ہجر کی پہلی فجر۔ چوتھا حصہ (آخری)

 hindi moral stories

 ہجر کی پہلی فجر۔ چوتھا حصہ (آخری)


فاطمہ اس وقت اس لاونج کے صوفے پر بیٹھی اپنے دل کی ہاری ہوئی جنگ کا اعتراف رہی تھی۔ وہ جنگ جس میں وہ اوندھے منہ گری تھی اور اسے شہ مات دی گئی تھی۔ عمر کو کبھی نہ بھولنے اور اس کے علاوہ کسی سے نہ محبت کرنے کی دعویدار آج احد کی محبت میں پور پور ڈوب چکی تھی۔ اور یہ شکست خوردہ انکشاف اس کے دل کے پرانے زخموں کو ایک بار پھر ادھیڑ رہا تھا۔ ایک بار پھر ہر زخم سے خون رسنے لگا تھا جو اسے بری طرح رلا رہا تھا۔
خالہ نے اس کے کندھے کو ہولے سے تھپکتے ہوئے اسے چپ کروانے کی ناکام کوشش کی۔

"فاطمہ کیا تمہیں اللہ پر یقین ہے؟ کیا تم اس کی کہی گئی ہر بات پر ایمان رکھتی ہو؟" چند لمحوں بعد خالہ نے اس سے سوال کیا تھا جس پر اس کی سسکیاں تھم سی گئیں۔
"ظاھر ہے خالہ! اللہ پر تو پورا ایمان ہے۔" اس نے رندھی ہوئی آواز میں کہتے ہوئے کچھ حیرت سے خالہ کو دیکھا تھا۔۔ وہ ایسے کیوں سوال کررہی تھیں۔
"تو پھر تم یہ کیسے کہہ سکتی ہو کہ اپنے دوسرے شوہر سے محبت کرنا بے وفائی ہے؟ اگر یہ بے وفائی ہوتی تو اللہ دوسری شادی کا حکم ہی کیوں دیتا؟ وہ تو یہی کہہ دیتا ناں کہ اپنے شوہر سے علیحدگی یا اس کی موت کے بعد ساری زندگی کوئی اور محرم رشتہ بنانا اور اس سے محبت کرنا حرام ہے مگر اس نے ایسا نہیں کیا بیٹا کیونکہ وہ بڑا غفور و رحیم ہے۔ وہ اپنے بندوں کو سخت قید میں نہیں ڈالتا نہ ہی ان پر آزمائش ڈال کر ان سے ساری زندگی کی خوشیاں چھین لیتا ہے بلکہ وہ تو ہر مشکل کے ساتھ آسانی دینے والا ہے۔

یہ جو دل ہے ناں ہماررا۔۔۔۔" انہوں نے اپنے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
"اسے اللہ نے دل بنایا ہے سنگ نہیں جو اپنے اندر گنجائش نہ پیدا کر سکے۔ اس دل میں اللہ نے اتنی وسعت عطا کی ہے کہ تم عمر کی محبت کو دل میں رکھے ہوئے بھی احد سے محبت کر پائی۔ یہ اللہ کا تم پر خاص کرم ہے بیٹا کہ تمہیں اس نے صبر عطا کیا اور اس نئے رشتے کو نبھانے کے لئے تمہارے دل میں جگہ بنائی اسی لئے ناشکری نہ کرو اور کھلے دل سے اللہ کی اس نعمت کو قبول کرو جس نے تمہیں دیر ہونے سے پہلے ہی سنبھال لیا۔" آخر میں انہوں نے اسے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا تھا جو ایک ٹک کسی بت کی طرح انہیں دیکھ رہی تھی۔ کبھی کبھی انسان کسی بات کو صرف ایک ہی پہلو سے سوچتا ہے اور سمجھتا ہے اور پھر جب کوئی دوسرا اسے وہی بات دوسرے پہلو سے سمجھاتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے آنکھوں کے آگے سے اندھیرا سا چھٹنے لگا ہو۔ اسے اندازہ ہی نہیں تھا کہ اس محبت کے ہونے کا اتنا روشن پہلو بھی ہوسکتا ہے۔ وہ جس محبت پر شرمسار تھی وہ دراصل اللہ کی نعمت تھی جو اللہ نے خود اس کے دل میں ڈالی تھی۔ کئی لمحوں تک وہ خالہ کی باتوں کے ٹرانس میں رہی تھی۔ اور جب وہ بولی تو اب کہ اس کی آواز رندھی ہوئی نہیں تھی اور نہ ہی اسے رونا آرہا تھا بلکہ اس کی آواز پہلے سے زیادہ۔مضبوط تھی۔
"آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں خالہ۔ احد سے محبت مجھے نہیں ہوئی بلکہ یہ محبت میرے رب کی طرف سے عطا کیا گیا تحفہ ہے اور اب میں اس محبت کو کہیں نہیں جانے دوں گی۔ میں احد کو منا لوں گی خالہ۔ وہ۔انشاءاللہ مان جائے گا خالہ! مجھے اپنے رب پر پورا یقین ہے۔" وہ عزم سے کہتی انہیں دیکھ رہی تھی اور اس کی بات پر خالہ نے بے اختیار ہی انشاءاللہ کہا تھا اور ساتھ ہی ساتھ ڈھیروں دعائوں اور پیار سے بھی نوازا تھا۔

احد کو اچانک کسی کام کے سلسلے میں لاہور جانا پڑا تھا اور آج وہ دو دن بعد واپس آرہا تھا۔ وہ صبح ہی صبح اپنے ابو کے ساتھ اپنے گھر آگئی۔ سب سے پہلے تو ملازمہ کے ساتھ مل کر پورے گھر کی خوب اچھے سے صفائی کر کے اسے شیشے کی طرح چمکا دیا۔ ساتھ ہی ساتھ احد کی پسند کی چکن بریانی تیار کی اور میٹھے میں کھیر بھی بنالی۔

جب کھانا پک گیا اور گھر صاف ہو گیا تو شام ہو رہی تھی۔ احد رات کو گھر آنے والا تھا۔
کچھ دیر آرام کر کے وہ کھڑی ہوئی اور اور اب خود تیار ہونے چلی گئی۔
جب وہ تیار ہو کر نکلی تو نکھرے ہوئے گلاب کی طرح کھل رہی تھی۔ اس نے شیوفون کا سرخ رنگ کا فراک زیبتن کیا تھا جو وہ ایک دن پہلے ہی مال سے نیا خرید کر لائی تھی۔ کانوں میں چھوٹے چھوٹے سونے کے ٹاپس پہنے اور گلے میں سونے کا ہی لاکٹ پہن لیا۔ ہاتھوں میں گولڈن رنگ کی گھڑی پہن کر وہ اب بلکل تیار تھی۔ ہونٹوں پر لائٹ پنک کلر کی لپ اسٹک لگاتے ہوئے اس نے ایک آخری مطمئن نظر خود پر ڈالی۔ وہ سوٹ اس کی سوچ سے زیادہ اس پر جچ رہا تھا۔ اندر ہی اندر اپنی تیاری پر خوش ہوتی وہ اب احد کے ردعمل کی منتظر تھی۔ گیٹ پر ادھر سے ادھر ٹہلتے ہوئے وہ اب شدت سے اس کا انتظار کررہی تھی۔

گیٹ پر دستک ہوئی اور اس نے بھاگتے ہوئے ایک بیل پر ہی دروازہ کھول دیا اور پھر فوراً ہی اپنی اس حرکت پر کچھ شرمندہ بھی ہوگئی۔ اس نے کیا سوچا ہوگا اس کے بارے میں کہ وہ کتنی بے چینی سے اس کا انتظار کررہی ہے۔ مگر پھر اس نے بے فکری سے سر جھٹک دیا۔ شوہر ہیں میرے۔ ان کا انتظار نہیں کروں تو کس کا کروں گی؟ احد کو دیکھتے ہوئے اس نے مسکرا کر اسے سلام کیا۔ جس پر اس نے بس سرسری سی نگاہ اس پر ڈالی اور سلام کا جواب دیتے ہوئے اپنا بیگ لے کر سیدھا کمرے کی طرف چلا گیا۔ فاطمہ کو شدید صدمہ ہوا تھا۔ احد اس کی تیاری پر حیران اور خوش تو کیا ہوتا اس نے تو اسے غور سے دیکھنا بھی پسند نہ کیا۔ بڑی مشکل سے ہی اس نے اپنی آنکھوں میں آئے آنسووں کو روکا تھا۔

(نہیں مجھے ہمت نہیں ہارنی! وہ ناراض ہیں مجھ سے مجھے منانا ہے ان کو۔ مگر پھر بھی اب اتنا بھی کیا بھائو کھانا.) مثبت سوچنے کی کوشش کرنے کے ںاوجود بھی اسے رہ رہ کر اپنی ناقدری پر غصہ آرہا تھا۔ بڑی ہی مشکل سے اس نے اپنے غصے کو دباتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب قدم بڑھائے۔ اسے منانے کی ایک اور کوشش کرنی تھی اسے۔ وہ جب کمرے میں پہنچی تو احد باتھروم سے چینج کر کے نکلا ہی تھا۔

"کیسا رہا سفر؟ تھک گئے ہوں گے ناں؟" فاطمہ نے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
"نہیں! اب یہ چیزیں نہیں تھکاتی مجھے۔" اسے دیکھے بغیر کچھ طنزیہ انداز میں کہتا وہ اب بیڈ ہر بیٹھ گیا تھا۔
فاطمہ اس کی بات سن کر ایک دم۔سلگ گئی۔ دو دن بعد واپس آکر بھی منہ میں انگارے ہی چپائے رکھے ہیں۔ ایک بار پھر دل میں اٹھتے ابال کو دباتی وہ اب اسے کھانے پر بلانے لگی۔

"آپ آجائیں کھانے آپ کو بھوک لگ رہی ہوگی ناں۔"
اس کی بات پر وہ بس 'ہمم' کہتا ڈائننگ ٹیبل پر آگیا۔ میز پر سجی اتنی ساری چیزوں کو دیکھ کر بھی اس نے کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا۔ بس چپ چاپ اپنی پلیٹ میں بریانی نکال کر کھانا شروع کر دیا۔ آج اس نےفاطمہ کو بھی بلانے اور کھانے کا کہنے کی زحمت نہیں کی تھی جیسے وہ ہمیشہ کرتا تھا۔ فاطمہ کو یہ بات بری طرح چبھی تھی۔ اپنے آنسو پیتی وہ خود ہی اس کے برابر میں کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی اور زبردستی کھانا حلق سے اتارنے لگی۔ احد کے رویے نے اس کا دل کھانے سے تو کیا ہر چیز سے اچاٹ کردیا تھا۔

اسے رغبت سے بریانی اور اس کے بعد کھیر کھاتے دیکھ کر اس کے دل میں ایک بار پھر ایک موہوم سی امید جاگی تھی کہ شاید وہ اب اس کی تعریف کردے۔ اس کے ہاتھ کے بنے کھانے پر کوئی تبصرہ کردے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ اس نے اسی طرح خاموشی۔سے کھانا ختم کیا اور ڈائننگ ٹیبل سے اٹھ گیا۔
"میں بہت تھک گیا ہوں۔ بس کچھ دیر لان میں واک کروں گا اور پھر سو جائوں گا۔ تم بھی کام نپٹا کر جلدی سو جانا۔ تھک گئی ہوگی۔" اپنی پلیٹ اٹھا کر سنک میں رکھتے ہوئے اسے اطلاع دے کر وہ لان میں چلا گیا جبکہ وہ بس کچھ حسرت اور یاسیت سے اسے باہر جاتے ہوئے دیکھے گئی۔ جب وہ دل کے بے حد قریب ہوگیا تھا تو اب وہ خود کتنا دور چلا گیا تھا اس سے۔

جب وہ کچن وغیرہ صاف کر کے کمرے میں آئی تو کمرے کی لائٹ بند تھی۔ احد کروٹ کے بل لیٹا یقیناً سو چکا تھا۔ مایوسی نے اس کے پورے وجود کا احاطہ کرلیا۔ اس کی ساری محنت ، تمام ریاضتیں ضائع گئی تھیں۔ وہ ڈھیلے ڈھیلے انداز میں چلتی ہوئی ڈریسنگ ٹیبل پر گئی اور پنی۔جیولری۔اتارنے لگی۔ جیولری۔اتار کر وہ فوراً ہی اپنا لباس تبدیل کرنے چلی۔گئی۔
اچھی طرح منہ دھونے اور آرام دہ لباس پہن کر فرہش ہونے کے باوجود بھی وہ خود کو فریش نہیں محسوس کر پارہی تھی۔ وہ تھکے تھکے انداز میں بستر پر لیٹ گئی اور احد کی جانب کروٹ لے کر اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔
وہ گہری نیند میں سوتا جیسے زمانے بھر کی فکروں سے آزاد تھا۔ اسے ایسے بے فکری سے سوتا دیکھ کر اسے رشک آیا۔

اس نے غور سے دیکھا اس کے بال س کے چہرے پر بکھرے تھے۔ نائٹ بلب کی مدہم روشنی میں اس کے چہرے کے خد و خال واضح ہورہے تھے۔ اج اس کے چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے اس نے سوچا کہ اسے اس کے چہرے پر سب سے زیادہ خوبصورت شہ کیا لگتی ہے اور اسے فوراً ہی جواب مل گیا۔ اس کی پلکیں! ا سکی پلکیں بے حد گھنی ، لمبی اور مڑی مڑی تھیں جو اسے بے حد اٹریکٹ کرتی تھیں۔

یوں ہی اس کے چہرے کو تکتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ صرف پلکیں نہیں اسے تو اس کے چہرے کا ہر نقش ہی بے حد پیارا لگتا ہے۔ بلکہ صرف چہرہ ہی نہیں اس کا تو پورا وجود ہی اب اس کے لئے بےحد پیارا اور دل کے قریب تھا۔ بے اختیار ہی کئی آنسو اس کی آنکھوں سے ٹوٹ کر اس کے چہرے پر گرے تھے۔ ایک محبت کو وہ کھو چکی تھی مگر اب دوسری محبت نہیں کھو سکتی تھی۔
"I love you ahad. I love you very much!," اس نے روتے ہوئے بلکل مدہم آواز میں اس کی بند انکھوں کو دیکھتے ہوئے کہا تھا یوں کہ اسے خود بھی بمشکل ہی آواز سنائی دی تھی۔ اس نے چند لمحے یوں ہی اسے دیکھتے رہنے کے بعد رخ موڑ لیا اور چھت کو دیکھ کر اپنی زندگی کے بارے میں سوچنےلگی۔
"I love you too Mrs Fatima."

چند لمحوں بعد احد کی بھاری آواز کمرے میں گونجی تھی اور اس نیم تاریک کمرے میں لیٹے ہوئے اسے لگا جیسے اس کے دل کی دھڑکن تھم سی گئی ہو۔
تو کیا وہ جاگ رہا تھا؟ وہ اس کا اسے محبت اور حسرت سے دیکھنا ، پھر اس کا رونا اور پھر اس کا وہ مدہم سا اظھارِ محبت کیا وہ سب کچھ دیکھ اور سن چکا تھا؟ ایک دم ہی اس کا دماغ سائیں سائیں کرنے لگا۔ اسے لگا وہ کبھی شرمندگی سے نظریں نہیں اٹھا پائے گی۔ اس نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ یوں کھلم کھلا اس کے سامنے اپنی محبت کا اعتراف کرے گی مگر اب شک کی گنجائش باقی نہیں رہی تھی۔ احد سب کچھ سن چکا تھا اور اس کی بات کا جواب بھی دیا تھا۔
احد نے ہولے سے اس کے ساکت وجود کو ہلایا۔

"زندہ ہو ناں۔" اس کے لہجے میں شرارت سی جھلک رہی تھی۔ فاطمہ نے سختی سے اپنی آنکھیں میچ لیں۔ اس کا دل چاہا وہ یہاں سے کہیں بھاگ جائے اور اس نے ایسا ہی کرنے کی کوشش کی۔
"م م مجھے باتھروم جانا ہے۔" ہکلاتے ہوئے اس نے کہا اور باتھ روم کی جانب بھاگنے ہی لگی تھی کہ احد نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے روک لیا۔
"بیٹھو ادھر کہیں نہیں جارہی تم." وہ اسے زبردستی بیڈ پر بٹھاتا خود کھڑا ہو کر لائیٹ آن کرنے لگا۔ کمرہ ایک دم روشن ہوگیا۔ اس نے جلدی سے آنکھیں بند کرلیں۔ کم از کم اس وقت تو وہ احد کو بلکل فیس نہیں کر سکتی تھی۔

اس کو یوں آنکھیں بند کر کے بستر پر بیٹھا دیکھ کر بے اختیار ہی اس کو ہنسی آگئی۔
"اب محبت کر ہی لی ہے اور اس کا برملا اعتراف بھی تو کم از کم اب مجھے دیکھو تو صحیح۔ کب تک نظریں چرائو گی۔" وہ اس کے قریب بیٹھتا ہوا کہہ رہا تھا۔ اس کا انداز سراسر چڑانے والا تھا۔
"وہ تو بس میں نے ایسے ہی کہہ دیا۔" اس نے آنکھیں کھولتے ہوئے اسے دیکھا اور فوراً نظریں جھکا لیں۔

"اچھا!!!!!!" اچھا کو بے حد لمبا کھینچتے ہوئے اس نے مصنوعی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
"تو پھر میرے آنے پر اتنا جو تم تیار ہو کر بے حد حسین لگ رہی تھی اس کا کیا۔ اور یہ جو میرے ذرا سے نظرانداز کرنے پر یہ جو تم نے رو رو کر اپنی آنکھیں سجھا لی ہیں اس کا کیا۔ وہ سب بھی ایسے ہی تھا۔" مسکراتے ہوئے اسے دیکھتے ہوئے اس کے گالوں پر ٹہرے آنسو پونچھتا وہ کہہ رہا تھا۔
"جب آپ کو سب معلوم تھا تو آپ نے ایسے کیوں کیا۔ پہلے ہی یہ کہہ دیتے۔" وہ اسے نظریں اٹھا کر دیکھتی شکوہ کررہی تھی۔ اس کے نروٹھے انداز میں کہنے پر وہ بے اختیار ہی ہنس پڑا۔

"ہاں! کہہ تو میں بہت بہت پہلے ہی سکتا تھا کیونکہ مجھے بہت پہلے ہی پتا چل گیا تھا کہ تمہیں بھی مجھ سے محبت ہے۔ میری لاتعلقی پر تمہارا ہر وقت پریشان دکھنا اس بات کا واضح ثبوت تھا۔ اور پھر خالہ نے بھی مجھے آپ دونوں کی گفتگو کے بارے میں سب بتا دیا تھا۔ مگر اگر میں تمہارے ساتھ یہ نہ کرتا تو تمہارے منہ سے اتنا خوبصورت اظھارِ محبت کیسے سنتا؟"
وہ ایک دم حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔ تو احد یہ سب ڈھونگ کررہا تھا جبکہ وہ اس کے دل کی حالت بہت پہلے ہی جان چکا تھا۔ اور خالہ! اسے یقین نہیں آیا کہ خالہ یوں ان دونوں کے درمیان ہوئی گفتگو کے بارے میں احد کو بھی بتا سکتی ہیں۔
"اوہ۔ تو آپ نے اور خالہ نے مجھے مل کر الو بنایا۔ بہت برے ہیں آپ!" اسے اس کی باتیں سن کر شدید قسم کا غصہ آیا تھا۔ وہ دونوں اس کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے تھے۔

"اچھا!!! اتنا برا ہوں تو محبت کیوں کی مجھ سے؟" وہ بمشکل اپنی ہنسی ضبط کرتا کہہ رہا تھا جبکہ وہ اسے اب مزید تیش میں آ کر گھورنے لگی تھی۔
"بولو بولو۔" وہ اس کی ٹھوری کو چھوتا اسے مزید اکسا رہا تھا۔
اس نے غصے میں آکر اس کا ہاتھ جھٹکا۔
"صبر! ابھی آپ کو بتاتی ہوں آپ سے کیوں محبت کی میں نے۔" بیڈ پر رکھا کشن اٹھا کر وہ اسے مارنے ہی والی تھی کہ احد اس کا ارادہ بھانپ کر پہلے ہی بھاگ گیا۔ وہ بھی غصے سے اس کے پیچھے بھاگی تھی۔

اب احد آگے تھا اور فاطمہ اس کے پیچھے۔ ایسا لگ رہا تھا وہ دونوں جیسے چھوٹے بچوں کی طرح پکڑم پکڑائی کھیل رہے ہوں۔ کچھ ہی دیر میں پورا گھر ان کے قہقہوں سے گونج رہا تھا کیونکہ احد خود ہی تھک کر رک گیا تھا اور فاطمہ بھی اسے کشن مار مار کر اب اس کا بکھرا حلیہ دیکھ کر زور زور سے ہنس رہی تھی۔
"بہت ظالم بیوی ہو تم." اپنے کندھے کو مسلتا وہ کہہ رہا تھا۔
"آپ سے کم!" فاطمہ نے ہنستے ہوئے اسے چڑایا جبکہ وہ چڑنے کے بجائے بےاختیار ہی ہنس پڑا۔

"تھینک یو میری زندگی میں آنے کے لئے اور اسے مکمل کرنے کے لئے۔" وہ اسے اب کندھے سے تھام کر اپنے ساتھ لگا چکا تھا۔ اس کی بات سن کر طمانیت سے مسکراتے ہوئے اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں اور احد کے کندھے پر سر ٹکا دیا۔ وہ آج کتنے ہی دنوں بعد دل سے خوش اور پرسکون ہو کر اس لمحے کو مکمل طور پر جینا چاہتی تھی۔ ایک لمحے کو اس کا دل چاہا کہ وقت یہیں اسی لمحے میں قید ہوجائے جب وہ دوںوں ایک ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ لگے کھڑے ہو کر ایک دوسرے کے لئے دل میں مکمل محبت کا احساس رکھتے ہوں۔ جب ایک دوسرے کا ساتھ ہی ان کے ماضی کے زخموں کو بھر رہا ہو ، ان پر مرہم رکھ رہا ہو۔ مگر یہ زندگی تھی۔ جو کبھی کسی کے لئے نہیں رکتی۔

آج اس گھر کی چھت کے نیچے کھڑے وہ دونوں سوچ رہے تھے کہ زندگی اور پکڑم پکڑائی کے کھیل میں کوئی فرق نہیں۔ زندگی ہمیشہ آگے ہی دوڑتی رہتی ہے اور ہم اسے پکڑنے کی کوشش میں اس کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں اور ہمیں اس کے پیچھے بھاگنا ہی ہوتا ہے چاہے ہم چاہیں یا نہ چاہیں کیونکہ زندگی واقعی کسی لئے نہیں رکتی اور نہ انسان کو رکنے دیتی ہے۔
___________
ختم شد

ہجر کی پہلی فجر 

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے