پُراسرار حویلی - پارٹ 4

 

Sublimegate Urdu Font Stories

 پُراسرار حویلی - پارٹ 4


رانی بائی کے قلعے میں اور اس کے بعد جنگل میں میرے ساتھ جو دہشت ناک واقعات گزرے تھے انہوں نے میرے ذہن کو کافی پریشان کیا تھا۔ میرا دل تفریح کرنے کو چاہتا تھا اور وہاں فلم ہی میرے لئے ایک تفریح کا ذریعہ تھی۔ چنانچہ میں جمشید کو اس کے فلیٹ میں ہی چھوڑ کر فلم دیکھنے چل پڑا۔ دو منزلہ بس میں بیٹھ کر میٹرو سینما پہنچ گیا۔۔“ چھ بجے والا شو ختم ہونے میں کچھ وقت باقی تھا۔ میں سینما کے پاس ہی ایک ایرانی ہوٹل میں چاۓ پینے بیٹھ گیا۔ اس زمانے میں بمبئی سے گجراتی ، ہندی اور انگریزی کے علاوہ اردو کے بھی دو تین اخبار شائع ہوتے تھے جن میں روزنامہ " خلافت “بمبئی کے مسلمانوں میں بڑا مقبول تھا۔ ہوٹل میں ’’خلافت ‘‘کا ایک پرچہ پڑا تھا۔ میں چاۓ پیتے ہوۓ اسے پڑھنے لگا۔ اس میں بھی یہی لکھا تھا کہ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کی سنہری منزل ہے اور قائداعظم کی بے لوث قیادت میں مسلمان اپنی منزل کو حاصل کر کے رہیں گے۔

فلم کا آخری شو شروع ہونے میں آدھ گھنٹہ رہ گیا تھا۔ میں اٹھ کر میٹرو سینما آ گیا۔ وہاں آخری شو کے لئے ٹکٹ والی کھڑکی کھل چکی تھی۔ میں نے سیکنڈ کلاس کا ٹکٹ لیا اور سینما ہال میں آکر بیٹھ گیا۔ ہال میں ہلکی ہلکی انگریزی موسیقی کی آواز آرہی تھی۔لوگ آہستہ آہستہ ہال میں آرہے تھے ۔ میں اپنی سیٹ پر خاموش بیٹھا ان عجیب و غریب اور ناقابل یقین واقعات پر غور کر رہا تھا جو میرے ساتھ گزر چکے تھے۔ مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ اس قسم کے واقعات حقیقی زندگی میں بھی پیش آ سکتے ہیں ۔ ایسی باتیں تو خواب میں ہوا کرتی ہیں اور وہ بھی ڈراؤنے خواب میں . . . . . میری آنکھوں کے سامنے بار بار قلعہ رانی بائی کے بڑے کمرے کا وہ منظر آ جاتا تھا ۔

سارے واقعات ایک فلم کی طرح میری آنکھوں کے سامنے سے گزر رہے تھے۔
میرے کان میں اس حسین و جمیل عورت کی آواز ابھی تک گونج رہی تھی جب اس نے مجھے خبردار کیا تھا کہ میری زندگی خطرے میں ہے اور اب اس کا فرض بن گیا ہے کہ وہ میری جان کی حفاظت کرے ۔

یہ ساری باتیں میری عقل اور فہم سے باہر تھیں لیکن جو کچھ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا اس پر مجھے یقین کرنا ہی پڑ رہا تھا۔ میں انہیں پریشان خیالات کے ساتھ اپنی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک سینما ہال کی روشنیاں بجھ گئیں اور پردہ آہستہ آہستہ اوپر کو اٹھنے لگا۔

پھر فلم شروع ہو گئی۔ جنگل کا سین تھا۔ ایک شکاری شیر کی تلاش میں جنگل میں چلا جا رہا تھا۔ میرا ذہن کہیں اور بھٹک رہا تھا۔ صرف آنکھیں پردہ سکرین پر تھیں۔
اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ کوئی آدمی سیٹوں کے درمیان جھک کر چلتا چلا آ رہا ہے۔ وہ ایک لمحے کے لئے سیٹ پر بیٹھے ہوۓ آدمی کو دیکھتا ہے اور پھر آگے چل پڑتا ہے۔ اس کا رخ میری طرف تھا۔ جب وہ میرے قریب آیا تو میں نے ہال کی ہلکی ہلکی روشنی میں اسے پہچان لیا۔ وہ میر ادوست جمشید تھا۔ جمشید نے بھی مجھے پہچان لیا اور میرے کان کے قریب منہ لے جا کر بولا۔’’فیروز ایک ایمرجنسی ہو گئی ہے۔ ذرا باہر آؤ۔

میں جلدی سے اٹھا اور جمشید کے ساتھ سینما ہال سے باہر آ گیا۔ جمشید کچھ پریشان بھی تھا اور جلدی میں بھی تھا۔ میں نے اس سے پوچھا۔
” بات کیا ہے جمشید ؟ میں نے تمہیں اتنا پریشان کبھی نہیں دیکھا۔“

جمشید جلدی جلدی چل رہا تھا۔ کہنے لگا۔ ’’ پریشانی کی کوئی بات نہیں فیروز ۔ بس مجھے تمہاری تھوڑی سی مدد کی ضرورت پڑ گئی ہے۔۔ میں نے کچھ نہ کہا اور میں بھی اس کے پیچھے پیچھے تیز تیز قدموں سے چلنے لگا۔ دل میں دعا مانگ رہا تھا کہ یا اللہ خیریت ہی ہو ۔ اس شخص کو اچانک میری کیا ضرورت پڑ گئی ہے کہ مجھے سینما ہال سے لینے آ گیا ہے۔ سینما ہاؤس کے باہر اس کی پرانی گاڑی کھڑی تھی۔ وہ گاڑی میں آیا تھا۔ اس نے مجھے گاڑی میں اپنے ساتھ بٹھایا اور گاڑی سٹارٹ کر کے سینما ہاؤس کے احاطے سے نکل کر بمبئی کی ایک سڑک پر روانہ ہو گیا۔
میں نے ایک بار پھر اس سے پوچھا ۔ بھائی کچھ بتاؤ تو سہی ہوا کیا ہے ؟ تمہیں میری مدد کی کیا ضرورت پڑ گئی ہے ؟‘‘ سڑک کشادہ تھی۔ ٹریک نہ ہونے کے برابر تھا۔ جمشید گاڑی کافی تیز چلا رہا تھا۔ کہنے لگا۔’’ بات یہ ہے کہ ایک پارٹی اچانک آگئی ہے۔اس سے 80 ہزار روپے کا سودا طے پا گیا ہے۔ رقم میں نے وصول کر لی ہے ۔ اب پارٹی کو مال لا کر دینا ہے۔ میں نے مال ایک خفیہ جگہ پر چھپا کر رکھا ہوا ہے ۔ اس خفیہ جگہ سے مال باہر نکالنے کے لئے ایک اعتباری آدمی کی ضرورت ہے۔ پہلے اس کام کے لئے میرا ملازم عبدل میرے ساتھ جا تا تھا۔ وہ کم بخت آج ہی اپنی بیمار ماں کی خبر گیری کرنے ناسک چلا گیا ہے۔ کسی دوسرے آدمی کو میں اپنے ساتھ نہیں لے جا سکتا تھا۔ اچانک مجھے تمہارا خیال آ گیا۔ بس اتنی سی بات ہے۔“
جمشید نے پہلے مجھے کبھی نہیں بتایا تھا کہ وہ اس قسم کے مال کا کاروبار بھی کرتا ہے جس کو اسے کسی خفیہ جگہ پر چھپا کر رکھنا پڑتا ہے۔ میں سمجھ گیا کہ یہ کچھ اور معاملہ ہے۔ گاڑی بمبئی سے باہر ایک کھلی سڑک پر پوری رفتار سے جارہی تھی۔

میں نے جمشید سے انجان بن کر پوچھا۔’’ یہ کس قسم کا مال ہے جس کو تم خفیہ جگہ پر چھپا کر رکھتے ہو ؟“
جمشید نے گاڑی کو ایک اور نسبتا ویران سڑک پر ڈالتے ہوۓ کہا۔’’یار اب تم مجھے ذلیل کرنے کی کوشش نہ کرو۔ میں بتا دوں گا تمہیں کہ مال کیا ہے۔ پارٹی بڑی سالڈ ہے اور اسے اچانک مال کی ضرورت پڑ گئی ہے ۔ “

80 ہزار روپے کی رقم سن 1946ء میں بہت بڑی رقم تھی۔ مجھے دل میں افسوس ضرور ہوا کہ میرا دوست یہ کس مذموم دھندے میں پڑ چکا ہے ۔ میں اس کا جگری دوست ہوں اور اس نے مجھ سے بھی یہ بات پوشیدہ رکھی۔ میں خاموش ہو گیا اور کوئی بات نہ کی۔ مجھے خاموش دیکھ کر شاید جمشید کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ گاڑی اس وقت شہر کی مضافاتی آبادیوں کو چھوڑ کر ایک ویران علاقے میں داخل ہو چکی تھی جہاں ادھر ادھر جھاڑیاں اور تاڑ کے درخت رات کی تاریکی میں آسمان کی طرف اٹھے ہوۓ دکھائی دے رہے تھے۔

گاڑی ویران علاقے کے کچے راستے پر چلتی ہوئی چلی جارہی تھی۔ تین چار موڑ گھومنے کے بعد جمشید نے ایک جگہ گاڑی روک لی ۔ گاڑی کی بتیاں روشن تھیں ان کی روشنی سامنے ایک گودام نما عمارت پر پڑ رہی تھی۔ جمشید نے بتیاں گل کر دیں اور گاڑی سے اترتے ہوئے بولا۔ ’’مال اس شیڈ کے اندر ہے ۔
‘‘ یہ ایک ویران سا شیڈ تھا اس کا دروازہ اکھڑ کر ایک طرف گرا پڑا تھا۔ جمشید نے جیب سے ٹارچ نکال کر روشن کر لی ۔ جگہ جگہ اینٹوں اور پتھروں کے ڈھیر پڑے تھے ۔ایک جگہ لوہے کی زنگ خوردہ گول پہیئے والی کوئی ٹوٹی پھوٹی مشین پڑی تھی۔اس کی دوسری جانب فرش پر پتھر کی ایک سیاہ سل رکھی ہوئی تھی۔ جمشید نے ٹارچ روشن کر کے ایک طرف اس طرح رکھ دی کہ اس کی روشنی پتھر کی بھاری سل پر پڑ رہی تھی۔ پھر وہ لوہے کی زنگ خوردہ مشین کے پاس گیا اور اس کے نیچے سے رسی کا ایک بڑا سا گچھا اٹھا کر لے آیا۔ رسی کا گچھا اس نے پتھر کی سل کے پاس ہی رکھ دیا اور بولا۔

”فیروز ! میرے ساتھ لگ کے اس سل کو ایک طرف ہٹادو۔“ پتھر کی سل کافی وزنی تھی۔ ہم دونوں نے مل کر اسے بڑی مشکل سے ایک طرف کو سر کایا۔ جمشید نے ٹارچ اٹھا کر اس گول سوراخ کے اندر روشنی ڈالی جو پتھر کی سل کے نیچے نمودار ہوا تھا۔ کہنے لگا۔ ’’مال نیچے اینٹوں کے ڈھیر کے نیچے ٹین کے ایک چوکور ڈبے میں پڑا ہے۔ تم صرف اتنا کرو کہ نیچے اتر کر ڈبہ اوپر لے آؤ میں نیچے رسی لٹکاتا ہوں رسی کو میں اوپر سے پکڑے رکھوں گا۔“

اس نے رسی کا کچھا کھولا تو وہ رسی کی ایک سیڑھی تھی۔ اس نے رسی کی سیڑھی تہہ خانے میں لگا دی اور اس کا دوسرا سرا اپنے جسم کے گرد لپیٹ لیا۔ میں نے نیچے جھانک کر دیکھا۔ نیچے کوئی پندرہ فٹ کی گہرائی میں اینٹوں کی ایک ڈھیری نظر آ رہی تھی۔ جمشید بولا۔ ” فکر نہ کرنا۔ میں نے رسی کو اپنے جسم کے گرد مضبوطی سے لپیٹ لیا ہے ۔ عبدل بھی اسی طرح نیچے اترا کرتا تھا۔‘‘
جمشید کا بدن بھاری تھا اور اس معاملے میں وہ مجھ سے دو گنی طاقت والا تھا۔ اس نے رسے کا سرا بالکل ایسے جسم کے گرد لپیٹ رکھا تھا جس طرح رسہ کشی کے کھیل میں سب سے آخری آدمی نے رسہ جسم کے گرد لپیٹا ہوتا ہے ۔ اس نے رسا اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر اپنا ایک پاؤں آگے کو جما لیا ۔
وہ ایک ہاتھ سے نیچے تہہ خانے میں ٹارچ کی روشنی ڈالے ہوۓ تھا۔ میں نے رسی کو پکڑا اور اس کے چھوٹے چھوٹے زینوں پر پاؤں رکھتا نیچے اترنے لگا۔ تہہ خانے کی فضا میں عجیب قسم کی ناگوار بو پھیلی ہوئی تھی۔ اوپر سے جمشید کہہ رہا تھا۔ ایٹوں کے ڈھیر کی دائیں جانب دو چار اینٹوں کے نیچے ٹین کا چوکور ڈبہ پڑا ہوگا۔ بس اسے اٹھا کر واپس اوپر چڑھ آنا میں ٹارچ کی روشنی ڈال رہا ہوں . . . . . جمشید میرا ایسا جگری یار تھا کہ اس کی خاطر میں بڑی سے بڑی قربانی دے سکتا تھا۔
یہ تو محض ایک پندرہ فٹ گہرے ایک اندھیرے تہہ خانے میں اترنے کی بات تھی۔ کچھ ہی دیر بعد میرے پاؤں نیچے اینٹوں کے ڈھیر سے ٹکراۓ۔ اوپر سے ٹارچ کی روشنی پڑرہی تھی۔ میں نے رسی کی سیڑھی کو چھوڑ دیا اور اینٹوں کے ڈھیر کی دوسری طرف آگیا۔ اوپر سے جمشید کی آواز آئی۔ ”بس اسی جگہ الگ سے چار اینٹیں پڑی ہیں۔ ٹین کا ڈبہ ان اینٹوں کے درمیان رکھا ہوا ہے ۔
میں نے جھک کر دیکھا۔ وہاں کچھ اینٹیں ضرور پڑی تھیں۔ میں نے انہیں دونوں ہاتھوں سے اٹھا کر ایک طرف پھینکا ان کے نیچے سواۓ مزید اینٹوں کے اور کچھ بھی نہیں تھا۔ میں نے جمشید کو آواز دے کر کہا۔ " یہاں کوئی ڈبہ نہیں ہے ۔“ اوپر سے جمشید کی آواز آئی۔ دوسری طرف دیکھو شاید وہاں پڑا ہوگا۔ ‘‘میں اینٹوں کے ڈھیر کی دوسری جانب آ گیا وہاں بھی دس بارہ اینٹوں کو ہٹا کر دیکھا۔ وہاں بھی نیچے سواۓ اینٹوں اور پتھروں کے اور کچھ نہیں تھا۔ میں نے دوبارہ جمشید کو آواز دی اور کہا۔ ” یہاں بھی کچھ نہیں ہے۔“ اوپر سے جمشید کی آواز آئی۔” یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ میں نے خود ڈبہ مال سے بھر کر یہاں رکھا تھا۔ ذرا اچھی طرح سے دیکھو۔“ جمشید نے اوپر سے ٹارچ کی روشنی ڈال رکھی تھی۔ میں نے اس کی روشنی میں اینٹوں کے ڈھیر کو چاروں طرف سے اینٹوں کو ہٹا ہٹا کر دیکھا مگر وہاں مجھے کوئی ڈبہ نہ ملا۔
میں نے کہا۔ " جمشید یاد کرو ۔ تم نے ڈبہ کسی دوسری جگہ تو نہیں چھپایا تھا؟‘‘ اوپر سے جمشید نے کہا۔ ایسا کرو کونے میں جا کر دیکھو۔ کہیں میں نے غلطی سے کونے میں نہ رکھ دیا ہو ۔“ اس نے ٹارچ کی روشنی کونے میں پھینکی۔ کونے میں بھی اینٹ ، پتھر بکھرے ہوئے تھے۔ میں کونے میں جا کر جھک کر دیکھنے لگا۔ اچانک ٹارچ کی روشنی بجھ گئی۔ بالکل ایسے جیسے گھروں میں کبھی کبھی اچانک بتی چلی جاتی ہے ۔ میں نے جھنجلا کر کہا۔
" ٹارچ کیوں بجھا دی ؟ ٹارچ روشن کرو۔ مجھے اندھیرے میں کچھ نظر نہیں آتا۔“ جمشید نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس کے ساتھ ہی مجھے کنوئیں نما تہہ خانے کے منہ پر پتھر کی بھاری سل رکھنے کی آواز سنائی دی۔ میں دوڑ کر اس جگہ آ گیا جہاں چھت کا سوراخ تھا۔ سوراخ پتھر کی سل سے بند ہو چکا تھا۔ میں نے چلا کر کہا۔ ” جمشید ! یہ مذاق مجھے بالکل پسند نہیں ۔ سل کو ہٹاؤ اور ٹارچ کی روشنی ڈالو۔ مجھے اندھیرے میں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
میں اسے مذاق سمجھ رہا تھا۔ مگر بہت جلد مجھ پر یہ ہولناک انکشاف ہو گیا کہ یہ مذاق نہیں تھا۔ اوپر سے جمشید نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے اسے دو تین بار آوازیں دیں مگر جمشید تو جیسے تہہ خانے کے منہ پر پتھر کی بھاری سل رکھ کر جاچکا تھا۔ میں نے دونوں ہاتھ فضا میں ادھر ادھر ہلائے کہ اگر رسی لٹک رہی ہو تو اس کے سہارے اوپر پڑھ کر پتھر کی سل کو ہٹانے کی کوشش کروں۔ مگر وہاں کوئی رسی لٹکی ہوئی نہیں تھی۔ تہہ خانے کا منہ بند کرنے سے پہلے جمشید نے رسی کو اوپر کھینچ لیا تھا۔ یقین کریں میں سناٹے میں آگیا۔ میں کبھی یقین نہیں کر سکتا تھا کہ جمشید بھی ایسی حرکت کر سکتا ہے کہ مجھے تہہ خانے میں بند کر کے چلا جائے۔ میں تہہ خانے کے گھپ اندھیرے میں حیران پریشان بالکل ساکت کھڑا اوپر دیکھ رہا تھا۔
میں نے ایک بار پھر جمشید کو آوازیں دینی شروع کر دیں۔" جمشید ! بس کافی مذاق ہو چکا۔ میر ادم گھٹ رہا ہے۔ مجھے باہر نکالو۔“ لیکن اوپر کوئی ہوتا تو مجھے جواب دیتا۔ اوپر تو موت کی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ تب مجھے یقین کرنا ہی پڑا کہ جمشید مجھے تہہ خانے میں چھوڑ کر جا چکا ہے۔ مگر اس نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ کیا وہ پاگل ہو گیا ہے ؟ ضرور وہ پاگل ہو چکا ہے اس کے دماغ کا کوئی پرزہ ڈھیلا ہو گیا ہے ورنہ وہ ایسا کبھی کر ہی نہیں سکتا تھا کہ مجھے گاڑی میں بٹھا کر اس ویران جگہ پر لائے اور تہہ خانے میں بند کر کے چلا جائے۔ جب مجھے یقین ہو گیا کہ جمشید نے اپنے ہوش و حواس میں ایسا نہیں کیا تو میں نے وہاں سے نکلنے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ پہلے تو مجھے اندھیرے میں کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ اندھیرے میں اینٹ، پتھروں کے ڈھیروں کے خاکے ابھر نے لگے ۔
میں اس بات کی تصدیق کرنا چاہتا تھا کہ کیا واقعی جمشید نے یہاں کوئی ڈبہ چھپایا ہوا تھا یا نہیں۔ میں نے اندھیرے میں ہی کونے میں اینٹوں کو ادھر ادھر ہٹا کر دیکھا۔ وہاں کچھ بھی نہیں تھا اسی طرح میں نے چاروں کونوں کی چھان بین کی ۔ کسی جگہ بھی مجھے وہ ٹین کا ڈبہ نہ ملا جس کو حاصل کرنے کی خاطر جمشید مجھے وہاں لایا تھا۔ تو کیا یہ سب اس کی سازش تھی؟ مگر اسے یہ جال بچانے کی کیا ضرورت تھی؟ میں تو اس کا جگری دوست تھا۔ اس نے ایسا کیوں کیا؟
میں پھر اس نتیجے پر پہنچا کہ جمشید کی عقل ٹھکانے نہیں رہی۔ میں نے ادھر ادھر سے اینٹیں لا کر جہاں چھت کا منہ تھا اور جو پتھر کی سل سے بند تھا اس کے بالکل نیچے جو اینٹوں کی چھوٹی سی ڈھیری تھی وہاں اینٹوں کو جوڑنا شروع کر دیا تاکہ جب ڈھیری ذرا اونچی ہو جاۓ تو میں اس پر کھڑے ہو کر پتھر کی سل کو ہٹانے کی کوشش کروں۔ اندھیرے میں کسی وقت نظر آتا تھا اور کسی وقت کچھ بھی نظر نہیں آتا تھا۔ لیکن میں نے ہمت نہ ہاری اور اینٹیں جوڑتا رہا۔ ڈھیری ڈھائی تین فٹ اونچی ہو گئی۔ پھر میں سنبھل کر بڑی احتیاط کے ساتھ ڈھیری کے اوپر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ میں نے دونوں ہاتھ اوپر بلند کئے ۔ میرے ہاتھوں کی انگلیاں چھت کے دہانے پر رکھی ہوئی پتھر کی سل کو چھونے لگی تھیں۔ لیکن میں زور لگا کر سل کو کسی طرف کھسکا نہیں سکتا تھا۔ اس کے باوجود میں نے سل کو ایک طرف کھسکانے کے لئے ذرا سا زور لگایا تو اینٹیں میرے پاؤں کے نیچے سے نکل گئیں اور میں دھڑام سے اینٹوں کے ساتھ ہی ایک طرف گر پڑا ۔
میرے ایک گھٹنے میں چوٹ آئی اور درد کرنے لگا تھا۔ مگر اس وقت میں نے درد کی پرواہ کئے بغیر دوبارہ اینٹوں کی ڈھیری بنانی شروع کر دی۔ مجھے کافی وقت لگ گیا۔ جب دوبارہ اینٹوں کی ڈھیری روڈھائی فٹ اونچی ہو گئی تو میں پہلے سے زیادہ احتیاط کے ساتھ اس کے اوپر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ پھر آہستہ آہستہ اٹھنا شروع کیا۔ جیسے ہی میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہوا اینٹیں اپنی جگہ سے ہلیں اور مجھے ساتھ لے کر ساری اینٹیں نیچے گر پڑیں۔ میں سخت مایوسی کے عالم میں وہیں سر جھکا کر بیٹھ گیا اور خدا سے دعا مانگنے لگا کہ وہ مجھے اس مصیبت سے نکالے لیکن مقدر میں جو لکھا تھا اسے تو ہونا ہی تھا۔ ایک تو مجھ پر ایک ناگہانی مصیبت نازل ہو گئی تھی دوسرے مجھے یہ صدمہ بھی تھا کہ جمشید جو میرا اتنا عزیز دوست تھا اس نے میرے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا۔ کیا واقعی وہ پاگل ہو گیا تھا؟
تہہ خانے میں اترتے وقت مجھے فضا میں جو ناگوار بو محسوس ہوئی تھی وہ اب مجھے محسوس نہیں ہو رہی تھی لیکن اندر بند ہونے کی وجہ سے مجھے سانس لیتے وقت گھٹن محسوس ہونے لگی تھی۔ میں نے اٹھ کر ایک بار پھر باہر نکلنے کی کوشش شروع کر دی۔ وہاں جتنے اینٹ پتھر بکھرے ہوئے تھے میں نے وہ سارے اٹھا کر چھت کی سل کے نیچے ڈھیری پر جمع کر دیئے ۔ اس کے باوجود ڈھیری دو ڈھائی فٹ سے زیادہ اونچی نہ ہوئی اور صرف میری انگلیاں ہی پتھر کی سل کو چھو رہی تھیں ۔ صرف انگلیوں سے میں اتنی بھاری سل کو تہہ خانے کے منہ کے اوپر سے پرے نہیں ہٹا سکتا تھا۔ اس خیال سے کہ شاید وہاں سے اوپر جانے کا کوئی خفیہ راستہ بھی ہو۔ میں اندھیرے میں دیواروں کو ہاتھ پھیر پھیر کر دیکھنے کی کو شش کرنے لگا۔
اچانک میرا ہاتھ ایک انسانی کھوپڑی سے ٹکرایا جو دیوار میں سے آدھی باہر کو نکلی ہوئی تھی۔ میں ڈر کر جلدی سے پیچھے ہٹ گیا اور آنکھیں سکیٹر کر تاریکی میں کھوپڑی کو تکنے لگا۔ عجیب بات ہے کہ کھوپڑی ایک دو سیکنڈ کے بعد مجھے بالکل صاف نظر آنے لگی تھی۔ اس انسانی کھوپڑی کا منہ کھلا تھا۔ آنکھوں کی جگہ دو تاریک گڑھے پڑے ہوئے تھے ۔ میں حیران ہو رہا تھا کہ اس دیوار میں یہ کھوپڑی کہاں سے آ گئی ہے ۔ کیا کسی نے کسی انسان کو قتل کرنے کے بعد اس کی لاش دیوار میں چن دی تھی؟ لیکن ایسی صورت میں دیوار میں انسانی پنجر بھی ہونا چاہئے تھا جبکہ دیوار میں صرف کھوپڑی ہی نظر آرہی تھی۔
میرے ذہن میں طرح طرح کے توہمات پیدا ہونے لگے تھے ۔ کہیں اس تہہ خانے میں بھی تو کسی بدروح کا بسیرا نہیں ہے؟ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ جبکہ تبہ خانے میں باقی ہر جگہ گہری تاریکی تھی تو پھر اس کھوپڑی پر روشنی کہاں سے پڑر ہی تھی۔ اس سے پہلے وہاں روشنی کا نشان تک نہیں تھا۔ میرے ہاتھ لگانے کے بعد کھوپڑی پر دھیمی دھیمی روشنی سی آگئی تھی۔ میں خوف زدہ نظروں سے دیوار میں سے ابھری ہوئی کھوپڑی کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک مجھے پھنکار کی آواز سنائی دی۔ یہ کسی سانپ کی پھنکار تھی اور بڑی غصیلی اور غضب ناک آواز تھی۔ میں دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔ میری خوف زدہ نظریں کھوپڑی پر جمی ہوئی تھیں کیونکہ مجھے پچنکار کی آواز اس کھوپڑی میں سے آتی محسوس ہوئی تھی۔
اس کے ساتھ ہی میں نے ایک منظر دیکھا جسے دیکھ کر میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ میں نے دیکھا کہ کھوپڑی کے منہ میں سے ایک کالا سانپ نکلا اور اس نے اپنا پھن کھول کر کھوپڑی کی پیشانی پر ڈسنا شروع کر دیا۔ کھوپڑی کے حلق میں سے کراہنے کی بڑی درد ناک آوازیں نکلنے لگیں۔ اب میں واقعی بہت خوف زدہ ہو گیا تھا اور خوف کے مارے میر احلق خشک ہو رہا تھا۔ میرے پاؤں ایک ایک من بھاری ہو گئے تھے۔ میں نے دوڑ کر سامنے والی دیوار کے پاس جانے کی کوشش کی لیکن میرے پاؤں نے ہلنے سے انکار کر دیا جیسے زمین نے میرے پاؤں جکڑ لئے تھے ۔ سانپ اب دیوار سے آدھی باہر نکلی ہوئی انسانی کھوپڑی کے اوپر کنڈلی مار کر بیٹھا تھا۔
اس کا پھن پھیلا ہوا تھا اور اس کے ہونٹوں پر سرخ خون لگا ہوا تھا۔ وہ میری طرف دیکھ رہا تھا اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد پھنکار رہا تھا۔ پھر اچانک سانپ نے میرے اوپر چھلانگ لگا دی۔ میرے حلق سے ایک چیخ نکل گئی۔ دوسرے لمحے میں نے دیکھا کہ جیسے ہی سانپ میرے چہرے سے ٹکرایا کسی نے جیسے اسے دم سے پکڑ کر زور سے دیوار کے ساتھ پٹخ دیا۔ سانپ کے دیوار کے ساتھ ٹکراتے ہی ایک بھیانک انسانی چیخ بلند ہوئی اور سانپ بھی غائب ہو گیا اور دیوار میں سے ابھری ہوئی کھوپڑی بھی غائب ہو گئی۔ میں نے دل میں کلمہ پاک کا ورد شروع کر دیا تھا کیونکہ میں سمجھ گیا تھا کہ یہ سب بدروحوں کا کھیل ہے ۔۔۔
جو مجھ پر حملہ کر رہی ہیں اور قدرت مجھے ان سے محفوظ رکھ رہی ہے ۔ تہہ خانے کی گھٹن بہت بڑھ گئی تھی اور اب میرے لئے سانس لینا مشکل ہو رہا تھا۔ میں ایسے جلدی جلدی سانس لے رہا تھا جیسے آدمی نزع کے عالم میں ہو ۔ مجھے محسوس ہونے لگا تھا کہ تہہ خانے کی فضا میں سے آکسیجن غائب ہونا شروع ہو گئی ہے ۔ میرے اندازے کے مطابق اتنی جلدی تہہ خانے سے آکسیجن کم نہیں ہونے چاہئے تھی۔ ایسے لگ رہا تھا کہ کوئی غیبی طاقت فضا کی آکسیجن کو جذب کر رہی ہے ۔ میرا سانس اکھڑنا شروع ہو گیا مجھے اپنے کانوں میں گھنٹیوں اور چیخوں کی آوازیں آنے لیں۔ آنکھوں کے آگے ڈراؤنی شکلیں گردش کرنے لگیں۔
پھر مجھ پر نیم بے ہوشی طاری ہو گئی اور میں کھڑے کھڑے وہیں اینٹوں کے ڈھیر پر گر پڑا۔ میں کچھ ہوش میں تھا۔ کچھ ہوش میں نہیں تھا۔ میری آنکھیں نیم وا تھیں۔ یعنی تھوڑی سی کھلی ہوئی تھیں ۔ مجھے تہہ خانے کی تاریکی میں دیوار کا دھندلا دهندلا خاکہ نظر آ رہا تھا ۔۔۔۔
اس دیوار میں سے ایک سایہ دھوئیں کی طرح لہراتا ہوا نمودار ہوا۔ دیوار سے باہر آتے ہی اس ساۓ نے ایک بھیڑیے کی شکل اختیار کر لی جس کی سرخ آنکھوں میں سے چنگاریاں پھوٹ رہی تھیں ۔ پھر سائے نے ایک مگرمچھ کی شکل اختیار کر لی جو منہ پھاڑے میری طرف بڑھ رہا تھا جیسے مجھے اپنے نوکیلے دانتوں میں دبوچ لے گا۔ یہ مگرمچھ میرے قریب آتے آتے ایک سیاہ فام عورت بن گئی جس کے جبڑوں سے خون کے قطرے اس کے جسم پر ٹپک رہے تھے ۔ اس کے دونوں ہاتھوں میں چھریاں تھیں ۔ ان چھریوں کے ساتھ بھی خون لگا ہوا تھا۔ وہ اپنے زرد نوکیلے دانت نکالے غراتے ہوۓ میری طرف بڑھ رہی تھی۔
میں جانتا تھا وہ مجھے قتل کرنے والی ہے مگر میں پتھر کی طرح پڑا تھا اور اپنی جگہ سے ذرا سی بھی حرکت نہ کر سکتا تھا۔ میرے پاس آ کر اس نے دونوں چھریوں والے ہاتھ اوپر اٹھا لئے اور ایک چیخ کے ساتھ میرے سینے اور پیٹ پر وار کیا۔ لیکن ابھی اس کی چریاں میرے جسم سے ایک فٹ اونچی ہوں گی کہ اس سیاہ فام چڑیل نما عورت کے حلق سے نکلتی چیخ آدھی اس کے حلق کے اندر ہی رہ گئی اور اس کی گردن ایسے کٹ کر اس کے کندھوں سے نیچے گر پڑی جیسے کسی غیبی انسان نے اس کی گردن پر تلوار کا بھر پور وار کیا ہو ۔
سیاہ فام عورت کا سر دھڑ سے الگ ہو گیا تھا۔ سر زمین پر گرا ہوا تھا مگر دھڑ اپنی جگہ پر اسی طرح کھڑا تھا۔ میں ادھ کھلی پتھرائی ہوئی آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کی کئی ہوئی گردن میں سے خون نکل نکل کر اس کے جسم پر آبشاروں کی طرح بہہ رہا تھا۔ پھر اس کا دھڑ کھڑے کھڑے ایسے کانپنے لگا جیسے اس پر لرزہ طاری ہو گیا ہو ۔ اور چند لمحوں کے اندر اندر سیاہ فام عورت کا مردہ دھڑ پانی کی طرح بہتے بہتے غائب ہو گیا۔ پھر دیوار میں میری نگاہوں کے بالکل سامنے روشنی کا ایک گولہ نمودار ہوا۔ میں نے غور سے دیکھا۔ روشنی کے اس دائرے میں باغ کا ایک راستہ بنا ہوا تھا۔۔۔
جس کی دونوں جانب پھولوں والی کیاریاں تھیں ۔ روشنی کے اس دائرے کی طرف سے تازہ ہوا آ کر میرے چہرے کو چھونے لگی۔ اس ہوا میں خدا جانے کیا طاقت تھی کہ میرے جسم کی کھوئی ہوئی توانائی واپس آگئی اور میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ پھر میں اٹھا اور خداوند کریم کی اس غیبی امداد پر اس کا شکر ادا کرتے روشنی کے دائرے کے اندر چلا گیا۔ روشنی کے دائرے کے اندر آتے ہی مجھے محسوس ہوا کہ میں ایک خوشنما خوب صورت باغ میں ہوں جس کے آسمان پر موتیوں کی طرح تارے چمک رہے ہیں۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ پیچھے کوئی تہہ خانہ اور تہہ خانے کی دیوار نہیں تھی۔ پیچھے بھی اس باغ کی ایک خوبصورت روش تھی جس پر ستاروں کی روشنی پڑ رہی تھی۔ میں کھڑے ہو کر حیرت سے دائیں بائیں دیکھنے لگا کہ میں کہاں تھا اور کہاں آ گیا ہوں۔
اگر قدرت خداوندی میری مدد نہ کرتی تو خدا جانے میرا اس بند تہہ خانے میں کیا حشر ہوتا۔ جمشید تو مجھے اس دوزخ میں ڈال کر چلا گیا تھا۔ میں حیران تھا کہ آخر اس نے مجھ سے کس جنم کا بدلہ لیا تھا کہ مجھے ایسی ہلاکت خیز جگہ پر پھینک گیا تھا۔ میں باغ میں سے باہر ایک سڑک پر آگیا تھا۔ میں نے اتنی سعی کر لی تھی کہ میں بمبئی شہر میں ہی تھا۔


پُراسرار حویلی - پارٹ 5

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories, 
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں