سیاہ رات ایک سچی کہانی - چودھواں حصہ

 

 - سیاہ رات ایک سچی کہانی - چودھواں حصہ


عنائزہ نے روعب کے ساتھ سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا
My problem is you beautiful girl,,,
وہ مسکراتے ہوئے بولا
Keep your mouth shut, I'm not a western girl who falls in love with a boy like you. I'm a pakistani girl from a religious family, who doesn't see a boy even like you.
وہ تلخ لہجے میں ایک ایک لفظ چبا کر بولی،،،
Nice attitude,,,
وہ مسکرایا عنائزہ حیران ہوئی کہ اس ڈھیٹ انسان پر اتنی انسلٹ کا کوئی اثر نہیں ہوا،،،

I have never seen a girl as brave as like you.
وہ عنائزہ کو داد دیتا ہوا بولا جس پر عنائزہ دانت پیستی رہ گئی،،،
I will be fun to spend time with such a girl like you.
اس نے آگے بڑھتے ہوئے عنائزہ کا ہاتھ پکڑا جس پر عنائزہ حیرت سے اس کی جرأت کو دیکھتی رہ گئی،،،
Hold on to yours hands otherwise they will not to able to do anything.
عنائزہ نے اسے کا ہاتھ سختی سے موڑتے ہوئے کہا جب

ایڈورڈ نے ایک جھٹکے کے ساتھ اسے دیوار کے ساتھ لگایا اور مسکرانے لگا،،،
You are the first girl whose insolence i like, otherwise no girl has the courage to speak in front of me.
عنائزہ مسلسل اپنا آپ اس سے چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اس باڈی بلڈر جیسے انسان کے آگے اس کی طاقت کچھ نہ تھی،،،
Leave me you bastard.
عنائزہ حلق کے بل چلائی،،،
ایڈورڈ نے اس کے منہ پر غصے سے ہاتھ رکھا اور سرخ آنکھوں سے اسے دیکھنے لگا،،،
Shut up here or it won't take me long to get you to my bedroom.
اس کی بات ابھی مکمل نہ ہوئی تھی جب عنائزہ نے ایک بھاری تھپڑ اس کی گال پر رسید کیا،،،

Be sure to remember this slap before you talk about it again.
وہ انگلی دکھا کر اسے وارن کرتی ہوئی دھکا دے کر کمرے سے باہر نکل گئی،،،
اپنی انسلٹ پر ایڈورڈ کو یقین نہیں آرہا تھا، آج پہلی بار کسی لڑکی نے اس کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا تھا اور خاص کر یہ تھپڑ جو کہ اسے کبھی اس کے ماں باپ نے بھی نہیں مارا تھا،،،
کچھ دیر سکتے میں کھڑے رہنے کے بعد اس نے ہاتھ سے اپنے گال کو سہلایا اور مسکراتے ہوئے بولا
Interesting…


عنائزہ کیا ہوا تم ٹھیک تو ہو نا،،، عنائزہ جیسے ہی کلاس روم میں آئی لیلہ پوچھنے لگی
ہاں میں ٹھیک ہوں،،، عنائزہ کے اس آرام دہ جواب نے لیلہ کو آرام نہ بخشا
کچھ تو ہوا ہو گا بتاؤ کیا کہا اس نے،،،
کہنا کیا وہی جو وہ اپنے آگے پیچھے پھرنے والی ہر لڑکی سے کہتا ہے،،، عنائزہ لا پرواہی سے بولی
پھر تم نے کیا کہا،،،
میں نے اس کو اس کی نانی یاد دلا دی آئندہ وہ مجھے کچھ کہنے سے پہلے دس بار سوچے گا،،،
کیا ایسا کیا کیا تم نے،،، لیلہ بے چین ہونے لگی
تمہیں کیوں اتنا تجسس ہو رہا یے چھوڑو لیکچر کا ٹائم ہو گیا ہے میم آنے والی ہے،،،
پلیز عنائزہ بتاؤ تو صحیح،،، لیلہ نے اسرار کیا
میں نے جواب میں اسے ایک تھپڑ سے نوازہ،،،
تبھی کلاس میں میم داخل ہوئی،،،
کیا ت۔۔تم ہوش میں تو ہو یہ کیا کہہ رہی ہو،،، لیلہ کے رونگٹے کھڑے ہوئے تو وہ سرگوشی نما بولی
وہی کہہ رہی ہوں جو کر کے آرہی ہوں اب خاموش رہو ورنہ ہم دونوں کلاس ست باہر نکال دیے جائیں گے،،،
عنائزہ کی بات پر لیلہ خاموشی سے لیکچر لینے لگی،،،
چھٹی کا وقت ہو گیا تھا عنائزہ گیٹ پر آئی لیکن شفیق ابھی نہیں آیا تھا،،،
یہ آج کہاں رہ گیا،،، عنائزہ نے موبائل نکال کر ٹائم دیکھا تو دس منٹ اوپر ہو چکے تھے
تبھی ایڈورڈ کی ریڈ کلر کی مہنگی ترین گاڑی نے ہارن جا کر عنائزہ کی توجہ اپنی طرف کھینچی
Can i drop you to your home?
اس کی بات پر عنائزہ نے دانت پیسے،،،
لگتا ہے ایک تھپڑ کم تھا جو دوسرا کھانے کے لیے آگیا ہے،،، وہ بڑبڑائی
وہ پھر سے ہارن بجانے لگا آس پاس کی لڑکیاں جو اس کے ساتھ بیٹھنے کو بے تاب تھیں عنائزہ کو دیکھ کر اس پر رشک کرنے لگیں،،،
عنائزہ ایڈورڈ کے ساتھ ساتھ ان لڑکیوں کو بھی اگنور کرنے لگی جب شفیق آیا،،،
وہ تیزی سے گاڑی میں بیٹھ گئی،،،
آئندہ لیٹ نا ہو،،، وہ تلخ لہجے میں بولی
معذرت بیگم صاحبہ،،، شفیق نے گاڑی سٹارٹ کی
عنائزہ گھر پہنچی تو روحان باکسنگ کی پریکٹس کر رہا تھا،،،
واؤ یہ جذبہ کہاں سے جاگ اٹھا،،، عنائزہ نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا
روحان کی ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھری،،،
تمہارے کام ادھورے تھوڑی نا چھوڑوں گا،،،
سو سویٹ،،، عنائزہ نے اس کے گال کھینچتے ہوئے کہا
بس بس میں بچہ تھوڑی ہوں،،، روحان نے اپنا چہرہ پیچھے کی جانب کیا
ہائے کبھی بڑوں والے کام بھی تو کرو نا،،، عنائزہ نے اسے آنکھ ماری تو روحان سٹپٹا گیا
چلو فریش ہو پھر لنچ کرتے ہیں مل کر،،، روحان نے جلدی سے ٹاپک بدلا
عنائزہ کھلکھلا کر ہنستی ہوئی کمرے کی جانب چل دی،،،
وہ دونوں ٹیبل پر بیٹھے لنچ کر رہے تھے جب عنائزہ بولی،،،
روحان کل سیچر ڈے ہے یونی سے تو چھٹی ہے کل ہم کہیں گھومنے جائیں گے،،، عنائزہ نے نوالا منہ میں رکھتے ہوئے کہا
ہاں ضرور،،، روحان کے ایسے کہنے پر عنائزہ حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگی
تمہیں کوئی مسئلہ تو نہیں ہو گا نا،،، اس نے کنفرم کرنا چاہا
نہیں تم جہاں کہو گی ہم وہیں جائیں گے مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا،،، روحان کا اعتماد دیکھ کر عنائزہ بے یقینی سے اس کی طرف دیکھنے لگی
اوکے پھر لنچ کر لیا ہے میں نے آج سٹڈی نہیں کروں گی سنڈے کو بھی یونی نہیں جانا تو تب سٹڈی کروں گی آج ہم کوئی گیم کھیلتے ہیں کیا خیال ہے،،، اس نے ٹشو سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے کہا
کونسی گیم،،، روحان بھی کھانے سے فارغ ہوا
امممم۔۔ لڈو کھیلتے ہیں،،،
نہیں بورنگ سی گیم ہے،،، روحان نے منہ پھلایا
ارے بورنگ کب ہے اتنی انٹرسٹنگ تو ہے،،،
بس میں نہیں کھیلوں گا کوئی اور بتاؤ،،،
اففف بہت ضدی ہو اوکے کوئی اور سوچتی ہوں،،،
میں بتاؤں،،، روحان نے کہا
ہاں بتاؤ،،،
تم آنکھوں پہ پٹی باندھو گی اور مجھے پکڑو گی،،،
یہ بہت انٹرسٹنگ ہے،،، عنائزہ نے بےزاری سے کہا
لڈو سے اچھی ایٹ لیسٹ باہر کی فضا میں موڈ تو اچھا رہتا ہے،،، روحان نے کہا
ارے واہ تمہاری بھی یہ چھوٹی سی زبان چلنے لگی ہے کیا بات ہے میرے بعد کیا کرتے رہتے ہو،،، عنائزہ نے اس کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا
کچھ نہیں تمہیں کیوں بتاؤں،،،
دیکھو دیکھو ایک وقت وہ تھا جب تم صرف سر ہلا کر جواب دیتے تھے اور اب دیکھو بھئی پر نکل آئے ہیں،،، عنائزہ نے ہنستے ہوئے کہا
زیادہ باتیں نہیں کرو آؤ لان میں،،، روحان کہتے ہوئے اٹھا اور عنائزہ حیرت کا ٹوکرا اٹھائے اس کے پیچھے چل دی
لان میں آکر بہار کی ٹھنڈی ہواؤں نے دونوں کو اپنے حصار میں لیا،،،
آہ کتنا پیارا موسم ہے،،، عنائزہ نے بازو پھیلا کر آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا
چلو اب آنکھیں بند کرو،،، روحان کے کہنے پر عنائزہ نے آنکھیں بند کیں اور روحان نے اس کی آنکھوں پر اپنا رومال باندھ دیا
ارے اس میں سے تو کچھ نظر نہیں آرہا اتنی زور سے بادھ دی،،،
تو کیا تم چیٹنگ کر کے مجھے پکڑنا چاہتی ہو،،، روحان نے گھوری سے دیکھتے ہوئے پوچھا
ہاہا نہیں نہیں اوکے تم اب دو ہو جاؤ تا کہ تمہیں ڈھونڈ سکوں،،، اس کے کہنے پر روحان تھوڑی دور کھڑا ہوا
آجاؤ پکڑو مجھے،،،
وہ روحان کی آواز سن کر اس طرف چلنے لگی اور روحان ہنستا ہوا ادھر ادھر ہو جاتا،،،
ادھر آؤ،،، روحان کے بلانے پر عنائزہ اس طرف گئی روحان جیسے ہی سائیڈ کو ہوا تو عنائزہ نے اس طرف ہو کر اسے پکڑ لیا،،،
دیکھو میں نے تمہیں پکڑ لیا،،، وہ ہنستی ہوئی بولی
تمہیں کیسے پتہ چلا میں کس سائیڈ پر ہوا ہوں تم نے چیٹنگ کی ہے،،، اپنے ہار جانے پر روحان نے منہ پھلایا
ارے میں نہیں دیکھ رہی تھی سچ میں،،،
پھر بتاؤ تم دوسری طرف کیوں نہیں گئی،،،
روحان کا پھولا ہوا منہ دیکھ کر عنائزہ کی ہنسی چھوٹی،،،
دیکھا دیکھا تم چیٹنگ کر رہی تھی،،، روحان انگلی سے اشارہ کرتا ہوا بولا
بس تھورا سا دیکھا تھا،،،
جاؤ میں نہیں کھیلتا تم چیٹنگ کرتی ہو،،، وہ اندر کی جانب چل دیا
ارے روحان سنو تو،،، وہ اس کی کیوٹ سی ناراضگی پر مسکراتی ہوئی اس کے پیچھے چل دی،،،
سنو روحان دیکھو موسم کتنا پیارا ہے،،،
تو میں کیا کروں،،، روحان نے بنا پیچھے دیکھتے کہا
ارے میرے کیوٹی پائی اتنے پیارے کیوں ہو تم،،، روحان کمرے میں صوفے پر آکر بیٹھا تو عنائزہ بھی اس کے پاس آکر بیٹھی
آو نا کھیلتے ہیں،،، عنائزہ نے اس کا بازو کھینچتے ہوئے کہا
شفیق کے ساتھ کھیل لو،،، روحان نے کہا تو عنائزہ کی ہنسی چھوٹی
ہاہاہا شفیق اس عمر میں وہ کھیلتا ہوا کیسا لگے گا،،، عنائزہ منہ پہ ہاتھ رکھے ہنسنے لگی
روحان کو اس کے ہنسنے پر اور غصہ آیا اور اٹھنے لگا جب عنائزہ جلدی سے اس کی گود میں بیٹھی،،،
کب تک ناراض رہو گے،،، وہ روحان کی گردن میں بازو ڈالتے ہوئے بولی
روحان اس کے اچانک عمل پر سٹپٹا گیا اور آنکھیں پھیلاتے ہوئے اس کی طرف دیکھنے لگا،،،
بتاؤ نا جانِ من کب تک بیوی سے ناراض رہنے کا ارادہ ہے،،، وہ چھچھورے انداز میں بولنے لگی
ی۔۔یہ تم کیا کر رہی ہو اٹھو میرے اوپر سے مجھے باہر جانا ہے،،،
باہر کیا کرنے جانا ہے میرے کہنے پر تو نہیں گئے،،،
مجھے بھوک لگی ہے،،، روحان کے جو دماغ میں آیا بول گیا
اوو تو بھوک لگی ہے جو ابھی دس منٹ پہلے پیٹ بھرا ہے اس کا کیا،،، عنائزہ کی بات پر روحان کو یاد آیا اس نے تو ابھی لنچ کیا ہے
بتاؤ بتاؤ،،،
م۔۔مجھے پھر سے بھوک لگ گئی ہے،،، روحان بھی اب کہاں چپ رہنے والا تھا
امممم اوکے چلو پھر کوئی ڈیزرٹ بناتے ہیں،،، وہ روحان کا ہاتھ پکڑے کچن میں لے آئی
کیا کھاؤ گے تم،،، عنائزہ نے پوچھا
اممم آئس کریم،،، اس نے سوچتے ہوئے کہا
آئس کریم۔۔۔ میں تمہیں کہیں سے ماسٹر شیف لگتی ہوں کیا،،، عنائزہ نے کمر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا
لگتی تو نہیں پر تمہارا کچھ پتہ بھی تو نہیں چلتا،،،
او مائے گاڈ روحان کتنے تیز ہو گئے ہو تم،،،
تم سے کم ہی ہوں،،، روحان نے شلیف پر بیٹھتے ہوئے کہا
اففف،،،عنائزہ ماتھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے فریج کھولا
اچھا کسٹرڈ کھاؤ گے،،،
ہاں کھا لوں گا،،،
اوکے،،، عنائزہ نے فریج سے ملک نکالا اور کسٹرڈ بنانے لگی
تمہارا آج کا دن کیسا گزرا،،، روحان نے پوچھا
ہاں ٹھیک تھا،،، عنائزہ نے نظریں پھیریں
کوئی مسئلہ ہے کیا،،، روحان نے اس کی نظروں کو نوٹ کیا
نہیں تمہیں کیوں لگا کوئی مسئلہ ہے میرا دن بہت اچھا گزرتا ہے تم ایسا ویسا نہ سوچو اوکے،،،
اوکے نہیں سوچتا،،،
عنائزہ روحان کے اچانک پوچھنے پر پریشان ہوئی پھر اس کے نظرانداز کرنے پر شکر ادا کیا،،،
کسٹرڈ باؤل میں ڈال کر اوپر فروٹس کاٹ کر ڈالے اور فیریج میں رکھ دیا،،،
آجاؤ روم میں پندرہ منٹ بعد جب ٹھنڈا ہو جائے گا تب کھائیں گے،،، وہ دونوں روم کی طرف بڑھ گئے
ماضی
ارسم بتاؤ کیا ہوا ہے،،، دردانہ بیگم اس کے قریب جا کر پوچھنے لگیں
ابو جان اور تایا جان کا ایکسیڈینٹ ہو گیا ہے،،، ارسم کی آواز مریم کی سماعت میں پڑی تو اسے ڈیول کی بات یاد آنے لگی " کل صبح تمہارے لیے ایک گڈ نیوز ہو گی" وہ سکتے کی حالت میں بیٹھی تھی
کیا۔۔۔ کیسے۔۔۔ وہ ٹھیک ہیں نا زیادہ چوٹیں تو نہیں لگیں،،،
دردانہ بیگم بے یقینی سے پوچھنے لگیں
صفیہ بیگم اور شہزادی بھی سکتے کی حالت میں سب دیکھ رہی تھیں،،،
جلدی کریں ہمیں جانا ہو گا وہ ایمرجینسی میں ہیں،،، ارسم کہتا ہوا باہر کی جانب چلنے لگا اور وہ چاروں بھی اس کے پیچھے لپکیں،،
ہوسپٹل پہنچتے ہی انہوں نے ریسیپشن سے روم نمبر پوچھا اور آگے کی طرف بھاگنے لگے،،،
جب وہ روم کے باہر پہنچنے تو ڈاکٹر باہر نکل رہا تھا،،،
ڈاکٹر می۔۔۔میرے ابو جان اور تایا جان وہ کیسے ہیں اب،،، ارسم بوکھلایا ہوا تھا
سوری وہ دونوں ہوسپٹل پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ چکے تھے،،،
وہاں کھڑے سبھی لوگوں میں سے کسی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ ڈاکٹر سچ بول رہا ہے یا جھوٹ،،،
ن۔۔نہیں ایسا نہیں ہو سکتا داکٹر پلیز آپ ایک بار پھر سے چیک کریں دیکھنا ان کی سانسیں چل رہی ہوں گی،،، مریم نے بے یقینی کی حالت میں کہا
ہم نے پورا چیک اپ کر لیا ہے وہ دونوں ہی اب اس دنیا میں نہیں رہے،،، ڈاکٹر اپنی بات مکمل کر کے آگے کو بڑھ گیا
ان کا گھر چینخ و پکار سے گونج رہا تھا دو چارپائیوں پر دو لوگوں کی میّت پڑی تھی ایک جمال صاحب اور دوسرے ان کے چھوٹے بھائی کمال صاحب، دونوں بھائی اپنی بیگموں کو بیوا کر گئے تھے،،،
ابو جان آپ مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتے،،، مریم ہچکیوں سے روتے ہویے بول رہی تھی
ادھر شہزادی نے رو رو کر اپنی حالت بگاڑ رکھی تھی،،،
ارسم خود کو کمزور محسوس کر رہا تھا وہ اکیلا رہ گیا تھا،،،
شام کے وقت انہیں دفنایا گیا ارسم کمرے میں آیا تو مریم رو رہی تھی،،،
مریم سمبھالو خود کو،،، ارسم خود اندر سے ٹوٹا ہوا تھا لیکن مریم پریگنینسی کی حالت میں تھی اس حالت میں اس کا زیادہ سٹریسڈ ہونا ٹھیک نہیں تھا،،،
ارسم اللہ نے ان دونوں کا سایہ ہمارے سر سے اٹھا لیا،،، وہ روتے ہوئے ارسم کے سینے سے لگی
مت رو میری جان سب ٹھیک ہو جائے گا ان کی بخشش کے لیے دعا کرو بس،،، ارسم اس کے بال سہلاتے ہوئے بولا
رات کے دو بجے ارسم کو نیند آگئی لیکن مریم ابھی بھی جاگ رہی تھی،،،
وہ اپنے ابو اور چچا جان کو یاد کر کر کے روئے جا رہی تھی جب اس کی سماعت میں ٹیلی فون کی رنگ بجی،،،
ارسم ابھی سویا تھا اس نے ارسم کو جگانا مناسب نہ سمجھا وہ آہستہ سے اٹھی اور دروازہ کھولے باہر نکل گئی،،،
سیڑھیوں سے نیچے اترتی ہوئی ٹیلی فون کے پاس آئی اور کپکپاتے ہاتھوں سے اٹھا کر کانوں کو لگایا،،،
میرّی،،، ڈیول کی آواز میں ایک خوشی تھی
گھٹیا انسان تم کیسے کر سکتے ہو یہ سب،،، مریم سرگوشی میں چلّائی
ابھی تو شروعات ہے کھیل تو ابھی باقی ہے تم تو ابھی سے ہی پریشان ہو گئی،،، وہ کمینگی سے بولا
اللہ تمہیں غارت کرے تم انسان نہیں جانور ہو،،، مریم نے نفرت سے کہا
ویسے میں سوچ رہا تھا تم تو بہت تیز نکلی ارسم کو تو تم نے گھر میں ہی روک لیا واہ لیکن دیکھو میں نے اپنا کام ادھورا نہیں چھوڑا،،،
خدا کا خوف کھاؤ راحیل جس انسان نے تمہیں باپ بن کر پالا تم نے سانپ بن کر انہی کو ڈس لیا،،،
ششششش،،، ڈیول طیش میں آیا
راحیل میں صرف تب تک تھا جب تم لوگوں کی دنیا میں تھا اپنی دنیا میں میں کیا ہوں یہ تم اچھی طرح جانتی ہو،،، وہ تلخ لہجے میں بولا
جانتی ہوں شیطان ہو تم جس میں احساس اور محبت نام کی کوئی چیز نہیں ہے،،،
احساس کا تو پتہ نہیں لیکن محبت صرف تم سے ہے،،، وہ پھر سے اسی لہجے میں آیا
میں تم پر تھوکنا بھی پسند نہیں کروں گی تم مجھے کبھی حاصل نہیں کر پاؤ گے یاد رکھنا تم،،، وہ غصے سے کہتی ہوئی فون رکھ گئی
مریم کی بات پر ڈیوِل کا خون کھولا اور اس کے ٹیلی فون اٹھا کر دیوار پر دے مارا،،،
مریم جیسے ہی پیچھے مڑی تو ارسم کھڑا تھا،،،
ا۔۔۔ارسم آ۔۔آپ کب آئے،،، مریم کا حلق خشک ہونے لگا
میرے باپ کا قاتل راحیل ہے،،، وہ بے یقینی سے مریم کی طرف دیکھتا ہوا بولا
ا۔۔ارسم اس نے م۔۔مجھے دھمکی دی تھی لیکن اس کا نشانہ آ۔۔آپ تھے اس لیے میں نے آپ کو آفس جانے سے روک لیا،،، وہ ہچکیوں سے رونے لگی
کیا اس کا مطلب تم جانتی تھی،،، ارسم نے نے یقینی سے مریم کی طرف دیکھا تو مریم سکتے کی حالت میں کھڑی رہی،،،
ن۔۔نہیں ارسم و۔۔وہ،،، مریم بوکھلا چکی تھی اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ارسم کو کیا جواب دے
بولو کیا وہ وہ لگا رکھی ہے،،، ارسم نے اسے کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے اونچی آواز میں کہا
پ۔۔پرسوں وہ آیا تھا،،، اس نے سسکیوں سے کہا کیوں کہ ارسم کی سخت پکڑ اسے تکلیف دے رہی تھی
تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں مریم بولو،،، وہ حلق کے بل چلّایا
م۔۔۔مجھے نہیں پتہ تھا یہ سب ہو جائے گا پلیز مجھے معاف کر دیں ارسم،،،
تمہاری وجہ سے آج ہم دونوں یتیم ہو گئے ہیں کیا تمہیں احساس ہے تم نے کتنی بڑی غلطی کی ہے،،، وہ اسے پھر سے جھنجھوڑنے لگا
ا۔۔ارسم پلیز چھوڑیں بہت درد ہو رہا یے،،، مریم نے روتے ہوئے کہا
اگر تم نے پہلے بتایا ہوتا تو ہم سیکیورٹی کا انتظام کر لیتے خیال رکھتے تو کم از کم آج وہ زندہ تو ہوتے،،،
ارسم کی بات پر مریم کے رونے میں شدت آئی اسے واقع ہی اب احساس ہو رہا تھا انجانے میں وہ کتنی بڑی غلطی کر چکی ہے،،،
اس نے روتے ہوئے سر نیچے جھکایا اور ارسم مٹھیاں بھینچنے لگا،،،
جاؤ کمرے میں مجھے کال کرنی ہے،،، وہ تلخ لہجے میں بولا
مریم سسکتے ہوئے کمرے کی طرف بھاگ گئی،،،
ارسم نے گاؤں کے پولیس سٹیشن میں کال کی،،،
ہیلو،،، اکرم بولا
میں ارسم کمال رانا بات کر رہا ہوں مجھے آپ سے کچھ انفارمیشن چاہیے،،،
ہاں جی پوچھو کیا پوچھنا ہے،،،
آپ کے ہاں ایک مجرم قید تھا جس کا نام راحیل تھا کیا وہ ابھی بھی یہاں ہے،،،
نہیں وہ بھاگ نکلا سالا،،،
بھاگ گیا لیکن کیسے بھاگ گیا آپ کی سیکیورٹی اتنی کمزور ہے،،، ارسم کو غصہ آنے لگا
سیکورٹی کمزور نہیں جی وہ چیز ہی ایسی تھا اس کی تو آنکھوں میں بھی وحشت جھلکتی تھی ہم اسے شہر کی جیل میں شفٹ کرنے جا رہے تھے جب اس کے ساتھیوں نے راستہ روک لیا تھا تبھی وہ بھاگ گیا،،، اکرم نے بڑے آرام سے بتایا
ساتھیوں نے راستہ روک لیا تو آپ کچھ کرتے پولیس کی ٹیم ہے پوری یہاں،،،
اوو بھائی ہمیں نہ بتاؤ کیا کرنا ہے اس کی وجہ سے پہلے ہی ہمارا ایک انسپکٹر مارا جا چکا ہے ہمیں تو اپنی جان عزیز ہے،،، اکرم کی بات پر ارسم نے ضبط سے آنکھیں بند کیں
اس نے مزید کچھ کہے فون رکھا اور کمرے کی جانب بڑھ گیا،،،
مریم اپنی جگہ پر لیٹی رو رہی تھی ارسم اپنی سائیڈ پر لیٹا اور آنکھیں بند کیں ،،،
مریم کی ہلکی ہلکی سسکیاں ارسم سے برداشت نہ ہوئیں،،،
چپ کر جاؤ سکون تو تم برباد کر ہی چکی ہو اب اور کیا چاہتی ہو،،، وہ تلخ لہجے میں بولا مریم نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا تا کہ اس کی سسکی کی آواز ارسم کی سماعت میں نہ پڑے،،،
شہزادی رات کے وقت کھڑکی کے پاس کھڑی ٹھنڈی ہوا اپنے اندر اتار رہی تھی تا کہ اسے کچھ پل سکون میسر ہو سکے،،،
جب اچانک اس کی نظر گھر کے باہر کھڑے ایک شخص پر پڑی جو اسی کی طرف اشارے کر رہا تھا،،،
شہزادی کو اسے پہچاننے میں پل بھی نہ لگا کہ وہ راحیل تھا،،،
دو سال بعد آج شہزادی اسے دیکھ کر حیران ہوئی اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا وہ راحیل ہی ہے،،،
راحیل نے اسے گیٹ پر آنے کا اشارہ کیا اور وہ بھاگتی ہوئی کمرے سے باہر نکلی،،،
گیٹ کھول کر اس نے باہر دیکھا تو راحیل نے اگلے ہی پل اسے اپنی طرف کھینچ کر سینے سے لگایا،،،
شہزادی کتنا مس کیا میں نے تمہیں،،، وہ شدت سے اسے خود میں بھینچتا ہوا سرگوشی میں بولا
دو سال سے شہزادی اسے بھلا نہ پائی تھی پل بھر میں وہ پگھلی اور راحیل میں اپنا کھویا ہوا سکون تلاشنے لگی،،،
م۔۔مجھے یقین نہیں آرہا یہ آپ ہو م۔۔میں نے یہ دو سال بڑی مشکل سے گزارے ہیں راحیل،،، اس نے روتے ہوئے کہا
پگلی رو کیوں رہی ہو میں آگیا ہوں نا سب ٹھیک کر دوں گا،،، راحیل نے اسے خود سے الگ کر کے اس کی رخساروں کو ہاتھوں سے صاف کیا
آ۔۔آپ پر جو الزامات لگے تھے وہ سچ تھے کیا،،، شہزادی کا دل آج تک اس بات کرنے کو تسلیم نہیں کرتا تھا کہ راحیل ایسا کچھ کر سکتا ہے
تمہیں میں سب تسلی سے بتاؤں گا ابھی یہاں کھڑے ہو کر بات نہیں کر سکتے کیا تم مجھے کہیں ملنے آسکتی ہو،،،
لیکن کہاں،،، شہزادی نے پریشان نظروں سے اسے دیکھ کر پوچھا
کل تم مجھے ہوٹیل میں ملنا وہاں تمہیں ساری بات سچ سچ بتاؤں گا بس مجھ پر یقین رکھنا ایک تمہارے سوا اس دنیا میں اور کوئی بھی نہیں جو مجھ پر یقین کرے،،، راحیل نے مایوسی کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا
آپ فکر نہیں کریں مجھے آپ پر یقین ہے میرا دل ہمیشہ سے ہی کہتا تھا کہ آپ بے قصور ہیں لیکن،،، وہ خاموش ہوئی
لیکن کیا شہزادی،،،
لیکن میں آپ سے ملنے نہیں آسکتی ابو جان اور چچا کی وفات کا غم ابھی تازہ ہے ایسے حالات میں میں کسی قسم کا بہانہ لگا کر باہر نہیں آسکتی،،،
ٹھیک کہہ رہی ہو تم اور تمہیں پتہ ہے شہزادی میں بہت رویا ہوں وہ دونوں میرے باپ جیسے تھے اور حادثاتی موت تو اللہ کسی کے نصیب میں نہ لکھے، بہت مشکل سے میں نے خود کو سمبھالا ہے اور اب تم سے ملنے آیا ہوں،،،
لیکن آپ کو کیسے پتہ چلا کہ ان کی وفات ہو گئی ہے اور وہ بھی ایکسیڈنٹ سے،،، شہزادی نے پوچھا
دراصل آج دن ٹائم میں تمہیں دیکھنے کے لیے گھر کے پاس آیا تھا جب دو جنازے گھر سے نکل رہے تھے اور میں پریشان ہو گیا تھا تبھی میں نے جنازے میں شامل ایک آدمی سے پوچھا تو اس نے مجھے سب کچھ بتایا،،،
اچھا آپ کو کسی نے دیکھا تو نہیں،،، شہزادی پریشان ہوئی
نہیں نہیں مجھے کسی نے نہیں دیکھا تھا،،،
اچھا اگر تم باہر ملنے کے لیے نہیں آسکتی تو کیا میں رات کے وقت تمہارے کمرے میں آسکتا ہوں،،،
ل۔۔لیکن میرے کمرے میں ایسے کیسے ممکن ہو سکتا ہے کوئی بھی دیکھ سکتا ہے بہت بڑا مسئلہ بن جائے گا،،،
تم پریشان نہیں ہو میری جان میں ہوں نا،،، اس نے پاکٹ سے ایک پیکٹ نکالا
یہ کیا ہے،،، شہزادی نے اس کے ہاتھ میں پیکٹ دیکھ کر پوچھا
اس میں نیند کی ٹیبلیٹس ہیں تم کل رات کے کھانے میں دو تین ملا دینا جب سب سو جائیں تو کھڑکی میں کھڑی ہو کر میرا انتظار کرنا اور ہاں اپنے کمرے کی لائٹ ضرور آن رکھنا تا کہ میں تمہیں دیکھ سکوں،،،
وہ اتنی بڑی بات اتنی آسانی سے کہہ گیا تھا شہزادی حیرت زدہ اسے دیکھتی رہی،،،
کیا ہوا کچھ بولو،،، راحیل نے خاموش کھڑی شہزادی کو کہا
ر۔۔راحیل میں ایسے نہیں کر سکتی یہ نیند کی گولیاں کھانے میں ملانا نہیں نہیں میں نہیں کر سکتی مجھے ڈر لگتا ہے،،، وہ گھبرانے لگی
ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے میں ہوں نا تمہارے ساتھ یقین کرو ایک بار ان گولیوں نے اپنا اثر دکھایا تو صبح سے پہلے کسی کی بھی آنکھ نہیں کھلے گی پھر کسی کو کیسے معلوم ہو گا کہ میں آیا تھا،،،
پلیز رکھو اسے مجھے تمہارے ساتھ بات کرنے کے لیے کھلا وقت چاہیے،،، راحیل نے زبردستی اس کے ہاتھ میں پیکٹ پکڑا دیا
شہزادی نے گھبراتے ہوئے پیکٹ کو ہاتھ میں دبایا،،،
اب میں چلتا ہوں کل آؤں گا اور کھڑکی میں تمہارے آنے کا انتظار کروں گا،،،
ٹھیک ہے میں آؤں گی کھڑکی میں،،،، شہزادی ایک بار پھر سے اس کے سینے سے لگی اور الگ ہو کر گیٹ بند کرتی ہوئی دبے قدموں سے اندر چلی گئی،،،
بے وقوف لڑکی،،، شہزادی کے جانے کے بعد ڈیوِل کے ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ رونما ہوئی
ارسم پلیز مجھ سے بات کریں ا۔۔ایسے چپ مت رہیں،،، ارسم صوفے پر بیٹھا تھا جب مریم اس کے پاس آئی دوپہر ہو چکی تھی اور اس نے مریم کی کسی ایک بات کا بھی جواب نہیں دیا تھا،،،
پلیز ارسم بولیں مجھے آپ کا خاموش رہنا تکلیف دیتا ہے،،، مریم کی آنکھیں بھر آنے لگیں
ارسم خاموشی سے اٹھا جب مریم نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روکا،،،
پلیز ارسم مجھ سے ایسے بے رخی مت اختیار کریں میں یہ برداشت نہیں کر پاؤں گی،،، وہ اس کے ہاتھ پر ماتھا ٹکائے رونے لگی
ارسم نے سختی سے ہاتھ جھٹکا اور کمرے سے باہر نکل گیا،،،
مریم وہیں بیٹھی ہچکیوں سے روتی رہی،،،
عنائزہ ڈائری اپنی بک میں چھپائے بڑھ رہی تھی جب روحان بولا،،،
پندرہ منٹ ہو گئے،،،
تم تب سے ٹائم ہی دیکھ رہے تھے،،، عنائزہ بک سائیڈ پر رکھتے ہوئے بولی
ہاں مجھے پتہ تھا تم تب ہی بک کا پیچھا چھوڑو گی، اس کی بات پر عنائزہ مسکراتے ہوئے اٹھی،،
یہاں کھاؤ گے یا ٹیبل پر چلیں،،، عنائزہ نے دروازہ کھولتے ہوئے پوچھا
یہیں کھاؤں گا،،،
دو منٹ تک عنائزہ دو باؤلز لیے کمرے کیں آئی،،،
یہ لو،،، اس نے ایک روحان کو پکڑایا اور ایک خود پکڑ کر بیٹھی،،،
باتوں باتوں میں کب انہوں نے پلیٹ خالی کی انہیں پتہ ہی نہ چلا،،،
سیاہ رات
بقلم_مرحا_کنول
Episode 27 (part 2)
اگلے دن عنائزہ روحان کو لے کر نیو یارک کی سینٹرل پارک میں آئی تھی،،،
انہوں نے دو ٹکس لیے اور اندر داخل ہوئے، اتنی وسیع اورخوبصورت پارک دیکھ کر وہ دونوں ہی حیران رہ گئے،،،
امیزنگ،،، تمہیں اس کے بارے میں کیسے معلوم ہوا،،، روحان پارک میں نظریں پھیرتے ہوئے کہا
انٹر نیٹ کس بلا کا نام ہے،،، عنائزہ ہنستے ہوئے بولی
یہ واقع ہی بہت خوبصورت ہے آج یقیناً ہم بہت انجوائے کرنے والے ہیں،،، عنائزہ نے ایکسائیٹمینٹ سے کہا
فلحال پارک میں لوگ کافی کم تھے اور وہ اتنی وسیع تھی جس کی وجہ سے عنائزہ روحان کو کسی بھی ایریے میں لے جا سکتی تھی جہاں لوگ نہ ہوتے،،،
آؤ وہاں چلتے ہیں وہاں ابھی کوئی نہیں ہے،،، عنائزہ روحان کا ہاتھ پکڑے چلنے لگی لیکن روحان نے قدم نہیں اٹھائے
کیا ہوا چلنا نہیں کہا،،، عنائزہ نےسوالیہ نظروں سے پوچھا
میں یہیں انجوائے کروں گا لوگوں کے بیچ میں،،، اس کا دل کا کوئی کونہ اندر سے تیز رفتار میں دھڑک رہا تھا لیکن وہ یہ عزم کر کے آیا تھا کہ آج وہ گھبرائے گا نہیں
روحان کی بات سن کر عنائزہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھری اور وہ اس کا ہاتھ پکڑے چلنے لگی، روحان نے بھی اس کے ساتھ قدم سے قدم ملایا،،،
کچھ دیر تک وہ چلتے ہوئے آپ پاس کے مناظر سے لطف اندوز ہوتے رہے پھر ان کے پاس ایک آدمی پیڈیکیب لے کر آیا،،،
چلو اس میں بیٹھتے ہیں،،، عنائزہ نے کہا اور وہ دونوں پیڈیکیب میں بیٹھ گئے،،،
ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہوئے وہ خوب انجوائے کر رہے تھے،،،
کچھ دیر بعد عنائزہ کو بائی سائیکل نظر آئی،،،
روحان سائیکل چلاتے ہیں بہت مزہ آئے گا،،،
لیکن مجھے تو سائیکل چلانی نہیں آتی،،، روحان معصوم چہرہ لیے بولا
ارے چلا لو گے چلو بھی،،،
وہ دونوں پیڈیکیب سے اترے آدمی کو پیسے دیے اور ایک ایک بائی سائیکل سمبھالی،،،
روحان سر کھجاتا ہوا سائیکل کو دیکھ رہا تھا کہ کیسے اس پر بیٹھے گا اور کیسے چلائے گا جب اس کی سماعت میں عنائزہ کے ہنسنے کی آواز پڑی،،،
عنائزہ سائیکل چلاتی ہوئی گول گول چکر کاٹ رہی تھی، روحان نے اسے یوں دیکھ کر منہ بسوا کیوں کہ اسے یہ چلانی جو نہیں آتی تھی،،،
بھئی یہ کیا بات ہوئی خود مزے کر رہی ہو اور میں بور ہو رہا ہوں،،، وہ منہ پھلائے بولا تو عنائزہ کا قہقہ لگا
اوکے اس پر بیٹھو میں تمہارا ہاتھ پکڑوں گی تمہیں چلانی آجائے گی،،،
نہیں میں گر جاؤں گا،،،
ارے نہیں گرتے بیٹھو تو صحیح،،،
اس کے کہنے پر روحان سائیکل پر بیٹھا لیکن اسے چلانا اس کے بس کا کام نہیں تھا،،،
جیسے ہی وہ چلانے لگا تو اس نے گرتے گرتے خود کو سمبھالا،،،
ارے مجھے دو ایک ہاتھ اپنا اور تم نے بس پاؤں ہی چلانے ہیں اور کیا کرنا ہے،،، عنائزہ کے کہنے پر روحان نے اس کا ہاتھ پکڑا اور عنائزہ چلانے لگی ساتھ روحان بھی چلانے لگا
سٹارٹنگ میں اسی تھوڑی مشکل پیش آئی کچھ دیر بعد وہ صحیح سے چلا رہا تھا لیکن عنائزہ کا ہاتھ ابھی بھی پکڑا ہوا تھا،،،
مزہ آرہا ہے نا،،، عنائزہ ہنستے ہوئے بولی
روحان مسکرایا اور اثبات میں سر ہلایا،،،
ایک گھنٹے تک سیرو تفریح کرتے رہے اور پارک کی بہت سی جگہوں کو دیکھ چکے تھے،،،
چلو اب چلتے ہیں ایک جگہ اور ڈیسائیڈ کی ہے میں نے،،، عنائزہ نے کہا
لیکن وہ کیا ہے،،، روحان نے پوچھا
سرپرائیز ہے صبر کرو،،،
وہ دونوں گاڑی میں بیٹھے،،،
روحان خود پر فخر سا محسوس کر رہا تھا کہ وہ بھی ایک نارمل انسان کی طرح انجوائے کر رہا ہے اس کے چہرے سے خوشی نہیں جا رہی تھی،،،
کچھ وقت بعد گاڑی آئس سکیٹنگ ہال کے باہر رکی،،،
یہ کونسی جگہ ہے،،، روحان نے کہا
اب آہی گئے ہیں تو خود ہی دیکھ لو نا،،، وہ گاڑی کا لاک لگائے باہر نکلی تو روحان بھی باہر نکلا،،،
جیسے ہی وہ اندر داخل ہوئے روحان کا چہرہ پھول کی طرح کھل اٹھا،،،
واؤ آئس سکیٹنگ۔۔۔ تمہیں پتہ ہے عنائزہ یہ مجھے بہت بہت پسند ہے،،، وہ ایکسائیٹمینٹ سے چلّا اٹھا
ارے ارے آہستہ بولو کیا ہو گیا ہے،،، عنائزہ آس پاس کے کوگوں کو دیکھتی ہوئی بولی جو انہی کو گھور رہے تھے
انہوں نے سکیٹنگ شوز پہنے آئس کے اوپر آئے،،،
ایک دوسرے کے ہاتھوں کو پکڑے ہوئے وہ خود کو ہوا میں جھومتا ہوا محسوس کر رہے تھے،،،
مجھے یہ بہت اچھا لگ رہا ہے،،، روحان ہنستے ہوئے بولا
عنائزہ بھی ہنسنے لگی اور روحان کے نچلے ہونٹ کے تل کو مسکراتا ہوا دیکھنے لگی،،،
وہاں اور بھی بہت سے لوگ تھے جو آئس سکیٹنگ انجوائے کر رہے تھے، روحان کی نظر دو بچوں پر پڑی جو ایک بچی اور دوسرا بچہ تھا جو دکھنے میں دس سال کے لگ رہے تھے،،،
دیکھو وہ کتنے چھوٹے ہیں اور کیسے سکیٹنگ کر رہے ہیں،،، روحان نے کہا
ہاں فل ٹرینڈ گتے ہیں،،،عنائزہ نے جواب دیا جب ان میں سے ایک بچی ان کی طرف ہی بڑھنے لگی
Hi,
اس نے روحان کو مخاطب کیا جس پر روحان حیران ہوا،،،
Hello,
روحان نے کہا،،،
You are very cute and handsome.
وہ بچی مسکراتے ہوئے بولی،،،
اس کی بات سن کر روحان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کے ساتھ شرماہٹ بھی بکھری،،،
Thank you and you too little girl.
روحان نے اس کا گال کھینچتے ہوئے کہا
I'm alec and what's your name?
I'm Rohan.
روحان نے بچی کو جواب دیا،،،
عنائزہ ان دونوں کو آنکھیں پھیلائے دیکھ رہی تھی،،،
Hey little girl he is already mine.
عنائزہ جیلسی سے بولی تو روحان مسکرانے لگا،،،
No matter, i won't snatch him from you, i just came to give it to him.
اس نے گلاب کا پھول روحان کی طرف بڑھایا،،،
روحان شاکڈ ہو گیا اور مسکراتے ہوئے وہ پھول پکڑ لیا،،،
Thank you so much it's beautiful.
ہیے ہیے ہیے۔۔۔ روحان تم سے تو یہ امید نہیں تھی مجھے،،، عنائزہ کمر پہ ہاتھ ٹکائے بولی جس پر روحان کی بتیسی باہر نکلی
Run away and let us enjoy.
عنائزہ نے بچی کو کہا تو وہ روحان کو فلائینگ کِس کرتی ہوئی سکیٹنگ کر کے واپس بچے کے پاس پہنچ گئی،،،
اب اتنا شائے بھی مت ہو بچی ہی تھی وہ،،، روحان ابھی بھی مسکراتا ہوا اسے دیکھ رہا تھا جب عنائزہ بولی
ایسی بات نہیں ایکچولی پہلی بار کسی نے میری تعریف کی ہے اور پھول بھی دیا ہے اس لیے خوش ہونا تو بنتا ہے نا،،، روحان نے جیکٹ کی پاکٹ میں پھول رکھا
اب اس خوشی میں روحان صاحب کو دس دن نیند نہیں آئے گی،،، عنائزہ نے کہا تو وہ ہنسنے لگا
شام ہو چکی تھی ایک گھنٹہ سکیٹنگ سے انجوائے کرنے کے بعد وہ دونوں باہر آئے،،،
بہت مزہ آیا نا،،، عنائزہ نے پوچھا
ہاں آج کا دن سب سے اچھا ہے،،، روحان خوشی سے بولا
اب گھر جانا ہے کیا،،،
نہیں گھر کیوں جانا ہے کہیں اور چلو،،، روحان بولا
اس کی بات سن کر عنائزہ کے چہرے پر خوشی اور حیرت کے ملے جلے تاثرات نمایا ہوئے
شام ہو گئی ہے اب بس کھانا کھاتے ہیں پھر کسی اور دن آئیں گے ٹھیک ہے،،، وہ پیار سے سمجھاتے ہوئے بولی کیوں کہ اسے معلوم تھا وہ کتنی جلدی ناراض ہو جاتا ہے
ہاں بھوک تو مجھے بھی لگ گئی ہے،،، روحان نے واچ سے ٹائم دیکھتے ہوئے کہا
کچھ دیر بعد عنائزہ نے ایک اچھے سے ریسٹورنٹ کے باہر گاڑی روکی،،،
وہ دونوں گاڑی سے نکلے اور ریسٹورنٹ میں داخل ہوئے،،،
ہر ٹیبل نہایت نفاست سے سجایا گیا تھا یہاں کوئی بھی فیملی نظر نہیں آرہی تھی ہر ٹیبل پر کپل بیٹھا تھا شاید یہ کپلز کا ریسٹورنٹ تھا،،،
یہ ریسٹورنٹ تو بہت خوبصورت ہے،،، روحان نے کہا
ہاں اور مہنگا بھی،،، عنائزہ مسکراتے ہوئے بولی
کچھ دیر تک ویٹر آیا اور عنائزہ نے چار پانچ ڈشز آرڈر کیں جو کچھ ہی دیر میں ٹیبل پر رکھی جا چکی تھیں،،،
It's look delicious…
عنائزہ نے ایک پلیٹ اپنی طرف کی،،،
روحان نے کھانا شروع کیا اسے بھی یہاں کا کھانا بہت ٹیسٹی لگا،،،
وہ دونوں ہنس ہنس کر ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہوئے کھانا کھا رہے تھے جب عنائزہ کی نظر ان کے پچھلے ٹیبل پر بیٹھے ایک شخص پر پڑی جو سرد نظروں سے عنائزہ کی طرف دیکھ رہا تھا،،،
یہ یہاں کیا کر رہا ہے،،، عنائزہ بڑبڑائی
ہممم کچھ کہا،،، روحان نے پوچھا
نہیں کچھ نہیں کھانا کھاؤ،،، عنائزہ بولی
ایڈورڈ ییلو بالوں والی لڑکی جینی کے ساتھ بیٹھا تھا جب اس کی نظر عنائزہ اور اس کے ساتھ روحان پر پڑی،،،
اسے غصہ آنے لگا کہ اس کے سامنے تو پاکستانی دین دار لڑکی کی رٹ لگائی تھی اور یہاں ایک لڑکے کے ساتھ لنچ اور گپیں لگانے میں مصروف ہے،،،
عنائزہ اسے اگنور کرتی ہوئی روحان کے ساتھ ویسے ہی بیحیو کر رہی تھی جیسے وہ کچھ دیر پہلے کر رہی تھی،،،
کھانا ختم ہونے کے بعد وہ خاموشی سے روحان کو لیے باہر آگئی،،،
اب تو نہیں جانا کہیں،،، عنائزہ نے پوچھا
نہیں اب تھک گیا ہوں بس گھر چلتے ہیں،،، روحان نے ٹیک لگائی،،،
کیسا لگا آج کا دن،،،
بہت اچھا تھا میری زندگی کا سب سے اچھا دن یہ میں کبھی نہیں بھول پاؤں گا،،، روحان کھویا کھویا سا بولا
عنائزہ نے مسکراتے ہوئے گاڑی سٹارٹ کی،،،
رات کے وقت عقیلہ کچن میں چائے بنا رہی تھی جب شہزادی داخل ہوئی،،،
عقیلہ تم جاؤ میرے کمرے کی صفائی کر دو،،، شہزادی نے پیکٹ ہاتھ میں چھپاتے ہوئے کہا
لیکن شہزادی بی بی اس وقت،،، عقیلہ رات کے وقت اس کے منہ سے صفائی کی بات سن کر حیران ہوئی
ہاں اس وقت کیوں کوئی مسئلہ ہے کیا،،، شہزادی کو اس کا یوں بولنا اچھا نہ لگا
نہیں نہیں کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن یہ چائے ابل جائے گی میں چائے بنا کر پھر کر دوں گی،،، عقیلہ نے کپ میں چمچ چلاتے ہوئے کہا
یہ میں دیکھ لوں گی تم جاؤ،،،
جی ٹھیک ہے،،، عقیلہ چپ چاپ کچن سے باہر نکل گئی
شہزادی نے دو منٹ چائے کے پکنے کا انتظار کیا پھر چولہا بند کر کے کپکپاتے ہاتھوں سے تین ٹیبلیٹس نکال کر چائے میں ڈال دیں،،،
اچھی طرح مکس کر کے چائے کپس میں ڈالی،،،
بن گئی چائے لائیں میں دے آتی ہوں سب کو،،، عقیلہ بولی تو شہزادی ایک دم سے بوکھلا گئی لیکن شکر ادا کیا کہ اس کی کمر عقیلہ کی طرف تھی جس وجہ سے وہ اس کا بوکھلایا ہوا چہرہ نہیں دیکھ پائی تھی،،،
ہاں بن گئی ہے دے آؤ سب کو اور یہ تمہاری اور شفیق کی چائے بھی رکھی ہے،،، شہزادی نے خود کو نارمل کرتے ہوئے کہا
جی ٹھیک ہے،،، عقیلہ ٹرے پکڑے سب کے کمروں میں باری باری چائے دے آئی
شہزادی اپنے کمرے میں آئی اور ہاتھوں کو مسلتے ہوئے دیوار پر لٹکی گھڑی دیکھنے لگی جو اس وقت رات کے نو بجا رہی تھی،،،
آدھا گھنٹہ انتظار کرنے کے بعد وہ نیچے آئی اور دیکھنے لگی سب سو رہے ہیں یا کوئی جاگ بھی رہا ہے،،،
کسی کے بھی کمرے سے کسی قسم کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی اس کا مطلب تھا سب سو چکے ہیں،،،
شہزادی نے مریم کے کمرے کا دروازہ آہستگی سے کھول کر دیکھا تو وہ اور ارسم دونوں ہی گہری نیند سو رہے تھے،،،
پھر وہ عقیلہ اور شفیق کو دیکھنے گئی تو ان دونوں کو بھی سوتا پایا،،،
وہ بھاگتی ہوئی اپنے کمرے کی کھڑکی میں کھڑی ہوئی،،،
پانچ منٹ کھڑے رہنے کے بعد اسے راحیل دکھائی دیا اس نے اسے ہاتھ سے اشارہ کیا اور نیچے آکر گیٹ کھولا،،،
جلدی اندر آؤ،،، شہزادی نے کہا
ٹیبلیٹس ملا دی تھیں کسی چیز میں،،، راحیل نے اندر داخل ہوتے ہی پوچھا
ہاں ملا دی ہیں سب سو رہے ہیں،،، وہ گیٹ بند کرتے ہوئے بولی
وہ اس کا ہاتھ پکڑے اپنے کمرے میں لے آئی اور دروازہ اندر سے لاک کیا،،،
جیسے ہی وہ واپس مڑی راحیل نے اس کی کلائی کھینچ کر اسے سینے سے لگایا،،،
جب تم پاس نہیں ہوتی تو کسی بھی کام میں دل نہیں لگتا بس دل کرتا ہے تم ہر وقت میرے پاس رہو میرے سینے سے لگ کے،،، وہ اسے اپنے حصار میں لپیٹے بول رہا تھا جس پر شہزادی کا دل دھڑکنے لگا
ا۔۔ابھی چھوڑیں مجھے پہلے آپ بتائیں آپ نے مجھے بہت کچھ بتانا تھا،،، وہ اس کے حصار سے نکل کر بولی
اچھا ادھر بیٹھو،،، وہ اس کا ہاتھ پکڑے بیڈ پر بیٹھا
میں نے مریم کو اغواہ نہیں کیا تھا شہزادی پتہ نہیں اس کو کیا ہو گیا تھا جو اتنا بڑا الزام میرے سر لگا رہی تھی،،،
لیکن ارسم بھائی نے آپ کے بارے میں جو کچھ کہا اس کا کیا،،، شہزادی نے پوچھا
ارسم بھائی کو جس رات ہوش آیا میں تو گھر تھا ہی نہیں یہ بات تو تم بھی جانتی ہو نا،،،
اس کی بات پر شہزادی نے اثبات میں سر ہلایا،،،
اور ان کی ڈرپ میں ذہر کا انجیکشن لگانے والی بات،،، شہزادی نے کہا
وہ انجیکشن بھی اسی شخص نے لگایا ہو گا جس نے مریم کو اغواہ کیا،،،
لیکن کوئی مریم آپی کو اغواہ کیوں کرے گا،،، شہزادی تجسس کا شکار ہوئی
صرف ایک ہی وجہ ہو سکتی ہے،،، راحیل بولا
اور وہ کیا،،،
مریم کی خوبصورتی،،، راحیل نے شہزادی کی بات کا جواب دیا
ہاں مریم آپی بہت خوبصورت ہیں شاید کوئی اس کو حاصل کرنا چاہتا ہو،،،
میری نظر سے دیکھو تمہاری خوبصورتی کے آگے وہ کچھ بھی نہیں،،، اس نے شہزادی کا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لیتے ہوئے کہا
ا۔۔ابھی دور رہیں مجھے آپ سے اور بھی باتیں پوچھنی ہیں،،، شہزادی نے اس کے ہاتھوں کو پیچھے کرتے ہوئے کہا
ٹھیک ہے پوچھو کیا پوچھنا ہے،،،
آپ اس رات اپنی صفائی میں کچھ بولے کیوں نہیں جس رات آپ کو اریسٹ کر کے لے جایا جا رہا تھا،،،،
وہ اس لیے کیوں کہ میں اندر سے ٹوٹ گیا تھا مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ میرا بڑا بھائی جو مجھے جان سے بھی زیادہ عزیز ہے وہ مجھ پر شک کرے گا،،، وہ مصنوعی آنسو بہانے لگا
راحیل پلیز آپ روئیں تو مت،،، شہزادی کا دل تڑپ اٹھا اور وہ اس کے رخسار صاف کرنے لگی
راحیل نے اس کا ہاتھ پکڑا اور انگلیوں کی پوروں کو چومنے لگا،،،
ایک تم ہی ہو جو مجھ سے پیار کرتی ہے مجھ پر یقین کرتی ہے صرف تم ہی ہو،،، وہ اس کے ہاتھ کا ایک ایک پور کو چوم چکا تھا
شہزادی کا شرم سے چہرہ سرخ ہوا اس نے ابھی یہ بھی پوچھنا تھا کہ وہ جیل سے کیسے چھوٹا لیکن راحیل کی بے باکیاں اسے خاموش رہنے پر مجبور کر گئیں،،،
ر۔۔راحیل،،، وہ دھڑکتے دل کے ساتھ بولی
ایک بار پھر سے لو میرا نام،،، راحیل نے کہا
راحی۔۔۔ اس سے پہلے وہ اس کے لفظوں پر جھکا،،،
شہزادی سختی سے آنکھیں بند کیے ہوئے تھی راحیل نے اسے لیٹایا اور اس کی گردن پر اپنا لمس چھوڑنے لگا
ر۔۔راحیل،،،
اس کی پکار کا راحیل پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ اپنے کام میں جاری رہا،،،
راحیل رک جائیں،،، وہ ایک بار پھر سے بولی تو راحیل نے اپنا چہرہ اس کے مقابل کیا
کیوں تمہیں میرا چھونا اچھا نہیں لگتا کیا،،، وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا بولا
ا۔۔ایسی بات نہیں ہے
تو پھر کیسی بات ہے،،، راحیل نے کہا
یہ سب ٹھیک نہیں ہے ش۔۔شادی سے پہلے،،، وہ شرم سے نظریں جھکائے بولی
جانتا ہوں ٹھیک نہیں لیکن دل کے ہاتھوں مجبور کر چھوا تمہیں اور اگر تمہیں اچھا نہیں لگتا تو آئندہ احتیاط کروں گا،،، وہ اس سے الگ ہو کر لیٹا
آ۔۔آپ غلط سمجھ رہے ہیں،،، شہزادی کو لگا وہ اس سے ناراض ہو گیا ہے
پریشان مت ہو ناراض نہیں میں،،، وہ سرد لہجے میں بولا
شہزادی نے اپنے نرم ہاتھوں سے اس کے چہرے کا رخ اپنی طرف کیا اور اس کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھے،،،
راحیل نے اسے کمر سے جکڑا اور اپنے اوپر ہاوی کیا
آٹھ بج چکے تھے اور گھر والوں میں سے ابھی تک کوئی نہیں اٹھا تھا،،،
باقی تو ٹیبلیٹس کے زیرِاثر سو رہے تھے اور شہزادی پوری رات راحیل کے ساتھ باتیں کرنے کی وجہ سے سو رہی تھی،،،
ارسم کی آنکھ کھلی تو اس نے ٹائم دیکھا،،،
اتنا ٹائم ہو گیا،،، اس نے خود کلامی کی اور سائیڈ پر دیکھا تو مریم سو رہی تھی پہلے وہ اسے جگانے لگا پھر کچھ سوچتے ہوئے اٹھ کر واش روم چلا گیا،،،
فریش ہونے کے بعد وہ ریڈی ہو کر نیچے جانے لگا جب اس کا دل مریم کی طرف کھینچا،،،
اس نے مریم کی طرف قدم اٹھائے اس کے پاس جا کر کچھ دیر تک اس کے بے داغ اور معصوم چہرے کو دیکھتا رہا،،،
جب سے وہ مریم سے ناراض تھا اسے ایک پل بھی سکون میسر نہیں ہوا تھا لیکن اسے اس بات کا احساس دلانا بھی ضروری تھا کہ وہ انجانے میں کتنی بڑی غلطی کر چکی ہے،،،
وہ پاس بیٹھ کر اس کی سرخ نرم رخساروں کو سہلانے لگا جب اپنے اوپر کسی کا لمس محسوس کر کے مریم نیند سے بیدار ہوئی،،،
ا۔۔ارسم،،، مریم نیند سے چور آواز میں بولی
وہ بے یقینی سے ارسم کے چہرے کو ہاتھ لگانے لگی کیوں کہ اسے محسوس ہو رہا تھا جیسے یہ کوئی خواب ہے اسی لیے ارسم اس کے پاس بیٹھا اسے دیکھ رہا ہے،،،
ارسم نے اس کا ہاتھ پکڑ لب رکھے جب مریم کو یقین ہو گیا یہ خواب نہیں حقیقت ہے تو وہ تیزی سے اٹھ کر بیٹھی،،،
ا۔۔ارسم مجھے معاف کر دیں پلیز م۔۔میں آپ کی ناراضگی برداشت نہیں کر سکتی میرے لیے اس سے زیادہ تکلیف دہ چیز اور کچھ نہیں ہے پلیز مجھے معاف کر دیں،،، وہ اس کے سینے سے لگی ہچکیوں سے رو رہی تھی
ارسم اس کے بالوں کو سہلانے لگا جس سے مریم نے سکون سے آنکھیں موند لیں،،،
میں تم سے ناراض تھا ہی کب میری جان ابو جان اور تایا جان کی اتنی ہی زندگی لکھی گئی تھی،،،
میں تو بس تمہیں احساس دلانا چاہتا تھا کہ تمہارے لیے میری کیا اہمیت ہونی چاہیے اتنی بڑی بات تمہیں سب سے پہلے مجھے بتانی چاہیے تھی،،، وہ اس کے بالوں کو سہلاتا بول رہا تھا
مجھ سے غلطی ہو گئی پلیز مجھے معاف کر دیں م۔۔میں آئندہ آپ سے کچھ نہیں چھپاؤں گی میں وعدہ کرتی ہوں،،،
میں نے تمہیں معاف کیا چلو اب رونا بند کرو،،، اس نے مریم کو خود سے الگ کر کے اس کے آنسوؤں کو صاف کیا
یہ کیا آپ تیار ہو گیے اور میں سوئی رہی،،، مریم اسے تیار دیکھ کر حیران ہوئی
ہاں آج ہم دیر تک سوتے رہے ہیں آٹھ تیس ہو گئے ہیں،،، ارسم نے واچ سے ٹائم دیکھتے ہوئے کہا
کیا اتنا ٹائم ہو گیا میں اتنی دیر سوتی رہی ہوں،،، مریم گلے میں دوپٹہ پہنے تیزی سے اٹھی،،،
میں نیچے جا رہا ہوں تم جلدی آجاؤ مجھے پہلے ہی لیٹ ہو چکی ہے،،،
جی میں بس ابھی آتی ہوں آپ جائیں،،، مریم واش روم میں جاتے ہوئے بولی
ارسم نیچے آیا تو سناٹا چھایا تھا وہ حیران ہوا کہ اس وقت تو پورا گھر جاگ جاتا ہے تو آج ایسا کیا ہو گیا،،،
وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا جب عقیلہ تیزی سے اندر داخل ہوئی،،،
معذرت صاحب جی آج سے پہلے کبھی مجھ سے ایسی غلطی نہیں ہوئی آج پتہ نہیں کیوں میں اور شفیق دونوں ہی سوئے رہے ہیں،،،
ارسم اس کی بات سن کر سوچ میں پڑ گیا کہ سب گھر والے ہی ایسے کیسے سو سکتے ہیں،،،
آپ بیٹھیں میں ابھی ناشتہ بنا کر لاتی ہوں،،، وہ کچن میں چلی گئی اور ارسم کرسی پر بیٹھا
شہزادی اٹھ جاؤ کب تک سونا ہے،،، مریم نے شہزادی پر سے کمبل اٹھاتے ہوئے کہا
آپی سونے دو نا،،، شہزادی غنودگی بھری آواز سے بولی
آج پتہ نہیں کیا ہے سب ہی اتنی لیٹ اٹھے ہیں اور تم ہو کہ ابھی تک نہیں اٹھ رہی دس بج گئے ہیں،،، مریم کی بات سن کر شہزادی نے آنکھیں کھولیں اور اسے کل رات کی سبھی باتیں یاد آنے لگیں
اٹھ جاؤ شاباش اور ناشتہ بھی کر لو سب نے کر لیا ہے،،، مریم کمرے سے باہر چلی گئی
شہزادی نے بیٹھ کر بالوں کو سمیٹا اور سوچنے لگی کہ کسی کو شک کا ہوا ہو کیوں کہ گھر کے سبھی افراد ہی دیر تک سوئے تھے،،،
عنائزہ نے ڈائری رکھی اور لمپ آف کیے لیٹ گئی،،،
صبح سنڈے تھا اس کا سارا دن روحان کے ساتھ گزرا کبھی اس کے ساتھ گیمز کھیلتی کبھی ککنگ کرتی اور کبھی وہ لان میں بیٹھ کر باتیں کرتے،،،
رات کے وقت اس نے سٹڈی کی اور صبح یونی کے لیے اسائینمینٹ تیار کی،،،
آج منڈے تھا اور وہ یونی جانے کے لیے ریڈی تھی،،،
آج میں خود ڈرائیو کروں گی،،، شفیق ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا جب عنائزہ نے اسے کہا
لیکن بیگم صاحبہ سنسان راستہ ہے آپ کو
اکیلے نہیں جانا چاہیے،،، شفیق فکر مند ہوا
کچھ نہیں ہوتا میں کر لوں گی،،،
شفیق باہر نکلا اور عنائزہ نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے گاڑی گیٹ سے باہر نکالی،،،
بیس منٹ بعد وہ یونی پہنچ چکی تھی،،،
ہائے لیلہ،،، وہ کلاس روم میں لیلہ کے ساتھ بیٹھ
Hi anaiza, how's the holidays?
That was too much good i really enjoyed.
عنائزہ کے مسکراتے ہوئے لیلہ کی بات کا جواب دیا،،،
اور تم نے ان دو دنوں میں کیا کیا،،، عنائزہ نے پوچھا
فرسٹ ڈے تو روم میٹس کے ساتھ ہی انجوائے کیا اور سیکنڈ ڈے ہم باہر گھومنے گئے تھے،،،
نائس اور تم پاکستان گھر والوں سے کب ملنے جاؤ گی،،،
ایگزامز کلیئر کر کے ہی جاؤں گی،،،
پھر تو کچھ ماہ لگ جائیں گے،،، عنائزہ نے کہا
کیوں تم مجھے یہاں سے نکالنے کے چکروں میں ہو،،، لیلہ نے ہنستے ہوئے کہا
ارے نہیں یار میں بھلا ایسا کیوں کروں گی بس میرا بھی دل چاہ رہا تھا پاکستان جاؤں اس مٹی کی خوشبو سونگھے بہت دیر ہو گئی ہے،،، عنائزہ نے ٹھنڈی سانس لیتے ہوئے کہا
ہاں یہ تو تم ٹھیک کہہ رہی ہو اپنے ملک سے بڑھ کر اور کچھ نہیں ہوتا جو جوشی اپنے ملک میں رہ کر ملتی ہے وہ کہیں بھی نہیں مل سکتی یہاں تو چار دن کی روشنی پھر اندھیری رات والی بات ہوتی ہے،،،
بلکل صحیح کہہ رہی ہو لیلہ،،،
تبھی کلاس میں میم انٹر ہوئی اور وہ دونوں خاموشی سے لیکچر لینے لگیں،،،
فری پریڈ میں وہ دونوں گراؤنڈ میں بینچ پر بیٹھی تھیں جب عنائزہ بولی،،،
چلو یار آج تو بھوک لگ رہی ہے کیفے چلتے ہیں،،،
کیوں تم ناشتہ نہیں کر کے آئی،،، لیلہ نے پوچھا
کر کے آئی ہوں پتہ نہیں کیوں پھر سے لگ گئی بھوک اب اٹھو بھی،،، عنائزہ نے اٹھ کر بیگ سمبھالا
اوکے یار اٹھ رہی ہوں صبر تو کرو،،، لیلہ کھڑی ہوئی اور وہ دونوں کیفے کی طرف چل پڑیں
کیا کھاؤ گی تم،،، لیلہ نے پوچھا
برگر کھاؤں گی بہت عرصہ ہو گیا نہیں کھایا کالج میں دوستوں کے ساتھ بہت کھاتی تھی،،،
موٹی تو پھر بھی نہیں ہوئی،،، لیلہ نے عنائزہ کو اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے کہا
میں جتنا مرضی کھا لوں موٹی نہیں ہوتی،،،
اور ایک میں ہوں یار سونگھ سونگھ کر کھاتی ہوں کیوں کہ میں موٹی بہت جلدی ہو جاتی ہوں ،،،عنائزہ کی بات سن کر لیلہ نے ٹھنڈی سانس لی
ہاہا کوئی بات نہیں چار دن کی زندگی ہے خوب جی بھر کے کھایا کرو سمارٹ رہ کر کونسا انعام مل جانا ہے،،، عنائزہ نے ہنستے ہوئے کہا
چلو آج تمہارے ساتھ برگر کھاتی ہوں میں نے بھی آخری بار نہ جانے کب کھایا تھا،،،
ان دونوں نے برگر لے کر ایک ٹیبل سمبھالا،،،
واؤ یار یہ تو بہت ٹیسٹی ہے،،، لیلہ نے بڑا سا بائٹ لے کر کہا
ہاں یہاں کا تو واقع ہی بہت ٹیسٹی ہے،،، عنائزہ برگر سے بھرے منہ کے ساتھ بمشکل بول رہی تھی
کچھ دیر تک وہ دونوں آرام سے برگر کھانے میں مصروف رہیں جب ایڈورڈ آیا اور عنائزہ کا بازو پکڑے اسے زبردستی اپنے ساتھ چلنے پر مجبور کرنے لگا،،،
عنائزہ کا منہ برگر سے بھرا ہوا تھا جس وجہ سے وہ ایڈورڈ کو کچھ کہہ نہ سکی اس نے رکنے کی کوشش کی جو کہ ایڈورڈ نے ناکام کر دی،،،
عنائزہ نے پیچھے مڑ کر لیلہ کی طرف دیکھا تو وہ پریشان نظروں سے اسے ہی دیکھ رہی تھی،،،
جب تک عنائزہ بولنے کے قابل ہوئی تب تک وہ اسے ایک خالی جگہ پر لے آیا تھا،،،
Hey are you mad?
عنائزہ غصے سے چلائی،،،
کون تھا وہ،،، ایڈورڈ انگریزی لہجے میں اردو بولا تو عنائزہ منہ کھولے اس گورے کی طرف دیکھنے لگی
میں نے پوچھا کون تھا وہ،،، اس نے اپنی بات دوہرائی
تمہیں اردو آتی ہے،،، بے دھیانی سے عنائزہ کے منہ سے نکلا
یہ میری بات کا جواب نہیں ہے،،، ایڈورڈ نے اس کا بازو دبایا
اوئے چھوڑو میرا بازو تم ہوتے کون ہو مجھ سے سوال جواب کرنے والے،،، عنائزہ نے اس کا ہاتھ جھٹکا
میرے ساتھ تو بات کرنے میں بھی تمہیں مسئلہ ہے اور اس کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی،،، وہ اپنے انگریزی لہجے میں نہایت غصے سے بول رہا تھا
میں کس کے ساتھ ہنس کر بات کرتی ہوں کس کے ساتھ رو کر یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے سنا تم نے اب جا رہی ہوں میں،،، وہ جانے لگی جب ایڈورڈ نے اسے پھر سے پکڑا
Edward leave me otherwise it will not be good.
عنائزہ حلق کے بل چلائی تو ایڈورڈ نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا،،،
وہ مزید ایک سیکنڈ ضائع کیے بغیر کمرے سے نکل گئی اقر ایڈورڈ اس کے باریک ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھری کیوں کہ عنائزہ نے اس کا نام پکارا تھا،،،
جاری ہے
نوٹ:
آئی ڈی فالو لازمی کر دیں تاکہ میری ہر آنے والی نئی پوسٹ کا نوٹیفیکیشن آپ کو ملتا رہے شکریہ
Rohan and anaiza special
کیا ہوا کیا کہا اس نے،،، عنائزہ جیسے ہی واپس کیفے میں آئی تو لیلہ نے پوچھا
چلو ابھی اٹھو یہاں سے،،، عنائزہ نے چئیر سے اپنا بیگ اٹھاتے ہوئے کہا
ارے لیکن ہوا کیا ہے یہ تو بتاؤ،،، وہ بھی اپنا بیگ سمبھالے اس کے ساتھ چلنے لگی
کسی جگہ بیٹھ کر بتاتی ہوں صبر تو رکھو،،، وہ دونوں ایک بینچ پر بیٹھیں لیلہ سننے کو بے چین تھی کہ ایڈورڈ نے اسے کیا کہا
تم ایڈورڈ کے بارے میں کتنا جانتی ہو،،، عنائزہ نے پوچھا
یہی کہ اس کے ڈیڈ یونی کے پرنسپل ہیں اور وہ نیو یارک کا رہائشی ہے اور لڑکیوں کے ساتھ ٹائم پاس کرتا ہے،،،
ڈفر اتنا تو میں بھی جانتی ہوں کچھ ایسا جو تم نے پہلے مجھے نہ بتایا ہو،،،
نہیں ایسا تو کچھ نہیں،،، لیلہ نے سوچتے ہوئے کہا
اوکے اس کا مطلب مجھے اس کے بارے میں انفارمیشن لینی ہو گی،،، عنائزہ نے کہا تو لیلہ کو حیرت ہوئی
کیوں ایسا کیا ہے جو تم جاننا چاہتی ہو،،، لیلہ کو تجسس ہوا
اس نے آج میرے ساتھ اردو میں بات کی ہے،،،
واٹ،،، یہ کیسے ہو سکتا ہے اسے اردو کیسے آسکتی ہے انپاسبل،،، لیلہ کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا
اسی لیے تو میں تم سے پوچھ رہی تھی کہ تم اس کے بارے میں اور کیا کیا جانتی ہو کیوں کہ وہ اردو بول بھی رہا تھا اور میں جو کہتی تھی وہ سمجھ بھی رہا تھا،،،
لیکن یار وہ تو یہاں پیدا ہوا یہاں بڑا ہوا پھر ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ اسے اردو آتی ہو اور تم نے اسے کچھ کہا نہیں،،،
میں نے پوچھا تھا لیکن اس نے بتایا نہیں،،،
ویسے عنائزہ میں نے تم سے ایک بات چھپائی ہے اس کے بارے میں،،، لیلہ نظریں چراتے ہوئے بولی
کیا۔۔۔ کیا چھپایا ہے تم نے،،،
وہ یہ کہ اسے پاکستانی بلکل بھی نہیں پسند اور اسی وجہ سے میں نے کبھی اس سے بات تک نہیں کہ کہیں وہ مجھے کچھ کہہ نہ دے۔۔۔ اور میں جانتی تھی وہ میرے ساتھ وہ کام نہیں کرے گا جو دوسری لڑکیوں کے ساتھ کرتا ہے کیوں کہ میں پاکستان سے ہوں۔۔۔
لیکن یار تم میں اس نے پتہ نہیں کیا دیکھا جو تمہاری پہلی جرأت کو بھی اگنور کر دیا اور اب یوں سب کے سامنے تمہارا ہاتھ پکڑ کر تمہیں لے گیا،،،
کیا اگر ایسا ہے تو واقع ہی وہ میرے پیچھے کیوں پڑا ہے کہیں وہ مجھ سے بدلا تو نہیں لینا چاہتا اس تھپڑ کا جو میں نے اسے مارا تھا،،، عنائزہ نے کہا
کوئی پتہ نہیں یار بس اس سے بچ کے رہو یہ سر پھرا کچھ بھی کر سکتا ہے،،،
تم پریشان مت ہو میں کوئی بزدل لڑکی نہیں جس کے ساتھ کوئی بھی لڑکا ہاتھ صاف کر جائے گا میرا نام بھی عنائزہ ہے تم دیکھنا میں اسے کیسا سبق سیکھاتی ہوں ابھی بس مجھے یہ پتہ لگانا ہے کہ اسے پاکستانی کیوں نہیں پسند،،،
میں تو کہتی ہوں کہ رہنے دو کیا کرنا اس کے بارے میں انفارمیشن لے کر دفع کرو یار،،، لیلہ پریشان ہونے لگی
تم اتنا ڈرتی کیوں ہو خود کو مظبوت کرو یہ زمانہ نہیں لڑکیوں کے ڈرنے کا،،، عنائزہ نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
بھئی میں تو یہاں پڑھنے آئی ہوں میں ہاسٹل میں رہتی ہوں میری فیملی پاکستان میں ہے ان سے اتنی دور میں یہاں جو کرنے آئی ہوں صرف اسی پر فوکس دوں گی،،،
اوکے بابا میں تمہیں نہیں کہتی ایڈورڈ کے بارے میں انفارمیشن لینے کو ٹینشن مت لو یہ کام میں خود ہی کروں گی،،،
لیکن عنائزہ میں چاہتی ہوں تم بھی ان چکروں میں مت پڑو،،،
افف یار اب چپ۔۔۔ بہت ڈرتی ہو تم
چلو اٹھو لیکچر کا ٹائم ہو گیا ہے اور ہمارے برگر تو وہیں رہ گئے،،، عنائزہ نے اٹھتے ہوئے کہا
ہاں بھوک تو میری بھی ختم نہیں ہوئی چلو کوئی بات نہیں صبح کھا لیں گے،،، لیلہ کہتی ہوئی اس کے ساتھ چلنے لگی
روحان روٹین وائیز ٹی۔وی پر رومانٹک موویز دیکھتا تھا،،،
اور اس نے جم کا سارا سامان گھر ڈیلیور کروا لیا تھا،،،
ایک روم میں وہ سارا سامان فٹ کروا کے رکھا اور روز جم کرتا پھر اس روم کو لاک لگا دیتا تا کہ عنائزہ نہ دیکھ سکے،،،
وقت کے ساتھ ساتھ اس کا جسم مظبوط ہونے لگا تھا،،،
آج مووی دیکھ کر پھر معمول سے زیادہ وقت تین گھنٹے تک جم کرنے کے بعد وہ تھک کر کمرے میں آیا اور فریش ہونے کے لیے واش روم چلا گیا،،،
عنائزہ گھر واپس آئی اور روحان کو بستر پہ لیٹے پایا،،،
آج کیا ہو گیا جو بستر پر لیٹے ہو،،، وہ بیگ رکھتی ہوئی اس کے سینے پہ سر رکھے پاؤں بیڈ سے لٹکا کر لیٹ گئی،،،
آ گئی تم،،، روحان نے آنکھیں کھول کر اس کی طرف دیکھا
نہیں میری روح آئی ہے،،، وہ قہقہ لگاتے ہوئے بولی
مذاق نہیں کرو،،، روحان معصوم سا منہ بنا کر بولا
ہائے یہ معصومیت،،، وہ اس کے رخسار کو کھینچتی ہوئی بولی
آئی کیا کر رہی ہو جنگلی بلیوں جیسی حرکتیں کر رہی ہو،،، روحان درد ہونے پر چلّا اٹھا
ہاہاہا ابھی تو تم شکر کرو میں نے جب سے یونی سٹارٹ کی ہے تمہیں بخشا ہوا ہے ورنہ تمہیں میرا پتہ ہے نا،،، اس نے سیدھا ہو کر چہرہ روحان کے چہرے کے مقابل کیا
ورنہ کیا،،، روحان نے پوچھا
عنائزہ ابھی اسے دیکھ ہی رہی تھی جب روحان نے اس کی گردن میں بازو ڈال کر اسے خود پر جھکایا اور اس کے ہونٹوں کو گرفت میں لیا،،،
عنائزہ آنکھیں پھاڑے ہوئے سکتے کی حالت میں چلی گئی اس نے ہرگز بھی نہیں سوچا تھا کہ روحان کا یہ ردِعمل ہو گا،،،
وہ اس سے الگ ہونے لگی تو روحان نے دوسرا ہاتھ اس کی کمر میں ڈال لیا، عنائزہ منہ سے دبی دبی آوازیں نکالتے ہوئے اسے کہنا چاہ رہی تھی کہ چھوڑو مجھے،،،
کچھ دیر بعد روحان نے اسے چھوڑا تو وہ لمبے لمبے سانس لیتی ہوئی حیران اور پریشان نظروں سے روحان کو دیکھنے لگی،،،
روحان نہایت سکون سے اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ رہا تھا جب عنائزہ کے چہرے پر حیا کے رنگ بکھرے،،،
عنائزہ کا یہ روپ دیکھ کر روحان کے ہونٹ کا تل مسکرایا،،،
ت۔۔تم ہوش میں تو ہو پی وی تو نہیں لی،،، عنائزہ کو ابھی بھی یقین نہیں آرہا تھا کہ کچھ دیر پہلے جو ہوا ہے روحان نے کہا ہے
پھر سے بتاؤں ہوش میں ہوں کہ نہیں،،، وہ اس کی طرف ہاتھ بڑھانے لگا کہ وہ فوراً اٹھ کر بیٹھی
اس خلافِ توقع عمل پر عنائزہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کہے اور کیا نہ کہے،،،
فریش ہو جاؤ پھر لنچ کریں گے،،، روحان نے کہا اور عنائزہ حیرت زدہ سی اٹھ کر واش روم چلی گئی
روحان نے دیکھا کہ وہ کپڑے لینا بھول رہی ہے لیکن چپ کر کے بیٹھا رہا کہ خود ہی اسے آواز لگائے گی،،،
فریش ہونے کے بعد جب عنائزہ کپڑے پہننے لگی تو آگے کچھ تھا ہی نہیں پھر اسے یاد آیا کہ وہ جب سکتے کی حالت میں واش روم آئی تو کپڑے لینا بھول گئی،،،
روحان نے آج اچانک جو کیا تھا وہ تو اس کے ہوش اڑا گیا تھا پہلے وہ جانتی تھی کہ وہ شرما جاتا ہے کچھ نہیں کرے گا اس لیے اسے ہر وقت رومانس کے ٹاپک پر تنگ کرتی رہتی تھی،،،
اففف روحان سے ہی کہنا پڑے گا اور تو کوئی آپشن نہیں ہے،،، وہ خود کلامی کرتی ہوئی دروازے کی طرف بڑھی
روحان،،،
وہ جو صوفے پر بیٹھا اس کی پکار کا انتظار کر رہا تھا فوراً بولا،،،
ہاں کیا ہوا،،،
وہ میں اپنے کپڑے لینا بھول گئی ہوں تم وارڈ ڈروب سے نکال کے دے دو گے،،، وہ یہ کہتی ہوئی ہچکچا رہی تھی کیوں نے آج اس نے روحان کا نیا روپ جو دیکھا تھا
وہ اٹھا وارڈ ڈروب کی طرف چل کر بنا کپڑے نکالے واپس آیا،،،
یہ لو کپڑے،،،
عنائزہ نے جیسے ہی دروازہ کھول کر ہاتھ آگے بڑھایا وہ دروازہ دھکیلتا ہوا اندر داخل ہوا،،،
عنائزہ کے پیروں تلے زمین نکلی اور سر پر ساتوں آسمان آ گرے اسے لگا وہ ابھی بے ہوش ہو کر زمین بوس ہو جائے گی،،،
روحان کھڑا اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھ رہا تھا جب اگلے پل ہوش آنے پر واش سے کمرہ اور کمرے سے باہر تک عنائزہ کی چینخوں نے شور مچایا،،،
وہ آنکھیں بند کیے مسلسل چلّا رہی تھی کہ روحان نے فوراً آگے بڑھ کر اس کے منہ پر اپنا ہاتھ رکھا،،،
آج عنائزہ کو اس کا نرم ہاتھ سخت سا محسوس ہوا جو کہ یقیناً جم کا اثر تھا،،،
عنائزہ کا دل باہر سینے سے باہر نکلنے کو تھا وہ ایسی حالت میں روحان کے سامنے تھی جو کہ یقیناً اس کے لیے ڈھیروں شرم کا باعث تھی،،،
روحان نے دوسرے ہاتھ سے ٹاول پکڑا اور اس کے ارد گرد لپیٹ اسے باہوں میں اٹھا لیا،،،
آج پہلی بار روحان کے سامنے اس کی بولتی بند ہوئی تھی یا شاید اس کی بولتی بولنا ہی بھول گئی تھی،،،
چینخوں کی آواز سن کر عقیلہ ان کے کمرے کی طرف بھاگی اس نے ڈور ناک کیا،،،
کون ہے،،، روحان نے اسے بیڈ پر لیٹاتے ہوئے پوچھا
روحان بابا خیر تو ہے نا بیگم صاحبہ چلّا رہی تھیں،،،
ہاں سب خیر ہے،،، اس نے کہا تو عقیلہ اچھا کہتی ہوئی واپس مڑ گئی
اس نے پھر سے اپنا رخ اس کی طرف کیا جو شرم سے پانی پانی ہو رہی تھی روحان یہ منظر دیکھ کر بہت لطف اندوز ہو رہا تھا جیسے کہ کبھی عنائزہ ہوا کرتی تھی،،،
تو کروں پھر بڑوں والے کام،،، روحان اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا
ت۔۔تم کیا کرتے ہو میرے بعد ا۔۔تنی ہمت کہاں ہے آئی،،، وہ آنکھیں پھیلائے پوچھ رہی تھی
تمہیں ہمت سے کیا مطلب تمہیں تو کام سے غرض ہونی چاہیے،،، روحان اسے آنکھ مار کر بولا
اس کے ایسا کرنے پر عنائزہ نے تین سے چار بار پلکیں جھپکائیں اس کی یہ ادا روحان کے دل کو بہت بھائی،،،
ہ۔۔ہٹو پیچھے مجھے کپڑے پہننے ہیں،،، وہ اسے کندھے سے پیچھے دھکیلتی ہوئی بولی
کہو تو میں پہنا دوں،،،
روحان کی بات سن کر عنائزہ نے شرم سے لب بھینچے،،،
نہیں میں خود پہنوں گی،،،
اوکے میں پہناتا ہوں،،، وہ کہتا ہوا وارڈ ڈروب کی جانب گیا اور گرین کلر کا سوٹ نکالے واپس آیا
د۔۔دو میں خود پہنوں گی،،، روحان کے بدلے تیور دیکھ کر اس کی زبان لڑکھڑا رہی تھی
ششش۔۔۔۔ اس نے عنائزہ کے ہونٹوں پر انگلی رکھی
میں خود پہناؤں گا،،،
بلکل نہیں ہٹو پیچھے بے شرم،،، وہ اسے دھکا دیتے ہوئے اٹھی اور اس کے ہاتھ سے کپڑے چھین کر واش روم بھاگ گئی،،،
آج رات تمہیں سونے نہیں دوں گا،،، عنائزہ دروازہ بند کرنے لگی تو روحان کی آواز اس کی سماعت میں پڑی،،،
اففف یہ کیا ہو گیا ہے روحان کو اتنا بے شرم وہ بھی اتنا اچانک یہ کیسے ہو سکتا ہے اوہ کہیں میں کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہی،،،
آؤچ۔۔۔۔اس نے خود کو چٹکی کاٹی
یہ تو حقیقت ہی ہے لیکن مجھے یقین کیوں نہیں آرہا،،، وہ مرر کے سامنے کھڑی ہو کر خود کو دیکھنے لگی
کیوں عنائزہ کدھر گئی تمہاری بے شرمی اور بے حیائی، تم ہی تنگ کرتی تھی نا اس کو، بڑوں والے کام کرنے کا کہتی تھی کبھی بچے پیدا کرنے کا کہتی تھی اب تمہارا کیا ہو گا وہ تو واقع ہی بڑا ہو گیا اور سچ میں جیسے اس کے ارادے لگ رہے ہیں چار پانچ بچے تو پیدا کروا کے ہی چھوڑے گا،،،
اووووہ اب میں کیا کروں،،، وہ سر پکڑتے ہوئے نیچے بیٹھی


وہ فریش ہو کر نکلی تو روحان کمرے میں نہیں تھا اس نے شکر ادا کیا اور بال ڈرائے کرنے کے بعد نیچے چلی گئی،،،
وہ ٹیبل کے پاس بیٹھا اس کا ویٹ کر رہا تھا عقیلہ نے لنچ ٹیبل پر لگایا ہوا تھا،،،
عنائزہ نے روحان کی طرف دیکھنے کی جراًت نہیں کی تھی وہ آرام سے کھانا کھانے لگی،،،
کھانا ختم کرنے کے بعد وہ سٹڈی روم میں چلی گئی اور شام تک سٹڈی کرتی رہی،،،
جیسے ہی شام ہوئی عنائزہ کو روحان کی بات بار بار یاد آنے لگی "آج رات تمہیں سونے نہیں دوں گا"،،،
وہ ماتھا تھام کر بیٹھ گئی،،،
روحان جان بوجھ کر دوبارہ عنائزہ کے پاس نہیں گیا تھا تا کہ اسے ٹائم دے سکے ذہن کو ریلیکس کرنے کا،،،
ڈنر تیار ہونے پر اس نے عقیلہ سے کہہ کر عنائزہ کو بلوایا،،،
عقیلہ عنائزہ کو کہنے آئی اور عنائزہ اپنے کندھے دباتی ہوئی اٹھی جو کہ کچھ گھنٹے مسلسل سٹڈی کی وجہ سے درد کر رہے تھے،،،
وہ لاؤنج میں داخل ہوئی تو کچن کے ایریے میں ٹیبل کے پاس بیٹھے روحان پر نظر پڑی،،،
کچھ دیر تک دونوں نے خاموشی سے ڈنر کیا،،،
عقیلہ نے عنائزہ کو نوٹ کیا اور سوچنے لگی کہ کہاں بیگم صاحبہ اتنا بولتی تھی باتیں کرتی تھی اور آج خاموش بیٹھی ہے،،، خیر اس نے پوچھنا مناسب نہ سمجھا
کھانا ختم ہونے کے بعد روحان کمرے کی طرف چل دیا اور عنائزہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی اس کے پیچھے چلنے لگی،،،
اس کا دل یہ سوچ سوچ کر تیز رفتار سے دھڑک رہا تھا کہ کیا روحان واقع ہی آج کچھ کرنے والا ہے،،،

سیاہ رات ایک سچی کہانی (قسط نمبر 15)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں