پراسرار لڑکی - پارٹ 6

 mysterious-girl


 پراسرار لڑکی - پارٹ 6

شہباز احمد ،شہزاد ، عرفان ، عمران او ر عدنان کے ساتھ سڑک پر کھڑے پریشانی کے عالم میں سادیہ کو ڈھونڈ رہے تھے۔کچھ وقت پہلے سادیہ ان کے ساتھ تھی لیکن اب اچانک نہ جانے کہاں غائب ہوگئی تھی۔ ایسے میں عمران کہنے لگا:۔
میں اس وقت کو کوس رہا ہوں جب ہم نے ریسٹ ہاؤس کے سفر کا فیصلہ کیا ۔۔۔سب سے پہلے سلطان اس جنگل میں ہماری آنکھوں کے سامنے سے غائب ہوگیا۔۔۔ اور اب سادیہ نہ جانے کہاں چلی گئی‘‘ عمران حسرت زدہ لہجے میں بولا۔

وقت کو کوسنے سے کچھ نہیں ہوگا۔۔۔ یہ سب ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے ۔۔۔ ہم سے ضرور کوئی ایسی غلطی ہوگئی ہے جس سے اللہ ہم سے ناراض ہوگیا ہے ۔۔۔اب میں سوائے مغرب کی نماز پڑھنے کے اور کوئی کام نہیں کروں گا‘‘ شہباز احمد اٹل اور سخت لہجے میں بولے۔دوسرے ہی لمحے انہوں نے اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں۔ کچھ دور انہیں ایک جھوپڑی میں روشنی جلتی ہوئی نظر آئی۔ان کا چہرہ جذبۂ ایمانی سے بھر گیا اور پھر وہ اس جھوپڑی کی سمت قدم اٹھانے لگے۔ ان سب نے بھی شہباز احمد کا ساتھ دیا۔ کچھ دیر تک چلنے کے بعد وہ جھوپڑی کے دروازے کے پاس پہنچ گئے۔ شہباز احمد نے آگے بڑھ کر دروازے پر دستک دی۔کچھ لمحوں بعد دروازہ کھل گیا۔ دروازے پر ایک شریف و نیک صفت انسان کا نورانی چہرہ نظر آیا۔ اُن نیک صفت انسان کے چہرے پر سنت رسول ؐ کے مطابق داڑھی سجی ہوئی تھی اور سر پر انہوں نے اِمامہ باندھ رکھا تھا۔شہباز احمد، ان کے بچوں اور شہزاد کو دیکھ کر انہوں نے گرم جوشی سے ان کا استقبال کیا جیسے وہ ان سب کو برسوں سے جانتے ہوں۔ شہباز احمد اور دوسرے اُن نیک صفت انسان کو حیران ہو کر دیکھنے لگے۔اُن سب کے حیران چہرے نیک صفت انسان سے چھپے نہ رہ سکے:۔

مجھے معلوم ہے کہ آپ سب کیو ں حیران ہورہے ہیں۔۔۔کہ نہ میں آپ سب کو جانتا ہوں نہ آپ میں سے کوئی مجھے جانتا ہے پھر میں آپ سے اس قدر گرم جوشی سے کیوں مل رہا ہوں ۔۔۔ اس بات کا جواب یہ ہے کہ یہ میرے نبیؐ کا طریقہ ہے ۔۔۔ وہ اپنے ہر مہمان کے ساتھ مجھ سے لاکھوں کروڑوں گنا زیادہ خوش اخلاقی سے ملتے تھے ۔۔۔چاہے اس مہمان کو جانتے ہو یا نہ جانتے ہو ۔۔۔اور نہ صرف اس مہمان سے اچھے طریقے سے ملتے تھے بلکہ اُس کی مہمان نوازی بھی کرتے تھے ۔۔۔ اپنے گھر مبارک میں آپؐ کے پاس دو وقت کا کھانابھی نہ ہوتا تھا لیکن مہمان کو کبھی بھوکا جانے نہیں دیتے تھے ۔۔۔ میں بھی اپنی نبی کریم رحمتہ اللعالمین ؐ کی سنت پر عمل کر رہا ہوں ‘‘ وہ نیک شخص بولتے چلے گئے ۔
اپنا تعارف بھی کرائیں ۔۔۔آپ کانام کیا ہے ‘‘ شہباز احمد کھوئے کھوئے لہجے میں بولے۔

مجھے مولوی عبدالرحمن کہتے ہیں‘‘ مولوی عبدالرحمن دھیمے انداز میں مسکرائے۔
میں شہباز احمد ہوں۔۔۔ یہ میرے بچے عرفان ، عدنان ، عمران اوریہ میرا اسسٹنٹ شہزاد ہے ‘‘ شہباز احمد نے اپنا اور ان سب کا تعارف کرایا۔پھر مولوی عبدالرحمن اُن سب کو اپنے جھوپڑی نما عبادت خانے کے اندر لے آئے۔گھر کے اندر صرف چھوٹا سا برآمدہ ہی تھا۔برآمدے میں ایک چارپائی بچھی ہوئی تھی اور ساتھ ہی غسل خانہ اور باورچی خانہ تھا۔ گویا یہ برآمدہ خواب گاہ یعنی سونے والے کمرے کا کام بھی دے رہا تھا۔مولوی عبدالرحمن نے اُنہیں چارپائی پر بیٹھا کر خود نیچے زمین پر بیٹھنا چاہا جس پر شہباز احمد بھی چارپائی پر بیٹھے نہ رہ سکے اور زمین پر آبیٹھے۔ ان کے دیکھا دیکھی بچے اور شہزاد بھی نیچے بیٹھ گئے۔ شہباز احمد نے مولوی عبدالرحمن کو مخاطب کیا:۔

مولوی صاحب ۔۔۔ہم مغرب کی نماز ادا کرنا چاہتے ہیں‘‘ شہباز احمد جھجک کر بولے۔
جی ضرور۔۔۔ میں نے بھی نماز اداکرنی ہی ہے ۔۔۔ ہم باجماعت نماز پڑھ لیتے ہیں‘‘ مولوی عبدالرحمن خوشی سے بھرے ہوئے لہجے میں بولے ۔اُن سب نے سر ہلادیا اور اٹھ کھڑے ہوئے ۔ مولوی عبدالرحمن نے اُنہیں غسل خانے کادروازہ دکھا دیا۔ وہ سب ایک ایک کرکے وضو کر آئے ۔ سب سے آخر میں مولوی عبدالرحمن وضوکرنے گئے اوروضو کرکے مقتدی کی صف میں آکھڑے ہوئے اور شہباز احمد کو امام کی جگہ کھڑا کرنا چاہا لیکن شہباز احمدنے یہ کسی صورت مناسب نہ سمجھا اور مولوی عبدالرحمن کو امام کی جائے نماز پر زبردستی لے آئے اور خود شہزاد ، عرفان، عدنان اور عمران کے ساتھ پیچھے صف میں کھڑے ہوگئے۔ شہباز احمد نے اقامت کہی اور پھر مولوی عبدالرحمن نے مغرب کی نماز پڑھانا شروع کی۔نماز مکمل ہوجانے کے بعد انہوں نے سنتیں ادا کیں ۔ پھر مولوی عبدالرحمن کے پاس شہبازاحمد جھولی پھیلا کر حسرت بھرے انداز میں بیٹھ گئے۔

یہ کیا شہباز صاحب۔۔۔جھولی اللہ کے سامنے پھیلائیے۔۔۔ مجھ جیسے گناہ گار بندے کے سامنے نہیں‘‘ مولوی عبدالرحمن نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔
مجھے آپ اللہ کے ولی لگتے ہیں۔۔۔میری پریشانیوں کی نجات کے لئے اللہ کے حضور دعا کیجئے ‘‘ شہباز احمد بھرائے ہوئے لہجے میں بولے۔
کیسی پریشانی۔۔۔ آپ مجھے تفصیل سے بتائیے‘‘ مولوی عبدالرحمن نرم لہجے میں بولے۔
مولوی صاحب ۔۔۔ ہم آج صبح اپنے ریسٹ ہاؤس کے لیے نکلے تھے۔۔۔ راستے میں ہماری گاڑ ی خراب ہوگئی اور ہم سب اِس جنگل میں پھنس گئے۔۔۔میں اور میرا اسسٹنٹ شہزاد گاڑی سے نیچے اترے تاکہ کسی سے مدد مانگ کر گاڑی ٹھیک کر ا سکیں ۔۔۔ابھی ہم نیچے اترے ہی تھے کہ ہمیں ایک لڑکی نظر آئی۔۔۔ اُس نے کہا کہ اُس کے والدین کھو گئے ہیں اور اُس نے ہم سے اُن کو تلاش کرنے کے لئے مدد مانگی۔۔۔ہم دونوں اُس کے پیچھے چل پڑے۔۔۔ ابھی کچھ ہی وقت ہوا تھا کہ وہ لڑکی رک گئی اور اس نے ہم سے کہا کہ اب اُسے ہماری مدد نہیں چاہیے۔۔۔ ہم واپس چلے جائیں۔۔۔ابھی ہم حیران ہی تھے کہ وہ لڑکی وہاں سے غائب ہوگئی‘‘ شہباز احمد نے اتنا ہی کہا تھا کہ مولوی عبدالرحمن بول اٹھے۔

اوہ !!!‘‘ مولوی عبدالرحمن کے منہ سے پریشانی کے عالم میں نکلا۔
پھر جب ہم واپس اپنی گاڑی کی طرف آئے تو میرے پانچوں بچے گاڑی کے اندر نہیں تھے۔۔۔ نہ جانے وہ کہاں چلے گئے تھے ۔۔۔ بعد میں مجھے عرفان نے بتایا کہ یہ لوگ گاڑی سے باہر نکل آئے تھے اور باہر نکلتے ہی بے ہوش ہوگئے تھے ۔۔۔ بے ہوش ہونے سے پہلے انہوں نے کسی لڑکی کی آواز سنی تھی‘‘ شہباز احمد یہاں تک کہہ کر سانس لینے کے لئے رکے۔

کیا !!!‘‘ مولوی عبدالرحمن نے بوکھلائے ہوئے انداز میں کہا۔
جی ہاں۔۔۔پھر اس کے بعد میں اور شہزاد ابھی گاڑی کے پاس ہی کھڑے تھے کہ ایک گاڑی ہمارے پاس آکر رکی ۔۔۔ ہم نے اس گاڑی میں بیٹھے شخص سے لفٹ مانگی۔۔۔ اس نے ہمیں لفٹ دے دی۔۔۔ اب ہم ریسٹ ہاؤس پہنچ کر پولیس کی مدد حاصل کرنے کا سوچ رہے تھے ۔۔۔ تبھی ہماری نظر اس گاڑی کے ڈرائیور کے پاؤں پر پڑی۔۔۔ اس کے تو پاؤں ہی نہیں تھے ۔۔۔ پھر شہزاد نے اس کی گردن پر ہاتھ رکھا تو اس کا ہاتھ خلا میں جھولتا ہوا سیٹ کی پشت سے ٹکرا گیا۔۔۔ یعنی اس شخص کا گاڑی میں کوئی وجود ہی نہیں تھا۔۔۔ ہم دونوں نے ہمت نہ ہاری اور گاڑی کا دروازہ کھول کر چلتی ہوئی گاڑی سے چھلانگ لگادی۔۔۔ لیکن ہم اللہ کے فضل سے بچ گئے ۔۔۔ پھر ہمیں ہمارے چاروں بچے عرفان ، عدنان، عمران اور سادیہ مل گئے ۔۔۔ سلطان ان کے ساتھ نہیں تھا ۔۔۔ جب میں نے سلطان کے بارے میں پوچھا ۔۔۔ تو انہوں نے بتایا کہ سلطان ان سب کی آنکھوں کے سامنے خلا میں باتیں کرتا ہوا اوجھل ہوا ہے ۔۔۔ وہ خلا میں ایسے باتیں کر رہا تھا جیسے اس کے ساتھ کوئی موجودہو اور پھر وہ دھند میں غائب ہوگیا۔۔۔ اِن لوگوں نے سلطان کو آواز بھی دی لیکن سلطان نے اِن کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا‘‘ شہباز احمد بغیر رکے بولے جارہے تھے۔
اوہ !۔۔۔ تو آپ کا بیٹا اُس کا اگلا شکار بنا‘‘ مولوی عبدالرحمن کی زبان سے کھوئے کھوئے انداز میں نکلا۔

کیا مطلب !‘‘ وہ سب بری طرح چونکے۔
کچھ نہیں ۔۔۔ آپ اپنی بات جاری رکھئے‘‘ مولوی عبدالرحمن کے ماتھے پر گہری شکنیں ابھر آئی تھیں۔
پھر ہم سب جنگل سے باہر نکل آئے ۔۔۔ تبھی ہمیں احساس ہوا کہ ہمارے ساتھ سادیہ تو ہے ہی نہیں۔۔۔ہم سب حیران و پریشان اسے تلاش کرنے لگے لیکن وہ اچانک نہ جانے کہاں چلی گئی تھی۔۔۔ پھر میں نے مغرب کی نماز ادا کرنے کا فیصلہ کیا اور آپ کے گھر آگیا‘‘ یہاں تک کہہ کر شہباز احمد خاموش ہوگئے۔
اپنی بیٹی کی تصویر تو ہوگی آپ کے پاس‘‘ مولوی عبدالرحمن نے ساری بات سن کر عجیب سے انداز میں کہا۔
جی ہاں ۔۔۔ میرا موبائل میں ہے ۔۔۔ لیکن کیوں ۔۔۔ تصویر کی کیا ضرورت ہے‘‘ شہباز احمد نے تعجب سے پوچھا۔

ضرورت ہے ۔۔۔ آپ مجھے وہ تصویر دکھائیے‘‘ مولوی عبدالرحمن مستحکم لہجے میں بولے۔ شہباز احمدنے حیرانگی کے عالم میں موبائل نکالا اور موبائل میں سادیہ کی تصویر نکال کر مولوی عبدالرحمن کو تصویر دکھا دی۔ وہ کچھ وقت تک سادیہ کی تصویر غور سے دیکھتے رہے۔آخر کہنے لگے:۔
آپ کو اپنی بیٹی کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔ وہ جہاں بھی ہوگی صحیح سلامت ہوگی۔۔۔ مجھے اس کے چہرے پر ایمانی قوت نظر آئی ہے جو شایدکہ کسی بھی لڑکی کے چہرے پر نظر نہیں آتی۔۔۔ آپ کی بیٹی ضرور رب العزت کو محبوب ہے ۔۔۔ اِس وجہ سے میں یہ کہہ رہا ہوں کہ آپ کی بیٹی جہاں بھی ہوگی رب کی حفاظت میں ہوگی۔۔۔اب آپ اپنے بیٹے سلطان کی تصویر دکھائیے‘‘ مولوی عبدالرحمن نے آخر میں تھوڑا سی پریشانی کے ساتھ کہا۔ شہباز احمد نے موبائل میں ہی سلطان کی تصویر بھی نکالی اور اُنہیں وہ تصویر دکھائی۔ تصویر میں بھی سلطان کی آنکھوں میں شرارت تھی اور اس کے ہونٹوں پر ایک شوخ مسکراہٹ نا چ رہی تھی۔ سلطان کی تصویر دیکھ کر مولوی عبدالرحمن نہایت فکر مند نظر آنے لگے۔
کیا ہوا مولوی صاحب۔۔۔ آپ کے چہرے کے تاثرات کیوں بدل گئے ‘‘ شہباز احمد بے چین ہو کر بولے۔

آپ کا بیٹا سلطان بہت بڑی مشکل میں ہے ۔۔۔ اُسے وہ لڑکی لے گئی ہے۔۔۔ کہ جس کے گھر آج تک جو بھی لڑکا گیا ہے اُس لڑکے کا چہرہ دنیا پھر کبھی نہیں دیکھ سکی ہے ۔۔۔ آپ بھی اپنے بیٹے کا چہرہ زندگی میں کبھی نہیں دیکھ سکیں گے‘‘اس بار مولوی عبدالرحمن کا لہجہ نہایت سرد ہوگیا۔اُن کی بات سن کر اُن سب کے جسموں میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی اور اُن سب کے چہرے دودھ کی طرح سفید پڑ گئے۔ اُنہیں لگا کہ واقعی وہ وقت جب سلطان دھندمیں غائب ہوا تھا وہ اُسے زندگی میں آخری بار دیکھ رہے تھے۔
سلطان کی آنکھ کھلی تو وہ اُس لڑکی کے کمرے میں پلنگ پر لیٹا ہوا تھا۔ وہ بدحواسی کے عالم میں اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ دماغ پر زور دینے پر اُسے بے ہوش ہونے سے پہلے کے واقعات یاد آنے لگے کہ کس طرح اُس نے اُس لڑکی سے نماز پڑھنے کی اجاز ت مانگی تھی اور ابھی وہ نماز پڑھنے جاہی رہا تھا کہ اچانک وہ بے ہوش ہوگیا تھا۔
آخر میں بے ہوش کیسے ہوگیا۔۔۔ یہ لڑکی ضرور کوئی شاطر کھلاڑی ہے۔۔۔اِس نے مجھے اپنے جال میں پھنسا لیا اور میں بھی اس کی کشش کی وجہ سے اِس کے ساتھ آگیا۔۔۔ مجھے تو واپس جنگل میں جاکر اباجان اور اپنے بھائیوں اور سادیہ کو تلاش کرنا تھا ۔۔۔مجھے ابھی جانا ہوگا‘‘ سلطان بڑبڑایا اورپھر اُٹھ کھڑا ہوا۔ تبھی اسے یاد آیا کہ اُس نے تو مغرب کی نماز ادا کرنی تھی۔

اِس سے پہلے کہ وہ لڑکی مجھے دوبارہ آکر نماز سے روکے ۔۔۔ میں نماز پڑھ لیتا ہوں‘‘ یہ کہتے ہوئے سلطان واش بیسن کی طرف وضو کرنے چلا گیا۔ اچھی طرح وضو کرنے کے بعد اُس نے نماز ادا کی اور پھر نماز کے بعد دعا مانگنے لگا:۔
یا اللہ ۔۔۔ مجھے میرے والدسے۔۔۔میرے بھائیوں سے۔۔۔ اور میری بہن سے ملا دے۔۔۔ یا اللہ اگر اس لڑکی میں شر ہے تو مجھے اس کے شر سے بچا ۔۔۔ اور اگر یہ لڑکی خیر کے ارادہ رکھتی ہے تو پھر مجھے اِس لڑکی کے ذریعے میرے والد اور میرے بھائیوں تک پہنچا دے۔۔۔آمین‘‘ دعا مانگنے کے بعد سلطان نے چہرہ پر ہاتھ پھیرا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ اب وہ اُس لڑکی کو تلاش کرنا چاہتا تھا تاکہ یہ جان سکے کہ اُس کے ارادے کیا ہیں؟ وہ کس مقصد کے تحت اُسے اپنے گھرلے کر آئی ہے؟ ان سوالوں کے جواب جاننے کے لئے سلطان کمرے سے باہر نکل آیا۔ پھر وہ لڑکی کو پکارتا ہوا اِدھر اُدھر گھومنے لگا۔ تبھی اس کی نظریں اُس پانچویں کمرے کی طرف گئی جسے وہ اِس سے دیکھ نہیں سکا تھا کیونکہ اُسی وقت لڑکی وہاں آگئی تھی۔ اُس کمرے کو دیکھ کر وہ چونک اُٹھا۔

شاید کہ وہ لڑکی اِسی کمرے میں ہو ۔۔۔اور اگر نہ بھی ہوئی تب کوئی بات نہیں۔۔۔ اِس بہانے اِس کمرے کا بھی دیدار ہو جائے گا‘‘ سلطان نے شریر انداز میں کہا۔دوسرے ہی لمحے وہ کمرے کا دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوگیا۔اور پھر !!!۔۔۔ آگلا لمحہ اُس کی زندگی کا سب سے خوفناک ترین لمحہ تھا۔سلطان دھک سا رہ گیا ۔ اُس کے اوپر کا سانس اوپراور نیچے کا نیچے رہ گیا۔خوف سے اس منہ سے ایک بھیانک چیخ نکلی۔کمرے کے اندر لائن سے بارہ لاشیں رسی سے لٹکی ہوئی تھیں۔اُن لاشوں میں سارے کے سارے نو عمر لڑکے تھے جن کی عمر سلطان کی عمر کے برابر یعنی اٹھارہ سال ہی تھی۔ اُن لاشوں کو دیکھ کر سلطان خوف کے پسینے میں نہا گیا۔ اُس کی زبان ساکت ہو گئی اور سانس گلے میں اٹک کر رہ گئی۔جن رسیوں پروہ بارہ لاشیں لٹکی ہوئی تھیں اُن رسیوں کے ساتھ ایک رسی خالی بھی لٹکی تھی جو کہ یقیناً سلطان کا انتظار کررہی تھی۔ اُس رسی کو دیکھ کر سلطان کو اپنی موت بالکل سامنے نظر آنے لگی۔ اس کا چہرہ مارے خوف کے زرد پڑنے لگا۔
کیا ہوا مولوی صاحب۔۔۔ آپ کے چہرے کے تاثرات کیوں بدل گئے ‘‘ شہباز احمد بے چین ہو کر بولے۔
آپ کا بیٹا سلطان بہت بڑی مشکل میں ہے ۔۔۔ اُسے وہ لڑکی لے گئی ہے ۔۔۔ کہ جس کے گھر آج تک جو بھی لڑکا گیا ہے اس کا چہرہ دنیا پھر کبھی نہیں دیکھ سکی ہے ۔۔۔ آپ بھی اپنے بیٹے کا چہرہ زندگی میں کبھی نہیں دیکھ سکیں گے‘‘ اس بار مولوی عبدالرحمن کا لہجہ نہایت سرد ہوگیا۔ان کی بات سن کر ان کے جسموں میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی اور اُن سب کے چہرے دودھ کی طرح سفید پڑ گئے۔ اُنہیں لگا کہ واقعی وہ وقت جب سلطان دھند میں غائب ہوا تھا وہ اُسے زندگی میں آخری بار دیکھ رہے تھے۔
یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں مولوی صاحب ۔۔۔آپ کی زبان سے مایوسی کی باتیں ہمیں اور مایوس کردیں گی ‘‘ شہباز احمد بوکھلا کر بولے۔
میں آپ کو مایوس نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔ بلکہ اللہ کی رحمت سے تو کبھی بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے ۔۔۔ مایوسی تو گناہ ہے ‘‘ مولوی عبدالرحمن نے ٹھنڈی سانس بھری۔
پھر اب ہم کیا کریں ۔۔۔ سلطان کو کیسے اُس لڑکی کے شر سے بچائیں ‘‘ اس بار شہزاد نے پریشانی کے عالم میں کہا۔

قرآن پاک کے ذریعے ۔۔۔ مجھے معلوم ہے کہ وہ لڑکی نوعمر لڑکوں کو کہاں لے کر جاتی ہے ۔۔۔ اُس کا گھر کہاں ہے ۔۔۔ میں آپ کو اُس کے گھر لے جا سکتا ہوں لیکن اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتا کہ ہم کامیاب ہو جائیں گے ۔۔۔ کیونکہ آج تک جو بھی عامل یا عالم وہاں گئے ہیں ان کو کسی نے واپس آتے نہیں دیکھا ۔۔۔ میں بھی اُس لڑکی کے گھر کے دروازے تک نہیں گیا۔۔۔ بس مجھے اُس گھر کا راستہ پتا ہے جہاں وہ نوعمر لڑکوں کو لے کر جاتی ہے ‘‘ مولوی عبدالرحمن نے صاف لہجے میں کہا۔
کیا اُس گھر کا راستہ جنگل کے دوسرے کنارے کی طرف سے جاتا ہے ’’ عرفان نے سوالیہ نظروں سے اُن کی طرف دیکھا۔
جی ہاں ۔۔۔بالکل ۔۔۔ لیکن تم کیسے جانتے ہوکہ اُس کا گھر کہاں ہے ‘‘ مولوی عبدالرحمن مارے حیرت کے بولے۔
ہم نے سلطان کو دھند میں وہیں سے غائب ہوتے دیکھا ہے ‘‘عرفان نے حسرت بھرے انداز میں کہا۔

ٹھیک ہے مولوی صاحب ۔۔۔ اب ہم دیر نہیں کریں گے ۔۔۔ میں فوراً اُس لڑکی کے گھر کی طرف جانا چاہتا ہوں ‘‘ شہباز احمد نے پختہ لہجے میں کہا۔
لیکن وہاں جانے سے پہلے آپ یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ وہ لڑکی انسان نہیں ہے ۔۔۔ایک آسیبی مخلوق ہے ۔۔۔ یہ تو ہم سب جانتے ہی ہیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں جوڑے بنائے ہیں ۔۔۔یعنی مذکر و مونث ۔۔۔اس طرح جنات میں بھی جوڑے کی شکل میں مذکر و مونث بنائیں ہیں ۔۔۔ وہ لڑکی جنات میں جنس کے اعتبار سے مونث ہے ۔۔۔ جنات میں بھی کچھ جنّ شیطانی ذہنیت اور طاقت رکھتے ہیں ۔۔۔ اُس لڑکی نے بھی بڑے شیطان سے وہ ساری طاقتیں لے رکھی ہیں ۔۔۔لہٰذا اُس کا مقابلہ کرنا اور آپ کے بیٹے کو چھڑانا تقریباً ناممکن ہوگا ‘‘مولوی عبدالرحمن روانگی کے عالم میں کہتے چلے گئے۔اُن کی بات سن کر اُن سب کے چہرے برسوں کے بیمار نظرآنے لگے اور اُنہیں اپنی شکست یقینی معلوم ہوئی.

پراسرار لڑکی (قسط نمبر 7)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, 
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں