پُراسرار حویلی - پارٹ 12

 

Sublimegate Urdu Font Stories

 پُراسرار حویلی - پارٹ 12


روہنی کہنے لگی۔’’چلو ایک دکان پر چل کر تمہارے لئے کپڑے خریدتے ہیں۔‘‘روہنی آج سے تین سو سال پہلے جھانسی کے صوبے کی ملکہ کی حیثیت سے رہا کرتی تھی۔ مگر وہ آج کے جھانسی شہر سے بھی اچھی طرح واقف تھی۔ اسے معلوم تھا کہ کون سی چیز کہاں سے مل سکتی ہے ۔ وہ مجھے شہر کے گنجان علاقے کی ایک بہت بڑی دکان میں لے گئی جہاں عورتوں ، مردوں اور بچوں کے ریڈی میڈ کپڑے فروخت ہوتے تھے ۔ میں نے اپنے لئے ایک ہلکے رنگ کی نئی پتلون اور جیکٹ خرید کر وہیں پہن لی۔ میرے پرانے کپڑے واقعی اب اس قابل نہیں رہے تھے کہ میں انہیں پہنتا۔
بارش بہت دیر پہلے کی رک چکی تھی۔ جھانسی شہر کا موسم خوشگوار ہو گیا تھا۔ خنک ہوا چلنے لگی تھی۔ ہم شہر کے گنجان بازاروں سے نکل کر ایک کھلی سڑک پر آگئے۔ روہنی میرے ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ اس کی چال میں مہارانیوں والا وقار تھا۔ اس کے گلے کا ہار اور سر کا چھوٹا تاج ابھی تک غائب تھا۔ میں نے اس سے پوچھا۔ ’’اب ہم کہاں جا رہے ہیں ؟“

اس نے کہا۔ ”میں سب سے پہلے اپنے محل میں جاؤں گی۔ وہاں میں تمہیں ایک نئی چیز دکھانا چاہتی ہوں۔ اس کے بعد ہم وہیں سے بدروحوں کی دنیا کی طرف پرواز کر جائیں گے ۔“

” ہم کتنی دیر میں بدروحوں کی دنیا میں پہنچیں گے ؟‘‘میں نے پوچھا۔ وہ میرے ساتھ چلتی ہوئی ایک ایسی جگہ پر آ گئی جہاں آس پاس کوئی انسان نظر نہیں آتا تھا۔ کہنے لگی۔ ’’تم ہماری دنیا کے فاصلوں کا انسانوں کے بناۓ ہوۓ پیانوں سے اندازہ نہیں لگا سکتے۔ تم یوں سمجھ لو کہ اگر فضا میں پانچ ہزار میل فی گھنٹے کے حساب سے ایک ہزار سال تک سفر کرتے رہو تو تم بدروحوں کی دنیا میں پہنچو گے ۔“ میں نے حیران ہو کر کہا۔ ’’اور ہم کتنی مدت میں پہنچیں گے ؟“ ” میرے ساتھ پرواز کرتے ہوۓ جب تم بدروحوں کی دنیا میں پہنچو گے تو تمہیں ایسا محسوس ہوگا جیسے تم نے ابھی سفر شروع کیا تھا اور ابھی پہنچ گئے ہو ۔

“ روہنی بدروح کی یہ باتیں میری سمجھ سے باہر تھیں لیکن اپنی نجات کے لئے مجھے اس کے ساتھ جانا ہی پڑ رہا تھا۔ اندر سے میں یہ سوچ کر ضرور ڈر گیا تھا کہ اگر یہ بدروح واقعی مجھے اتنی دور لے جارہی ہے تو کیا میں وہاں سے واپس آسکوں گا؟

اگر کسی وجہ سے میں وہیں رہ گیا تو میرا کیا حشر ہوگا؟
یہ سوچ کر ہی میرا دل بیٹھنے لگا تھا۔ اگر مجھے منحوس پجاری رگھو کی بدروح کے اپنے اوپر پے در پے قاتلانہ حملوں کا تلخ تجربہ نہ ہوچکا ہوتا تو میں روہنی بدروح کے ساتھ ایک قدم بھی نہ چلتا۔ لیکن یہ میری مجبوری تھی۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور ہم فضا میں بلند ہو گئے ۔

روہنی کا ویران قلعے والا محل وہاں سے زیادہ دور نہیں تھا۔ ہم بڑی جلدی قلعے کی چھت پر اتر گئے۔ وہ مجھے نیچے قلعے کے اس آسیب زدہ کمرے میں لے آئی جہاں اس کے مرحوم خاوند اور میرے ہم شکل مغل شہزادے شیروان کی لاش تابوت میں بند پڑی تھی۔ شمع دان کی موم بتیاں بجھی ہوئی تھیں۔ روہنی نے بجھی ہوئی موم بتیوں کو باری باری اپنی انگلی سے چھوا اور وہ روشن ہو گئیں۔ اس نے شمع دان اٹھا کر تابوت کے سرہانے ایک طرف رکھ دیا۔ اس کے بعد اس نے تابوت کے ڈھکنے کو ایک طرف سرکا دیا۔

موم بتیوں کی روشنی تابوت میں پڑی تو میں نے دیکھا کہ جہاں رات کے وقت میں نے روہنی کے مرحوم خاوند شیروان کی لاش دیکھی تھی وہاں اب چند ایک انسانی ہڈیوں کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔

میں نے روہنی سے پوچھا۔" شہزادے شیروان کی لاش تو رات کو بالکل صحیح حالت میں تھی۔ پھر یہ اتنی جلدی ہڈیوں کا ڈھانچہ کیسے بن گئی؟“ روہنی کی بدروح نے اداس آواز میں کہا۔ ’’رات جب تم نے میرے محبوب شہزادے شیروان کی لاش دیکھی تھی تو اس وقت میں تمہیں تین سو سال پیچھے لے گئی تھی۔ جب تم لاش کو دیکھ رہے تھے تو اسے تابوت میں بند کئے صرف دو دن ہی گزرے تھے۔ یہ میں نے اس لئے کیا تھا کہ میں تمہیں تمہارے ہم شکل شہزادے شیروان کا چہرہ اور اس کی گردن کا سورج گرہن کا نشان دکھانا چاہتی تھی۔۔۔

تاکہ تمہیں میری اس بات کا یقین آ جاۓ کہ میرے مرحوم شہزادے نے تمہیں اپنا روپ دے کر میری مدد کے لئے قلعے میں بھیجا تھا ورنہ میری اتنی طاقت نہیں ہے کہ میں مردہ ہڈیوں میں جان ڈال کر اسے پھر سے انسانی شکل دے سکوں ۔“ پھر وہ تابوت پر جھک گئی۔ اس نے شہزادے شیروان کی کھوپڑی کو اٹھا لیا۔ اس وقت روہنی کی آنکھوں میں آنسو بھر آۓ ۔ اس نے ٹھنڈا سانس بھر کر کھوپڑی کے ماتھے کو چوم لیا۔ اس کے بعد اس نے کھوپڑی کے اندر ہاتھ ڈال کر باہر نکالا تو اس کے ہاتھ میں ایک انگوٹھی تھی جس پر سیاہ نگ جڑا ہوا تھا۔
روہنی نے بڑے ادب و احترام کے ساتھ شہزادے کی کھوپڑی کو اسی جگہ تابوت کے اندر رکھ دیا جہاں سے اسے اٹھایا تھا۔ پھر تابوت کو بند کر کے شمع دان کے قریب ہو کر اس نے انگوٹھی پر ایک نظر ڈالی اور پھر میری طرف دیکھا اور کہا۔’’اپنا ہاتھ آگے کرو۔‘‘ میں نے اپنا بایاں ہاتھ آگے کر دیا۔ اس نے سیاہ لینے والی انگوٹھی میری انگلی میں ڈال دی اور کہنے لگی۔ ’’ یہ انگوٹھی تمہیں بدروحوں کی دنیا میں وہاں کے آسیب سے محفوظ رکھے گی اور انسانوں کی دنیا میں تم پر دشمن پجاری رگھو کے بڑے سے بڑے طلسمی منتر کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔
اس انگوٹھی کو اس وقت تک اپنے ہاتھ میں ہی رکھنا جب تک کہ ہم اپنے دشمن پجاری رگھو سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارا حاصل نہیں کر لیتے اور میری بدروح کو دنیا میں در بدر بھٹکتے رہنے سے نجات نہیں مل جاتی۔“ میں نے کہا۔ ”میں تو اپنی طرف سے پوری کوشش کروں گا کہ یہ انگوٹھی میرے پاس ہی رہے لیکن اگر کسی وجہ سے یہ مجھ سے گم ہو گئی یا پجاری رگھو جادو کی طاقت کے زور سے یہ مجھ سے چھین کر لے گیا تو پھر کیا ہوگا؟‘‘ روہنی نے کہا۔ ” پھر تم بہت بڑی مصیبت میں پھنس سکتے ہو کیونکہ میں انسانوں کی دنیا میں کسی وقت تمہاری مدد کو نہیں بھی پہنچ سکتی۔ جب دشمن پجاری رگھو سے انسانوں کی دنیا میں ہماری کھلی جنگ شروع ہو جاۓ گی تو وہ اپنے طلسمی منتروں کا وار مجھ پر بھی کرے گا۔
اس کی بدی کی طاقت کا تم اندازہ نہیں کر سکتے ۔ اگر میں ذرا سی دیر بلکہ پلک جھپکنے کے وقفے جتنی دیر کے لئے بھی غائب ہو جاؤں تو پجاری رگھو اپنے طلسم کی طاقت سے فورا مجھے اپنے قبضے میں کر سکتا ہے۔ اس لئے تمہیں کوشش کرنی ہوگی بلکہ ہر حالت میں اس انگوٹھی کو اپنی انگلی میں یا کسی جیب میں ہر وقت اپنے پاس رکھنا ہوگا۔ بس تم پر میری طرف سے یہی سب سے بڑی شرط اور سب سے بڑی پابندی ہے ۔اس کے بعد جو کچھ ہوگا ہم اکٹھے مل کر دشمن پجاری کا اس وقت تک مقابلہ کریں گے جب تک کہ میں اسے اس کے آسیبی منتروں کے ساتھ جہنم کی آگ میں بھسم نہیں کر دیتی .....“
حالات نے مجھے ایک بہت بڑی آزمائش میں ڈال دیا تھا۔ لیکن مجھے یقین تھا کہ اللہ تعالی مجھے اس آزمائش میں ضرور کامیاب کرے گا اور میں اپنی ایمان کی طاقت کے ساتھ بت پرست پجاری رگھو کی بدروح کو جہنم کی آگ کے سپرد کر نے میں ضرور کامیاب ہو جاؤں گا تا کہ اس کے بعد اس کی بدروح بنی نوع انسان کو کبھی کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔
روہنی کہنے لگی ۔ ’’بدروحوں کی دنیا میں ، میں تمہیں بدروحوں کے جس قبیلے میں لے جارہی ہوں اس پر کالی بدروح کی حکومت ہے ۔ کالی بدروح بڑی خونخوار بدروح ہے اور انسانوں کی دشمن ہے۔ اس کے گلے میں انسانی ہڈیوں کی مالائیں ہر وقت پڑی رہتی ہیں۔ ان ہڈیوں میں اتنی شکتی ہے کہ اگر ان میں سے مجھے ایک چھوٹی سی ہڈی بھی مل جاۓ تو مجھے میرے دشمن پجاری رگھو جتنی طاقت حاصل ہو سکتی ہے۔ میں اس لئے بدروحوں کی دنیا میں جارہی ہوں کہ کالی بدروح کی مالا میں پروئی ہوئی انسانی ہدیوں کا کوئی مہرہ حاصل کر سکوں۔ تمہیں اپنے ساتھ اس لئے لے جارہی ہوں کہ تمہیں اپنی سہیلی مالینی کی بدروح سے ملوا دوں تاکہ اگر زندگی کے کسی لمحے کسی حادثے کی وجہ سے میں ہمیشہ کے لئے تم سے بچھڑ جاؤں تو مالینی کی بدروح تمہیں پجاری کے قاتلانہ حملے اور اس کے خطرناک جادو سے بچا سکے گی۔“ میں نے اس سے مالینی کے بارے میں سوال کیا۔ ’’مالینی بدروح کیوں بن گئی ہے؟“ ۔
روہنی کہنے لگی ۔’’مالینی سے ایک بہت بڑا گناہ ایک بہت بڑا پاپ ہو گیا تھا جس کی وہ سزا بھگت رہی ہے ۔ جب تک اس کی سزا کی مدت پوری نہیں ہو جاتی وہ بدروح ہی رہے گی۔ وہ میری بڑی پیاری سہیلی تھی ۔ جب ہم دونوں زندہ تھیں تو وہ میرے محل میں میرے ساتھ ہی رہا کرتی تھی۔“
روہنی اور میں محل کی چھت پر کھڑے تھے ۔ آسمان پر سیاہ بادل چھائے ہوئے تھے۔ روہنی نے کہا۔ "اپنا ہاتھ مجھے دے دو۔ ہم بدروحوں کی دنیا میں جا رہے ہیں ۔ گھبرانا بالکل نہیں۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ میں نے تمہارے ہاتھ میں تابوت کی انگوٹھی ڈال دی ہے جو تمہیں بدروحوں کے برے اثرات سے محفوظ رکھے گی۔ تمہیں ڈر تو نہیں لگ رہا؟ "
” بالکل نہیں۔ میں نے جواب دیا۔ لیکن دل میں ڈر ضرور رہا تھا۔ بدروحوں کی دنیا میں کچھ بھی ہو سکتا تھا مگر میرا روہنی کے ساتھ جانا بہت ضروری تھا۔ یہ ایک طرح سے میری زندگی اور موت کا معاملہ تھا۔ روہنی ہوا میں پرواز کرنے کے لئے بالکل تیار تھی۔ میرا ہاتھ اس نے مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا۔ اس کے ہاتھ کی ٹھنڈی گرفت میرے دل میں مزید خوف پیدا کر رہی تھی۔
اس کے بعد مجھے ایک ہلکا سا دھچکا لگا اور جیسے کسی نے مجھے اوپر اٹھا دیا۔ میرے پاؤں ویران قلعے کی چھت سے دس پندرہ فٹ بلند ہو گئے تھے اور پھر میں روہنی کے ، ساتھ اوپر ہی اوپر اٹھتا چلا گیا یہاں تک کہ ہم سیاہ بادلوں میں داخل ہو گئے۔ سیاہ بادلوں میں مجھے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ صرف یہ احساس تھا کہ روہنی میرے ساتھ ہے اور میرا ہاتھ اس نے پکڑ رکھا ہے ۔ میں دل میں دعا مانگنے لگا کہ یا اللہ پاک مجھے خیریت سے واپس لے آنا ۔
میں کبھی ان خرافات میں نہ پڑتا مگر تو جانتا ہے کہ میں مجبور کر دیا گیا ہوں اور محض میری حماقت نے مجھے اس انجام تک پہنچا دیا ہے۔ نہ میں قلعے کا مرتبان کھول کر روہنی کی بدروح کو آزاد کرتا اور نہ اس مصیبت میں پھنستا۔ مگر جو ہو چکا تھا اسے میں واپس نہیں موڑ سکتا تھا۔ مجھے اب اس کا توڑ کرنا تھا تاکہ میری جان محفوظ رہے اور میں ناحق نہ مارا جاؤں۔
ہم سیاہ کالی گھٹاؤں میں سے نکل کر سفید دھند کے بادلوں میں داخل ہو چکے مجھے رفتار کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔ کبھی محسوس ہو تا کہ میں ہوا میں ایک جگہ پر معلق ہو گیا ہوں اور کبھی لگتا کہ میں اس قدر تیز سپیڈ کے ساتھ فضا میں پرواز کر رہا ہوں کہ جیسے بجلی کی چمک سفر کر رہی ہو۔ پہلے بھی میں روہنی کے ساتھ فضا میں اڑتا رہا تھا۔ اس اڑان میں مجھے اپنے جسم کا بوجھ محسوس ہو رہا تھا مگر اب میرے جسم کا وزن غائب ہو گیا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے میں ہوا سے بھی زیادہ ہلکا ہو گیا ہوں۔ کچھ پتہ نہیں یہ کیفیت کتنی دیر تک قائم رہی۔
پھر میرے جسم کا وزن واپس آنا شروع ہو گیا اور میں روہنی کے ساتھ بالکل سیدھیں اڑنے کی بجاۓ نیچے آنے لگا۔ میں نے نیچے نظر ڈالی۔ میرے پاؤں کے نیچے مجھے جگہ جگہ سیاہ بادلوں کے پہاڑ سے نظر آرہے تھے ۔ یہ بادل حرکت کرنے کے بجائے اپنی جگہوں پر ساکت تھے۔ مجھے روہنی کی آواز سنائی دی ’’ہم بدروحوں کی دنیا کی حدود میں داخل ہو گئے ہیں۔ میں تمہیں غائب کرنے لگی ہوں۔ مگر غائب ہونے کے بعد بھی تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ میں ہی رہے گا جب تک کہ میں تمہیں لے کر اپنی سہیلی مالینی کے غار میں نہیں پہنچ جاتی۔“
اچانک مجھے ایک بہت خفیف سا جھٹکا لگا اور میرا جسم میری نگاہوں سے غائب ہو گیا۔ مجھے نہ تو اپنے بازو دکھائی دے رہے تھے اور نہ جسم کا کوئی دوسرا حصہ نظر آ رہا تھا۔ میں غائب ہو چکا تھا لیکن مجھے روہنی کے ہاتھ کی گرفت باقاعدہ محسوس ہو رہی تھی۔ میرا جسم ضرور غائب ہو گیا تھا مگر جسم کا احساس زندہ تھا۔ یہ میرے لئے میری زندگی کا ایک انوکھا اور دہشت ناک تجربہ تھا۔ کیسی عجیب اور ڈرا دینے والی بات لگتی ہے کہ آپ سڑک پر چل رہے ہیں اور آپ کو سب کچھ دکھائی دے رہا ہے مگر اپنا جسم دکھائی نہیں دے رہا۔
جیسے جیسے ہم نیچے آ رہے تھے سیاہ بادلوں کے پہاڑ واضح ہوتے جارہے تھے۔ یہ بادل نہیں تھے بلکہ کالے سیاہ پہاڑ تھے جن پر کسی جگہ بھی کوئی درخت نہیں تھا۔ ہم ایک پہاڑ کے پاس اتر گئے۔ روہنی نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا۔ کہنے گئی۔” ہم بدروحوں کی دنیا میں آگئے ہیں۔ اس ٹیلے میں میری سہیلی مالینی کا غار ہے ۔“ روہنی ٹیلے کی ڈھلان کے ساتھ چل رہی تھی۔ اچانک مجھے ایسے لگا جیسے کوئی بہت بڑا پرندہ اپنے پر زور زور سے پھڑ پھڑاتا میرے سر کے اوپر سے گزر گیا۔ میں ڈر کر ایک طرف ہو گیا ، روہنی مجھے دیکھ رہی تھی۔ میں اسے دکھائی دے رہا تھا۔ مجھے آسمان کی طرف کی طرف دیکھ کر روہنی نے کہا۔ ”گھبراؤ نہیں۔
یہاں بدروحیں اسی طرح دن رات اضطراب کے عالم میں فضا میں بھٹکتی رہتی ہیں۔ میرے شہزادے کے تابوت کی انگوٹھی کی وجہ سے بدروحوں کو تمہاری موجودگی کا احساس نہیں ہو رہا اور وہ تمہیں دیکھ بھی نہیں سکتیں۔ اگر تمہاری انگلی میں میری دی ہوئی تابوت کی انگوٹھی نہ ہوتی تو اب تک بدروحوں نے تمہاری تکا بوٹی کر دی ہوتی۔“
اس وقت میرے دل میں صرف ایک ہی خیال آیا کہ میں کس مصیبت میں پھنس گیا ہوں اور انسانوں کی دنیا سے نکل کر کہاں آگیا ہوں ۔ ٹیلے کی ڈھلان میں ساتھ ساتھ غاروں کے دہانے نظر آرہے تھے۔ ہم ان غاروں کے قریب سے گزرنے لگے تو روہنی نے سرگوشی میں مجھے کہا۔ " کسی غار میں سے کوئی بھی آواز آۓ تم ہرگز اس کا جواب مت دینا۔ بالکل خاموش رہنا۔ “ میں نے سرگوشی میں جواب دیا۔ میں نہیں بولوں گا۔‘‘ ہم پہلے غار کے سامنے سے گزرے تو غار کے اندر سے کسی عورت کی آواز آئی۔ وہ بین کر رہی تھی اور بڑی درد ناک آواز میں کہہ رہی تھی۔ ” مجھے آگ لگی ہوئی ہے ۔ کوئی میری آگ بجھا دے۔ مجھے آگ لگی ہوئی ہے۔ کوئی میری آگ بجھا دے۔۔
ہم غار کے آگے سے گزر گئے۔ دوسرے غار کے پاس آئے تو اندر سے کسی بچے کے رونے کی آواز سنائی دی۔ بچہ بلک بلک کر رو رہا تھا اور کہے جارہا تھا۔ ’’امی جان! یہ لوگ مجھے مار رہے ہیں۔ مجھے ان سے بچالو۔ میرے سر سے خون بہہ رہا ہے۔ امی جان ! مجھے ان سے بچالو۔ امی جان ! تم کہاں ہو .....؟“ ہم اس غار کے آگے سے بھی گزر گئے۔
تیسرے غار کے سامنے سے گزرے تو سے کسی مرد کی بھیانک چیخ کی آواز آئی۔ یہ چیخ اتنی ڈراؤنی تھی کہ میرا دل لرز اٹھا۔ چیخوں کی مسلسل آوازیں آنے لگیں۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی کسی کو دہکتے ہوۓ انگاروں سے داغ رہا ہے ۔ چوتھے غار میں سے صرف رونے کی درد انگیز آواز آ رہی تھی۔ کوئی انسان ہچکیاں لے لے کر رو رہا تھا اور کہے جا رہا تھا۔ مجھے معاف کر دو۔ مجھے معاف کر دو۔“
پانچویں غار کے قریب پہنچتے ہی روہنی نے مجھے ہاتھ سے ایک طرف کھینچ لیا۔ ہم ٹیلے کے ایک بڑے پتھر کی اوٹ میں ہو گئے۔ اس غار کے اندر سے کسی خونخوار درندے کی دھاڑ سنائی دی پھر خاموشی چھا گئی۔ اس کے فورا بعد غار میں سے ایک بڑے ریچھ کے سائز کا ایک عجیب قسم کا ڈراؤنا درندہ باہر نکلا۔ اس کے منہ میں ایک آدمی کا دھڑ تھا جس کو اس نے اپنے نوکیلے دانتوں میں جکڑ رکھا تھا۔ یہ سیاہ رنگ کا خوفناک درندہ بد نصیب انسان کی آدھی خون آلود لاش کو اپنے دانتوں میں دباۓ چھلانگ لگا کر ٹیلے کی جھاڑیوں میں غائب ہو گیا۔
میری ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ میں روہنی سے پوچھوں کہ یہ کیا کچھ ہو رہا تھا اور یہ کون لوگ ہیں ، کون سی بدروحیں ہیں جن پر خدا کا عذاب نازل ہو رہا ہے۔ روہنی بدروح بھی خاموش تھی۔ جب خوفناک درندہ جھاڑیوں کے عقب میں غائب ہو گیا تو روہنی مجھے لے کر آگے چل پڑی۔ اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا۔ آگے ٹیلے کی سیاہ دیوار آ گئی اس کے بعد پھر تاریک غار آ گیا۔ اس غار کے قریب سے گزرتے ہوۓ میں نے اندر ایک نگاہ ڈالی تو میری روح کانپ اٹھی۔
غار کے دہانے کے پاس ہی ایک عورت غار کی چھت کے ساتھ الٹی لٹکی ہوئی تھی اور اس کے جسم کے ساتھ سانپ لپٹے ہوئے تھے۔ روہنی میرا ہاتھ کھینچ کر جلدی سے آگے لے گئی۔ ایک غار میں سے سیاہ کالا دھواں نکل رہا تھا اور اندر سے ایک گھٹی ہوئی آواز آ رہی تھی۔ میرا دم گھٹ رہا ہے۔ مجھے باہر نکالو ۔ مجھے باہر نکالو ۔ میرا دم گھٹ رہا ہے۔۔۔۔
ہم وہاں سے بھی آگے نکل گئے۔ آگے ایک چھوٹا سا زینہ تھا۔ ہم اس پر سے اوپر گئے تو وہاں بھی ایک غار تھا۔ اس غار میں سے کوئی آواز نہیں آرہی تھی۔ روہنی نے میرے قریب ہو کر سرگوشی میں کہا۔ ”یہ میری سہیلی مالینی کا غار ہے۔ ڈرنا نہیں ہم اندر جار ہے ہیں۔“
غار میں اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ ایک عجیب سی بو پھیلی ہوئی تھی۔ جیسے جیسے ہم غار میں آگے جار ہے تھے اندھیرا اپنے آپ کم ہوتا جارہا تھا حالانکہ وہاں کوئی موم بتی روشن نہیں تھی۔ ہم غار کے وسط میں آگئے جہاں ایک چھوٹا سا دالان تھا۔ دالان میں تین سیاہ پتھر کے ستون تھے۔ ایک ستون کے پاس چھوٹا سا چبوترہ بنا ہوا تھا۔ چبوترے پر اینٹوں کے چار تھڑے تھے جیسے کسی کے بیٹھنے کے لئے بناۓ گئے ہوں۔ غار خالی تھا۔ روہنی دھیمی آواز میں کہنے گئی۔ ” مالینی باہر گئی ہوئی ہے۔ 14
اس میں اتنی شکتی ہے کہ وہ تمہیں غیبی حالت میں بھی دیکھ لے گی ۔ یاد رکھنا جب تک وہ تم سے کچھ نہ پوچھے تم ہرگز نہیں بولو گے ۔ “ ابھی ہم دالان میں ایک ستون کے پاس کھڑے ہی تھے کہ کسی پرندے کے پروں کے پھڑ پھڑانے کی آواز سنائی دی۔ روہنی نے کہا۔ ’’مالینی ! میری سہیلی آگئی ہے۔ “
پروں کی پھڑ پھڑاہٹ اور بلند ہو گئی۔ اتنے میں ایک بڑے سائز کی چمگادڑ نمودار ہوئی۔ اس نے اپنے پر پھیلا رکھے تھے اور اس کے حلق سے سیٹی کی آوازیں نکل رہی تھیں۔ چمگادڑ نے دالان میں ایک چکر لگایا اور پھر روہنی جہاں کھڑی تھی وہاں زمین پر اتر گئی۔ زمین پر اترتے ہی وہ ایک نوجوان عورت کے روپ میں ظاہر ہو گئی۔ روہنی کو سامنے دیکھ کر وہ بڑی خوش ہوئی اور اسے اپنے گلے سے لگا لیا۔ کہنے لگی۔ ”روہنی ! بڑے دنوں بعد تم سے ملاقات ہوئی ہے ۔ میں جانتی ہوں ہماری بدروحوں کی دنیا سے تمہارا زیادہ تعلق نہیں ہے۔ ہم تو یہاں بدروحیں بن کر اپنے برے کرموں کی سزا بھگت رہے ہیں۔
لیکن تمہارے کرم دنیا میں اچھے تھے ۔ تم اپنے دشمن پجاری رگھو کی وجہ سے ایک اچھی بدروح کی شکل میں بھٹک رہی ہو ۔“
پھر اس نے میری طرف دیکھا۔ میں غائب تھا مگر روہنی کی سہیلی مالینی مجھے دیکھے رہی تھی۔ اس نے روہنی سے پوچھا۔ ” یہ انسان کون ہے ۔ اسے تم اپنے ساتھ ہماری دنیا میں کیوں لائی ہو ؟ یہ تو ابھی زندہ ہے ۔ ‘‘ روہنی نے کہا۔ ’’مالینی ! میں یہی سب کچھ بتانے کے لئے تمہارے پاس آئی ہوں۔
مالینی کی بدروح اینٹوں کے تھڑے پر بیٹھ گئی۔ اس کے سامنے والے تھڑوں پر میں اور روہنی بیٹھ گئے۔ اس کے بعد روہنی نے اپنی سہیلی مالینی کو شروع سے لے کر آخر تک وہ ساری کہانی بیان کر دی جو میں آپ کو بیان کر چکا ہوں۔ بدروح مالینی بڑے غور سے روہنی کی باتیں سن رہی تھی۔ جب روہنی نے اپنی داستان ختم کی تو مالینی نے کہا۔ ”روہنی! اس انسان نے تمہیں راکھشس پجاری رگھو کی قید سے آزاد کر کے تمہارے ساتھ بھلائی کی ہے۔ ہم اسے کوئی نقصان نہیں پہنچنے دیں گی۔ میں ہر طرح سے تمہاری اور اس نیک دل انسان کی مدد کرنے کو تیار ہوں۔ لیکن تم بھی جانتی ہو کہ یہ کام بڑا خطرناک بھی ہے ۔
پجاری رگھو کی بدروح اپنے بدروحوں کے قبیلے کی سردار ہے اور ہمارے قبیلے کی سردار کالی بدروح سے رگھو کے بڑے اچھے تعلقات ہیں۔ ان دونوں میں کسی کو بھی اگر یہ معلوم ہو گیا کہ تم لوگ انسانوں کی دنیا سے پجاری رگھو کو ہمیشہ کے لئے بھسم کرنے کے سلسلے میں میرے پاس آۓ ہو اور تمہیں اس کے علم کے توڑ کی تلاش ہے تو اس انسان کی جان خطرے میں ہو گی ۔ ہم دونوں بدروحیں ہیں۔ ہم پہلے ہی سے مر چکی ہیں لیکن بدروحوں کی بھی موت ہوتی ہے اور یہ بڑی اذیت کی موت ہوتی ہے ۔ انسان تو مر کر جسمانی تکلیف سے نجات پا جاتا ہے لیکن بدروحوں کی موت کے بعد ان کا ایسا اذیت ناک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا . .
روہنی نے کہا۔ ’’مالینی ! مجھے ان ساری باتوں کا احساس ہے۔ میں بڑی احتیاط سے کام لے رہی ہوں اور ایک ایسے راستے سے اڑ کر آئی ہوں جہاں سواۓ خلا کے اور کچھ نہیں تھا صرف اس لئے کہ کہیں پجاری رگھو یا تمہاری خونخوار سردارنی کالی کو ہمارے یہاں آنے کا پتہ نہ چل جاۓ ۔
بدروح مالینی کہنے لگی۔ قبیلے کی سردارنی کالی بدروح کی طاقت کا تمہیں علم نہیں ہے ۔ دوسری دنیا اور خاص طور پر انسانوں کی دنیا کا ایک ذرہ بھی اڑ کر یہاں آ جاۓ تو اسے خبر ہو جاتی ہے۔ یہ تمہاری عقل مندی ہے کہ تم اپنے ساتھی کو جو تمہارے مرے ہوۓ محبوب کا ہم شکل ہے آسمان کے ایسے راستوں سے لے کر آئی ہو کہ کالی بدروح کو ابھی تک تمہارے اور تمہارے ساتھی کے بدروحوں کی دنیا میں داخل ہونے کی خبر نہیں ہوئی۔“
روہنی نے کہا۔ ’’مالینی ! تم میری سب سے پیاری بلکہ زندگی میں اور مرنے کے بعد بھی ایک ہی سہیلی ہو اور میری ہم راز ہو۔ میں نے یہ راز تمہیں کھول کر بتا دیا ہے کہ میری نجات اور میرے مردہ محبوب کی روح کی تسکین صرف اسی ایک بات میں ہے کہ کسی طرح میں اپنے دشمن پجاری رگھو سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھٹکارا حاصل کر لوں ۔ وہ میری تلاش میں ہے اور مجھے ہر قیمت پر ایک بار پھر اپنے قبضے میں کرنا چاہتا ہے کیونکہ اس کی مکتی اور اس کی نجات بھی اسی میں ہے کہ میں ہمیشہ کے لئے اس کے قبضے میں چلی جاؤں تاکہ وہ مجھے ایک سو برس تک کسی مرتبان میں دفن رکھنے کے بعد میری آتما کو اپنے میں جذب کر کے پھر سے اس دنیا میں زندہ انسان کا جنم لے کر ظاہر ہو جاۓ۔
میری آتما کو اپنے اندر جذب کر لینے کے بعد اس میں اتنی شکتی، اتنی طاقت آ جاۓ گی کہ دنیا کی بڑی سے بڑی طلسمی طاقت اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گی۔ وہ جسے پا ہے گا اپنی مرضی سے اپنا غلام بنا سکے گا۔‘‘
بد روح مالینی نے کہا۔ ’’ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ انسانوں کی دنیا امن و راحت اور محبت و پیار کی دنیا ہے ۔ یہ راکھشش پجاری رگھو اگر تمہاری آتما کو اپنے اندر جذب کر کے دوبارہ دنیا میں واپس آ گیا تو دنیا کے امن پسند بے گناہ لوگوں کی زندگیاں تباہ و برباد ہو جائیں گی۔“
روہنی نے کہا۔’’اس لئے میں تمہاری مدد لینے تمہارے پاس آئی ہوں۔“ مالینی نے کہا۔ ” مجھے بتاؤ میں تمہاری کیا مدد کر سکتی ہوں۔ میں تمہاری نجات اور انسانوں کی دنیا کی شانتی اور امن کے لئے سب کچھ کر سکتی ہوں۔‘‘ تب روہنی نے مالینی سے کہا۔ ’’اس کے لئے مجھے ایک ایسی شے کی ضرورت ہے پر مجھے صرف تمہاری بدروحوں کی دنیا اور خاص طور پر تمہارے قبیلے میں سے ہی مل سکتی ہے۔“
” مجھے بتاؤ وہ کون سی شے ہے؟‘‘ مالینی نے پوچھا۔ روہنی نے کہا۔ ”تمہیں معلوم ہی ہے کہ تمہارے قبیلے کی سردارنی بدروح کالی کے گلے میں انسانی ہڈیوں کے مہروں کی مالائیں ہوتی ہیں اور تم یہ بھی اچھی طرح سے جانتی ہو کہ اس مالا کی ہڈیوں کے مہروں میں کتنی طاقت چھپی ہوئی ہے ۔ مالینی! اگر مجھے سردارنی کالی بدروح کی اس مالا میں سے کسی بھی انسانی ہڈی کا ایک مہرہ مل جاۓ تو میرے پاس اتنی طاقت آ جاۓ گی کہ میں نہ صرف یہ کہ انسانوں کا اور اپنے دشمن پجاری رگھو کا مقابلہ کر سکوں گی بلکہ اسے اگنی دیوی کی چتا کی آگ میں جلا کر ہمیشہ کے لئے بھسم کر سکوں گی۔“
مالینی یہ سن کر جیسے ایک بار سہم کی گئی۔ میں نے دیکھا کہ اس کے چہرے پر پریشانی کے اثرات ظاہر ہو رہے تھے ۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ اسے خاموش دیکھ کر روہنی نے کہا۔ ” مجھے احساس ہے کہ میں تمہیں ایک ایسے کام کے لئے کہہ رہی ہوں جس میں تمہاری جان کو بھی خطرہ ہے اور یہ مشکل بلکہ ناممکن کام ہے۔ مگر مالینی سے انسانیت کی بھلائی کا کام بھی ہے۔ ہو سکتا ہے نیکی کے اس کام کے بدلے تمہارے برے کرموں کی سزا بھی بھگوان معاف کر دے اور تمہاری روح کو بھی نجات ملی جاۓ اور تم بدروحوں کی دنیا سے نکل کر آکاش کی بلندیوں میں دیوتاؤں کی دنیا میں پہنچ جاؤ۔
کیونکہ جب تک میرے اندر پجاری رگھو جتنی یا اس سے بڑھ کر شکتی نہیں پیدا ہوتی تب تک میری روح جس کو آکاش کی بلندیوں پر جانا تھا آسمانوں اور زمین کے درمیان ہمیشہ بھٹکتی پھرتی رہے گی اور میرے محبوب شہزادے کی روح بھی سورگ میں بے چین رہے گی۔“
مالینی بدروح نے آخر اپنی زبان کھولی اور کہنے لگی۔ ”روہنی! یہ کام کتنا مشکل بلکہ ایک طرح سے نا ممکن ہے ۔ تم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی ہو ۔ کالی بدروح کے گلے کی مالا میں سے انسانی ہڈی کا مہرہ اتارنا تو بعد کی بات ہے اس کی مالا کو کوئی ہاتھ بھی نہیں لگا سکتا۔ کالی بدروح سو بھی رہی ہوتی ہے تو چار خونخوار بدروحیں تلواریں ہاتھوں میں لئے اس کے ارد گرد پہرہ دے رہی ہوتی ہیں اور جہاں وہ سور ہی ہوتی ہے وہاں کوئی مکھی بھی داخل ہونے کی جرات نہیں کر سکتی۔“ روہنی نے کہا۔ ”لیکن مالینی ! ہمیں یہ کام ہر حالت میں کرنا ہے ۔ اگر کالی بدروح کا مہرہ مجھے مل گیا تو سمجھ لو کہ میری تو نجات ہو گی ہی لیکن اس کے ساتھ ہی انسانوں کی دنیا کے کروڑوں بے گناہ انسان پجاری رگھو کی لائی ہوئی تباہی سے محفوظ ہو جائیں گے۔“
بدروح مالینی مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ کسی گہری سوچ میں ہے ۔ وہ رو ہنی کی مدد کرنا چاہتی تھی۔ وہ انسانوں کی دنیا کو تباہی سے بچانا چاہتی تھی مگر اسے کوئی ترکیب سمجھ میں نہیں آرہی تھی جس پر چل کر وہ اپنے قبیلے کی خونخوار سردارنی کالی بدرروح کی مالا کا مہرہ حاصل کر سکے ۔
اچانک بدروح مالینی نے میری طرف دیکھا۔ اس کی سرخ آنکھوں میں مجھے بڑی خوفناک سی چمک دکھائی دی تھی۔ پھر اس نے روہنی سے مخاطب ہو کر کہا۔ ”روہنی!
ایک طریقہ ہو سکتا ہے ۔“ وہ کیا ؟ " روہنی نے بے تاب ہو کر پو چھا۔ بدروح مالینی نے کہا۔ ” تم اچھی طرح سے جانتی ہو کہ ایک مرے ہوۓ آدمی کے مقابلے میں ایک زندہ انسان زیادہ طاقت اور قابلیت رکھتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس زندہ انسان کو اپنی چھپی ہوئی طاقت کا احساس نہیں ہوتا ۔ “ روہنی نے کہا۔ ” میں جانتی ہوں ۔ مگر وہ طریقہ کون سا ہے جس پر عمل کر کے میں کالی بدروح کا مہرہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہوں۔ “ بدروح مالینی کہنے لگی۔ ” تمہارا ساتھی انسان ..... اور تمہارے محبوب اور سور گباش شہزادے شیروان کے ہم شکل سے یہ کام لیا جا سکتا ہے ۔
یہ سنتے ہی میرے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔ مجھے روہنی نے بلاۓ بغیر کچھ بولنے سے منع کیا ہوا تھا۔ لیکن میں نے گھبرا کر کہہ دیا۔ ” نہیں نہیں ! میں یہ کام کرنے کے لئے ہر گز تیار نہیں ہوں۔ میں آپ لوگوں کے لئے اپنی جان کی بازی نہیں لگا سکتا۔ میری زندگی پہلے ہی ہر وقت خطرے میں رہتی ہے ۔ ذلیل پجاری رگھو مجھ پر کئی بار قاتلانہ حملے کر چکا ہے۔
اس پر بدروح مالینی نے کہا۔ ” کیا تم نہیں چاہتے کہ تمہاری جان کو جو ہر وقت موت کا کٹکا لگا رہتا ہے وہ ختم ہو جاۓ ؟ کیا تم نہیں چاہتے کہ تمہارا وہ دشمن جو ہر وقت تمہیں جان سے مار ڈالنے کے منصوبے بناتا رہتا ہے ہمیشہ کے لئے نیست و نابود ہو جاۓ ؟‘‘ میری زبان سے اپنے آپ نکل گیا۔ میں یہی چاہتا ہوں کیونکہ اپنی حماقت کی ، وجہ سے میں جس عذاب میں مبتلا ہو چکا ہوں اس سے چھٹکارا پانے کی صرف یہی ایک صورت ہے کہ میرا دشمن پجاری رگھو ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے ۔ " بدروح مالینی نے کہا۔’’ تو پھر اس کی ایک ہی صورت ہے کہ جو میں تمہیں کہوں عمل کرو۔ اگر تم نے میری ہدایت کے مطابق سب کچھ کیا تو تمہیں کوئی نقصان ہی نہیں پہنچے گا اور تم کالی بدروح کا مہرہ بھی لانے میں کامیاب ہو جاؤ گے ۔“
میری ساتھی روہنی نے بھی مجھے حوصلہ دیتے ہوۓ کہا۔’’شیروان ! میں تمہارے ساتھ ہوں۔ تم میرے محبوب بھی ہو اور میرے شوہر بھی رہ چکے ہو۔ میں یہ کیسے گوارا کر سکتی ہوں کہ تمہیں کوئی گزند پہنچے ۔ مجھے یقین ہے اور تم بھی میری سہیلی مالینی کی بات کا یقین کرو۔ وہ تمہیں جیسے کہے ویسے ہی کرو۔ اللہ کے فضل سے تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔ اور پھر ذرا سوچو تمہارے اس عمل سے نہ صرف یہ کہ مجھے نجات مل جاۓ گی اور تمہاری جان کو جو خطرہ لگا ہوا ہے وہ دور ہو جاۓ گا بلکہ دنیا میں رہنے والے انسانوں کا کس قدر بھلا ہوگا کہ وہ ایک شیطان کے ظالمانہ ہتھکنڈوں سے ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جائیں گے ۔‘‘‘
میں پہلے ہی اس دلدل میں کمر تک دھنس چکا تھا۔ جب یہ صورت حال سامنے آئی تو میں نے سوچا کہ اگر میری نجات خدا نے ایسے ہی لکھی ہے تو چلو اس دلدل میں تھوڑا اور نیچے اتر جاتا ہوں ۔ دوسری بات یہ تھی کہ اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ بھی نظر نہیں آتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود میں یونہی اپنی جان کی بازی لگانے کو تیار نہیں تھا۔ میں روہنی اور مالینی کی زبانی سن چکا تھا کہ بدروحوں کے قبیلے کی سردار کالی بدروح کس قدر خونخوار بدروح ہے۔ میں اس کام کے لئے حامی بھرنے سے پہلے ہر قسم کی تسلی کر لینا چاہتا تھا۔
میں نے براہراست روہنی کی بدروح سہیلی مالینی سے کہا۔ ” تم مجھے پوری تفصیل کے ساتھ بتاؤ کہ مجھے کیا کرنا ہوگا ؟“ مالینی کہنے لگی۔ سب سے پہلے میں تمہاری تسلی کرنا چاہتی ہوں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ تم غیبی حالت میں ہو اور زندہ انسان ہو مرے ہوئے نہیں ہو ۔ یعنی تم ابھی روح یا بدروح نہیں ہو ۔ اور کالی بدروح پر تمہیں یہی سب سے بڑی فوقیت حاصل ہے کہ تم زندہ انسان ہو اور غیبی حالت میں ہو ۔ دوسری بات یہ ہے کہ تمہارے پاس میری سہیلی روہنی کی دی ہوئی طلسمی انگوٹھی بھی ہے جو تمہیں بدروحوں کے اثرات سے محفوظ رکھنے کی طاقت رکھتی ہے۔
اب میں تمہیں بتاتی ہوں کہ تمہیں کیا کرنا ہوگا ..... یہاں ہمارے بدروحوں کے قبیلے میں ایک رسم چلی آرہی ہے کہ سیاہ چاند کی رات میں ایک زبردست جشن ہوتا ہے۔ یہ رات ہر چھ ماہ کے بعد آتی ہے۔ اس رات آدھی رات کے بعد آسمان پر سیاہ چاند طلوع ہوتا ہے ۔ یہ چاند کالا سیاہ ہوتا ہے لیکن اس کے گول کنارے روشن ہوتے ہیں جس کی وجہ سے چاند سیاہ آسمان پر نظر آ تا ہے ۔ اس جشن میں کالی بدروح بھی شامل ہوتی ہے۔ اسے ایک تخت پر بیٹھا دیا جاتا ہے ۔ قبیلے کی تمام بدروحیں کالی بدروح کے سامنے رقص کرتی ہیں اور اس کی تعریف کے گیت گاتی ہیں۔ اس رات کالی بدروح سوم رس بھی پیتی ہے ۔ سوم رس تم جانتے ہی ہوئے انسانوں کی دنیا میں اسے شراب کہتے ہیں . . . . .
کالی بدروح کافی سوم رس پی جاتی ہے کیونکہ اس کے بعد چھ ماہ تک اسے سوم رس کو ہاتھ بھی نہیں لگانا ہوتا۔ یہ جشن سیاه چاند رات بھر جاری رہتا ہے ۔ جب جشن ختم ہوتا ہے تو میں نے دیکھا ہے کہ کالی بدروح نشے میں مدہوش ہوتی ہے اور اسے اس کی چار باڈی گارڈ بدروحیں پالکی میں ڈال کر اس کے غار میں لے جاتی ہیں ۔ اس کے بعد کالی بدروح اگلے روز سارا دن غار میں مدہوش پڑی رہتی ہے ۔ بس یہی وہ رات ہے جب تم ہمت کر کے اس کی مالا میں سے ہڈیوں کا ایک مہرہ لا سکتے ہو ۔ یہی ایک ترکیب میری سمجھ میں آئی تھی اور اس کے علاوہ اور کوئی ایسی ترکیب نہیں ہے جس کی مدد سے تم کالی بدروح کا مہرہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکو ۔“
میں نے کہا۔ ’’کالی بدروح تو ضرور نشے میں مدہوش ہوگی لیکن جو چار بدروحیں تلواریں اٹھاۓ غار کے باہر پہرہ دے رہی ہوں گی تو وہ پوری طرح سے چوکس ہوں گی وہ مجھے کیسے غار میں داخل ہونے دیں گی۔ وہ تو وہیں میرا کام تمام کر دیں گی ۔“ میرا یہ اعتراض سن کر میری ساتھی روہنی بھی سوچ میں پڑ گئی۔ مالینی بدروح بڑے پرسکون انداز میں میری طرف دیکھ رہی تھی ۔
میری ساتھی اور دوست روہنی نے مالینی سے کہا۔ ”شیروان ٹھیک کہتا ہے مالینی . . . . شیروان غیبی حالت میں بھی ان کے قریب سے جب گزرے گا تو میرا خیال ہے کہ انہیں اپنے کالے جادو کی طاقت سے اتنا ضرور محسوس ہو جاۓ گا کہ کوئی چیز غار میں داخل ہوئی ہے ۔“
بدروح مالینی بڑے اطمینان سے روہنی کو سنتی رہی۔ جب اس نے اپنی بات ختم کی تو وہ کہنے لگی۔ " تم کیا سمجھتی ہو کہ میں ان پہرے دار بدروحوں کی جادوئی طاقت سے بے خبر ہوں۔ میں جانتی ہوں کہ جب شیروان غیبی حالت میں بھی ان کے قریب سے ہو کر غار میں داخل ہو گا تو انہیں یہ احساس ضرور ہو جاۓ گا کہ کوئی نظر نہ آنے والی شے غار میں گئی ہے۔‘‘
”تو پھر تمہارے پاس اس کا کیا توڑ ہے ؟‘‘ روہنی نے پوچھا۔ مالینی نے کہا۔ " اس کا توڑ میرے پاس ہے۔
" وہ کیا ہے ؟ " روہنی نے پوچھا۔ . مالینی نے کہا۔ ” میں شیروان کو ایسا چمگادڑ بنا کر غار میں بھیجوں گی جو نظر نہیں آۓ گا۔ جب شیروان چمگادڑ کے روپ میں غار میں داخل ہوگا تو بدروحوں کو فوراً معلوم ہو جاۓ گا کہ کوئی چگادڑ غار میں گیا ہے ۔ کالی بدروح کے غار میں دس بارہ چمگادڑ بھی رہتے ہیں جو سار ادن کالی بدروح کے تخت کے اوپر چھت کے ساتھ الٹے لکے رہتے ہیں اور رات کو باہر نکل کر سزا یافتہ بدروحوں کے غاروں میں جا کر ان کا خون چوستے ہیں۔
ان میں سے وہ چمگادڑ جس کا پیٹ بھر جاتا ہے کالی بدروح کے غار میں واپس آ جاتا ہے ۔ چمگادڑ عام طور پر رات کی تاریکی میں نظر نہیں آتے۔ جب شیروان چمگادڑ کے روپ میں غار میں داخل ہو گا تو پہرے دار بدروحیں یہی سمجھیں گی کہ یہ کالی بدروح کے غار کا چمگادڑ ہے جو کسی بدروح کے خون سے اپنا پیٹ بھر کر واپس آ گیا ہے ۔“ ‘
میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ ” کیا میں چمگادڑ سے اپنے انسانی روپ میں واپس آسکوگا۔۔۔
”کیوں نہیں؟‘‘ مالینی نے کہا۔ اگر میں تمہیں جادو کے زور سے چمگادڑ بنا سکتی ہوں تو تمہیں اس جادو کے زور سے انسانی شکل میں واپس بھی لا سکتی ہوں۔“ میں چپ ہو گیا۔ میرے سر پر جو ایک نادانی کی وجہ سے ایک ناگہانی مصیبت آن پڑی تھی اسے کسی نہ کسی صورت مجھے کاٹنا ہی تھا۔ روہنی نے کہا۔ ”لیکن شیروان چمگادڑ کے روپ میں کالی بدروح کی مالا سے ہڈی کا مہرہ کیسے الگ کر سکے گا؟“
مالینی کہنے لگی۔’’چمگادڑ کے روپ میں بھی شیردان کا دماغ ایک انسان کا دماغ ہوگا اور وہ اسی طرح کام کر رہا ہوگا جس طرح دوسرے انسانوں کا دماغ کام کرتا ہے ۔ میں شیروان کو ایک چھوٹا سا منتر بتا دوں گی۔ غار میں داخل ہونے کے بعد وہ کالی بدروح کے تخت کے ایک طرف بیٹھ جاۓ گا اور یہ دیکھے گا کہ کالی بدروح کہیں ہوش میں تو نہیں ہے ۔ اگر وہ سوم رس کے نشے میں مدہوش ہوگی جس کا مجھے یقین ہے کہ وہ ضرور ہو گی تو شیروان میرا بتایا ہوا منتر دل میں دہراۓ گا اس کے ساتھ ہی وہ اپنی انسانی شکل میں واپس آ جاۓ گا مگر وہ غیبی حالت میں ہی ہوگا۔ اس کے بعد شیروان کو اپنی عقل اور بڑی ہوشیاری سے کام لینا ہوگا اور بڑی احتیاط کے ساتھ کالی بدروح کی مالا میں سے ہڈی کا ایک مہرہ الگ کر کے اپنے قبضے میں کرنا ہوگا۔
مہرہ جب شیروان کے قبضے میں آ جاۓ گا تو وہ پھر میرا بتایا ہوا منتر دل میں ایک بار پڑھے گا اور اس کے فور أبعد وہ ایک بار پھر چمگادڑ کا روپ اختیار کر لے گا اور اڑتا ہوا ہمارے غار میں واپس آ جاۓ گا۔ یہ ہے وہ طریقہ جس پر عمل کرنے سے تم کالی بدروح کا مہرہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہو ۔ اس کے علاوہ کوئی ترکیب نہیں ہے ۔“ میں نے سہمی ہوئی آواز میں مالینی سے پوچھا۔ ’’اور اگر کالی بدروح کو اچانک ہوش آگیا تو پھر کیا ہوگا؟۔
مالینی نے کہا۔ ”پھر یہ ہوگا کہ کالی بدروح تمہیں پکڑ لے گی۔ سب سے پہلے وہ تمہاری گردن مروڑ کر تمہارا سر تمہارے دھڑ سے الگ کر دے گی۔ اس کے بعد تمہاری کٹی ہوئی گردن پر منہ رکھ کر تمہارا سارا خون پی جائے گی۔ پھر وہ تمہارے جسم کا سارا گوشت کھا جاۓ گی اور تمہاری ہڈیوں کو توڑ توڑ کر ان کے مہرے بنا کر ان کی مالا اپنے گلے میں ڈال لے گی۔“
میں سن رہا تھا اور میری روح فنا ہوئی جارہی تھی۔ مجھے یوں محسوس ہونے لگا تھا کہ میرے ساتھ ایسا ہی ہوگا۔ کالی بدروح کی مالا کو جیسے ہی میں ہاتھ لگاؤں گا اسے ہوش آ جاۓ گا اور میرا وہی ہولناک انجام ہوگا جس کی تفصیل بدروح مالینی نے بیان کی تھی۔ میں مالینی سے بہت کچھ پوچھنا چاہتا تھا مگر دہشت کے مارے میرا گلا خشک ہو گیا تھا اور کوشش کے باوجود میرے حلق سے آواز نہ نکل سکی تھی۔ میری ساتھی روہنی نے میرے جذبات کو بھانپ لیا تھا۔ اس نے میرے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے مالی سے پوچھا۔ ” مالینی ! کیا اس بات کا امکان ہے کہ شیروان کے قریب جانے یا کالی بدروح کی مالا کو ہاتھ لگانے سے اسے ہوش آ جاۓ ؟“
مالینی کہنے لگی۔ ایسا ہونا نہیں چاہئے ۔ کیونکہ جشن کی رات کالی بدروح سوم رس کے نشے میں ساری رات بے سدھ پڑی رہتی ہے لیکن اگر اسے ہوش آ بھی گیا تو شیروان کو چاہئے کہ فورا میرا منتر پڑھ لے وہ اسی لمحے چمگادڑ کا روپ اختیار کر لے گا اور اڑ جاۓ گا۔‘‘
بدروح مالینی نے مجھے بھی تسلی دی اور کہا کہ مجھے فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ کالی بدروح سوم رس اتنا پی چکی ہوتی ہے کہ دوسرے دن سے پہلے اس کے ہوش میں آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
آخر یہی فیصلہ ہوا کہ کالی بد روح کا مہرہ لینے کے لئے مجھے ہی چمگادڑ کے روپ میں اس کے غار میں جانا ہوگا۔ یہ موت کے منہ میں جانے والی بات تھی لیکن پجاری رگھو کی ہلاکت آمیز دشمنی کے خوف سے روز روز مرنے کی بجاۓ بہتر تھا کہ اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے یہ کوشش کر کے دیکھ لی جاۓ ۔
ہو سکتا ہے ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں۔ سیاہ چاند کے جشن کی رات کو ابھی سات دن باقی تھے ۔ مالینی نے کہا۔ "اتنے دن تم دونوں میرے غار میں ہی رہو گے۔ تمہارا غار سے باہر نکلنا ہم سب کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے ۔ روہنی نے کہا۔ "ہم تمہاری ہدایت پر عمل کریں گے اور تمہارے غار سے باہر قدم نہیں رکھیں گے ۔“
میں بیان نہیں کر سکتا کہ یہ سات دن میں نے مالینی بدروح کے غار میں کس ذہنی اذیت کے ساتھ گزارے۔ کہاں مجھے لاہور ، کراچی کی کشادہ سڑکوں اور جنگلوں میں پھر کر شکار کھیلنے کی عادت تھی اور کہاں میں بدروحوں کی دنیا کے ایک تاریک غار میں بند ہو کر رہ گیا تھا۔ لیکن یہ اذیت مجھے ہر حال میں برداشت کرنی ہی تھی ۔ آخر جشن کی رات آگئی۔ •
شام ہوئی تو بدروح مالینی نے مجھے اپنے سامنے بٹھا کر وہ خفیہ جادوئی منتر بتایا جس کو پڑھ کر مجھے جمگادڑ سے انسان کا روپ اختیار کرنا تھا اور دوسری بار پڑھ کر انسان سے واپس چمگادڑ کی شکل اختیار کر کے کالی بدروح کے غار سے باہر نکلنا تھا۔ یہ چار لفظوں تھے ۔۔۔


پُراسرار حویلی - پارٹ 13

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں