پُراسرار حویلی - پارٹ 7

 

Sublimegate Urdu Font Stories

 پُراسرار حویلی - پارٹ 7

اس نے کئی بار بلایا کہ بمبئی آ کر اسے مل جاؤں ۔ میں نے اسے ہمیشہ یہی جواب دیا کہ پاسپورٹ بنوالوں پھر ویزا لگوا کر دو ایک دن کے لئے آ جاؤں گا۔ میری صحت پہلے سے اچھی ہو گئی تھی۔ اپنے آفس کے ہیڈ کلرک سے میری سلام دعا ہو گئی تھی۔ ایک بار اس نے کہا کہ فیروز ! تم بر سر روزگار ہو گئے ہو ۔ اب شادی کر کے اپنا گھر بسالو ۔ لیکن میری شادی کا تجربہ اس قدر تلخ تھا کہ مجھے شادی کے نام سے ہی نفرت ہو گئی تھی۔ عورتوں سے الٹی سیدھی دوستی کرنے کا مجھے کبھی شوق نہیں رہا تھا۔ بس اکیلا زندگی بسر کر رہا تھا اور اسی میں ہی خوش تھا۔ صرف اتنی تفریح کر لیتا تھا کہ کبھی کبھی سینما میں فلم دیکھنے چلا جاتا ۔ مجھے انگریزی کی مار دھاڑ والی فلمیں دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ انور کے قتل ہو جانے کے بعد میں نے کسی کو اپنا دوست نہیں بنایا تھا۔ تنہا زندگی بسر کر رہا تھا اور اس
میں بڑا خوش تھا۔
ایک رات ایسا ہوا کہ سردیوں کا موسم تھا۔ میں رات کے وقت اپنے کمرے میں لحاف اوڑھ کر ایک جاسوسی ناول پڑھ رہا تھا۔ کمرے کی کھڑکیاں اور دروازہ بند تھا۔ میں نے اندر سے کنڈی لگا رکھی تھی۔ میرے سرہانے کی جانب دیوار والا بلب روشن تھا اور میں پلنگ پر نیم دراز ناول پڑھنے میں محو تھا۔ باہر خاموشی تھی ویسے بھی ابھی آبادی کا سیلاب نہیں آیا تھا۔ شام ہونے کے بعد لاہور کی سڑکوں پر ٹریفک بہت ہی کم ہو جاتی تھی اور سردیوں میں تو رات دس گیارہ بجے تک سڑکیں خاموش ہو جاتی تھیں ۔ یہی حالت اس رات محلے کی اور محلے کے باہر والی سڑک کی تھی۔ میں جاسوسی ناول کی فضاؤں میں کھویا ہوا تھا کہ اچانک مجھے کمرے میں کسی دوسرے شخص کی موجودگی کا احساس ہوا۔ میں نے ناول پر سے نگاہیں ہٹا کر کمرے کا جائزہ لیا۔
دروازہ میں نے اندر سے چٹخنی لگا کر بند کیا ہوا تھا۔ وہاں کسی دوسرے شخص کی موجودگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ میں نے اسے محض اپنا وہم خیال کیا اور دوبارہ ناول کے مطالعے میں کھو گیا۔ تھوڑی دیر بعد مجھے کسی کے قدموں کی آہٹ سی سنائی دی۔ میں دروازے کی طرف دیکھنے لگا۔ مجھے ایسے لگا جیسے باہر جو چھوٹی سی راہ داری تھی وہاں کوئی دبے پاؤں چلتے چلتے دروازے کے پاس آکر رک گیا ہے۔ میں بند دروازے کی طرف مسلسل تک رہا تھا۔ میر اخیال تھا کہ اگر محلے کا کوئی شخص مجھ سے ملنے آیا ہے تو وہ بھی دستک دے گا۔ لیکن ایک تو محلے میں میری سلام دعا کے علاوہ کسی سے کوئی دوستی نہیں تھی دوسرے رات کے گیارہ بجے اتنی سردی میں مجھ سے ملنے کون آ سکتا تھا۔ لیکن پھر بھی میں دستک کی آواز کا انتظار کرتا رہا۔ دو تین منٹ گزر گئے۔ کسی نے دروازے پر دستک نہ دی تو میں نے اسے بھی اپنا وہم سمجھا اور ایک بار پھر ناول کا مطالعہ کرنے لگا۔
اس کے بعد مجھے پڑھتے پڑھتے نیند آنے لگی۔ میں نے ناول ایک طرف رکھا۔ دیوار والے بلب کے تار کا سوئچ میں نے اپنے سرہانے کے پاس لگوا رکھا تھا۔ میں نے سوئیچ دبا کر بتی بجھائی اور لحاف اوپر کر کے لیٹ گیا۔ نیند سے میری آنکھیں اپنے آپ بند ہونے لگیں۔ میں ابھی پوری طرح سویا نہیں تھا، نیند اور عالم بیداری کی درمیانی حالت میں ہی تھا کہ اچانک مجھے کسی کے لباس کی سرسراہٹ سنائی دی جیسے کوئی کمرے میں داخل ہوا ہو اور میرے پلنگ کے پاس آکر ٹھہر گیا ہو ۔
میری نیند ایک دم جیسے غائب ہو گئی اور بدن میں خوف کی ایک ہلکی سی لہر دوڑ گئی۔ لحاف سے میں نے اپنا منہ ڈھانپ رکھا تھا۔ میں اپنے اندر اتنی ہمت نہیں پا رہا تھا کہ لحاف منہ سے ہٹا کر بتی جلا کر دیکھوں کہ کمرے میں کون ہے ۔ پھر مجھے کمرے میں وہی پراسرار خوشبو محسوس ہوئی جو روہت گڑھ کے قلعے والی پرانی حویلی میں پہلی بار محسوس ہوئی تھی۔ مجھے ایک دم سے پرانے قلعے والی بدروح کا خیال آگیا۔ میں نے جلدی سے لحاف منہ سے ہٹا دیا۔ کمرے میں گھپ اندھیرا تھا۔ مجھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ پھر کسی کے سرد آہ بھرنے کی آواز آئی۔ میں نے ہاتھ پیچھے کر کے کمرے کی بتی کا سوئچ آن کر دیا۔
کمرے میں روشنی ہو گئی۔ مگر کمرہ بالکل خالی تھا۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ یا خدا یہ کیا معاملہ ہے۔ کہیں وہی منحوس ڈرامہ پھر سے تو شروع نہیں ہو گیا۔ میں نے پانچ مرتبہ کلمہ شریف پڑھ کر اپنے جسم پر پھونک ماری اور دعا مانگ کر سونے کی کو شش کرنے لگا۔ میں نے بتی نہیں بجھائی تھی۔ کمرے میں روشنی ہی رہنے دی تھی اور لحاف میں نے منہ کے اوپر نہیں کیا تھا۔ بس کبھی آنکھیں بند کر لیتا اور کبھی ڈر کے مارے آنکھیں کھول دیتا۔ اچانک مجھے اپنے سر کے نیچے کچھ گرمی سی محسوس ہوئی۔
اس زمانے میں لوگ روئی دار گدے اور سرہانے استعمال کرتے تھے۔ میں نے یہی خیال کیا کہ یہ روئی دار سرہانے کی اپنی گرمائش ہے جو میرے جسم کی حرارت سے پیدا ہوئی ہے۔ لیکن مجھے محسوس ہوا کہ سرہانے کی گرمی میں اضافہ ہو رہا ہے جیسے سرہانے کے اندر کسی نے گرم پانی کی بوتل رکھ دی ہو۔ میں جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ لحاف پرے کر کے میں سرہانے کو غور سے دیکھا۔ عام قسم کا معمولی سرہانہ تھا۔ میں نے اس پر ہاتھ رکھا تو میرا ہاتھ بھی گرم ہو گیا۔ میں نے جلدی سے ہاتھ ہٹا دیا پھر میں نے سرہانے کو بھی ہٹا دیا۔ یہ دیکھ کر خوف کے مارے میری چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی کہ سرہانے کے نیچے کالی مندر والا سونے کا بت پڑا تھا۔ ۔
میں اچھل کر پلنگ سے اتر گیا اور غور سے سنہری بت کو تکنے لگا۔ میر ادل زور زور سے دھڑکنے لگا تھا۔ بات ہی ایسی ہوئی تھی۔ میں حیران تھا کہ کالی مندر کا بت یہاں میرے سرہانے کے نیچے کہاں سے آ گیا ہے۔ یہاں اسے کس نے رکھ دیا ہے ۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ میں ہمت کر کے آگے بڑھا اور سونے کے بت کو ہاتھ سے چھوا۔ بت سخت گرم تھا جیسے ابھی ابھی کسی نے اسے آگ میں سے نکالا ہو ۔ یا اللہ ! یہ کیا مصیبت شروع ہو گئی ہے ۔ میں پلنگ سے دو قدم پیچھے ہٹ کر حیران پریشان کھڑا تھا اور کالی مندر کے بت کو تک رہا تھا۔ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں یہ بت آج کل کے کوکا کولا کی بوتل کے سائز کا تھا۔ اس کے چہرے پر آنکھوں کی جگہ دو گڑھے پڑے ہوئے تھے ۔ منہ کی جگہ ایک چوکور گڑھا بنا ہوا تھا جس میں اوپر کی جانب دو نوکیلے دانت اندر کی طرف مڑے ہوئے تھے ۔ اس بت کی شکل صورت کافی خوفناک تھی۔
کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کروں۔ بستر پر لیٹ نہیں سکتا تھا کمرے سے باہر بھی نہیں جا سکتا تھا۔ سوچا یہی ہو سکتا ہے کہ اس منحوس بت کو کسی چیز سے پکڑ کر کمرے سے باہر نکال لو۔۔۔ میں کمرے میں کوئی چیز دیکھنے لگا۔ اچانک مجھے ایسی رونگٹے کھڑے کر دینے والی آواز آئی جیسے کوئی مگرمچھ غصے میں پھنکارا ہو۔ میں نے پلٹ کر بت کو دیکھا۔ اس لمحے واقعی میرے پاؤں ایک ایک من بھاری ہو گئے ۔ بھاگنا چاہتا تھا مگر زمین میرے پاؤں نہیں چھوڑ رہی تھی۔ ایک انچ بھی میرے پاؤں اپنی جگہ سے نہیں ہل رہے تھے ۔ کالی مندر کا بت میرے سرہانے والی جگہ پر لیٹا ہوا تھا۔ اب وہ آہستہ آہستہ سیدھا ہو رہا تھا۔ میرے جسم میں سے بھاگنے کی طاقت بھی ختم ہو گئی تھی۔ بت بالکل سیدھا ہو گیا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ بلند ہونے لگا۔ بلند ہوتے ہوتے وہ کمرے کی چھت کے قریب پہنچ گیا۔
میں اسے دیکھ رہا تھا اور اپنی جگہ سے ذرا سی بھی حرکت نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح کمرے سے بھاگ جاؤں مگر میرے پاؤں میری کوشش کے باوجود اپنی جگہ سے نہیں ہل رہے تھے۔ بت ایک جگہ پہنچ کر ایک لمحے کے لئے رک گیا۔ اس کے چہرے کا رخ میری طرف تھا۔ اچانک بت کی آنکھوں کے گڑھوں میں سے سرخ روشنی نکلنے گئی۔ پھر ایسی آواز گونج اٹھی جیسے اچانک تیز آندھی چلنے گئی ہو ۔ بت بڑی تیزی سے میری طرف آیا جیسے کسی نے اس کو ہاتھ میں تھام رکھا ہو اور پوری طاقت سے میرے سر کا نشانہ لے کر میری طرف پھینک دیا ہو ۔ میں نے گھبرا کر اپنا سر نیچے کر لیا۔ بت ایک شو کر کی آواز کے ساتھ میرے سر کے اوپر سے نکل گیا۔اس کے بعد وہ ایک بار پھر میری طرف آیا۔
میں اپنی جگہ سے حرکت تو نہیں کر سکتا تھا لیکن میں نے نیچے کو جھک کر اپنے سر کو بچالیا۔ جب تیسری بار بت میرے سر کا نشانہ لے کر میری طرف آیا تو ایک چیخ کی آواز بلند ہوئی اور میرے دیکھتے دیکھتے کالی مندر کا بت فضا میں ہی غائب ہو گیا۔ جیسے ہی بت غائب ہوا میرے پاؤں ہلکے ہو گئے ۔ زمین نے میرے پاؤں چھوڑ دیئے ۔ میں نے دوڑ کر دروازہ کھولا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ کمرے کے باہر ایک تنگ راہ داری تھی جس کے آگے کٹڑی کا صحن آ جاتا تھا۔ صحن میں چاروں طرف کو ٹھڑیاں اور کمرے بنے ہوئے تھے جہاں نوکر پیشہ اور محنت کش لوگ رہتے تھے ۔ سرد رات میں صحن خالی پڑا تھا۔ میں دوڑتا ہوا صحن میں سے نکل کر باہر سڑک پر آ گیا۔ سڑک کے کنارے ایک چبوترہ تھا جہاں دن کے وقت ایک چھابڑی والا بیٹھا کرتا تھا۔
میں چبوترے پر بیٹھ گیا۔ سخت سردی میں بھی میرا جسم پسینے میں بھیگ گیا تھا۔ ۔ دیر تک وہیں چبوترے پر بیٹھا سوچتا رہا کہ کمرے میں واپس جاؤں یا نہ جاؤں۔ اب مجھے سردی بھی لگنے لگی تھی۔ جو کچھ میں نے کمرے میں دیکھا تھا اس پر مجھے یقین نہیں آرہا تھا۔ اب مجھ پر انور شاہ کی موت کا راز کھل گیا تھا۔ اسے کالی مندر کے بت نے ہی قتل کیا تھا اور اب وہ مجھے قتل کرنا چاہتا تھا کہ کسی غیبی طاقت نے مجھے بچالیا۔ آدھی رات کا وقت تھا۔ سردیوں کی رات تھی۔ سڑک پر سناٹا چھایا ہوا تھا۔ میں سردی سے ٹھٹھرنے لگا تھا۔ کیونکہ میں بستر سے نکلا تھا اور میں نے صرف قمیض پاجامہ ہی پہنا ہوا تھا۔ جب سردی میرے لئے ناقابل برداشت ہو گئی تو میں چبوترے سے اٹھا اور اپنے کمرے کی طرف چلا۔ کچھ میں نے بھی حوصلہ کیا اور دل کو سمجھایا کہ جس خدا نے مجھے اس بت کے حملے سے بچایا ہے وہ اب بھی میری حفاظت کرے گا۔
میں اپنے کمرے کا دروازہ کھلا چھوڑ آیا تھا۔ کمرے میں بتی جل رہی تھی۔اس کی روشنی باہر راہ داری میں آرہی تھی۔ میں نے کھلے دروازے میں سے جھانک کر دیکھا۔ کمرہ ویسے کا ویسا ہی تھا جیسے میں اسے چھوڑ گیا تھا۔ میں کلمہ پاک کا ورد کرتا کمرے میں داخل ہو گیا۔ دروازے کو بند کر کے کنڈی لگائی اور وہیں کھڑے کھڑے کمرے کا جائزہ لیا۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے وہاں کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ میری کتاب اسی طرح پلنگ کے پاس میز پر پڑی تھی۔ سرہانے کو ٹھیک کر کے اس پر سر رکھتے ہوۓ گھبراہٹ محسوس ہو رہی تھی۔ ٹیلی ویژن تو اس زمانے میں نہیں تھا ایک چھوٹا ریڈیو ٹرانسسٹر میرے سرہانے میز پر پڑا تھا۔ میں نے اسے اٹھایا ، اس کو آن کیا اور سوئی گھمانے لگا۔ ایک جگہ کسی سٹیشن پر سے قرآن پاک کی تلاوت ہو رہی تھی ۔ میں نے اس جگہ سوئی رہنے دی اور قرآن پاک کی تلاوت سننے لگا۔ ۔
اللہ کے کلام نے میرے اندر ایک نئی روح پھونک دی۔ میرا سارا ڈر خوف دور ہو گیا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ کوئی بدروح میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ میں نے سرہانے کو پلنگ کی پشت کے ساتھ سیدھا لگا دیا اور اس کے ساتھ ٹیگ لگا کر پلنگ پر نیم دراز ہو گیا اور بڑے خصوع و خشوع سے کلام پاک کی تلاوت سننے لگا۔ کچھ دیر بعد تلاوت ختم ہو گئی۔ میں نے ریڈیو بند کر دیا اور بتی بجھائی اور آنکھیں بند کئے بغیر ویسے ہی پلنگ پر نیم دراز ہو کر بیٹھا رہا۔ نیند کے غلبے سے میری آنکھیں بار بار اپنے آپ بند ہو رہی تھیں مگر میں آنکھیں کھلی رکھنے کی جدوجہد میں لگا ہوا تھا۔ پتہ نہیں کب اور کس وقت میری آنکھیں اپنے آپ بند ہو گئیں اور میں سو گیا۔ میری آنکھ اس وقت کھلی جب کمرے کے روشندان میں سے دھوپ کمرے میں آ رہی تھی۔ بتی اسی طرح جل رہی تھی۔
میں نے میز پر رکھے ٹائم پیس پر نگاہ ڈالی ۔ دن کے دس بج چکے تھے ۔ جلدی سے اٹھا، منہ ہاتھ دھویا، کپڑے بدلے اور سائیکل پکڑ کر دفتر کی طرف روانہ ہو گیا۔ دفتر میں دو گھنٹے لیٹ پہنچا تھا۔ رات کے بھیانک واقعات میری آنکھوں کے سامنے ایک فلم کی طرح چل رہے تھے۔ کسی وقت لگتا میں نے ایک ڈراؤنا خواب دیکھا ہے۔ کسی وقت لگتا تھا کہ نہیں میں نے حقیقت میں ایسا ہوتے دیکھا ہے۔ ایک بات طے شدہ تھی کہ میں اب اس کمرے میں نہیں رہ سکتا تھا۔ میرے پاس فوری طور پر رہائش کے لئے کوئی دوسری جگہ نہیں تھی۔ دفتر میں چھٹی کے بعد میں اپنی رہائش گاہ کی طرف جانے کی بجاۓ باغ جناح میں آکر بیٹھ گیا۔
ابھی اس باغ کا نام لارنس باغ ہی تھا۔ کچھ دیر میں ایک درخت کے نیچے بینچ پر بیٹھا رہا پھر اٹھ کر باغ کے اوپن ایئر کیفے میں آ کر بیٹھ گیا۔ میں نے اپنا پرانا لمبا گرم کوٹ پہن رکھا تھا جس کی وجہ سے میں باغ کی کھلی فضا کی سردی سے کافی محفوظ تھا۔ میں اوپن ایئر کیفے کے برآمدے کی چھت کے نیچے ایک میز کے پاس بیٹھ گیا۔ میں نے چاۓ منگوائی اور چائے پینے لگا۔ یہی سوچ رہا تھا کہ اگر اپنے کمرے میں نہ گیا تو رات کہاں بسر کروں گا۔ کسی دوسری جگہ کا انتظام دوسرے روز ہی کر سکتا تھا۔ میرے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ کسی ہوٹل میں کمرہ لے کر رات بسر کر سکتا۔ کافی دیر کی سوچ بچار کے بعد آخر یہی فیصلہ کیا کہ ریلوے سٹیشن پر جا کر رات ویٹنگ روم میں گزارنی چاہئے ۔
شام کا اندھیرا باغ میں گہرا ہو رہا تھا۔ میں خاموشی سے اٹھا اور باغ میں سے گزرتا ہوا مال روڈ پر آ گیا۔ وہاں سے ایک بس پکڑی اور ریلوے سٹیشن پہنچ گیا۔ ریلوے سٹیشن پر کافی رونق تھی۔ میں نے پلیٹ فارم کا ٹکٹ لیا اور نمبر 4 پلیٹ فارم پر آگیا۔ اس پلیٹ فارم پر سیکنڈ کلاس کا ویٹنگ روم تھا۔ میں نے ویٹنگ روم میں جھانک کر دیکھا وہ پہلے ہی مسافروں سے بھرا ہوا تھا۔ اندر جانے کی بجائے پلیٹ فارم پر ہی ایک جگہ بیٹھ گیا۔ رات ہو گئی تھی مجھے بھوک بھی محسوس ہو رہی تھی۔ وہیں چائے کے کاؤنٹر پر کھڑے ہو کر تھوڑا بہت کھایا، چائے پی اور ایک بار پھر جا کر ویٹنگ روم کا جائزہ لیا۔ وہاں مسافروں نے رات بسر کرنے کے لئے اپنے اپنے بستر بچھا دیئے تھے۔ وہاں بیٹھنے کی بھی جگہ نہیں تھی۔
مجھے خیال آ گیا کہ ریلوے یارڈ میں خالی بوگیاں بھی کھڑی ہوتی ہیں ان خالی بوگیوں کے کسی ڈبے میں رات بڑی آسانی سے بسر کی جاسکتی ہے ۔ یہ سوچ کر میں اس پلیٹ فارم پر آ گیا جس کے آگے ریلوے یارڈ شروع ہو جاتا تھا۔ وہاں ایک طرف کچھ خالی ڈبے کھڑے تھے جن میں اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ پلیٹ فارم بھی رات کی سردی میں دور تک خالی پڑا تھا۔ میں ایک ڈبے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا۔ پہلا احساس یہ ہوا کہ ڈبے کی فضا میں ہلکی ہلکی بڑی خوشگوار گرمائش تھی۔ میں نے دوسری طرف کی دو کھڑکیاں نیچے گرا دیں۔ یارڈ کی ہلکی ہلکی روشنی اندر آنے لگی۔ میں نے دیکھا کہ یہ انٹر کلاس کا ڈبہ تھا اور سیٹوں پر گدے لگے ہوئے تھے۔ سٹیشن پر رات بسر کرنے کے لئے اس سے بہتر جگہ مجھے اور کہیں نہیں مل سکتی تھی۔ میں ٹانگیں سیدھی کر کے ایک سیٹ پر ٹیگ لگا کر نیم دراز ہو گیا۔
ڈبے میں اندھیرا تھا۔ دو کھڑکیاں جو میں نے کھول دی تھیں ان میں سے یارڈ کے کھمبیوں پر جلتی ہوئی بتیوں کی دھیمی دھیمی روشنی اندر آرہی تھی۔ میں نے ایک کھڑکی بند کر دی کیونکہ سرد ہوا بھی ڈبے میں آنے لگی تھی۔ کچھ میں تھکا ہوا بھی تھا۔ پچھلی رات بھی جاگتا رہا تھا۔ جیسے ہی میں نے سر ڈبے کی دیوار سے لگا کر آنکھیں بند کیں تو مجھے نیند آ گئی۔ مجھے کچھ پتہ نہیں کہ میں کب تک سویا رہا۔ اچانک ایک دھچکا لگنے سے میری آنکھ کھل گئی۔
مجھے ایسے لگا جیسے ڈبہ چلتے چلتے رک گیا ہے۔ میں نے ڈبے کا جائزہ لیا۔ وہاں میرے سوا کوئی نہیں تھا۔ باہر سے دو آدمیوں کے باتیں کرنے کی آواز آئی۔ پھر ڈبے کا دروازہ کھلا اور ایک آدمی لالٹین ہاتھ میں لئے ڈبے میں داخل ہوا۔ اس نے لالٹین کی روشنی میں مجھے دیکھا تو بولا۔ ”کون ہو بھائی تم ؟‘‘ میں اتنی دیر میں سنبھل گیا تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ رات گزارنے کے لئے خالی ڈبے میں آکر سو گیا ہوں۔
وہ بولا۔ مگر یہ بوگی تو راولپنڈی لے جائی جار ہی ہے ۔ “ میں چونک کر اٹھ کھڑا ہوا اور اس آدمی سے پوچھا۔’’یہ کون سا سٹیشن ہے ؟“ اس نے کہا۔ " یہاں اتر جاؤ یہ بادامی باغ کا سٹیشن ہے ۔ ہم ڈبے کی چیکنگ کے لئے نہ آتے تو تم پنڈی پہنچ گئے ہوتے۔“ میں جلدی سے ڈبے میں سے اتر گیا۔ پلیٹ فارم پر جو مسافر ٹرین کھڑی تھی یہ بوگی اس کے آخر میں لگی ہوئی تھی۔ میں نے گھڑی پر نگاہ ڈالی ۔ رات کا ڈیڑھ بیچ رہا تھا۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ میری آنکھ کھل گئی تھی ورنہ میں خدا جانے کہاں پہنچ جاتا۔ بادامی باغ لاہور شہر کا ایک حصہ ہی تھا۔ میں سٹیشن سے نکل کر پیدل ہی چل پڑا۔ ابھی بادامی باغ کے ارد گرد اتنی آبادی نہیں ہوئی تھی جتنی اب ہو گئی ہے ارد گرد کا علاقہ ویران پڑا تھا۔ جھاڑیاں اور درخت ہی درخت تھے۔ میں اندھیرے میں چلا جا رہا تھا کہ مستی گیٹ کے پاس نکل آؤں گا اور وہاں سے پیدل ہی لاہور ریلوے سٹیشن پر آجاؤں گا اور باقی کی رات وہیں چل پھر کر گزاروں گا اور صبح وہیں سے اپنے دفتر چلا جاؤں گا۔
اس زمانے میں بادامی باغ کے سٹیشن کے قریب ہی ایک ویران سی جگہ پر ایک پرانا قبرستان ہوا کرتا تھا۔ معلوم نہیں اب یہ قبرستان ہے یا نہیں ۔ جو چھوٹا سا کچا راسته درختوں اور جھاڑیوں سے ہو کر مستی دروازے والی سڑک کی طرف جاتا تھا یہ پرانا قبرستان وہیں دائیں جانب آتا تھا۔ میں قبرستان کے قریب سے گزر رہا تھا کہ قبروں میں سے ایک عورت کو دوڑ کر اپنی طرف آتے دیکھا۔ میں واقعی ڈر گیا کہ یہ عورت کوئی بدروح ہی ہو سکتی ہے ۔ وہ سخت گھبرائی ہوئی تھی۔ میرے پاس آتے ہی اس نے میرا بازو پکڑ لیا۔ اگر میں اپنے ہوش و حواس کو قابو میں نہ رکھتا تو ضرور میری چیخ نکل جاتی۔ عورت کا سانس پھول رہا تھا۔ اس کی عمر زیادہ نہیں تھی۔ گورے رنگ کی تھی۔ شلوار قمیض میں تھی۔ سویٹر پہن رکھا تھا۔ اچھی فیملی کی عورت لگتی تھی۔ چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ کہنے لگی۔ ” بھائی! خدا کے لئے مجھے میرے گھر پہنچا دو۔
میں نے پوچھا۔ ”بیبی ! کیا بات ہے ۔ تم اتنی رات گئے قبرستان میں کیا کر رہی تھی ۔۔
وہ گھبراۓ ہوۓ لہجے میں بولی۔ ’’خدا کے لئے مجھے یہاں سے سڑک پر لے چلو۔ میں سب کچھ بتاتی ہوں۔“
میں نے کہا۔ "گھبراؤ نہیں۔ اگر تم کوئی بدروح نہیں ہو تو میں تمہیں اپنے ساتھ سڑک پر لئے چلتا ہوں۔“ ۔ وہ میرے بائیں جانب آگئی، یعنی اس جانب جس طرف قبرستان نہیں تھا۔ اس نے ابھی تک میرا بازو تھام رکھا تھا اور سہمی ہوئی میرے ساتھ چل رہی تھی۔ کچھ فاصلے پر سڑک کے کھمبوں کی روشنیاں نظر آ رہی تھیں ۔ میں اسے اپنے ساتھ لے کر سڑک پر آ گیا۔
کہنے لگی۔ ” بھائی! میں تمہارا احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گی۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔ مجھے میرے گھر تک چھوڑ آؤ۔“ میں نے کہا۔’’بیبی! تمہارا گھر کہاں ہے ؟“ عورت نے اپنا سانس درست کرتے ہوۓ کہا۔’’ماڈل ٹاؤن میں ہے ۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’ ماڈل ٹاؤن تو یہاں سے بہت دور ہے۔ اس وقت کوئی بس بھی ادھر نہیں جاتی اور کوئی تانگہ بھی نہیں ملے گا۔ " اس زمانے میں کوئی رکشہ ٹیکسی تو چلا نہیں کرتی تھی۔ ایک بس ہی تھی جو ماڈل ٹاؤن جایا کرتی تھی۔ کہنے لگی۔ ” وہ سامنے میری کار کھڑی ہے۔ پلیز مجھے میرے گھر
تک چھوڑ آؤ۔“
عورت کھاتے پیتے گھرانے کی لگتی تھی۔ گاڑی بھی اس کے پاس تھی۔ اسے ماڈل ٹاؤن اس کے گھر تک چھوڑنے میں کوئی حرج بھی نہیں لگتا تھا اور کوئی ایسی تشویش والی بات بھی نہیں تھی۔ میں نے کہا۔ " ٹھیک ہے بیبی ! میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ آتا ہوں۔“
اس وقت میں نے یہ سوچا ہی نہیں تھا کہ اس عورت کو ماڈل ٹاؤن چھوڑ کر رات کے تین بجے میں خود لاہور واپس کیسے آؤں گا۔ اسے میری حماقت سمجھ لیں یا یہ سمجھ لیں کہ مجھے اس بات کا خیال ہی نہیں آیا۔ سڑک کی دوسری طرف اس کی سیاہ رنگ کی چھوٹی سی گاڑی کھڑی تھی۔ اس زمانے میں گاڑی کسی کسی کے پاس ہی ہوتی تھی۔ گاڑی پرانے ماڈل کی تھی۔ پتہ نہیں اس کا ماڈل کیا تھا۔ اس نے مجھے اپنے ساتھ والی سیٹ پر بٹھا لیا اور پرس میں سے گاڑی کی چابیاں نکال کر گاڑی سٹارٹ کی اور اسے سڑک پر ڈال دیا۔ کہنے لگی۔
’’بھائی صاحب! اس وقت اگر آپ میری مدد نہ کرتے اور مجھے دیکھ کر ڈر کر بھاگ جاتے تو میں وہیں بے ہوش ہو کر گرنے والی تھی۔“
میں نے اس سے پوچھا۔ ”بیبی! تم نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ رات کے ڈھائی تین بجے تم اس قبرستان میں کیا کر رہی تھیں ؟ گاڑی چلاتے چلاتے اس عورت نے پرس میں سے چھوٹا سا رومال نکال کر اپنی آنکھیں پوچھیں ۔ معلوم ہوا کہ میرے اس سوال پر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ کہنے لگی۔’’بھائی جان ! میں بڑی بدنصیب عورت ہوں۔ میرا خاوند فوت ہوچکا ہے۔ میری ایک ہی جوان بیٹی تھی۔ پاکستان پہنچنے کے کچھ ہی دن بعد اس کا بھی انتقال ہو گیا۔ اس وقت ہم بادامی باغ سٹیشن کے پاس ایک مہاجر کیمپ میں تھے۔ میرے ساتھ کچھ رشتے دار بھی تھے ۔ میں نے اپنی بیٹی کو وہیں بادامی باغ کے قبرستان میں دفن کر دیا۔
مشرقی پنجاب میں ہم لوگ دو تین حویلیاں اور کچھ زمین چھوڑ کر آۓ تھے۔ ان کے کلیم میں مجھے ماڈل ٹاؤن میں ایک چھوٹی سی کوٹھی الاٹ ہو گئی۔ میری خالہ اور اس کے بچے بھی میرے ساتھ ہی رہنے لگے۔ پھر ایسا ہوا کہ میرے خالو کو لندن میں ایک ملازمت مل گئی اور وہ میری خالہ اور بال بچوں کو لے کر پاکستان سے لندن چلے گئے ۔ میں دو نوکروں کے ساتھ ماڈل ٹاؤن والی کوٹھی میں اکیلی رہے لگی۔ جھنگ میں تھوڑی سی زمین بھی الاٹ ہو گئی تھی۔ وہاں سے ہر فصل پر کچھ پیسے اور گندم وغیرہ آجاتی تھی اور میرا گزارہ ہو رہا تھا۔ شروع شروع میں ، میں ہر جمعرات کو اپنی بیٹی کی قبر پر فاتحہ پڑھنے بادامی باغ والے قبرستان میں جایا کرتی تھی۔ قبر پر گلاب کے ہار ڈالتی ، اگربتیاں سلگاتی اور بیٹھ کر فاتحہ پڑھتی اور اپنی بیٹی کی مغفرت کے لئے دعا مانگتی۔
لیکن پھر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا میرے اس معمول میں وقفہ آتا گیا۔اب میں کبھی ایک جمعرات اور کبھی دو ہفتے چھوڑ کر بیٹی کی قبر پر جاتی ۔ پھر اس میں بھی کافی وقفے آنا شروع ہو گئے اور میرا ابھی ایک مہینے اور کبھی دو مہینوں کے بعد بیٹی کی قبر پر جانا ہوتا۔ کل رات میں سو رہی تھی کہ خواب میں میری بیٹی آئی۔ کہنے لگی اماں! تم نے مجھے بھلا دیا مگر میں تمہیں یاد کرتی رہتی ہوں ....“
اتنا کہہ کر گاڑی چلاتے چلاتے عورت رونے لگی۔ پھر جلدی ہی سنبھل کر اس نے رومال سے اپنے آنسو پونچھے اور کہنے لگی۔’’ معاف کرنا بھائی جان ! خدا کسی کو جوان بیٹی کا غم نہ دکھائے۔ اور میری بیٹی سکینہ تو مجھے بہت ہی پیاری تھی۔ ا بھی تو اس کی شادی بھی نہیں ہوئی تھی۔“ وہ گہری آہ بھر کر خاموش ہو گئی۔ میں بھی اداس ہو گیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ غیر شادی شدہ جوان بیٹی کی موت کا غم کیا ہوتا ہے ۔ اسے ایک ماں کا دل ہی محسوس کر سکتا ہے۔ میں نے پوچھا۔ ” پھر کیا ہوا؟‘‘ اس دوران ہم ماڈل ٹاؤن کی حدود میں داخل ہو چکے تھے ۔ اتنی جلدی ہم ماڈل ٹاؤن اس لئے بھی پہنچ گئے تھے کہ ایک تو رات کا وقت تھا دوسرے اس زمانے میں سڑکوں پر دن کے وقت ٹریفک بہت معمولی ہوتا تھا اور رات کو تو خاص طور پر ماڈل ٹاؤن جانے والی سڑک سنسان پڑی ہوتی تھی۔ ماڈل ٹاؤن کی کوٹھیاں ابھی پرانے ٹائپ کی تھیں اور اسی حالت میں تھیں جس حالت میں وہاں سے جانے والے انہیں چھوڑ گئے تھے۔ ہر کوٹھی کا وسیع و کشادہ لان تھا۔ ان میں جامن اور آم کے درخت اگے ہوئے تھے اور دن کے وقت بھی ان پرانی کوٹھیوں پر ایک پراسرار سی خاموشی چھائی رہتی تھی۔
رات کے وقت تو یہاں ایک سکوت سا طاری رہتا تھا۔ میرے سوال پر وہ عورت کہنے لگی ۔ ” ہمارا مکان آگیا ہے ۔ اس کے بعد کے واقعات میں آپ کو مکان میں جا کر سناؤں گی۔ آپ پلیز میرے ساتھ مکان میں چلیں گے نا؟ میں نے قبرستان میں ایسی خوفناک بات دیکھی ہے کہ میں ابھی تک خوف زدہ ہوں۔“ میں نے سوچا کہ اس وقت ویسے بھی مجھے واپس جانے کے لئے کوئی بس نہیں ملے گی۔ رات بھی تھوڑی سی باقی رہ گئی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ اس عورت کے مکان میں باقی کا وقت گزار دیا جائے۔ دن نکلتے ہی بسیں چلنا شروع ہو جائیں گی تو یہاں سے سیدھا اپنے آفس چلا جاؤں گا۔“
گاڑی رات کی تاریکی میں ایک اونچے درختوں والی پرانی سی کوٹھی کے احاطے میں داخل ہو کر ایک بغیر دروازے کے گیراج میں جاکر رک گئی۔ عورت نے انجن بند کرتے ہوئے میری طرف دیکھتے ہوۓ کہا۔" پلیز بھائی ! میرے ساتھ اندر آ جائیں۔ دونوں نوکر اس وقت سو رہے ہوں گے مجھے اکیلی کو بہت ڈر لگے گا۔ دن نکلتے ہی میں آپ کو خود گاڑی میں چھوڑ آؤں گی۔“
میں پہلے ہی اس کے ساتھ کوٹھی کے اندر تھوڑا سا وقت گزارنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ میں نے کہا۔’’ ٹھیک ہے بی بی۔‘‘
وہ مجھے کوٹھی کے اندر ایک کمرے میں لے آئی۔ پرانے زمانے کی کوٹھی کا ڈرائنگ روم تھا۔ چھت اونچی تھی، بھاری بھر کم بوسیدہ سے صوفے پڑے تھے۔ فرش پر میلا سا قالین بچھا ہوا تھا۔ درمیان میں پرانے فیشن کی چھوٹی گول میز رکھی ہوئی تھی جس پر نیلا غلاف پڑا تھا۔ میز کے درمیان ایک گلدان میں کاغذی پھول سجاۓ ہوۓ تھے ۔ دروازوں پر لکڑی کی بریکٹوں میں پروۓ ہوۓ لمبے لمبے پردے لٹک رہے تھے ۔ دیوار کے ساتھ لگا ہو اصرف ایک بلب روشن تھا۔ کمرے کی فضا میں ہلکی ہلکی سیلین کی بو رچی ہوئی تھی ۔ باہر بڑی سخت سرد رات تھی مگر ڈرائنگ روم کی فضا ہلکی ہلکی گرم تھی۔ میں صوفے پر اپنے لمبے کوٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر بیٹھ گیا۔ وہ عورت بار بار میرا شکریہ ادا کر رہی تھی
کہ میں اس کے مکان میں اس کی دلجوئی کی خاطر اس کے ساتھ آیا ہوں۔ اس نے پرس میز پر رکھتے ہوۓ کہا۔’’ بھائی جان ! نوکر سور ہے ہیں ۔ میں خود چاۓ بنا کر لاتی ہوں ۔ " اگر چہ مجھے اس وقت چاۓ کی طلب محسوس ہو رہی تھی مگر میں نے اسے روک دیا۔’
’ نہیں بی بی ! چاۓ کی ضرورت نہیں ہے ۔‘‘ وہ بولی ۔ بھائی جان! ابھی صبح ہونے میں ایک گھنٹہ باقی ہے ۔ میرے سونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آپ نے بھائی بن کر ایک بہن کی جس طرح دلجوئی کی ہے میں اسے ہمیشہ یاد رکھوں گی۔ مجھے اتنی اجازت ضرور دیں کہ میں آپ کے لئے خود چائے بنا کر پیش کر سکوں . . . . . "
میں نے کہا۔ ’’اگر آپ اصرار کرتی ہیں تو ٹھیک ہے ۔‘‘ " خدا آپ کو خوش رکھے۔“ یہ کہہ کر وہ عورت ایک دروازے کا پردہ ہٹا کر دوسری طرف چلی گئی۔ میں نے آنکھیں بند کر کے سر صوفے کی پشت سے لگا دیا۔ نیند مجھے بھی نہیں آ رہی تھی۔ کسی نہ کسی طرح مجھے وہاں ایک ڈیڑھ گھنٹہ گزارنا تھا اس کے بعد صبح ہو جانی تھی اور ماڈل ٹاؤن سوسائٹی کی بسیں ماڈل ٹاؤن سے لاہور کی جانب چلنے لگنی تھیں۔ مجھے دوسرے کمرے سے برتن رکھنے کی آواز آرہی تھی۔ میں یہ بھی چاہتا تھا کہ یہ عورت جلدی سے آ جاۓ اور یہ بتاۓ کہ قبرستان میں اس کے بعد کیا ہوا تھا۔ میں سوچنے لگا کہ شاید اس کے ساتھ یہی ہوا ہو کہ اسے اپنی بیٹی کی قبر یا کسی دوسری قبر میں سے آتی کوئی ڈراؤنی آواز سنائی دی ہو اور وہ ڈر کر بھاگ گئی ہو ۔
اتنے میں دروازے کا بھاری پردہ ہٹا اور وہ عورت نمودار ہوئی۔ اس کے ہاتھ میں چھوٹا سا سٹیل کا ٹرے تھا جس میں دو پیالیاں رکھی ہوئی تھیں۔ کہنے لگی۔ ’’جلدی جلدی چاۓ بنا کر لے آئی ہوں۔ خدا کرے میرے بھائی کو پسند آجاۓ۔“ وہ میرے سامنے صوفے پر بیٹھ گئی اور ایک پیالی میرے سامنے میز پر رکھ دی اور دوسری پیالی خود اٹھالی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اس کے بعد کیا ہوا۔ وہ چاۓ کا ہلکا ساگھونٹ لینے کے بعد بولی۔’’ پیارے بھائی ! اس کے بعد جو کچھ ہو اوہ یاد کر کے میری روح کانپ جاتی ہے ..... ایسا ہوا کہ میں نے اپنی بیٹی کی قبر پر جا کر پھولوں کے ہار ڈالے ، دو اگربتیاں سلگائیں اور دعا مانگنے لگی۔‘‘
اچانک میرے دل میں ایک سوال اٹھا۔ میں نے اس سے پوچھ ہی لیا۔ میں نے پوچھا۔ ”لیکن آپ آدھی رات کے بعد قبر پر کیوں گئیں۔ آپ دن کے وقت بھی تو جاسکتی تھیں۔“
اس کے جواب میں وہ کہنے لگی ۔ اب میں سوچتی ہوں کہ میری بیٹی نے خاص طور پر مجھے آدھی رات کے بعد اپنی قبر پر آنے کے لئے کیوں کہا تھا۔ در حقیقت وہ مجھے ایک ایسا سبق سکھانا چاہتی تھی جو ساری زندگی میرے لئے درس عبرت بنا رہے ۔ جب میری بیٹی کل رات میرے خواب میں آئی تھی تو اس نے یہ بات خاص طور پر مجھے بڑی تاکید کر کے کہی تھی کہ میں اس کی قبر پر اب جب بھی آؤں آدھی رات کو آؤں ۔۔۔۔

پُراسرار حویلی - پارٹ 8

تمام اقساط کے لیے یہاں کلک کریں

Urdu stories online, Urdu stories for kids, Short Urdu stories, Urdu Kahaniyan, Famous Urdu stories, Urdu stories with moral, Best Urdu stories collection, Urdu stories for students, Urdu love stories, Urdu horror stories, Urdu stories for reading, Urdu stories in Urdu text, Funny Urdu stories, Urdu stories for beginners, Urdu detective stories, Urdu motivational stories, Urdu stories for adults, Urdu moral stories, Urdu stories for children, Urdu true stories, Urdu suspense stories, Urdu emotional stories, Urdu adventure stories,
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں