سیاہ رات ایک سچی کہانی - آٹھواں حصہ

 

 - سیاہ رات ایک سچی کہانی - آٹھواں حصہ

عنائزہ پورے گھر میں روحان کو آوازیں لگاتی ہوئی ڈھونڈ رہی تھی،،،
روحان کدھر ہو تم،،
بیگم صاحبہ روحان بابا باہر درختوں کے پاس ہیں،،،
اچھا لیکن وہاں کیا کر رہا ہے وہ بھی اکیلا،،،
پتہ نہیں جی،،، عقیلہ نے جواب دیا
ٹھیک ہے تم جاؤ،،، عنائزہ گھر کے باہر درختوں والی جگہ پر آئی جہاں اسے روحان لکڑی کے بینچ پر بیٹھا ہوا دکھائی دیا،،،
روحان میں پورے گھر میں تمہیں ڈھونڈ رہی تھی اور تم ہو کہ مجھے بنا بتائے یہاں بیٹھے ہو،،، عنائزہ اس کے ساتھ بینچ پر بیٹھی
روحان خاموش بیٹھا رہا اس نے عنائزہ کی بات پر کوئی ردعمل نہ دیا،،،
روحان کیا ہوا بات کیوں نہیں کر رہے،،، عنائزہ اس کے قریب ہو کر بیٹھی
کوئی بات پریشان کر رہی ہے کیا،،،

عنائزہ کے سوال پر روحان نے اس کی طرف دیکھ کر نظریں جھکائیں،،،
آج دادو کی بہت یاد آرہی ہے میں ان کی قبر پر جانا چاہتا ہوں،،،
عنائزہ ایک طرف سے اداس ہوئی کہ روحان اپنی دادو کو مس کر رہا ہے دوسری طرف وہ خوش بھی ہوئی کہ آج روحان نے پہلی بار خود باہر جانے کا کہا ہے،،،
تم پریشان مت ہو تمہیں پتہ ہے نا میں تمہیں اداس نہیں دیکھ سکتی ہم ابھی چلتے ہیں ان کی قبر پر ٹھیک ہے،،، عنائزہ نے اس کے نرم رخسار کو انگلیوں سے سہلایا
ایک گھنٹہ بعد وہ اسے قبرستان لے آئی تھی سنسان راستے کی وجہ سے روحان کو کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوئی تھی وہ دونوں گاڑی سے نکل کر قبرسان کے اندر داخل ہوئے،،،

قبروں پر نام پڑھتے ہوئے اور کچھ عقیلہ نے سمجھایا تھا جس وجہ سے انہیں جلد ہی دردانہ بیگم کی قبر مل گئی تھی،،،
روحان اپنی دادو کی قبر دیکھ کر رونے لگا تھا اور زمین پر بیٹھ گیا،،،
عنائزہ نے کچھ دیر تک اسے رونے دیا تا کہ وہ دل کا بوجھ ہلکا کر سکے پھر اسے کندھوں سے پکڑ کر کھڑا کیا،،،
بس روحان اب میں تمہیں اور روتا ہوا نہیں دیکھ سکتی،، اس نے ہاتھ سے روحان کے آنسو صاف کیے،،،
عنائزہ نے اس کا ہاتھ پکڑا،، تم اکیلے نہیں ہو میں ہوں تمہارے ساتھ اور ہمیشہ تمہارے ساتھ ہی رہوں گی،،،

روحان کچھ دیر اس کی طرف دیکھتا رہا اگلے ہی پل وہ اس کے گلے سے لگ گیا،،،
عنائزہ نے اس کے گرد بازوؤں سے باڑ کی،،،
کچھ دیر وہ دونوں یوں ہی کھڑے رہے پھر عنائزہ نے اسے کندھوں سے پکڑ کر الگ کیا،،،
اب یہ کیوٹ سا فیس جو لٹکایا ہوا ہے سیدھا کرو اسے،،، وہ مسکراتی ہوئی بولی
روحان بھی اس کی بات پر ہلکا سا مسکرایا دیا،،،
چلو تمہیں کہیں لے کر جاتی ہوں،،،
کہاں،، روحان نے پوچھا
سرپرائز،،، عنائزہ نے مسکرا کر کہا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر گاڑی کی طرف چلنے لگی،،،

روحان اپنی آنکھیں بند کرو،،، آدھا گھنٹہ ڈرائیو کرنے کے بعد عنائزہ نے کہا
روحان نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا،،،
افو روحان آنکھیں بند کرو نا،،،
دوسری بار کہنے پر روحان نے اپنی آنکھیں بند کیں،،،
اب اگر تم نے آنکھیں کھولیں تو اچھا نہیں ہو گا سن لو،،، عنائزہ نے دھمکی لگائی
روحان خاموشی سے اچھے بچوں کی طرح بات مانتے ہوئے آنکھیں بند کیے بیٹھا رہا،،،
عنائزہ نے گاڑی روکی،، باہر مت نکلنا میں خود تمہیں نکالوں گی،،،
ٹھیک ہے،،، روحان نے جواب دیا
عنائزہ گاڑی سے اتر کر روحان والی سائیڈ پر آئی اور دروازہ کھول کر اسے پکڑ کر باہر نکالا،،،

وہ بار بار روحان کی طرف دیکھ رہی تھی کہ کہیں اس نے آنکھیں تو نہیں کھولیں،،،
اس نے روحان کو ایک جگہ کھڑا،،،
چلو اب آنکھیں کھولو،،،
روحان نے اپنی آنکھیں کھولیں تو مبہوت سا اس جگہ کو دیکھتا رہ گیا،،،
دور دور تک پھیلا سمندر تیز ہوائیں جن کی وجہ سے پانی کی ایک کے بعد ایک اٹھتی ہوئی لہر اس منظر کو خوبصورت بنا رہی تھی،،،
یہ بیچ ہے،،، اس نے حیرت سے عنائزہ سے پوچھا
ہاں،، عنائزہ نے روحان کا ہاتھ پکڑا
روحان پھر سے اس منظر کو دیکھنے لگا وہ اپنی زندگی میں پہلی بار بیچ دیکھ رہا تھا،،،
یہ بیچ کی وہ جگہ ہے جہاں لوگ نہیں آتے یہ میں نے آج ہی نیٹ سے سرچ کی ہے،،،

اس کی بات پر روحان نے عنائزہ کی طرف دیکھا،،،
اچھا لگا نا یہاں آکر،،،
روحان نے اثبات میں سر ہلایا،،،
چلو اب شوز اتارو یہاں ننگے پاؤں چلنے کا اپنا ہی مزہ ہے،،،
ان دونوں نے اپنے شوز اتارے اور ریت پر اپنے پاؤں رکھے،،،
دھوپ بھی اچھی خاصی نکلی تھی جس وجہ سے ٹھنڈی ہواؤں کا ان پر خاص اثر نہیں ہو رہا تھا،،،
چلتے ہوئے عنائزہ نے روحان کے ہاتھ کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں پھسائیں،،،
پتہ ہے روحان مجھے شروع سے ہی بہت شوق تھا کہ میں اپنے ہسبینڈ کے ساتھ بیچ پر آؤں گی خوب انجوائے کروں گی،،،
وہاں بھی ہے بیچ،،، روحان نے سوال کیا
ہاں میں کراچی میں رہتی تھی وہاں بھی سمندر ہے بیچ پر بہت سے لوگ انجوائے کرنے آتے تھے،،،
میں بھی بہت بار گئی ہوں کبھی بابا کے ساتھ اور کبھی تانیہ کے ساتھ،،،
اور آج تمہارے ساتھ،،، اس روحان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
آج کا دن میرے لیے بہت سپیشل ہے آج ہم دونوں باہر آئے ہیں انجوائے کر رہے ہیں،،،
تم خوش ہو نا روحان،،،

خوش ہوں،،، روحان مسکرایا
عنائزہ مسلسل باتیں کر رہی تھی مگر روحان اس کی باتیں کم اور اس کی طرف دیکھنے پر زیادہ توجہ دے رہا تھا،،،
تیز ہوا سے عنائزہ کے بال بار بار اس کے چہرے پر آرہے تھے اور وہ انہیں پکڑ کر بار بار پیچھے کر رہی تھی،،،
اس کے بال پھر سے آگے آئے مگر عنائزہ نے انہیں پیچھے نہ کیا اور باتیں کرتی رہی،،،
روحان پہلے تو اس کی طرف دیکھتا رہا پھر خود بہ خود اس کا ہاتھ عنائزہ کی طرف بڑھا،،،
اس نے عنائزہ کے بالوں کو اس کے چہرے سے پیچھے کیا اور اس کی رخسار پر ہاتھ رکھے اسے دیکھنے لگا،،،
عنائزہ کی چلتی زبان کو ایک دم سے بریک لگی،،،
وہ ایک قدم روحان کے قریب آئی روحان اس کی آنکھوں میں دیکھنے لگا،،،
عنائزہ نے اپنا چہرہ روحان کے چہرے کے قریب کیا،،،
وہ روحان کا ردعمل دیکھ رہی تھی روحان اس بار پیچھے نہیں ہوا تھا نہ ہی اس نے اپنا رخ بدلا تھا،،،

عنائزہ دو سیکنڈ اس کے ہونٹوں کو چوم کر پیچھے ہوئی،،،
وہ روحان کی طرف دیکھ رہی تھی روحان آنکھیں بند کیے کھڑا تھا،،،
عنائزہ نے اس کے دھک دھک کرتے دل پر ہاتھ رکھا اور پھر سے اس کے قریب ہوئی،،،
اس نے اپنے ہونٹوں کو پھر سے روحان کے ہونٹوں سے ملایا،،،
کچھ دیر تک اس کی سانسیں اپنے اندر اتارنے کے بعد وہ الگ ہوئی،،،
روحان نے آہستہ سے اپنی آنکھوں کو کھولا مگر عنائزہ سے نظریں نہ ملائیں،،،
عنائزہ نے سر اس کے سینے پر رکھا اور بازوؤں کو اس کے گرد حائل کیا،،،


شام ہونے تک وہ دونوں گھر آگئے تھے،،،
دونوں فریش ہو کر فارغ ہوئے،،،
آج تو مجھے ابھی سے بھوک لگ گئی،،، عنائزہ نے بالوں کو سمیٹتے ہوئے کہا
تمہیں بھوک لگی ہے روحان،،،
روحان نے اثبات میں سر ہلایا،،،
چلو پھر ککنگ میں کروں گی بہت مزے کی ککنگ ہوں میں،،،
اس کی بات پر روحان بس اسے دیکھتا رہا،،،
اچھا تم کیا کھاؤ گے،،،
جو تم کھاؤ گی،،،
میرا تو پاستہ کھانے کا موڈ ہو رہا ہے،،،

میں بھی کھا لوں گا،،،
اچھا تم پھر ویٹ کرو میں ابھی بنا کر لاتی ہوں
عنائزہ کہتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی،،،
وہ کچن میں کھڑی پاستہ بوائل کر رہی تھی جب روحان کچن میں داخل ہوا،،،
ارے تم یہیں آگئے میں آجاتی کچھ دیر تک،،،
روحان خاموشی سے اس کے پاس آکر شیلف سے ٹیک لگائے کھڑا ہو گیا،،،
عنائزہ جان تو گئی تھی کہ روحان کا اب اس کے بغیر گزارا ممکن نہیں لیکن خاموش رہی،،،
جب تک وہ پاستہ بناتی رہی روحان کی ایک سیکنڈ کے لیے بھی اس سے نظر نہیں ہٹی تھی،،،
روحان دل ہی دل میں بے چین ہو رہا تھا کہ عنائزہ اسے توجہ کیوں نہیں دے رہی،،،
پاستہ بن چکا تھا لیکن عنائزہ نے اس کی طرف ایک بار بھی نہ دیکھا اور نہ ہی کوئی بات کی جس کی وجہ سے روحان کا منہ کسی ناراض بچے کی طرح پھول چکا تھا،،،
وہ کچھ کہے بنا کچن سے باہر نکل کر روم میں چلا گیا،،،
عنائزہ اس کی حرکت پر مسکرائی اور پاستہ پلیٹ میں ڈالتی ہوئی کچن سے باہر نکل گئی،،،

وہ کمرے میں داخل ہوئی تو روحان منہ پھلائے بیٹھا تھا، عنائزہ نے اسے دیکھ کر اپنی ہنسی پر بمشکل کنٹرول کیا،،،
ہممم دکھنے میں تو بہت ہی ٹیسٹی لگ رہا ہے،،،
آجاؤ روحان مل کے کھاتے ہیں،،،
روحان خاموش بیٹھا رہا،،،
روحان آجاؤ نا مجھ سے صبر نہیں ہو رہا،،،
مجھے بھوک نہیں ہے،،، اس نے پھولے ہوئے منہ کے ساتھ جواب دیا
عنائزہ کو وہ اس وقت بہت کیوٹ لگ رہا تھا،،،
لیکن تھوڑی دیر پہلے تو تمہیں بھوک لگی تھی نا،،،
لیکن اب نہیں ہے،،، وہ ایک طرف دیکھتا ہوا بول رہا تھا
عنائزہ پیلٹ اٹھائے اس کے پاس بیڈ پر آئی،،،
دیکھو میں ہم دونوں کے لیے ایک ہی پلیٹ میں لائی ہوں،،،
روحان نے ایک نظر پلیٹ کی طرف دیکھا بھوک تو اسے بھی بہت لگ رہی تھی لیکن اپنی ناراضگی کو یاد کرتے ہوئے اس نے پھر سے نظروں کا زاویہ بدلا،،،
روحان کھاؤ نا مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے مگر تم کھانا شروع کرو گے تو میں کھاؤں گی،،،
نہیں کھاؤں گا،،،
ارے میرا بے بی ناراض ہے،،، عنائزہ نے اپنی ہنسی دبائی
بے بی نہیں ہوں میں،،، وہ ناراضگی سے بولا
اچھا تو پھر کیا ہو،،،

بڑا لڑکا ہوں،،، اس نے ابھی تک عنائزہ کی طرف نہیں دیکھا تھا،،،
او ہو تو جناب بڑے لڑکے ہیں،،، عنائزہ نے مسکراتے ہوئے کہا
اس کی بات کا مطلب سمجھتے ہوئے روحان کے کان کھڑے ہوئے،،،
ک۔۔کیا مطلب،،، روحان نے آنکھیں مٹکاتے ہوئے عنائزہ کی طرف دیکھ کر کہا
مطلب وہی جو تم سمجھ رہے ہو،،، وہ ہنسنے لگی
ا۔۔ایسا نہیں ہوں میں،،، وہ شرم سے لال ہوا
اس کا چہرہ دیکھ کر کمرے میں عنائزہ کا قہقہ گونجا،،،
افف میرا ہبی کتنا کیوٹ ہے،،، اس نے روحان کے گال کھینچے
اچھا اب مان جاؤ نا آئندہ اپنے کیوٹ ہبی کو اگنور کر کے تنگ نہیں کروں گی،،،
روحان نے اس کی بات پر کوئی ردعمل نہ دیا،،،
سوری،،، عنائزہ نے روحان کے کان پکڑ کر کہا
اس کی حرکت پر روحان کھلکھلا کر ہنسا عنائزہ مبہوت سی اسے ہنستے ہوئے دیکھتی رہی،،،
روحان نے پاستہ کا سپون عنائزہ کی طرف بڑھایا اس نے مسکراتے ہوئے سپون منہ میں لیا،،،
کچھ دیر تک دونوں نے پلیٹ خالی کر دی تھی،،،
آج مووی دیکھو گے کیا،،،
روحان نے نفی میں سر ہلایا،،،
کیوں،،،
تھکا ہوا ہوں نیند آرہی ہے،،، وہ معصوم سا منہ بنائے بولا
اچھا سو جاؤ،،،

روحان اپنے بستر پر لیٹ گیا،،،
عنائزہ برتن کچن میں رکھ کر آئی اور اپنی جگہ پر آکر بیٹھی،،،
روحان سو چکا تھا عنائزہ نے محبت سے اس کی پیشانی پر لب رکھے،،،
اب اس کا ارادہ ڈائری پڑھنے کا تھا،،،
ماضی
مریم کمرے سے باہر نکلی آس پاس دیکھتے ہوئے اس نے اپنے قدم آگے بڑھائے،،،
وہ ڈر رہی تھی لیکن یہ اس کے لیے سنہری موقع تھا یہاں سے بھاگنے کے لیے اگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی تو اس کے سامنے ایک روشن زندگی تھی اور اگر وہ ناکام ہو گئی تو ہو سکتا ہے ڈیوِل اس کو ساری عمر قید کر کے اس کی زندگی کو سیاہ بنا دے،،،
اپنے دوپٹے کو سمبھالتی ننگے پاؤں وہ حال عبور کر چکی تھی،،، ہواس باختہ حالت میں وہ جوتا پہننا بھی بھول چکی تھی،،،
اب وہ اس راہ داری میں تھی جہاں تقریباً آٹھ کمرے تھے وہ ڈر رہی تھی کہیں ان کمروں میں سے کوئی نکل نہ آئے،،،
بے آواز قدموں سے وہ راہ داری سے گزری،،،
اب اسے بڑے حال سے گزرنا تھا جہاں پچھلی بار بہت سے لڑکے جم کر رہے تھے،،،
وہ اللہ کو یاد کرتی ہوئی آگے بڑھی پورا حال خالی تھا مریم کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا شاید قسمت اس پر مہربان ہونے والی تھی،،،
اس نے ایک بار پیچھے مڑ کر دیکھا اور پھر اپنا رخ آگے کیا،،،
اگلے لمحے وہ حال کے دروازے پر تھی جو کہ پہلے سے ہی کھلا تھا،،،
وہ گھر تھا یا کچھ اور کافی الجھا ہوا اور عجیب قسم کا تھا مریم کو سمجھ نہیں آرہی تھی اب وہ کس رخ بھاگے،،،
یہاں کھلا آسمان نظر آرہا تھا لیکن اس جگہ کا دروازہ اسے نہیں مل رہا تھا،،،
مریم کو وہ کمرہ بھی دکھائی دیا جہاں اسے پہلی بار رکھا گیا تھا،،،
ایک پکڑے جانے کا خوف دوسرا دروازے کا نہ ملنا مریم مزید گھبرانے لگی،،،
اسے کسی کے قدموں کی آواز سنائی دی تو وہ بھاگتی ہوئی ایک دیوار کے پیچھے چھپ گئی،،،

ایک سیاہ لباس والا انسان اندر کی جانب گیا اور ہاتھ میں کلہاڑی لیے واپس آیا،، اسے دیکھ کر مریم کا سانس بند ہونے لگا،،،
وہ اسی جگہ چھپی رہی،،،
کلہاڑی سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ آج بھی کہیں کسی کام کو پورا کرنے جا رہے ہیں،،،
اس کے جانے کے بعد تین آدمی اندر آئے اور کچھ دیر گزرنے تک وہ واپس نہیں آئے جس سے مریم کو شک ہوا کہ وہ شاید اس کی نگرانی کے لیے رکے ہوں اب مریم کا زیادہ دیر یہاں رکنا مناسب نہ تھا اسے جلد از جلد یہاں سے بھاگنا تھا،،،
اس نے تیزی سے باہر کا دروازہ ڈھونڈنا شروع کیا مگر یہاں تو کوئی دروازہ تھا ہی نہیں،،،
وہ اپنے ناکام ہونے پر رونے لگی پتہ نہیں کبھی یہاں سے نکل بھی پائے گی کہ نہیں،،،
ڈھونڈو اسے کہاں گئی ورنہ ڈیوِل ہمیں جان سے مار دے گا،،،
مریم کو ایک لڑکے کی آواز آئی، وہ جلدی سے کھڑی ہوئی،،،
وہ یہاں سے باہر نہیں نکلی ہو گی اسے باہر جانے کا راستہ نہیں پتہ وہ اندر ہی ہے،،، دوسرا لڑکا بولا
مریم چھپنے کے لیے بھاگنے لگی وہاں بہت سے کمرے اور راہ داریاں تھیں مریم کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہاں جائے وہ ایک راہ رادی میں گھس گئی،،،
راہ داری کافی لمبی تھی مریم بس بھاگتی چلی گئی،،،
وہ سانس لینے کے لیے رکی تو اسے دو راستے دکھائی دیے اللہ کو یاد کرتی ہوئی وہ ایک طرف اندر چلی گئی،،،
وہ راستہ بہت تنگ تھا اور نیچے کی طرف جا رہا تھا مریم کو وہاں سے خوف بھی بہت آرہا تھا،،،

جیسے جیسے وہ نیچے کی طرف جا رہی تھی روشنی کم سے کم ہوتی جا رہی تھی،،،
وہ مسلسل اللہ کا ذکر کر رہی تھی وہ راستہ کہیں پر آ کر تو رکنا ہی تھا،،،
دس منٹ اندھیرے میں چلتے رہنے کے بعد مریم کو تھوڑی سی روشنی دکھائی دی اس کے چلنے میں تیزی آنے لگی جیسے امید کی کرن دکھائی دی ہو،،،
وہ اختتام پر پہنچی تو اوپر کی جانب ایک جگہ سے ہلکی ہلکی سی روشنی نظر آرہی تھی،،،
اس نے دھکا لگایا تو لکڑی کا ڈھکن اوپر کی جانب اٹھا مریم نے اسے سائیڈ پر کیا تو اندر کی جگہ روشنی سے نہا گئی،،،
خوشی سے مریم کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگ گئے،،،
وہ باہر نکلی تو عجیب جھاڑیوں جیسا علاقہ تھا مریم نے یہ جگہ پہلے کبھی نہ دیکھی تھی،،،
لیکن وہ وہاں سے بھاگ آئی تھی اب یہاں سے بھاگنا شاید اس کے لیے آسان تھا لیکن "شاید"،،،
مریم اس علاقے کو نہیں جانتی تھی نہ جانے یہ کونسی جگہ تھی وہ پاگلوں کی طرح بس بھاگتی ہی چلی جا رہی تھی،،،
نوکیلی جھاڑیوں کی وجہ سے اس کے کپڑے پھٹ کر جسم خون آلود ہو چکا تھا لیکن اس کو پرواہ کب تھی وہ جلد از جلد یہاں سے نکل کر اپنے گھر جانا چاہتی تھی،،،
مسلسل دو گھنٹے بھاگ لینے کے بعد وہ ایک خشک پیڑ کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھی اس کا حلق خشک ہو چکا تھا اس میں بھاگنے کی اور ہمت نہ تھی،،،
لمبی لمبی جھاڑیوں کی وجہ سے مریم دیکھ بھی نہ سکتی تھی کہ یہ علاقہ کہاں تک ختم ہورہا ہے،،،
اس کو اپنے جسم سے جان جاتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی وہ تھکاوٹ سے بے حال ہو چکی تھی،،،

سورج غروب ہو رہا تھا اندھیرا چھانے لگا تھا مریم نے ہمت پکڑی اور چلنے لگی،،،
ننگے پاؤں کی وجہ سے اس کے پاؤں خون رسنے لگے تھے اور سبز آنکھوں سے آنسو جاری تھے،،،
کچھ دیر چلنے کے بعد مریم کی پریشانی میں اضافہ ہوا کیوں کہ یہ جھاڑیوں کا جنگل تو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا اب یا تو وہ صحیح راستے پر تھی یا راستے سے مزید دور جا رہی تھی،،،
اندھیرا ہو چکا تھا جو مریم کے لیے پریشانی کی سب سے بڑی بات تھی،،،
تن تنہا وہ گھبرائی ہوئی ایک جگہ ٹھہر گئی اس کی دھیمی دھیمی سسکیاں رات کے سناٹے میں ہلکی ہلکی گونج رہی تھیں،،،
وہ نڈھال سی زمین پر بیٹھ گئی اسے بیٹھے ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی جب اسے دور سے روشنی دکھائی دی جیسے ٹارچ کی روشنی ہو،،،
مریم کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا اسے معلوم ہو چکا تھا کہ ڈیوِل کے آدمی اسے ڈھونڈ رہے ہیں اور جس راستے سے وہ نکلی تھی جلدی میں وہ لکڑی کا ڈھکن دوبارہ اپنی جگہ پر رکھنا بھول گئی تھی اگر اس نے یی غلطی نہ کی ہوتی تو شاید ان لوگوں کو پتہ نہ چلتا کہ مریم جھاڑیوں کے جنگل میں ہے،،،
مریم اٹھ کر بھاگنے لگی اندھیرے کی وجہ سے وہ دیکھ نہ پا رہی تھی اور جھاڑیاں اس کے جسم کو مسلسل چیر رہی تھیں،،،

اسے اب ایک نہیں کئی جگہوں سے روشنیاں آتی دکھائی دے رہی تھیں شاید وہ صرف تین نہیں پورا گینگ تھا جو مریم کو ڈھونڈنے نکل پڑا تھا،،،
مریم پیچھے روشنی کی طرف دیکھتی ہوئی بھاگ رہی تھی جب وہ کسی سے ٹکرا گئی رات کے سناٹے میں اس کی چینخ گونج اٹھی،،،
سیاہ لباس میں ایک شخص اس کے سامنے تھا اس کا رخ مریم کی طرف ہی تھا،،،
پ۔۔پلیز مجھے جانے دو س۔۔سب میرے لیے پریشان ہوں گے آپ کو ا۔۔اللہ کا واسطہ ہے مجھے جانے دو،،،
وہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوئی گڑگڑا رہی تھی مگر سامنے والے پر اس کی باتوں کا اثر کہاں تھا،،،
مریم کی چینخ سن کر بہت سے سیاہ لباس والے اشخاص وہاں پہنچ چکے تھے،،،
اب مریم کا یہاں سے بچ کر نکلنا نا ممکن ہو چکا تھا،،،
وہ زمین پر بیٹھی رو رہی تھی جب اس کے سامنے والا شخص اس کے قریب آیا،،،
چلو ہمارے ساتھ ڈیوِل تمہارا انتظار کر رہا ہے،،، وہ سرد آواز میں بولا
ن۔۔نہیں میں واپس نہیں جاؤں گی پلیز مجھ پر رحم کریں،،، وہ اونچی آواز میں رونے لگی تھی
اگر تم آج ڈیوِل کے سامنے نہیں پینچی تو وہ ہر چیز تہس نہس کر کے رکھ دے گا تم نے ابھی ڈیوِل کا اصلی روپ دیکھا نہیں ہے،،، مریم کے پیچھے کھڑا سیاہ لباس والا شخص غصے سے بولا
گھر پہنچنے پر ڈیوِل اسے کیا سزا دے گا یہ سوچ کر مریم کی کن پٹیوں سے پسینہ بہنے لگا،،،

مریم کے نہ اٹھنے پر سامنے والے لڑکے نے آگے بڑھ کر مریم کا بازو سختی سے پکڑا اور اسے کھڑا کیا،،،
وہ تیز تیز قدموں سے چل رہا تھا اور مریم میں اتنی ہمت نہ تھی اگلے ہی پل وہ بے ہوش کو کر زمین پر گر چکی تھی،،،


مریم کو جب ہوش آیا تو بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی اس کا سر درد کی شدت سے پھٹ رہا تھا،،،
ہمت کرتے ہوئے وہ اٹھ کر بیٹھی بے ہوشی سے اٹھنے کی وجہ سے اسے کچھ یاد نہیں آرہا تھا،،،
جیسے جیسے اسے ہوش آتا گیا اسے سب یاد آگیا اس کا یہاں سے بھاگنا اور ناکام ہو جانا،،،
مریم کی اچانک نظر اپنے کپڑوں پر پڑی یہ وہ کپڑے نہ تھے جو مریم نے پہن رکھے تھے،،،
اس کے کپڑے کس نے چینج کیے یہ سوچ کر مریم کے لیے مرنے کا مقام ہو چکا تھا،،،
میرّی،،،
مریم کو ایک طرف سے آواز آئی اس نے جلدی سے اس طرف دیکھا تو ڈیوِل کرسی پر بیٹھا جھول رہا تھا،،،
خوف سے مریم کا جسم کانپنے لگا وہ آنکھیں کھولے ڈیوِل کو دیکھتی رہی،،،
ڈیوِل کرسی سے اٹھ کر بیڈ کی طرف بڑھنے لگا،،،
میرّی کہاں گئی تھی،،، وہ مریم کے بلکل پاس بیٹھ کر بولا
خوف سے مریم کی آواز اس کے حلق میں اٹک گئی،،،
ہمم بولو،،، وہ پھر سے بولا

مریم خاموش بیٹھی رہی وہ اسے کیا جواب دیتی چاہے جو بھی کہتی یہ بات تو ڈیوِل کو معلوم تھی وہ یہاں سے بھاگنے کی کوشش میں نکلی تھی اور اس کی سزا آج اسے ہر حال میں ملنی تھی،،،
ک۔۔کہیں نہیں،،، مریم نے کپکپاتی آواز میں کہا
ڈیوِل کے ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ رونما ہوئی،،،
اس نے مریم کے جھکے چہرے کو ٹھوڑی سے پکڑ کر اوپر کیا،،،
مجھ سے بھاگنا چاہتی ہو میرّی،،،
مریم جواب میں کچھ نہ بولی وہ بس خوفزدہ ہو رہی تھی،،،
کیوں نہ کچھ ایسا کروں کی تمہیں بھاگنے کی ضرورت نہ پڑے،،، وہ سرد آواز میں بولا
م۔۔مجھے معاف کر دیں،،، آنکھوں میں آنسو لیے مریم گڑگڑائی
تمہیں آج معاف کیا تو،،، اس نے مریم کی ایک رخسار سے آنسو صاف کیا
تم کل بھی بھاگنے کی کوشش کرو گی،،، اب اس کے دوسری رخسار سے آنسو صاف کیا تھا
ت۔۔تو آپ م۔۔مجھے سزا دیں گے،،،
بلکل،،، ڈیوِل نے اس کی آنکھوں میں دیکھا
آج تمہاری وجہ سے ہمارا مشن کینسل ہو جانا تھا اب میں تمہیں کسی اور کے بھروسے اکیلا نہیں چھوڑ سکتا اس لیے سب کو وہاں بھیج کر خود تمہارے پاس ہوں اپنی میرّی کے پاس،،،

مریم خوفزدہ آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی،،،
میں نکاح کا انتظار نہیں کر سکتا آج نہیں کل نکاح تو ہو ہی جائے گا ابھی مجھے بس تمہیں اپنا بنانا ہے تا کہ یہاں سے جانے کی تمہارے تمام امیدیں ختم ہو جائیں،،،
ا۔۔ایسا مت کریں پلیز،،، اس کی بات سے مریم مزید رونے لگی
تمہارا خوبصورت جسم تو میں دیکھ ہی چکا ہوں تمہارے ہر زخم پر اپنے ہاتھوں سے مرحم لگائی ہے،،،
اس کی بات پر مریم نے اذیت سے آنکھیں بند کیں،،،
میرا خیال ہے اب تمہیں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے، اس نے مریم کے سنہری بالوں کو گردن سے پیچھے کیا،،،
اپنی بے بسی پر مریم کا دل چاہ رہا تھا چینخ چینخ کر روئے نہ جانے اسے کس گناہ کی سزا مل رہی تھی،،،
ڈیوِل نے اپنے ہونٹ مریم کی گردن پر رکھے، مریم کو اس کے ہونٹ نہیں گرم لوہا محسوس ہو رہا تھا جو اس کے جسم کو پگھلا رہا تھا،،،
گردن کا سفر طے کر کے ڈیوِل اس کی ٹھوڑی کو چومتا ہوا اس کے ہونٹوں تک پہنچا،،،
اس کے لمس میں شدت تھی جیسے واقع ہی وہ مریم کو سزا دے رہا ہو،،،
کچھ دیر بعد وہ پیچھے ہوا تو مریم کا ہونٹ خون رسنے لگا تھا،،،
اس نے اپنے دونوں ہاتھوں میں مریم کا چہرہ لیا اور اس کے آنسو صاف کیے،،،
اس نے نرمی سے مریم کو بیڈ پر لیٹایا اور اس پر ہاوی ہوا،،،
نہیں مریم تم اتنی آسانی سے ہار نہیں مان سکتی یہ گھٹیا شخص اپنے گندے ارادوں میں جیت نہیں سکتا،،،

مریم نے دل میں سوچا اور ایک وقت کے لیے وہ اپنے خوف سے باہر نکلی،،،
ڈیول اس کی گردن میں اپنا لمس چھوڑنے پر مصروف تھا مریم نے اپنے آس پاس دیکھا تو اسے سائیڈ ٹیبل پر پڑا کانچ کا گلدان نظر آیا،،،
مریم نے ڈیوِل کا ساتھ دینا شروع کیا اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتی ہوئی وہ اسے مدہوش کرنے کی کوشش کر رہی تھی،،،
کچھ دیر بعد وہ ڈیوِل پر ہاوی ہوئی،،،
اس کے ہونٹ چومتے ہوئے مریم نے ایک ہاتھ میں گلدان اٹھایا،،،
ڈیوِل کی آنکھیں بند تھیں وہ اس کے لمس سے مدہوش ہو چکا تھا،،،
مریم نے ایک سیکنڈ نہ ضائع کرتے ہوئے اپنی پوری قوّت سے اس کے سر پر گلدان مار دیا،،،
ڈیوِل نے اس خلافِ توقع علمل پر اپنی آنکھیں پھاڑیں،،،
ایک چینخ کے ساتھ مریم نیچے اتری وہ بے ہوش نہیں ہوا تھا مریم کو اب اپنی جان کی فکر ہونے لگی تھی،،،
ڈیوِل نے اپنے پاؤں فرش پر رکھے اور کھڑا ہو کر مریم کی طرف چلنے لگا،،،
مریم مسلسل چلّا رہی تھی، ڈیوِل کے سر سے رستا خون اس کے چہرے تک آچکا تھا جس کی وجہ سے وہ مزید خوفناک سا دکھائی دے رہا تھا،،،
وہ مریم کے پاس آیا اور اسے بالوں سے جکڑا،،،
مریم نے اس کی طرف دیکھا تو اس کی ایک گال پہ شیشے سے گہرا کٹ لگ چکا تھا،،،

چھوڑو مجھے،،، وہ روتے ہوئے چلّائی
اگلے ہی پل ڈیوِل بے ہوش ہو کر زمین بوس ہو گیا،،،
مریم سکتے میں کھڑی اسے دیکھ رہی تھی،،،،
مریم کو معلوم تھا یہاں کوئی نہیں ہے سب کسی مشن پر نکلے ہیں وہ دروازے کی طرف بھاگی،،،
باہر نکل کر اس نے دروازے کو باہر سے لاک کیا تا کہ اگر ڈیوِل کو ہوش آبھی جاۂے تو اس کے پیچھے نہ آئے،،،
قسمت نے اسے دوسرا موقع دیا تھا اب کی بار اسے تسلی سے کام لینا تھا،،،
وہ دھیان سے ہر دیوار چیک کر رہی تھی کہ کہیں تو اسے دروازہ دکھے گا اور وہ یہاں سے باہر نکل سکے،،،
دیواریں عجیب پتھر نما تھیں مریم کو دروازہ نہیں مل رہا تھا،،،
وہ سبھی دیواروں پر ہاتھ سے دھکیل رہی تھی کہ ایک دیوار کی اینٹ مریم کے دھکیلنے کی وجہ سے اندر کو دھنس گئی اور دیوار گھوم گئی،،،
باہر جانے کا راستہ کھل چکا تھا مریم کو یقین نہیں آرہا تھا کہ اس نے یہ کر دکھایا،،،
وہ باہر کو بھاگی اور باہر کی دیوار کو بھی دھکیلنے لگی تا کہ کسی کو یہ پتہ نہ چل سکے کہ وہ دروازے سے باہر گئی ہے،،،
دروازہ بند ہوا اور مریم بھاگنے لگی،،،
یہ سوکھے ہوئے درختوں کا جنگل تھا لیکن یہاں سے دور تک دیکھنا آسان تھا اب بس مریم کو سڑک کی تلاش تھی وہ اپنی منزل سے دور نہ تھی،،،


پرندوں کی چہچہاہٹ سے عنائزہ کی آنکھ کھلی تو اس کی نظر پاس سوئے ہوئے روحان پر پڑی،،،
اس نے روحان کے بالوں میں انگلیاں پھیریں تو روحان کی سبز آنکھوں کے دروازے کھلے،،،
گڈ مارننگ،،، عنائزہ نے مسکراتے ہوئے کہا
روحان کی نظر بیڈ پر پڑی ڈائری کی طرف گئی،،،
یہ کیا ہے،،، اس نے بے ساختہ پوچھا
کیا،،، عنائزہ نے اپنے پاس بیڈ پر دیکھا وہ رات ڈائری پڑھتے پڑھتے سو گئی تھی جس وجہ سے وہ ڈائری چھپا نہ سکی،،،
یہ کچھ نہیں بس سٹوریز کی بک ہے،،، اس نے جلدی سے ڈائری اٹھ کر دراز میں رکھی،،،
روحان کو تھوڑا عجیب لگا کیوں کہ اسے وہ بک کافی خستہ حال اور پرانی لگ رہی تھی تو ایسی بک کا عنائزہ کے پاس کیا کر رہی ہے مگر وہ خاموش رہا،،،
اٹھو فریش ہو جاؤ،،، عنائزہ نے اسے کہا
روحان اٹھ کر واش روم چلا گیا اور عنائزہ نے دراز لاک کیا تا کہ روحان ڈائری نہ اٹھا سکے،،،


عنائزہ فریش ہونے کے بعد طبیعت خراب ہونے کے بہانے سے بیڈ پر لیٹ گئی،،،
روحان لان کا چکر لگا کر واپس کمرے میں آیا تو عنائزہ سر پر ہاتھ رکھے لیٹی ہوئی تھی وہ اسے دیکھ کر پریشان ہوا،،،
روحان میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے تم عقیلہ سے کہو کہ مجھے ناشتے میں سوپ بنا دے،،،
عنائزہ نے پلین بنایا تھا کہ یوں طبیعت خراب کا بہانہ لگا کر وہ روحان کو ملازموں سے بات کرنے پر مجبور کرے اور اس طرح سے آہستہ آہستہ روحان کا لوگوں سے ڈر ختم ہو گا،،،
روحان پریشان ہوا یہ پریشانی عنائزہ کی طبیعت بگڑنے کی نہیں تھی بلکہ عقیلہ سے مخاطب ہونے کی تھی،،،
روحان تم پریشان مت ہو میں جلدی ٹھیک ہو جاؤں گی،،، عنائزہ نے جان بوجھ کر کہا تا کہ روحان کو لگے کہ عنائزہ کو اس کے ڈرنے کی وجہ نہیں معلوم،،،
لیکن ابھی تو ٹھیک تھی،،، آخر روحان نے بھی دماغ میں آئی بات پوچھ لی
ہاں اچانک ہی خراب ہو گئی طبیعت کا کیا ہے کبھی بھی خراب ہو سکتی ہے نا،،، عنائزہ نے بیماروں والی خوب ایکٹنگ کی

خیر روحان پریشان حال سا کمرے سے باہر نکلا اس کا رخ کچن کی جانب تھا،،،
کچن کے پاس کھڑے ہو کر اس نے سات آٹھ لمبے لمبے سانس لیے مگر اندر جانے کی ہمت پھر بھی نہ ہوئی وہ تقریباً چھبیس سال کا تھا اور ان چھبیس سالوں میں اس نے ایک بار بھی عقیلہ یا شفیق سے بات نہ کی تھی،،،
عقیلہ عنائزہ کو کھانے کا کہنے کیلئے کچن سے باہر نکلی جب سامنے ہی روحان کو پریشان کھڑا دیکھ کر حیران ہوئی،،،
روحان بابا آپ یہاں کچھ چھاہیے کیا،،،
روحان کی ہتھیلیاں نم ہونے لگیں یہ تو وہ جانتا تھا کہ عقیلہ اور شفیق اس کا بہت خیال رکھتے ہیں مگر جو اس کے اندر خوف تھا اس کی وجہ سے وہ کسی سے بات نہ کر پایا تھا،،،
روحان بابا،،، عقیلہ نے پھر سے مخاطب کیا
روحان نے اپنا خشک حلق تر کیا اور بمشکل آواز نکالی،،،
و۔۔وہ عنائزہ کے لیے سوپ بنا دیں،،، اتنا کہتے ہی وہ ایک منٹ بھی وہاں نہ رکا اور کمرے کی طرف بھاگ گیا،،،
عقیلہ ہکی بکی جاتے ہوئے روحان کو دیکھ رہی تھی اسے اپنی سماعت پر یقین نہیں آرہا تھا کہ آج پہلی بار روحان نے اس سے بات کی ہے،،،
ادھر روحان کمرے کا دروازہ بند کر کے لمبے لمبے سانس لے رہا تھا،،،
عنائزہ نے اس کی حالت کو نوٹ کیا لیکن جان بوجھ کر آنکھوں پر بازو رکھے لیٹی رہی جیسے اس نے روحان کو دیکھا ہی نہ ہو،،،
اس کی حالت سے وہ جان چکی تھی کہ وہ عقیلہ سے بات کر آیا ہے اگر نہ کی ہوتی تو وہ اب بھی کنفیوژن کی حالت میں ہوتا،،،

عقیلہ بھاگتی ہوئی شفیق کے پاس آئی،،،
شفیق شفیق،،، وہ خوشی سے چلّا رہی تھی
ارے کیا ہو گیا کیوں آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے،،، شفیق بیٹھا پودوں کو پانی دیتا ہوا بولا
شفیق تمہیں نہیں پتہ آج کیا ہوا ہے تم سنو گے تو تم بھی خوشی سے پاگل ہو جاؤ گے،،،
ہیں بھئی ایسا کیا ہو گیا،،، شفیق کھڑا ہوا
آج آج روحان بابا نے مجھ سے خود بات کی ہے،،،
کیا،،، شفیق غیر یقینی کی حالت میں شفیق کے رونگے کھڑے ہونے لگے
ہاں خدا قسم سچ کہہ رہی ہوں ابھی دو منٹ پہلے کی بات ہے،،،
مجھے یقین نہیں ہو رہا عقیلہ ایسا کیسے،،،
اللہ نے عنائزہ بیگم کو فرشتہ بنا کر روحان بابا کی زندگی میں بھیجا ہے ان کے آنے سے روحان بابا میں کتنا اچھا بدلاؤ آرہا ہے کاش آج بڑی بیگم صاحبہ زندہ ہوتیں تو کتنا خوش ہوتیں،،، عقیلہ کی آنکھیں نم ہونے لگیں
ٹھیک کہتی ہو تم اگر وہ زندہ ہوتیں تو خوشی سے ڈھیروں چیزیں غریبوں میں تقسیم کرتیں،،،
تو دیر کس بات کی شفیق ان کے حصے کا کام ہم کریں گے آج ہی غریب لوگوں میں اناج بانٹو،،،
ہاں انشاءاللّٰه‎‎ یہ نیک کام میں آج ہی کر دوں گا،،،


عقیلہ کمرے میں سوپ اور روحان کے لیے ناشتہ دے گئی،،،
روحان،،، عنائزہ نے پکارا
روحان نے اس کی طرف دیکھا،،،
مجھے سوپ پلا دو چکر آرہے ہیں خود نہیں پی سکوں گی،،،
کچھ سوچتے ہوئے روحان ہاتھ میں سوپ لیے اس کے پاس آکر بیٹھا عنائزہ بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی،،،
اس نے چمچ بھر کر عنائزہ کی طرف بڑھایا عنائز بڑے آرام سے سوپ پی رہی تھی،،،
ایک ایک چمچ کر کے اس نے سوپ ختم کر لیا تھا،،،
روحان ادھر سے صاف کر دو، عنائزہ نے اپنے ہونٹ کی طرف اشارہ کیا جس پہ سوپ لگا تھا،،،
روحان نے ٹشو سے اس کا ہونٹ صاف کیا اور اٹھ گیا،،،
جلدی ناشتہ کر لو پھر مجھے لان میں لے جانا فریش ایئر لینے کو دل کر رہا ہے،،،
روحان ناشتہ کرنے کے لیے صوفے پر آکر بیٹھا اور ایک نظر گلاس وال سے باہر کے منظر پر ڈالی جہاں شفیق پودوں کا کام کرنے میں مصروف تھا،،،
روحان معصوم آنکھوں کو موٹا کیا اور واپس عنائزہ کی طرف دیکھا عنائزہ نے جلدی سے اپنا رخ سیدھا کیا،،،
وہ روحان کے کمرے سے جانے کے بعد ہی شفیق کو لان میں کام کرتا دیکھ چکی تھی اب اس کے پلین کے مطابق روحان کو شفیق سے مخاطب کرنا تھا،،،

سیاہ رات ایک سچی کہانی (قسط نمبر 9)

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, Urdu stories for school, Urdu stories with Urdu font
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں