمبئی پہنچنے کے تین چار روز کے بعد میں نے جمشید سے کہا۔ یار ! اس دفعہ میرا جی چاہتا ہے کہ اکیلے ہی شکار کھیلنے جاؤں۔‘‘ جمشید جانتا تھا کہ میں کوئی اناڑی شکاری نہیں ہوں اور جنگل کی زندگی اور درندوں کی نفسیات سے اچھی طرح واقف ہوں ۔ اس وجہ سے اس نے میرے اکیلے جانے پر کوئی اعتراض نہ کیا۔
کہنے لگا۔

اس دفعہ میں بھی کاروبار کے سلسلے میں بہت مصروف ہوں۔ ٹھیک ہے تم اکیلے ہی شکار پر چلے جانا لیکن زیادہ دور جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بمبئی کے قریبی جنگلوں میں ہی رہنا۔ نوکر عبدل کو بےشک ساتھ لے جانا۔“
میں نے کہا۔ ’’ فکر نہ کرو۔ میں بمبئی کے قریب جو جنگل ہیں وہیں تک جاؤں گا۔ مگر نوکر عبدل کو ساتھ نہیں لے جاؤں گا۔ اس دفعہ مجھے جیپ کی بھی ضرورت نہیں۔۔۔

جمشید نے حیران ہو کر پوچھا۔ تو کیا پیدل جاؤ گے ؟
۔ میں نے کہا۔ ” پیدل کیوں جاؤں گا۔ چمپا مندر کے ریلوے سٹیشن تک ٹرین میں جاؤں گا ۔ وہاں سے آگے جنگل ایک دس میل ہی تو رہ جاتا ہے ..... "
” بھائی جیسے تمہاری مرضی ہے کرو ..... ‘‘ یہ کہہ کر جمشید خاموش ہو گیا۔ میں نے اس پر بالکل ظاہر نہ کیا کہ میں روہت گڑھ کے قلعہ میں رانی بائی کے آسیبی رازوں کا کھوج لگانے جارہا ہوں۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ مجھے اس خطرناک اور جان لیوا مہم پر کبھی نہیں جانے دے گا۔

مجھے کوئی شکار اگر چہ نہیں کھیلنا تھا مگر اپنے دوست پر یہی ظاہر کرنا تھا کہ میں شکار کھیلنے جارہا ہوں۔ چنانچہ مجھے مجبور ایک ڈیل پیرل بندوق اور میگزین کا تھیلا ساتھ لے جانا پڑا۔ ان دنوں بھی میں سگریٹ کی بجائے پائپ پیا کرتا تھا۔ این مور تمباکو کی

تھیلی ، پائپ اور سگریٹ لائٹر بھی ساتھ رکھ لیا۔ ایک شکاری چاقو تو شکار پر جاتے ہوۓ ہر حالت میں ساتھ رکھنا پڑتا تھا چنانچہ اسے بھی میگزین والے تھیلے میں رکھ لیا۔ تھوڑا سا خشک راشن یعنی بھنے ہوئے چنے بھی ایک تھیلے میں ڈال کر رکھ لئے۔

اتنا راشن ہم ویسے بھی شکار پر جاتے ہوئے ساتھ رکھ لیا کرتے تھے ۔ جب یہ ختم ہو جاتا تو جنگل میں مرغیاں اور خرگوش وغیرہ شکار کر کے گزارہ کر لیا کرتے تھے۔ ضرورت کے مطابق کرنسی نوٹ میں نے اپنی شکاری جیکٹ کی خفیہ جیب میں چھپا کر اور کچھ کھلے نوٹ اور ریز گاری جیکٹ کی عام جیبوں میں رکھ لی تھی۔ اپنے دوست جمشید سے میں نے یہی کہا کہ میں بمبئی سینٹرل سے ٹرین میں سوار ہوں گا اور چمپا مندر کے سٹیشن پر اتر کر قریبی جنگل میں نکل جاؤں گا اور ایک دو روز جنگل میں شکار کھیلنے کے بعد واپس بمبئی آجاؤں گا۔

میں بمبئی سنٹرل کی بجاۓ بمبئی کے بوری بندر سٹیشن سے بھوپال جھانسی جانے والی ٹرین میں سوار ہو گیا۔ ڈبل بیرل بندوق اور شکار کا لائسنس میں ہمیشہ اپنے پاس رکھتا تھا۔ ابھی برصغیر پر انگریز کی حکومت تھی اور اس قسم کے لائسنس کسی بھی سٹیشن پر چیک کئے جا سکتے تھے۔ میں جھانسی سے ایک سٹیشن پہلے روہت گڑھ کے سٹیشن پر اتر گیا۔ یہاں سے جنوب مشرق کی جانب تین چار کوس کے فاصلے پر ہوشنگ آباد ریجن کے گھنے اور خطرناک جنگلوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔ اس جنگل میں ایک جگہ قلعہ رانی بائی کا وہ کھنڈر تھا جس کے بارے میں رونگٹے کھڑے کر دینے والی کہانیاں مشہور تھیں۔

میں مسلمان ہوں اور مسلمان کا اس قسم کے توہمات پر یقین نہیں ہوتا۔ میں بھی اسے محض ضعیف العقیدہ لوگوں کی من گھڑت کہانیاں ہی سمجھتا تھا۔ پھر بھی میں خود اس قلعے میں جا کر ان توہمات کی تصدیق کرنا چاہتا تھا۔ بس یہ میرا شوق تھا اور کوئی بات نہیں تھی۔

روہت گڑھ کے سٹیشن سے اترنے کے بعد میں ایک تنگے میں بیٹھ کر اس جگہ سڑک پر اتر گیا جہاں سے ہوشنگ آباد ریجن کے جنگل شروع ہو جاتے تھے ۔ محکمہ جنگلات کی طرف سے یہاں جنگل میں بعض جگہوں پر چھوٹے چھوٹے پگ ڈنڈی نما راستے بناۓ ہوۓ تھے ۔ یہ کچے راستے جنگل کے ایک حصے کو دوسرے سے الگ کرتے تھے۔ یہ راستے اس لئے بنائے جاتے تھے کہ اگر جنگل کے ایک حصے میں آگ لگ جائے تو دوسرا حصہ آگ سے محفوظ رہے ۔ ان چار پانچ فٹ چوڑے راستوں کو جو ادھر ادھر سے گھومتے ہوئے جنگل کے وسط میں سے گزر تے چاروں طرف نکل جاتے تھے انہیں محکمہ جنگلات کی اصطلاح میں سانپ لائن کہتے ہیں

لیکن یہ سانپ سائن جہاں جنگل زیادہ گھنے اور دلدلی ہو جاتے تھے وہاں تک نہیں گئی ہوئی تھیں۔ میں ان جنگلوں میں اپنے دوست جمشید کے ساتھ یا اکیلا کبھی شکار کھیلنے نہیں آیا تھا۔ اس لحاظ سے یہ جنگل میرے لئے اجنبی تھے اور میں ان جنگلوں کے لئے اجنبی تھا۔ لیکن چونکہ یہ برصغیر کے وسطی علاقوں کے جنگل تھے اور تقریبا یہ ایک جیسے ہی ہوتے ہیں اس لئے مجھے کوئی خاص اجنبیت محسوس نہیں ہو رہی تھی۔
فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ کوئی جنگل کم خطرناک ہوتا ہے اور کوئی جنگل زیادہ خطرناک اور دشوار گزار ہوتا ہے۔ ویسے ان ہوشنگ آباد ریجن کے جنگلوں کے بارے میں ، میں نے سن رکھا تھا کہ یہاں شیر، چیتے ، ریچھ اور بھیٹرے عام ہوتے ہیں اور شکاری بھی ان جنگلوں میں پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں ۔
میں نے شکار تو کھیلنا نہیں تھا۔ میرا ٹارگٹ رانی بائی کا قلعہ تھا۔

میں جنگل میں داخل ہو گیا تھا اور ایک سانپ لائن پر یعنی جنگل کے دو بلاکوں کے درمیان محکمہ جنگلات کی طرف سے بنائی گئی پگ ڈنڈی پر چلا جا رہا تھا۔ بندوق میرے کندھے سے لٹک رہی تھی ۔ کارتوسوں کا تھیلا میرے دوسرے کندھے پر لٹک رہا تھا۔ دن کے دس بجے کا وقت تھا۔ موسم خوشگوار تھا۔ دھوپ درختوں کے اوپر نکلی ہوئی تھی۔ درخت اتنے گنجان اور ساتھ ساتھ اگے ہوئے تھے کہ ان کے نیچے ہلکا ہلکا اندھیرا تھا۔ میں گنجان جنگلوں کا عادی تھا۔ خطرہ اگر تھا تو صرف یہ تھا کہ کسی طرف سے اچانک کوئی آدم خور شیر نہ نکل آۓ ۔ آدم خور شیر انسان کی بو پاتے ہی اس کے پیچھے لگ جاتا ہے ۔۔۔
چلتے چلتے میں ایک ڈھلان اترنے لگا۔ ڈھلان جہاں جا کر ختم ہوتی تھی وہاں جھاڑیاں تھیں اور چھوٹا سا نالہ بہہ رہا تھا۔

میں نالہ عبور کرکے دوسری طرف نکل گیا۔ میری معلومات کے مطابق رانی بائی کا قلعہ نالے کی دوسری جانب جنگل کے تیسرے بلاک میں ایک تالاب کے عقب میں وہاں سے کوئی دو فرلانگ کے فاصلے پر تھا۔ شہر کی سڑک پر تو آدمی دو فرلانگ کا فاصلہ پیدل چل کر بھی بڑی جلدی طے کر لیتا ہے مگر جنگل میں اور خاص طور پر گھنے جنگل میں کوئی سڑک تو ہوتی نہیں ۔ آدمی کو بڑی عقل مندی سے کام لیتے ہوۓ سمت کو درست رکھتے ہوۓ خود راستہ بنانا پڑتا ہے اور دو فرلانگ کافی وقت لے جاتے ہیں۔

اگر مجھے جنگلوں میں گھومنے پھرنے کا تجربہ نہ ہوتا تو میرے لئے رانی بائی کے قلعے تک پہنچانا ناممکن تھا۔ بھری ہوئی ڈبل بیرل گن میں نے اپنے سیدھے ہاتھ میں اٹھا رکھی تھی تاکہ کسی بھی خطرے کا ہر وقت مقابلہ کر سکوں۔ میں جھاڑیوں اور درختوں کی لٹکتی ہوئی شاخوں میں راستہ بناتا آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا۔ کئی درختوں کی جڑیں زمین سے باہر نکلی ہوئی تھیں۔

کہیں کوئی درخت جڑ سے اکھڑ کر گرا پڑا تھا۔ آخر گھنے درختوں کا دشوار گزار راستہ ختم ہو گیا اور سامنے تھوڑی سی کھلی جگہ آ گئی۔ اس کھلی جگہ پر بھی اونچی اونچی قد آور گھاس اگی ہوئی تھی ۔ اس گھاس کو ہاتھی چھپواں گھاس کہتے ہیں۔ مطلب یہ کہ اس میں سے گزرتے ہوئے ہاتھی بھی چپ جاتا ہے۔ جنگلی جانوروں نے اس گھاس میں چھوٹا سا راستہ بنایا ہوا تھا۔ میں اس راستے پر پھونک پھونک کر قدم بڑھاتا اس گھاس کے قطعے سے بھی باہر نکل آیا۔ آگے پھر جنگل تھا۔ مگر درخت الگ الگ کھڑے تھے ۔

ایک کھائی آگئی۔ میں اس میں سے اتر گیا۔ کھائی کی دوسری جانب باہر نکلا تو سامنے ایک چھوٹا سا ٹیلہ تھا جس کی ڈھلان جھاڑیوں نے ڈھانپ رکھی تھی۔ میں ٹیلے کے پہلو سے ہوتا ہوا دوسری جانب آیا تو سامنے بانس کے درختوں کے جھنڈ کے درمیان ایک چھوٹا سا تالاب اور اس کے پیچھے ایک دیو وہیکل قلعے کی سیاہی مائل بھوری دیوار دکھائی دی۔ یہی رانی بائی کا وہ پراسرار قلعہ تھا جس کی مجھے تلاش تھی۔۔ اور جس کے بارے میں رونگٹے کھڑے کر دینے والی کہانیاں مشہور تھیں۔ میں تالاب کے پاس آگیا۔ تالاب زیادہ بڑا نہیں تھا۔ اس کے تین طرف بانس کے درختوں کے جھنڈ تھے ایک جانب یعنی جس جانب میں کھڑا تھا دیوار کے درختوں کے نیچے سے ہوتا ہوا ایک راستہ آگے کو نکل گیا تھا۔

راستہ جھاڑیوں کے درمیان سے ہوتا رانی بائی کے قلعے کی طرف جاتا تھا۔میں اس راستے پر چلتے ہوۓ قلعے کی دیوار کے سامنے آکر رک گیا۔ قلعے کی دیوار کے پتھر کئی جگہوں سے اکھڑ چکے تھے اور وہاں جھاڑیاں اگ آئی تھیں۔ یہ بوسیدہ کھنڈر نما دیوار کافی بلند تھی۔ میں دیوار کے ساتھ ساتھ چلتا قلعے کے دروازے کے سامنے آگیا۔ اس محرابی دروازے کے دونوں پٹ غائب تھے ۔ دروازہ زیادہ چوڑا نہیں
تھا۔

اس کی دونوں جانب گول چبوترے تھے۔ ان چبوتروں کی شکستہ دیوار میں بھی آدھی جھاڑیوں میں چھپی ہوئی تھیں۔ اندر ایک ڈیوڑھی تھی جہاں دھندلا دھندلا سا اندھیرا تھا۔ میں ڈیوڑھی میں آ گیا۔ ڈیوڑھی کے فرش کی بڑی بڑی سلیں ٹوٹ پھوٹ چکی تھیں ۔

ڈیوڑھی پار کر کے قلعے کے صحن میں آ گیا۔ صحن چھوٹا سا تھا۔ اس کے وسط میں گول دائرے میں پتھر کا فوارہ تھا۔ فوارہ تو ٹوٹ پھوٹ گیا تھا صرف اس کی گول دیوار ہی باقی رہ گئی تھی۔ فوارے کے اندر گھاس اگ رہی تھی۔ فوارے کی دوسری جانب پھر ایک سرنگ نما ڈیوڑھی تھی۔ میں آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اس سرنگ نما ڈیوڑھی سے بھی گزر گیا۔ اب میں رانی بائی کے قلعے کے درمیانی حصے میں تھا۔ یہاں تین جانب راہ داریاں تھیں۔ ان کے سنگ مر مر کے پتلے پتلے ستون تھے۔ راہ داریوں کے اوپر محل کے جروکے تھے جن کی بارہ دریوں کے ساتھ جنگلی بیلیں لپٹی ہوئی تھیں۔

یہ یقینی طور پر رانی بائی کا وہ محل تھا جو اس کے خاوند مغل صوبیدار نے اس کے لئے خاص طور پر بنوایا تھا۔ میں خاموش کھڑا سے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔

پُراسرار حویلی - پارٹ 2

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, 
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں