سستا گھر اور شیطانی طاقت ۔ آخری حصہ

 

  سستا گھر اور شیطانی طاقت ۔ آخری حصہ

بیٹا آصف تم نے اعلان وغیرہ تو کروایا تھا کہ نہیں ؟؟ آصف نے کہا جی عالم صاحب صبح فجر کی نماز کے بعد کروایا تھا عالم صاحب نے کہا تو ایک بار پھر سے کروا دینا ۔ آصف نے کہا جی عالم صاحب ۔ اس کے بعد آصف عالم صاحب کو اپنے گھر کے اندر لے گیا اور عالم صاحب کو ایک کمرے میں بیٹھا دیا اور پھر آصف نے توصیف سے پوچھا کیا ہوا امی کی میت کا توصیف نے کہا بھائی بہت مشکل سے میں غسل دینے والی کو لے کر آیا ہوں اور محلے کی دو چار عورتوں کو بھابی لے آئی تھی بس غسل مکمل ہونے والا ہے اس کے بعد میت کو اٹھا لیں گے ۔ آصف نے کہا اچھا تم مسجد میں جاؤ اور ایک بار پھر سے اعلان کروا دو توصیف نے کہا ٹھیک ہے بھائی اتنے میں توصیف نے آصف کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا بھائی ظہور ہاشمی صاحب کہاں ہیں آصف نے کہا انھیں میں نے ساتھ والے کمرے میں بیٹھایا ہے ۔ توصیف نے کہا اچھا بھائی میں ان کو سلام کر کے آتا ہوں آصف نے کہا ہاں ہاں مل لو ۔ توصیف عالم صاحب کے پاس گیا اور انہیں سلام کیا اور توصیف نے انہیں اپنا تعارف کروایا اور بولا عالم صاحب آپ ان شیطانی چیزوں سے ہماری جان چھڑوا دیں ۔ عالم صاحب نے توصیف کے کاندھے پر تھپکی دیتے ہوئے کہا انشاء اللّٰہ بیٹا ایسا ہی ہو گا تم اطمینان رکھو ۔ توصیف نے عالم صاحب کو شکریہ کہا اور واپس آصف کے پاس آکر بولا ۔ 
بھائی میں اعلان کروا کر آتا ہوں اس کے بعد مجھے ظہور ہاشمی صاحب سے بہت سی باتیں کرنی ہیں مجھے ان سے مل کر سکون سا ملا ہے ۔آصف نے کہا ہاں ہاں کیوں نہیں ۔ اس کے بعد توصیف علان کروا کر واپس آیا اور اتنے میں میت کا کام بھی پورا ہو گیا اور کچھ محلے دار بھی شامل ہو گئے پھر عالم صاحب نے کہا میت کو اٹھا کر جنازہ گاہ لے چلو ۔ سب لوگ جنازہ لے کر جنازہ گاہ پہنچے وہاں عالم صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اور پھر میت کی تدفین کروائی پھر کاشف نے لوگوں کو کھانا وغیرہ کھلایا اور سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے ۔ پھر ظہور ہاشمی صاحب نے کہا میں اس گھر کا جائزہ لینے سے پہلے آپ لوگوں سے جو جو پوچھوں گا آپ مجھے اس کا سچ سچ جواب دینا تاکہ اس معاملے کو سمجھنے میں کچھ آسانی ہو جائے تو اب آپ مجھے یہ بتاؤ جب آپ لوگ اس گھر میں شفٹ ہوئے تھے تو کیا اس گھر میں صفائی کروائی تھی یاں کی تھی ؟؟ آصف نے کہا جی کمروں کی صفائی ستھرائی کی تھی ۔ پھر ظہور صاحب نے کہا تو کیا اس کے بعد اس گھر میں قرآنی خوانی کروائی تھی ؟؟ آصف نے کہا نہیں عالم صاحب ۔ پھر عالم صاحب نے آصف سے پوچھا کیا تم سب لوگوں نے اس گھر کو خرید کر اس میں شفٹ ہونے کے بعد شکرانے کے نوافل ادا کئے تھے ؟ آصف نے کہا نہیں عالم صاحب اس کے بعد عالم صاحب نے کہا اچھا تو یہ بتاؤ کہ جب سے آپ لوگ اس گھر میں شفٹ ہوئے ہو تب سے اس گھر میں کتنی بار نماز ادا کی ہے ۔ آصف نے شرماتے ہوئے عالم صاحب کی طرف دیکھا اور پھر نظریں چرا کر بولا معاف کیجئے گا عالم صاحب ہم میں سے کوئی نماز نہیں پڑھتا عالم صاحب نے ماتھے پر بل ڈالتے ہوئے آصف اور اس کے اہل خانہ کی طرف دیکھا اور بولے وہ شیطانی چیزوں میں اتنی طاقت نہیں تھی جتنی تم لوگوں نے انہیں دے دی ہے اس وجہ سے وہ چیزیں تم لوگوں پر زیادہ حاوی ہو گئی ہیں اور اسی وجہ سے تم سب آج مشکل میں ہو ورنہ ان شیطانی چیزوں کا اثر نماز پڑھنے والوں اور قرآن پاک کی تلاوت کرنے والوں پر کم ہوتا ہے ۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ کا ذکر نہیں کرتا اس پر ان شیطانی چیزوں کا اثر دس گناہ زیادہ ہوتا ہے ۔ میں نے کہا تھا کہ جب تک میں تمہارے پاس نہیں پہنچتا تب تک تم سب اکھٹے رہ کر قرآنی آیات کا ذکر کرتے رہنا لیکن تم لوگوں نے ایسا کچھ نہیں کیا اور اسی وجہ سے اپنی والدہ کی جان گنوا بیٹھے ہو ۔ آصف نے کہا ہمیں معاف کر دیں آج کے بعد ہم سب نماز پڑھیں گے ۔ عالم صاحب نے کہا معافی مانگی ہے تو اس اللّٰہ سے مانگو جو تمہیں سب کچھ دیتا ہے لیکن بدلے میں تم سے کچھ نہیں چاہتا بلکہ وہ صرف تمہاری محبت چاہتا ہے اور وہ محبت اس کا ذکر کرنے سے ہوتی ہے اس لیئے جہاں تک ہو سکے اللّٰہ کا ذکر کیا کرو نماز اور قرآن پاک پڑھا کرو تاکہ تمہارے دل میں اللّٰہ کی محبت پیدا ہو ۔ توصیف نے کہا آپ بلکل سہی کہہ رہے ہیں عالم صاحب ۔ پھر عالم صاحب نے آصف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جاؤ قرآن مجید لے کر آؤ ۔ ظہور ہاشمی صاحب کی یہ بات سن کر آصف کاشف اور توصیف سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ۔ عالم صاحب نے کہا کیا ہوا تم سب لوگ ایسے ایک دوسرے کی طرف کیوں دیکھ رہے ہو ؟؟ آصف نے پھر سے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا وہ عالم صاحب ہمارے گھر میں قرآن مجید نہیں ہے ایک تھا جو میری بیوی کو شادی پر ملا تھا تو وہ ہم نے مسجد میں رکھوا دیا تھا ۔ یہ سنتے ہی عالم صاحب نے ایک بار پھر سے جلال میں آکر آصف اور اس کے گھر والوں کی طرف دیکھا اور بولے میں کہنا تو نہیں چاہتا پر تم بہت ہی بدنصیب لوگ ہو تمہیں پتا ہے کہ قرآن پاک شادی میں لڑکی کے ساتھ اس وجہ سے دیا جاتا ہے کہ میاں بیوی قرآن پاک پڑھیں اور اس پر عمل کر کے قرآن وسنت کے مطابق اپنی نئی زندگی کی شروعات کریں تاکہ اللّٰہ تعالیٰ ان کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرے اور میاں بیوی کے رشتے کو اپنی رحمتوں اور برکتوں سے نوازے اور تم لوگوں اسے مسجد میں دے دیا اگر دوسرے لفظوں میں کہوں تو تم لوگوں نے نا سمجھی میں اللّٰہ تعالیٰ کے کلام کو خود سے دور کر لیا ۔ جبکہ مسجد میں بہت سے قرآن شریف موجود ہوتے ہیں اور بہت سے لوگ وہاں بیٹھ کر اسے پڑھتے ہیں۔  

دل کا اطمینان ۔ مکمل اردو کہانی

ٹھیک ویسے ہی قرآن مجید کی ضرورت تمہارے گھر میں بھی ہوتی ہے تاکہ اس گھر میں قرآنی آیات کا ذکر ہو اور وہاں اگر کوئی بھی آفت یا مصیبت آئے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی بدولت اس کا فوری حل ہو جائے ۔ اس لیئے جہاں تک ہو سکے بلا ناغہ روز قرآن مجید کی تلاوت اور نماز پڑھنی چاہیے کیونکہ اسی میں ہی سب مسلوں کا حل ہے اور نماز اور قرآن پاک کی تلاوت دنیا میں ہی نہیں بلکہ آخرت میں بھی انسان کے ساتھ ہونگی اور انسان کو فائدہ پہنچائے گی ۔ یہ کہہ کر عالم صاحب نے آصف کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا بیٹا میں جانتا ہوں کہ اس وقت میری باتیں آپ لوگوں کو بری لگ رہی ہیں لیکن یہ وہ باتیں ہیں جو کہ شاید تمہیں آئندہ اس قسم کی نادانیوں سے بچا سکیں جو کہ پہلے تم لوگوں نے کی ہیں اور تم اپنی اولاد کو بھی ایسی نادانیاں کرنے سے روک سکو۔ رخسانہ نے کہا عالم صاحب ہمیں بلکل بھی برا نہیں لگ رہا بلکہ ہمیں تو آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہیئے کہ آپ نے آج ہماری آنکھیں کھول دیں ہیں میں آج سے ہی نماز شروع کروں گی اور قرآن مجید کی تلاوت بھی شروع کرونگی اور اپنے بچوں کو بھی اس کی عادت ڈالوں گی عالم صاحب نے رخسانہ کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ماشاءاللہ بیٹی ماشاءاللہ ۔ اس کے بعد عالم صاحب نے کہا اب میں تم سب کے بارے میں جان چکا ہوں اس لیئے اب مجھے ان شیطانوں سے نمٹنے میں آسانی ہوگی ۔ اتنے میں آصف نے کہا عالم صاحب وہ شیطانی چیزیں بہت ہی زیادہ خطرناک ہیں انھوں نے آپ کے شاگرد عامل بابا کو بھی بہت نقصان پہنچایا ہے ۔ ظہور ہاشمی صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا ارے اسے ان شیطانوں نے نہیں اس کی لالچ نے نقصان پہنچایا ہو گا کیونکہ وہ جب سے وہ لالچی ہوا ہے تب سے ہی اس کے علم کی طاقت کم ہو رہی ہے میں نے اسے بہت بار سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ جہاں تک ہوسکے اپنے علم سے لوگوں کی بھلائی کرو اور فی سبیل اللّٰہ کرو تاکہ اس سے تمہارے علم کی طاقت میں اور اضافہ ہو سکے پر وہ نہیں سمجھتا اور اب بس اسے لالچ کی عادت پڑ چکی ہے کیونکہ لالچ ایمان کو کمزور کر دیتی ہے اور اسی وجہ سے وہ ان شیطانی چیزوں پر حاوی نا ہو سکا ورنہ یہ شیطانی چیزیں تو اس کے علم کے سامنے کچھ بھی نہیں ہیں ۔ یہ کہہ کر عالم صاحب نے آصف کو کہا بیٹا میرے ڈرائیور سے کہوں گاڑی سے کہ میرا بیگ لے کر آئے ۔ آصف دوڑ کر گیا اور ڈرائیور سے عالم صاحب کا بیگ لے آیا اور پھر عالم صاحب نے اس بیگ میں سے قرآن شریف نکال کر رخسانہ کو دیتے ہوئے کہا یہ رکھ لو بیٹی اور اس پر کبھی دھول مت جمنے دینا اس کو روز کھول کر پڑھنا اور اپنے بچوں کو بھی پڑھانا ۔ رخسانہ نے بسم اللّٰہ بولتے ہوئے قرآن مجید عالم صاحب سے پکڑا اور اسے چوم کر ماتھے پر رکھا اور پھر اسے اپنے سینے سے لگا لیا ۔ اس کے بعد عالم صاحب نے کہا اب آپ سب لوگ کمرے میں چلے جائیں اور جب تک میں نا کہوں کو باہر نہیں آئے گا پھر عالم صاحب نے رخسانہ کو کہا بیٹی ایک بات یاد رکھنا تم نے کمرے کا دروازا نہیں کھولنا یہاں تک کہ آصف اور توصیف بھی تم سے آکر دروازا کھولنے کا کہیں تو تب بھی تم دروازا مت کھولنا کیونکہ جب میں عمل شروع کروں گا تو وہ چیزیں بھاگ کر ادھر اُدھر چھپنے کی کوشش کریں گی اور اس دوران وہ تم میں سے کسی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر سکتی ہیں۔ رخسانہ نے کہا تو عالم صاحب مجھے پتا کیسے چلے گا کہ آپ کا عمل مکمل ہو چکا ہے ظہور ہاشمی صاحب نے کہا میں خود آؤں گا توصیف اور آصف کے ساتھ تو تم دروازا کھول سکتی ہو لیکن جب تک ہم تینوں اکٹھے نا آئیں تب تک دروازا بند ہی رکھنا رخسانہ نے کہا جی جی عالم صاحب میں سمجھ گئی عالم صاحب نے کہا اب جاؤ کمرے میں رخسانہ بچوں اور کاشف کے ساتھ کمرے میں چلے گئ اور دروازا بند کر لیا ۔ پھر عالم نے کہا آصف اور توصیف تم لوگ میرے ساتھ چلو اور مجھے اس گھر کا معائنہ کرواؤ آصف نے کہا جی جی آیئے عالم صاحب ۔ اتنے عالم صاحب نے اپنا بیگ توصیف کو پکڑاتے ہوئے کہا بیٹا توصیف تم یہ بیگ پکڑ لو توصیف نے بیگ پکڑا اور پھر آصف اور توصیف نے عالم صاحب کو پورے گھر کا معائنہ کروایا اس دوران عالم صاحب مسلسل منہ میں کچھ پڑھ رہے تھے اور پھر جب عالم صاحب گھر کے بیکیارڈ میں گئے تو بولے اچھا تو یہ ہے ان کی رہائش گاہ ۔
 
 یہ کہتے ہوئے عالم صاحب نے توصیف سے کہا بیٹا ذرا بیگ کھولو توصیف نے بیگ کھولا اور اس سے ایک کالے رنگ کی ڈوری لی اور اس ڈوری میں سے دو پیس کاٹ کر آصف اور توصیف کو دیتے ہوئے بولے بیٹا تم دونوں اس ڈوری کو اپنے گلے میں بانھ لو آصف نے کہا جی عالم صاحب پر یہ ہے کیا ؟؟ عالم صاحب نے کہا اس ڈوری پر دم کیا ہوا ہے اس وجہ سے وہ شیطانی چیزیں تم پر حملہ نہیں کریں گی آصف اور توصیف نے جلدی سے ڈوریاں اپنے گلوں میں پہن لیں اور پھر عالم صاحب نے بیگ سے سبز رنگ کے پانی کی ایک بوتل نکالی اور بیکیارڈ کی زمین پر چھڑک دی۔ تبھی آس پاس سے خوفناک آوازیں سنائی دینے لگی ۔ عالم صاحب مسلسل زمین کی طرف دیکھ رہے تھے توصیف اور آصف بھی وہ آوازیں سن کر ڈر رہے تھے اور ادھر اُدھر دیکھ رہے تھے کہ آوازیں کہاں سے آرہی ہیں اتنے میں بہت سے لوگوں کے بھاگتے ہوئے قدموں کی دھمک سنائی دی اور عالم صاحب نے کہا بھاگوں کہاں تک بھاگو گے آج تو تمہارا خاتمہ حتمی ہے اور پھر عالم صاحب اچانک بیکیارڈ سے ہی اوپر کی منزل کی کھڑکی کی طرف دیکھا تبھی اوپر کی منزل سے ایک بڑی سی اینٹ عالم صاحب کی طرف آئی عالم صاحب نے اپنے ہاتھ سے اس اینٹ کی طرف رکنے کا اشارہ کیا تو اینٹ جو عالم صاحب کی طرف آرہی تھی وہ عالم صاحب سے دور جا کر گری ۔ یہ دیکھ کر آصف اور توصیف حیران رہ گئے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے تبھی عالم صاحب نے کہا مجھے دو لوگ چاہیئیں جو کہ زمین کھود سکیں۔ توصیف نے کہا میں لے کر آتا ہوں یہ کہہ کر توصیف مزدوروں کو لینے چلا گیا ۔ آصف نے کہا عالم صاحب یہ زمین کس لیئے کھودنی ہے ؟؟ عالم صاحب نے کہا سب فسادات کی جڑ اس زمین کے نیچے ہے ؟؟ آصف اپنا سر کجھاتے ہوئے زمین کی طرف دیکھنے لگا۔ تبھی عالم صاحب نے آصف سے کہا بیٹا کیا تم بتا سکتے ہو کہ اس گھر کا پہلا مالک کون تھا ؟؟ آصف نے کہا عالم صاحب یہ تو میں نہیں جانتا پر میں نے جس سے یہ گھر خریدا تھا اس کو نام سکندر تھا لیکن وہ بھی اس گھر کے پہلے مالک نہیں تھے کیونکہ انہوں نے بھی یہ گھر کسی اور سے خریدا تھا ۔ عالم صاحب نے کہا اس کا مطلب ہے کہ یہ ایک لمبا سلسلہ ہے ۔ یہ کہتے ہوئے عالم صاحب کچھ سوچنے لگے ۔ آصف نے عالم صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کیا سوچ رہے ہیں عالم صاحب ؟؟ عالم صاحب نے کہا یہ جو شیطانی چیزیں یہاں پر قابض ہیں ایسا لگتا ہے یہ لوگ بہت عرصہ پہلے اسی جگہ کے رہائشی تھے لیکن اس بات کا پتا اس زمین کو کھود کر ہی پتا چلے گا ۔ تھوڑی دیر میں توصیف دو مزدوروں کو لے کر آگیا اور عالم صاحب نے مزدوروں کو کہا یہ جہاں پھول نظر آرہے ہیں اس جگہ پر کھدائی کرو اور مزدوروں نے کھدائی شروع کر دی اس دوران عالم صاحب کچھ پڑھنے لگے آصف اور توصیف ایک سائیڈ پر کھڑے ہو کر مزدوروں کو دیکھنے لگے ۔ اسی دوران رخسانہ اور بچے جس کمرے میں تھے وہاں دروازے پر دستک ہونے لگی رخسانہ دستک سنتے ہی چونک گئی اور دروازے کی طرف دیکھنے لگی اور آہستہ آہستہ کھڑکی کی طرف بڑھی پھر رخسانہ نے کھڑکی کا پردہ تھوڑا سا سائیڈ پر ہٹا کر دیکھا تو رخسانہ کے ہوش ہی اڑ گئے اور اس نے اسی وقت پردہ کھڑکی پر ڈال دیا اور اک دم سے پیچھے ہٹ گئ اور اپنا دوپٹہ اپنے منہ پر رکھ لیا اتنے میں کاشف نے آہستہ سے پوچھا بھابی کون ہے دروازے پر رخسانہ نے کاشف کی طرف دیکھتے ہوئے نہیں میں اپنی گردن ہلا دی ۔ کاشف نے کہا بھابی بتاؤ تو کھڑکی سے کیا دیکھا ہے آپ نے جو اتنا ڈر گئی ہو ۔ رخسانہ نے کہا دروازے پر امی کھڑی ہیں کاشف نے حیرانی سے پوچھا کیا ؟؟ امی کھڑی ہیں ؟؟ رخسانہ نے کہا ہاں کاشف نے کہا بھابی یہ کیسے ممکن ہے امی کو تو ہم دفنا کر آئے ہیں یہ کہتے ہوئے کاشف کھڑکی کی طرف گیا اور پردہ سائیڈ پر کر کے کھڑکی کے شیشے سے باہر دیکھنے لگا تو کاشف کو بھی اس کی والدہ دروازے پر پر دستک دیتی ہوئی نظر آئی کاشف ابھی اپنی والدہ کی طرف دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک سے اس کی والدہ نے کاشف کی طرف دیکھا اور اک دم سے کھڑکی کے سامنے آکر کھڑی ہو گئی کاشف بھی جھٹکے سے پیچھے ہٹ گیا اور اپنی والدہ کی طرف دیکھنے لگا پھر کہنے لگا یہ نہیں ہو سکتا کبھی نہیں ہو سکتا میری امی مر چکی ہیں یہ وہ نہیں ہو سکتیں اور دیکھتے ہی دیکھتے کاشف کی والدہ کی شکل بھیانک ہونے لگی کاشف نے جلدی سے اگے بڑھ کر پردہ کھینچ کر کھڑکی کے آگے کر دیا اور بیٹھ کر رونے لگا 
 
تبھی اچانک سے کھڑکی کا شیشہ ٹوٹنے کی آواز سنائی دی کاشف اور رخسانہ نے فوراً کھڑکی کی طرف دیکھا تو کھڑکی کا پردہ خود ہی سائیڈ پر سرکنے لگا اور جیسے ہی پردہ سائیڈ پر ہوا تو کھڑکی میں دو تین لوگ کھڑے تھے جن کی شکلیں بگڑی ہوئی تھیں اور وہ بہت ہی خوفناک لگ رہے تھے یہ دیکھ کر رخسانہ کے بچے زور زور سے چیخنے چلانے لگے اتنے میں کاشف نے دوڑ کر بیکیارڈ کی طرف والی کھڑکی کھولی اور وہاں سے عالم صاحب کو آواز دی عالم صاحب نے ابھی کھڑکی کی طرف دیکھا ہی تھا کہ اتنے میں کھڑکی سے بچوں کے چیخنے چلانے کی آوازیں سنی تو وہ فوراً آصف کے ساتھ بیکیارڈ سے باہری سائیڈ والے دروازے کی طرف گئے تو عالم صاحب نے دیکھا کہ وہ شیطانی چیزیں کھڑکی کے پاس کھڑی رخسانہ اور بچوں کو تنگ کرنے کی کوشش کر رہی تھیں ۔ عالم صاحب نے ان شیطانی چیزوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا رک جاؤں نامردودو ۔ اور شیطانی چیزوں نے جیسے ہی عالم صاحب کی طرف دیکھا تو انہوں نے عجیب سی آوازیں نکالتے ہوئے عالم صاحب پر حملہ کرنا چاہا لیکن جیسے ہی ان میں سے ایک شیطانی چیز نے عالم صاحب کو ہاتھ لگانا چاہا تو اس کے ہاتھ سے دھواں سا نکلنے لگا اور اس شیطانی چیز نے خوفناک چیخیں مارنا شروع کر دی اور پھر عالم صاحب سے دور ہو گئی اسے دیکھتے ہی باقی شیطانی چیزیں بھی وہاں سے سیڑھیوں کی طرف بھاگ گئیں اور پھر عالم صاحب نے کھڑکی کے پاس جا کر رخسانہ سے کہا بیٹی پریشان مت ہو تم کمرے میں قرآن مجید کی تلاوت کرو اس سے یہ چیزیں دوبارہ تمہارے پاس نہیں پھٹکیں گی رخسانہ نے کہا جی جی عالم صاحب میں ابھی کرتی ہوں ۔ یہ کہہ کر عالم صاحب اور آصف پھر سے بیکیارڈ کی طرف چلے گئے وہاں پہنچے تو تب تک مزدوروں نے کافی گہری کھدائی کر لی تھی تبھی اچانک سے ایک مزدور نے چیخیں مارنا شروع کردی عالم صاحب جلدی سے اس مزدور کی طرف بڑھے اور دیکھا کہ وہ مزدور گڑھے میں کھڑا اپنی ٹانگ کو دیکھ کر چیخ رہا تھا جب عالم صاحب کی نظر اس کی ٹانگ پر پڑی تو دیکھا زمین میں سے ایک خوفناک ہاتھ نے مزدور کی ٹانگ پکڑی ہوئی تھی اور اس ہاتھ کے ناخن اس مزدور کی ٹانگ میں چبھے ہوئے تھے ۔ عالم صاحب نے جلدی سے سبز رنگ والا پانی اس گڑھے میں پھینکا اور پانی کے گرتے ہی وہ ہاتھ واپس زمین میں چلا گیا اور پھر توصیف نے اس مزدور کو گھڑے سے باہر نکال لیا اس کی ٹانگ سے خون رسنے لگا تھا عالم صاحب نے مزدور سے کہا گھبراؤ مت یہ ابھی کچھ ہی دیر میں ٹھیک ہو جائے گا یہ کہتے ہوئے عالم صاحب نے وہ سبز رنگ کا پانی اس مزدور کی ٹانگ پر ڈالا اور مزدور سے کہا تم تھوڑی دیر آرام کرلو اتنے میں دوسرے مزدور نے عالم صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے اچانک سے کہا مولوی صاحب یہ دیکھئیے یہاں زمین سے خون نکل رہا ہے عالم صاحب نے کہا رکو مت تھوڑا سا اور کھدائی کرو وہ خون نہیں ہے بس تم کھدائی کرتے رہو آصف اور توصیف نے گڈھے میں دیکھا تو واقعی گڈھے میں خون تھا تو آصف نے عالم صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا عالم صاحب گڈھے میں واقعی میں خون ہے آپ آکر دیکھیں تو سہی ۔ عالم صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا میں نے دیکھ لیا ہے وہ کچھ بھی نہیں ہے جہاں گندے عملیات ہوتے ہیں وہاں ایسی چیزیں اکثر نظر آتی ہیں اور اب مجھے یقین ہو چلا ہے کہ یہاں ضرور ناپاک عملیات ہوتے رہے ہوں گے باقی رہی خون کی بات تو اب ذرا مزدور سے پوچھ کر دیکھو کیا اب بھی خون ہے وہاں ؟؟ آصف نے بجائے مزدور کو پوچھنے کے خود ہی جا کر گڈھے میں دیکھا تو خون کا ایک قطرہ بھی نہیں تھا آصف نے فوراً حیرانی سے عالم صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا عالم صاحب یہاں تو واقعی میں خون نہیں ہے ۔ عالم صاحب نے کہا میں جانتا ہوں وہ سب ایک نظر کا دھوکا تھا تاکہ ہم اس کام کو چھوڑ دیں اور اسی دھوکے میں آجائیں ۔ اتنے مزدور نے پھر سے کہا مولوی صاحب یہ دیکھیں یہ نیچے سے کیا نکلا ہے ۔ عالم صاحب نے آگے بڑھ کر دیکھا تو گڈھے میں انسانی ہڈیاں ملیں عالم صاحب نے کہا ان سب ہڈیوں کو باہر نکالو مزدور نے تھوڑی تھوڑی کر کے ساری ہڈیاں باہر نکال لیں اس کے بعد کچھ کپڑے کے بنائے گئے پتلے بھی نکلے اور کچھ کالے علم سے جڑی ناپاک چیزیں بھی نکلی اور جب سب کچھ باہر نکال لیا گیا تو عالم صاحب نے یہ ہڈیاں کسی ایک شخص کی نہیں ہیں یہ تین چار لوگوں کے مختلف حصوں کی ہڈیاں ہیں اور ایسا کام گندے عملیات کرنے والے کرتے ہیں اور قبرستانوں سے ہڈیاں چرا کر اپنے غلط اور غلیظ ترین عملوں کے لیئے استعمال کرتے ہیں اور انہیں لوگوں کی وجہ سے ایسی شیطانی چیزیں وجود میں آتی ہیں اور اگر ذرا بھی غلطی ہو جائے تو یہ چیزیں جو ان کو بلاتا ہے اسے بھی مار دیتی ہیں اور پھر اسی جگہ منڈلاتی رہتی ہیں ۔ ابھی عالم صاحب یہ بات کر ہی رہے تھے کہ اچانک سے ایک زور دار چیخ کی آواز سنائی دی عالم صاحب اور باقی لوگ سب اوپر کی منزل کی طرف دیکھنے لگے اور ان کو اوپر والی منزل کی کھڑکی میں ایک بھیانک سا شخص دکھائی دیا جو کہ اپنی ٹانگیں کھڑکی میں پھنسائے بیکیارڈ کی طرف الٹا لٹک رہا اور عالم صاحب اور باقی لوگوں کی طرف غصے سے دیکھ رہا تھا عالم صاحب نے اس مزدور کو کہا یہاں سے ہٹ جاؤ جو مزدور پہلے زخمی ہوا تھا کیونکہ وہ مزدور بلکل اس کھڑکی کے نیچے بیٹھ کر اپنی گردن اوپر کر کے اس شیطان کو دیکھ رہا تھا ۔ تو مزدور جلدی سے وہاں سے اٹھا اور عالم صاحب کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا اور پھر سے اس شیطان کو حیرت سے دیکھنے لگا ۔ عالم صاحب نے کہا یہ بہت ہی زیادہ خطرناک ہے اس کی طاقت باقی شیطانی چیزوں سے زیادہ ہے یہ کچھ بھی کر سکتا ہے ۔ آصف نے ڈرتے ہوئے کہا عالم صاحب کیا یہ ہمیں بھی مار سکتا ہے ؟ عالم صاحب نے کہا ۔ یہ کیا مارے گا کسی کو مارنے اور زندگی دینے والی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے ۔ یہ تو صرف مارنے کی کوشش ہی کر سکتا ہے اور اگر اللّٰہ تعالیٰ نے ہماری زندگی باقی رکھی ہے تو یہ کیا اس کا باپ بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ ابھی عالم صاحب یہ باتیں کر رہے تھے کہ اچانک ایک مزدور نے عالم صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا مولوی صاحب وہ دیکھیں وہ بڑا ہو رہا ہے ابھی تو یہ کتنا اوپر تھا اب کتنا نزدیک آرہا ہے ۔ عالم صاحب نے اس شیطان کی طرف دیکھا تو اس کی ٹانگیں وہیں کھڑکی میں تھیں پر اس کا دھڑ کافی نیچے آرہا تھا اور اس کی شکل بھی خوفناک ہو رہی تھی ۔
 
 عالم صاحب نے مزدوروں اور آصف اور توصیف کو کہا تم سب لوگ میرے پیچھے کھڑے ہو جاؤ یہ حملہ کرنے کے لیئے آرہا ہے ۔ لیکن یہ نہیں جانتا آپ میں اس کو جہنم واصل کر دوں گا۔ یہ کہتے ہوئے عالم صاحب نے اپنے بیگ سے ایک چاندی سے بنا ہوا ایک بڑا سا کیل نکالا اور اس کیل پر کچھ پڑھا اور پھونک دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ شیطان اچانک سے عالم صاحب کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا اس شیطان کا وجود کبھی نظر آتا تھا اور کبھی غائب ہو رہا تھا اتنے میں دھم کی آواز سنائی دی اور عالم صاحب کے بائیں طرف ایک اور شیطانی چیز آکر کھڑی ہو گئی جس کی شکل بہت زیادہ ڈراؤنی تھی اور اس کی سانپ جیسی زبان تھی اور اس کے پاؤں الٹے تھے ۔ عالم صاحب نے کہا اچھا ہے تم بھی آگئ ہو اب مجھے باقی دو کو مارنے میں آسانی ہو گی تم نے یہاں بہت سالوں تک بسیرا کر لیا پر اب یہ جگہ تم جیسے شیطانوں پاک ہونی ضروری ہے ۔ ابھی عالم صاحب نے اتنا ہی بولا تھا کہ عالم صاحب کے سامنے کھڑے ہوئے منحوس شیطان نے اپنا ہاتھ عالم صاحب کی طرف بڑھایا اور وہ ڈائن بھی جانوروں کی طرح زمین پر ہاتھوں پیروں سے چلتی ہوئی عالم صاحب کی طرف بڑھی عالم صاحب نے پہلے اس منحوس شیطان کا ہاتھ پکڑ لیا اور دوسرے ہاتھ سے وہ چاندی سے بنا ہوا کیل زور سے اس شیطان کے ماتھے کے بیچوں بیچ گھسا دیا اور وہ شیطان بری طرح سے تڑپنے لگا اتنے میں اس ڈائن نے عالم صاحب کے قریب آکر عالم صاحب کی ٹانگ پکڑنے کی کوشش کی تو اس ڈائن کے ہاتھوں سے دھواں نکلنے لگا اور اسی وقت عالم صاحب نے اس ڈائن کو اس کے سر کے بالوں سے پکڑ لیا اور وہ چیخنے چلانے لگی عالم صاحب نے توصیف سے کہا بیگ سے ایک اور کیل لا کر دو مجھے توصیف نے ڈرتے ہوئے جلدی سے ایک اور چاندی سے بنا ہوا کیل عالم صاحب کو دیا اور عالم صاحب نے وہ کیل اس کے سر میں گھسا دیا اور وہ ڈائن بھی اس شیطان کی طرح زمین پر گر کر تڑپنے لگی اس دوران دو اور شیطانی چیزیں اچانک سے وہاں آن پہنچی اور جب ان چیزوں نے زمین پر گرے ہوئے ان شیطانوں کو دکھا تو وہ بھی چیخوپکار کرنے لگیں اتنے میں جو زمین پر تڑپ رہے تھے وہ دونوں شیطانوں کے جسموں سے دھویں اٹھنے لگے اور ان کا وجود جلنا شروع ہو گیا اور کچھ ہی پل میں دونوں شیطان جہنم واصل ہو گئے اور خاکستر ہو کر مٹی سے مٹی ہو گئے ۔ پھر عالم صاحب نے باقی بچے دونوں شیطانوں کی طرف دیکھا تو وہ دونوں اچانک سے غائب ہو گئے ۔ عالم صاحب نے آصف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا میرے بیگ میں ایک سبز رنگ کا کپڑا ہے اسے نکال کر زمین پر بچھا دو آصف نے جلدی سے کپڑا نکال کر زمین پر بچھا دیا پھر عالم صاحب نے کہا یہ جو انسانی ہڈیاں پڑی ہیں ان سب کو اٹھا کر اس سبز کپڑے پر رکھ دو۔ توصیف اور آصف نے جلدی سے سب ہڈیاں اٹھا کر سبز کپڑے پر رکھ دیں پھر عالم صاحب نے اپنے بیگ سے ایک سفید رنگ کا پاوڈر نکالا اور اس پاؤڈر کو ان ہڈیوں پر چھڑک دیا اور آصف سے کہا اب ان سب کو ایک ساتھ باندھ دو آصف نے فوراً سب ہڈیوں کو اسی سبز کپڑے میں باندھ دیا پھر عالم صاحب نے کہا اب یہ کپڑے سے بنے ہوئے پتلے اور باقی کا سامان ایک جگہ اکٹھا رکھو اور سبز کپڑے والی گٹھری کو اٹھا کر اس سامان سے دور کر دو توصیف نے جلدی سے ہڈیوں والی گٹھری اٹھا کر سائیڈ پر رکھ دی۔ پھر عالم صاحب نے اپنے بیگ سے ایک سوئی نکالی اور ایک کپڑے سے بنے ہوئے پتلے کو ہاتھ میں لیا اور وہ سوئی اس پتلے میں گھسا دی اور ایسا کرتے ہی کہں سے زور دار چیخ کی آواز سنائی دی ۔ پھر عالم صاحب نے وہ پتلا واپس وہیں رکھ دیا اور پھر دوسرے پتلے کو بھی ایسے ہی سوئی گھسا دی اور پھر سے ایک اور بار چیخوپکار کی آواز سنائی دی ۔ اور عالم صاحب نے مسکراتے ہوئے آصف سے کہا جاؤ اور ایک ماچس اور کسی بوتل میں پیٹرول کے کر آؤ ۔ آصف نے توصیف سے کہا جاؤ جلدی سے ماچس لاؤ تب تک میں بائیک سے پیٹرول نکال کر لاتا ہوں ۔ توصیف کچن سے ماچس لے آیا اور کچھ ہی دیر میں آصف پیٹرول لے کر آیا عالم صاحب نے کہا اب یہ سارا پیٹرول ان پتلون اور باقی کے سامان پر ڈال دو ۔ آصف نے ویسا ہی کیا۔ پھر عالم صاحب نے کچھ پڑھا اور ان پتلون اور سامان پر پھونک ماری پھر ماچس جلائی اور ان پتلوں اور کالے عملیات کے سامان کو آگ لگا دی اس دوران بہت ہی خوفناک آواز میں چیخوں کی آوازیں سنائی دینے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے پتلے اور سارا سامان بھی جل کر راکھ ہو گیا اور چیخوں کی آوازیں آنی بند ہو گئیں پھر عالم صاحب نے وہی سفید پاؤڈر اس گڑھے میں ڈالا اور پھر مزدوروں کو کہا یہ ساری خاک جو یہاں بکھری ہوئی ہے یہ واپس اس گڑھے میں ڈال دو اور گڑھا واپس بھر دو ۔ مزدوروں نے ایسا ہی کیا اور واپس گڑھے کو مٹی سے بھر دیا ۔ پھر عالم صاحب نے توصیف سے کہا بیٹا یہ سبز رنگ کی گٹھری میرے ڈرائیور کو دے آؤ اور اسے کہنا یہ گاڑی میں رکھ لے ۔ آصف نے حیرت سے عالم صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا عالم صاحب آپ ان ہڈیوں کا کیا کریں گے ؟؟ عالم صاحب نے کہا بیٹا یہ انسانی ہڈیاں قبرستان کی امامت ہیں اس لیئے ان اصل جگہ قبرستان ہی ہے اور میں ان کو واپس قبرستان کے سپرد کر دونگا ۔ 
 
یہ کہہ کر عالم صاحب سب لوگوں کے ہمراہ بیکیارڈ سے واپس صحن کی طرف گئے اور رخسانہ والے کمرے میں دیکھا تو رخسانہ قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف تھی اور بچے کاشف کے ساتھ رخسانہ کے پاس بیٹھ کر تلاوتِ قرآن پاک سن رہے تھے ۔ عالم صاحب یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور مسکرانے لگے ۔ آصف نے عالم صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا عالم صاحب کیا ہوا عالم صاحب آپ کیا دیکھ کر مسکرا رہے ہیں ۔ عالم صاحب نے مسکراتے ہوئے رخسانہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا دیکھو میری بیٹی کتنی پیاری تلاوت کر رہی ہے اس کے وجہ سے اس کے پاس بیٹھے ہوئے لوگ بھی اس کی تلاوت میں کھوئے ہوئے ہیں ۔ یہاں تک کہ ان سب کو یہ بھی نہیں پتا کہ ہم سب یہاں آچکے ہیں ۔ آصف نے آگے بڑھ کر کھڑکی سے دیکھا تو وہ بھی حیران رہ گیا کہ سب لوگ پاس بیٹھے خاموشی سے تلاوت قرآن پاک سن رہے ہیں اور رخسانہ بنا کسی واقعے سے بے خبر تلاوتِ قرآن مجید کر رہی ہے۔ اتنے میں آصف نے آنکھوں میں آنسوں لیئے عالم صاحب سے کہا عالم صاحب میں آپ کے سامنے اپنے گھر والوں سے ایک اور غلطی کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں کیا یہ مجھے معاف کر سکتے ہیں ؟؟ عالم صاحب نے آصف کی طرف حیرانی سے دیکھتے ہوئے پوچھا بیٹا کیسی غلطی ؟؟ آصف نے کہا عالم صاحب مجھے پتا تھا کہ اس گھر میں شیطانی چیزیں ہیں پھر بھی میں نے اپنے پیسے بچانے کے لیئے اس گھر کو خرید لیا اور اپنے ساتھ اپنے تمام گھر والوں کی جان خطرے میں ڈال لی اور میری وجہ سے ہی میری والدہ کی جان گئی ۔ عالم صاحب نے کہا بیٹا میں یہ تو نہیں جانتا کہ اس گھر کو خریدنے میں تمہارا کیا مقصد تھا پر چند پیسوں کی خاطر کسی کی بھی جان کو خطرے میں ڈال دینا کوئی عقلمندی نہیں ہے ۔ پھر بھی تم نے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا ہے تو میں تمہارے تمام گھر والوں سے گزارش کروں گا کہ وہ سب تمہیں اس غلطی پر معاف کر دیں یہ کہتے ہوئے عالم صاحب نے توصیف کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کیوں بھئی جوان تم کیا کہتے ہو ؟؟ توصیف نے عالم صاحب سے کہا میں آصف بھائی کو معاف کرتا ہوں کیونکہ جب بھائی نے یہ بات مجھے بتائی تھی تو مجھے بھی غصہ آیا تھا پر پھر جب میں نے بھائی کو سب کہ لیئے پریشان ہوتے دیکھا تو اس وقت میرا دل بھی بھائی کی طرف سے صاف ہو گیا تھا کیونکہ میرا بھائی لالچی ہو گیا تھا پر یہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی لالچ کی وجہ سے کسی کی جان چلی جائے اسی وجہ سے یہ آپ کو لے کر آیا تھا کہ آپ ان شیطانی چیزوں سے ہماری جان چھڑوا دیں۔ عالم صاحب نے توصیف کے کاندھے پر ایک بار پھر سے تھپکی دیتے ہوئے کہا بہت اچھے میرے بیٹے اللّٰہ تم سے راضی ہو ۔ اس کے بعد عالم صاحب نے آصف کو کہا اب جاؤ اور باقی سب کو بھی میرے پاس لے آؤ ۔ عالم صاحب کی یہ بات سن کر آصف جھٹ سے کمرے میں چلا گیا اس دوران توصیف عالم صاحب کے پاس کھڑا رہا پھر آصف رخسانہ کے ہمراہ سب کو عالم صاحب کے پاس لے آیا ۔
 
 پھر عالم صاحب نے رخسانہ سے کہا بیٹی اب آپ سب لوگ شیطانی چیزوں سے محفوظ ہو اور اب اس گھر میں کوئی شیطانی چیز باقی نہیں ہے لیکن آصف آپ سب لوگوں سے ایک غلطی کی معافی مانگنا چاہتا ہے ۔ رخسانہ نے حیرت سے آصف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کیا ہوا عظیم کے ابو ؟؟ کیسی غلطی ؟؟ پھر آصف نے سب کے سامنے اپنی لالچ والی بات بتائی تو کاشف اور رخسانہ کو آصف پر بہت غصہ آیا ۔ رخسانہ غصے سے آصف کی طرف دیکھ رہی تھی اور بولی تمہاری اس غلطی کی وجہ سے ہم سب موت کے منہ میں چلے گئے تھے اور تمہاری اسی غلطی کی وجہ سے امی ہمیں چھوڑ کر چلی گئیں ۔ یہ سنتے ہی آصف کی آنکھوں میں دوبارہ آنسوں آگئے ۔ تبھی عالم صاحب نے رخسانہ سے کہا بیٹی تمہیں غصہ کرنے کا پورا پورا حق ہے لیکن زرا دیکھو تمہارے شوہر کی آنکھوں میں آنسوں ہیں اور یہ آنسوں اس بات کا ثبوت دے رہے ہیں کہ تمہارا شوہر تم سب کے سامنے اپنی غلطی پر بہت شرمندہ ہے ۔ اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ دوبارہ وہ ایسی غلطی کبھی نہیں دوہرائے گا اس لیئے میری آپ سب لوگوں سے گزارش ہے کہ آپ سب لوگ آصف کو معاف کر دیں تاکہ وہ آپ لوگوں کے سامنے مزید شرمندہ ہونے سے بچ جائے ۔ اتنے میں کاشف نے رخسانہ کہ طرف دیکھتے ہوئے کہا بھابی عالم صاحب سہی کہہ رہے ہیں ہمیں بھائی کو معاف کر دینا چاہیے کیونکہ بھائی کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے ۔ رخسانہ نے آصف کی طرف دیکھتے ہوئے کہا دیکھیں اب آپ روئیں مت ہم سب نے آپ کو معاف کیا پر آپ روئیں مت ہم سب بھی آپ سے بہت پیار کرتے ہیں اور آپ کو ایسے روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے ۔ یہ سن کر آصف نے رخسانہ اور سب کی طرف دیکھ کر روتے ہوئے کہا میں تم سب لوگوں کا گناہگار ہوں میں لالچ میں آگیا تھا ۔ یہ کہتے ہوئے آصف نے اپنے دونوں ہاتھ جوڑنے چاہے تو رخسانہ نے آگے بڑھ کر آصف کے ہاتھ پکڑ لیئے اور کہا بس کیجئے ہم سب نے آپ کو معاف کیا اور اب ہمیں آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے ۔ یہ کہتے ہوئے رخسانہ نے اپنے دوپٹے سے آصف کے آنسوں صاف کیئے اور پھر عالم صاحب نے سب لوگوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اللّٰہ تعالیٰ تم سب سے راضی ہو آمین۔۔ اس کے بعد رخسانہ اور باقی سب نے کہا آمین ثم آمین۔۔ پھر عالم صاحب نے کہا دیکھو اب یہ گھر شیطانی چیزوں سے محفوظ ہے ۔لیکن یہ پورا گھر ابھی پاک نہیں ہے اس لیئے اس پورے گھر کو اچھے سے دھو کر اس کی اچھے سے صفائی کروا لینا اور اس کے بعد گھر میں قرآن خوانی کروانا پھر اس گھر میں دوبارہ کوئی شیطانی چیز نہیں آسکے گی اور اگر کسی وجہ سے کوئی آفت آ بھی گئی تو آپ لوگوں کے نماز اور قرآن پاک پڑھنے کی وجہ سے اس گھر میں ٹک نہیں پائے گی اس بات کا جواب رخسانہ خود دے سکتی ہے۔ عالم صاحب کی یہ بات سن کر رخسانہ نے کہا عالم صاحب میں سمجھی نہیں تو عالم صاحب نے کہا اچھا بیٹی جب میں نے تم سے کہا تھا کہ کمرے میں جا کر قرآن مجید کی تلاوت کرو تو اس کے بعد کیا ہوا تھا ؟؟ رخسانہ نے کہا جی عالم صاحب جب میں قرآن مجید کی تلاوت کر رہی تھی تو اس وقت وہ شیطانی چیزیں دو بار کمرے کی کھڑکی میں آئیں تھیں پر وہ کمرے میں نہیں آئیں اور تلاوت کی آواز سن کر ہی بھاگ جاتی تھیں اور سب سے خاص بات یہ تھی کہ جب میں قرآن مجید کی تلاوت کر رہی تھی تو میرے دل سے ان شیطانی چیزوں کا ڈر پوری طرح سے ختم ہو گیا تھا اور میں قرآن پاک کی تلاوت میں اسی کھو گئی کہ مجھے پتا ہی نہیں چلا کب وہ چیزیں ہم سے دور ہو گئیں ایک سکون سا مل گیا تھا اس تلاوت دوران اور بچے بھی نہیں ڈر رہے تھے سچ میں عالم صاحب آپ نے سہی کہا تھا کہ قرآن پاک میں ہر چیز کا حل موجود ہے ۔ عالم صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا ارے ماشاءاللہ آخر کار میری بیٹی کو اب قرآن پاک کی اہمیت کا پتا چل گیا اس لیئے آپ سب لوگ نماز اور قرآن پاک پڑھا کرو اور اپنے بچوں کو بھی اس کی عادت ڈالو تاکہ آپ سب لوگوں پر اللّٰہ کا فضل رہے ۔ یہ کہہ کر عالم صاحب نے آصف اور اس کے سب گھر والوں کو سلام کیا اور جانے کی اجازت چاہی تو آصف نے کہا عالم صاحب ذرا رکیئے ؟؟ عالم صاحب نے کہا جی بیٹا اب کیا ہوا ؟ آصف نے جیب سے باقی کے پچاس ہزار روپے نکالے اور عامل سے کی ہوئی بات پوری کرتے ہوئے وہ پچاس ہزار عالم صاحب کو دینے چاہے تو عالم صاحب نے کہا بیٹا یہ کیا کر رہے ہو ؟؟ آصف نے کہا عالم صاحب مجھے غلط مت سمجھیئے گا پر یہ پیسے آپ کی امامت ہیں کیونکہ یہ پیسے میں نے آپ کے شاگرد عامل بابا کو دینے تھے پر وہ زخمی ہو گئے تھے تو انھوں کہا تھا کہ یہ پیسے میں آپ کو دے دوں ۔ عالم صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا بیٹا اللّٰہ کا دیا ہوا میرے پاس سب کچھ ہے اور میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ میں یہ کام فی سبیل اللّٰہ کرتا ہوں اس لیئے میرا علم اور ایمان لالچ سے پاک ہے اور جب سے اس عامل نے لالچ کی تب سے ہی میں نے اسے اپنی شاگرد سے نکال دیا تھا اور یہ مت بھولو کہ آج جو وہ ہسپتال میں پڑا ہوا ہے تو وہ صرف اپنی لالچ کی وجہ سے ہی پڑا ہوا ہے ورنہ میں تمہارے سامنے ہوں مجھے تو کسی شیطانی چیز نے چھوا تک نہیں ہے اور میں نے ان کا خاتمہ بھی کر دیا ہے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میرا علم اور ایمان کسی بھی لالچ سے پاک ہے اور اس میں مزید اضافہ بھی ہو رہا ہے ۔ اور رہی ان پیسوں کی بات تو یہ پیسے آپ لوگوں کے ہیں ان پر میرا کوئی حق نہیں ہے ۔ 
 
آصف نے کہا پر عالم صاحب پھر بھی ہم اپنی خوشی سے آپ کو یہ پیسے دینا چاہتے ہیں ۔ عالم صاحب نے کہا اگر اپنی خوشی سے آپ کچھ دینا چاہتے ہیں تو صرف اتنا کیجئے گا کہ نماز اور قرآن پاک کی تلاوت کی پابندی کرو اور اپنے بچوں کو بھی اس کی عادت ڈالو ۔ میں سمجھوں گا کہ مجھے میرے کام کی قیمت مل گئی ۔ آصف نے کہا جی عالم صاحب آج سے ہم سب نماز اور قرآن پاک پڑھنے کی عادت بنا لیں گے عالم صاحب نے کہا اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو پانچ وقت کی نماز اور قرآن پاک پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین یہ کہتے ہوئے عالم صاحب نے سب لوگوں سے اجازت چاہی اور آصف کے گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر کچھ سوچنے لگے اتنے میں آصف نے پوچھا کیا ہوا عالم صاحب ؟؟ عالم صاحب نے کہا میں ایک بات سوچ رہا ہوں کہ آخر سب سے پہلے یہ گھر تھا کس کا کیونکہ جن چیزوں کا میں خاتمہ کیا ہے وہ بہت پرانی لگ رہیں تھیں ایسا لگ رہا تھا کہ ان کا اس گھر سے کوئی گہرا تعلق تھا ۔ آصف نے کہا عالم صاحب کیا وہ چیزیں واپس آجائیں گی کیا ؟؟ عالم صاحب نے کہا ارے نہیں نہیں اب وہ کبھی واپس نہیں آئیں گی وہ تو صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہیں ۔ یہ سب میں اپنے عالم کے اضافے کے لیئے سوچ رہا تھا خیر اب جو ہوا سو ہوا چلتا ہوں۔ اتنے میں توصیف نے کہا عالم صاحب ایک پرچوں کی دوکان والا ہے جو اس علاقے میں بہت پرانا رہنے والا ہے اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو اس کے پاس لے جاتا ہوں وہ شاید آپ کو اس بارے میں کچھ بتا دے ۔ عالم صاحب نے کہا یقیناً میں جاننا چاہوں گا تم مجھے اس کے پاس لے چلو ۔ یہ سنتے ہی آصف اور توصیف عالم صاحب کے ہمراہ اس پرچون کی دوکان پر گئے تو عالم صاحب نے اس سے اس گھر کے پہلے والے مالک کا پوچھا تو اس دوکان دار نے کہا اس گھر میں سب سے پہلے غلیظ لوگ رہا کرتے تھے جو کہ طرح طرح کے کالے جادو اور مختلف قسم کے عملیات کیا کرتے تھے اور اکثر حرام جانوروں کا گوشت اور کبھی کبھی تو جو بچے پیدا ہوتے فوت ہوئے جاتے تھے ان کی لاشوں کو بھی قبرستان سے چرا کر گھر لے آتے تھے اور ان کا گوشت بھی کھایا کرتے تھے ان کے گھر کے پیچھے والا پلاٹ میرا ہے اسی وجہ سے میں نے بھی بہت بار ان کو مردہ بچوں کا گوشت کھاتے دیکھا تھا جب میں نے محلے والوں کو یہ بتایا تو میری بات پر کسی نے یقین نہیں کیا تھا۔ اس میں ایک شخص جس کا نام کالو ناگی تھا جس کے ساتھ اس کی بیوی اور اس کی بہن اور ایک چھوٹی بچی بھی تھی یہ تینوں کالے جادو ٹونے کیا کرتے تھے اور کبھی کبھی عمل کے لیئے اپنی بچی کو بھی استعمال کیا کرتے تھے اس کو جانوروں کا خون پلایا کرتے تھے ۔ پھر ایک رات اس گھر میں اچانک ان چاروں لوگوں کی موت ہو گئی تھی اور بہت دن تک ان کی لاشیں اس گھر میں پڑی رہیں اس گھر کا باہری دروازا ٹوٹا ہوا تھا تو ایک دن کسی کی بکری اس گھر میں جا گھسی اور اس کا مالک اپنی بکری کو لینے اس گھر میں چلا گیا تو اس نے وہاں ان چاروں کی لاشیں دیکھیں اور اس نے باہر آکر شور ڈال دیا اور لوگ ان سب کی لاشوں کو دیکھنے گئے تھے اور شاید پولیس بھی آئی تھی لیکن لوگ کہتے تھے کہ ان کو ان کے شیطانی عملیات سے پیدا کی ہوئی چیزوں نے مارا تھا کیونکہ ان سب کے ہاتھ پیر اور گردنیں عجیب و غریب سے مڑی ہوئی تھیں جسے کسی نے ان سب کو ٹوڑ مڑوڑ کر رکھ دیا ہو پھر ان کے کوئی رشتدار وغیرہ آئے اور انہوں نے ان کی لاشیں اٹھائیں اور آبائی گاؤں لے گئے تھے۔
 
 عالم صاحب نے کہا تو پھر اس کے بعد یہ گھر کس کے پاس تھا ؟؟ دوکان دار نے کہا اس کے بعد کالو ناگی کے کسی بھائی نے یہ گھر کسی کو بیچ دیا تھا لیکن وہ بھی بہت ہی گندے لوگ تھے جو کہ یہاں شراب نوشی اور ہر طرح کے غلط کام کیا کرتے تھے پھر ایک دن ان میں سے ایک بندے کو کسی چیز نے مار کر پنکھے سے لٹکا دیا تھا اس کی وجہ سے وہ لوگ بھی یہ مکان اونے پونے کسی سکندر نامی شخص کو بیچ گئے تھے سکندر نے اس گھر کو دوبارہ سے اچھا اور خوبصورت بنا لیا تھا لیکن اس گھر کو بناتے ہوئے دو مزدور بھی مر گئے تھے۔ پھر سکندر نے خود یہاں رہائش کرنی چاہی پر وہ خود بھی یہاں نہیں ٹک پایا اور ڈر کے بھاگ گیا۔ اس کے بعد دوکان دار نے توصیف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اب یہ جو بھائی صاحب آپ کے پاس کھڑے ہیں آج کل وہ گھر ان کے پاس ہے لیکن یہ بھی آج نہیں تو کل وہ گھر چھوڑ کر بھاگ جائیں گے ۔ دوکان دار کی یہ بات سن کر آصف اور توصیف مسکرانے لگے پھر عالم صاحب نے دوکاندار کو کہا اب یہ لوگ کبھی نہیں جائیں گے اور آپ سب لوگوں کو بھی اب اس گھر سے ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ گھر اب شیطانی چیزوں سے پاک ہو چکا ہے ۔ دوکاندار نے حیرت سے عالم صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کیا ؟؟؟ اس گھر میں اب کوئی شیطانی چیز نہیں ہے ؟؟ عالم صاحب نے کہا جی اب نہیں ہے ۔ یہ کہتے ہوئے عالم صاحب نے دوکاندار کا شکریہ ادا کیا اور واپس آصف کے گھر کی طرف آگئے اور بولے میں نہ کہتا ان چیزوں کا اس گھر سے کوئی تعلق ضرور تھا ۔ آصف نے کہا پر عالم صاحب ان کو کس نے مارا تھا ؟؟ عالم صاحب نے کہا جب انسان کالے جادو ٹونے میں پڑ جاتا ہے تو اس میں ہلکی سی غلطی بھی اس کے پورے خاندان کے خطرے کا باعث بنتی ہے یہی وجہ رہی ہو گی جو کہ ان کی پیدا کی ہوئی چیزوں نے ہی ان کو مار ڈالا ہو گا اسی وجہ سے ان کی شیطانی روحیں اسی گھر میں بھٹک رہی تھیں جو کہ شیطانی چیزوں کا روپ دھار چکی تھیں اور اسی وجہ سے وہ اس گھر میں کسی اور کو بسنے نہیں دیتی تھیں ۔ خیر اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو ان چیزوں سے محفوظ رکھے آمین ثم آمین یا رب العالمین ۔ یہ کہہ کر عالم صاحب وہاں سے رخصت ہو گئے اور آصف نے عالم صاحب کے کہنے کے مطابق کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر پورے گھر کو دھویا اور اس گھر کی اچھے سے صفائی ستھرائی کروائی اور پھر قرآن خوانی کروائی ۔ اور روزانا اپنے گھر والوں کے ساتھ نماز اور قرآن مجید کی تلاوت جاری رکھی اور وہی گھر آصف اور اسے اہل و عیال کے لیئے پر سکون جنت بن گیا اور اس گھر کو لے کر محلے داروں کا ڈر بھی دور ہو گیا وہ سب کا وہاں آنا جانا شروع ہو گیا ۔۔۔
واقع ختم ۔۔۔
دوستو اگر واقع لکھتے ہوئے مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہو تو مجھے معاف کر دیجئے گا
اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو نماز اور قرآن پاک پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں کسی بھی قسم کی لالچ سے بچائے آمین ثم آمین یا رب العالمین الرحمن الرحیم۔۔۔۔
 
............................ 
............................ 

گوگل پلس پر شئیر کریں

ہمارے بارے میں

دنیا کی سب سے بڑی اردو ویب سائٹ، اردو خبریں، اردو شاعری، اردو کہانیاں، اسلامی کہانیاں، اخلاقی کہانیاں، قسط وار کہانیاں، خوفناک کہانیاں، اردو ناول، ٹیکنالوجی، کاروبار، کھیل، صحت، اسلام، ادب، اسلامی نام، اسلامی مضامین۔ سبلائم گیٹ ایک بہترین ویب بلاگ ہے اور آپ یہاں اپنی من پسند تحریریں پڑھ سکتے ہیں
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 کمنٹس:

ایک تبصرہ شائع کریں