بھنور قسط نمبر9 آخری قسط

 

بھنور
قسط نمبر 9
یوں دن میں اچانک اندھیرا دیکھ کر میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا پھر سے ایک دھماکہ ہوا میرے کانپتے پیروں میں بلکل جان نہیں تھی میں احتیاط سے اندازے کے مطابق بیٹھ گئی
کوئی آواز نہیں تھی کچھ نظر نہیں آرہا تھا گھپ اندھیرے میں تاج الدین بابا کی سفید ڈریس کی ہلکی سی جھلک سے ہی میں مطمئن تھی وہ میرے ساتھ میرے پاس ہیں
جانے کتنا وقت گزر رہا تھا میرے ہاتھ پیر شل ہوگئے تھے خاموشی میں بھی مجھے میرے واہموں کا عجیب سہ شور سنائی دے رہا تھا
اعصاب پر تناؤ بڑھتا جارہا تھا میں بابا کی طرف رخ کئے بیٹھی تھی اور آیت الکرسی پڑھ رہی تھی
"موہنی ...!!!بیٹا موہنی ...!!!ادھر آؤ....!!گڑیا دیکھو ابو کیا لاۓ"میں نے اپنے ابو کی صاف آواز اپنی پشت سے سنی
میں اسطرح بوکھلائی تھی جیسے مجھے ہزار وولٹ کا کرنٹ ایک ساتھ لگا ہو
" ابو یہاں کیسے آسکتے ہیں"....!!!؟؟؟
میں نے اندھیرے میں آنکھیں پہاڑ کر غور سے دیکھا میرے دھیان سے آیت الکرسی کا ورد یکلخت نکل گیا اور مجھے بابا کی ہدایت یاد نہ رہی
"موہنی ....!!!موہنی ...!میری جان تجھے دیکھنے ہم ترس گئے ہیں بیٹا آجا ....!!میرے پاس آجاؤ....!!!"امی کی درد بھری پکار ابھری
نظر کوئی نہیں آرہا تھا اور آوازیں آرہی تھی میرا دل درد کی شدت سے تڑپ اٹھا امی ابو کی آوازوں نے مجھ پر سحر سہ طاری کیا تھا
میں ان دونوں کو دیکھنے کے لئے تڑپ اٹھی تھی ان کے سینے سے لگ کر رونے کے لئے مچل اٹھی
میرا دل تڑپنے لگا آنکھیں ترسنے لگے ایک بار انھیں دیکھ لوں چوم لو پھر موت بھی آجائے تو غم نہیں
اس وقت میرا ذہن بلکل مفلوج ہوچکا تھا اور میں یہ تک نہ سوچ سکی انڈیا سے اتنی دور میرے امی ابو کیسے مجھ تک کچھ ہی لمحوںیں پہنچ سکتے ہیں
وہ کیسے اس ویران جگہ پر ٹھیک وہی پہنچے جہاں میں بے بسی سے تڑپ رہی تھی کسمپرسی کی حالت میں پڑی تھی
میں اٹھ کر کھڑی ہوگئی اور چاروں طرف دیکھنے لگی کہ کہی تو ان دونوں کی جھلک دکھائی دے کچھ تو نظر آئے لیکن سوائے اندھیرے کے کچھ نہیں تھا
شاید میری سوچ تھی ....!!؟؟
"موہنی اس طرف بیٹا ...!!!میں یہاں ہوں ...!!؟؟"امی کی محبت بھری آواز سے میں پھر تڑپ اٹھی اس دفعہ میری حالت پہلے سے بےتاب ہوگئی تھی
"امی ...!!!ابو.....!!!کہاں ہیں آپ...!!!؟"میں نے بےصبری سے چیخ پڑی میرے آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے تھے
"موہنی ...!آجا بیٹے میں یہاں ہوں ...!!!"میرے آواز دینے کی دیر تھی اچانک ابو نمودار ہوئے اور ان کے پیچھے امی بھی نظر آگئی
"میری جان موہنی ...!!"امی نے محبت سے بانہیں پھیلائی میری آنکھوں سے زاروقطار آنسو بہنے لگے تھے میری آنکھوں کی ٹھنڈک بانہیں پھیلائے مجھے بلا رہی تھی
میرے امی ابو دونوں میرے سامنے کھڑے مجھے آوازیں دے رہے تھے میں بے اختیار ان کی طرف بڑھنا چاہتے تھی
"اللہ ھو لا الہٰ الا ھو...!!!"
مائی کی قرأت سے بھرپور آواز میرے دائیں طرف سے ابھری اور میں جیسے کسی خواب سے جاگ گئی
گھبرا کر جہاں تھی وہی بیٹھ گئی اور ایک دفعہ آیت الکرسی پڑھنے کی کوشش کرنے لگی بوکھلاہٹ اور گھبراہٹ سے میں ٹھیک سے الفاظ پڑھ نہیں پارہی تھی
بہت سے لوگ دعوے کرتے ہیں کہ اگر وہ ان حالات میں ہوں تو اللہ کا کلام پڑھ کر بچ جائیں گے اکثر ایسے حالات میں وہ بھی ذیادہ کچھ پڑھ نہیں سکتے جتنے دعوے کرتے ہیں
لیکن اللہ کلام بھی ان ہی کے زبان پر جاری ہوتا ہے جو اللہ کے سوا کسی کو مدد کے لئے نہیں پکارتے
وہ دونوں جی ہاں میرے امی اور ابو میرے ہکلاہٹ پر ہسنے لگے تھے زور زور سے قہقہے لگا رہے تھے
میں ششدرہ رہ گئی بابا نے اپنے علم سے مجھے اس شری مخلوق کی نظروں سے چھپایا تھا اور مسلسل آیت الکرسی کے ورد سے میں حفاظت میں رہی تھی
اب جب میں کچھ پڑھنے سے قاصر تھی تو یہ مخلوق جو میری امی ابو کا بہروپ تھے مجھ پر میری حالت سے محفوظ ہوتے ہوئے ہنس رہے تھے
ہنستے ہوئے ابو کے ہاتھ میں تلوار آگئی ان کا چہرہ بدلنے لگا اور انھوں نے میرے آنکھوں کے سامنے امی کا سر قلم کر دیا
میرے لبوں سے دلخراش چیخ نکل یہ منظر اتنا بھیانک تھا کہ میرا سانس رکنے لگا امی کا بے جان جسم تڑپنے لگا اور ابو نے امی کا سر بالوں سے پکڑ لیا
امی کے سر سے خون ریزی سے نکل رہا تھا اور ابو اب زور زور سے ہنسنے لگے تھے اور ناچ رہے تھے خوشی سے جھوم رہے تھے
یہ ایسا دلخراش منظر تھا کہ میں تاب نہیں لا سکتی تھی میری چیخیں آہیں بلند ہونے لگی تھی
میں چیخ چیخ کر اپنے پیاروں کو پکار رہی تھی تڑپ رہی تھی سسک رہی تھی میں کتنی بے بس تھی میرے آنکھوں کے سامنے یہ سب ہوا اور میں کچھ نہ کرسکی
ابو نے امی کا سر زور دار جھٹکے سے دور اچھال دیا ان کی آنکھوں میں الگ ہی شیطانی چمک تھی انھوں نے تلوار اپنے گردن پر رکھدی
"ابو نہیں ....!!!ابو نہیں ...!!!"میں اپنی پوری قوت سے چیخی ابو نے رک کر سر اٹھایا ان کے چہرے پر شیطانی چمک تھی میں مسلسل چیخ رہی تھی
ابو کے لبوں پر مکار مسکراہٹ دوڑی تھی انھوں نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے ان کے پاس بلایا اور مجھے گھورنے لگے
میں کچھ دیر ان کی آنکھوں کی وحشت دیکھ کر سکتے میں چلی گئی تھی بلکل بت کی طرح یہ حیرت انگیز منظر میں دیکھ رہی تھی
میں کچھ کر نہیں سکتی تھی میرے کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد ابو نے تلوار کا زوردار وار کیا اور گردن کٹ کر دور تک لڑھکتے چلی گئی
ابو کا جسم بل کھاتا ہوا اور رعشہ ذدہ ہوکر زمین پر تڑپنے لگا میری چیخیں میرے بس میں نہیں رہی تھی
میں دوڑ کر باہر نکل جاتی لیکن میرے پیر جیسے زمین سے چپک گئے تھے میں ایک انچ بھی نہ ہل سکی
یہ اس قدر ہیبت ناک منظر تھا کہ میرا کلیجہ منہ کو آنے لگا میں تڑپ تڑپ کے اپنے رب کو زور زور سے پکارنے لگی
میں نے اپنی اشک بار نگاہیں دور حد نظر کالے آسمان پر ڈالیں اور بےبسی کی شدت سے دل سے میرے مالک کو مدد کے لئے پکارا
اور اللہ نے مجھ پر رحم کیا تبھی مجھے مائی ایک طرف جائے نماز پر بیٹھی اپنے سامنے قرآن کریم کھولے اپنی گونج دار قرأت سے آیت الکرسی پڑھانے لگے اور میرے ہونٹ خود بخود ہلنے لگے ...
اور ایک اور مصیبت میرے گلے پڑ گئی تھی عجیب سے دن گزر رہے تھے لوگوں کی نظروں میں ایک سوال تھے
میرے ہی رشتہ دار میری ہمجولیاں جنھوں نے مجھے بچپن سے بڑھتے بڑھتے دیکھا جن کے ساتھ کھیکود کر بڑی ہوئی وہی مجھے سوالیہ نظروں سے تکتے تھے
اتنے مایوس کن حالات سے گزرنے کے بعد بھی ایسے ناامیدی کی زندگی کے بعد بھی مجھے تعجب ہوتا کہ میں ذندہ کیسے ہوں
یہ تو امی ابو کا حوصلہ تھا ان کی بے پناہ محبت تھی ان کا مجھ پر اعتماد ہی تھا کہ میں اب تک زندہ تھی
وکیل صاحب گھر پر آئے میں انھیں ابو کی توسط سے جانتی تھی ان سے ہمارے فیملی ریلیشنز بھی تھے انہوں نے نرمی سے مجھ سے کہا
"دیکھو بیٹا موہنی.....!!! یہ تو میرا پیشہ ورانہ فرض ہے کہ میں تمہیں ہر طرح سے بےگناہ ثابت کروں ....!!
مگر میرا اصول بھی ہے اور شرط بھی ہے تم مجھے ساری باتیں سارے واقعات بالکل سچائی سے بتاؤ ....!
وہ اپنے پیشہ کے لحاظ سے کہہ رہے تھے
"جی انکل میں جو بھی کہوں گی سچ ہی کہوں گی ....!!!لیکن کیا آپ میری سچائی پر ایمان لے آئیں گے....!!!"
: "کیا مطلب میں سمجھا نہیں ...!!!"وکیل انکل نے حیرت سے دیکھا
"میں تو آپکو سب سچ بتاؤ گی آگے آپ کا کام ہے کہ میرے بچاؤ کے لئے عدالت میں آپ کونسا طریقہ اختیار کرتے ہیں ....!!!
اپنے بچاؤ کے اس سلسلے میں قانونی نقطہ نگاہ سے کوئی جھوٹ نہیں بولوں گی ...!!!!"
پھر میں نے بھاری دل بوجھل دماغ کے ساتھ اپنی روداد لفظ بہ لفظ دوہرائی
میں تھک گئی تھی گزرے دنوں کو سوچ سوچ کر .....!!
یہ کوئی سہانی یادیں تو نہیں تھی جن کے دوہرانے سے مجھے خوشی ہوتی ....!!!
یہ تو میری زندگی کی وہ بھیانک یادیں تھی جس میں میں اپنا بہت کچھ گنوا بیٹھی تھی ایسی یادیں جن کی وجہ سے میری زندگی اجیرن ہوگئی تھی
میں نے اپنی زندگی میں کیسی کیسی قیامت خیز راتیں دیکھی تھی کیسے بھیانک اور خوفناک دن دیکھے تھے
وکیل انکل نے میری کہانی پوری خاموشی اور توجہ سے سنی میرے بیان نے ان پر سکتہ سہ طاری کردیا تھا وہ گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے
" میں تمہیں اور تمہارے خاندان کو برسوں سے جانتا ہوں اور تمہیں تو میں نے میری آنکھوں سے پلتے دیکھا ہے میں جانتا ہوں تم ایک سمجھدار پڑھی لکھی باشعور لڑکی ہو ....!!!"
وکیل انکل کا سکتہ ٹوٹا تو انھوں نے سنجیدگی سے مجھے دیکھ کر کہا
"میری جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ شاید تمہاری باتوں کا یقین نہ کرتا بلکہ کوئی بھی باشعور شخص ایسی باتوں پر مشکل سے ہی یقین کرے گا .....!!!!
تم میری بیٹی کی طرح ہو تمہارے بیان پر میں یقین کرتا ہوں اور صد فیصد بھروسہ کرکے یہ کیس ہینڈل کروں گا اپنی تمام قابلیت استمعال کروں گا ....!!!!"وکیل انکل نے تسلی دی
"اب چونکہ ہم لوگ اس مصیبت میں گرفتار ہو ہی گئے ہیں تو اس سے نکلنے کا کوئی نہ کوئی راستہ تو نکالنا ہی ہے ....!!"وکیل انکل سنجیدگی سے ابو سے مخاطب تھے
"اللہ کا احسان ہے اقبال تم نے میری آدھی پریشانی دور کردی ...!!!میں شکر گزار ہوں ...!!"ابو نے کہا
"زندگی میں اتار چڑھاؤ تو آتے ہی ہیں میرے دوست ...!!!؟ خیر .....!!!
موہنی کے ساتھ ہونے والے واقعات اتنے ذیادہ مافوق الفطرت ہیں کہ عدالت بغیر ٹھوس ثبوت کے اس کو نہیں مانے گی ....!!!"وکیل انکل نے مسکرا کر ابو کا ہاتھ تھاما
"وہ تو کمال کے والد فرقان صاحب کے پاس کوئی چشم دید گواہ نہیں ہے اس سے کچھ امید بندھتی ہے ....!!!!
جبکہ ہمارے طرف ایک بہت ہی اہم گواہ ہے تاج الدین صاحب .....!!!لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ یہاں موجود نہیں ہیں ...!!!؟ مقدمہ شروع ہونے سے پہلے ان کا یہاں ہونا بے حد ضروری ہے ...!"
وکیل انکل نے کہا تو ابو کو تشویش نے گھیر لیا اب تاج الدین بابا کو کہاں ڈھونڈا جاسکتا تھا آخری بار وہ مجھے سندر بن ہی میں ملے تھے
کیس کی پہلی پیشی میں ابھی دن باقی تھے تاج الدین بابا کی تلاش جاری تھی لیکن ان کا کوئی پتہ یا سراغ نہیں مل رہا تھا
میری پریشانی روز بہ روز بڑھنے لگی اللہ کی طلب کے سوا میں کیا مانگ سکتی تھی ابو نے ہر ممکن کوشش کی جہاں جہاں ان کے ملنے کے امکانات تھے وہاں وہاں وہ دیکھ آئے
جگہ جگہ سفر کیا لیکن افسوس تاج الدین سے کوئی رابطہ نہ ہو سکا مقدمہ کی مکمل کاروائی شروع ہو ئ
پہلی پیشی پر عدالت کی باضابطہ کاروائی کے بعد وکیل استغاثہ نے مجھ پر قتل کی فرد جرم عائد کرنے کے لئے عدالت میں زبردست بیان دیا
میں کٹہرے میں کھڑی تھی وکیل موصوف نے میری طرف اشارہ کر تے ہوئے جج صاحب کو مخاطب کر کے کہا
"جناب والا مسمات میمونہ بنت محمد عثمان زوجہ کمال علی وہ عورت ہے جس نے اپنی خوبصورتی سے کمال کو اپنے دام میں پھنسا لیا اور پھر اس سے شادی کی"
وکیل موصوف کی بات پر مجھے بے اختیار ہنسی آ گئی کہ
"کیا میں خوبصورت تهی:----!"
"شادی سے پہلے ہی میمونہ عرف موہنی ...!! اور ان محترمہ کے والد کو اس بات کا مکمل علم تھا کہ فرقان صاحب کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کمال کے نام ہے اور وہی اس کا اکلوتا وارث ہے ...."
دولت ہتھیانے کا کام میمونہ کے والد محمد عثمان اور ان کے دوست و مشیر رحیم خان کے درمیان طے پایا تھا ......!
ایک سازش کے تحت میمونہ نے اپنے شوہر کمال کو مجبور کیا وہ اسے شادی کے بعد گھمانے کے لئے بنگال لے جائے .....
جب کہ کمال صاحب خود سنجیدہ طبیعت کے مالک ایک سمجھدار شخصیت تھے انہیں اس طرح کی تفریحات بالکل پسند نہ تھیں اور نہ ہی کوئی خاص دلچسپی تھی ورنہ وہ خود ہی شادی کے فوراً بعد ایسا کوئی پروگرام بناتے
" مائ لارڈ ! ....!!!
اس گھناؤنی سازش کے پیچھے ایک اور شخص کا ہاتھ مسٹر تاج الدین صاحب. ......! یہ ایک جعلی پیر ہیں جو اس خاندان کے پرانے دوست
اور عامل ہیں وہ پہلے ہی سے سندر بن میں موجود تھے ...."
" سوال ہے کیسے ....؟؟؟
جب میمونہ اور کمال بنگال جا رہے تھے تو یہ بات اس جعلی پیر.تاج الدین کو کیسے پتہ چلی. .....؟.؟"
"ظاہر ہے انہیں اطلاع دی گئ تھی سوچی سمجھی سازش رچائی گئ تھی
انہوں نے مل کر سازشی طور پر سندر بن کا انتخاب کیاتھا۔
" یہ بہت پیچیدہ حقائق ہیں جسکی تفصیل کے لئے بہت وقت اور سمجھنے کے لئے علم درکار ہے اب جب کہ کمآل کے منہ بولے والد نے خود ہی اقرار کر لیا ہے کہ کمال ان کا اصل بیٹا نہیں ہے
بلکے وہ ایک پراسرار حالت میں جنگل میں پایا گیا تھا تو ادھی بات تو خود بخود ثابت ہو گئ بیٹی موہنی کی پیدائش سے پہلے ہی اس کی موت کی سازشیں رچائ جا رہی تھیں " ۔۔۔۔۔؛؛؛؛
پھر بابا نے مجھے بتائ ہوئی باتیں تفصیل سے بتائیں
"اس کیس کے ایک اور اہم گواہ
اگر میں چشم دید گواہ کہوں تو بے جا نہ ہو گا کمال کے ساتھ انہوں نے عمر کا ایک حصہ گذارا ہے مین مالی بانا کو بلانا چاہتا ہوں ۔۔۔۔۔؛؛؛؛
تاج الدین بابا کے کہنے پر عدالت میں کھلبلی سی مچ گئ
فرقان صاحب بھی ہونقوں کی طرح دیکھنے لگے مالی بابا دھیرے سے ا کر کٹھرے میں آ کر کھڑے ہو گئے حلف اٹھایا
'صاحب جی میں کمال صاحب کو اس وقت سے جانتا ہون جب وہ ایک سال اور چار ماہ کے تھے اور فرقان صاحب کا بہت پرانا نوکر ہوں یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں نیا نیا صاحب جی کے گھر کام کرنے ایا تھا
جب بھی میری وہی ذمہ داری تھی جو جو اج تک میں کرتا ہون۔۔۔۔؛؛؛؛ ایک رات میں ضرورت حاجت کے لئے اٹھا تھا کمآل بابا اپنے پیروں پہ چل کے چاندنی کا مزہ لے رہے تھے ان کےساتھ ایک بلی اور ایک سایا بھی تھا ۔۔۔۔؛؛؛
میری خوف سے گھگھی بندھ گئی کہ کچھ بچے جلدی چلنا شروع کر دیتے ہیں لیکن جس انداز میں کمآل بابا چل رہے تھے اور باتیں کر رہے تھے میرے ہوش اڈ گئے
میں نے مارے در کے کسی سے اس بات کا ذکر نہ کیا آج ہی سب کے سامنے زبان کھولی ہے مالکن کی حالت بھی عجیب وحشت زدہ تھی وہ بھی کمال سے ڈرتی تھیں
ایک دن صبح صبح میں مالکن کے پودوں کو پانی دے رہا تھا کہ مالکن کے چیختے کی آواز سن کر ان کی طرف دوڑ پڑا برامدے میں ایک کھلی کھڑکی تھی بھاگتے ہوئے مین نے غیر ارادی طور پر
اس میں جھانکا تو۔۔۔۔؛؛؛
کیا دیکھتا ہوں
کہ کمال بابا نے مالکن کا گلا پکڑا ہوا تھا مالکن چیخ رہی تھیں اور چھوٹے بابا کہ رہے تھے
"جب میں دودھ پینا نہیں چاہتا تو کیوں پلاتی ہو ۔۔۔۔؛؛؛"
یہ کسی بڑے شخص کی آواز تھی پھر اکثر و بیشتر میں نے یہ سب دیکھا ہے ایک ماہ میں ہی میں نے چھٹی کا ارادہ کرلیا اور جب فرقان صاحب جی نے وجہ پوچھی تو میں نے سب بتا دیا تو صاحب جی ہنستے رہے اور باہر چلے گئے
"تم نے دیکھا نہ۔۔۔۔؛؛؛
؛وہ ویسا ہی ہے جیسا مجھے لگتا ہے وہ مجھے مارنا چاہتا ہے ۔۔۔؛؛؛مالکن نے بھی میری باتیں سن لی تھیں وہ کافی ڈری ہوئی لگ رہی تھیں
اس کے بعد مالکن نے مجھ سے رکنے کی درخواست کی
"تم چھوڑ کر مت جانا یہ نوکری فرقان اکیلے ہی ہو جائیں گے اپنے صاحب کا خیال رکھنا ۔۔۔۔؛؛؛؛کمآل مجھے نہیں چھوڑ نے والا اج نہیں تو کل وہ مجھے مار دے گا ۔۔۔۔؛؛؛"
مالکن سے میں نے وعدہ کیا تھا اور آج تک نبھا رہا ہوں میری ان آنکھوں نے بہت عجیب و غریب منظر دیکھے ہیں صاب جی میں گواہی دیتا ہوں کمآل بابا انسان نہیں تھے ۔۔۔۔ وہ انسان نہیں تھے ۔۔۔۔"
مالی بابا رونے لگے جانے کتنے دنوں کا دکھ تھا
فرقان صاحب کی حالت بھی عجیب تھی وہ کبھی مالی بابا اور کبھی تاج الدین بابا کو دیکھتے تھے ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا
"مولوی تاج الدین عرف ناگ بابا" وکیل استغاثہ نے کھڑے ہوکر تمسخرانہ لہجے میں کہا
جناب والا ۔۔۔؛؛؛؛
تاج الدین صاحب نے اسی چرب زبانی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عدالت میں ایک فضول قصے سے ہم سب کو مبہوت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے عدالت کا اتنا وقت لینے کے باوجود ہمیں ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ کمآل کہاں ہے
یہی کیس کی بنیاد ہے اور اگر کمال بقول تاج الدین کے ناگ کی جون میں تبدیل ہو گیا ہے تو وہ ناگ کہاں ہے "
وکیل استغاثہ کی بات سن کر تاج الدین بابا نے وکیل کو اشارہ سے خاموش رہنے کو کہا اور جج صاحب سے مخاطب ہوئے
: میں درخواست کروں گا کہ عدالت میں موجود لوگ ذرا سنبھل کر بیٹھ جائے
یہ کہ کر تاج الدین بابا نے اپنے لمبے چغے کے اندر ہاتھ ڈال کر کچھ نکالا یہ ایک پتسن سے بنی ایک مضبوط پٹاری تھی
اس کو انہوں نے میز پر رکھا پٹاری کا ڈھکن تھوڑا سا کھولا اپنا ہاتھ جب اندر ڈال کر باہر نکالا تو اس میں ایک لمبا بل کھاتا ہوا موٹا سیاہ ناگ تھا بے شک وہ کمال ہی تھا
تاج الدین بابا نے اسے پھن کے پاس سے پکڑا ہوا تھا، تاج الدین بابا نے اسے ہوا میں لہراتے ہوئے وکیل صاحب کو مخاطب کیا
یہ ہے آپ کا کمال ۔۔۔۔؛؛؛؛بات کر لیں ۔۔۔۔؛؛؛؛؛
عدالت میں کھلبلی سی مچ گئ جج صاحب نے زور زور سے لکڑی کا ہتھوڑا بجا کر کہا
"آرڈر آرڈر " اور ساتھ ہی خاموشی چھا گئ
"تاج الدین صاحب ۔۔۔؛؛؛ پلیز اپ اس کو دوبارہ پٹاری میں بند کر دیں "
جج صاحب نے کہا تو بابا نے سانپ پٹاری میں بند کر دیا
"جناب والا ۔۔۔۔!!!!!
عدالت اس بات کو کیسے مان لے کہ یہی ناگ ہے جو کہ تاج الدین نے اپنے کسی جنتر منتر سے انسان کو ناگ میں تبدیل کر دیا ہے یہ تو کوئی بھی عام سانپ ہو سکتا ہے جسے اس شخص نے پکڑ کر پٹاری میں بند کر دیا ہے
اور اگر یہ کمآل ہے تو میں چاہوں گا تاج الدین اسی عمل کے ڈریعے اسے دوبارہ تبدیل کر دیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ الگ ہو جائے گا اور ہمارے پاس اس ناقابل یقین عمل کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا "
وکیل استغاثہ نے پھر جرح کی
"بے شک میں یہی تو کہنا چاہتا تھا ۔۔۔۔!!!!یہی عمل کرنا ہے "۔۔۔۔۔!!!!
تاج الدین بابا نے پرجوش لہجے میں کہا تو وکیل استغاثہ چونک کر دیکھنے لگے
"ڈاکٹر تاج الدین...!!!واضح طور پر بات کریں .....!!!"جج صاحب نے کہا
تھینک یو می لارڈ....!!!؟آپ نے مجھے ڈاکٹر کہہ کر مخاطب کیا ...!!!ویسے یہ کوئی شان یا خوشی کی بات نہیں ہے میرے لیے .....!!!
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ میری دنیاوی تعلیم ڈاکٹری تعلیم ہونے کی ذیادہ مستند پوزیشن میں ہے ورنہ میری داڑھی لباس اور ظاہری ہئیت سے لوگ ہمیں ملا ، مولوی ، پیر ، فقیر ، ہی کے نام م سے مخاطب کرتے ہیں
 ختم شد
......................... 
......................... 
 
گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں