نوجوان مزدور کا ایمان
موسم سرما کی ٹھنڈی ہوا زوروں پرتھی۔مرد اور عورتیں ،بچے اور بوڑھے، دکاندار اور گا ہک، اونی ملبوسات پہنے اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے ۔اسی دوران اپنی بلڈنگ کی چوتھی منزل پر بیٹھے بزرگ کا جی چاہا۔ کہ وہ بھی کائنات کے فطرتی حسن کا نظارہ کرے ۔چنانچہ وہ اپنی ویل چیئر کوشیشےکی ونڈو کے قریب لے آیا۔ اور صاف و شفاف نیلگوں آسمان پر تیرنے والے سورج کی تپش سے اپنے سردجسم کو گرمانے لگا ۔جونہی کوئی سفید بدلی سورج کے سامنے آتی تو اس کا دل کملا جاتا ۔اور جب وہ پیچھے ہٹ جاتی تو اس کا دل باغ باغ ہو جاتا ۔اور میرے مولٰی تیرا لاکھ لاکھ شکرہے ،کا ترانہ الاپنے لگتا۔
اسی دوران وہ برق رفتار کاروں اور سواریوں سے بھری ہوئی بسوں اور پر رونق دکانوں کی طرف دیکھنے لگا ۔ابھی وہ اس خوشنما منظر کا نظارہ کرہی رہا تھا۔ کہ اچانک اس کی نگاہ سامنے والی بلڈنگ کی چھٹی منزل کے بیرونی حصے پر پڑی ۔جہاں ایک مزدور اسے زمین و آسمان کے درمیان لٹکتا ہوا یوں نظر آیا۔ کہ گویا وہ زمین پر اوندها گرنے والا ہے ۔
اس نے دیکھا کہ اس بے چارے نے حلال لقے کے لئے کمند سے اپنی کمر باندھی ہوئی ہے ۔اور اس سے لٹک کر وہ مزدور آٹھویں منزل کے ے بیرونی حصے کی رگڑائی کر رہا تھا۔ اور خون منجمد کر دینے والی شدید ٹھنڈی ہوا اس کے جسم سے آر پار ہورہی ہے۔ اسے ایک ہاتھ سے کمند پکڑے اور دوسرے ہاتھ سے رگڑائی کرتے دیکھا۔ تو اس بوڑھے بزرگ کا دل دہل گیا۔ کہ خدانخواستہ اگر کمند ٹوٹ گئی یا سردی کی وجہ سے اس کا ہاتھ چھوٹ گیا۔ تو یہ مسکین اوندھا گر پڑے گا اور اس کا منکا ٹوٹ جائے گا۔ لہذا اس بزرگ نے اللہ سے دعا مانگی شروع کی۔ کہ وہ اسے خیر و عافیت سے منزل مقصود تک پہنچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
مسکین مزدور کمند کو دونوں ہاتھوں سے تھامتا ہوا ، ہانپتا کانپتا آہستہ آہستہ آٹھویں منزل کی طرف چڑھنے لگا ۔اس دوران اس کے ہاتھ سرخ اور سرد ہورہےتھے اور بدن کانپ رہا تھا ۔ اگر رحمت خداوندی اس کا ساتھ نہ دیتی تو اس کے ہاتھ سے کمند چھوٹ یا ٹوٹ جاتی۔ تو اس کا زمین و آسمان کے درمیان لٹکتا ہوا بدن دھڑام سے زمین پر گر پڑنا تھا۔ بہرحال اللہ نے اسے سلامتی کے ساتھ آ ٹھویں منزل تک پہنچایا ۔اور پھر وہ نیچے اتر کر اپنی کارکردگی کی عمدگی دیکھنے لگا۔ اور اگلے دن کے کام کا پروگرام بنانے لگا۔ سارا دن کام کرنے کی وجہ سے اس مسکین کے اعضاء بدن چور چور ہو چکے تھے۔ اور یہ تھوڑی دیر سستانا چاہتا ہی تھا کہ مغرب کی اذان ہوگئی ۔تووہ قریب والی مسجد میں نماز پڑھنے چلا گیا۔
ادھر بوڑھے بزرگ نے بھی نماز مغرب کی تیاری شروع کردی۔ اس سلسلے میں اس کی نوجوان پوتی نے اس کی مدد کی۔ اس نے اسے وضوکرایا اور اس کی وہیل چیئر کو قبل رخ کر دیا۔ بوڑھے بزرگ نے اپنی ناتوانی اور کمزوری کی وجہ سے کرسی پر ہی اپنے کمرے میں نماز ادا کی۔ اور دوبارہ اپنی وہیل چیئر کوشیشے کی ونڈو کے سامنے کر کے بیٹھ گیا ۔ اور مسکین مزدور کی راہ تکنے لگا۔اسے اس بات سے بڑی خوشی ہوئی۔ کہ نوجوان مسکین نے اپنی تھکاوٹ کو بالائے طاق رکھ کر اللہ کا حق بھی ادا کیا۔ اور اپنے آج کی خیر خواہی میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔
چنانچہ اس نے دیکھا کہ نوجوان مسکین مزدور مسجد سے نکلا۔ اور بلڈنگ کے سامنے بیکار لکڑی کے ٹکڑےاور درختوں کے خشک پتے اورسوکھی گھاس کے تنکے اکٹھے کیے۔ اسے آگ لگائی، تا کہ اسے تاپ کر اپنےٹھٹھرتے بدن کو حرارت پہنچا سکے ۔اور اس کے انگاروں سے اپنی ٹھنڈی اور ابتر خوابگاه کو گرما سکے۔ابھی وہ بے چارا آگ سینکے بیٹھا ہی تھا۔ کہ اس کے سامنے ایک لمبی کارآ کھڑی ہوئی۔ اور اس سے ایک ڈھول نما پیٹ اور گنجے سروالا سا ہوکار باہر نکلا ۔اور وہ حقارت کے ساتھ اس مزدور سےمخاطب ہوا۔
آجر: تو کتنی دیر سے آگ تاپ رہا ہے؟ مجھے یقین ہے کہ تو سارا دن آگ ہی تا پتا رہا ہے اور ذرا برابر کام نہیں کیا۔
مزدور :نہیں جناب اگر آپ دن کو چکر لگا لیتے اور مجھے کام کرتے دیکھ لیتے تو آپ کو
یقین آ جاتا کہ میں نے بہت سا کام کیا ہے۔
آجر :تم ہمیشہ مجھ سے بحث کرتے ہو اور مجھے بیوقوف بناتے ہو۔
مزدور :نہیں جناب! میں صرف سچ اور حق بات کہتا ہوں اوراللہ کے سواکسی سے نہیں ڈرتا۔
آجر (غصے سے چنگھاڑتے ہوئے) : آج سے تو کام سے فارغ ہے آئندہ یہاں کام کرنے نہ آنا۔ یہاں سے چلا جا اور کسی دوسرے کو بیوقوف بنا۔
مزدور : اللہ آپ کوسلامت رکھے میرا گمان یہ تھا کہ آپ آ کر کام دیکھیں گے۔ اور جو کمی رہ گئی ہے اس کے متعلق ہدایات دیں گے اور مجھ پر ترس کھائیں گے ۔
آجر : (چنگھاڑتے ہوئے) نکل جا یہاں سے، میں دیکھوں گا کہ تجھے میرے علاوہ اور کون مزدوری پر رکھے گا؟
مزدور : الله روزی دینے والا ہے اور وہی فراہم کرے گا۔ بندہ کچھ نہیں دے سکتا۔
یہ کہہ کر اس نے سلگتی آگ چھوڑ دی اور بغیر مزدوری لئے چل پڑا۔
0 تبصرے