سستا گھر اور شیطانی طاقت ۔ چوتھا حصہ

 سستا گھر اور شیطانی طاقت ۔ چوتھا حصہ

پر کوئی فائدہ نہیں اب جو کرنا ہے ہمیں خود ہی کرنا ہو گا بس دعا کرو صبح کوئی اللّٰہ کا نیک بندہ ہمیں مل جائے ۔ رخسانہ نے کہا مل جائے گا اب آپ سو جائیں مجھے بھی نیند آرہی ہے آصف نے کہا امی کی دوا بھی دے دی تھی امی کو رخسانہ نے کہا ہاں وہ تو جب کیبل والا آیا تھا تبھی کھلا دی تھی امی کو ۔ آصف نے سب کی طرف دیکھا تو سب سو گئے تھے پھر آصف نے ایک چین کی سانس لی اور لیٹ گیا اور تھوڑی ہی دیر میں سب سو گئے اگلے دن صبح آصف اٹھا اور اس نے سب کو جگایا اور پھر رخسانہ نے سب کو ناشتہ وغیرہ دیا پھر آصف نے کہا اچھا میں اب دوکان پر جا رہا ہوں اور وہاں کسی سے بات کر کے کسی مولوی صاحب یا عالم صاحب کو لے کر آؤں گا پھر آصف نے توصیف کو کہا یار سب کا خیال رکھنا اور خاص طور پر بچوں پر نظر رکھنا انھیں اکیلا مت چھوڑنا بس اج کا دن تم اپنے کام سے ایک اور چھٹی کرلو کیونکہ کاشف تو بیمار پڑا ہے اور ایسے میں اگر تم بھی چلے جاؤ گے تو کوئی اور مسلہ پیدا نہ ہو جائے توصیف نے کہا ٹھیک ہے بھائی آپ بے فکر رہیں میں سمجھتا ہوں۔ پھر آصف نے کہا میں آج اس مسلئے کا کوئی نا کوئی حل نکال کر ہی آؤنگا یہ کہہ کر آصف چلا گیا اور دوکان پر جا کر آصف نے ایک وقار نامی شخص کو فون کیا جو کہ آصف کا دوست تھا اور اکثر آصف کی دوکان پر آکر بیٹھا رہتا تھا آصف نے اسے دوکان پر بلایا اور وہ آگیا پھر آصف نے اسے اپنے نئے گھر کے بارے میں بتایا اور اس میں ہونے والے واقعات سے بھی اس کو آگاہ کیا تو وقار کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور اس نے اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا توبہ توبہ اتنا خطرناک گھر ہے وہ آصف نے کہا یار اسی وجہ سے میں تجھے بتا رہا ہوں کہ شاید تو کسی مولوی یا پیر یا کسی عالم کو جانتا ہوگا کیونکہ تونے ایک بار بتایا تھا نا کہ تمہارے کسی رشتے دار کے گھر میں بھی ایسا مسلہ ہوا تھا تو تم لوگوں نے کسی کو بلایا تھا اس مسلئے کے حل کے لیئے ؟؟ وقار نے کہا ہاں ہاں مجھے یاد آیا پر پتا نہیں وہ عامل بابا تمہارا مسلہ حل کر بھی سکتا ہے کہ نہیں کیونکہ ہمارے رشتے دار کے گھر میں تو کوئی چھوٹی موٹی ہوائی چیز تھی جو کہ فوراً عامل بابا کے قابو میں آگئ تھی پر جیسا تم لوگوں کے ساتھ ہو رہا ہے مجھے تو مشکل ہی لگ رہا ہے کہ عامل بابا اس کا کوئی حل کرے گا کیونکہ تم لوگوں کے گھر تو بہت خطرناک چیزیں ہیں ۔ 

نوجوان مزدور کا ایمان

 آصف نے کہا یار تو مجھے ان لے کر تو چل ہو سکتا ہے کہ وہ ہمارے مسلے کا بھی کوئی حل جانتے ہوں ۔ وقار نے کہا چلو پھر چلتے ہیں ان کے پاس ۔ یہ کہہ کر دونوں بائیک پر بیٹھے اور عامل بابا کے پاس چلے گئے اور آصف نے عامل بابا کو سب کچھ بتایا تو عامل بابا نے کہا تمہارا کام تو بہت زیادہ مشکل لیکن میں پھر بھی کرونگا پر اس کام کے میں تم سے ایک لاکھ روپے لوں گا آصف نے کہا پر بابا یہ پیسے تو بہت زیادہ ہیں آپ کچھ کم کر لیں میں غریب آدمی ہوں یہ کہتے ہوئے آصف نے پشیمان نظروں سے وقار کی طرف دیکھتے ہوئے اسے اشارے سے بنا بولے ہی کہا کہ بابا سے بات کرو ۔ وقار نے کہا بابا یہ سہی کہہ رہا ہے یہ بہت غریب آدمی ہے اتنے پیسے کہاں سے دے گا وقار کی یہ بات سن کر عامل نے جلالی انداز میں کہا یہ غریب نہیں ہے بلکہ یہ چالاک ہے اس نے ابھی مجھے بتایا کہ اس نے ستر لاکھ کا گھر چالیس لاکھ میں لیا ہے اور اگر اس گھر پر ایک لاکھ اور لگ جائے تو اس کو کیا پریشانی ہے گھر ان چیزوں سے آزاد ہو جائے گا تو اس کا ہی فائدہ ہو گا نا ۔ وقار نے مایوس کن نظروں سے آصف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اب کیا کرنا ہے ؟ آصف نے تھوڑی دیر کچھ سوچا اور پھر بولا ٹھیک ہے عامل بابا پر پیسے میں کام پورا ہونے کہ بعد دونگا ۔ عامل نے پھر سے غصے میں کہا تجھے کیا لگتا ہے بنا پیسے کے میں کام کرونگا تیرا ؟ تو آصف نے کہا پر بابا میں دے دونگا نا پیسے عامل نے کہا نہیں آدھے پیسے تجھے پہلے دینے ہونگے اور آدھے پیسے جب میں ان چیزوں کو قابو کرلوں گا تو تب تجھے دینے ہونگے کیونکہ یہ کام ایسے مفت میں نہیں ہوتے مجھے بھی عملیات کے لیئے خرچا کرنا پڑا ہے ۔ وقار نے آصف سے کہا اب تم دیکھ لو کیا کرنا ہے مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے ۔آصف نے عامل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ٹھیک ہے بابا آپ میرے ساتھ چلیں میں راستے میں بنک سے پیسے نکلوا کر آپ کو پچاس ہزار دے دیتا ہوں پر بابا جی میرا کام تو ہو جائے گا نا ؟ عامل نے کہا او نہ سمجھ تو عامل کی طاقت پر شک کر رہا ہے ؟؟ آصف نے کہا نہیں نہیں بابا میں صرف ڈر رہا ہوں کہ پیسے بھی چلے جائیں اور کام بھی نہ ہو ۔
 عامل نے کہا جب میں وہاں جا کر شیطانی چیزوں کو تیرے سامنے پکڑوں گا تو تجھے خود یقین آجائے گا۔ تحریر دیمی ولف ۔ آصف نے تھوڑا خوش ہوتے ہوئے کہا ٹھیک ہے بابا تو پھر چلو ۔ بابا نے اپنی کچھ جادو ٹونے کی چیزیں لیں پھر آصف اور وقار کے ساتھ بائیک پر بیٹھ گیا اور تینوں وہاں سے چل پڑے راستے میں آصف نے بینک سے پیسے نکلوائے اور عامل کو دے دیئے اس کے بعد عامل اور وقار کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے گیا اور گھر پہنچتے ہی عامل نے آصف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تمہارے گھر میں اور کون کون ہے آصف نے کہا میری امی ہے دو بھائی ہیں ایک بیوی اور دو بچے ہیں۔ تو عامل نے کہا اب وہ سب لوگ کہاں ہیں آصف نے کہا وہ سب اندر کمرے میں ہیں بلاؤں کیا ؟؟ عامل نے کہا نہیں بس ان کو جا کر بولو کے سب کمرے میں ہی رہیں اور کوئی باہر نا آئے جب تک میں اپنا عمل پورا نہ کر لوں آصف جلدی سے کمرے میں گیا اور سب کو عامل کے بارے میں بتایا اور ان سب کو کمرے میں ہی رہنے کو بولا اور وہ سب لوگ سہم کر ایک جگہ بیٹھ گئے اور پھر آصف واپس عامل کے پاس آگیا اس کے بعد عامل نے کچھ پڑھتے ہوئے پورے گھر کا جائزہ لیا پھر گھر کے بیکیارڈ میں گیا اور وہاں جا کر عامل نے وقار اور آصف کو ہاتھ سے رکنے کا اشارہ کیا اور پھر کچھ پڑھنے لگا اور اپنے تھیلے سے کچھ سفید رنگ کا پاوڈر سا نکال کر اس بیکیارڈ کی زمین پر چھڑکنے لگا اور ساتھ ساتھ کچھ پڑھنے لگا اس دوران آصف اور وقار بابا سے کچھ دور ہی کھڑے ہوئے تھے ابھی عامل پاؤڈر چھڑکتے ہوئے زمین کی طرف دیکھ رہا تھا پھر عامل نے اک دم اپنے بائیں طرف دیکھا تو تبھی اچانک کسی چیز نے ایک زور دار دھکا عامل کو دیا اور عامل دور جا کر دیوار سے جا لگا۔ تحریر دیمی ولف ۔ یہ دیکھ کر وقار اور آصف ڈر گئے اور انہوں نے دوڑ کر عامل کو سہارا دینا چاہا تو عامل نے کہا وہیں رک جاؤ میں ٹھیک ہوں اس کے بعد عامل نے پھر سے اسی جگہ پر جا کر کچھ پڑھا تو کہیں سے ایک بڑا سا پتھر آکر عامل کے سر پر لگا جس سے عامل کا سر پھٹ گیا اور اس نے اپنا ہاتھ اپنے سر پر رکھا اور وہاں سے واپس گھر کے صحن میں آگیا اور بولا یہ بہت ہی ضدی اور خونخوار چیزیں ہیں آصف نے کہا بابا آپ کے سر سے بہت خون بہہ رہا ہے چلیں میں آپ کو پٹی کروا لاتا ہوں عامل نے کہا نہیں مجھے بس کوئی کپڑا دے دو اس کو میں اپنے سر پر رکھ لیتا ہوں میں نے ان شیطانی چیزوں کو چھیڑ دیا ہے اس وجہ سے میں ابھی یہاں سے باہر نہیں جا سکتا مجھے ان تینوں چیزوں کو الگ کر کے باری باری ان کو قابو کرنا ہوگا ۔ آصف نے جلدی سے بابا کو کپڑا پکڑاتے ہوئے حیرت سے پوچھا کیا ؟؟ تین چیزیں ہیں بابا ؟؟ عامل نے کپڑا اپنے سر پر رکھتے ہوئے کہا ہاں دو عورتیں ہیں اور ایک مرد ہے ابھی عامل یہ باتیں کر ہی رہا تھا کہ اچانک عامل نے اپنا ہاتھ وقار کی طرف بڑھا کر اس اپنے سامنے سے سائیڈ پر ہٹاتے ہوئے کہا ہٹو یہاں سے اور پھر سیڑھیوں کی طرف دیکھنے لگا اور کچھ دیکھ کر بنا بولے ہاں میں سر ہلایا پھر آصف کی طرف دیکھتے ہوئے بولا تین نہیں چار چیزیں ہیں ایک نابالغ بچی بھی ہے وہ سیڑھیوں میں بیٹھی ہوئی ہے لیکن یہ بہت ہی خطرناک ہے آصف اور وقار نے جلدی سے سیڑھیوں کی طرف دیکھا پر ان کو کوئی نظر نہیں آیا تو وہ دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ۔ پھر آصف نے عامل سے کہا بابا ہمیں تو سیڑھیوں میں کوئی دیکھائی نہیں دے رہا ؟؟عامل نے کہا دیکھائی تو تمہیں بیکیارڈ میں بھی نہیں دیا تھا پر وہاں جو انہوں نے میرے ساتھ کیا وہ تو دیکھا نا تم لوگوں نے ؟؟ وقار نے کہا ہاں ہاں عامل بابا دیکھا تھا۔تحریر دیمی ولف ۔ عامل نے کہا یہ کوئی کھیل تماشا نہیں ہے جو میں تمہیں بار بار دیکھاوں لیکن تم لوگوں کے ذہن میں جو وسوسے ہوں ان کو دور کر دیتا ہوں ۔
 یہ کہتے ہوئے عامل نے اپنے تھیلے سے ہڈی کا ایک ٹکڑا نکالا اور اسے سیڑھیوں میں پھینک دیا اور آصف اور وقار کو کہا وہ دیکھو۔ جب آصف نے سیڑھیوں کی طرف دیکھا تو وہ ہڈی کا ٹکڑا اچانک سے اس کی آنکھوں کے سامنے غائب ہو گیا اور آصف ڈر کے تھوڑا پیچھے ہٹ گیا وقار بھی یہ دیکھ کر کانپنے لگا اس کے بعد عامل نے اچانک باہری گیٹ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا میں کہیں نہیں جارہا تمہیں میرا راستہ روکنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ آصف اور وقار پھر سے حیران ہو کر کبھی عامل کی طرف دیکھتے اور کبھی باہری گیٹ کی طرف دیکھنے لگے کیونکہ ان دونوں کو گیٹ پر بھی کچھ نظر نہیں آرہا تھا ۔ آصف نے کہا عامل بابا یہ کس سے بات کر رہے ہیں عامل نے کہا یہ وہی ہے جس نے مجھے پتھر مارا تھا ۔ یہ کہتے ہوئے عامل نے کچھ پڑھتے ہوئے وہی پاؤڈر نکالا اور گیٹ کی طرف پھینکا تو اچانک سے ایک خوفناک آواز سنائی دی جیسے کوئی تین چار آوازیں آیک ساتھ چیخی ہوں اسی کے ساتھ عامل آہستہ آہستہ سے گیٹ سے دیکھتا ہوا سیڑھیوں پر دیکھنے لگا جیسے وہ کسی کو گیٹ سے سیڑھیوں پر جاتے دیکھ رہا تھا پھر عامل نے آصف اور وقار سے کہا تم دونوں میں سے میرے پیچھے کوئی نا آئے اب میں ان شیطانوں کو اکیلا ملوں گا عامل نے اپنے سر پر رکھا ہوا کپڑا ہٹا اور اسے پھاڑ کر اپنے سر کے زخم پر باندھ کیا اور کچھ پڑھتا ہوا سیڑھیوں سے اوپر جانے لگا ۔ آصف اور وقار وہیں سیڑھیوں کے پاس کھڑے رہے اور جیسے ہی عامل اوپر کے کمرے کی طرف گیا تو کچھ ہی دیر میں اوپر کے کمرے سے چیخوپکار کی آوازیں سنائی دینے لگیں اور وہ آوازیں ایسی تھیں کہ انہیں سن کر آصف اور وقار پوری طرح ڈر سے کانپ رہے تھے پھر عامل کی آواز بھی سنائی دی عامل کہ رہا تھا چلے جاؤ یہاں سے جاؤ ورنہ یہیں بھسم کر دونگا تمہیں تبھی عامل کی آواز آنی بند ہو گئی وقار نے آصف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا لگتا ہے عامل نے انہیں قابو کر لیا ہے آصف نے کہا پتا نہیں یار اوپر کیا چل رہا ہے ۔ یہ کہتے ہوئے دونوں سیڑھیوں کی طرف دیکھ ہی رہے تھے کہ تبھی اچانک سے عامل زخمی حالت میں سیڑھیوں سے نیچے اترنے لگا اتنے میں اچانک سے عامل سیڑھیوں پر گرا اور لڑکتا ہوا نیچے صحن میں آگرا ۔ آصف اور وقار نے فوراً بھاگ کر عامل کو سہارا دیتے ہوئے اٹھایا لیکن اس کے جسم پر جگہ جگہ خون بہنے لگا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے عامل کو چھریاں ماری ہوں عامل کی حالت بہت خراب ہو چکی تھی اس سے کھڑا بھی نہیں ہو پا رہا تھا جب عامل بولنے لگتا تو اس کے منہ سے خون بہنے لگتا ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے عامل کا آخری وقت آگیا ہو ۔ وقار نے گھبراتے ہوئے انداز میں کہا آصف یہ مرنے لگا ہے کچھ کرو جلدی ۔ آصف نے بوکھلاہٹ میں ادھر اُدھر دیکھا پھر دوڑ کر ایک پانی کا گلاس لے کر آیا اور عامل کو اپنے ہاتھوں سے پانی پلانے کی کوشش کرنے لگا عامل نے بہت مشکل سے کچھ پانی پیا اور تیز تیز سانسیں لینے لگا اور آنکھیں بند کر کے نہ میں سر ہلانے لگا اور آنکھیں بند کیئے ہوئے ہی رک رک کے بولا یہ میرے بس سے باہر ہیں بہت ہی زیادہ خطرناک ہیں یہ اور میں ان کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہوں میرے جسم میں اب اور طاقت نہیں بچی ان سے لڑنے کی۔ یہ کہتے ہوئے عامل بیہوش ہونے لگا آصف نے جلدی سے وقار کو کہا اس کو ہسپتال لے کر جانا ہوگا یہ کہہ کر آصف نے توصیف کو زور سے آواز دی اور توصیف بھاگتا ہوا کمرے سے باہر آیا اور عامل کو دیکھتے ہی آصف کو کہنے لگا بھائی یہ کون ہے اور یہ کیا ہوا اس کے ساتھ۔ یہ کہتے ہوئے توصیف زمین پر جگہ جگہ گرا ہوا عامل کا خون دیکھنے لگا ؟؟ آصف نے کہا وہ سب چھوڑو جلدی سے اس کو بائیک پر بٹھاؤ وقار اور توصیف نے بہت مشکل عامل کو بائیک پر بٹھایا اور وقار بھی عامل کو پیچھے سے پکڑ کر بائیک پر بیٹھ گیا اور آصف نے توصیف سے کہا ہم اس کو ہسپتال لے کر جاریے ہیں اور تم سب کمرے میں ہی رہنا اور کمرے سے باہر مت نکلنے دینا کسی کو توصیف نے کہا جی جی بھائی آپ جاؤ ۔ آصف اور وقار عامل کو لے کر ہسپتال لے گئے وہاں ڈاکٹروں نے عامل کی جاج پڑتال کی اور اس کا علاج شروع کر دیا پھر ڈاکٹر نے آصف سے کہا ان کا بہت خون بہہ گیا ہے آپ لوگ خون کا انتظام کریں ورنہ یہ مر جائے گا آصف نے عامل کے بلڈ گروپ کا پتا کیا اور بلڈ بنک سے دو بوتل خون لا کر ڈاکٹر کو دیا تو انہوں نے فوراً عامل کو خون کی ڈرپ لگا دی اور آصف اور وقار سے کہا اب آپ لوگ باہر جا کر بیٹھیں۔
 
 کافی دیر کے بعد جب ڈاکٹر آپریشن تھیٹر سے باہر آیا تو ڈاکٹر نے کہا آپ کا پیشنٹ بہت ہی خوش قسمت ہے جسے وقت پر خون مل گیا ورنہ اس کا بچنا مشکل ہو جاتا آصف نے کہا ڈاکٹر صاحب کیا بابا اب ٹھیک ہیں ڈاکٹر نے کہا ہاں خطرے سے تو باہر ہے پر اس کو بہت جگہ چوٹ لگی ایسا لگ رہا تھا کہ کسی نے اس کا چیرچھاڑ کرنے کی کوشش کی ہے کیا کوئی جانور وغیرہ سے بھڑ گیا تھا آپ کا پیشنٹ یا پھر کوئی لڑائی جھگڑا ہوا ہے اس کا کسی کے ساتھ ؟؟ آصف اور وقار ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ڈاکٹر نے کہا دیکھو مجھے سچ سچ بتاؤ کہ اس کو ہوا کیا تھا ؟؟ آصف نے کہا بات کو گول کرتے ہوئے کہا ارے نہیں نہیں ڈاکٹر صاحب اس کا کسی سے جھگڑا نہیں ہوا بس ہمارے علاقے میں چیتا گھس آیا تھا اور اسی نے اس کو زخمی کر دیا ہے ڈاکٹر نے مسکراتے ہوئے آصف کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا کیا تم سچ کہہ رہے ہو ؟؟ وقار نے کہا جی جی ڈاکٹر صاحب چیتے نے یہ حالت کی ہے اس کی ڈاکٹر نے کہا تو اب وہ چیتا کہاں ہے وقار نے کہا جی اسے جنگی حیات والے پکڑ کر لے گئے ڈاکٹر نے کہا دیکھو تم لوگ نہیں جانتے مجھے یہ لڑائی جھگڑے کا کیس لگتا ہے اور اگر ایسا ہے تو یہ سیدھا سیدھا پولیس کیس ہے اور اگر اس دوران اس کو کچھ ہو جاتا ہے تو تم دونوں بہت مشکل میں پڑ سکتے ہو اسی وجہ سے کہہ رہا ہوں اگر کچھ اور بات ہے تو بتا دو ۔ آصف اور وقار ایک دوسرے کی طرف گھبراہٹ سے دیکھنے لگے اتنے میں ایک نرس دوڑی دوڑی آئی اور بولی ڈاکٹر صاحب امرجنسی ہے جلدی مریض کو دیکھ لیں اور ڈاکٹر چلا گیا ۔ پھر آصف نے ایک گہری سانس لی اور وقار سے کہنے لگا یار یہ ہم کونسے چکر میں پھنس گئے ہیں گھر میں وہ شیطانی چیزیں ہیں اور ادھر یہ عامل ہمارے لیئے مصیبت بن گیا ہے وقار نے کہا یار دعا کرو بس عامل ٹھیک ہو جائے آصف نے کہا اللہ کرے ۔۔۔ اتنے میں ایک اور نرس آئی اور آصف کو کہنے لگی وہ اندر جو بابا ہیں ان کے ساتھ آپ لوگ آئے ہیں ؟؟ آصف نے کہا جی جی سسٹر کیا ہوا ؟؟ نرس نے کہا وہ آپ کو بلا رہے ہیں۔ تحریر دیمی ولف ۔ یہ سنتے ہی آصف اور وقار دوڑ کر عامل کے پاس گئے تو عامل نے آہستہ سے بولتے ہوئے کہا دیکھو میں اب کچھ اچھا محسوس کر رہا ہوں پر مجھے افسوس ہے کہ میں تم لوگوں کی مدد نہیں کر پاؤں گا پر میں تمہیں اپنے استاد (ظہور ہاشمی) صاحب کا نمبر دے رہا ہوں تم لوگ ان سے بات کر لو اور ان کو اپنے اس مسلئے کے بارے میں بتاؤ وہ ان شیطانی چیزوں سے تمہاری جان چھڑوا دیں گے اور جب آپ لوگوں کا کام پورا ہو جائے تو باقی کے پیسے آپ ان کو ہی دے دینا ۔ یہ کہہ کر عامل نے آصف کو ظہور ہاشمی صاحب کا نمبر دیتے ہوئے کہا یہ نمبر آپ لوگ ابھی ملا لو تاکہ میں ان سے آپ کا تعارف کروا دوں آصف نے جلدی سے ظہور ہاشمی صاحب کا نمبر ملایا اور موبائل عامل کو دے دیا پھر عامل نے ظہور ہاشمی صاحب کو اپنے اور آصف لوگوں کے بارے میں بتایا پھر عامل نے آصف کو فون پکڑاتے ہوئے کہا اب تم ظہور ہاشمی صاحب کو اپنے مسلے کہ بارے میں بتاؤ ۔ آصف نے سب کچھ ظہور ہاشمی صاحب کو بتایا پھر ظہور صاحب نے کہا میں اس وقت شہر سے باہر ہوں لیکن رات تک میں واپس آجاؤ گا اور تم لوگ مجھے صبح فجر کی نماز کے بعد فون کر لینا پھر میں تم لوگوں کے پاس آجاؤں گا ۔ آصف نے کہا ظہور صاحب میں آپ کو لینے آجاؤ گا تو ظہور صاحب نے کہا ارے نہیں میں خود ہی حاضر ہو جاؤں گا تم بس مجھے اپنا پتا بتا دینا میں پورے شہر سے واقف ہوں آجاؤں گا پر اس دوران تم اپنے گھر والوں کو ایک ہی جگہ بنائے رکھنا سب اکھٹے رہو گے تو محفوظ رہو گے اور بہتر ہو گا کہ گھر میں قرآنی آیات کا ذکر کرتے رہنا انشاء اللہ تعالیٰ سب ٹھیک ہو گا۔ تحریر دیمی ولف ۔ آصف کچھ سوچنے لگا پھر بولا جی جی ظہور صاحب میں سمجھ گیا اس کے بعد ظہور ہاشمی صاحب نے سلام کیا اور فون بند کردیا ۔ آصف نے عامل بابا کو کہا اگر میں اب گھر جاؤں گا تو کیا وہ چیزیں میرے ساتھ بھی وہی کچھ کریں گی جو آپ کے ساتھ کیا ؟؟ عامل نے کہا ارے نہیں وہ دن کے وقت تمہیں کچھ نہیں کہیں گی کیونکہ انہیں میں نے تنگ کیا تھا اس وجہ سے انہوں نے مجھ پر حملہ کر دیا تھا ورنہ ایسی چیزیں اکثر مغرب کے بعد یا انھیرے میں ہی زیادہ حملہ کرتیں ہیں اور ویسے بھی میں نے ان چاروں میں سے تین کو زخمی کر دیا تھا لیکن وہ بچی وہاں سے بھاگ نکلی تھی ورنہ وہ بھی ان کے ساتھ زخمی ہو جاتی پر اس کی قسمت اچھی تھی تو اس وجہ سے ان تینوں میں سے اب جلدی تم پر کوئی حملہ نہیں کرے گا جب تک سورج کی روشنی ہے باقی جیسے ظہور ہاشمی صاحب نے بولا ہے ویسے ہی کرنا تو اللہ تعالیٰ خیر کرے گا ۔
 
 عامل کی یہ بات سن کر آصف نے عامل کو الوداع کہا اور ہسپتال سے سیدھا اپنی دوکان پر گیا اور وقار کو اس کے گھر اتار کر اپنی دوکان سے ایک خراب سلائی مشین اٹھائی جو کہ چلنے میں تھوڑا تنگ کر رہی تھی تو آصف نے سوچا اس کو گھر جا کر ٹھیک کر لوں گا اور اسے اپنے گھر لے آیا پھر گھر پہنچ کر گھر والوں کو عامل کے بارے میں سب کچھ بتایا اور پھر کھانا کھانے کے بعد مشین کو ٹھیک کرنے لگا اتنے میں رخسانہ نے آصف کو چائے لا کر دیتے ہوئے کہا ارے یہ آپ مشین کو کیا کر رہے ہیں ؟؟ آصف نے کہا یار یہ چلنے میں بہت تنگ کر رہی تھی اور دو تین دن سے اس گھر کے چکر میں میں دوکان پر بھی نہیں جا پارہا اس وجہ سے میں اس کو گھر لے آیا ہوں تاکہ جیسے ہی یہ بلاؤں سے ہماری جان چھوٹے گی تو میں دوکان پر چلا جاؤں گا بہت سے لوگوں کے کپڑے سلنے باقی ہیں ابھی اور وہ مجھے بہت فون کر رہے ہیں ۔ پھر رخسانہ نے کہا اچھا جن ظہور ہاشمی صاحب کا ذکر تم نے ابھی کچھ دیر پہلے کیا تھا تو کیا وہ ان چیزوں کو یہاں سے بھگا دیں گے کیا ؟ آصف نے کہا پتا نہیں پر ہمت تو اس عامل نے بھی بہت کی تھی جو کہ ان کا شاگرد ہے لیکن یہ تو پھر بھی اس عامل کے استاد ہیں آخر کچھ تو فرق ہو گا نہ ان دونوں میں رخسانہ نے کہا ہاں یہ بات تو سہی ہے کہ استاد تو استاد ہی ہوتے ہیں آخر اتنے عظیم آصف کے پاس آکر بولا ابو دیکھو نا چاچو توصیف ہمیں کمرے سے باہر ہی نہیں نکلنے دے رہے ہم گزشتہ رات سے ہی اسی کمرے میں بند ہیں ہمیں باہر جانے دیں نا ؟؟ آصف نے کہا ارے میرے بیٹے کل ایک مولوی صاحب آجائیں گے اور پھر تم پورے گھر میں جیسے چاہے کھیل لینا عظیم نے کہا نہیں ابو بس کچھ دیر کے لیئے ہمیں باہر صحن میں ہی کھیلنے دیں نا ؟؟ رخسانہ نے آصف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا عظیم کے ابو چلیں ہم سب بھی بچوں کے ساتھ باہر صحن میں چلتے ہیں اور آپ ہی تو کہا ہے اگر ہم سب اکٹھے رہیں گے تو محفوظ رہیں گے ویسے بھی اب کچھ دیر میں شام ہو جائے گی تو ہم سب اندر آجائیں گے۔ تحریر دیمی ولف ۔ اپنے ماتھے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بالوں کو بار بار اوپر کرتے ہوئے کچھ سوچنے لگا پھر مشین کو ایک سائیڈ پر رکھ کر بولا اچھا چلو سب آجاؤ باہر صحن میں بیٹھ جاتے ہیں توصیف نے صحن میں چارپائیاں بچھائیں اور سب لوگ چارپائیوں پر بیٹھ گئے دوپہر ختم ہونے والی تھی اور شام شروع ہونے والے تھی اتنے میں آصف کی نظر سامنے سیڑھیوں پر پڑی تو اپنے ماتھے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے سیڑھیوں کو دیکھ کر کچھ سوچنے لگا اتنے میں توصیف نے آصف کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا بھائی کیا دیکھ رہے ہیں ؟؟ آصف نے کہا صبح صحن کے فرش اور سیڑھیوں پر میں نے عامل کا خون دیکھا تھا پر اب وہ نظر نہیں آرہا کس نے صاف کیا تھا ؟؟ توصیف نے کہا بھائی سیڑھیوں کا تو پتا نہیں لیکن آپ کے ہسپتال جانے کے بعد جب میں کمرے میں جانے لگا تو مجھے ایسا لگا جیسے کوئی میرے پیچھے ہے میں جلدی سے کمرے میں گیا اور دروازہ بند کر لیا پھر میں نے ہلکی سی کھڑکی کھول کر دیکھا تو فرش پر گرا ہوا خون ایک بچی چاٹ رہی تھی جو کہ بہت ہی ڈراؤنی سی تھی اس بچی کے پاؤں پیچھے کی طرف مڑے ہوئے تھے بہت ہی عجیب تھی وہ اسی نے فرش پر گرا سارا خون چاٹ لیا تھا اور پھر اچانک سے کہیں غائب ہو گئ ۔ ابھی توصیف یہ بات کر ہی رہا تھا کہ کاشف بھی کمرے سے باہر آکر سب کے ساتھ بیٹھ گیا آصف نے کاشف کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا کیسے ہو جوان طبیعت کیسی ہے اب تمہاری کاشف نے کہا ہاں بھائی اب کافی بہتر ہے ۔ اتنے آصف نے توصیف سے کہا یار وہ اندر میں نے سلائی مشین رکھی ہے اسے لے آؤ اور مشین کے پاس ہی ایک چھوٹی سی بوتل بھی رکھی ہے اس میں مشین کا تیل ہے وہ بھی لیتے آنا ذرا ۔ توصیف کمرے میں گیا مشین اور تیل کی بوتل لے آیا آصف نے مشین کو تیل دیا اور صحن میں ہی ایک سائیڈ پر رکھ دی اتنے میں شام ہونے لگی تو آصف نے رخسانہ سے کہا یار رات کا کھانا بھی ابھی بنا لو ورنہ شام میں اندھیرا ہو جائے گا تو بہت مشکل ہو جائے گی ۔ رخسانہ نے کہا اب وہ چیزیں کہاں ہیں اس وقت آصف نے کہا پتا نہیں پر تم جلدی سے کھانا بنا لو ۔رخسانہ نے کہا ہاں ٹھیک ہے پر تم سب لوگ میرے پاس ہی رہنا آصف نے کہا توصیف بچوں کو لے کر ادھر کچن کے ساتھ والے کمرے میں آجاؤ جب تک تمہاری بھابی کھانا بنا لے تم بچوں اور کاشف کے ساتھ اسی کمرے میں آجاؤ کچن کے پاس۔ توصیف نے ویسا ہی کیا بچوں اور کاشف کے ہمراہ کچن کے پاس والے کمرے میں چلا گیا جہاں گزشتہ رات کیبل والا اور کاشف پڑا ہوا تھا ۔ رخسانہ کھانا بنانے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے اندھیرا چھانے لگا آصف نے رخسانہ کو کہا میں زرا بچوں کو دیکھنے جارہا ہوں تم ایسا کرو کھانا بھی وہیں لے آؤ آج ہم سب کھانا اسی کمرے میں لیتے ہیں رخسانہ نے کہا اچھا ٹھیک ہے ویسے بھی بار بار ٹی وی لانج سے کچن میں آنے سے بہتر ہے کچن کے ساتھ والے کمرے میں ہی کھانا کھا لیتے ہیں اور اگر کسی چیز کی ضرورت ہوئی تو کچن پاس ہی ہو گا ۔
 
 اس کے بعد رخسانہ نے کھانا تیار کیا اور کچن کے ساتھ والے کمرے میں ہی سب نے کھانا کھایا تبھی آصف نے کہا یار میں امی کو دوا دے کر آتا ہوں رخسانہ نے کہا ہاں میں نے ان کا دودھ بھی فریج میں رکھا ہے وہ بھی ان کو پلا دینا آصف نے کہا اچھا ٹھیک ہے ۔ یہ کہہ کر آصف کمرے سے باہر گیا اور کچن میں جاکر فریج سے دودھ لیا اور جیسے ہی ٹی وی لانج کی طرف جانے لگا جہاں آصف کی بیمار والدہ لیٹی ہوئیں تھیں تو اچانک سے آصف کی نظر صحن میں بچھی ہوئی چارپائی پر پڑی تو وہاں کوئی عورت بیٹھ کر سلائی مشین چلا رہی تھی آصف یہ دیکھ کر حیران رہ گیا اس عورت کا منہ مشین کی طرف تھا تو آصف کی صرف اس کی کمر ہی نظر آرہی تھی جو بکھرے ہوئے بڑے بڑے بالوں سے چھپی ہوئی تھی آصف نے پہلے کچن کے پاس والے کمرے کی طرف دیکھا جہاں سب لوگ کھانا کھا کر بیٹھے ہوئے تھے اور آصف نے سوچا کہ میں توصیف کو بولا لیتا ہوں یہ سوچتے ہوئے آصف کچن کے ساتھ والے کمرے کی طرف بڑھنے لگا اور پھر اسی جگہ سے آصف نے گردن گھوماتے ہوئے اس عورت کی طرف دیکھا تو وہ عورت وہیں بیٹھ کر مسلسل سلائی مشین چلا رہی تھی اتنے میں آصف رک گیا اور آصف نے سوچا توصیف کو بچوں کے پاس ہی رہنے دیتا ہوں میں خود ہی اس کو دیکھ لیتا ہوں یہ کون ہے اور میری سلائی مشین کیوں چلا رہی ہے یہ سوچتے ہوئے آصف آہستہ آہستہ اس عورت کی طرف بڑھنے لگا اور جیسے جیسے آصف اس عورت کی طرف بڑھ رہا تھا آصف کے رونگٹے کھڑے ہو رہے تھے اور جب آصف اور اس عورت کے درمیان صرف چند قدموں کا ہی فاصلہ رہ گیا تو اچانک سے آصف کو اس چارپائی پر ایک اور شخص بھی نظر آیا جو کہ سلائی ہوتے ہوئے دیکھ رہا تھا آصف کے ہاتھوں میں پکڑا ہوا دودھ کا گلاس چھلکنے لگا اس کے ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے لیکن آصف نے ہمت جٹا کر تھوڑا سائیڈ پر ہو کر اس عورت کا منہ دیکھنا چاہا تو تبھی اس عورت نے سلائی کیا ہوا کپڑا اپنے پاس بیٹھے ہوئے اس شخص کو دیا تو اس شخص نے چارپائی سے اٹھ کر وہ کپڑا سیدھا کیا تو آصف کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کیونکہ وہ کپڑا کسی کا کفن تھا جسے اس ڈراؤنی سی عورت نے سلائی کر کے اس شخص کو دیا تھا آصف ابھی ان کی طرف دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک جس شخص نے کفن ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا اس نے آصف کی طرف دیکھا تو وہ ایک خوفناک سی آواز نکال کر غائب ہو گیا اور تبھی اس ڈراؤنی سی عورت نے بھی آصف کی طرف دیکھا تو اس عورت کی شکل بہت ہی زیادہ ڈراؤنی ہو گئی تھی اور ابھی آصف ڈرے ہوئے انداز میں اس کی طرف دیکھ ہی رہا تھا کہ وہ عورت چارپائی سے اٹھی اور بنا پاؤں چلائے ہی آصف کے ٹی وی لانج کی طرف چلی گئی ۔ آصف نے جب اسے اپنے ٹی وی لانج کی طرف جاتے دیکھا تو آصف کو فورآ خیال آیا کہ وہ ڈراؤنی عورت میری والدہ کے پاس چلی گئی ہے یہ سوچتے ہی آصف نے ٹی وی لانج کی طرف دوڑ لگا دی اور جیسے ہی آصف ٹی وی لانج میں پہنچا تو اس نے دیکھا کہ وہ عورت آصف کی والدہ کے سینے پر کھڑی ہوئی تھی اور آصف کی والدہ کے منہ سے بہت خون بہہ رہا تھا یہ دیکھتے ہی آصف نے جلدی سے دودھ کا گلاس سائیڈ پر پھینکا اور کمرے میں پڑا ہوا ایک بڑا سا گلدان اٹھا کر اس عورت کو دے مارا پر گلدان لگنے سے پہلے ہی وہ عورت غائب ہو گئ آصف جلدی سے اپنی والدہ کی طرف بڑھا اور اپنی والدہ کے پاس جا کر دیکھا تو اس کی والدہ کی موت واقع ہو چکی تھی یہ دیکھ کر آصف اپنی والدہ کی چارپائی کو پکڑ کر بیٹھ گیا اور زور زور سے امی امی پکارتے ہوئے رونے لگا اور روتے ہوئے ہی بولا امی مجھے معاف کر دو میں نے تمہیں اکیلا چھوڑ دیا تھا امی مجھے معاف کر دو ۔۔امی اٹھو ۔ یہ کہتے ہوئے آصف ڈھاڑیں مارتا ہوا رونے لگا اور پھر وہی عورت آصف کے کمرے کے دروازے پر کھڑی خوفناک آواز میں ہنسنے لگی آصف نے روتے ہوئے ہی اپنی گردن اس عورت کی طرف گھما کر دیکھا تو اس عورت کی شکل بہت زیادہ منحوس ہو چکی تھی اور جب وہ ہنس رہی تھی تو اس کے گندے سے بڑے بڑے دانت صاف دکھائی دے رہے تھے اور اس کی زبان سانپ کی زبان کی طرح دو منہ والی تھی یہ دیکھ کر آصف روتے ہوئے ہی ڈر گیا اور اس عورت کی طرف دیکھ کر بولا ہم نے تمہارا کیا بگاڑا ہے جو تم نے میری والدہ کو مار دیا ہے لیکن اس عورت نے آصف کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور پھر وہی کفن آصف کی طرف پھینکا جو اس عورت نے سلائی کیا تھا اور غائب ہو گئ آصف اس کفن کی طرف دیکھ رہا تھا اور پھر آصف نے اپنے ہاتھوں کی تلیوں سے اپنے آنسوں صاف کرتے ہوئے کہا میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا یہ کہتے ہوئے آصف پھر سے روتے ہوئے کچن کے ساتھ والے کمرے میں گیا تو وہاں سب لوگ آصف کی مرجھائی ہوئی شکل کو حیرت سے دیکھنے لگے رخسانہ نے جلدی سے آصف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا یااللّٰہ خیر۔۔۔ یہ کیا ہوا آپ کو آپ رو کیوں رہے ہیں توصیف اور کاشف بھی جلدی سے آصف کا ہاتھ پکڑ کر بولے بھائی کیا ہوا ہے ہمیں بتائیں جلدی۔ تحریر دیمی ولف ۔ آصف نے اچانک گڑگڑاتے ہوئے کہا وہ امی۔۔۔۔۔۔ اور اسی ٹائم اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا ۔۔۔ اور پھر سے زور زور سے رونے لگا رخسانہ نے اپنا دوپٹہ اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اپنے ہونٹوں پر رکھتے ہوئے کہا کیا ہوا امی کو ۔ یہ کہہ کر آصف کی آنکھوں میں دیکھنے لگی ؟؟ توصیف بھی گھبراتے ہوئے بولا بھائی بتاؤ نا کیا ہوا امی کو اتنے میں کاشف آصف کا ہاتھ چھوڑ کر باہر جانے لگا تو آصف نے فوراً اٹھ کر اسے پکڑ لیا کاشف نے کہا بھائی مجھے امی کو دیکھنے دو کیا ہوا ہے انھیں آصف نے کاشف کی طرف دیکھا اور روتے ہوئے ہی بنا بولے اپنی گردن نا میں ہلائی ۔ کاشف حیرت سے آصف کی طرف دیکھنے لگا تبھی کاشف کی آنکھوں میں بھی آنسوں آگئے اور وہ روتے ہوئے بولا بھائی چھوڑ دو مجھے۔ مجھے امی کے پاس جانا ہے ہے چھوڑیں مجھے بھائی اور پھر وہ بھی زور زور سے امی امی کہتے ہوئے رونے لگا یہ سب دیکھ کر توصیف بھی اپنا ماتھا پکڑ کر اپنے گھٹنوں پر بیٹھ گیا اور وہ بھی رونے لگا اس دوران رخسانہ بھی اپنا دوپٹہ اپنے ہونٹوں پر رکھ کر روتی رہی ۔ پھر کچھ دیر رونے کے بعد آصف نے سب کی طرف دیکھا اور بولا غلطی میری ہے جو میں نے امی کو اکیلا چھوڑ دیا تھا اور اس عورت نے امی کو مار دیا یہ کہتے ہوئے آصف پھر سے رونے لگا اور آصف کی یہ بات سن سب روتے ہوئے حیرت سے آصف کی طرف دیکھنے لگے پھر توصیف نے اچانک سے اپنی قمیض سے اپنے آنسوں پونچھ کر کہا بھائی جو ہونا تھا ہو چکا چلیں اب ہمیں امی کے پاس لے چلیں رخسانہ نے بھی اپنے دوپٹے سے آصف کے آنسوں پونچھے اور آصف سے کہا چلیں عظیم کے ابو امی کے پاس چلیں وہ اب بھی اکیلی ہیں آصف جلدی سے اٹھا اور بولا ہاں ہاں چلو سب امی کے پاس وہ اب بھی اکیلی ہیں ۔ یہ کہہ کر آصف سب کے ساتھ اپنی والدہ کی لاش کے پاس گیا تو وہاں جا کر دیکھا تو آصف کی والدہ کی لاش کو جگہ جگہ سے کسی نے نوچا ہوا تھا آصف جلدی سے روتے ہوئے بولا یہ کیسے ہو گیا دیکھوں میرے بھائیو یہ کیا کر دیا انہوں نے ؟؟ توصیف روتے ہوئے بولا ہاں بھائی دیکھو امی کو کس طرح مارا ہے ان شیطانی چیزوں نے امی کا گوشت کھایا ہے انہوں نے۔ 
 
کاشف بھی اپنی والدہ کا ہاتھ تھامے بیٹھ کر رونے لگا اور ایک بار پھر سے سب رونے لگے اتنے میں روتے ہوئے توصیف کی نظر پاس میں ہی گرے ہوئے اس کفن پر پڑی اور توصیف روتے ہوئے اٹھا اور اس کفن کو جا کر اٹھایا پھر اسے غور سے دیکھتے ہوئے بولا بھائی یہ کفن یہاں کیسے آیا اور توصیف کی بات سن کر سب آہستہ آہستہ چپ ہو گئے اور توصیف کی طرف دیکھنے لگے ۔ پھر آصف نے سب کو سارا واقع بتایا کفن کا اور اپنی والدہ کی موت کا ۔ توصیف بولا اس کا مطلب ہے کہ جب ہم سب اس کمرے میں رو رہے تھے تو اسی دوران ان چیزوں نے امی کی لاش کو بھی نہ چھوڑا اور امی کی لاش کو نوچا انہوں نے ۔ آصف نے کہا ہم ان سے بدلہ ضرور لیں گے انشاء اللّٰہ تعالیٰ اگر اللہ نے چاہا تو ہم ان کا ستیاناس کر دینگے ۔ یہ کہتے ہوئے آصف نے جلدی سے موبائل نکالا اور پھر سے ظہور ہاشمی صاحب کو فون کیا اور ان کو اپنی والدہ کی موت اور اپنی والدہ کی لاش کے ساتھ کی گئی بے حرمتی کے بارے میں بتایا اور کفن کے بارے میں بھی بتایا ۔ ظہور صاحب نے کہا کہ اس کفن کو کمرے سے باہر پھینک دو اور سب ایک جگہ رہو میں انشاء اللّٰہ صبح پہلی فرست میں ہی آپ لوگوں کے پاس آرہا ہوں اور صبح آپ لوگوں کی والدہ کی نماز جنازہ میں خود پڑھاؤں گا اس کے بعد ہم ان شیطانوں کو نیست و نابود کر دیں گے انشاء اللّٰہ ۔ آصف نے بھی کہا انشاء اللّٰہ ایسا ہی ہوگا اور پھر آصف نے فون بند کیا اور کفن کمرے سے باہر پھینک کر دروازا بند کر لیا اور سب لوگ والدہ کی چارپائی کے پاس بیٹھ گئے اور پھر صبح تک جاگتے رہے اس دوران بچوں کو رخسانہ نے سلا دیا تھا اور پھر صبح فجر کی اذان کی آواز سنائی دی اور اس کے کچھ دیر بعد ہی آصف مسجد گیا اور اپنی والدہ کے انتقال کا اعلان کروایا اور واپس گھر آگیا اور پھر کچھ ہی دیر میں آصف کو ظہور ہاشمی صاحب کی کال آئی اور انہوں نے کہا میں تمہارے علاقے سے کچھ ہی دور ہوں بس کچھ وقت میں ہی تمہارے پاس آجاؤ گا۔ تحریر دیمی ولف ۔ آصف نے کہا ٹھیک ہے ظہور صاحب ۔ اس کے بعد ہلکی ہلکی سورج کی روشنی صحن میں آنے لگی آصف نے توصیف کے ساتھ جا کر والدہ کے کفن دفن کا بندوبست کیا اور پھر اتنے میں دوبارہ ظہور ہاشمی صاحب کی کال آئی اور انہوں نے آصف سے کہا میں آپ لوگوں کے علاقے میں آگیا ہوں مجھے بتا دو کسی گلی میں آنا ہے آصف نے ظہور صاحب سے کہا آپ اس وقت کہاں کھڑے ہیں ظہور صاحب نے کہا اس وقت میں اس علاقے کی ایک منار والی مسجد کے سامنے کھڑا ہو
 
.............................
............................ 
............................  

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے