پُراسرار حویلی - پارٹ 11

 

Sublimegate Urdu Font Stories

 پُراسرار حویلی - پارٹ 11



ہم تابوت والے تہہ خانے سے نکل کر قلعے کی دوسری منزل پر آگئے ۔ روہنی کہنے لگی۔ یہ کبھی ہمارا عالیشان محل ہوا کرتا تھا۔ تمہیں یاد نہیں رہا۔ مجھے سب یاد ہے کہ ہمیں ایک دوسرے سے کتنا پیار تھا۔ ہم صبح شام محل کے باغ میں ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر ٹہلا کرتے تھے ۔ اب وہ باغ بھی اجڑ چکا ہے ، یہ محل بھی کھنڈر بن چکا ہے ۔ آؤ اس بالکنی میں چل کر بیٹھتے ہیں۔ وہاں بیٹھ کر میں تمہیں بتاؤں گی کہ وہ کون سا راستہ ہے جس پر چل کر ہم دونوں اپنے قاتل دشمن پجاری رگھو کی دشمنی سے نجات حاصل کر کے ہمیشہ کے لئے پھر سے ایک ہو سکتے ہیں۔
‘‘ یہ ہمیشہ کے لئے ایک ہو جانے والی بات پر میرا یقین بھی نہیں تھا اور میں چاہتا بھی نہیں تھا کہ ایسا ہو ۔ مجھے تو صرف اس غیبی دشمن سے ہمیشہ کے لئے چھٹکارا حاصل کرنا تھا جو مجھ پر تین چار مرتبہ قاتلانہ حملہ کر چکا تھا۔ اس کھنڈر محل کی بالکونی کبھی سنگ مرمر کی ہوا کرتی تھی اب اس کا رنگ کالا پڑ چکا تھا اور جنگلی بیلیوں نے اسے آدھے سے زیادہ ڈھانپا ہوا تھا۔ یہ بالکونی قلعے یا اس کھنڈر محل کی دوسری منزل پر جنگل کے رخ پر تھی اور قلعے کی پرانی دیوار سے باہر کو نکلی ہوئی تھی۔ بالکونی کی پتھر کی دو جالیاں ٹوٹ چکی تھیں ۔ صرف سامنے کے رخ کی جالیاں لگی ہوئی تھیں ۔ فرش سلامت تھا۔ وہاں بیٹھنے کے لئے سواۓ فرش کے اور کوئی جگہ نہیں تھی۔
جب ہم بالکونی میں آۓ تو میں نے دیکھا کہ اس دوران آسمان بادلوں میں چپ چکا تھا اور بارش شروع ہو گئی تھی۔ جنگل کی طرف سے بارش میں بھیگی ہوئی بڑی خوشگوار ہوا آ رہی تھی۔ ہم بالکونی کے فرش پر ہی بیٹھ گئے ۔ ابھی روہنی بدروح نے اپنی داستان شروع نہیں کی تھی کہ بارش تیز ہو گئی اور اس کی بوچھاڑ بالکونی میں ہم پر آنے لگی۔ میں نے دیکھا کہ بارش کی بو چھاڑ روہنی بدروح پر پڑ رہی تھی مگر نہ اس کا چہرہ گیلا ہو رہا تھا ، نہ اس کی زعفرانی ساڑھی ہی بھیگ رہی تھی۔ اس کے بر عکس میرے کپڑے بارش کی بوچھاڑوں میں بھیگنے لگے تھے ۔ روہنی نے یہ دیکھ کر کہا۔ " شیروان ! تم بارش میں بھیگ جاؤ گے ۔
مجھ پر تو بارش کا کوئی اثر نہیں ہوگا ۔ چلو ہم کسی اور جگہ چل کر بیٹھتے ہیں ۔“ ہم بالکونی سے اٹھ گئے ۔ میں نے روہنی سے کہا۔ " روہنی ....." اس نے مجھے ٹوکتے ہوئے کہا۔ ”تم مجھے روہنی مت کہا کرو۔ مجھے سلطانہ کہہ کر بلایا کرو۔ یاد نہیں یہ نام تم نے خود رکھا تھا اور تمہیں بے حد پسند تھا۔“ میں نے اپنے دل میں کہا جانے میری بالا میں نے تمہارا یہ نام کب رکھا تھا۔
اوپر سے کہا۔ " ٹھیک ہے۔ میں تمہیں سلطانہ کہہ کر ہی بلایا کروں گا۔“ ’’اب کہو تم کیا کہنے والے تھے ؟‘‘ روہنی نے پوچھا۔ میں نے کہا۔ ” یہاں اس قلعے میں تو بیٹھنے کی کوئی جگہ نہیں ہے ۔“ روہنی نے پوچھا۔ ” تم کہاں بیٹھنا پسند کرو گے ۔ مجھے بتاؤ میں تمہیں وہیں لئے چلتی ہوں۔“
مجھے یاد آ گیا کہ روہنی تو ایک بدروح ہے وہ تو جہاں چاہے مجھے لے جاسکتی ہے ۔
میں نے کہا۔ ”کسی ایسی جگہ چلتے ہیں جہاں ہم سکون کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کر سکیں اور میں کچھ ناشتہ وغیرہ بھی کر لوں ۔ مجھے بھوک لگ رہی ہے ۔ روہنی ہنس پڑی۔ کہنے لگی۔ "شیروان ! جب میں زندہ تھی تم میرے خاوند اور میں تمہاری پتنی ہوا کرتی تھی تب بھی تمہیں صبح کے وقت بڑی بھوک لگا کرتی تھی اور میں نے شاہی باورچی کو حکم دے رکھا تھا کہ تمہار اناشتہ دن کے پہلے وقت میں تیار کروا کر محل میں بھجوایا کرے . . . . .
کاش! تمہیں وہ سب کچھ یاد ہوتا لیکن مجھے یقین ہے کہ آہستہ آہستہ تمہیں وہ سب کچھ یاد آ جاۓ گا اور تم مجھے پہچان لو گے ۔ میں مایوس نہیں ہو۔۔۔۔۔روہنی نے پھر وہی باتیں شروع کر دی تھیں جن سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ میں نے اسے کہا۔ ”اچھا یہ بتاؤ کہ ہم کہاں جائیں؟‘‘
روہنی نے کہا۔ ” ہم جھانسی چلتے ہیں ۔ وہ بڑا شہر ہے اور وہاں ایسے کئی ہوٹل ہیں جہاں تمہیں کھانے کو بھی بہت کچھ مل جاۓ گا اور تم بیٹھنا بھی وہاں پسند کرو گے ۔“ میں نے اسے کہا کہ ہمارے پاس تو انڈین کرنسی کا ایک روپیہ بھی نہیں ہے ہم ناشتے وغیرہ کا بل کہاں سے ادا کریں گے ۔ اس پر روہنی نے مسکراتے ہوۓ کہا۔ بل میں ادا کر دوں گی۔ تم اس کی فکر نہ کرو . . . . . آؤ میرے ساتھ ۔“ تم تو واپس بالکونی میں جار ہی ہو ۔
اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور بولی۔” ہم بالکونی کے راستے ہی باہر جائیں گے ۔ اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا۔ ہم بالکونی میں آگئے۔ بارش موسلادھار ہو رہی تھی۔ بارش کی بوچھاڑ میں ہم دونوں پر پڑ رہی تھیں مگر میں یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ میں بارش میں بالکل نہیں بھیگ رہا تھا۔ میں نے کہا۔ ” میں بارش میں کیوں نہیں بھیگ رہا سلطانہ ؟‘‘
وہ کہنے لگی۔ ’’جب تک تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ میں رہے گا تم بارش میں نہیں بھیگو گے ۔ تیار ہو جاؤ۔ ہم جھانسی جار ہے ہیں ۔ “ یہ کہہ کر اس نے میرے ہاتھ کو ذراسا کھینچا اور ہم بالکونی سے پرواز کر گئے ۔ ہم موسلا دھار بارش میں جنگل کے درختوں کے اوپر سے ہو کر اڑ رہے تھے۔ یہ میری زندگی کا ایک ایسا تجربہ تھا کہ جسے میں مرتے دم تک فراموش نہ کر سکوں گا۔ میں نے پرندوں کو بارش میں اڑتے دیکھا تھا۔ میں نے ہوائی جہازوں کو بارش میں پرواز کرتے دیکھا تھا لیکن کبھی کسی انسان کو بارش میں پرواز کرتے نہیں دیکھا تھا۔ اور یہاں میں خود بارش میں زمین سے نہ جانے کتنے فٹ کی بلندی پر درختوں کے اوپر پرواز کر رہا تھا اور دوسری حیرت انگیز بات یہ تھی کہ بارش کی بو چھاڑ میں مجھ پر پڑ رہی تھیں مگر میں بالکل نہیں بھیگ رہا تھا۔ خدا جانے ہماری رفتار کتنی تھی۔ ہم بہت جلد جنگل کے اوپر سے گزر کر کھیتوں پر آگئے ۔
میں نے نیچے دیکھا۔ نیچے مجھے ایک ریلوے لائن نظر آئی جو بارش میں بھیگ رہی تھی۔ اس وقت ہم زمین سے زیادہ سے زیادہ پچاس فٹ کی بلندی پر اڑ رہے تھے۔ روہنی نے کہا۔ ” یہ ہے بروڑہ ریلوے لائن ہے اور بھوپال سے جھانسی کی طرف جا رہی ہے۔ ہماری رفتار کافی تیز ہو گئی تھی۔ کیونکہ ہمارے نیچے سے ریلوے لائن کے ساتھ
ساتھ کھڑے درخت اور ریلوے لائن کے سگنل بڑی تیزی سے پیچھے کی طرف جا رہے تھے ۔ اتنی تیز رفتار کے ساتھ پرواز کرنے کی وجہ سے ہوا کے طوفانی تھیٹرے ہمیں لگنے چاہئیں تھے مگر ہمیں صرف اتنی ہی ہوا لگ رہی تھی کہ روہنی کے لمبے بال پیچھے کی جانب اڑ رہے تھے اور ہوا صرف مجھے چھو کر گزر رہی تھی۔
ہم جھانسی شہر کی فضائی حدود میں داخل ہو گئے ۔ جھانسی شہر ابھی اپنی اصلی و ضع قطع میں ہی تھا اور شہر کے باہر ماڈرن کالونیاں آباد نہیں ہوئی تھیں، آبادی بھی نہیں پڑھی تھی۔ شہر کے اردگرد ایک خوبصورت باغ تھا۔ وہاں انگریزوں کے زمانے کا ایک ہوٹل تھا جس کا نام مجھے یاد نہیں رہا۔ اس ہوٹل میں امیر لوگ آکر ٹھہرا کرتے تھے یا پھر یورپ سے آۓ ہوۓ انگریز لوگ آکر ٹھہرتے تھے۔ بارش کی وجہ سے سڑکوں پر رش بالکل نہیں تھا۔ باغ تو خالی پڑا تھا۔ ہم باغ کے ایک کونے میں اتر گئے۔ میں نے سلطانہ سے کہا۔ ” تم میرے ساتھ انسانوں کے درمیان جار ہی ہو جو میری طرح زندہ ہیں ۔ کیا تم انہیں نظر آؤ گی یا ان کی نظروں سے غائب ہو گی ؟“
روہنی کہنے لگی۔’’ میں انہیں اسی طرح نظر آؤں گی جس طرح تم مجھے دیکھ رہے ہو۔ مجھے ان کے سامنے غائب ہونے کی کیا ضرورت ہے اور پھر ناشتہ کرنے کے بعد ہم وہاں سے اٹھ کر کسی دوسری جگہ جنگل میں چلے جائیں گے ۔“ انگریزوں کے زمانے کا بنا ہوا عالی شان ہوٹل وہاں سے چند قدم کے فاصلے پر تھا اور اس کی لابی پر پڑا ہوا رنگ برنگا سائبان دور سے نظر آ رہا تھا۔ روہنی کہنے لگی۔’’ہم اس ہوٹل میں بیٹھ کر باتیں کریں گے ۔ تم یہاں ناشتہ بھی کر لینا۔“ ۔ ہم بارش میں ہی ہوٹل کی جانب چل پڑے۔ روہنی نے ابھی تک میرا ہاتھ پکڑ رکھا تھا جس کی وجہ سے میں بارش میں بھیگ نہیں رہا تھا۔ میں نے قمیض پتلون پہن رکھی تھی مگر روہنی بڑے خوبصورت لباس میں تھی۔
اپنے گلے کا قیمتی ہار اور سر پر رکھا ہوا جواہرات کا تاج اس نے قلعے میں غائب کر دیا تھا اس لئے کہ اسے اس شاہانہ تاج میں دیکھ کر خوامخواہ وہ لوگوں کی نظروں میں آسکتی تھی جو وہ نہیں چاہتی تھی۔ پرانی طرز کا ہوٹل تھا۔ کھلے کمرے میں جگہ جگہ گول میزیں کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔ ہر میز پر پھولوں والا گلدان پڑا تھا۔ کچھ خوش لباس لوگ بڑی خاموشی سے کہیں کہیں بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے۔
ہم بھی ایک میز کے پاس جا کر بیٹھ گئے ۔ سرخ وردی والا بیرا آیا تو میں نے اسے ناشتہ لانے کو کہا۔ وہ چلا گیا تو میں نے روہنی سے پوچھا۔ ” کیا تمہیں کبھی بھوک نہیں لگتی؟ 12
روہنی مسکرانے لگی۔” نہیں ۔‘‘اس نے جواب دیا۔
میں نے کہا۔ ’’ اس کا مطلب ہے کہ تم نے تین سو سال سے کچھ نہیں کھایا؟‘‘ وہ بولی۔” نہیں ایسی بات بھی نہیں ہے۔ اگر کہیں کچھ کھانا پڑ جاۓ تو کھا بھی لیتی ہوں لیکن میں کھانے پینے کی محتاج نہیں ہوں۔ میں صرف تمہارے لئے انسانی جسم میں ظاہر ہوئی ہوں ورنہ میں ایک روح ہوں، آتما ہوں جو اپنے گناہوں کا کفارا ادا کرتے ہوۓ زمین اور آسمان کے درمیان بھٹک رہی ہے۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے اس جنم میں اپنا خاوند شیروان مل گیا ہے۔“
میں نے اپنے دل میں کہا کہ مجھے تو تم بھول جاؤ۔ جب مجھے یقین ہو گیا۔ پجاری رگھو کی بدروح میرا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی تو میں فورا تم سے الگ ہو جاؤں بیرا خاموش قدموں سے ناشتے کا ٹرے لے کر آ گیا۔ میں ناشتہ کرنے لگا اس نے اپنے لئے کافی کی ایک پیالی خود ہی بنالی اور خاموشی سے پینے لگی۔
کہنے لگی۔ ”شیروان ! تمہارے کپڑے بہت پرانے ہو چکے میں چاہتی ہوں تم یہاں کسی دکان سے نئے ریڈی میڈ کپڑے خرید لو۔“ میں نے کہا۔’’اس کے لئے پیسے کہاں سے آئیں گے ؟“ وہ بولی۔’’اس کی تم فکر کیوں کرتے ہو ۔ میرے پاس بہت پیسے ہیں ۔ میں زیر لب مسکراتے ہوۓ اپنے لئے کافی بنانے لگا۔۔۔۔
ہم جس میز پر بیٹھے تھے وہ ہال کمرے کے کونے میں تھی۔ ہمارے ارد گرد کی میزیں خالی تھیں۔ میں نے کافی پیتے ہوۓ اس سے پوچھا۔ ’’سلطانہ ! تمہاری زندگی کی تقریبا ساری کہانی تمہاری زبانی مجھے معلوم ہو چکی ہے۔ میں تم سے صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ تمہارے دشمن پجاری رگھو نے تمہیں قتل کیوں کیا تھا؟‘‘
اس نے بڑی خاموشی سے میری بات سنی۔ پھر کافی کی پیالی آہستہ سے میز پر رکھ دی اور ایک ہاتھ سے اپنی زعفرانی ساڑھی کا پلو درست کرتے ہوئے بولی۔ پجاری رگھو ہماری چھوٹی سی ریاست کا شاہی پجاری تھا۔ میری ماتا جی مجھے گیتا اور ویدوں کی تعلیم دلانے کے لئے پجاری رگھو کے پاس شاہی مندر میں بھیج دیا کرتی تھیں۔ اس زمانے میں میری عمر دس بارہ سال کی تھی اور میں بڑی خوبصورت ہوا کرتی تھی۔ پجاری رگھو مجھ سے محبت کرنے لگا تھا۔ پھر جب میں جوان ہوئی تو مجھے صوبیدار اور ریاست کے حکمران کے بیٹے شہزادے شیروان سے محبت ہو گئی۔ ہم دونوں چپ چپ کر ملا کرتے تھے ۔ پجاری رگھو کو یہ بات سخت ناگوار تھی مگر وہ شہزادہ شیروان کے باپ کا ملازم تھا۔
میرے خلاف سواۓ اس کے کچھ نہیں کر سکتا تھا کہ اس نے ماتا جی سے میری شکایت کر دی کہ میں ایک ہندو برہمن لڑکی ہوں اور مسلمان شہزادے سے چپ چپ کر ملاقاتیں کرتی ہوں ۔ ماتا جی نے مجھے منع کیا مگر میں شہزادے شیروان کی محبت میں سب کچھ بھلا چکی تھی۔ میرے پتا جی سور گیاش ہو چکے تھے جو مغل صوبیدار کے وزیر تھے۔ میں شہزادے شیروان سے چپ چپ کر ملتی رہی۔ پھر ایسا ہوا کہ شیروان کے والد کا انتقال ہو گیا اور شیروان ریاست کا حکمران ہوگیا۔ صوبیدار بنتے ہی اس نے مجھ سے شادی کر لی۔ میں شادی کے بعد مسلمان ہو گئی۔
ایک تو میں نے شیروان سے شادی کر لی تھی دوسرے میں نے ہندو دھرم چھوڑ کر اسلام قبول کر لیا تھا۔ پجاری رگھو میرا جانی دشمن بن گیا اور در پردہ مجھے قتل کرنے کی سازشیں کرنے لگا۔ مگر شہزادہ شیروان کے ہوتے ہوۓ وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ مگر مقدر میں جو لکھا ہوتا ہے اسے کون ٹال سکتا ہے۔ میرا خاوند اور میرا محبوب شہزادہ شیروان کچھ روز بیمار رہنے کے بعد چل بسا۔ میری دنیا اندھیر ہو گئی۔ ماتا جی پہلے ہی سور گیاش ہو چکی تھیں۔ اگرچہ میں نے ریاست کا تخت سنبھال لیا مگر میں آخر ایک کمزور عورت تھی اور اپنے دشمن پجاری رگھو کی سازشوں کا اکیلی مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔
پھر ایسا ہوا کہ ایک رات میں اپنی خواب گاہ میں سو رہی تھی کہ چار حبشی غلام خواب گاہ میں داخل ہوئے اور مجھے زبردستی اٹھا کر قلعے کے اس تہہ خانے میں لے گئے جہاں تم نے مجھے قتل ہوتے دیکھا تھا۔ وہاں مجھے چبوترے پر باندھ کر لیٹا دیا گیا اور پجاری رگھو کے حکم سے مجھے قتل کر دیا گیا۔ مجھے قتل کر نے کے بعد اس نے اپنی طلسمی طاقت سے میری آتما کو ایک مرتبان میں بند کر کے مرتبان چبوترے کے شکاف میں دفن کر دیا تا کہ میں مرنے کے بعد کسی جنم میں کبھی دنیا میں واپس نہ آ سکوں اور یوں میری آتما کو کبھی نروان نصیب نہ ہو ۔ میرے قتل کے منظر کو تم اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہو۔
میں نے اس کی بات کاٹ کر پوچھا۔’’اس منظر کی حقیقت کیا تھی ؟“ روہنی بدروح نے کہا۔ ”میرے قتل کے پندرہ بیس سال بعد پجاری رگھو بھی مر گیا۔ مرنے کے بعد اس کی روح نے ایک بدروح کی شکل اختیار کر لی کیونکہ اس نے ایک زندہ انسان کو قتل کیا تھا جو بہت بڑا پاپ ہے۔ اب ایسا ہوتا کہ ہر سال ٹھیک اسی ان اور اس وقت آدھی رات کو جب مجھے رگھو کے حبشی غلاموں نے قتل کیا تھا رگھو کی بدروح ان غلاموں کی بدروح کے ساتھ قلعے کے محل میں ظاہر ہوتی۔
پجاری رگھو کی بدروح اپنے زبردست جادو کے اثر سے میری آتما کو واپس لا کر میرے جسم میں داخل کرتا اور میرے قتل کا بھیانک منظر ایک بار پھر دہرایا جاتا۔ یہ یا تو پجاری رگھو کے ضمیر کو اس کے گناہ کی سزا مل رہی تھی یا پجاری رگھو کی بدروح مجھے ایک بار پھر قتل کر کے تسکین حاصل کرتی تھی۔ بہر حال یہ منظر ویران قلعے کے اندر ہر سال ایک خاص رات کو دہرایا جاتا تھا۔ مجھے اس طرح حبشی غلام قتل کرتے اور پھر پجاری رگھو کی بدروح میری آتما کو مرتبان میں بند کر کے چبوترے کے شکاف میں دفن کر دیتی۔ اس کے طلسمی منتروں کے اثر سے میری آتما کا آواگون کا چکر رک گیا تھا۔ اگر آواگون کا چکر چلتا رہتا اور میں اپنے ہندو عقیدے کے مطابق اپنے اچھے برے کرموں کے مطابق ایک جنم سے دوسرا جنم لیتی رہتی تو میں امید کر سکتی تھی کہ کبھی نہ کبھی میرے برے اعمال کی سزا ختم ہو جائے گی اور مجھے جنم جنم کے چکر سے نجات مل جاۓ گی ۔
لیکن میرے دشمن اور میرے قاتل پجاری رگھو نے میری آتما کو مرتبان میں بند کر کے میری آتما کی ترقی کا راستہ بند کر دیا تھا اور میری آ تما مرتبان میں ہمیشہ کے لئے قید ہو کر رہ گئی تھی . . . . . لیکن آخر میرے محبوب شہزادے کی روح کو مجھ پر رحم آ گیا اور اس نے میری نجات کے لئے تمہیں اپنے روپ میں بدل کر قلعے میں بھیج دیا۔ یہ وہی منحوس رات تھی جس رات کو آج سے تین سو برس پہلے مجھے قتل کیا گیا تھا۔ تم نے قلعے کی گیلری میں چپ کر مجھے قتل ہوتے اور پھر قاتل رگھو کو مرتبان میں میری آتما کو بند کر کے چبوترے کے اندر دفن کرتے دیکھا۔
چونکہ میرے محبوب شہزادے شیروان کی روح نے تمہیں میری نجات کے لئے بھیجا تھا اس لئے تمہارے دل میں خیال آیا کہ دیکھا جاۓ قاتل پجاری رگھو نے مرتبان میں کیا چیز بند کر کے مرتبان کو دفن کیا ہے ۔ جب مجھے قتل کرنے کا خونی منظر ختم ہو گیا اور پجاری رگھو اور حبشی غلاموں کی بدروحیں غائب ہو گئیں تو تم گیلری سے اتر کر چبوترے کے پاس آۓ ۔ تم نے چبوترے کی اینٹیں اکھاڑ کر مرتبان باہر نکالا۔ میری آتما مرتبان کے اندر قید اپنی محبت کی طاقت کے زیر اثر یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ پھر تم نے مرتبان کھول دیا۔ مرتبان کے کھلتے ہی میری آتما قاتل پجاری رگھو کے منحوس طلسم کی قید سے آزاد ہو گئی۔
اس کے بعد جو کچھ ہوا اسے تم بھی جانتے ہو اور میں بھی جانتی ہوں۔ میں نے تمہیں دیکھتے ہی تمہارے روپ میں اپنے محبوب شہزادے شیروان کو پہچان لیا تھا لیکن تم نے مجھے نہیں پہچانا تھا۔ اس کے بعد میرے سامنے جو سب سے بڑا مسئلہ تھا وہ یہ نہیں تھا کہ تم مجھے پہچانو کہ میں کون ہوں۔ یہ سب کچھ بعد میں بھی ہو سکتا تھا۔ اس وقت میرے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ قاتل پجاری رگھو سے تمہاری جان کیسے بچائی جاۓ۔ تم نے میری آتما کو آزاد کر دیا تھا اور پجاری رگھو میرے ساتھ اب تمہارا بھی دشمن ہو گیا تھا اور مجھے معلوم تھا کہ وہ مجھے تو اتنی آسانی سے دوبارہ اپنے طلسم کے چکر میں قید نہیں کر سکے گا لیکن تمہیں بڑی آسانی سے ہلاک کر دے گا۔ پس اس کے بعد میرے فرض اور میری محبت کا تقاضا یہی تھا کہ تمہیں رگھو کے ہر قاتلانہ حملے سے بچایا جائے۔
چنانچہ جب بھی پجاری قاتل نے تمہاری جان لینے کی کوشش کی میں نے عین وقت پر پہنچ کر اس کی کوشش کو ناکام بنا دیا اور یہ سلسلہ اس وقت سے لے کر جب تم نے میری آتما کو رگھو کی قید سے آزاد کیا تھا اس وقت تک جاری ہے . . . . . .
میں نے پوچھا۔ ’’اور یہ منحوس سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟‘‘ روہنی نے کہا۔ " میں تمہیں یہی بتانے کے لئے اپنے ساتھ لائی ہوں کہ تمہیں کیسے اس خونی چکر سے نکالا جا سکتا ہے۔‘‘
میں نے بے چینی سے کہا۔ میں نے تمہاری رام کہانی سن لی ہے ۔ اب خدا کے لئے جلدی سے یہ بتاؤ کہ میں اس منحوس چکر سے کیسے آزاد ہو سکتا ہوں ؟“ روہنی کافی بنا رہی تھی۔ کہنے لگی۔" یہاں سے میں تمہیں اپنے ساتھ بدروحوں کی دنیا میں لے جارہی ہوں۔“۔ میں نے کہا۔’’ تم ایک بدروح نے میرا جینا حرام کر دیا ہے ۔ بدروحوں کی دنیا
میں جا کر خدا جانے میرا کیا حال ہو گا۔“ روہنی نے ٹھنڈی آہ بھری اور بولی ۔’’ میں بری آتما نہیں ہوں۔ یہ تم اس لئے کہہ رہے ہو کہ تم نے مجھے پہچانا نہیں ہے ۔
تم میرے محبوب شہزادے کے روپ میں ضرور ہو مگر چونکہ میرا محبوب شیروان مسلمان تھا اس لئے یہ اس کا دوسرا جنم نہیں ہے۔ مسلمانوں میں کوئی آواگون نہیں ہوتا۔ اگر میں نے کسی مسلمان گھرانے میں جنم لیا ہوتا تو میں بھی آواگون کے چکر سے آزاد ہوتی ۔ لیکن یہ میری بد قسمتی ہی ہے ۔ اگر چہ میں مسلمان ہو گئی تھی لیکن میرا جنم ہندو ماتا پتا کے ملاپ سے ہوا تھا اور آواگون میرے ساتھ ہی میری روح میں داخل ہو گیا تھا۔ لیکن شہزادہ شیروان کا جنم ایک مسلمان ماتا پتا سے ہوا تھا اس کا کوئی دوسرا جنم نہیں تھا۔
لیکن وہ مجھ سے محبت کرتا تھا اور موت کے بعد بھی اسے میرا احساس تھا چنانچہ اس نے تمہیں اپنا روپ دھار کر میری مدد کے لئے بھیج دیا۔ وہ میرے لئے یہی کر سکتا تھا اور اس کا اتنا کرنا ہی میرے لئے بہت تھا۔ اب میں تمہارے سامنے اس بات کا اعتراف کرتی ہوں کہ حقیقت میں تم میرے محبوب شہزادے شیروان نہیں ہو اور یہ شیروان کا دوسرا جنم نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو جس طرح میں نے تمہیں پہچانا تھا تم بھی مجھے دیکھتے ہی پہچان لیتے ۔ تم نے ٹھیک کہا تھا کہ تمہاری شکل شہزادے شیروان سے ملتی جلتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تمہارے دل میں مرتبان کھول کر میری آتما کو آزاد کر نے کا خیال میرے محبوب شیروان کی روح نے ہی تمہارے دل میں ڈالا تھا۔
“ میں روہنی کی کافی داستان سن چکا تھا۔ میں نے کہا۔ " سلطانہ ! تم مختصر لفظوں میں مجھے یہ بتاؤ کہ تم مجھے اپنے ساتھ بدروحوں کی دنیا میں لے جا رہی ہو ۔ کیا بدروحوں کی دنیا سے میں زندہ واپس آ جاؤں گا؟“
روہنی نے اس کے جواب میں کہا۔ تم وہاں میرے ساتھ جاؤ گے ۔ کسی بدروح کو یہ ہمت نہیں ہو گی کہ وہ تمہیں ہاتھ بھی لگا سکے۔ میں نے اس سے ایک بڑا اہم سوال پوچھا۔ میں نے کہا۔’’لیکن قاتل پجاری رگھو کی بدروح بھی تو وہیں ہوگی اور وہ میری دشمن بدروح ہے۔ کیا وہ مجھے بدروحوں کی دنیا سے زندہ واپس جانے دے گی؟ ا ؟" روہنی نے کہا۔ ” بدروحوں کی جس دنیا میں ، میں تمہیں لے کر جا رہی ہوں پجاری رگھو کا اس دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کی بدروحوں کی دنیا دوسری ہے ۔ وہ کسی اور بدروحوں کی دنیا کا سردار ہے۔ اور پھر میں تمہیں غائب کر کے اپنے ساتھ لے جاؤں گی ۔“ اتنے میں ہوٹل کا باوردی بیرا قریب سے گزرا تو روہنی نے اسے بلا کر کہا۔ ’’ناشتے کا بل لے آؤ۔“
میں روہنی کا منہ تکنے لگا کہ یہ بل کہاں سے ادا کرے گی۔ جب بیرا چلا گیا تو روہنی میرے دل کی بات سمجھتے ہوئے بولی۔’’ اس وقت جھانسی شہر کے اوپر اور زمین کے اندر دولت کے جتنے خزانے ہیں ان سب کو میں دیکھ رہی ہوں ۔ یہ الگ بات ہے کہ انہیں حاصل کرنے کے لئے ہم بدروحوں کو بھی ایک اخلاقی ضابطے کی پابندی کرنی پڑتی ہے ۔“
روہنی نے زعفرانی ساڑھی کا پلو اپنے ہاتھ پر ڈال دیا۔ دوسرے لمحے اس نے پلو ہٹا کر اپنا ہاتھ کھولا تو اس کے ہاتھ میں انڈین کرنسی کے سو سو روپے کے نوٹوں کی ایک گڑی تھی۔ ہندوستان کو آزاد ہوۓ زیادہ مدت نہیں ہوئی تھی اور ابھی سو روپے کے نوٹ کی بڑی قیمت ہوا کرتی تھی۔
بیرا بل لے کر آ گیا۔ بڑا مہنگا ہوٹل تھا مگر ناشتے کا بل ساٹھ روپے ہی بنا تھا۔ روہنی نے اس کی پلیٹ میں سو روپے کا نوٹ رکھ دیا۔ بیرا چلا گیا تو وہ میری طرف دیکھ کر کہنے لگی ۔ ’’ یہاں سے چل کر تمہیں اپنے لئے نئے کپڑے خریدنے ہوں گے ۔ یہ کپڑے بڑے گندے ہو چکے ہیں۔“
اس کے پاس بہت روپے تھے میں جو چاہے خرید سکتا تھا۔ بیرا باقی پیسے لے کر آیا تو روہنی نے کہا۔’’یہ تمہارا انعام ہے ۔ تم رکھ لو ۔‘‘ بیرے نے خوش ہو کر سلام کیا اور چلا گیا۔

پُراسرار حویلی - پارٹ 12

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں