پراسرار لڑکی - پارٹ 5

 mysterious-girl


 پراسرار لڑکی - پارٹ 5

سس۔۔۔سر ۔۔۔ یہ ۔۔۔ یہ شخص انسان نہیں ہے ‘‘ شہزادکی آواز نے شہباز احمد کے ہاتھوں کے طوطے اُڑا دئیے۔خوف کی ایک لہر ان کے جسم میں دوڑ گئی۔ خود شہزاد بھی پریشانی اور خوف کے پسینے میں ڈوبا ہوا تھا لیکن پسینے کے باوجود اس کے بدن کانپ رہا تھا۔ اس وقت ان کی زندگی ایک غیر انسانی آسیبی مخلوق کے ہاتھ میں تھی اور ان کی گاڑی جنگل کی سنسان سڑک پر پوری رفتار سے دوڑ رہی تھی۔تبھی شہباز احمد چلا اُٹھے:۔

گاڑی کا دروازہ کھولو شہزاد ‘‘ شہباز احمد پوری قوت سے چلائے ۔ شہزاد کو جیسے ہوش آگیا۔ اس نے فوراً گاڑی کے دروازے کا لاک کھولا اور پھر وقت ضائع کیےبغیر گاڑی کا دروازہ کھول ڈالا۔ دوسرے ہی لمحے شہباز احمد اور شہزاد نے چلتی ہوئی گاڑی سے چھلانگ لگادی۔ وہ چھلانگ لگاتے ہی سڑک کی سخت زمین سے ٹکرائے۔ ان کے منہ سے گھٹی گھٹی چیخ نکلی۔ وہ سڑک پر گرتے ہی خودکو فوراً سنبھال نہ سکے کیونکہ جس گاڑی سے انہیں نے چھلانگ لگائی تھی اس کی رفتار بہت تیز تھی۔ وہ سڑک پر تیزی سے لڑھکنے لگے اور پھر !!!۔۔۔اچانک ان دونو ں کے حواس باساختہ ہوگئے ۔وہ ایک کھائی کی سمت تیزی سے بڑھ رہے تھے اور خود کو کسی طرح بھی کھائی کی طرف بڑھنے سے روک نہیں پارہے تھے۔ان کا جسم ان کے قابو میں نہیں تھا بلکہ پوری رفتار سے لوٹ لگاتا ہوا کھائی کی طرف جا رہا تھا ۔ اب ان کے حلق خشک ہونے لگے۔ موت انہیں اپنے بالکل قریب نظر آنے لگی۔تبھی ان دونوں نے بیک وقت کھائی کے بالکل قریب ایک دوسرے کے ہاتھ تھام لیے ۔ ہاتھ تھامتے ہی انہیں ایک زبردست جھٹکا لگا۔ جھٹکا لگتے ہی شہباز احمد اور شہزاد نے ایک پل میں اپنے جسموں پر اپنی گرفت برقرار کر لی۔ نتیجے کے طور پر وہ دونوں کھائی سے ایک انچ کے فاصلے پرخود کو روکنے میں کامیاب ہوگئے۔ اب وہ دونوں صحیح سلامت زمین پر پڑے تھے۔ان کے سانس پھول رہی تھے۔ پھر ان کے منہ سے یک زبان ہو کر نکلا:۔

اللہ تیرا شکر ہے ‘‘ ۔ واقعی یہ ایک غیبی مدد ہی تھی جس نے انہیں موت کے منہ سے نکال کر زندگی بخش دی تھی۔ کچھ وقت تک وہ یونہی زمین پر پڑے رہے ۔ پھر سب سے پہلے شہباز احمد اٹھے۔ انہیں نے شہزاد کو اپنے ہاتھ کے سہارے سے اٹھایا۔ اب وہ دونوں کھائی سے ہٹ کر دوبارہ سڑک کی طرف آئے۔ یہاں دور دور تک سناٹا چھایا ہوا تھا۔

اب ہماری مدد کون کرئے گا۔۔۔ اس جنگل میں تو ایک سے بڑھ کر ایک آسیبی مخلوقات سے سامنا ہورہا ہے ۔۔۔ پہلے وہ لڑکی اور اب یہ نوجوان آدمی جو درحقیقت ایک پرچھائی تھی۔۔۔مجھے یقین نہیں آرہا کہ ہم سب اس وقت اس خوفناک جنگل میں کتنی بری طرح پھنس چکے ہیں‘‘ شہزاد کی باتوں میں گہری مایوسی تھی۔
اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو شہزاد ۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ جس طرح ہم سب صحیح سلامت یہاں آئے تھے اس طرح صحیح سلامت یہاں سے نکل بھی جائیں گے ۔۔۔ مجھے اس خدا پر بھروسہ ہے جس کی رحمانی طاقت تمام شیطانی طاقتوں کو پل بھر میں ختم کر سکتی ہے ۔۔۔تمام شیطانی طاقتیں اس رب کے سامنے بے بس ہیں ۔۔۔ ہمیں اس وقت اس الرحیم و کریم اور رب العالمین سے دعا مانگنی چاہیے۔۔۔ میرا ایمان ہے کہ وہ ہمیں ان حالات میں تنہا نہیں چھوڑے گا ‘‘ شہباز احمد کا لہجہ پرامید تھا۔ ان کی باتوں میں جوش تھا۔ ہمت تھی۔ ان کے لہجے میں خدا پر یقین کا ایک ٹھاٹے مارتا ہوا 

سمندر نظر آرہا تھا۔پھر بے اختیارانہ طور پر ان کے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھ گئے۔شہزاد نے بھی انہیں دیکھ کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دئیے۔ابھی وہ دعا مانگ ہی رہے تھے کہ انہیں اچانک ایک زبردست جھٹکا لگا۔ ایک آواز نے جیسے ان کے افسردہ چہروں پر جوش کی ایک نئی روح پھونک دی۔ یہ آواز ان کے بچوں کی تھی جو کہ نزدیک سے ہی آرہی تھی۔ وہ دیوانے وار اس آواز کے تعاقب میں دوڑے۔ کچھ ہی پل میں انہیں نے عرفان ، عدنان ، عمران اور سادیہ کو جنگل کے دوسرے کنارے پر کھڑا پایا۔ وہ دونوں بے تابانہ انداز میں دوڑتے ہوئے ان کے پاس پہنچے لیکن ان سب کی حالت دیکھ شہزاد اور شہباز احمد کی آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ وہ سب بتوں کے مانند ایسے کھڑے تھے جیسے ان کی زندگیاں کسی نے چھین لی ہوں اور ان کے جسم مردہ اور بے جان ہوچکے ہوں۔ شہباز احمد کی آواز نے انہیں گویا ہوش میں لایا۔

تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے ۔۔۔ اور سلطان کہاں ہے ‘‘ شہباز احمد بے قراری کے عالم میں بولے۔
ابا جان !۔۔۔سلطان ہماری آنکھوں کے سامنے ۔۔۔‘‘ سادیہ بس اتنا ہی کہہ پائی اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اس کی سسکیوں نے ماحول کو آبدیدہ کر دیا۔وہ اپنے بھائی کو اپنی آنکھوں کے سامنے جاتے دیکھ رہی تھی لیکن پھر بھی کچھ نہیں کر پائی تھی۔ اسی بات نے اس کے آنسوؤں سے چہرے کو تر کر دیا تھا۔ آنسوؤں کا ایک سمندر اس کے گالوں پر تیر رہا تھا اور اس کی آنکھیں مزید آنسو اُگلنے کو تیار تھیں۔
آخر کیا ہوا ہے سلطان کو ۔۔۔ تم سب خاموش کیوں ہو ‘‘ شہباز احمد بے تاب ہو کر بولے۔آخر ہمت کرکے عرفان نے انہیں ساری تفصیل کہہ سنائی کہ کس طرح سلطان کے اور ان کے درمیان دھندکی دیوار رکاوٹ بن گئی تھی اور کس طرح سلطان خلا میں باتیں کرتا ان سب کی نظروں کے سامنے سے غائب ہوگیا ۔ تفصیل سننے کے بعد شہباز احمد کے ماتھے پر گہری فکرمندی کی شکنیں نمودار ہوگئیں۔
اب ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ ہم ریسٹ ہاؤس پہنچ کر وہاں سے پولیس کی مدد حاصل کریں اور پھر دوبارہ سلطان کی تلاش میں یہاں آئیں‘‘ شہباز احمد نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ان سب نے سر ہلا دیا۔ دوسرے ہی لمحے وہ سب جنگل سے باہر نکلنے والے راستے کی طرف روانہ ہوگئے ۔ یہ وہی راستہ تھا جہاں سے شہباز احمد کچھ دیر پہلے عرفان اوردوسروں کی آواز سن کر ان کے پاس پہنچنے تھے۔ اسی راستے پر چلتے ہوئے وہ سب مرکزی سڑک پر آگئے ۔ یہاں دور دور تک سناٹا تھا۔ سورج غروب ہو رہا تھا اور تاریکی بڑھتی جارہی تھی۔ان حالات میں شہباز احمد چونک اٹھے۔ انہیں چونکتے دیکھ دوسرے حیران ہوئے بغیر نہ رہ سکے:۔

کیا ہوا ابا جان۔۔۔آپ کے چونکنے کی وجہ سمجھ نہیں آئی‘‘ عرفان الجھن کے عالم میں بولا۔
مغرب کی نماز کا وقت ہوگیا ہے ۔۔۔ میرا خیال ہے ہمیں کسی گاڑی کو روک کر لفٹ لینے کی بجائے آس پاس کسی گھر کو تلاش کرنا چاہیے۔۔۔پھر اُس گھر کے مالک سے درخواست کرکے اُس گھر میں نماز پڑھ لیں گے ۔۔۔یہ زیادہ مناسب رہے گا ‘‘ شہباز احمدنے پرزور لہجے میں کہا جس پران سب نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ شہباز احمد اس نتیجے پرپہنچ کرمکان کی تلاش میں اِدھر اُدھر نظریں دوڑانے لگے۔تبھی عرفان بری طرح اچھل پڑا۔ دوسرے اسے حیرت سے دیکھنے لگے:۔
’’کیا ہوا تمہیں ‘‘ شہباز احمد نے اسے گھور کر دیکھا۔
اباجان۔۔۔ سادیہ کہاں گئی ‘‘ عرفان نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا۔ دوسرے ہی لمحے وہ سب بھی بری طرح اچھلے۔ ان کی نگاہیں فوراً سادیہ کو ڈھونڈنے لگیں لیکن سادیہ تو کیا سادیہ کی پرچھائی بھی وہاں موجود نہیں تھی۔ سادیہ تو وہاں سے ایسے غائب ہوگئی تھی جیسے وہ یہاں کبھی تھی ہی نہیں۔ان سب کے چہرے کی ہوائیاں اُڑنے لگیں کیونکہ ابھی کچھ دیر پہلے وہ ان کے ساتھ ہی تھی لیکن اب وہاں سے غائب ہوچکی تھی ۔ اتنے کم وقت میں وہ کہاں جا سکتی تھی۔ یہ جنگل بھی آسیبی مخلوقات سے بھرا پڑا تھا۔ شہباز احمد اور شہزاد خود بھی ایک آسیبی شخص کا شکار ہوتے ہوتے بال بال بچے تھے۔ یہ سب سوچ کر انہیں سادیہ کی فکر ستانے لگی۔ اس جنگل میں غیر انسانی مخلوقات اور سادیہ کے اچانک غائب ہونے کا سوچ کر ان کے جسموں میں سنسنی کی ایک لہر دوڑ گئی اور ان سب کے چہروں کا رنگ زرد پڑنے لگا۔
سلطان حیران ہو کر اُس لڑکی کو دیکھ رہا تھا جبکہ لڑکی کے چہرے پر سختی ہی سختی نظر آرہی تھی جیسے وہ سلطان کو نماز کسی صورت نہیں پڑھنے دے گی۔سلطان اس کے اس رویے پر شدید حیران تھا اور اس کا منہ مارے حیرت کے کھلا کا کھلا رہ گیا تھا۔
میں اس گھر میں نماز کیوں نہیں پڑھ سکتا۔۔۔آخر ایسی کیا بات ہے ‘‘ سلطان کے منہ سے حیرت کی زیادتی سے نکلا۔

وہ دراصل میں جب جب اس گھر میں نماز پڑھتی ہوں ۔۔۔ کچھ عجیب سے حادثے رونما ہو جاتے ہیں ۔۔۔ایک روز میں نماز پڑھ رہی تھی کہ گھر میں آگ لگ گئی۔۔۔ پھر بڑی مشکل سے اس آگ پر قابو پایا گیا۔۔۔پھر کچھ وقت تک میں نے نماز نہ پڑھی۔۔۔ آخر مجھے پھر یہ خیال آیا کہ نماز دوبارہ شروع کرنی چاہیے۔۔۔ میں نے پھر نماز شروع کی۔۔۔ ابھی میں نے اُس حادثے کے بعد پہلی نماز ہی شروع کی تھی کہ نماز کے دوران شدید زلزلے نے گھر کو ہلا کر رکھ دیا۔۔۔ میں نے فوراً نماز توڑ دی ۔۔۔ اسی وقت زلزلہ آنا بند ہوگیا۔۔۔ بس تب سے میں نے نماز پڑھنا چھوڑدی ہے اور میراآپ کو بھی یہ مشورہ ہے کہ اس گھر میں نماز نہ پڑھیں ۔۔۔ بلکہ یہ میرا مشورہ نہیں میری ضدہے ‘‘ لڑکی نے آخری الفاظ سلطان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر شوخ لہجے میں کہے۔

میں نہیں مان سکتا کہ نماز پڑھنے سے حادثات رونما ہوتے ہوں ۔۔۔ بلکہ یہ میرا ایمان ہے کہ نماز مشکلیں دور کرتی ہے ۔۔۔ نہ کہ مشکلیں لاتی ہے ۔۔۔ جو آپ نے واقعات بتائے یہ تو اسی وقت ہو سکتے ہیں جب انسان رب العالمین سے دور ہو اور شیطان کے قریب ہو ۔۔۔ یا اس وقت ہوتے ہیں جب اللہ تعالی اپنے بندے سے اس قدر ناراض ہو کہ وہ نہ چاہے کہ بندہ اس کے حضور جھکے ۔۔۔آپ نے ایسے کون سے اعمال کیے ہیں جس کی وجہ سے اللہ آپ سے اس قدر شدید ناراض ہوگیا ہے ‘‘ سلطان نے لڑکی کو بری طرح گھور کر دیکھا۔
میں نے ایسے کوئی اعمال نہیں کیے ۔۔۔میں تو اللہ پر پورا ایمان رکھتی ہوں ‘‘ لڑکی بوکھلا کر بولی۔
مجھے نظر تو نہیں آرہا۔۔۔ جو شخص یہ کہتا ہو کہ نماز پڑھنے سے مشکلیں آتی ہیں اس کا اللہ پر بھلا کیا ایمان ہوگا۔۔۔ ا س کاایمان تو مکڑی کے جالے کی طر ح ہے جو پل بھر میں ختم ہوجاتا ہے ‘‘ سلطان نے سخت لہجے میں کہا۔
آپ اتنے نیک نمازی تو معلوم نہیں ہوتے ۔۔۔ آپ تو مجھے بہت شریر لگتے ہیں‘‘ لڑکی نے بات گھمانے کی کوشش کی۔

شریر تو میں بہت ہوں لیکن جہاں بات اللہ کی اور میرے ایمان کی ہو وہاں مجھے مذاق بالکل پسند نہیں ‘‘ سلطان نہایت سرد آواز میں بولا۔
آخر ایک وقت کی نماز قضا ہوجائے گی تو کون سی قیامت آجانی ہے ۔۔۔ آپ میرے ساتھ وقت گزاریے نہ ‘‘ لڑکی نے اب رومانوی انداز میں کہا۔
قطعاً نہیں ۔۔۔ میں نماز کے لیے جارہا ہوں ۔۔۔ آپ مجھے روک سکتی ہیں ۔۔۔ تو روک لیجئے ‘‘ یہ کہتے ہوئے سلطان نے کمرے سے باہر کی طرف قدم بڑھا دئیے۔ اس لڑکی کی آنکھوں میں الجھن دوڑ گئی۔ وہ پریشانی کے عالم میں سلطان کو جاتے ہوئے دیکھتی رہی لیکن اس کے ایمان کی قوت نے لڑکی کی ساری طاقت چھین لی تھی۔ سلطان کمرے سے باہر قدم اٹھا رہا تھا۔ تبھی سلطان کا سر بری طرح چکرایا۔ آس پاس کا منظر اسے دھندلا نظر آنے لگا۔ اس نے اپنے چہرہ کو ایک جھٹکا دیا اور آنکھیں ملیں لیکن اس کا سر بدستور چکرا تا رہا۔دوسرے ہی لمحے اسے دنیا گھومتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اور وہ جھومتا ہوا زمین پر آگرا ۔ اگلے ہی پل اس نے بے ہوشی کی وادی میں قدم رکھ دیا۔
جو کافی میں نے تمہیں دی تھی اس نے اثر دکھا ہی دیا۔۔۔اب میری شیطانی طاقت تمہاری ایمانی قوت کو کچھ ہی وقت میں مٹا کر رکھ دے گی‘‘ لڑکی کا ایک شیطانی قہقہہ کمرے میں گونج اٹھا ۔اور پھر!!!۔۔۔ وہ خوفناک انداز میں سلطان کی طرف بڑھنے لگی۔
سادیہ ان سب کو چھوڑ کر جنگل کی طرف نکل آئی تھی۔ جب اس نے اپنے ابا جان شہباز احمدکی یہ بات سنی کہ وہ پہلے ریسٹ ہاؤس جاکر پولیس کی مدد لیں گے پھر یہاں واپس آکر سلطان کو تلاش کر یں گے تو وہ پریشان ہوگئی تھی۔ اب اپنے بھائی سلطان کو خطرے میں چھوڑ کر خود ریسٹ ہاؤس جانا اس کے لئے ناممکن نہ تھا۔لہٰذا وہ دوسروں کے ساتھ جانے کی بجائے اپنے بھائی کی تلاش میں جنگل کی طرف آگئی تھی۔ اس نے یہ فیصلہ بڑی مشکل سے کیا کیونکہ اس طرح اپنے اباجان اور باقی بھائیوں کو بتائے بغیر آنا بھی اس کے لئے آسان نہیں تھا لیکن اگر وہ ان کو بتا دیتی تو وہ کبھی بھی اس کو دوبارہ جنگل کی طرف جانے کی اجازت نہ دیتے۔ لہٰذا وہ دل پر پتھر رکھ کر اپنے بھائی سلطان کی تلاش میں جنگل کے اس کنارے پر آگئی جہاں انہوں نے سلطان کو دھند میں غائب ہوتے دیکھا تھا۔ جہاں سلطان غائب ہوا تھا اس جگہ پہنچ کر وہ آس پاس کا جائزہ لینے لگی۔ یہاں سے جنگل تو ختم ہور ہا تھا لیکن ایک ویران پتھریلا راستہ شروع ہورہاتھا۔ سادیہ نے ایک پل بھی دیر نہ کی اور اس پتھریلے راستے پر قدم جما دئیے۔

سورج غروب ہو چکا تھا اورسادیہ کافی تھکان محسوس کر رہی تھی۔ اس عالم میں اسے فکر تھی تو صرف اپنے بھائی سلطان کی! ۔ اپنے بھائیوں کے لیے وہ جان بھی دے سکتی تھی اور سلطان تو اس کا سب سے لاڈلا بھائی تھا۔ اگرچہ سلطان اس سے عمر میں ایک سال بڑا تھا لیکن وہ سلطان کو چھوٹے بھائیوں کی طرح عزیز رکھتی تھی کیونکہ سلطان بچپن سے ہی بچکانی حرکتیں کرتا آیا تھا اور اب بڑا ہونے کے بعد بھی اس کی حرکتیں نہیں بدلی تھیں۔یہی وجہ تھی کہ سادیہ سلطان کو تمام بھائیوں سے بڑھ کر پیارکرتی تھی۔ کافی دیر تک وہ پتھریلے راستے پر چلتی رہی ۔پتھریلے راستے پر گہری تاریکی میں چلنا بھی کافی دشوار تھا لیکن وہ بھی ہمت ہارنے والی نہ تھی۔ آخرخدا خدا کرکے پتھریلا راستہ ختم ہوا او رپھر اچانک!!!۔۔۔ اسے ایک بہت بڑا پرانے طرز کا بنا ہوا بنگلہ نظر آیا۔ بنگلے کو دیکھ اس کی ساری تھکاوٹ دور ہو گئی اور وہ جوش سے بھر گئی۔ اب اسے سلطان تک رسائی زیادہ دور نظر نہیں آرہی تھی۔اس نے بنگلے کے صدر دروازے کو کھلا ہوا پایا ۔ یہ دیکھ کر اسے یقین ہوگیا کہ خدا بھی اس کے ساتھ ہے ۔ اب اس نے دیر کرنا مناسب نہ سمجھی اور بنگلے کے صدر دروازے کے اندر داخل ہوگئی۔

 اندر ایک اجڑا ہوا باغ تھا اور تھوڑے سے فاصلے پر بنگلے کا اندرونی دروازہ تھا جو اندر سے بند تھا۔ سادیہ نے وہ ویران باغ عبور کیا اور اندرونی دروازے کے پاس پہنچ گئی۔ دروازے کے ساتھ ہی گھنٹی کا بٹن لگا ہوا تھا۔ یہ بنگلہ جتنا پرانا تھا گھنٹی بھی اتنی ہی پرانی معلوم ہوتی تھی۔ سادیہ نے جیسے ہی گھنٹی کا بٹن دبایا دور کہیں بھاری گھنٹے کی آواز سنائی دی۔ سادیہ کے لئے ا ب ایک پل بھی کاٹنا مشکل ہورہا تھا۔ وہ بے چینی سے دروازے کھلنے کا انتظار کر رہی تھی۔ اور پھر !!!۔۔۔ دروازہ کھل گیا۔دروازے کی جھری سے ایک لڑکی کا چہرہ باہر آیا۔ اس لڑکی کے چہرے پر بھیانک مسکراہٹ نا چ رہی تھی۔ اس کی مسکراہٹ دیکھ کر سادیہ کو اپنے رونگٹے کھڑے ہوتے ہوئے محسوس ہوئے۔ مارے خوف کے اس کا حلق خشک ہونے لگا۔لڑکی نے اس کی حالت دیکھ کر بھنورے چڑھا لیں اور اسے خوفناک انداز میں دیکھا۔
کیا بات ہے ‘‘ لڑکی نے پھاڑ کھانے والے انداز میں کہا۔
میرا بھائی کہاں ہے ‘‘ سادیہ کے منہ سے پھنسی پھنسی آواز نکلی۔ اس کے چہرے کا رنگ اُڑتا جارہا تھا اور اس کی حالت ایسی ہوگئی تھی جیسے اس کے بدن کا سارا خون خشک ہوگیا ہو۔ یہاں وہ لڑکی اسے خونخوار نگاہوں سے گھور رہی تھی۔.

پراسرار لڑکی (قسط نمبر 6)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, 
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں