پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 16

 

Sublimegate Urdu Font Stories

 پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 16


وہنی میرے پاس آکر ایک لمحے کے لئے رکی۔ اس نے بڑی سختی سے میرا بازو پکڑا اور مجھے اپنے ساتھ اڑاتے ہوۓ وہاں سے شہر کی طرف لے گئی۔ وہ بڑی تیزی سے اڑ رہی تھی اور چند سیکنڈ میں متھرا شہر میں آگئی۔ سامنے ایک پرانے مندر کی اونچی دیوار تھی جس کے اوپر ایک درخت جھکا ہوا تھا۔ درخت کے گرد مٹی کا چبوترہ بنا ہوا تھا۔ اس وقت وہاں کوئی نہیں تھا۔ روہنی مجھے لے کر وہاں بیٹھ گئی۔ اس نے ڈانٹے ہوۓ کہا۔ تم چیخ مار کر وہاں سے کیوں بھاگے
تھے ؟“


میں نے کہا۔ ” مجھے اپنے چہرے پر کسی کا گرم سانس لگا تھا اور پھر کسی شے نے اپنے گیلے ہونٹ میری گردن پر رکھ دیئے تھے۔
روہنی کہنے لگی۔ ’’شیروان ! میں اس وقت تک تم سے الگ نہیں ہونا چاہتی جب تک مجھے اس بات کا یقین نہیں ہو جاتا کہ تمہاری زندگی دشمن پجاری رگھو سے محفوظ ہو گئی ہے اور میری آتما کو ، میری روح کو نجات مل گئی ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ تمہیں نہ تو اپنی جان عزیز ہے اور نہ یہ چاہتے ہو کہ میری روح کو میرے دشمن رگھو سے نجات ملے۔“

میں شرمندگی محسوس کرنے لگا کہ واقعی مجھے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ روہنی نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور بڑی محبت کے ساتھ کہا۔ "شیروان ! میں نے تمہاری اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ تم میرے خاوند اور میرے محبوب شہزادے شیروان کا دوسرا جنم نہیں ہو بلکہ اس کے ہم شکل ہو ۔ لیکن مجھے تو تمہارے روپ میں اپنا محبوب ہی نظر آتا ہے ۔ میں تو تم سے اس طرح محبت کرتی ہوں اور تمہاری خیر خواہ ہوں جس طرح میں اپنے خاوند شیروان سے محبت کرتی تھی اور اس کی خیر خواہ تھی ۔

اس کے علاوہ تمہیں بدروح رگھو کی دشمنی کا ثبوت بھی مل چکا ہے ۔ ، تم دیکھ چکے ہو کہ وہ تم پر تین چار بار قاتلانہ حملہ کر چکا ہے اور تم اچھی طرح سے جانتے ہو کہ اگر تم مجھ سے الگ ہو گئے تو تمہارے لئے پجاری رگھو سے اپنی جان بچانی مشکل ہو جاۓ گی۔ پھر تم کیوں مجھ سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہو ؟
“ میں نے کہا۔ ” میں نے تم سے بھاگنے کی کوشش نہیں کی تھی ۔ ڈرنا ایک قدرتی بات ہے ۔ کبھی کبھی بہادر سے بہادر آدمی بھی ڈر جاتا ہے ۔ بس مجھ پر انسانی کمزوری غالب آگئی اور میں ڈر گیا۔ وعدہ کرتا ہوں آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔
مگر ایک بات میں تمہیں ضرور بتانا چاہتا ہوں ۔ میں نے عین اس وقت اپنے چہرے پر کسی غیبی چیز کا سانس اور اپنی گردن پر اس کے ہونٹوں کا لمس محسوس کیا تھا جب تم نے کوٹھڑی میں مٹی کے مٹ کے اوپر رکھی ہوئی پتھر کی سیل ہٹائی تھی۔“ میری اس بات پر روہنی نے چونک کر میری طرف دیکھا اور پھر جیسے کسی گہری سوچ میں ڈوب گئی۔ میں نے اس کے چہرے پر تشویش کے آثار دیکھے تو اس سے پوچھا۔ ” کیا تم نے مٹی کے مٹ میں کچھ دیکھا تھا؟“

روہنی نے کہا۔ ’’شیروان ! اس مٹکے میں کوئی آسیب ضرور تھا جو میرے پتھر کی سل ہٹانے سے مٹکے میں سے تیزی سے باہر نکل گیا تھا۔‘‘
" آسیب ؟" میں نے حیرانی سے پوچھا۔ روہنی کہنے لگی۔ ”ہاں آسیب ..... یہ وہی آسیب تھا جس کے سانس کو تم نے اپنے چہرے اور جس کے لجلجے ہونٹوں کو تم نے اپنی گردن پر محسوس کیا تھا۔

میں نے اپنے دل میں کہا۔ لگتا ہے ایک اور بلا میرے پیچھے لگ گئی ہے خدا ہی مجھے ان بدروحوں اور بلاؤں سے بچا سکتا ہے۔ میں نے روہنی سے کہا۔’’ آسیب کا تم نے نام کیوں لیا ہے ۔ کیا آسیب کوئی دوسری قسم کی بدروح ہوتی ہے ؟“ روہنی نے کہا۔ ”تم اسے نہیں سمجھ سکو گے۔ تم یہی سمجھ لو کہ آسیب بھی ایک بدروح ہوتی ہے مگر اس میں اور بدروح میں یہ فرق ہوتا ہے کہ بدروح کی سزا کی مدت لمبی ہو جاۓ تو وہ بدروح آسیب میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔

آسیب سے بدروحیں بھی گھبراتی ہیں ۔ آسیب کو اپنے قبضے میں کرنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ آسیب کو قبضے میں کرنے کا ایک خاص منتر ہوتا ہے جس کو اگنی منتر یعنی آگ کا منتر کہتے ہیں ۔ “ میں نے پوچھا۔ "کیا تمہیں وہ منتر آتا ہے ؟ "
روہنی نے کہا۔ ’’ آج تک یہ منتر ہندوستان میں صرف دو چار منتریوں کو ہی معلوم ہو سکا ہے اور وہ بھی اس منتر کے راز کو مرنے کے بعد اپنے ساتھ ہی لے گئے ۔ وہ کوئی بہت بڑا منتری تھا جس نے شمشان گھاٹ کے مٹکے میں اس آسیب کو قید کیا ہوا تھا ۔۔۔

جو میرے پتھر کی سل سر کانے کے بعد مٹکے میں سے باہر نکل گیا تھا۔‘‘ میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ ” کیا یہ آسیب تھا جس نے میری گردن پر اپنے گیلے ہونٹ لگاۓ تھے ؟“

’’ہاں ۔‘‘ روہنی بولی۔’’ جب یہ آسیب بند مٹکے میں سے باہر نکلا تھا تو میں نے اس کی سانس کی دھیمی پھنکار ایسی آواز سنی تھی۔ یہ آسیب مجھے نقصان پہنچا سکتا تھا لیکن اس نے مجھے کچھ نہیں کہا تھا۔ مگر میں اس بات پر پریشان ہوں کہ آسیب تمہارے پاس آ کر کیوں رک گیا اور اس نے تمہاری گردن پر اپنے گیلے ہونٹ کیوں رکھ دیئے۔۔۔

مجھے فکر ہوئی کہ کہیں آسیب نے مجھے اپنا نشانہ بنانے کے لئے تو نہیں چن لیا۔ جب میں نے اس کا ذکر روہنی سے کیا تو وہ کہنے لگی ۔ " میرا نہیں خیال کہ یہ آسیب تمہیں نقصان پہنچانے کے ارادے سے تمہارے پاس آیا تھا۔ اگر ایسی بات ہوتی تو وہ تمہیں نقصان پہنچا چکا ہوتا اور تم اس وقت میرے سامنے نہ ہوتے بلکہ خدا جانے زمین کے اندر کون سی دنیا میں پہنچ گئے ہوتے ۔‘‘ میں نے پوچھا۔ کیا یہ کسی مرد کا آسیب تھا یا کسی عورت کا ؟“ روہنی نے کہا۔’’ یہ کسی نوجوان لڑکی کا آسیب تھا۔

میں نے دوسرا سوال کیا۔ "تمہیں کیسے پتہ چلا کہ یہ کسی نوجوان لڑکی کا آسیب تھا ۔۔
روہنی بولی۔’’ ہمیں پتہ چل جاتا ہے۔ کیسے پتہ چل جاتا ہے ؟ تم نہیں سمجھوں گے۔
میں نے اپنا خوف دور کرنے کی غرض سے پوچھا۔ ” کیا یہ آسیب اس وقت بھی ہمارے ساتھ ہے ؟“ روہنی نے کہا۔ " میں آسیب کو نہیں دیکھ سکتی۔ آسیب صرف ان منتریوں کو ہی دکھائی دیتا ہے جن کے پاس آسیب کا منتر ہو یا پھر ان لوگوں کو نظر آ جاتا ہے جن کو آسیب خود اپنی مرضی سے یہ پراسرار منتر بتا دے۔“
میں نے روہنی سے کہا کہ تم نے تو آسیب کو کسی بڑے منتری دشمن کی قید سے رہائی دلائی ہے اور اسے اس طرح مٹکے سے آزاد کرایا ہے جس طرح میں نے تمہیں مرتبان کھول کر پجاری رگھو کی قید سے آزاد کرایا تھا۔ اس اعتبار سے تو آسیب کو تمہارا شکر گزار ہونا چاہئے ۔

 روہنی کہنے لگی ۔ ’’آ سیب کبھی کسی انسان کے دوست نہیں بنتے لیکن اگر کسی کے دوست بن جائیں تو پھر ان سے اچھا دوست اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ اس نوجوان لڑکی کے آسیب نے تمہاری گردن کو چوم لیا تھا۔
اس کا مطلب ہے کہ اس کو تم پسند آگئے ہو اور اس نے تمہیں اپنا دوست بنا لیا ہے ۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’اس کا مطلب ہے کہ اس لڑکی کا آسیب مجھے کسی وقت بھی چمٹ سکتا ہے اور جس آدمی کو کوئی آسیب چمٹ جاۓ اس کا تو برا حشر ہو جاتا ہے۔“ روہنی میری طرف دیکھ کر مسکرائی۔ کہنے لگی۔’’اس نوجوان لڑکی کے آسیب نے تمہیں پسند کر لیا ہے ۔ وہ تمہاری دوست بن گئی ہے ۔ اس کا آسیب تمہیں کچھ نہیں کہے گا۔ تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔‘‘ میں نے اس نوجوان لڑکی کے آسیب میں دلچسپی لیتے ہوۓ پوچھا۔

’’اگر میں اس لڑکی کے آسیب کو دیکھ ہی نہیں سکتا تو پھر اس کی دوستی کا مجھے کیا فائدہ؟“ روہنی بولی ۔ " شاید وہ خود کبھی تمہیں اپنا آپ دکھا دے لیکن کیا تمہیں اسے دیکھنے کا بہت شوق ہے ؟ اگر ایسی بات ہے تو یہ خیال اپنے دل سے نکال دو۔ آسیب کی دوستی کا اگر کچھ فائدہ ہوتا ہے تو اس کا نقصان بھی بہت ہوتا ہے ۔“ حقیقت یہ ہے کہ اب مجھے اس نوجوان لڑکی کے آسیب سے دلچسپی پیدا ہو گئی تھی اور میرے دل سے اس کا خوف دور ہو گیا تھا۔ مگر روہنی کی یہ بات میں نے اپنے پلے باندھ لی تھی کہ کسی آسیب کی دوستی اچھی نہیں ہوتی ۔

متھرا شہر کے اس قدیم مندر کے باہر درخت کے نیچے چبوترے پر بیٹھے باتیں کرتے ہمیں کافی وقت گزر گیا تھا۔ میں اور روہنی ابھی تک غیبی حالت میں ہی تھے اور کوئی ہمیں دیکھ نہیں سکتا تھا۔ جتنی دیر تک میں غائب رہتا تھا اتنی دیر تک نہ مجھے بھوک لگتی تھی نہ ہی پیاس لگتی تھی۔ جب غیبی حالت سے زندہ انسانی حالت میں واپس آتا تھا تو بھوک اور پیاس کا احساس بھی میرے دوسرے احساسات کے ساتھ واپس آ جاتا تھا۔

میں نے روہنی سے کہا۔’’سلطانہ ! ہم کب تک یہاں بیٹھے رہیں گے ؟ ہمیں آج کا دن اور کل کا دن بھی اس شہر میں گزارنا ہے کیونکہ پجاری رگھو کی بدروح کی یاترا کل رات سے شروع ہونے والی ہے ۔ میرا خیال ہے کیوں نہ ہم کسی اچھے سے ہوٹل میں یہ وقت گزاریں۔‘‘ روہنی ہنس کر بولی ۔’’ تم زندہ انسان ہو تم لوگوں کو اپنے آرام و آسائش کا ضرور خیال آ جاتا ہے ۔

“ میں نے کہا۔’’ہم آرام نہ کریں تو کام بھی اچھی طرح سے نہیں کر سکتے ۔“ روہنی بولی۔” مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔ چلو شہر کے کسی ہوٹل میں چلتے ہیں۔“ ہندوستان کو آزادی ملے ابھی دو چار سال ہی گزرے تھے اور متھرا شہر میں بھی ابھی نہ تو اتنی آبادی بڑھی تھی اور نہ فائیو سٹار قسم کے ہوٹل ہی تعمیر ہوۓ تھے ۔ ہم نے پرواز کرتے ہوۓ شہر کے اوپر ایک چکر لگایا۔ ہمیں متھرا ریلوے سٹیشن کے قریب ایک ہوٹل کی عمارت دکھائی دی۔ روہنی نے کہا۔ ” یہ ہوٹل مجھے اچھا لگتا ہے ۔ چلو نیچے اترتے ہیں۔“

ہم ایک خالی جگہ دیکھ کر زمین پر اتر آۓ۔ زمین پر اترنے کے بعد روہنی انسانی شکل میں واپس آگئی۔ وہ مجھے بھی انسانی شکل میں واپس لے آئی ۔ ہم ہوٹل کی لابی میں آ گئے ۔ اس زمانے کے مطابق یہ کافی ماڈرن ہوٹل تھا اور خاص طور پر یہ غیر ملکی سیاحوں کے آرام و آسائش کا خیال رکھ کر بنایا گیا تھا۔ ۔ ہم نے اس ہوٹل میں دو ساتھ ساتھ کمرے لے لئے ۔ زندہ حالت میں واپس آنے کے بعد مجھے سخت بھوک لگ رہی تھی۔ میں نے نیچے ڈائٹنگ ہال میں بیٹھ کر کھانا کھایا۔ روہنی میرے ساتھ ہی تھی۔ پھر اپنے کمرے میں جا کر اچھی طرح سے نہا کر تازہ دم ہو گیا۔
روہنی کے پاس ہر وقت انڈین کرنسی کے نوٹ موجود رہتے تھے ۔ خدا جانے وہ غیب میں سے کہاں سے نئے نئے نوٹ منگوا لیتی تھی۔ اس نے کچھ نوٹ مجھے بھی دے دیئے تھے کہ اپنے پاس رکھ لوں ان کی کسی وقت مجھے کبھی ضرورت پڑ سکتی تھی۔ میں نے وہ رات ہوٹل میں ہی بسر کی۔
دوسرے دن شہر کی سیر کرتے رہے ۔ روہنی مسلمان ہو چکی تھی۔اسے مندروں میں جانے کی ضرورت نہیں تھی۔ جب سے وہ میرے ساتھ تھی میں نے اسے کبھی کسی مندر میں کسی مورتی کے آگے ماتھا ٹیکتے نہیں دیکھا تھا۔ رات کو ہم ہوٹل میں واپس آگئے۔ میں نے کھانا کھایا۔ ہم ہوٹل کے ڈائٹنگ ہال کے کونے میں بیٹھے تھے۔ ہم کافی پی رہے تھے۔ روہنی کے ساتھ ایسا نہیں لگتا تھا کہ وہ زندہ انسان نہیں تھی بلکہ اپنی بدروح تھی اسے کھانے پینے کی حاجت نہیں تھی مگر وہ جس وقت چاہتی میرے ساتھ کھانا بھی کھا لیتی تھی اور چاۓ کافی بھی پی لیتی تھی ۔
اس کو میں نے کبھی نہاتے بھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ ہر وقت تازہ دم رہتی تھی اور جس قسم کا چاہے لباس پہن لیتی تھی۔ روہنی چونکہ اپنی زندگی میں مسلمان ہو چکی تھی اور اس کے بعد اس کی زندگی نیک اعمال کے ساتھ بسر ہوئی تھی اور وہ صرف ایک سنگین گناہ کی پاداش میں مرنے کے بعد بدروح کی شکل میں سزا بھگت رہی تھی اس لئے وہ بدروحوں کی جملہ بری خصلتوں اور آلودگیوں سے محفوظ تھی اور مجھے اس کے لباس میں سے ہمیشہ ایک طلسمی خو شبو آیا کرتی تھی۔
روہنی نے ایک بار مجھے کہا تھا۔ ’’انسان کو اپنے برے اعمال کی سزا ضرور بھگتنی پڑتی ہے۔ کبھی کبھی یہ سزا دنیا میں ہی مل جاتی ہے لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اسے مرنے کے بعد یہ سزا ملتی ہے ۔ مجھے بھی میری موت کے بعد یہ سزا کاٹنی ہے مگر خدا نے مجھے بخش دیا ہے اور میری سزا کے دن بہت تھوڑے رہ گئے ہیں۔ اگر میں دشمن پہاری رگھو کے قبضے میں نہ گئی تو میری روح کو جلد نجات مل جائے گی اور میں بدروح سے دوبارہ ایک نیک روح کی شکل اختیار کر لوں گی۔“
" یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے سلطانہ ’‘‘ میں نے خوش ہو کر کہا۔ روہنی کہنے لگی۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ میں پجاری رگھو کی بدروح سے چھٹکارا حاصل کر لوں ۔ اگر میں ایسا نہ کر سکی اور پجاری رگھو نے مجھے ایک بار پھر قید کر لیا تو پھر کوئی پتہ نہیں کہ میری کب نجات ہو ۔“
میں نے اس سلسلے میں روہنی سے پوچھا۔ ” یہ بتاؤ کہ آج رات کو ہمیں کیا حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی۔ کیا تم اکیلی شمشان گھاٹ جاؤ گی یا مجھے بھی تمہارے ساتھ جانا ہوگا۔
روہنی نے کہا۔ ” تمہارا میرے ساتھ جانا بڑا ضروری ہے۔ اگر مجھے وہاں کوئی حادثہ پیش آ گیا تو کم از کم تم مجھے بچانے کا کوئی متن ، کوئی اپاۓ تو کر سکو گے ۔ اگر میں اکیلی وہاں گئی اور مجھے کچھ ہو گیا تو تمہیں کچھ پتہ نہیں چلے گا کہ میرے ساتھ کیا ہوا
میں نے کہا۔ ” ٹھیک ہے۔ میں تمہارے ساتھ جاؤں گا۔ لیکن کیا ہم پہلے جا کر شمشان گھاٹ میں چپ کر پجاری رگھو کی بدروح کا انتظار کریں گے یا آدھی رات کو اس کے آنے کے بعد وہاں جائیں گے ؟“ روہنی کہنے گی۔’’ ہم آدھی رات سے کچھ دیر پہلے وہاں جائیں گے اور کسی جگہ چپ کر پجاری رگھو اور اس کے راکھششوں کا انتظار کریں گے ۔ " میں نے کہا۔ " پجاری رگھو تو تمہیں نظر نہیں آئے گا۔ وہ مجھے بھی نظر نہیں آۓ گا۔
پھر ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ وہ شمشان گھاٹ پہنچ گیا ہے ۔“ روہنی بولی۔ "ہم نے دلہن کی کھوپڑی کی راکھ کی سلائی اپنی آنکھوں میں ڈال رکھی ہو گی۔ پجاری رگھو ہمیں نظر آ جاۓ گا۔‘‘ اور اگر ہم اس کو نظر آگئے تو پھر کیا ہوگا؟‘‘ میں نے سوال کیا۔ روہنی نے کہا۔ ” پھر جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ میں اس قسم کی باتیں سوچ سوچ کر ڈرتی رہی تو میں کبھی پجاری رگھو پر فتح حاصل نہیں کر سکوں گی اور کبھی مجھے مکتی نہیں ملے گی۔“
ہم رات کے دس بجے کے قریب ہوٹل کے ڈائٹنگ ہال سے اٹھ کر کمرے میں آ گئے ۔ ہم باتیں بھی کر رہے تھے اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد دیوار پر لگے کلاک کو بھی دیکھ لیتے تھے ۔ جب کلاک نے رات کے پورے گیارہ بجاۓ تو روہنی نے اپنے بازو کے ساتھ بندھا ہوا وہ تعویذ اتارا جس میں دلہن کی کھوپڑی کی راکھ تھی۔ اس نے ایک سلائی اپنی آنکھوں میں لگالی اور ایک سلائی میری دونوں آنکھوں میں لگا دی۔ کمال کی بات ہو گئی سلائی کے آنکھوں میں پھرتے ہی میں غائب ہو گیا۔
میں نے دیکھا تو روہنی بھی غائب ہو چکی تھی۔ میں نے اپنی تسلی کے لئے اس سے پوچھ لیا۔ سلطانہ ! اگر اس حالت میں پجاری رگھو نے تمہیں دیکھ لیا تو مجھے پہلے ہی بتا دو کہ مجھے کیا کرنا ہوگا۔ کیونکہ اگر رگھو تمہیں دیکھ سکے گا تو میں بھی اسے ضرور نظر آ جاؤں گا۔“ روہنی سوچ میں پڑ گئی۔ وہ اس مسئلے کا کوئی حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ میری طرف دیکھ کر بولی۔” میں نے یہ سوچا ہی نہیں تھا کہ اگر پجاری رگھو نے تمہیں دیکھ لیا تو کیا ہوگا۔
میں تو انسان نہیں ہوں۔ ہو سکتا ہے کھوپڑی کی راکھ کی وجہ سے میں اسے نظر نہ آؤں لیکن تم انسان ہو۔ ہو سکتا ہے تم اسے نظر آ جاؤ ۔ اگر ایسا ہو گیا تو پجاری رگھو سب سے پہلے تمہیں اس لمحے ہلاک کر دے گا اور میں یہ کبھی نہیں ہونے دوں گی۔ تمہارا میرے ساتھ جانا بھی ضروری ہے تا کہ اگر مجھے کچھ ہو جائے تو تم اگر میری مدد نہیں کر سکو گے تو کم از کم تمہیں یہ تو معلوم ہوگا کہ میرے ساتھ کیا گزری ہے ۔
اس کے بعد ہو سکتا ہے کہ میری سہیلی مالینی تم سے رابطہ پیدا کرے اور تم سے تمام حالات معلوم کرنے کے بعد میری مدد کر سکے ۔“
” تو پھر مجھے کیا کرنا چاہئے ؟‘‘ میں نے پوچھا۔ روہنی کو جیسے ایک دم اس مسئلے کا حل سوجھ گیا۔ کہنے لگی۔’’اس کا ایک ہی حل ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ میں تمہیں چھوٹا سانپ بنا کر اپنی کلائی میں لپیٹ لوں گی۔ اگر رگھو پجاری نے مجھے دیکھ لیا اور مجھ پر اس نے وار کر دیا تو میں اسی لمحے تمہیں نیچے گرادوں گی اور تم وہاں سے نکل جانا۔‘‘
میں نے کہا۔ ” مجھے سانپ بنتے ہوۓ ڈر لگ رہا ہے ۔‘‘ روہنی کہنے لگی۔”میں تمہیں صرف سانپ ہی بنا سکتی ہوں۔ کچھ اور بنانا میری
طاقت سے باہر ہے ۔‘‘ مجھے اچانک مالینی کا بتایا ہوا منتر یاد آ گیا۔ میں نے کہا۔ ”کیوں نہ میں تمہاری سہیلی مالینی کا بتایا ہوا منتر پڑھ کر چمگادڑ بن جاؤں۔ میں پہلے بھی چمگادڑ بن چکا ہوں اور مجھے اس سے کوئی پریشانی نہیں ہوئی تھی۔“ روہنی نے کچھ سوچتے ہوۓ کہا۔ ’’مالینی کا بتایا ہوا منتر بڑا خطرناک ہے۔ میں تمہیں یہ منتر پڑھ کر اپنا روپ بدلنے کا مشورہ نہیں دوں گی کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ اس منتر کے اثر سے تم چمگادڑ کے علاوہ کسی دوسرے جانور یا درندے کے روپ میں بھی ظاہر ہو سکتے ہو ۔
اور تم خواہ کسی بھی درندے کے روپ میں ظاہر ہو گئے تو پجاری رگھو تمہیں فورا دیکھ لے گا اور سب سے پہلے تم پر وار کرے گا۔ میں نے کہا۔”مگر وہ مجھے سانپ کے روپ میں بھی تو دیکھ سکتا ہے۔“ اس پر روہنی نے کہا۔ ”میں تمہیں اتنا چھوٹا سانپ بناؤں گا کہ تم میری کلائی کے ساتھ لپٹے ہوۓ اسے دکھائی نہیں دو گے ۔
وہ خاموش ہو گئی۔ میں بھی کچھ نہ بولا۔ میرے دل میں صرف ایک ہی خیال تھا کہ خدا جانے میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ روہنی نے میرے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ وہ جب بھی مجھ سے اپنی محبت کا اظہار کرتی تھی تو میرا ہا تھ اپنے ہاتھوں میں لے لیتی تھی۔ کہنے لگی۔ ”شیروان ! مجھے معاف کر دینا۔ میری وجہ سے تم ایک بہت بڑی مصیبت میں پھنس گئے ہو۔ مگر یہ اب تمہاری زندگی اور موت کا مسئلہ بھی بن گیا ہے۔ اگر تم میرا ساتھ چھوڑ دیتے ہو یا میں تمہیں چھوڑ دیتی ہوں تو تم ہمارے دشمن پجاری رگھو کے لئے ایک بڑا آسان شکار بن جاؤ گے ۔ وہ جب اور جہاں چاہے گا تمہیں اس طرح پکڑ کر مسل ڈالے گا جس طرح آدمی کسی مکھی کو پکڑ کر مسل ڈالتا ہے ۔ اس میں تمہاری بھی موت ہوگی اور میری بھی ایک طرح سے دوسری موت ہوگی۔“
وہی بات تھی کہ میں اس کی مجبوری اور وہ میری مجبوری بن چکی تھی۔ مجھے یہ کہنا ہی پڑا کہ تم مجھے جو مشورہ دو گی میں اس پر عمل کروں گا۔“ ۔ روہنی نے کہا۔ ”میں تمہیں سانپ کے روپ میں اپنے ساتھ لے جاؤں گی۔ میں تمہیں اپنے گریبان کے اندر چھپا کر بھی لے جاسکتی ہوں مگر چھپا کر لے جانے سے وہ مقصد فوت ہو جائے گا جس کے لئے میں تمہیں ساتھ لے جاؤں گی۔ کیونکہ تم میرے گریبان کے اندر چھپے ہوۓ دیکھ نہیں سکو گے کہ میرے ساتھ کیا حادثہ پیش آیا ہے اور میں اپنے دشمن کو نظر آ جانے کی صورت میں تمہیں اتنی جلدی اپنے گریبان سے نکال کر پھینک نہیں سکوں گی جتنی جلدی اور راز داری سے میں تمہیں اپنی کلائی سے نیچے گرا سکتی ہوں۔ اس لئے یہ میری مجبوری ہے شیروان۔ ۔۔۔
میں نے کہا۔ ” میں اسے مانتا ہوں سلطانہ لیکن مجھے ایک بات بتاؤ کہ مجھے سانپ سے انسانی روپ میں دوبارہ کون واپس لاۓ گا؟‘‘
روہنی کہنے لگی۔ اگر مجھے پجاری رگھو نے اپنے قبضے میں کر لیا تو اس کی خبر میری سہیلی مالینی کو ضرور ہو جاۓ گی اور وہ خود تم سے رابطہ پیدا کرے گی اور پھر وہی تمہیں سانپ کی شکل سے واپس انسانی شکل میں لاۓ گی۔ لیکن اگر کسی وجہ سے مالینی کو پجاری رگھو کے ہاتھوں میرے پکڑے جانے کی خبر ملنے میں دیر لگ گئی تو تم ایسا کرنا کہ یہاں سے جے پور کے ویران محل میں جانا جہاں آدھی رات کو میری بچپن کی سہیلی درگا کی بدروح آتی ہے۔ درگا کو سارا واقعہ بیان کرنا۔ وہ تمہارا انسانی روپ واپس لے آئی گی۔“
میں نے کہا۔ ”لیکن میں تو بول نہیں سکوں گا۔ میں تو سانپ ہوں گا پھر اسے اپنی کہانی کیسے سناؤں گا اور اسے کس طرح بتاؤں گا کہ میں کون ہوں۔“ روہنی نے اس کے جواب میں کہا۔ ” جے پور کے ویران محل کی بدروح درگا تمہیں دیکھتے ہی سمجھ جائے گی کہ تم کون ہو۔ تمہیں کچھ بتانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آۓ گی۔“
اس تمام لمبی بحث مباحث کا نتیجہ یہی نکلا کہ میں انسان سے سانپ بنے اور روہنی مجھے سانپ بنانے پر تیار ہو گئی۔ اس نے مجھے اپنے پلنگ پر بٹھا لیا اور منتر پڑھنے لگی تو میں نے اس کو روک کر کہا۔ ’’یہ بتاؤ سلطانہ کہ کیا میں انسانی آواز سن اور سمجھ سکوں گا؟ کیا میں بھی انسانوں کی طرح بول سکوں گا؟“ روہنی نے نفی میں سر ہلاتے ہوۓ کہا۔ ” نہیں ۔ تم خود انسانوں کی طرح بول نہیں سکو گے لیکن انسان کو دنیا کی ہر زبان بولتے ہوۓ سمجھ جاؤ گے کہ یہ کون سی زبان میں کیا کہہ رہا ہے۔“
میں نے کہا۔ ”انسان سانپ کا دشمن ہے ۔ مجھے کسی نے بھی دیکھ لیا تو وہ مجھے مارنے کے لئے پتھر اور ڈنڈا لے کر مجھ پر ضرور حملہ کرے گا۔ اگر کسی کا پتھر یا ڈنڈا مجھے لگ گیا تو کیا میں مر جاؤں گا؟‘‘
روہنی کہنے گئی ۔ ’’اگر تم کسی انسان کے ہاتھوں مارے گئے یا کسی کے جوتوں تلے آ کر کچلے گئے تو تم مرو گے نہیں بلکہ غائب ہو جاؤ گے اور اس کے بعد ایک گھنٹے میں یا ایک دن گزر جانے کے بعد تم کسی بھی جگہ دوبارہ نمودار ہو جاؤ گے ۔“ دوبارہ میں سانپ کے روپ میں ظاہر ہوں گا یا اپنی انسانی شکل میں ؟“ میں نے پوچھا۔
روہنی بولی۔ ’’اس بارے میں ، میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتی۔ تم انسان کے روپ میں بھی دوبارہ ظاہر ہو سکتے ہو اور سانپ کی شکل میں بھی ظاہر ہو سکتے ہو ۔ “ میں دل میں اس منحوس گھڑی کو کوسنے لگا جب میں نے روہت گڑھ کے قلعے میں روہنی کی آتما کو مرتبان میں سے آزاد کیا تھا۔
مگر اب میرے کوسنے یا نہ کوسنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا اسی لئے دانش مند لوگوں کا کہنا ہے کہ انسان کو ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہئے اور جس شے سے اس کا کوئی تعلق واسطہ نہ ہو اس میں دخل نہیں دینا چاہئے اور خاموشی سے آگے گزر جانا چاہئے۔
روہنی نے پوچھا۔ ” کیا تم تیار ہو ؟‘‘
” تیار ہوں۔‘‘ میں نے سخت بیزاری کے عالم میں جواب دیا۔ روہنی اور میں دونوں غیبی حالت میں تھے مگر ایک دوسرے کو نظر آرہے تھے۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں اور میری جون بدلنے کا خاص منتر پڑھنا شروع کر دیا۔ میں نے ڈر کے مارے اپنی آنکھیں بند کر رکھی تھیں اس لئے کہ میں اپنے آپ کو سانپ کی جون بدلتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ یہ بڑی دہشت طاری کر دینے والی بات تھی۔ تین چار منٹ تک روہنی منتر کا جاپ کرتی رہی۔ جب اس نے منتر پڑھنا بند کیا تو مجھے ایسے لگا جیسے کسی نے پیچھے سے مجھے آہستہ سے دھکا دے دیا ہو ۔
پھر بھی میں نے آنکھیں بند رکھیں۔ روہنی کی آواز آئی۔”شیروان! آنکھیں کھول کر دیکھو۔“ ”یا اللہ خیر ! میں نے اپنے دل میں کہا اور آنکھیں کھول دیں۔ مجھے اپنا جسم دکھائی نہ دیا۔ میں نے روہنی سے پوچھا۔ ”میں کہاں ہوں؟“ ۔ روہنی نے اپنی مٹھی میرے سامنے کھول دی اور بولی ۔ یہ دیکھو۔“ میں نے دیکھا کہ روہنی کی ہتھیلی پر کمرے کے بلب کی روشنی میں ایک بالشت بھر کا خاکستری رنگ کا سانپ گردن اٹھاۓ اپنا چھوٹا سا پھن کھولے بیٹھا تھا۔ میں نے دہشت زدہ ہو کر روہنی سے پوچھا۔
کیا یہ میں ہوں؟“ روہنی نے کہا۔’’ہاں! یہ تم ہی ہو اور تم ہی مجھ سے بات کر رہے ہو ۔“ میں نے کہا۔ ”لیکن اگر میں سانپ بن چکا ہوں تو انسانوں کی زبان میں کیسے بات کر سکتا ہوں ؟
روہنی نے کہا۔ ” تم سانپوں کی زبان میں ہی بات کر رہے ہو لیکن میں اپنی بدروحوں والی شکتی کی مدد سے تمہاری سانپوں کی زبان کو یہاں کے انسانوں کی اردو زبان میں تبدیل کر کے سن رہی ہوں اور تم بھی اسی زبان میں اپنی آواز سن رہے ہو۔۔۔
اس نے مجھے اپنی کلائی کے گرد لپیٹ لیا اور کہا۔ " میری کلائی سے ہی چمٹے رہنا شیروان ! اگر شمشان گھاٹ پر میں آنکھوں میں ڈالی دلہن کی کھوپڑی کی راکھ کی وجہ سے پجاری رگھو کو نظر نہ آئی تو میں موقع پا کر اپنے ایک آتش ناک منظر سے اسے جلا کر بھسم کر نے کی کوشش کروں گی۔ لیکن اگر میں اسے نظر آ گئی اور اس نے مجھ پر وار کر دیا تو میں سب سے پہلا کام یہ کروں گی کہ وہیں اپنی کلائی سے تمہیں نیچے لڑھکاروں گی اور تم زمین پر گرتے ہی فورا وہاں سے جتنی دور بھاگ سکو بھاگ جانا میرے ساتھ جو ہوگا میں اسے خود ہی سنبھال لوں گی۔“
میرے اوپر ہدایات و شرائط کا ٹوکرا پھینک دیا گیا تھا مگر میں نے بڑے صبر اور حوصلے کے ساتھ ان ساری شرطوں اور ہدایات کو سنا اور انہیں اپنے دل پر نقش کر لیا تھا۔ کیونکہ ان پر عمل کرنے میں ہی میری زندگی تھی اور ان سے غفلت برتنے میں میری موت تھی۔
روہنی پلنگ پر سے اٹھ کر ہوٹل کی کھلی کھڑکی کے پاس آگئی۔ یہ اماوس کی رات تھی۔ ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق اماوس کی رات سب سے تاریک اور اندھیری رات ہوتی ہے۔ آسمان پر تارے نکلے ہوۓ تھے چاند نہیں نکلا تھا۔ میں روہنی کی کلائی سے لپٹا ہوا تھا اور میں اس کا سارا جسم دیکھ رہا تھا۔ میں گردن گھما کر اپنا سانپ والا جسم بھی دیکھ رہا تھا۔
روہنی کھڑکی پر چڑھ کر کھڑی ہو گئی۔ یہ اس ہوٹل کی دوسری منزل تھی۔ روہنی نے کھڑکی میں سے چھلانگ لگا دی اور وہ نیچے گرنے کی بجاۓ ہوا میں اڑنے لگی۔ کھڑکی سے باہر آتے ہی وہ دو تین منزلیں اور بلند ہو گئی اور متھرا شہر کی پورب کی جانب رخ کر لیا۔ میں نے نیچے دیکھا۔ نیچے رات کی تاریکی میں شہر کی روشنیاں ستاروں کی طرح جھلملا رہی تھیں۔ روہنی اندھیرے میں شہر کی جھلملاتی روشنیوں کے اوپر اڑتی ہوئی شہر کے پورب کی طرف آگئی۔ یہاں نیچے روشنیاں نہیں تھیں بلکہ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ روہنی نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’شیروان ! ہم پرانے شمشان گھاٹ کے اوپر آگئے ہیں۔ میں نیچے آنے لگی ہوں ۔ تم ٹھیک ہو ناں؟“ میں نے کہا۔’’ابھی تک بالکل ٹھیک ہوں۔“
روہنی نے بلندی کم کرنی شروع کر دی اور وہ شمشان گھاٹ سے کچھ فاصلے پر درختوں کے جھنڈ کے پاس اتر گئی۔ کہنے لگی۔ پجاری رگھو کی بدروح اگر آدھی رات کو شمشان گھاٹ کی یاترا کو آۓ گی تو اس کے آنے کا وقت ہو گیا ہے۔“ میں نے اسے کہا۔ " کسی جگہ چپ کر اس کا انتظار کرتے ہیں ۔ “ وہ بولی۔” میں شمشان گھاٹ کے چبوترے کی طرف بڑھ رہی ہوں۔
اب تم خاموش رہنا۔“
میں نے اس لمحے خاموشی اختیار کر لی اور کوئی جواب نہ دیا۔ مجھے ہر حالت میں اپنی جان عزیز تھی۔ رات واقعی بہت اندھیری، تاریک اور ڈراؤنی تھی۔ مگر اس اندھیرے میں بھی میں روہنی کو دیکھ رہا تھا اور وہاں پر موجود ہر شے بھی دھندلی دھندلی نظر آ رہی تھی۔ روہنی سنبھل سنبھل کر قدم اٹھاتی شمشان گھاٹ کے چبوترے کی طرف بڑھ رہی۔ ارد گرد سناٹا چھایا ہوا تھا۔ چتا کے چبوترے اور شمشان گھاٹ کی پرانی کوٹھڑی کے درمیان ذرا ہٹ کر گھنا درخت تھا۔ روہنی کہنے گئی۔’’ میں اس درخت میں چپ کر پجاری رگھو کی بدروح کا انتظار کروں گی۔“
اور وہ زمین سے بلند ہوتے ہوۓ درخت کی گھنی شاخوں میں آکر درخت کے ایک دو شاخے پر ٹانگیں لٹکا کر بیٹھ گئی۔ وہاں سے شمشان کا چیوتر و اور پرانی کوٹھڑی دونوں دکھائی دے رہی تھیں۔ یہ وہی پرانی کوٹھڑی تھی جس کے اندر وہ پرانا مٹکا تھا جس کی پتھر کی سل ہٹا کر روہنی نے نوجوان لڑکی کے آسیب کو آزاد کر دیا تھا
میں روہنی کی کلائی سے لپٹا بالکل خاموش تھا۔ اس طرح محسوس کر رہا تھا جس طرح میں انسانی شکل و صورت میں محسوس کیا کر تا تھا..... درخت کی جس شاخ پر روہنی بیٹھی تھی وہاں سے نیچے چتا کا چبوترہ اور پرانی کوٹھڑی صاف نظر آرہی تھی۔ روہنی نے بڑی دھیمی آواز میں کہا۔ ’’درگا نے بتایا تھا کہ پجاری رگھو کی بدروح کے آنے سے پہلے اس کے محافظ چار راکھشش شمشان گھاٹ پر آتے ہیں۔“
میں نے سرگوشی میں پوچھا۔ ” کیا ہم انہیں دیکھ سکیں گے ؟" روہنی نے کہا۔ ”ہم نے اپنی آنکھوں میں جس راکھ کی سلائی ڈالی ہوئی ہے وہ ہمیں ان راکھششوں کو دکھا دے گی۔“
روہنی نے جملہ پورا ہی کیا تھا کہ اچانک جس درخت پر ہم بیٹھے تھے وہ آہستہ آہستہ لرزنا شروع ہو گیا۔ روہنی نے خاموش سر گوشی میں کہا۔’’ خاموش!راکھشش آرہے ہیں۔“
درخت تھوڑی دیر لرزتے رہنے کے بعد ساکت ہو گیا۔ اس کے بعد ایسا گہر اسناٹا چھا گیا کہ مجھے روہنی کے سانس لینے کی آواز سنائی دے رہی تھی ۔اس سناٹے میں دور سے ایسی آوازیں آنے لگیں جیسے بہت سی بلیاں رو رہی ہوں۔ قریب آتے آتے ہیں آوازیں عورتوں کے رونے اور بین کرنے کی آوازوں میں تبدیل ہو گئیں۔ پھر یہ آوازیں بھی دور ہوتے ہوتے خاموش ہو گئیں۔اچانک چتا کے چبوترے کے چاروں کونوں پر آگ کے چار شعلے بلند ہوۓ۔ پھر یہ شعلے دھوئیں کے ستونوں میں بدل گئے اور غائب ہو گئے۔ روہنی نے مجھے اپنے منہ کے قریب کرتے ہوۓ سر گوشی میں کہا۔ چاروں راکھشش آگئے ہیں ۔
اب وہ منحوس پجاری رگھو آنے والا ہے ۔‘‘
روہنی کی ہدایت کے مطابق میں چپ تھا۔ میری نگاہیں نیچے کچھ فاصلے پر چتا کے ویران چبوترے پر جمی ہوئی تھیں۔اتنے میں ایسی آواز سنائی دی جیسے دور کہیں بڑی زور کی آندھی چل رہی ہو۔ یہ آواز قریب آتے آتے مکھیوں کی بھنبھناہٹ بن گئی اور جیسے ہمارے درخت کے گرد چکر لگانے لگی۔ میں سمجھ گیا کہ منحوس پجاری رگھو کو ہماری موجودگی کا علم ہو گیا ہے اور اب ہماری خیر نہیں ہے ۔ روہنی کو اس نے دوبارہ اپنے قابو میں کرنا ہے لیکن مجھے وہ زندہ نہیں چھوڑے گا لیکن کچھ ہی دیر بعد مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی آوازیں بھی غائب ہو گئیں۔ دوسرے لمحے ایک چیخ کی آواز سنائی دی۔
چیخ کی آواز ایسی تھی جیسے کسی کو ذبح کرتے وقت اس کی آخری چیخ ہو ۔ روہنی نے فورا مجھے کلائی پر سے اتار کر اپنی مٹھی میں بند کر لیا اور پہلے سے بھی زیادہ دھیمی سرگوشی میں کہا۔ ”جب میں تمہیں نیچے گراؤں ، فورا فرار ہو جانا۔‘‘ میں اپنا چھوٹا سا سانپ کا سر روہنی کی انگلیوں میں سے باہر نکال کر دیکھ رہا تھا۔ رات کی تاریکی اور سناٹا اور زیادہ گہرا ہو گیا تھا۔ چیخ کی آواز نے مجھ پر بھی ایک لمحے کے لئے لرزہ طاری کر دیا تھا۔
اتنے میں چار لمبے بالوں والی سیاہ فام عورتیں چتا کے چبوترے کے چاروں کونوں میں نمودار ہوئیں۔ ان عورتوں کے سیاہ جسموں پر بھی بال اگے ہوئے تھے۔ وہ بن مانس لگتی تھیں اور زور زور سے سر ہلا رہی تھیں۔ پھر وہ ایک دم بت بن کر ہاتھ سینے پر باندھ کر کھڑی ہو گئیں۔
اب تاریکی میں ایک طرف سے ایسی دہشت ناک آواز سنائی دی جیسے کسی مگرمچھ نے پھنکار ماری ہو اور اس کے ساتھ ہی ہمارا دشمن منحوس پجاری رگھو کا تخت نمودار ہوا۔ تخت کو چار سیاہ فام حبشیوں نے اٹھایا ہوا تھا۔ تخت پر ایک کرسی رکھی تھی۔ کرسی پر پجاری رگھو ایک ہاتھ میں عصالئے زرد لباس میں بیٹھا تھا۔ اس کا سر منڈا ہوا تھا اور آنکھوں میں ایسی چمگ تھی جیسے انگارے دہک رہے ہوں ۔ میں نے اسے پہچان لیا تھا۔ سیاہ فام حبشیوں نے تخت چتا کے چبوترے پر رکھ دیا۔ پجاری رگھو تخت پر سے اتر کر چبوترے پر آکر کھڑا ہو گیا۔ اس نے اپنی دہکتی ہوئی آنکھوں سے چاروں طرف دیکھا۔ ایک لمحے کے لئے بالکل ساکت ہو کر کھڑا رہا ،پھر چبوترے سے اترا اور پرانی کوٹھڑی کی طرف چلنے لگا۔ سیاہ فام حبشی عورتیں دوڑ کر اس کے دائیں بائیں ہو گئیں۔ پھر دو حبشی عورتیں کوٹھڑی کے دروازے کے دونوں جانب ادب سے کھڑی ہو گئیں۔
پجاری رگھو کوٹھڑی میں چلا گیا۔
روہنی نے آہستہ سے مجھے کہا۔’’اسے ہماری موجودگی کا علم نہیں ہوا۔ مجھے یقین ہے کہ میں اس کے سامنے گئی تو وہ مجھے دیکھ بھی نہیں سکے گا۔“ میں نے بھی سرگوشی میں کہا۔’’روہنی ! سوچ سمجھ کر کوئی قدم اٹھانا۔‘‘ روہنی نے مجھے سختی سے کہا۔ ” تم مت بولو . . ...“ میں خاموش ہو گیا۔ روہنی نے شاید پجاری رگھو پر وار کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اسے یقین ہو گیا تھا شاید کہ اس نے دلہن کی کھوپڑی کی جو راکھ آنکھوں میں ڈالی ہوئی ہے وہ کام کر گئی ہے اور وہ پجاری رگھو کو نظر نہیں آۓ گی۔
کچھ کچھ مجھے بھی ایسا ہی یقین ہو رہا تھا۔ کیونکہ پجاری رگھو کے پاس بے پناہ جادوئی طاقت تھی اور وہ اپنی طاقت کی وجہ سے ہماری موجودگی محسوس کر سکتا تھا مگر وہ ایسے نہیں کر سکا تھا۔ اگر اسے ہماری موجودگی کا ذرا سا بھی احساس ہو جاتا تو وہ فور اہم پر حملہ کر دیتا۔
روہنی درخت سے آہستہ آہستہ نیچے آگئی۔ __ میں اس کی مٹھی میں تھا اور اس کی انگلیوں کے درمیان سے اپنی سری باہر نکالے دیکھ رہا تھا۔ روہنی آہستہ آہستہ اس کوٹھڑی کی طرف چلنے لگی جس میں تھوڑی دی پہلے پجاری رگھو داخل ہوا تھا۔ دونوں حبشی عورتیں کوٹھڑی کے باہر دونوں جانب سر جھکاۓ کھڑی تھیں۔ روہنی ان کے قریب سے ہو کر گزر گئی مگر ان میں سے کوئی بھی روہنی کو نہ دیکھ سکی تھی۔ روہنی نے منہ ہی منہ میں کوئی منتر پڑھنا شروع کر دیا تھا۔ وہ کوٹھڑی میں داخل ہو گئی۔ کوٹھڑی میں ایک طاق تھا جس میں کھوپڑی کے پیالے میں دیا جل رہا تھا۔ میں نے خوف کے مارے اپنا سر روہنی کی انگلیوں میں ذرا نیچے کر لیا تھا اور سمٹ گیا تھا۔
میں نے بھی دیکھا اور روہنی نے بھی دیکھا کہ کوٹھڑی بالکل خالی پڑی تھی۔ ہمارے سامنے تھوڑی دیر پہلے پجاری رگھو اس کوٹھڑی میں داخل ہوا تھا مگر اب وہ اندر نہیں تھا۔ کوٹھڑی میں نہ کوئی روشن دان تھانہ کوئی کھڑکی تھی پھر خدا جانے وہ منحوس پجاری کہاں غائب ہو گیا تھا۔ کوٹھڑی خالی دیکھ کر روہنی بھی کچھ گھبرا گئی تھی ۔ وہ جلدی سے مڑی اور کوٹھڑی سے باہر نکل آئی۔
جیسے ہی وہ باہر آئی ایک بجلی سی چمکی اور سامنے پجاری رگھو کھڑا تھا۔ اس کی آنکھوں سے چنگاریاں پھوٹ رہی تھیں ۔ اس نے گرج کر کہا۔ ’’روہنی ! میں تیری تلاش میں تھا۔ تو خود ہی میرے جال میں آگئی۔اب تو بچ کر نہیں جاۓ گی۔“ روہنی نے منتر پڑھ کر پجاری کی طرف زور سے پھونک ماری مگر عیار پجاری ہو شیار ہو چکا تھا وہ پلک جھپکتے میں غائب ہو گیا۔ پھر ایسی خوفناک آوازیں آنے لگیں جیسے ہاتھی چنگھاڑ رہے ہوں، شیر دھاڑ رہے ہوں، سانپ پھنکار رہے ہوں۔ روہنی اونچی آواز میں منتر پڑھ پڑھ کر پھونک رہی تھی مگر لگتا تھا کہ پجاری رگھو اس کی زد سے نکل چکا تھا۔ اس قیامت کی دل دہلا دینے والی چیخوں کی آوازوں میں بجلی کڑ کی اور اچانک جہاں روہنی کھڑی تھی ۔۔۔۔

پُراسرار حویلی اردو کہانی - پارٹ 17

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں